Maseel novel Episode 43 - part 01

 

Maseel novel episode 43

میں عبدل نہیں ہوں!
”آخر آپ میرے اتنے امتحان کیوں لے رہے ہیں؟؟ آخر کب تک میں آپ کی بےرخی برداشت کروں؟؟؟“
دائمہ اس کے رویے سے تنگ آچکی تھی۔ مسلسل اپنے میسجز کو اگنور ہوتے دیکھ کر وہ بالآخر پھٹ ہی پڑی۔
حاد نے اسے بولنے دیا۔۔۔ وہ جانتا تھا دائمہ غلط نہیں تھی۔غلط تو وہ سب تھے۔۔ جب اسے سچائی پتا چلتی جانے وہ کیا کرتی۔
”اب آپ چپ کیوں ہیں؟ کچھ بولیں کوئی جواب دیں۔۔ آپ کی اس خاموشی نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔۔۔ ویسے تو آپ گھنٹوں بولتے ہیں اپنے سیشنز میں، لیکن میرے لیے آپ کے پاس ایک لفظ بھی نہیں ہے۔۔۔ کیا آپ کو ذرا سا احساس نہیں۔۔“
”احساس ہے دائمہ اسی لیے خاموش ہوں۔۔“
اس کے لبوں سے اپنا نام سن کر وہ ساکت ہوگئی۔۔۔ فون کان سے لگائے وہ جانے کتنے لمحے اس سحر میں جکڑی رہی جو اپنا نام اس کے لبوں سے سننے پر قائم ہوا تھا۔
”میں آپ کی بچپن کی فیانسی ہوں۔۔ اس کے علاوہ ہم کزنز بھی ہیں۔۔۔ ہمارے دو دو رشتے ہیں۔۔ کیا آپ کے پاس کسی ایک رشتے کے لیے بھی ٹائم نہیں ہے؟؟“ وہ نم آنکھوں سے شکوہ کر رہی تھی۔ اس کی بات سن کر حاد نے گہرہ سانس لیا تھا۔ پہلے ہی سید جبیل پچھلے دو دنوں سے لاہور میں اس کے ساتھ رہ رہے تھے۔۔۔ وہ ان کی موجودگی میں کافی محتاط تھا۔۔۔ اسے پہلے ہی دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا اور اب دائمہ کی یہ ضد۔۔۔ اسے سمجھ نہ آیا کیا کرے۔
”ایک کزن ہونے کے ناطے تم میرے لیے قابل احترام ہو۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔۔۔ دوسری جانب دائمہ کو اپنا دل بیٹھتا محسوس ہوا تھا۔۔
وہ ڈرائنگ روم میں تھی جہاں دیوار پر حشام جبیل کی پینٹنگ تھی۔۔۔۔۔ اس کا سائز پوری دیوار سے کچھ ہی کم تھا۔۔۔ سفید کلف لگے کپڑوں میں، سیاہ شال کندھوں پر ڈالے وہ شخص ہاتھ میں کوئی کتاب لیے کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔وہ کتاب پڑھ رہا تھا۔
بنانے والے بڑی فرصت سے بنایا تھا۔۔ وہ سحر انگیز تھا۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔
وہ جب جب یہ پینٹنگ دیکھتی تھی اسے احساس ہوتا تھا کہ اس کی ماں آخر کیوں اس شخص کے عشق میں اتنی بری طرح گرفتار ہوئی تھی کہ سالوں گزر جانے کے بعد بھی وہ عشق قائم رہا۔۔۔۔
اس نے چہرہ گھمایا اور پھر اس کی نظر اس بڑے سے فریم پر پڑی جس میں اس کی تصویر لگی تھی۔۔۔۔
وہ حاد جبیل جو ظاہری حلیے میں کس قدر حشام جبیل سے ملتا تھا۔۔۔یہ تصویر اسی ڈرائنگ روم میں کھینچی گئی تھی۔۔ حشام جبیل کی دیوار گیر پینٹنگ کے نیچے رکھے بھورے رنگ کے بڑے سے صوفے پر وہ براجمان تھا۔۔اس نے اسی طرح کا سفید کلف لگا سوٹ پہن رکھا تھا۔۔۔البتہ کندھوں پر گہرے بھورے رنگ کی شال تھی۔۔۔ یہ فوٹو بھی اسی پینٹنگ کے سائز کی تھی۔۔۔اور کمال یہ تھا کہ اس فوٹو میں حاد جبیل اور حشام جبیل دونوں تھے۔۔۔کیونکہ حاد کے پیچھے تھوڑا اوپر دیوار پر حشام جبیل کی پینٹنگ تھی۔۔۔
”کیا میری ماں کی طرح میں بھی اس شاندار شخص سے محروم رہ جاؤں گی؟؟“ اس نے تاسف سے سوچا۔
”ہرگز نہیں۔۔۔“ پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ وہ جیسے چونکی۔۔۔ وہ تو فون پر بات کر رہی تھی پر اس کی تصویر نے دائمہ کو ایسا الجھایا کہ وہ بھول ہی گئی۔۔
اس نے جلدی سے فون کو دیکھا۔۔۔ پر کال کٹ چکی تھی۔
حاد جبیل کے پاس اتنا ٹائم نہیں تھا کہ وہ فرصت سے بیٹھ کر اس کی خاموشی سنتا۔
دائمہ کا دل کلس کر رہ گیا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے۔۔۔ ہتھیلی سے رگڑتے ہوئے اس نے سید جبیل کا نمبر ملایا۔ اب وقت آگیا تھا کہ دو ٹوک بات کی جاتی۔
✿••✿••✿••✿
”دیکھو برخوردار میں تم سے صاف صاف بات کرنا چاہتا ہوں اور میں جانتا ہوں تم میری بات کا مان رکھو گے۔۔ اپنے باپ کی طرح بالکل نہیں کرو گے۔۔“
دائمہ سے بات کرنے کے کچھ دیر بعد ہی سید جبیل نے اسے لاؤنج میں طلب کرلیا تھا۔۔ وہ ملتان واپس نہیں جا رہے تھے اور ان کی یہ بات حاد کو کھٹک رہی تھی۔
سعد وہیں لاؤنج سے ملحقہ کچن میں کھڑا کافی بنا رہا تھا۔
”جی بابا بولیں۔۔“ وہ کھڑا تھا۔۔ کچھ دیر پہلے تک سعد حاد کے ساتھ اس کے کمرے میں تھا۔ وہ کسی اہم میٹنگ میں مشغول تھے۔ سید جبیل نے اس کی بات سن کر گلا کھنکارا اور کن انکھیوں سے سعد کی جانب دیکھا۔ واضح اشارہ تھا کہ وہ سعد کی موجودگی میں بات نہیں کرنا چاہتے۔
سعد اور حاد کو اکٹھا دیکھ کر سید جبیل کو بےاختیار مکی اور آرجے یاد آتے تھے۔۔۔فرق صرف یہ تھا یہ دونوں شریف تھے اور وہ دونوں۔۔۔
”لاحولہ“ سید جبیل نے سر فوراً سر جھٹکتے ان عجیب و غریب حلیے والے مکی اور آرجے کا خیال ذہن سے نکالا۔
”آپ بات کر سکتے ہیں۔۔۔سعد میرے لیے فیملی کی طرح ہے۔۔“
حاد سنجیدہ لہجے میں کہتا ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔
وہ اسی انداز میں بیٹھا جس انداز میں سید جبیل بیٹھے تھے۔
”کوئی بات نہیں حاد بھائی۔۔ آپ لوگ آرام سے بات کریں میں یہ کافی لے کر اوپر جا رہا ہوں۔۔“ سعد نے کہا اور تیزی سے کپ اٹھا کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔۔۔ سید جبیل کی شخصیت ہی ایسی تھی کوئی ان کے سامنے مشکل سے ہی ٹک پاتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد سید جبیل نے حاد کو دیکھا۔۔ وہ ان کے عین سامنے بیٹھا تھا۔۔۔درمیان میں کانچ کا بڑا سا ٹیبل تھا۔
حاد بالکل بھی گھبرایا ہوا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا سید جبیل اس وقت اس سے دادا نہیں بلکہ سید حیدر جبیل کی خاصیت سے کوئی حکم دینا چاہ رہے تھے۔۔۔
تو کیوں نا ان سے صرف نہیں بلکہ حاد جبیل بن کر ملا جاتا۔
”دیکھو اب وقت آگیا ہے کہ تم دونوں کی شادی کردی جائے۔۔۔ دائمہ کی اور تمہاری۔۔“ وہ اپنے باپ کی طرح ان کے ہاتھ نہیں آتا تھا البتہ سید جبیل جانتے تھے وہ حشام جبیل کی طرح اخلاقیات کا قائل ہے۔۔۔ وہ انکار نہیں کر پائے گا۔
”اور آپ کو کیوں لگا وہ وقت آچکا ہے؟؟“ وہ انہی کے انداز میں پوچھنے لگا۔ سید جبیل نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
خاکستری رنگ کی پینٹ پر سیاہ فارمل شرٹ پہنے ہوا تھا۔۔ شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھلے تھے اور کف کہنیوں سے ذرا نیچے تک فولڈ تھے۔ اسکے بال پیچھے کی جانب سلیقے سے سیٹ تھے۔ اس کی گرے چمکتی آنکھیں سرخ تھیں۔۔ تھکاوٹ اور رت جگوں کی شکار۔۔۔ وہ کتنا بھی تھکا ہوتا پر ہمیشہ ایسے ہی رہتا تھا۔۔۔ سید جبیل تو کیا کبھی کسی نے اسے رف حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔
”تم دونوں کی شادی کی عمر ہوگئی ہے۔۔۔ اور بچیوں کی جتنی جلدی شادی ہو اتنا اچھا ہے۔۔“ سید جبیل بھی سنجیدہ تھا۔
”وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔میں لڑکی ڈھونڈ لوں گا اپنے لیے پر دائمہ کا کیا؟؟ آپ نے اس کے لیے لڑکا ڈھونڈلیا۔۔؟؟“
وہ نارمل انداز میں کہتا سید جبیل کو سلگا گیا تھا۔۔۔
وہ اتنا معصوم کیوں بن رہا تھا؟
”کیا مطلب لڑکا ڈھونڈ لیا؟؟ میں تمہاری اور دائمہ کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔۔ “ سید جبیل نے ضبط کرتے کہا۔
”آپ سے یہ کس نے کہا میں دائمہ سے شادی کر رہا ہوں؟؟“ اس نے اس بار سید جبیل کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔
وہ ہمیشہ سے اپنے بڑوں کی خوشیوں کے لیے بہت کچھ کرتا آیا تھا۔۔۔ وہ ان کو خوش دیکھنے کے چکر میں ایمانے کا دل توڑ چکا تھا۔۔۔
”وہ تمہاری منگیتر ہے۔۔۔کیسی باتیں کر رہے ہو؟؟“
”آپ بھول رہے ہیں وہ میری نہیں عبدل کی منگیتر ہے۔۔۔ جبکہ میں عبدل نہیں ہوں۔۔۔“ اس نے ایک ایک لفظ پر زور ڈالتے کہا۔ سید جبیل خاموش ہوگئے۔۔۔ وہ بس اسے گھورتے رہے۔۔۔ فوراً کوئی جواب نہیں بن پایا تھا۔
”وہ تمہیں ہی عبدل سمجھتی ہے۔۔۔“ کافی دیر بعد وہ بولے تو ان کی آواز میں پہلے جیسی سختی نہیں تھی۔
حاد ان کی بات سن کر ہولے سے مسکا دیا۔۔۔پھیکی مسکان۔۔۔ خود کا مزاق اڑاتی ہوئی۔۔۔وہ اب صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔۔اس کی داہنی کہنی صوفے کے بازو پر ٹکی تھی، انگوٹھے سے وہ اپنی ٹھوڑی سہلا رہا تھا، اور نظر دائیں جانب موجود اس دیوار پر جمی تھی جہاں آرجے مکی اور شاموں کاکا کی بہت ساری تصویریں چسپاں تھیں۔
”یہ آپ لوگوں کی غلطی ہے۔۔میری نہیں۔۔ میں عبدل بن کر کسی لڑکی کی زندگی میں داخل نہیں ہو سکتا۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔۔۔“
اس کا انداز اتنا دو ٹوک تھا کہ سید جبیل ساکت رہ گئے۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔۔۔لب پھڑپھڑائے پر الفاظ اندر ہی کہیں دب گئے۔ ان کے تصور کے پردے پر دائمہ کا چہرہ ابھرا۔۔۔
”دائمہ کا دل ٹوٹ جائے گا حاد۔۔۔“ وہ اب سید جبیل سے اس کے دادا بن آئے تھے۔
”میں نے اس کا دل کبھی رکھا ہی نہیں بابا جان۔۔۔“
وہ بھی انہی کے انداز میں بولا تھا۔
”تو اب رکھ لو۔۔۔ میں اس بچی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔“ وہ اب جیسے التجا کر رہے تھے۔
”یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔۔۔“
وہ ابھی بھی اپنی ٹھوڑی کو سہلا رہا تھا۔
”میں اس کو کیا جواب دوں گا؟؟“ سید جبیل اب حقیقتاً پریشان ہوگئے تھے۔۔ اتنا تو وہ جان گئے تھے کہ سامنے بیٹھا لڑکا روحان جببیل عرف آرجے کی اولاد تھا۔۔۔وہ اپنا فیصلہ بدلنے والا نہیں تھا۔
”یہ مجھے کیسے معلوم ہوگا؟؟ بہتر ہوگا آپ اسے سچ بتادیں۔۔ میں عبدل نہیں حاد ہوں۔۔۔“
”برخوردار تم مجھے مشکل میں ڈال رہے ہو۔۔۔“ سید جبیل کے تنے کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔۔۔
”اور آپ مجھے ایک معصوم لڑکی کو دھوکا دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔۔“
وہ اب ان کی جانب متوجہ ہوا۔
”ویسے بھی عبدل زندہ ہے۔۔۔وہ لوٹ آئے گا۔۔۔میں اسے لے آؤں گا۔۔۔“
”تم نے تو ادھم کو لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔۔ تم نے تو روحان جبیل کو ڈھونڈ لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔۔“
سید جبیل نے اٹھتے اٹھتے اس پر چوٹ کی۔
”حاد جبیل اپنے وعدے پر قائم ہے۔۔۔“
سید جبیل اس کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر گہرا سانس لیتے اپنے کمرے کی جانب بڑھے۔
”آپ کل ملتان واپس چلے جائیں۔۔۔ یہ میرا کام ہے میں سے اپنے طریقے سے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔“
سید جبیل ٹھہرے ضرور تھے۔۔لیکن پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔ وہ پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔ان کے جانے کے بعد اس نے اپنا سانس بحال کیا۔
کتنا مشکل تھا نا حشام جبیل سے روحان جبیل بننا۔۔۔
سر جھکا کر بڑوں کی مان لینے سے اپنے حق کے لیے لڑنا۔۔۔
کتنا مشکل تھا نا۔۔۔ اپنی مرضی سے جینا۔۔۔
اگلی صبح سید جبیل ملتان واپس چلے گئے اور وہ اسلام آباد آگیا اس بات سے بےخبر کہ اس کی سزا شروع ہونے والی تھی۔۔۔۔
✿••✿••✿••✿
سلمی بیگم واپس تو آگئی تھی لیکن وہی جانتی تھیں کہ پورے راستے ان پر کیا گزری تھی۔۔ ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔۔۔۔حمیزہ نے انہیں بڑی مشکل سے سنبھالا تھا۔۔۔ان کی رات آنکھوں میں کٹی تھی۔۔ حمیزہ کی نظروں میں تو بار بار ایمان کا چہرہ ابھر رہا تھا۔۔
اس شام گھر کا چولہا نہیں جلا۔۔ نہ کچھ پکایا نہ کچھ کھایا۔۔
سلمی بیگم کے لیے یہ غم کسی موت سے کم نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کو طلاق ہوگئی تھی۔۔۔
کیا جواب دیتیں وہ سب کو؟؟ یہی خیال انہیں کھا رہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔رات آہستہ آہستہ ڈھلنے لگیں۔۔۔
آہستہ آہستہ جب غصے اور نفرت کی شدت کم پڑنے لگی تو ایمان کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔
اس کی حالت بالکل بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ اس طلاق سے خوش تھی یا اس نے جان بوجھ کر ایسا کچھ کیا تھا۔۔
دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو انہیں احساس ہوا کہ مشارب کیا کرنے جا رہا تھا۔۔۔
بیٹی کی گناہ ان کی نظروں میں کم پڑا تو انہیں احساس ہوا کہ مشارب کتنا بڑا گناہ کرنے جا رہا تھا۔۔اگر اس کی ماں ایسا نہ کرتی تو وہ کبھی مانتا ہی نا کہ وہ ایمان کو طلاق دے چکا ہے۔۔
ان کی بےچینی بڑنے لگی۔۔۔
فجر کی اذان سے ذرا پہلے انہوں نے حمیزہ کو پکارہ۔۔۔
”ایمان کا نمبر ملاؤ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔“ سلمی بیگم کے دل کو اب کچھ ہوا رہا تھا۔
”شام سے ملا رہی ہوں امی۔۔۔ان کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔“
سلمی بیگم کے دل کو ہاتھ پڑا تھا۔
”جلدی سے ٹکٹ بک کرو۔۔۔ ہم اسے لینے جارہے ہیں واپس۔۔۔“ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو خیال آیا کہ مشارب جیسا انسان ان کی بیٹی کو اس پرائے شہر میں کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔
”ایمان میری بچی۔۔۔“
کبھی کبھی احساس ہونے تک پانی ہمارے سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
✿••✿••✿••✿
اس سے پہلے تو دعاؤں پر یقیں تھا کم کم
تو نے چھوڑا تو مناجات کا مطلب سمجھے
”مسٹر ماثیل۔۔۔اٹھ جائیں۔۔۔“
ماتھا نے اس کے کمرے کی لائٹ آن کرنے کے بعد ایک جھٹکے سے دیوار گھیر کھڑکی سے پردے ہٹا دیے۔۔۔ باہر سورج چمک رہا تھا۔۔۔جس کی روشنی سیدھا اس کے چہرے سے ٹکرائی۔۔
وہ جانے کب سے سو رہا تھا۔۔۔ بہت دنوں سے وہ اس کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا۔۔۔انسٹیٹیوٹ بند ہوچکا تھا۔۔
اس نے مجسمہ سازی کب کی چھوڑ دی تھی۔۔ اس نے شنایا سے بڑی مشکل سے پیچھا چھڑایا تھا۔۔ جانے کیوں وہ جب بھی اس کے سامنے آتی تھی ماثیل کی تکلیف مزید بڑھ جاتی تھی۔۔۔
اسی لڑکی کے ساتھ وہ اپنی محبت سے مکر کر بےوفا ہوا تھا۔۔۔۔۔ یہ خیال اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا کہ ایمان نے اسے اور شنایا کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔۔۔
اس کے کمرے میں جگہ جگہ سگریٹ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔۔۔وہ نشہ کر کر کے بھی تنگ آچکا تھا۔۔ نہیں گیا تو یہ خیال نہیں گیا کہ وہ بےوفا تھا۔۔ایمان نہیں۔۔۔
نہیں گیا تو وہ تکلیف نہیں گئی تھی جو اس کے اندر شدت پکڑتی جا رہی تھی۔۔۔وہ ان سب خیالوں سے بچنے کے لیے سونا چاہتا تھا۔۔۔ وہ نیند میں ڈوبا رہتا تھا۔۔۔۔۔ وہ خود کو نہیں بلکہ اپنے دماغ کو سلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔جیسے ہی اس کا دماغ ہوش میں آتا تھا وہ اسے کچوکے لگانا شروع کر دیتا تھا۔
”مارتھا جاؤ یہاں سے۔۔۔“ اس نے تکیے کے نیچے منہ چھپاتے کہا۔
”پہلے آپ اٹھ کر ناشتہ کرلیں۔۔۔“
سب ختم ہوچکا تھا پر ماتھا انسٹیٹیوٹ سے نہیں گئی تھی۔۔۔وہ آج بھی وہیں کام کر رہی تھی وہ بھی بنا پیسوں کے۔۔۔اس نے ماثیل کا عروج دیکھا تھا۔۔۔اب کیسے اس کے زوال میں اسے چھوڑ دیتی۔۔۔
ویسے بھی وہ اکیلی تھی۔۔ اولاد تو تھی نہیں۔۔شوہر طلاق دے چکا تھا۔۔ اس نے پورا انسٹیٹیوٹ سنبھالا ہوا تھا اور بدلے میں ایک اچھی اور آزاد زندگی گزار رہی تھی۔
سارے ملازموں کی چھٹی کردی تھی۔۔۔وہ خود ہی کام کرتی تھی۔ کھانا بھی خود ہی بنا لیتی۔۔۔
”مجھے نہیں کھانا۔۔۔تم جاؤ یہاں سے۔۔۔“
وہ غصے سے چلایا۔
”میں تو چلی جاتی ہوں پر جانا تو آپ کو چاہیے۔۔۔وہ بھی پاکستان۔۔۔“ وہ ابھی تک ونڈو کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ سورج کی روشنی میں اس کا سایہ ماثیل کے بیڈ پر پڑ رہا تھا۔۔ کمرے میں ماثیل کی ہی بنائی گئی من پسند مورتیاں رکھی تھی۔ اس کی بات سن کر ماثیل ساکت ہوا۔۔۔اور پھر اٹھ بیٹھا۔۔۔اس کا حلیہ عجیب تھا۔۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے شیو بڑھی ہوئی تھی۔۔ آنکھوں سرخ انگارہ تھیں۔۔ اور حال کسی مجنوں سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
”تمہیں ایسا کیوں لگا مجھے پاکستان جانا چاہیے؟؟“ اس نے مارتھا کی جانب دیکھنے کی کوشش کی پر سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے دیکھ نہیں پایا۔
”مس ایما کی آخری وش سمجھ کر۔۔۔وہ چاہتی تھیں آپ پلٹ جائیں۔۔“ وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔
”اور میرا کیا ہوگا۔۔۔“ اس نے بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ دوبارہ سوال کیا۔
”شاید آپ کی تکلیف میں کمی آجائے۔۔۔“
وہ خاموش رہا۔۔
”میں ناشتہ لگا رہی ہوں۔۔۔جلدی آجائیں۔۔۔ بہت ہوگیا یہ سوگ۔۔۔ ایک سال گزر گیا ہے۔۔ ایک سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔۔“ وہ عام لہجے میں کہتی کمرے سے نکل گئی۔۔ جبکہ ماثیل وہیں بیٹھا رہا خالی خالی نـظروں سے سامنے دیوار کو گھورتا ہوا۔
تجھ کو بھی چھوڑ کر جائے تیرا اپنا کوئی
تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے
اس نے اپنے تصور میں اس سے شکوہ کیا تھا۔۔۔وہ جو اسے چھوڑ کر بہت دور جا چکی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”ڈاکٹر صاحبہ مریضہ اپنے کمرے میں نہیں ہے۔۔۔“ نرس نے آکر اسے اطلاع دی۔۔
”کیا مطلب اپنے کمرے میں نہیں ہے؟؟“ وہ حیران ہوئی۔
”مطلب وہ کہیں بھی نہیں ہے۔۔۔ہم نے سب جگہ چیک کرلیا ہے۔۔“
وہ جھٹکے سے اپنی کرسی سے اٹھی۔۔اور نرس کے ساتھ ہی ایمان کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔۔
پورا ایک گھنٹہ ڈھونڈنے اور انتظار کرنے کے بعد اس نے بالآخر حاد کا نمبر ملایا تا۔
ڈاکٹر مہک کا تعلق روحان جبیل کی والدہ عائشہ جبیل کے خاندان سے تھا۔۔۔وہ روحان جبیل کے ماموں زاد کی بیٹی تھی۔۔۔یوں وہ حاد کی سیکنڈ کزن تھی۔۔
”وہ چلی گئی۔۔۔“ جیسے ہی حاد نے فون اٹھایا مہک نے گویا دھماکہ کیا۔
”چلی گئی؟؟ لیکن کہاں۔۔؟؟“ وہ جسے ساکت ہوگیا۔
”پتا نہیں۔۔۔۔“ اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔
✿••✿••✿••✿
کبھی کبھی ہم بہت دیر کردیتے ہیں۔۔۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں پر دیر ہوجاتی ہے۔۔۔سلمی بیگم نے بھی پہنچنے میں دیر کردی تھی۔۔۔ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو انہیں یہی خبر ملی تھی کہ وہ وہاں نہیں تھی۔۔۔وہ جاچکی تھی۔۔
اس کے اپارٹمنٹ کا پتہ نکال کر وہاں پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
سلمی بیگم کو زمیں اپنے پیروں سے نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ حمیزہ کی حالت بھی وہی تھی۔
”یہ میں نے کیا کردیا۔۔۔؟؟“ وہ اب پچھتا رہی تھیں۔۔۔پر پچھتانے کا فائدہ نہیں تھا۔
جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔۔۔ ڈاکٹر مہک نے انہیں سمجھا کر واپس بھیجا تھا کہ ایمان ایک سمجدار لڑکی تھی۔۔
وہ یقیناً ناراض ہو کر کہیں گئی تھی۔۔۔ بہت جلد لوٹ آتی۔۔۔پر کوئی نہیں جانتا تھا آنے والا وقت کیسا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ جیسے زمین سے غائب ہی ہوچکی تھی۔۔۔۔ اسے ڈھونڈنے میں حاد نے بہت سے دن لگائے تھے۔۔۔ اس کا فون بند تھا۔۔۔ اس نے ایک پل کے لیے بھی آن نہیں کیا ورنہ وہ پتا لگا لیتا وہ کہاں تھی۔۔۔
سلمی بیگم روز ڈاکٹر مہک کو کال کرتیں۔۔۔ وہ انہیں تسلی دیتی کہ ایمان مل جائے گی۔۔۔وہ اسے ڈھونڈ رہی تھی۔۔ پر وہ نہ ملی۔۔۔اسے ملنا ہی نہیں تھا۔۔
وہ جو چند دنوں کے لیے اسلام آباد آیا تھا اب ایک مہینہ ہوگیا تھا۔۔۔ وہ اسے نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔۔۔اسے اس وقت اپنی حثیت کا اندازہ ہوا تھا کہ اتنی اڈوانس ٹیکنالوجی پر گرفت رکھنے کے باوجود وہ ایمان کی لوکیشن نہیں جان پایا تھا۔۔
وہ آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔ ہاتھ کی دو انگلیوں سے پیشانی کو مسل رہا تھا۔۔ لیپ ٹاپ سامنے میز پر رکھا تھا۔۔۔
”لوکیشن از ناٹ فاؤنڈ۔۔۔“ یہ اس کی اے آئی تھی۔
وہ ایمان کے موجودہ نمبر سے اس کے فون تک رسائی تو حاصل کر چکا تھا پر لوکیشن ابھی تک نہیں ملی تھی۔
اس نے گہرہ سانس لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ لیپ ٹاپ اس نے بند کردیا۔۔ سردیوں کی شدت میں پھر سے اضافہ ہو رہا تھا۔
وہ جیکٹ پہن کر سر پر کیپ اوڑھتے ہوئے باہر نکل آیا۔۔۔ پارکنگ ایریا سے گاڑی نکالی اور یونہیں گھومتا رہا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ ایمان کے اس اپارٹمنٹ کے سامنے کھڑا تھا جس کے تھرڈ فلور پر وہ رہتی تھی۔۔۔ وہ روز یہاں آجاتا تھا۔۔۔یہ بےاختیار تھا۔۔۔وہ جانتا تھا اس کا فلیٹ پچھلے ایک مہینے سے بند تھا۔۔۔ پھر بھی وہ وہاں آجاتا تھا۔۔۔ اسے خود سمجھ نہیں آتا تھا وہ ایسا کیوں کرتا تھا۔
وہ یونہی گاڑی میں بیٹھا رہا۔۔۔جیسے وہ ویلنیسا میں کرتا تھا۔۔ بہت خاموشی سے اس پر نظر رکھتا تھا۔۔ یوں جیسے وہ ابھی اندر سے نکل آئے گی اور کسی مارکیٹ جائے گی گروسری کرنے۔۔۔
وہ آج بھی وہ طوفانی رات نہیں بھولا تھا جس رات ایمان نے ویلنسیا میں اپنی شال اتار کر اس بچے کو دی تھی۔۔۔اور کھانے پینے کا سارا سامان دے دیا تھا۔۔۔
وہ منظر اسے آج بھی پوری جذئیات سے یاد تھا۔۔
یاد یاد میں فرق ہوتا ہے۔۔
کچھ لوگوں کی یادوں میں ہم مرچکے ہوتے ہیں۔۔۔اور لوگ سوگ مناتے رہتے ہیں۔۔ جیسے کہ ادھم جبیل۔۔۔۔
اور کچھ لوگ ہمیں اپنی یادوں میں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں اور وہ ہم تک پہنچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔۔۔جیسے کہ حاد جبیل۔۔۔۔ جو اس ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
وہ گاڑی میں بیٹھا تھا۔۔۔اور اس کا ذہن اس منظر کو تازہ کر رہا تھا جب وہ اکیڈمی میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ وہ اور مصطفے لان میں بیٹھے تھے۔
”اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو یہ لڑکی لکھنے کے ساتھ ساتھ اچھا بول بھی لے گی۔۔“ مصطفے نے کہا تھا۔ اور وہ بنا ان کی جانب دیکھے آگے بڑھ گئی تھی۔
”کیا اس نے ابھی ابھی ہمیں نظرانداز کیا ہے۔۔؟؟“ مرتضے نے حیرت سے حاد کو دیکھا تھا۔
”اب تم اس کی اتنی تعریف کر رہے تھے۔۔ اگر وہ یہاں رک کر ہم سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو میں ڈس اپاؤنٹ ہوجاتا۔۔ اچھا ہوا وہ گزر گئی۔۔“
وہ ایک دم سے ماضی سے نکل کر حال میں آیا۔۔۔ تب اسے احساس ہوا کہ وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔ یہ احساس ہی بڑا عجیب تھا۔۔۔وہ کافی عرصے بعد دل سے مسکرایا تھا۔۔۔ وہ بھی اس کے خیال کو ذہن میں سموئے۔۔۔۔
تو کیا وہ اس کے اندر کہیں زندہ تھی؟؟ ہمیشے سے وہیں تھی؟؟؟ اس نے سر جھکا کر ٹھوڑی سینے سے لگا لی۔۔۔
”ایمانے ہماری ہے سنا تم نے۔۔۔ وہ ہماری ہے تمہیں اسے لانا ہی ہوگا۔۔نہیں تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“
عبدل کے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ اسے یاد تھا اس نے ایک بار ایمانے کی تصویر لگے فریم کو الٹ کر رکھ دیا تھا۔
”اگر تم نے دوبارہ ایمانے کی تصویر کو ہاتھ لگایا تو میں تمہارا گلا کاٹ دوں گا۔۔“
عبدل نے اسے کیسی دھمکی دی۔۔۔ وہ پھر سے مسکرادیا۔۔۔۔
وہ دونوں اسے بہت عزیز تھے۔۔۔ عبدل اور ایمانے۔۔۔ دونوں ظالم تھے جنہوں نے خود کو اس سے دور کرلیا تھا۔
وہ تھوڑی سینے سے ٹکائے بیٹھا رہا۔۔۔ وہ حاد جبیل اس کی شخصیت سے پوری دنیا ناواقف تھی۔۔۔وہ جو راز جیسا تھا۔۔۔ وہ کسی عام لڑکے کی طرح بیٹھا مسکرا رہا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے وہاں تھی۔۔۔ اس کے اندر۔۔۔اس کے دل میں۔۔۔۔
وہ جانے کتنی دیر وہاں بیٹھا رہتا جب اچانک اس کی نظر مشارب پر پڑی۔۔۔وہ چونک گیا۔۔۔وہ اسے پہچان گیا تھا۔۔۔مشارب اندر گیا تھا پھر کچھ دیر بعد باہر نکل آیا۔۔۔وہ اب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرتا ایک جانب گیا تھا۔۔۔ اور حاد کے جبڑے بھینچ گئے۔۔۔اس نے اپنی گاڑی اس کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔ آج وہ یقیناً نہیں بچنے والا تھا۔
✿••✿••✿••✿
درد جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو انسان روتا نہیں ہے بلکہ پتھر ہوجاتا ہے۔۔۔جیسے وہ ہوگئی تھی۔۔ کبھی کبھی ہمارے لیے قیامت آتی ہے اور خاموشی سے ہمیں برباد کرکے چلی جاتی ہے۔۔۔دنیا کو پتا ہی نہیں چلتا۔۔۔ ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا تھا۔۔۔
وہ پوری دنیا سے لڑ سکتی تھی۔۔۔مشارب جیسے سو انسانوں سے۔۔۔ لیکن سلمی بیگم سے نہیں۔۔۔وہ ہار گئی تھی۔۔۔اور اسے لگا وہ سب ہار گئی ہو۔۔
اس نے ایماندار رہنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔ پر بالآخر وہ بےایمان کہلائی۔۔۔
سلمی بیگم کے جانے کے بعد وہ خاموشی سے ہسپتال سے نکل آئی۔۔۔۔ اس کا یہاں کیا بچا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔۔
وہ اب رو نہیں رہی تھی۔۔۔اس نے سب سے پہلے اپنے فون کو بند کرکے ایک گہرائی والی جگہ پر پھینکا تھا۔۔۔ کئی بار س نے خود کشی کا سوچا پر پھر وہ رک جاتی۔۔۔وہ اتنی بہادر نہیں تھی کہ خودکشی کرکے اللہ کی ناراضی ہمیشہ کے لیے مول لے لیتی۔۔۔ اس دن اس نے آخری بار اے ٹی ایم یوز کیا تھا۔۔۔ اور پھر وہ اپنے اپارٹمنٹ سے کچھ سامان لے کر اسے لاک کرکے جانے کہاں چلی گئی۔۔۔
اس کی فلیٹ میٹ بھی تین ماہ کے لیے اسلام آباد سے باہر گئی تھی۔۔۔ اس لیے اس نے سپاٹ تاثراث کے ساتھ اپارٹمنٹ کو لاک کیا اور یہ جانے بغیر کہ وہ کہاں جا رہی تھی بس چلتی گئی۔۔۔
وہ چھپ جانا چاہتی تھی۔۔پوری دنیا سے۔۔۔اپنی ماں سے۔۔۔جو اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ان سب لوگوں سے جو اسے ایک طلاق یافتہ قبول نہیں کر سکتے تھے۔۔
عبدل جیسے دوستوں سے، ماثیل جیسے عاشقوں سے اور مشارب جیسے مردوں سے۔۔۔۔وہ سب سے دور چلی جانا چاہتی تھی۔۔۔سب سے چھپ جانا چاہتی تھی۔

8 Comments

  1. It was osm.... Thank you..

    ReplyDelete
  2. Very interesting 😍😍

    ReplyDelete
  3. I am waiting for next episode....

    ReplyDelete
  4. I am eagerly waiting for the next episode❤

    ReplyDelete
  5. Wow too much suspense
    Plz next episode b jald upload kr dain ♥️♥️

    ReplyDelete
  6. Eagerly waiting for next ep
    When are you goin' to comp this novel

    ReplyDelete
  7. Next episode has been upoaded

    ReplyDelete
  8. آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔اس ناول کو پڑھتے وقت میں اپنا محاسبہ کر رہی تھی ۔

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post