Maseel novel episode 44


Maseel novel episode 44

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_44
نور_راجپوت
دہرا عکس
”بتائیں نا۔۔ آپ نے اسے جانے کیوں دیا۔۔۔؟؟“
وہ بضد تھی۔ ادھم کے قدم جمے رہے لیکن اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
”نہیں جانتا۔۔۔“ وہ ہولے سے جواب دیتا کمرے سے نکل گیا۔
دائمہ کو احساس ہوا کہ وہ دونوں بہن بھائی محبت کے معاملے میں اپنی ماں کی طرح بدقسمت ثابت ہوئے تھے۔
خالی ہاتھ رہ جانے والے۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی پر سچ سے ناواقف تھی۔
وہ کمرے سے باہر نکلا تو اسے سانس لینے میں ذرا مشکل ہوئی۔۔۔گہرے سانس لیتا وہ خود کو نارمل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔
”آپ نے اسے روکا کیوں نہیں۔۔۔؟؟“
یہ سوال اس کے چاروں جانب گردش کرنے لگا تھا۔۔
”کاش میں نے اسے روک لیا ہوتا۔۔۔۔“
اس کا دل پچھتاوے کی آگ میں جلنے لگا تھا۔ وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تو لاؤنج میں ہی اسے ضیاء صاحب مل گئے۔۔۔
”ادھم بیٹا۔۔۔“ وہ جو اپنے کمرے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا ان کی پکار پر رک گیا۔
”آؤ بیٹھو۔۔۔“ انہوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔
وہ آہستہ قدموں سے چلتا ان کے قریب صوفے پر جا کر بیٹھ گیا لیکن بولا کچھ نہیں۔
” طبیعت کیسی ہے اب۔۔؟؟“ وہ پیار سے پوچھ رہے تھے۔ لوز جینز اور اس پر ٹی شرٹ پہنے وہ رف سے حلیے میں تھا۔۔۔وہ زیادہ تر ایسے ہی رہتا تھا۔۔ گھنے بال بکھرے ہوئے تھے۔
”میں ٹھیک ہوں گرینڈپا۔۔۔ مجھے یہ کہنا تھا آپ لوگ یہ سب نہ کریں۔۔“
اس نے خود پر قابو پاتے کہا۔
”بھلا کیا؟؟“ ضیاء صاحب الجھے۔
”مجھے کوئی علاج نہیں کروانا۔۔ میں تھک چکا ہوں۔۔ یہ ڈاکٹرز یہ نرسیں۔۔ میرا دم گھٹتا ہے۔۔۔“
وہ یقیناً اپنے ڈرگز کے علاج کی بات کر رہا تھا۔
”لیکن وہ تو ضروری ہے نا۔۔۔اس بیماری کو ختم کرنا بھی تو ضروری ہے۔۔“ ضیاء صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔۔۔ اور میں اس کا سالوں سے عادی ہوں۔۔ اور میں اچھے سے جانتا ہوں مجھے کب اسے لینا ہے اور کب چھوڑنا ہے۔۔ میں اس پر قابو پانا جانتا ہوں۔۔“
وہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا اب تک سید حویلی سے باہر نہیں گیا تھا۔۔ اس کا دل ہی نہیں کرتا تھا۔۔۔زیادہ وقت وہ اپنے کمرے میں گزارتا تھا۔۔۔
اپنا انسٹیٹیوت وہ مارتھا کے حوالے کر آیا تھا جو اکثر بیشتر کال کرکے اس کی طبیعت کا پوچھتی رہتی تھی۔
”لیکن بیٹا پھر بھی۔۔۔“ ضیاء جبیل نے کچھ کہنا چاہا۔
”گرینڈپا پلیز۔۔۔“ اس نے احتجاجاً کہا تو ضیاء جبیل کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
✿••✿••✿••✿
اس نے دو دن بعد مشارب کو چھوڑ دیا تھا۔۔ لیکن وہ ایمان کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔
وہ اس دن سائٹ سے تھکا ہارا لوٹا تو اسے ڈاکٹر مہک کی کال آئی۔۔ جو خبر اس نے دی تھی اسے سن کر حاد کا روم روم جاگ اٹھا تھا۔۔۔
وہ جن قدموں سے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا تھا انہی سے واپس پلٹ گیا۔۔ اس کے چلنے میں بھاگنے کی سی تیزی اور شدت تھی۔۔
دوسری جانب ڈاکٹر مہک بےچینی سے حاد کا انتظار کر رہی تھی۔۔ جب سے ایمان غائب ہوئی تھی اس نے اسے ڈھونڈنے میں حاد کا پورا ساتھ دیا تھا۔۔۔یہاں تک کہ اس نے ہسپتال کے اپنے کمرے میں ایمان کے گم ہونے کا پوسٹر لگا رکھا تھا۔
اس کی ایک تصویر اور نیچے لاپتہ لکھا تھا۔۔۔اور یہ اس نے سلمی بیگم سے پوچھ کر کیا تھا۔۔ یہ پوسٹر انہوں نے جگہ جگہ نہیں لگائے تھے البتہ ہسپتال کے چند مخصوص جگہوں پر چسپاں کیے تھے۔ پوسٹر پر موجود نمبر حاد کا تھا۔
اس روز ڈاکٹر مہک روٹین کی ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھی جب اس کے پاس ایک لڑکی آئی۔۔۔ یہ لڑکی کافی وقت سے مائیگرین کی مریضہ تھی۔۔ وہ اپنا چیک اپ کروا رہی تھی جب اس کی نظر ایمان کی تصویر پر پـڑی۔۔وہ غور سے اسے دیکھتی رہی اور پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
”یہ کون ہے؟؟“ اس نے ڈاکٹر مہک سے سوال کیا۔
”ایک رشتہ دار ہے۔۔۔ پچھلے دو تین مہنیوں سے لاپتہ ہے۔۔“
”مجھے لگتا ہے میں نے اسے دیکھا ہے۔۔ کیا یہ نفسیاتی مریضہ ہے؟؟“ اس کی بات پر ڈاکٹر مہک نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کہاں دیکھا ہے آپ نے ان کو؟؟ نفسیاتی تو نہیں ہے البتہ جب وہ گم ہوئی اس سے پہلے اس کا ایکسڈنٹ ہوا تھا اور سر پر گہری چوٹ لگی تھی۔۔“
”یہ میرے ہاسٹل میں رہتی ہے۔۔۔ دو تین مہینوں سے یہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔۔۔ اس کے کمرے سے عجیب آوازیں آتی ہیں۔۔ سب لڑکیاں اس سے خوفزدہ ہیں۔۔۔“
”کیا تمہیں یقین ہے یہ لڑکی وہی ہے؟؟“
”میں نے اسے زیادہ تو نہیں دیکھا پر مجھے یقین ہے یہ وہی لـڑکی ہے۔۔۔“
”تم ایک منٹ رکو میں آتی ہوں۔۔ کیا تم ہمیں اپنے ہاسٹل لے جاؤ گی۔۔۔؟؟“
لڑکی کے ہاں کہنے پر وہ فوراً کمرے سے باہر نکلی اور پہلا نمبر حاد کا ملایا تھا۔
”مجھے لگتا ہے ایمان مل گئی ہے۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
”بی بی نکلو یہاں سے۔۔۔ پتا نہیں کون ہو کیا گناہ کرکے آئی ہو۔۔ پورا ہاسٹل پریشان کردیا ہے۔۔“
وارڈن نے اس کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا۔۔
”نن۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا۔۔۔“ وہ اسے گھسیٹ رہی تھی جبکہ ایمان جو اپنے حواسوں میں نہیں تھی کسی ضدی اور خوفزدہ بچے کی طرح اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔
”مم۔۔۔مجھے نہیں جانا۔۔۔“ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تمہاری وجہ سے لڑکیاں ہاسٹل چھوڑ رہی ہیں۔۔ میرا بزنس برباد کر رہی ہو تم۔۔۔ جانے کس کا قتل کرکے چھپی ہوئی ہو۔۔“ وارڈن نے سے دھکا دیا۔ وہ گیٹ کی دیوار سے ٹکرائی تھی۔
”مجھے نہیں جانا۔۔۔مجھے باہر نہیں جانا۔۔۔“ وہ خوفزدہ تھی۔ تبھی گیٹ کے باہر ایک بڑی سیاہ گاڑی آکر رکی تھی۔۔۔کوئی اس کا دروازہ کھولتے پاگلوں کی طرح باہر نکلا تھا۔
”اٹھا کر باہر پھینکو اسے۔۔۔۔“ وارڈن نے گارڈ سے کہا۔۔۔ ہاسٹل کی ساری لڑکیاں اپنے کمروں سے باہر نکل آئی تھیں۔۔ کچھ ویـڈیوز بنا رہی تھیں تو کچھ بنا ریکارڈ کیے اس تماشے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
اس سے پہلے کہ گارڈ آگے بڑھ کر اسے پکڑتا۔۔
”وہیں رک جاؤ۔۔۔ ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا۔۔۔“
اچانک ابھرنے والی آواز پر سب نے چونک کر پیچھے دیکھا۔۔ وہ تیزی سے ایمان کی جانب بڑھا تھا۔ جبکہ ایمان اسی حالت میں کھڑی تھی۔۔۔وہ ایک ہی جملہ بـڑبڑارہی تھی۔
”مم۔۔مجھے نہیں جانا۔۔۔“ اس کی حالت تشویش ناک تھی۔
”ایمانے۔۔۔۔“
شاید ہی کسی نے اتنی شدت سے اسے پکارہ ہو۔ اس کی طوطے کی طرح چلتی زبان کو بریک لگا تھا۔۔۔ وہ جیسے ساکت ہوئی۔ حاد کی جانب اس کی پشت تھی۔ وہ ہاسٹل کے گیٹ پر کھڑا تھا۔۔ وہ آگے بڑھ کر اس کے سامنے آیا۔۔۔
پر ایمان کا چہرہ دیکھتے ہی اس کے دل پر گھونسا پڑا تھا۔
ایمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی ابھری۔۔۔ اور پھر وہ حسین آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔
”لے کر جاؤ اس کو یہاں سے۔۔۔پاگل ہے یہ۔۔۔“ وارڈن کے لہجے میں حقارت تھی۔
”عب۔۔۔دل۔۔۔“ اس کے لب ہولے سے پھڑپھڑائے تھے۔۔۔
اس کے لیے آج بھی وہ شخص عبدل تھا۔۔۔ بینش کا بھائی ”عبدل۔۔۔“ سرد راتوں میں لان میں تہجد کے نوافل ادا کرتا ہوا عبدل۔۔۔ برستی بارش میں اسے اپنی جیکٹ دیتا عبدل۔۔۔
حاد کون تھا۔۔۔اس نے کیا کیا تھا یہ حصہ پچھلے کافی دنوں سے اس کے دماغ سے محو ہوگیا تھا۔۔۔ تب سے جب اس نے آخری خط لکھا تھا۔۔۔ ماثیل، عبدل اور حاد۔۔۔۔ سب کے نقوش مٹنے لگے تھے۔۔۔
یاد تھا تو سلمی بیگم کا اسے بےایمان کہنا۔۔۔۔ اور مسٹر گرے کی وجہ سے اپنے ایمان پر قائم رہنا۔۔۔
اور اگلے ہی پل وہ اس ہوش و حواس کی دنیا سے بےگانہ ہو کر اس کی جانب لہرا چکی تھی۔
”ڈاکٹر مہک پولیس کو کال کریں۔۔۔“ اس کا انداز اتنا سرد تھا کہ وارڈن کو اپنی ریڑھ کی ہـڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔
”پپ۔۔پولیس کس لیے۔۔۔؟“ وہ فوراً چلائی۔
”یو جسٹ شٹ اپ۔۔۔“ اس نے غراہ کر وارڈن سے کہا۔ اس کا چہرہ ضبط کے باعث سرخ ہوچکا تھا۔۔۔ وہ ایمان کو اٹھاتا گاڑی تک لایا۔۔ ڈاکٹر مہک نے گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔۔ اس نے بڑی احتیاط سے ایمان کو لیٹانے کے انداز میں سیٹ پر بٹھایا۔ گاڑی کا دروازہ بند کرتا وہ وارڈن کے سامنے آیا۔
”اس سامان میں سے ایک سوئی بھی گم ہوئی تو محترمہ نتیجے کی زمہ دار آپ خود ہوں گی۔۔۔“ وہ سرد سپاٹ لہجے میں اسے وارن کرتا اور باقی سب پر ایک ٹھنڈی نگاہ ڈالٹا گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔ تب تک ڈاکٹر مہک پولیس کو کال کر چکی تھی۔
”کیا یہ شخص وہی ہے۔۔۔؟؟“
”از ہی حاد جبیل۔۔۔؟؟“ کچھ لڑکیوں کو اس پر شبہ ہوا تھا۔
بھلا حاد جبیل جیسا شخص ایک عام سی لڑکی کے لیے کیوں آتا۔۔؟؟ وہ شخص جو آئے روز کسی نا کسی وجہ سے خبروں میں گردش کرتا رہتا تھا۔۔ لڑکیوں کو شبہ ہو رہا تھا۔
وارڈن کے اب ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔۔۔ ڈاکٹر مہک گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ گاڑی اب تیزی سے ہاسپٹل کی جانب بھاگ رہی تھی۔۔
مہک نے اسے کبھی اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار نہیں دیکھا تھا۔۔۔ نہ ہی اتنے غصے میں۔۔ وہ ایک ہاتھ سے گاڑی چلا رہا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ بار بار چہرے پر پھیر رہا تھا۔۔۔
اسے ابھی تک وہ منظر نہیں بھولا تھا۔۔۔ وہ خاموش بیٹھا تھا جبکہ داکٹر مہک کے اپنے الفاظ دم توڑ گئے تھے۔۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک نمبر ڈائل کیا۔۔
”حاد جبیل بات کر رہا ہوں۔۔۔“ اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”ایک ہاؤس نمبر نوٹ کرو۔۔گرلز ہاسٹل ہے۔۔۔“ وہ کسی سے کچھ کہہ رہا تھا۔ مہک پیچھے ایمان کے ساتھ بیٹھی تھی۔
”حاد۔۔ ان کی نبض بہت سلو چل رہی ہے۔۔۔“ وہ اس کا معائنہ کر رہی تھی۔ حاد نے فون پر چند ہدایات دینے کے بعد گاڑی کی رفتار مزید تیز کردی۔
✿••✿••✿••✿
سلمی بیگم کو ایمان کے ملنے کی اطلاع کردی گئی تھی۔۔ حاد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مہک بھی ایمان کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
وہ بےچینی سے اس کے کمرے کے باہر ٹہل رہا تھا۔۔۔ بےچینی سی پورے جسم میں پھیلی تھی۔۔ رہ رہ کر ایک ہی خیال ذہن کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔۔
”آخر اس نے ایمان کو دھکا کیسے دیا۔۔۔“
وہ بےطرح اضطراب کا شکار تھا۔۔ خون بری طرح سے کھول رہا تھا۔
وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی۔ اسے ڈاکٹر مہک کے حوالے کرتا وہ پولیس اسٹیشن جا رہا تھا۔
”بی کیئر فل۔۔“ وہ مہک کو تاکید کرتا ہواؤں کی سی رفتار سے وہاں سے غائب ہوا تھا۔
اور پھر اگلے گھنٹے میں اس گرلز ہاسٹل پر تالا لگ چکا تھا۔
”وہ لڑکی پاگل تھی۔۔۔ اس کی وجہ سے ہاسٹل کا ماحول خراب ہورہا تھا۔۔۔“ وارڈن پولیس اسٹیشن میں موجود تھی اور اب بےطرح چلا رہی تھی۔
جبکہ حاد خود پر پوری طرح قابو کیے سکون سے بیٹھا تھا۔
”ارے میں اسے نہ نکالتی تو کیا کرتی؟؟“
”آپ ایک خاتون کو دھکے دینے والی کون ہوتی ہیں۔۔۔؟؟“
اس کا انداز اتنا ٹھنڈا تھا کہ وارڈن کو چپ لگ گئی۔
”اگر ان کی طبیعت خراب تھی تو آپ انہیں ہسپتال لے کر جاتیں۔۔۔اگر آپ کو کوئی غیر قانونی حرکت نظر آئی تھی تو آپ پولیس کو فون کرتیں۔۔۔ آپ کو کس نے حق دیا کہ آپ ایک عورت ہو کر دوسری عورت کے ساتھ ایسا سلوک کریں۔۔۔“
وہ کہنیوں کو ٹانگوں پر جمائے تھوڑا جھک کر بیٹھا تھا۔ جبکہ ٹھوڑی اسی ہاتھوں کی پشت پر ٹکی تھی اور گہری چمکتی آنکھیں وارڈن پر جمی تھیں۔۔ اس کے دیکھنے کے انداز سے ہی وارڈن کو اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہورہا تھا۔
”مسٹر جبیل آپ فکر نہ کریں۔۔۔ ہم معاملہ سلجھا لیں گے۔۔“ پولیس آفیسر نے اسے تسلی دی۔
”معاملہ سلجھانا نہیں۔۔ مجھے انصاف چاہیے۔۔۔ایک ایسا ہاسٹل جہاں لڑکیوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھا جائے وہ کسی طور ری اوپن نہیں ہوگا۔۔۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس پر کیس میں خود کروں گا۔۔۔“
اس نے پولیس آفیسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا۔
جبیل خاندان سے کون واقف نہیں تھا۔۔۔اور حاد نے تو آج تک اپنے خاندان کے نام کا استعمال نہیں کیا تھا۔
پیچھے سے وارڈن نے کچھ کہا تھا۔
”محترمہ یہ ویڈیو آپ کے خلاف کھلا ثبوت ہے۔۔۔ آپ جا کر ان خاتون سے معافی مانگیں جن سے آپ نے بدتمیزی کی ہے۔۔ تب ہی کچھ ہو سکتا ہے۔۔ آپ شکر کریں آپ کا ہاسٹل بند ہوا ہے آپ کو مسٹر جبیل کے کہنے پر اندر نہیں کیا ورنہ ابھی آپ سلاخوں کے پیچھے ہوتیں۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
وہ جس تیزی سے گیا تھا اسی تیزی سے واپس بھی آگیا تھا۔۔۔ لیکن سامنے کا منظر اس کے لیے کسی خوفناک خواب سے کم نہیں تھا۔۔
”چھوڑو مجھے۔۔۔ اماں۔۔ میں پاگل نہیں ہوں۔۔ میں بےایمان نہیں ہوں۔۔۔“
وہ پوری وقت سے چلا رہی تھی اور خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نرسوں نے اسے دونوں جانب سے پکڑا ہوا تھا تاکہ وہ بیڈ سے اٹھ نہ سکے۔۔ کمرے میں ڈاکٹر مہک کے ساتھ ساتھ کچھ سینئرز ڈاکٹرز بھی موجود تھے۔
یہ منظر دیکھ کر حاد کے قدم لڑکھڑا گئے۔۔۔۔
زندگی کے اٹھائیس انتیس سالوں میں حاد جبیل پہلی بار لڑکھڑایا تھا۔۔۔ وہ الٹے قدموں دروازے سے پلٹ گیا۔۔۔
ڈاکٹر مہک نے اب اسے انجیکشن لگایا تھا۔۔ وہ چلاتی رہی اور پھر آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں اتر گئی۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو گلاس ونڈو سے حاد کو دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا پایا۔۔۔ وہ بےیقینی سے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔
”شاید ہم نے ڈھونڈنے میں کافی دیر کردی۔۔۔“
وہ اس کے قریب آئی تھی اور پھر ہولے سے سرگوشی کی۔
”ایمان کی حالت کافی نازک ہے۔۔۔ ہمیں اسے جلد از جلد کسی mental Asylum شفٹ کرنا ہوگا۔۔۔“
وہ کہاں سن رہا تھا۔۔۔ وہ سن ہی نہیں سکتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
دو روز پہلے۔۔۔۔
”عبدل وانٹس تو کینکٹ یو(عبدل آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہا ہے۔۔) اے آئی اسسٹنٹ کی آواز حیران کن تھی۔
عبدل اس سے خود رابطہ کرنا چاہ رہا تھا۔۔ اس کے اکاؤنٹ پر عبدل کی ویڈیو کال آرہی تھی۔
اس نے کنیکٹ کرنے کا کہا۔ عبدل کا چہرہ دکھائی دیا۔۔
بڑھی ہوئی داڑھی، لمبے بال، کسرتی بازو جو ٹی شرٹ سے نمایاں ہو رہے تھے۔۔۔
”کیسے ہو۔۔؟؟“ اس نے حاد سے پوچھا۔۔
لیپ ٹاپ سامنے رکھا تھا جبکہ حاد تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
”آج سورج کدھر سے نکلا ہے؟؟“
حاد نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔ یہ احساس ہی کتنا اچھا تھا کہ اس کے جڑواں بھائی نے اسے فون کیا تھا۔۔۔۔
”وہیں سے جہاں سے تم ایمانے کو ڈھونڈو گے۔۔۔“
اس کا انداز طنزیہ تھا۔۔۔حاد کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔لیکن یہ مسکان استہزائیہ تھی۔
”تم خود کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے اسے۔۔؟؟“ وہ اب سیدھا ہو بیٹھا۔
”کوئی فائدہ نہیں۔۔۔“ وہ فوراً بولا۔
”آخر کیوں؟؟“ حاد الجھا تھا۔۔۔اسے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ عبدل ہمیشہ اسے ہی کیوں ڈھونـڈنے کو کہتا تھا۔
”نمبر ایک، تم نے وعدہ کیا تھا اسے ڈھوند لانے کا۔۔۔ نمبر دو، میں نے اسے ڈھونڈ بھی لیا تو تم اسے مجھ سے چھین لو گے۔۔۔نمبر تین، میں اسے ڈھونڈ لیتا اگر میں اس سے پہلے ملا ہوتا۔۔۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں تمہارا عکس دیکھا تھا۔۔۔“
حاد کو لگا کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں لے کر چھوڑ دیا تھا۔۔۔ وہ رکا اور پھر دھڑکنے لگا۔۔ لیکن رفتار پہلے سے تیز تھی پر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔
”میں تم سے کچھ کیوں چھینوں گا۔۔؟؟“
عبدل کی اس بات نے اسے تکلیف دی تھی۔
”تم نہ بھی چھینتے پر تقدیر اسے مجھ سے چھین کر تمہیں دے دیتی۔۔۔“ عبدل کا انداز استہزائیہ تھا۔۔ وہ دونوں کافی سنجیدہ تھے۔
”تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟؟“
”میں نے محسوس کیا ہے۔۔ وہ درد جو تم سے جڑا ہے اس درد کو میں نے ایمانے کے ارد گرد محسوس کیا ہے۔۔“
وہ کہیں الجھا ہوا تھا۔
”اور ویسے بھی میرے جیسا رف ٹف بندہ اسے خوش رکھنے کے چکر میں بھی رلا ہی دیتا۔۔۔وہ مجھے عزیز ہے۔۔ پر وہ میرے لیے نہیں۔۔۔“
اسے یاد تھا۔۔ اس نے کیسے ایمان کا دل توڑا تھا۔
”کیا تم نے صرف اس لیے فون کیا تھا؟؟“
حاد نے بات بدلنا چاہی۔۔۔ کیونکہ ”ملی“ تو وہ اسے بھی نہیں تھی۔۔۔ جانے وہ کس کے لیے بنی تھی۔
”نہیں۔۔۔۔“ عبدل نے جواب دیا۔
”تو پھر؟؟“ اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
”تمہارا سسٹم سیکیور ہے نا؟؟ مطلب یہ کال کوئی سن نہ رہا ہو۔۔۔“
حاد ہولے سے مسکرادیا۔
”تمہیں لگتا ہے کوئی حاد کے سسٹمز تک پہنچ سکتا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔۔۔
”مجھے تم سے ڈیل کرنی ہے۔۔۔“
وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
”کیسی ڈیل؟؟“
”میں ایمانے سے سفارش کروں گا کہ وہ تمہیں معاف کردے۔۔۔“
”اور بدلے میں تمہیں کیا چاہیے؟؟“ حاد نے الٹا سوال کیا۔۔ وہ عبدل کو بچپن سے جانتا تھا۔۔ اس کی یہی عادت تھی۔ کسی نہ کسی بات پر ڈیل کرنا۔۔اپنے فائدے کی ڈیل۔۔ وہ خود کو بڑا کامیاب بزنس مین سمجھتا تھا۔
”مجھے جاننا ہے تم کن لوگوں کے خلاف کام کر رہے ہو۔۔۔؟؟اور تم مجھے ڈیڈ تک کب پہنچاؤ گے۔۔۔“
اس کی بات سن کر حاد نے گہرا سانس لیا۔
”اچھے بزنس مین بن سکتے ہو تم۔۔۔ چھوڑو یہ سنگنگ ونگنگ۔۔۔ دادا جی کا بزنس سنبھالو۔۔۔“
حاد نے ہلکے پھلکے انداز میں چوٹ کی۔
”تو تم چاہتے ہو ایمانے تمہیں کبھی معاف نہ کرے۔۔۔؟؟“
وہ برہم ہوا۔۔۔ناک پھول گئی تھی جیسے بچپن میں پھول جاتی تھی جب حاد اسے کسی بات سے منع کرتا تھا۔۔ یا کسی کام سے۔۔
”وہ مجھے ویسے بھی معاف نہیں کرنے والی۔۔۔“
”تو پھر یہ شخص کون ہے؟؟“ اس نے ایک فوٹو اسکرین کے سامنے کی۔۔۔ لوگوں کی بھیڑ میں وہ شخص کسی روبوٹ کی طرح کھڑا تھا۔۔۔ یہ فوٹو یقیناً کنسرٹ کی ریکارڈنگ سے نکالی گئی تھی۔۔
حاد پل بھر کو چونکا۔
”یہ کب کی فوٹو ہے۔۔؟؟“ حاد سنجیدہ تھا۔
”جو میں پوچھ رہا ہوں وہ بتاؤ۔۔۔“
وہ بھی سنجیدہ تھا۔
”عبدل۔۔۔میری بات غور سے سنو۔۔۔“ وہ چوکنا ہوگیا۔ وہ لوگ عبدل تک پہنچ چکے تھے۔۔۔یعنی خطرہ بڑھ گیا تھا۔
”تمہیں کیئرفل رہنا ہوگا۔۔۔ تم ان لوگوں سے جتنا دور رہ سکتے ہو کوشش کرکے اتنا رہو۔۔ بلکہ تم پاکستان آجاؤ۔۔۔اور تم مکر جانا کہ تم عبدل ہو۔۔۔کہ تم روحان جبیل کے بیٹے ہو۔۔۔تم مکر جانا اور کہنا تمہارا جبیل خاندان سے کوئی واسطہ نہیں۔۔“
حاد کے لہجے میں پریشانی تھی۔۔۔وہ عبدل کے لیے فکرمند تھا۔
”اب تک یہی تو کرتا آرہا ہوں۔۔۔“
”تمہیں سمجھنا ہوگا جب تک میں نہ کہوں تم ان میں سے کسی سے نہیں ملو گے۔۔۔ان کی پہنچ سے دور رہو گے۔۔۔اور کوئی بےوقوفی نہیں کرو گے۔۔۔“
وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
”انہیں حاد چاہیے۔۔۔۔“ عبدل نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے کہا۔
”اور بدلے میں وہ مجھے ڈیڈ تک۔۔۔“
”سب جھوٹ ہے۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ دیکھو تمہیں میری بات ماننا ہوگی۔۔۔تم ساری زندگی ضد کر سکتے ہو پر اس بار نہیں۔۔۔ اس بات پر نہیں۔۔۔تم مجھ پر بھروسہ رکھو۔۔۔میں انہیں ڈھونڈ لوں گا۔۔۔“
”انہیں حاد چاہیے۔۔۔“ عبدل نے پھر سے وہی جملہ دہرایا۔
حاد خاموش ہوگیا۔۔۔وہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ عبدل کے دماغ میں آخر کیا چل رہا تھا۔
”کیا ہو اگر میں انہیں حاد دے دوں۔۔۔؟؟“
اس نے عجیب سی نظروں سے حاد کو دیکھا۔
”تم نے عبدل اور حاد دونوں کا کردار نبھایا ہے۔۔۔ ایک دن کے لیے تو میں بھی حاد بن سکتا ہوں۔۔۔“
صاف صاف ظاہر تھا وہ کچھ پلان کر رہا تھا۔
”نو۔۔نو۔۔ عبدل نو۔۔۔تم ایسا نہیں کرو گے۔۔۔تم نہیں سہہ پاؤ گے۔۔۔“ حاد اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔پر عبدل اس پر ایک مسکان ڈالتے ہوئے غائب ہوگیا۔ ویڈیو کال بند ہوچکی تھی۔۔۔ حاد نے بہت بار کوشش کی لیکن عبدل اپنی ضد کا پکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
حال۔۔۔۔۔
ایک بار مجھ کو اپنی نگہبانی سونپ دے
عمریں گزار دوں گا تیری دیکھ بال میں۔۔۔
”مسٹر جبیل۔۔۔۔“
کسی نے اسے پکارہ تھا۔۔۔اور وہ چونک کر خیالوں سے باہر آیا۔۔۔ ایک لمبا سفر تھا یہاں تک پہنچنا۔۔۔۔ اس نے ایمان کی حالت کو بنتے بگڑتے دیکھا تھا۔۔۔
اس نے ایمان کی آنکھوں میں اپنے لیے غیر شناسائی دیکھی تھی۔۔۔ جیسے وہ اسے جانتی ہی نہ ہو۔۔۔ اس نے اسے رنگوں سے نفرت کرتے اور خوفزدہ ہوتے دیکھا تھا۔۔۔
وہ واقف تھا اس کے ہر خوف ہر درد تھے۔۔۔ اس کی ہر تکلیف سے۔۔۔
وہ واقف تھا اس کے اکیلے پن سے۔۔۔
اس رات مہک دوبارہ سلمی بیگم کو کال نہ کرتی اور ان سے معذرت نہ کرتی کہ ایمان ابھی نہیں ملی۔ انہیں غلط فہمی ہوگئی تھی۔۔ تو جانے کیا ہوجاتا۔۔۔ حاد کے کہنے پر اس نے ایسا کیا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا جہاں سلمی بیگم نے اتنا انتظار کیا تھا وہاں تھوڑا اور سہی۔۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ سلمی بیگم اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھیں۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا ایمان جلد از جلد ٹھیک ہوجائے۔۔۔اور اس کے لیے وہ بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔ وہ لندن گیا تھا۔۔ وہاں سے ڈاکٹر لایا تھا۔۔ اس کا علاج چل رہا تھا۔
”یس ڈاکٹر۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”میرے ساتھ آئیے۔۔۔ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔“ ڈاکٹر نے کہا تو وہ گہرا سانس لے ان کے پیچھے چل پڑا۔
”وہ پہلے سے بہتر ہورہی ہے۔۔۔“
گلاس ڈور کے اس پار وہ بیٹھی تھی۔ آسمانی رنگ کا یونیفارم پہنے۔۔۔ شلوار قمیص ایک رنگ کا تھا۔
اس کے سامنے نرس نے دو اسکارف رکھے تھے۔ ایک سیاہ اور ایک سفید۔۔۔
پہلے وہ ان رنگوں سے خوفزہ ہوتی تھی ان سے نفرت کرتی تھی۔۔ حاد غور سے اسے دیکھنے لگا۔۔
وہ کئی ثانیے یونہی بیٹھی رہی۔۔ خاموشی سے دونوں رنگوں کو گھورتے ہوئے۔۔۔
دیکھنا یہ تھا کہ وہ اب ان میں سے کونسا رنگ اٹھاتی۔ حاد جبیل کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ کپکپاتا اس کا ہاتھ سفید اسکارف کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
اس نے کافی عرصے بعد سفید رنگ کو چھوا تھا۔ اس نے اس اسکارف کو اٹھایا۔۔
سفید نے سیاہ کو مات دے دی تھی۔
حاد کو لگا کسی نے بڑا بوجھ اس کے دل سے اتار دیا ہو۔
✿••✿••✿••✿
”کب تک واپس آئیں گے آپ؟؟“ دائمہ نے آج کافی دنوں بعد اسے کال تھی۔ حاد چاہ کر بھی نظرانداز نہ کر پایا۔ اس لڑکی کا حاد کی وجہ سے دل ٹوٹا تھا۔۔۔۔ وہ اس کے لیے اتنا کر سکتا تھا کہ اس کی بات سن لیتا۔
”نہیں جانتا۔۔۔۔ ابھی کچھ وقت لگے گا۔۔۔“
اس نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔
”کیا میں جانتی ہوں آخر کون بیمار ہے جو آپ اس کی اتنی تیماداری کر رہے ہیں۔۔۔؟؟“
دائمہ نے سوال پوچھا۔ اس نے تازہ تازہ خبر سنی تھی۔ حاد جبیل کو پاگل خانے جاتے دیکھا گیا تھا۔۔۔ اور اس خبر کی تصدیق سید جبیل نے سعد سے کی تھی۔ جس نے صرف یہ بتایا تھا کہ حاد کا کوئی خاص شخص وہاں داخل تھا۔
”ہے کوئی اپنا۔۔۔“ اس نے یک لفظی جواب دیا۔
”کیا وہ کوئی لڑکی ہے؟؟؟“ دائمہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔ وہ دعا کر رہی تھی جواب ناں میں ہو۔ پر ایسا نہیں ہوا۔
”ہاں۔۔۔“ یک لفظی جواب پر پھر کچھ ٹوٹا تھا۔
”ایک کزن ہونے کی حیثیت سے میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟؟“ وہ کلیئر جواب چاہتی تھی۔۔۔ ایک عرصے سے اس کے ذہن میں جو سوال پنپ رہے تھے ان کے جواب۔
”ضرور۔۔۔“ وہ جانتا تھا وہ کیا پوچھنے والی تھی۔
”کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں۔۔۔؟؟“
”محبت کرتا ہوں۔۔۔“ تین لفظی جواب نے دائمہ جبیل کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔ اس نے میز کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا۔
تو یہ وجہ تھی جو وہ اس سے گریزاں تھا۔
”تو اسی وجہ سے آپ نے مجھے ٹھکرایا؟؟“ وہ کپکپاتی آواز میں بولی۔۔۔ اس ایک سوال میں بہت کچھ تھا۔۔۔غصہ، غم اور شکوہ سب کچھ۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔“ وہ کم کم بولتا تھا۔۔۔ اپنوں کے سامنے۔۔۔اپنوں کے ساتھ۔۔۔۔ جانے سیشنز میں وہ کیسے اتنا بول لیتا تھا۔
اور پھر دائمہ نے بنا کچھ کہے فون کاٹ دیا۔
تو طے تھا۔۔۔ دائمہ جبیل کی قسمت میں ماہین حمدان کی طرح تڑپنا لکھا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ماضی۔۔۔
وہ دونوں رات کے اس پہر ہسپتال میں تھے۔۔۔ ہسپتال میں اس وقت رش کم ہوجاتا تھا۔۔۔ رات کا پچھلا پہر۔۔۔تاروں بھرا آسمان۔۔۔
”ہمیں کچھ تو کرنا ہوگا نا۔۔۔ یہاں اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔۔۔“
”تم چاہتی ہو میں اسے پاگل خانے لے جاؤں؟؟“ وہ جلد برہم نہیں ہوتا تھا پر اس کے لیے یہ خیال ہی جان لیوا تھا کہ ایمان کو پاگل خانے داخل کیا جائے۔
”کوئی اور آپشن ہے؟؟“ ڈاکٹر مہک نے الٹا سوال کیا۔ جبکہ حاد بےچینی سے ٹہل رہا تھا۔۔ اس کے لیے یہ مشکل نہیں تھا کہ کوئی پاگل ہوگیا تھا۔۔ اس کے لیے یہ ماننا مشکل تھا کہ ”ایمان“ نفسیاتی ہوگئی تھی۔
”دیکھو حاد میں ایک پرائیویٹ کلینک کو جانتی ہوں۔۔ میرے کلاس فیلو کا ہے۔۔۔ یہاں نفسیاتی لوگوں کا الگ طریقے سے علاج کیا جاتا ہے۔۔۔یہ پاگل خانہ نہیں ہے۔۔۔بلکہ ایک انسٹیٹیوٹ کی طرح ہے۔۔۔“
ڈاکٹر مہک اسے تفصیل بتا رہی تھی جب اچانک حاد کا فون تھرتھرانا شروع ہوا۔۔ ساتھ ہی ٹوں ٹوں کی آواز ابھر رہی تھی۔۔ اس نے جلدی سے فون نکالا تو اس پر سرخ رنگ میں بڑا سا لکھا آرہا تھا۔۔
”خطرہ۔۔ Danger“
یہ اتنا اچانک ہوا تھا حاد تھوڑا شاکڈ ہوا۔ اسے دیکھ کر ڈاکٹر مہک الجھی۔
”سب ٹھیک ہے نا۔۔؟؟“
”مجھے جانا ہوگا۔۔۔“
وہ فوراً پلٹا۔۔۔ اس کی جانب۔۔۔ یقیناً کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
”ایمان کا دھیان رکھنا۔۔۔“ یہ کوئی حکم نہیں تھا۔۔۔ کوئی تاکید نہیں تھی بلکہ اس نے درخواست کی تھی۔۔۔۔
اور پھر وہ پلٹ گیا۔۔۔ ڈاکٹر مہک نے اسے تیز رفتاری سے بھاگتے دیکھا تھا۔۔۔
✿••✿••✿••✿
وہ آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ وہ عبدل جبیل تھا حاد جبیل کا جڑواں بھائی۔۔۔۔ جو حلیے میں اس سے الگ دکھتا تھا۔۔۔
”انہیں حاد چاہیے۔۔۔۔“
”حاد عبدل بن کر رہ سکتا تھا تو وہ حاد کیوں نہیں بن سکتا تھا؟؟“
قد کاٹھ ایک جتنا تھا، آنکھیں ایک جیسی تھیں، آواز ایک جیسی تھی۔۔۔۔ فرق تھا تو ایک باکسر کی باڈی کا جس پر بےجا ٹیٹوز بنے تھے۔ اس کے ڈریسنگ ٹیبل پر حاد جبیل کی تصویر بنی تھی۔
صاف شفاف ہاتھ۔۔
ہلکی داڑھی
ایک ترتیب سے پیچھے کی جانب سیٹ ہوئے بال جو پیچھے سے کان کی لوؤں تک جاتے تھے
آنکھوں پر چشمہ
ہاتھ میں کھڑی
چمکتے بند جوتے
اس کی جیکٹ بازو پر پڑی تھی
کتنا پرفیکٹ دکھتا تھا وہ۔۔۔ اسے غور سے دیکھتے ہوئے عبدل نے سب سے پہلے کینچی اٹھا کر اپنے بالوں کی بےڈھنگی سی پونی کو کاٹ ڈالا۔۔۔ وہ اب بالوں کو اس کے انداز میں کاٹ رہا تھا۔۔۔ اتنے مہنگے اتنے ہیئر ڈریسر اس کے ایک راکسٹر کے حلیے کو برقرار رکھتے تھے۔۔۔۔
پھر اس نے اپنی بڑھی ہوئی داڑھی کو تھوڑا چھوٹا کیا۔۔
کان سے بالی نکال دی۔۔۔ ہونٹ کے کنارے کے جڑا وہ موتی اتار دیا۔۔۔
وہ اب پوری سنجیدگی سے اپنا حلیہ بدل رہا تھا۔۔۔
تین گھنٹے کی کڑی محنت کے بعد جب اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو ساکت رہ گیا۔۔۔
وہ ہو بہو حاد جبیل لگ رہا تھا۔۔۔ کہیں کوئی فرق نہیں تھا۔۔۔ مکمل کپڑے پہننے کے بعد اس نے بازوؤں اور ہاتھوں کے ٹیٹوز کو بڑی مشکل سے چھپایا تھا۔۔
تصویر والا حاد جبیل اب ہو بہو آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔وہ اس کے انداز میں کھڑا تھا جیکٹ بازو پر ڈالے۔
”ایک دن کے لیے حاد جبیل بننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔“
اس نے مسکرا کر خود کو دیکھا۔۔۔
”کوئی بھی لڑکی تم پر اپنا دل ہار سکتی ہے۔۔“
وہ اب حاد جبیل کی تصویر سے مخاطب تھا۔

5 Comments

Post a Comment
Previous Post Next Post