Maseel novel episode 43 - part 02

Maseel novel episode 43 part 02


مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_43 پارٹ2
نور_راجپوت
واپسی کا سفر
واپسی کا سفر اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔ لیکن یہ تو طے تھا کہ اسے واپس آنا تھا۔۔ اسے واپس آنا تھا یہ دیکھنے کہ وہ جس سے محبت کا دعوی کرتا تھا، اس کا کیا حال بنا چکا تھا۔۔۔۔
کون کہتا ہے کہ محبت کرنا والا ہی سب Suffer کرتا ہے۔۔ جس سے محبت کی جاتی ہے ہم اسے اپنا قرض دار سمجھ کر وصولی کرتے ہیں۔۔ اور یہ وصولی کسی کسی طور سستی نہیں ہوتی۔۔۔
وہ فلائٹ میں بیٹھا تھا۔۔۔ ایک دو تین بلکہ پورے بارہ سال بعد وہ واپس لوٹ رہا تھا۔۔۔ دل کی حالت عجیب سی تھی۔۔۔ زندگی اسے ایک نئے موڑ پر لے آئی تھی۔۔۔
قدم بھاری ہو چکے تھے۔۔۔ جب وہ یہاں سے گیا تھا تو کبھی سوچا نہیں تھا کہ پلٹ کر آئے گا۔۔۔ پر وہ اسے کھینچ لائی تھی۔۔۔
حاد جبیل اپنے ایک مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا۔۔۔وہ واپس آچکا تھا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
سید حویلی کے در و دیوار یہ سچ جان کر لرز گئے تھے جو اس وقت دائمہ جبیل پر بیت رہا تھا۔۔
وہ بےیقینی سے کبھی ضیاء جبیل کبھی حیدر جبیل تو کبھی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جو اسی کی طرح حیران تھی۔۔۔
اس سچ سے صرف وہ دونوں ناواقف تھیں۔۔۔ ضیاء جبیل سر جھکائے بیٹھے تھے جبکہ سید جبیل کے اندر پچھتاوہ تو تھا پر انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔
اگر وہ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک نہ ہوتے تو شاید سید حیدر جبیل بھی نہ ہوتے۔۔۔ آج حمدان صاحب بھی ادھر ہی آئے ہوئے تھے۔
”یقیناً آپ لوگ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔۔۔“ دائمہ نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن اس کے چہرے پر موت کی سی زردی تھی۔۔۔ یوں جیسے اس کے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔
”نہیں دامی بیٹا۔۔ یہی سچ ہے۔۔۔ جسے تم عبدل سمجھتی ہو وہ حاد ہے۔۔۔“ سید جبیل ہی یہ ہمت کر سکتے تھے۔ دائمہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔
ماہین حمدان نے پہلے سید جبیل اور پھر اپنے باپ حمدان صاحب کو دیکھا۔۔۔وہ بھی اس سچ سے واقف تھے۔ حمدان صاحب نظریں چرا گئے۔۔۔ وہ بری طرح سے پھنس چکے تھے۔۔۔ان کی دو بیٹیاں۔۔۔ ماہی اور حانم جبیل خاندان میں بیاہی گئی تھیں۔۔
دائمہ اور حاد ان کے نواسی نواسا تھے۔۔ وہ کس کا ساتھ دیتے۔۔۔ دائمہ کو سچ بتا دیتے تو حاد کا کیا ہوتا؟؟
”آپ سب لوگوں نے مل کر مجھے دھوکہ دیا۔۔۔“ اس کی آواز لرز رہی تھی۔۔۔اس کے لیے یہ خیال ہی روح فرساں تھا کہ وہ جس شخص کو منگیتر سمجھ کر سالوں سے محبت کرتی آرہی ہے وہ شخص دراصل اس کا منگیتر تھا ہی نہیں۔۔۔
وہ عبدل تھا ہی نہیں وہ تو حاد تھا۔
”دامی بیٹا! بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔“
ضیاء جبیل نے پیار سے پچکارہ۔
”بڑے بابا آپ بھی۔۔۔“ وہ متورم آنکھیں لیے بولی۔
وہ مدیحہ (حشام جبیل کی بہن) کے بعد جبیل خاندان کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔ وہ لوگ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے تھے۔
اس نے ایک ہاتھ سے اپنی پیشانی پکڑ لی۔۔۔ وہ اب خود پر قابو رکھنے کی غرض سے ڈرائنگ روم میں چکر لگا رہی تھی۔
”یعنی آپ لوگ کہنا چاہتے ہیں یہ شخص عبدل نہیں بلکہ حاد جبیل ہے۔۔۔“ اس نے دیوار پر لگی اس تصویر کی جانب اشارہ کیا جسے وہ اکثر دیکھتی تھی۔ ڈرائنگ روم میں موت کی سی خاموشی تھی۔۔۔ ماہین حمدان لب سیے بیٹھی تھی۔۔۔ وہ خود پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ اس کی بیٹی کے نصیب میں بھی وہ شخص نہیں ہوگا جسے وہ بےپناہ چاہتی ہے۔
”یعنی اس رات حاد نہیں بلکہ عبدل مر گیا تھا۔۔۔ اور حاد عبدل بن کر رہ رہا ہے۔۔ او مائے گاڈ۔۔۔“ وہ بےچینی سے ٹہلنے لگی۔۔۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔ لب خشک پڑ چکے تھے۔۔اور گلے میں کانٹے چب آئے تھے۔
”عبدل مرا نہیں زندہ ہے۔۔۔“ سید جبیل نے ایک اور بم پھوڑا۔۔۔ یہ بات سن کر دائمہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔ اور پھر وہ بےساختہ ہنس دی۔۔۔ وہ ہنستی گئی۔۔
اس کی ہنسی میں ایک بین تھا۔۔۔ درد تھا۔۔۔۔۔
”کیا آپ لوگوں کو بیٹے اتنے عزیز ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کریں؟؟“ اس کے لہجے میں زہر سا گھل گیا تھا۔۔ وہ سارے اس کے مجرم تھے۔۔۔ جو خاموش بیٹھے تھے۔ ابو حذیفہ، دائمہ اور ادھم کا بڑا بھائی اس وقت حویلی میں نہیں تھا۔۔۔اور یقیناً وہ بھی اس سچ سے ناواقف ہوگا۔
”حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ ہم سچ سامنے نہیں لا سکتے۔۔۔“
”اور میں۔۔۔؟؟ میرا کیا؟؟ میں کہاں جاؤں۔۔۔؟؟“ اس نے بےساختہ اپنا چہرہ صاف کیا۔
”جب تمہیں سچ پتا چلے گا تم خود سمجھ جاؤ گی۔۔“
”مجھے نہیں جاننا سچ۔۔۔“ وہ چلا اٹھی۔
”خدا کا خوف کریں آپ لوگ۔۔ میں انسان ہوں کوئی گڑیا نہیں۔۔“ وہ رو ہی دی تھی۔
”کبھی معاف نہیں کروں گی آپ لوگوں کو۔۔۔“ وہ روتے ہوئے کہتی وہاں سے بھاگی تھی۔
ماہین حمدان کے تو جیسے الفاظ کسی نے سلب کرلیے تھے۔۔۔وہ پتھر کی مورت بنی بیٹھی رہی۔
ڈرائنگ روم میں بیٹھے تین بوڑھے مردوں کے کندھوں پر ڈھیروں بوجھ تھا۔۔۔ یہ تب ہی کم ہو سکتا تھا جب حاد جبیل سب ٹھیک کر دیتا۔۔۔۔
✿••✿••✿••✿
”سب نے مجھے دھوکا دیا۔۔۔ آپ تو بتا سکتے تھے نا۔۔۔ مجھے کتنا مان تھا آپ پر۔۔۔“ وہ حاد کو کال ملائے بےطرح رو رہی تھی۔۔ حاد خاموشی سے اسے سنتا رہا۔
”میں نے کوشش کی تھی۔۔۔۔“
”مجھے بتائیں میں اب کیا کروں۔۔۔میرے لیے تو سب کچھ آپ ہی ہیں۔۔۔“
روتے ہوئے اس کا ہوں اظہار کرنا کسی بھی مرد کی دھڑکنیں تیز کر سکتا تھا۔۔۔ پر مقابل حاد جبیل تھا۔۔۔جس کا دل دھڑکتا ہی نہیں تھا۔۔۔ دھڑکا بھی تھا تو دائمہ کے لیے بالکل بھی نہیں۔
”میں عبدل نہیں ہوں دائمہ۔۔۔حاد ہوں میں۔۔۔“
”مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ میں نے شخصیت سے محبت کی ہے نام سے نہیں۔۔۔“
”تم میرے لیے قابل احترام ہو۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔۔“
حاد جبیل نے اس کا دل توڑ دیا تھا۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے حشام جبیل نے ماہین حمدان کا توڑا تھا۔۔۔اور پھر اسے بھی اس کی محبت کبھی نہ ملی۔
”میں کسی کو بھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ آپ کو بھی نہیں۔۔۔“ وہ فون بند کر گئی تھی۔۔۔ جبکہ تھکن سے چور حاد نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔ اسے ابھی بہت ضروری کام کرنا تھا۔
چلو اچھا تھا دائمہ کو سچ پتا چل چکا تھا۔ ویسے بھی وہ اس کے لیے کزن سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ ساری رات سو نہیں پائی تھی۔۔۔ نیند کیسے آتی جب آنکھیں بےتحاشہ آنسوں بہا رہی تھیں۔۔ موسم ویسے ہی خراب تھا۔۔ سید حویلی میں موت کا سا سناٹا تھا۔۔۔۔
وہ کمزور دل لڑکی نہیں تھی لیکن اسے دھوکا اس کے اپنوں نے ہی دیا تھا۔۔۔اس کے لیے یہ برداشت کرنا کافی مشکل تھا۔
جانے وہ کتنی دیر تکیے میں منہ دیے روتی رہی۔۔۔ جب اسے بادل گرجنے کی آواز سنائی دی تو وہ اٹھ کر کھڑکی میں آکھڑی ہوئی۔۔۔ اس کی آنکھیں بےتحاشہ سوجھی ہوئی تھیں۔۔
ماہین کتنی ہی دیر اس کے دروازے پر دستک دیتی رہی تھی پر اس نے دروازہ نہیں کھولا۔۔ وہ اپنی ماں کو بھی قصوروار سمجھ رہی تھی۔ وہ کھلی کھڑکی سے بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھتی رہی۔۔۔ جانے کتنی دیر وہ ویسے ہی کھڑی رہی۔۔۔ حاد کا چہرہ ایک پل کو اس کی نظروں سے دور نہیں ہوا تھا۔۔ ہوش میں تب آئی جب بارش شروع ہوئی۔۔ اس کے کمرے سے حویلی کے گیٹ کا منـظر صاف نظر آتا تھا۔۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی لمبی روش تھی۔۔ اور دونوں جانب لان بنا تھا۔۔
اچانک اس کی نظر گیٹ پر پڑی۔۔۔ گیٹ سے اندد آتی روش پر کوئی کھڑا تھا۔۔۔ اسے گمان ہوا جیسے وہ ادھم جبیل تھا۔۔ اس نے سر کھڑکی سے باہر نکال کر دیکھا۔۔۔ تو ساکت رہ گئی۔۔۔۔
چھوٹا سا بیگ کندھے پر ڈالے وہ بارش میں کھڑا بھیگ رہا تھا۔۔ وہ یہاں تک تو آگیا تھا پر شاید اندر آنے کی ہمت نہیں تھی۔
”ادھم بھائی۔۔۔۔“ وہ زور سے چلائی۔۔۔اور پھر دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔
وہ وہیں کھڑا تھا۔۔ سید حویلی کے سبھی ملازم پرانے تھے۔۔ سب نے اسے پہچان لیا تھا۔۔ اور دائمہ بھی اسے ٹی وی پر دیکھ چکی تھی۔۔ وہ ننگے پاؤں سیڑھیاں اترتی باہر کی جانب بھاگ رہی تھی۔۔
ماہین ابھی تک ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی اس نے جب دائمہ کو یوں پاگلوں کی طرح بھاگتے دیکھا تو گھبرا کر اس کے پیچھے لپکی۔۔۔
”دامی۔۔۔کدھر جارہی ہو۔۔۔“
ماہین کی آواز سے پوری حویلی میں جسے بھونچال آگیا تھا۔۔ سب کے کمروں کے دروازے کھل چکے تھے۔۔۔ملازم چوکنے ہوگئے تھے۔۔
وہ پورچ عبور کرتی اب لان میں پہنچ گئی تھی۔۔ ادھم وہیں کھڑا تھا۔۔ واپسی کا سفر اس کے لیے کس قدر مشکل تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔ وہ پوری طرح بارش میں بھیگ چکا تھا۔
وہ پھولے سانس کے ساتھ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”ادھم بھائی۔۔۔“ اس کے آنسوؤں کا نمکین پانی بارش کے بوندوں میں گھل مل گیا۔
ادھم نے سالوں بعد کسی رشتے کی محبت کو محسوس کیا تھا۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔
وہ اس کے گلے لگ گئی۔
”پتا ہے میں نے آپکا کتنا انتظار کیا۔۔؟؟ ہم سب نے۔۔“ وہ جیسے ہی الگ ہوئی تو ادھم کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑی ماہین پر پڑی۔۔۔ وہ اس کی ماں تھی جس نے تھوڑی سی لاپرواہی کی ایک لمبی سزا کاٹی تھی۔۔۔ وہ بےیقینی سے ادھم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ یوں جیسے یہ سب خواب ہو۔۔۔
کتنے سال گزر گئے تھے۔۔۔ کتنے سال۔۔۔وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کو۔۔۔ اس کی آواز سننے کو۔۔۔اسے محسوس کرنے کو ترسی تھی۔۔۔ اس کا یہ بیٹا فزیکلی کمزور تھا۔۔۔ بچپن سے دمے کا شکار تھا۔۔۔ وہ ہر رات یہی سوچ کر روتی تھی کہ جب اسے دمے کا اٹیک ہوتا ہوگا تو وہ کیسے خود کو سنبھالتا ہوگا۔۔۔
وہ دائمہ سے الگ ہوتا اپنی ماں کی جانب بڑھا۔۔۔جس سے وہ اس لیے نفرت کرتا آیا تھا کہ وہ اس کے باپ سے ویسی محبت نہیں کر پائی تھی جیسی اس کا باپ اس کی ماں سے کرتا تھا۔۔۔ اسے اپنی ماں ہمیشہ بےوفا لگی تھی۔۔۔
پر وہ یہ نہ جان سکا کہ اس کی ماں نے پوری زندگی بیوگی میں گزار دی۔۔۔ اور اپنے بیٹے کا انتظار کرتے کرتے۔۔۔
”مام۔۔۔“ سالوں بعد اس کے لبوں سے یہ لفظ پھسلا تھا۔۔۔وہ اس کی جانب بڑھا پر ماہین لڑکھڑا کر ایک جانب گرگئی۔۔۔اگر وہ تیزی سے لپک کر اسے نہ پکڑتا تو وہ زمین بوس ہوجاتی۔
✿••✿••✿••✿
سید حویلی کا ماحول یک دم ہی بدل گیا۔۔۔ جہاں سوگ کا سماں تھا وہاں اب سب کے چہروں پر خوشی اور حیرانی تھی۔ ماہین حمدان تو اسے وہاں دیکھ کر صدمے میں ہی چلی گئی۔
”ایم سوری مام۔۔ میں نے بہت دیر کردی۔۔۔“ وہ ماہین کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا جب ماہین اس کے چہرے کو بار بار چھو کر دیکھ رہی تھی۔۔ وہ پہلے سے کافی کمزور ہوگیا تھا لیکن ان سب کے لیے تو ٹین ایج کے لحاظ سے اب بہت بہتر تھا۔
”میں نے بہت انتظار کیا تمہارا ادھم۔۔۔“ ماں ماں ہوتی ہے۔۔ بچہ کیسا بھی ہو کتنا بڑا جواری یا نشئی کیوں نہ ہو ماں کے لیے وہ اس کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
”بھائی تو یہاں سے جا کر ماثیل بن گئے۔۔ وہی جو بننا چاہتے تھے۔۔۔“ دائمہ نے کہا تو وہ ہولے سے مسکا دیا۔
”میں ماثیل نہیں ہوں اب۔۔۔ سب ختم ہوچکا ہے۔۔ میں اب صرف ادھم ہوں۔۔۔ آپکا بیٹا۔۔“ اس نے ماہین کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔
”اب تو نہیں جاؤ گے نا؟؟“ وہ التجائی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھنے لگی۔
وہ کہنا چاہتا تھا پتا نہیں۔۔۔ پتا نہیں یہاں کب تک رک پاؤں گا۔۔ پتا نہیں منزل تک پہنچ پاؤں گا یا نہیں۔۔ لیکن اس نے صرف ناں میں گردن ہلادی۔۔ کہ وہ اب کہیں نہیں جائے گا۔
دائمہ کچھ دیر کے لیے اپنا سارا دکھ درد بھول گئی تھی۔۔۔اسے یاد رہا تو بس اتنا کہ اس کا بھائی لوٹ آیا تھا۔
ادھم جبیل۔۔۔ سید حویلی کا ایک اور وارث لوٹ آیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”قسم لے لو مجھ سے لیکن میں نہیں جانتا ایمان کہاں ہے۔۔۔“
کرسی سے بندھے مشارب کی حالت خراب ہوچکی تھی۔
”تو تم وہاں کیا لینے گئے تھے۔۔۔؟؟ تم اس کے اپارٹمنٹ کیا لینے گئے تھے۔۔؟؟“ ہڈی میں چھپے آدھے چہرے والے شخص نے سرد لہجے میں سوال کیا۔ مشارب نہیں جانتا تھا وہ کون تھا۔۔۔ اس کی بدقسمتی کہ وہ ایمان کے اپارٹمنٹ گیا تھا پر واپسی پر کسی نے اسے اغواء کرلیا۔۔ جب ہوش آیا تو خود کو کرسی کے ساتھ بندھا پایا تھا۔۔
اسے یہاں قید ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔ ہڈی والا شخص جو بھی تھا مشارب کو اس سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔
”وو۔۔وہ مم۔۔میں۔۔۔“ مشارب نے تھوک نگلا۔
”تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔تم اس سے ہر رشتہ ختم کر چکے ہو۔۔۔پھر وہاں جانے کا مقصد۔۔“
وہ اس کی کرسی کے گرد گھوم رہا تھا۔۔۔اسٹور نما اس کمرے میں بس اتنی سی روشنی تھی جس میں مشارب کو وہ شخص چلتا پھرتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
”م۔۔میں اس سے بدلا لینا چاہتا تھا۔۔۔ میں غط ارادے سے گیا تھا پر۔۔ وہ مجھے نہیں ملی۔۔۔“ جان بچانے کے لیے اس نے سچ بولنا ضروری سمجھا۔
”کس بات کا بدلا؟؟ اور مہینوں بعد کیوں یاد آیا۔۔۔؟؟“
وہ ایک دم سے پلٹتے ہوئے اس کے اوپر جھکا۔۔۔ مشارب کانپ گیا۔۔۔ اسے یوں لگا جیسے دل پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
”بولو۔۔۔“ وہ دھاڑا۔
”اس نے مجھے خود کو چھونے نہیں دیا۔۔ اس نے مجھے ریجیکٹ کیا۔۔مم۔۔۔میں۔۔۔ “
اس کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے۔۔۔ ہڈی پہنے شخص نے اس کی گردن دبوچ لی تھی۔
”خبردار جو ایمان کا خیال بھی دل میں لائے۔۔۔ خبردار جو کبھی اس کے بارے میں سوچا۔۔۔ یاد رکھنا میری نظریں تم پر ہمیشہ سے ہیں۔۔“
اس نے گرفت تیز کی تو مشارب کی آنکھیں ابل آئیں۔۔۔وہ اب ناں میں گردن ہلا رہا تھا۔۔ اس نے جھٹکے سے چھوڑ دیا۔۔۔پر وہ ابھی اسے آزاد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔ اسی لیے اسے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔پر جاتے ہوئے اس کا منہ بند کرنا نہیں بھولا تھا۔ کمرے میں اندھیرا بڑھ گیا۔۔۔وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا پر آواز گلے میں ہی دم توڑ گئی تھی۔
وہ اسٹور روم کا دروازہ بند کرتا اپنے کمرے میں آیا۔۔ اس نے جھٹکے سے ہڈی اتاری۔۔ وہ حاد تھا۔۔
جو گہرے گہرے سانس لیتا خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ مشارب کی باتوں نے اس کے جسم میں عجیب بےچینی بھر دی تھی۔ وہ بےچینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔
✿••✿••✿••✿
وہ ایک مشہور سنگر بن چکا تھا۔۔ پر وہ کنسرٹ اور شوز اپنے مرضی سے کرتا تھا۔۔ کبھی کبھی وہ ہفتوں غائب رہتا اور جب کبھی اسٹیج پر آتا تو آگ ہی لگا دیتا تھا۔۔
وہ اب کہیں بھی بےدھڑک گھوم نہیں سکتا تھا۔۔۔لوگ اسے پہچان جاتے تھے۔۔ زیادہ تر وہ ماسک لگائے گھومتا تھا۔
کبھی کبھی وہ باکسنگ کے لیے چلا جاتا۔۔۔ زندگی کافی حد تک پرسکون ہوچکی تھی۔۔ پر آج بھی اس کے ذہن میں ایک ہی سوال گھومتا تھا۔۔۔
”کیا حاد نے ایمانے کو ڈھونڈ لیا۔۔۔؟؟“
اس دن اس کا شو تھا۔۔۔ وہ اسٹیج پر پرفوم کر رہا تھا جب اس کی نظر ایک عجیب شخص پر پڑی۔۔۔
وہ سیاہ لباس میں تھا۔۔ سر سے پاؤں تک۔۔۔ وہ چیختے چلاتے لوگوں کے درمیان سرد نظریں اس پر جمائے کھڑا تھا۔۔
عبدل چونک گیا۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھا کوئی فین ہرگز نہیں تھا۔
جب وہ پرفوم کر چکا تھا تو اس نے اس ماسک والے شخص کو بھیڑ سے نکلتے دیکھا۔۔۔
عبدل سب وہیں چھوڑ کر اسٹیج کے پیچھے کہیں غائب ہوگیا۔۔۔ جیسے ہی وہ ہال سے باہر نکل کر سڑک پار کرنے کے بعد سنسان گلی میں داخل ہوا اچانک ہی کسی نے اسے دھکا دیا۔۔۔
وہ لڑکھڑایا۔۔۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو عبدل اس کے پیچھے تھا۔۔۔وہ خود بھی ماسک لگا کر آیا تھا پر وہ شخص اسے پہچان گیا تھا۔
”کون ہو تم۔۔۔؟؟“ عبدل نے غراہ کر پوچھا۔
لیکن وہ شخص اسے دیکھ کر مسکرایا اور بھاگنا شروع کردیا۔۔ عبدل نے اس کا پیچھا کیا۔۔
وہ تاریک گلیوں میں بھاگ رہے تھے۔۔۔ عبدل نے اسے کئی بار پکڑنے کی کوشش کی لیکن مقابل بھی فائٹنگ میں کافی قابل تھا۔۔۔ وہ دونوں اب قدرے سنسان جگہ پر پہنچ چکے تھے۔۔ اور پھر وہ شخص رک گیا۔
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں کون ہو تم۔۔؟؟“ عبدل نے آگے بڑھتے ایک زوردار مکا اسے رسید کیا۔ لیکن وہ شخص اپنی جگہ سے ہلا ہی نہیں۔۔۔ یوں جیسے فولاد کا بنا ہو۔ وہ ایسے ہنس رہا تھا جیسے کوئی سائیکو ہو۔
”تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔“ وہ پھر آگے بڑھا اور دوسرا مکا مارنے کے لیے ہاتھ گھمایا ہی تھا جب اس شخص نے اس کا ہاتھ فضا میں ہی پکڑ لیا۔
”کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ کیوں اپنی انرجی ضائع کر رہے ہو۔۔“
اس کے کہنے کا انداز ایسا تھا کہ عبدل کے جبڑے بھنچ گئے۔
”صرف یہ بتاؤ تم حاد ہو یا عبدل۔۔۔؟؟“
اور یہ بات سنتے ہی عبدل ٹھٹکا۔۔۔ آخر کون تھا وہ شخص۔۔۔ عبدل نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر اس کا نقاب اتارنا چاہا پر اس شخص نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔۔
عبدل نے زور دار لات اس کی پیٹ میں دے ماری۔۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا۔
”میں نے کہا نا مجھے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔الٹا تم نقصان اٹھاؤ گے۔۔“ وہ پھر سے بولا۔
”تم ہو کون؟؟ عبدل اور حاد کے بارے میں کیا جانتے ہو۔۔۔؟؟“
”میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اپنے باپ کو ڈھونڈ رہے ہو۔۔۔ ملنا چاہو گے ان سے۔۔۔؟؟“
اور عبدل ساکت ہوا۔۔۔ وہ کون شخص تھا جو اس کے باپ تک کو جانتا تھا؟؟
”بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ میرا باپ مر چکا ہے۔۔۔“
عبدل کی بات سنتے ہی اس شخص نے قہقہہ لگایا۔۔۔
”او رئیلی۔۔۔؟؟ پھر تم انہیں ڈھونڈ کیوں رہے ہو؟؟“
وہ عبدل کے قریب ہوتا سرگوشی نما انداز میں بولا۔۔ جبکہ عبدل بری طرح الجھ چکا تھا۔
”میں کسی کو نہیں ڈھونڈ رہا۔۔۔ نہ میں کسی حاد کو جانتا ہوں۔۔۔“ اس نے ماننے سے انکار کردیا۔
”ٹھیک ہے پھر۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔ ہاں پر جب تمہارا ارادہ بدل جائے اور تم اپنے باپ سے ملنا چاہو تو بتا دینا۔۔۔ بلکہ اشارہ دینا۔۔۔ہم سمجھ جائیں گے۔۔ کیونکہ تم ہماری نظروں میں ہو۔۔۔“
”ہم۔۔۔؟ ہم سے مراد کیا تھا؟ کون تھے وہ لوگ۔۔؟؟“
عبدل ٹھٹکا۔
”دوبارہ مجھے نظر مت آنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔“ عبدل اسے وارن کرتا واپس پلٹ گیا۔۔۔پر اس کا دل کر رہا تھا کہ ا شخص سے کہے وہ فوراً اسے اس کے باپ کے پاس لے جائے۔۔۔اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسے موڑ کی توقع نہیں کی تھی۔
”اپنے باپ تک پہنچنا چاہتے ہو تو حاد کو یہاں لے آؤ۔۔۔۔“
اس شخص نے اونچی آواز میں کہا تو وہ لمحہ بھر کو رکا۔۔۔اور پھر چل دیا۔۔۔
حاد۔۔۔حاد۔۔۔حاد۔۔۔۔
جانے وہ ہر جگہ کیوں تھا۔۔۔
اس کے سینے میں الاؤ جل اٹھا تھا۔۔۔۔لیکن وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
✿••✿••✿••✿
میں چاہتی ہوں
میں تمہیں بتاؤں
کہ کاش کوئی لفظ
میری اذیت کے معیار پہ پورا اترے
تو میں تمہیں بتاؤں
کہ درد اور تکلیف اس اذیت سے
بہت چھوٹے لفظ ہیں
جو میں محسوس کرتی ہوں..!
وہ کھوئے کھوئے انداز میں بیٹھی اذیت سے بھرے لفظوں کو کاغذ پر اتار رہی تھی۔۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ یہ کام صدیوں سے کرتی چلی آرہی ہو۔
جب کاغذ پر مزید جگہ نہ بچی تو اس نے وہ کاغذ فولڈ کیا اور لفافے کے اندر ڈال دیا۔۔
پھر اس نے اس لفافے پر نام پتہ لکھا۔
حاد جبیل۔۔۔ ایک خاص شخص کے نام جس نے مجھے عام بنادیا۔۔
اس کے بیڈ پر ایسے اور بھی لفافے پڑے تھے۔۔۔یہ شاید آخری خط تھا۔۔ اس نے ابھی تک ایک بھی خط بھیجا نہیں تھا۔ وہ لکھ لکھ کر اپنے پاس ہی رکھ رہی تھی۔۔
دو ماہ۔۔۔ دو ماہ وہ ہاسٹل کے کمرے میں بند تھی۔۔۔اس نے باہر نکل کر دنیا نہیں دیکھی تھی۔۔ اس کے پاس فون بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اس کا کھانا اس کے کمرے میں آجاتا تھا جسے وہ کبھی کھا لیتی تو کبھی پڑا رہتا۔۔
پورے ہاسٹل میں اس کے بارے میں اب عجیب باتیں پھیلنے لگی تھیں۔۔۔ لوگ اسے نفسیاتی سمجھنے لگے تھے۔۔
رات کو اس کمرے سے اکثر رونے کی اور کبھی زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں۔
کچھ لڑکیاں اسے آسیب زدہ سمجھ رہی تھیں۔۔ وہ وارڈن کو شکایت کر چکی تھیں کہ ایسی لڑکی کو ہاسٹل میں کیوں رکھا تھا جس کا رویہ بڑا ہی عجیب تھا۔۔۔۔ اور وارڈن نے اسے ہاسٹل سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
حال سے منسوب۔۔۔
وہ تیزی سے ہسپتال کی راہداری میں آگے بڑھتا جارہا تھا جب اس کا فون بج اٹھا۔۔ اس نے فون کال کو اگنور کردیا۔۔ لیکن وہ پھر سے بجنے لگا تو اسے فون اٹھانا پڑا۔ سید جبیل کی کال تھی۔
”السلام علیکم بابا جان! کیسے یاد کیا۔۔۔؟؟“ وہ تیز تیز چلتا ان سے بات کر رہا تھا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔کیوں برخوردار میں اپنے پوتے کو یاد نہیں کر سکتا۔۔۔؟؟“ سید جبیل کی آواز میں کافی بشاشت تھی۔
”بالکل کر سکتے ہیں۔۔ میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔“
”اسلام آباد سے کب واپس آرہے ہو۔۔۔تمہیں وہاں گئے چھ مہینے ہوگئے ہیں۔۔“
ان کی بات پر وہ خاموش ہوگیا۔۔ وہ یہاں سے نہیں جا سکتا تھا جب تک وہ پوری طرح ٹھیک نہ ہوجاتی۔۔۔ وہ فی الوقت کسی کو میسر نہیں تھا۔
”بس دعا کریں۔۔ میں جلد آسکوں۔۔۔“
اس کی بات میں چھپا مطلب سید جبیل نہیں سمجھ پائے۔
”خیر۔۔۔ تمہیں شکریہ کہنے کے لیے فون کیا تھا۔۔ آخر تم نے اپنا وعدہ پورا۔۔۔“
وہ الجھا۔۔
”کیسا شکریہ۔۔۔؟؟“
”ادھم لوٹ آیا ہے۔۔۔۔ وہ واپس آچکا ہے۔۔۔“
اور حاد وہیں رک گیا۔۔۔یوں جیسے اس کے پاؤں زمین نے جکڑ لیے ہوں۔
”اس کو یہاں آئے کافی وقت ہوگیا ہے۔۔۔ سوچا تھا تم آؤ گے تمہیں سرپرائز دیں گے۔۔۔ پر مجھ سے انتظار نہیں ہوا۔۔۔ جب تم اسلام آباد گئے تھے وہ تب ہی آگیا تھا۔۔۔“
اور حاد کو جیسے یقین نہ ہوا۔
”تم نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۔۔تم اسے لے آئے۔۔۔ حاد جبیل مجھے تم پر فخر ہے۔۔۔“ اس نے بےساختہ دیوار کا سہارا لیا۔۔ اگر وہ ٹیک نہ لگاتا تو کھڑا نہ رہ پاتا۔
”میرے جاننے میں آیا ہے کہ ادھم کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے۔۔۔کیا یہ وہی لڑکی ہے جس کی تصویریں تمہارے بندوں نے مجھے بھیجی تھیں۔۔۔اگر وہی ہے تو پتا لگاؤ۔۔۔ میں چاہتا ہوں اب ادھم کی شادی کردی جائے۔۔تاکہ یہ دوبارہ کہیں نہ جا سکے۔۔۔“ سید جبیل اور بھی کچھ بول رہے تھے۔۔۔وہ سننے کے قابل کہاں رہا تھا۔۔
اس کی نظر سامنے گلاس ونڈو سے نظر آتے اس وجود پر پڑی جو بےسدھ سو رہی تھی۔
ہاں وہ واپس آگیا تھا۔۔۔پر اس کی قیمت حاد کو ابھی چکانی تھی۔۔۔ بھاری قیمت۔۔۔ اور وہ چکا رہی تھی۔۔۔ اپنا آپ بھول کر۔۔ جس کی وجہ سے وہ واپس آیا تھا۔
اسے واپس لانے والے وہی دو تھے۔۔۔اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ جس تکلیف سے گزر رہے تھے یہ سید جبیل کبھی نہیں جان سکتے تھے۔
”بہت بھاری قیمت چکائی ہے میں نے ادھم کو واپس لانے کی سید جبیل صاحب۔۔۔ ایک ایسی لڑکی کو کھو دیا جس کی میں پہلی محبت تھا۔۔۔“ وہ فون کو دیکھتا ہولے سے بڑبڑایا۔۔۔اس کی جیکٹ اس کے بائیں بازو پر پڑی تھی۔
وہ چلتا ہوا ونڈو کے قریب آیا۔۔۔وہ نشہ آور دواؤں کے زیر اثر سو رہی تھی۔۔۔ اور اسے سوتے دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
✿••✿••✿••✿
دائمہ اپنے کمرے میں تھی جب ادھم اس کے پاس آیا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔۔ وہ لیپ ٹاپ کھولے کام کرنے میں مگن تھی۔
”ادھم بھیا آپ۔۔۔ اندر آجائیں۔۔۔“
اس نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ دیا۔
”تو یہ تمہارا کمرہ ہے۔۔۔“ وہ اتنے دنوں میں پہلی بار اس کے کمرے میں آیا تھا۔۔۔ وہ یہاں آگیا تھا پر یہاں کیسے رہ رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔ اسے نشے کی لت تھی۔۔۔ اکثر اس کی طبیعت اتنی خراب ہوجاتی کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑتا۔۔۔ جبیل خاندان میں سب پریشان تھے لیکن خوش بھی تھے کہ اس کی یہ عادت آہستہ آہستہ چھوٹ رہی تھی۔۔ کبھی کبھی وہ بری طرح تڑپتا تھا۔۔۔کبھی کبھی وہ بےہوشی یا نیند کی حالت میں کچھ بولتا تھا۔۔ کبھی کبھی کسی کا نام لیتا تھا۔۔۔
اب تک کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔ وہ ٹھیک ہورہا تھا۔۔ حویلی میں ہی اس کا پورا علاج چل رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس تصویر پر پڑی جو کافی پرانی تھی۔
دائمہ چھوٹی سی تھی اور ایک سرخ دوپٹہ لے کر بیٹھی تھی۔۔۔وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔۔ اس کے دونوں ہاتھوں پر مہندی لگی تھی۔
”یہ تمہارے پاس اب تک ہے؟؟“ وہ تصویر اٹھا کر دیکھنے لگا۔
اسے دیکھ کر دائمہ مسکرادی۔
”یہ حانم چچی کا دوپٹہ ہے۔۔۔ جب بڑے بابا نے میری اور عبدل کی منگنی۔۔۔“
وہ بولتے بولتے اچانک چپ ہوگئی۔۔۔ دل کو دھکا سا لگا تھا۔۔۔زخم ابھی تازہ تھا۔۔۔ اکـثر اس سے خون رسنے لگتا تھا۔
”واٹ ربش۔۔۔۔“ وہ استہزائیہ ہنسا۔۔۔ پر جیسے ہی اس کی نظر دائمہ پر پڑی وہ چونک گیا۔۔ دائمہ کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔
”آر یو اوکے۔۔۔؟؟“ اس نے دائمہ سے پوچھا تو وہ زبردستی مسکائی۔
”اب یہ مت کہنا تم بچپن کے اس رشتے میں بندھی بیٹھی ہو۔۔۔“ ادھم نے جیسے ہی کہا تو دائمہ نے سر جھکا لیا۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔۔
”واٹ دا ہیل۔۔۔“
اس نے دائمہ کو کندھے سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔
”کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ۔۔۔؟؟“
ادھم نے پوچھا تو دائمہ نے اپنے آنسوں چھپانے کی ناکام سی کوشش کی۔
”ریلیکس ہوجاؤ دامی۔۔۔“
اس کے کہنے پر دائمہ نے گہرا سانس لیا۔
”کیا آپ بھی جانتے ہیں کہ عبدل زندہ ہے۔۔۔؟؟“
سوال ایسا تھا کہ اس بار ادھم کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔۔۔وہ کیسے بھول سکتا تھا۔۔۔وہ شام جب اس نے ایمان کو عبدل کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔ اسے اپنے سینے کے مقام پر چبھن کا احساس ہوا۔ کتنا مشکل تھا اس تکلیف کو سہنا۔۔
”وہ کافی مشہور سنگر ہے۔۔۔ میں نے اسے اکثر ٹی وی پر دیکھا ہے۔۔۔ پر تم پریشان مت ہو۔۔کوئی تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا۔۔۔“ اس نے دائمہ کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی پر وہ نہیں پورے سچ سے نا واقف تھا۔
”کیا آپ کو کسی سے محبت ہوئی ہے؟؟“
اگلے سوال پر وہ چونک گیا۔۔۔ پھر ہنس دیا۔۔۔اس کی ہنسی میں درد تھا۔۔
”ہاں ہوئی ہے۔۔۔“ وہ اب بیڈ سے کچھ فاصلے پر رکھے اس سنگل سیٹر صوفے پر بیٹھا تھا جس پر کچھ دیر پہلے دائمہ بیٹھی کام کر رہی تھی۔
”کتنی بار۔۔۔؟؟“
اگلے سوال پر اس کی ہنسی بےساختہ تھی۔
”ایک ہی بار۔۔۔۔“
”اس سے پہلے اور اس کے بعد۔۔۔۔؟؟“
دائمہ کے سوال اب اسے تکلیف دے رہے تھے۔۔۔لیکن وہ انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا تھا۔
”اس سے پہلے جو تھا وہ محبت نہیں تھی۔۔۔اور اس کے بعد تو بس درد ہی درد ہے۔۔۔“
وہ سچ بول رہا تھا۔۔۔اس کی سرمئی آنکھیں اس کا ساتھ دے رہی تھیں۔
”کہاں ہے وہ لڑکی اب؟؟ اور نام کیا ہے اس کا۔۔۔؟؟“
”ایما کی شادی ہوچکی ہے۔۔۔“
اس نے ایک ہی بات میں دونوں سوالوں کے جواب دے دیے۔
دائمہ کو بےاختیار اس پر ترس آیا تھا۔
”کیا وہ بہت خوبصورت تھی۔۔۔؟؟“ وہ متجسس تھی۔۔۔ اس لڑکی کے بارے میں جاننے کو جس سے ادھم جبیل نے محبت کی تھی۔
اس کے سوال اور اس کے انداز پر وہ پھر سے ہنسا۔۔۔
”تم اب کام کرو باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔۔۔“
وہ اٹھ کر اس کے سر پر چت لگاتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
”آپ نے اسے جانے کیوں دیا؟؟“
عقب سے دائمہ کی آواز ابھری اور اس کے قدم رک گئے۔

6 Comments

  1. Next episode kb aey gi

    ReplyDelete
  2. Give her a round of applause for such a wonderful novel

    ReplyDelete
  3. Who will get Iman Bint Abdullah? Adham or Haad Jabeel 😟

    ReplyDelete
  4. When will the next epi release?

    ReplyDelete
  5. Next episode agi ha yaha publish q ni hoi abhi tak episode 44 plz jldi publish kry

    ReplyDelete
  6. Why you can't publish next episode

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post