مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_42 پارٹ2
#نور_راجپوت
وہ دو دن آفس نہ جا سکی۔۔ اس میں ہمت ہی نہیں تھی۔۔۔ بس ایک ہی بات کھائے جا رہی تھی کہ سلمی بیگم کو کیا جواب دے گی؟؟ اسے دنیا کی فکر نہیں تھی۔۔ اللہ اس کے راز سے واقف تھا۔۔۔اس کی سچائی جانتا تھا لیکن سلمی بیگم؟؟؟ وہ کیسے انہیں یہ خبر دے گی؟؟
”مشارب کی ماں کا فون آیا تھا۔۔۔ وہ لوگ رخصتی پر زور دے رہے ہیں ۔۔۔ بلکہ مشارب نے خود مجھ سے بات کی ہے۔ وہ کہہ رہا ہے اب جلد سے جلد یہ فریضہ انجام دے دیا جائے۔۔“
سلام دعا کے بعد سلمی بیگم نے گویا بم پھوڑا تھا۔
”بس اب تم جلدی سے واپس آجاؤ۔۔۔ میں تمہیں رخصت کرکے پرسکون ہوجاؤں گی۔۔۔“
مشارب اس حد تک گر سکتا تھا وہ نہیں جانتی تھی البتہ اس کا فون ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا تھا۔۔۔۔ اسکرین پر مشارب کا میسج چمک رہا تھا۔۔۔
”میں ہاتھ آئی چیز یوں آسانی سے جانے نہیں دیتا۔۔“
کیا یوں بھی ہوتا ہے؟؟ کیا کوئی مسلمان مرد ایسی حرکت کر سکتا ہے؟؟؟ کیا اسے خوف نہیں آتا؟؟؟ کیا انسان بھول چکا ہے کہ اسے کس کے پاس لوٹنا ہے؟؟
سلمی بیگم کی آواز ابھرتی رہی جبکہ وہ زمین پر فون کے پاس بیٹھی تھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ان سے بات کرتی۔ مشارب نے اسے طلاق دی اسے اس بات کا دکھ نہیں تھا۔۔۔۔ وہ طلاق کے بعد ایسی حرکت کرے گا یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
کبھی کبھی زندگی ہمارے اتنے بڑے بڑے امتحان لیتی ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا سب حقیقت ہے یا نہیں۔۔۔
وہ آفس جانا شروع ہوگئی تھی لیکن وہ سلمی بیگم کو سچ نہیں بتا پائی تھی۔ کیسے بتاتی؟؟
وہ اپنی ماں کو اس سچائی سے کیسے آگاہ کرتی کہ اسے گھر بیٹھے طلاق ہوگئی تھی۔۔۔ اور وجہ کیسے بتاتی؟؟
کیسے بتاتی کہ مشارب جس چیز کی ڈیمانڈ کر رہا تھا وہ اس کے نزدیک غلط تھا۔۔۔ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کیسے زندگی گزار پاتی۔۔
اس کے چاروں جانب سب دھند میں لپٹا تھا اور وہ اس دھند میں اکیلی تھی۔۔ بہت اکیلی۔۔۔ کب دن ہوتا تھا کب رات اسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔۔
انہی سوچوں میں مگن بےدھیانی میں روڈ کراس کرتے وقت وہ دائیں جانب سے آنے والی گاڑی سے نہ بچ پائی۔۔۔
ٹائروں کے چڑچڑاہٹ کی آواز فضا میں گونجی۔۔۔ اس پل اس نے شدت سے خواہش کی تھی کہ وہ مرجائے۔۔۔ جیتے جی کیسے وہ سلمی بیگم کو سچ بتاتی؟؟
وہ دور اچھل کر گری تھی۔۔۔اسے کہاں چوٹ لگی کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔ اس نے لوگوں کو خود پر جھکتے پایا اور پھر دھند مزید گہری ہوگئی۔۔۔ سب کچھ کہرے کے پیچھے چھپ گیا۔
✿••✿••✿••✿
آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال میں تھی۔۔۔ اس کی ٹانگ پر چوٹ آئی تھی۔۔ اور نیچے گرنے کے باعث سر پر گہری چوٹ لگی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہیں پائی۔۔۔
”تو کیا میری سزا ختم نہیں ہوئی؟؟“ اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔
”ہائے ایمان۔۔ کیسی ہو اب؟؟“ یہ اس کی فلیٹ میٹ تھی۔
”میں نے تمہاری مام کو آج صبح فون کردیا تھا۔۔۔تم کل شام سے بےہوش تھی۔۔۔ وہ شاید پہنچنے والی ہوں گی۔۔۔ اور میری فلائٹ ہے مجھے جانا ہوگا۔۔۔ گیٹ ویل سون۔۔“
وہ اس کا گال تھپتھپا کر چلی گئی۔ آج کل لوگ ہمارے لیے اتنا بھی کردیں تو کافی ہے۔ اس کا فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔۔ اس کے سر اور ٹانگ سے درد کی ٹیس اٹھ رہی تھی۔
وہ اب پریشان ہوگئی تھی کہ سلمی بیگم اس کی وجہ سے کس قدر پریشان ہوں گی۔۔۔اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے لیے مشکل تھا۔۔ کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔۔ جانے اسے یہاں کون لایا تھا۔۔۔اور اس کی فلیٹ میٹ کو کس نے بلایا۔۔۔وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔۔۔ اس وقت اسے ایک بات کا خیال تھا کہ سلمی بیگم جانے کس حال میں ہوں گی۔۔۔
وہ ہمت کرکے اٹھی اور اپنا فون اٹھایا۔۔ سلمی بیگم کا نمبر ملایا۔۔ کچھ دیر بعد فون اٹھا لیا گیا۔۔ سلمی بیگم کی ہراساں آواز ابھری تھی۔۔
”کیسی ہو میری بچی۔۔۔یہ سب کیسے ہوگیا۔۔؟؟“ وہ رو رہی تھیں۔۔۔ایمان کا دل بھر آیا۔۔ جو بات بار بار اس کا دل دکھاتی تھی وہ یہ تھی کہ آخر وہ اپنی ماں کو سچ کیسے بتائے۔۔۔
وہ فون پر بات کر ہی رہی تھی نرس اندر آئی۔۔
”ارے آپ اٹھ گئی۔۔ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں۔۔آپ پلیز فون رکھ دیں۔۔ آپ زیادہ بات نہیں کر سکتی۔۔“
کچھ دیر بعد وہاں ایک لیـڈی ڈاکٹر تھیں۔ وہ اب اس کا معائنہ کر رہی تھیں۔۔
آخر وہ کس ہسپتال میں تھی جہاں اسے یوں ٹریٹ کیا جا رہا تھا۔۔ یقیناً بہت مہنگا ہوگا۔۔ اسے اب بل کی فکر ہونے لگی۔۔ اس کے سر میں درد تو تھا ہی پر وہ ڈاکٹر کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔
”کیا میں کل شام سے بےہوش تھی؟؟“ اسے یقین نہ آیا تو اس نے پوچھ لیا۔
”نہیں آپ کو ہوش آیا تھا۔۔ لیکن آپ کو سکون آور دوا کے زیر اثر سلایا گیا تھا۔۔“
ڈاکٹر نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ رات کس درد میں تھی۔۔ اسی لیے اسے بےہوش کیا گیا تھا۔
ہاں۔۔۔ ٹھیک کہا تھا ماثیل نے۔۔۔۔ ہم سزا ہی تو کاٹ رہے ہیں اکیلے پن کی۔۔۔۔ہمیں ہر درد اکیلے سہنا ہے۔۔۔ چاہے وہ اندر کا درد ہو یا باہر کا۔۔۔۔ اور جب انسان یہ درد اکیلے سہتا ہے تب اسے یہی لگتا ہے کہ قیامت گزر چکی ہے۔۔۔اور ہم اپنی سزا کاٹنے اس دنیا میں آئے ہیں۔
✿••✿••✿••✿
سلمی بیگم اور میزو اس کے سامنے تھیں۔ ان سب کے آنسوں نہیں تھم رہے تھے۔ کچھ دیر انہوں نے بات کی پھر ڈاکٹر نے انہیں منع کردیا۔۔
”ڈاکٹر صاحبہ سب ٹھیک ہے نا؟؟ میری بیٹی کو کوئی بڑی چوٹ تو نہیں لگی؟؟“
سلمی بیگم پریشان تھیں۔۔۔ مشارب بھی وہیں تھا۔۔۔وہ اب تک ایمان کے سامنے نہیں گیا تھا۔۔ ڈاکٹرز سے وہی بات چیت کر رہا تھا۔۔۔
”سب ٹھیک ہے۔۔۔لیکن ہم اپنی تسلی کر رہے ہیں بس آپ دعا کریں۔۔“ ڈاکٹر نے انہیں تسلی دی۔
”بیٹا تم بھی ایمان سے مل لو اب۔۔۔ تمہیں بھی حوصلہ ہوجائے گا۔۔“
”جج۔۔جی آنٹی۔۔۔“ وہ نظریں چرا گیا۔۔۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا لیکن انا آڑے آرہی تھی۔۔۔وہ بھلا کیسے اتنی آسانی سے اسے جانے دے سکتا تھا۔ سلمی بیگم نے ایمان کو نہیں بتایا تھا کہ مشارب ان کے ساتھ آیا تھا۔ وہ تو لاہور واپس گیا ہی اس لیے تھا کہ جا کر رخصتی کی تاریخ رکھوا سکے۔۔ تماشہ تو بننا ہی تھا پر وہ جانتا تھا اس کی زیادہ شکار ایمان ہوتی۔۔۔ اس کا کیا بگڑنا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟“ ایمان کی چلانے کی آواز آئی تھی۔۔ سلمی بیگم جو کمرے سے باہر بیٹھی تھیں وہ چونک گئی۔ مشارب اندر اس کا حال دریافت کرنے گیا تھا۔
”دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔ میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔“ وہ اسے دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔
”شور مت کرو۔۔۔اس میں تمہارا ہی نقصان ہے۔۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔۔ جبکہ ایمان کا دل کر رہا تھا وہ اٹھ کر اس کا سر پھاڑ دے۔
”جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ۔۔۔ ہم ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔۔“ وہ اس کی جانب بڑھا۔
”دور رہو مجھ سے۔۔۔“ وہ زور سے چلائی۔۔۔ ”امی۔۔۔“ اس نے پوری قوت سے سلمی بیگم کو پکارا۔ مشارب گھبرا کر پیچھے ہٹا۔
”کک۔۔کیا ہوا۔۔؟؟“ سلمی بیگم گھبرائی ہوئی اندر آئیں۔۔ ساتھ حمیزہ بھی تھی۔
”پتا نہیں آنٹی یہ کیا بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔۔ آپ ہی سمجھائیں اسے۔۔ شاید سر پر لگی چوٹ کا اثر ہوگیا ہے۔“
”کیا ہوا ایمان بیٹا۔۔“ سلمی جانب اس کی جانب بڑھیں۔
”امی اسے کہیں مجھ سے دور رہے۔۔“ وہ سسک اٹھی تھی۔
”ایمان۔۔ میری بچی کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔ شوہر ہے تمہارا۔۔“
سلمی بیگم اس کی حالت سے پریشان ہوگئی تھیں۔
”نن۔۔نہیں۔۔۔ میرا اب اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔ یہ مجھے طلاق دے چکا ہے۔۔“ وہ فوراً بولی تھی۔۔۔ اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔۔۔ جبکہ سلمی بیگم کو لگا جیسے ہسپتال کی بلڈنگ ان کے اوپر گر گئی ہو۔ وہ کئی لمحے بےیقینی سے ایمان کو دیکھتی رہیں اور پھر لڑکھڑ کر پیچھے ہٹیں۔۔
حمیزہ خاموشی سے کبھی اپنی بہن تو کبھی مشارب کو دیکھ رہی تھی۔
”آنٹی سنبھالیں خود کو۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ ایمان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔“ مشارب نے آگے بڑھ کر سلمی بیگم کو تھاما۔
”غلط فہمی۔۔۔۔ کیا تمہیں خدا سے ڈر نہیں لگتا؟؟“ وہ پوری قوت سے چلائی۔۔ سلمی بیگم نے پہلی بار اسے اس روپ میں دیکھا تھا۔ حمیزہ غور سے مشارب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی ایمان اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتی۔۔
اس کا مطلب مشارب جھوٹ بول رہا تھا۔۔۔
”امی یہ ویسا انسان نہیں ہے جیسا دکھتا ہے۔۔۔اسے یہاں سے نکالیں۔۔۔میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔“
سلمی بیگم جو کرسی پر بیٹھ چکی تھیں وہ بےیقینی سے ایمان کو دیکھ رہی تھیں انہوں نے ایک بار بھی مشارب کی جانب نہیں دیکھا تھا۔۔
ان کی بیٹی کو طلاق نہیں ہو سکتی تھی۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔ اس سے پہلے کوئی کچھ بولتا اچانک کمرے کے دروازے پر مشارب کی ماں کا چہرہ نظر آیا۔۔
وہ اسلام آباد میں ہی تھیں اپنی بہن کی طرف۔۔ انہیں ایمان کی خبر آج ہی ملی تھی اور وہ اسی سے ملنے آئی تھیں۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ ایمان کی الفاظ سن چکی تھی۔ سلمی بیگم مشارب کی ماں کو وہاں دیکھ کر حیران ہوئیں۔۔۔ ایک پل کو تو مشارب بھی ٹھٹک گیا تھا۔
”یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو ایمان۔۔۔تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔“ سلمی بیگم نے غصے سے جھڑکا۔
”مم۔۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں امی۔۔ اس نے خود مجھے تین بار طلاق۔۔۔“
”بس بکواس بند کرو ایمان۔۔۔ دوبارہ یہ لفظ اپنے منہ سے نہ نکالنا۔۔۔“ سلمی بیگم کی آواز پر وہ سہم کر انہیں دیکھنے لگی۔۔۔مشارب کی ماں یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ایمان کی آنکھوں سے اب آنسوں جاری تھے۔
”معاف کرنا نصرت بہن۔۔ ایمان کے سر پر چوٹ لگی ہے۔۔“ سلمی بیگم اب مشارب کی ماں سے معافی مانگ رہی تھی۔ مشارب ایک جانب کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔
مشارب کی ماں خاموشی سے ایمان کے پاس آئیں۔۔ اور اس ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔۔۔
”بیٹا کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟؟ مذاق تو نہیں کر رہی۔۔۔۔؟؟“
”میں خدا سے ڈرتی ہوں اسی لیے سچ بول رہی ہوں آنٹی۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ مشارب کی ماں اب خاموشی سے بنا کچھ کہے مشارب کی جانب بڑھی۔
”ارے امی آپ۔۔ مجھے بتا دیا ہوتا میں لینے آجاتا۔۔“ وہ خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اس نے جو پلان بنایا تھا وہ اب فیل ہوتا نظر آرہا تھا۔
”کیا ایمان سچ کہہ رہی ہے؟؟“ نصرت بیگم نے اپنے بیٹے سے سخت لہجے میں سوال کیا۔
”نہیں ماں۔۔ یہ بس ناراض تھی مجھ سے۔۔۔اس لیے ایسا۔۔“
اس کی بات ادھوری رہ گئی۔۔۔ نصرت بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا۔۔۔
”اٹھاؤ میری قسم کہ تم سچ بول رہے ہو اور ایمان جھوٹ۔۔۔“ ایمان ساکت نظروں سے یہ منظر دیکھنے لگی۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ سلمی بیگم کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوئی تھی۔
”ارے امی۔۔ یہ اتنی بڑی بات نہیں۔۔“ اس نے اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا۔
”میں نے کہا اٹھاؤ میری قسم۔۔۔“ وہ غضبناک تھیں۔۔ ماؤں کو اپنے بیٹوں کا علم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔۔۔نصرت بیگم اپنے بیٹے کی لبرل سوچ سے شروع سے واقف تھیں۔۔ انہیں ایمان اسی لیے پسند آئی تھی کہ وہ لبرل نہیں تھی۔۔۔اللہ کو ماننے والی تھی۔۔ انہیں لگا تھا ایمان کے آنے سے انکا بیٹا سدھر جائے تھا۔۔۔۔۔
ماؤں کو ہمیشہ ہی ایسا لگتا ہے اور ہمیشہ غلط لگتا ہے۔۔۔ لڑکیاں دوسروں کے بیٹوں کے عتاب کا نشانہ بننے کے لیے یا انہیں سدھارنے کے لیے نہیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ انکی اپنی زندگی ہوتی ہے۔
”مشارب میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔۔“ وہ قہر بھری نگاہوں سے اسے گھور رہی تھیں۔
اور مشارب چاہ کر بھی اپنی ماں کی جھوٹی قسم نہیں اٹھاپایا۔۔۔اس کا سر جھک گیا۔۔۔۔
سلمی بیگم ساکت رہ گئیں۔۔۔اور ایمان کے دل سے بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔
”مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔۔“ نصرت بیگم نے غصے سے اسے گھورا۔۔۔ اور پھر پلٹ کر ایمان کی جانب آئیں۔
”میرا شدت سے دل تھا کہ تم میرے گھر آؤ۔۔ میری بہو بن کر۔۔۔پر اللہ کو شاید یہ منظور نہیں تھا۔۔میرے بیٹے کی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں۔۔“ انہوں نے ایمان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
ایمان نے تڑپ کر ان کے ہاتھ تھامے۔۔
”خدا کے واسطے آنٹی مجھے گنگہار نہ کریں۔۔۔“
”یہ اتنی پارسا بھی نہیں ہے جتنی بن رہی ہے۔۔۔“ مشارب سے یہ سب برداشت نہ ہوا۔
”پوچھیں اپنی بیٹی سے۔۔ اس نے کبھی مجھے اپنا شوہر مانا ہی نہیں۔۔ ہمیشہ مجھے ایسے ٹریٹ کیا جیسے میں کوئی انجان ہوں۔۔ جب اس کے دل میں کوئی اور تھا تو میرے سر پر کیوں تھوپا گیا۔۔۔؟؟“ وہ اپنی بےعزتی کیسے بھول سکتا تھا۔
”میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔۔“ سلمی بیگم نے دہائی دی۔
”او اچھا۔۔۔ پھر اپنی بیٹی سے ہی پوچھ لیں۔۔۔آخر کس کے سپنے سجائے بیٹھی ہے۔۔ کس سے دھوکا کھایا اور کس کا روگ لیے پھرتی ہے یہ۔۔۔کیونکہ عام لڑکیاں تو ایسی نہیں ہوتیں۔۔۔ آپ کی بیٹی ابنارمل ہے۔۔۔“
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا نصرت بیگم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے لے گئیں۔۔۔
کمرے سے باہر راہداری میں ڈاکٹر صاحبہ کھڑی تھی۔۔۔ وہی ڈاکٹر جو ایمان کو ٹریٹ کر رہی تھیں۔۔ اس نے اسٹاف کو وہاں سے بھیج دیا تھا۔
پیچھے وہ تینوں اکیلی رہ گئی تھیں۔۔۔ ایمان، سلمی بیگم اور حمیزہ۔۔۔
ایمان سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔اس کے سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں۔۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ مزید کتنی دیر اس درد کو برداشت کر سکتی تھی۔۔۔
مشارب اور اس کی ماں کے جانے کے بعد ڈاکٹر آندر آئی۔
”آنٹی۔۔۔پیشنٹ کو اتنا اسٹریس الاؤ نہیں ہے۔۔۔ معذرت لیکن آپ کو انہیں اکیلا چھوڑنا ہوگا۔۔“
سلمی بیگم ابھی تک ایمان کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
”مشارب کیا کہہ رہا تھا؟؟“ وہ سب کچھ آج ہی کلیئر کرنا چاہتی تھیں۔
”امی یہ صحیح وقت نہیں ہے۔۔۔بعد میں کرلیں گے بات۔۔۔“ حمیزہ نے ان کا بازو تھاما۔
”مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔۔“ سلمی بیگم کے ٹھنڈے لہجے پر ایمان بیڈ سے نیچے اتر آئی۔
”امی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ میرا یقین کریں۔۔۔ میری زندگی میں کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔“
ایمان سب کچھ سہہ سکتی تھی۔۔۔پر اپنی ماں کا خود کی وجہ سے مان ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔وہ ان کی آنکھوں میں اپنے لیے بےاعتباری نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔ پہلے ہی ماثیل کی ایک فون کال نے اس کا بہت نقصان کیا تھا مزید نہیں سہہ سکتی تھی۔
”اور دل میں۔۔؟؟“ سلمی بیگم کے لہجے اور نگاہوں دونوں میں شک تھا۔ ایمان کو اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ سی محسوس ہوئی۔۔۔
”کوئی بھی نہیں ہے امی۔۔۔“ وہ کیسے یقین دلاتی؟؟
”جھوٹ نہیں ایمان۔۔۔۔ اب تم اپنی ماں کی قسم اٹھاؤ اور سچ بتاؤ۔۔۔“
اس نے سلمی بیگم کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا۔
اس کے ہونٹ پھڑپھڑائے لیکن وہ کچھ کہہ نہ پائی۔۔۔۔ ڈاکٹر یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس پر ریکارڈنگ کا آپشن آرہا تھا۔
”امی میرے دل میں کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔خالی ہے۔۔۔ ویران۔۔۔اجاڑ اور بنجر ہے۔۔۔ کوئی کلی کوئی پھول اگتا ہی نہیں ہے۔۔۔“ وہ بھرائی آنکھوں سے بولی۔
”دل ویران بلاوجہ نہیں ہوتا۔۔۔ کس کا روگ لیے پھرتی ہو تم؟؟“ سلمی بیگم کے الفاظ کسی خنجر کی طرح اس کے دل میں اترے تھے۔ جبکہ ایمان نے نفی میں سرہلایا۔
”میں نے تمہیں آزادی اس لیے نہیں دی تھی کہ تم بےایمان ہوجاؤ۔۔۔“
سلمی بیگم یہ سہہ نہیں پارہی تھیں کہ ان کی بیٹی کو بھی طلاق ہو چکی تھی۔۔۔ انہیں اب کتنی رسوائی اٹھانی پڑتی۔۔۔۔
”امی میری بات سنیں۔۔۔“ وہ اپنی صفائی دینے آگے بڑھی۔
”آج سے ہمارا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔“
کتنے سخت الفاظ تھے۔۔۔ ایمان کے پیر زمین میں ہی گڑھ گئے۔ اس نے بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔
”تمہاری وجہ سے میں نے اپنے بھائیوں سے رشتہ توڑ لیا۔۔ تمہاری وجہ سے میں نے زمانے کی باتیں سنیں۔۔۔اور تم نے زمانے کی خاک میرے سر پر ڈال دی۔۔۔“
ایمان نے مدد طلب نظروں سے حمیزہ کو دیکھا۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر سلمی بیگم کو روکنا چاہا۔
”آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔۔ رہو جس کے ساتھ رہنا ہے۔۔۔“
وہ حمیزہ کو بازو سے کھینچتے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
”نن۔۔۔نن۔۔نہیں امی۔۔۔ مت جائیں۔۔ میری بات سنیں۔۔۔ میں بےایمان نہیں ہوں۔۔۔“
اس نے سلمی بیگم کے پیچھے بھاگنا چاہا پر ٹانگ پر لگی چوٹ کی وجہ سے وہ دو قدم بھی نہ چل پائی اور لڑکھڑا کر گری۔
”میں بےایمان نہیں ہوں۔۔۔“ وہ ہولے ہولے ایک ہی جملہ بڑبڑا رہی تھی اور پھر چاروں جانب اندھیرا چھا گیا۔
وہ ایمان بنت عبداللہ، ساری دنیا سے جیتنے والی۔۔۔یہاں تک کہ عبداللہ شہاب دین یعنی اپنے باپ کے سامنے ڈٹ جانے والی، صرف اپنی ماں کے سامنے ہار جاتی تھی۔۔۔ ہاں سننے اور دیکھنے والے کہتے تھے وہ اپنی ماں سے عشق کرتی تھی۔۔۔۔
وہ آج سلمی بیگم کے سامنے ہار کر اپنی پوری دنیا ہار گئی تھی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نرس اور ایک اور ڈاکٹر اس کے کمرے کی جانب بھاگے تھے۔
✿••✿••✿••✿
”عبدل۔۔۔۔“ کیچڑ میں دھنستے ہوئے اس نے اپنے بچاؤ کے لیے زور سے اسے پکارا تھا۔۔۔۔ایک آخری پکار۔۔۔یہ اتنی زوردار اور درد ناک تھی کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔
وہ پورا پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔۔۔ جانے کیسے کام کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔اسے کافی دیر بعد یہ خواب نظر آیا تھا۔۔۔۔۔ وجہ وہ جانتا تھا۔۔۔
وہ اب کرسی پر بیٹھا گہرے سانس لے رہا تھا۔۔۔سامنے اس کا لیپ ٹاپ آن تھا۔۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے چہرے کو رگڑا۔۔۔پیشانی پر پسینے کے ننھے قطرے تھے۔۔۔ باہر کافی اندھیرا تھا۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کھڑکی میں جا کر کھڑا ہوگیا۔
شاید ہی وہ کبھی سکون سے سویا ہو جب سے اسے یہ خواب آنے لگے تھے۔۔۔وہ اب جانتا تھا خواب والی لڑکی کون تھی۔۔۔اور یہ جاننے کے بعد تو اس کی بےچینی مزید بڑھ گئی تھی۔
کچھ دیر بعد اس کے فون کی سکرین جگمگ کرنے لگی۔
ڈاکٹر مہک کا نام جگمگ کر رہا تھا۔
”میرے خیال سے اب آپ کو وزٹ کرنا چاہیے تاکہ پیشنٹ کو آپ خود دیکھ سکیں۔“
”مجھے یہ حق نہیں ہے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”وہ اب میرڈ نہیں ہے مسٹر حاد جبیل۔۔۔ اسے ڈائیورس ہوچکی ہے۔۔“
ڈاکٹر مہک نے اس کی سماعت پر بم پھوڑا۔
”واٹ؟؟“ وہ ساکت ہوا۔
”کچھ بھیجا ہے آپ کو۔۔ ایک ریکارڈنگ۔۔۔ آپ سن لیں آئیڈیا ہوجائے گا۔۔“
ڈاکٹر مہک فون بند کرچکی تھی جبکہ وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔
✿••✿••✿••✿
ہم والدین اس بات کو قبول کیوں نہیں کر پاتے ہیں کہ اولاد ایک آزمائش ہے۔۔۔اولاد ہماری طرح ہی مٹی سے بنے انسان ہیں۔۔ وہ بھی خطا کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ بھی بھٹک سکتے ہیں۔۔۔وہ بھی سینے میں دل رکھتے ہیں۔۔۔اور وہ بھی دل کو ہاتھوں مجبور ہو سکتے ہیں۔۔۔!!
سلمی بیگم نے اپنی پوری زندی ایمان پر انویسٹ کی تھی تاکہ اسے ہر طرح سے پرفیکٹ بنایا جا سکے۔۔۔اور وہ بنی رہی۔۔۔ کم عمری سے ہی ایک پرفیکٹ شخص کو دل میں رکھنے کے باوجود وہ کبھی نہیں ڈگمگائی۔۔۔اس نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔۔۔
سلمی بیگم کو لگتا تھا ان کی بیٹی کے دل تک کبھی کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔۔۔انہوں نے ہمیشہ ایک ہی خواب دیکھا تھا کہ ام ایمان بنت عبداللہ اپنی ماں کی طرح طلاق یافتہ نہیں کہلائے گی۔۔۔بلکہ شادی شدہ ایک پرفیکٹ زندگی گزارے گی۔۔ تاکہ کوئی ان پر بات نہ کرسکے۔۔۔کوئی ان کی تربیت پر انگلی نہ اٹھا سکے۔۔۔
پر ماں باپ اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ ہر انسان کو اللہ نے کسی مقصد کے لیے بھیجا ہے۔۔۔ہر انسان نے سو طرح کی جنگیں لڑنی ہیں۔۔۔ ہماری زندگی پرفیکٹ نہیں ہو سکتی۔۔۔
کوئی پرفیکٹ زندگی ہوتی ہی نہیں ہے۔۔ ہم جیسے انسانوں کی تو بالکل نہیں۔۔۔
ہمارے سیدھے سادھے ماں باپ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اللہ کے فیصلوں میں چھپی حکمت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔۔ اور ہم جیسے انسان اپنے ماں باپ کے مطابق ایک پرفیکٹ زندگی نہیں گزار سکتے۔۔۔
سلمی بیگم نے جو ایمان کا خاکہ بنا رکھا تھا۔۔۔جو پرفیکٹ بت انہوں نے ایمان کا بنایا تھا وہ ٹوٹ چکا تھا۔۔۔ اور سلمی بیگم کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ اس بات سے بےخبر تھیں کہ اپنے وقتی غصے اور انا میں وہ کتنی بڑی غلطی کر آئی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
حال۔۔۔۔۔
”ہم جینا سیکھ جائیں گے۔۔۔جس دن ہم اپنے ماضی سے نکل آئے۔۔۔ وہ ابھی اپنے ماضی سے نہیں نکلی ہے۔۔ جس دن نکل آئے گی اس دن ٹھیک ہوجائے گی“
”اور وہ کیسے اپنے ماضی سے نکل سکتی ہے؟؟“
”اسے قبول کرکے۔۔۔ قبول کرنا ہمیں بہت ساری تکلیفوں سے بچاتا ہے۔۔۔ ماضی جیسا بھی ہو اگر ہم اس سے پیچھا چھڑانا چاہیں گے تو یہ کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔۔بلکہ یہ ہم پر حاوی ہوگا۔۔۔ البتہ اگر ہم اسی ماضی کو قبول کرلیں کہ جو ہوا اچھا ہوا۔۔۔ جو ہوا وہ ہونا ہی تھا۔۔۔جو ہوا کسی وجہ سے ہوا تو ہم اپنے دماغ پر کنٹرول کر سکتے ہیں۔۔۔“
”دماغ پر کنٹرول ہم لوگوں کا کام نہیں ہے۔۔۔“
”تم ہی تو کہتے ہو وہ عام نہیں ہے مسٹر جبیل۔۔“ ڈاکٹر نے اس کی جانب رخ کیا۔
”ہاں وہ عام نہیں ہے۔۔۔۔“
”تو پھر انتظار کرو۔۔۔ اس وقت کا جب وہ اپنے دماغ پر کنٹرول کرتی ہے۔۔۔“
انسانی دماغ سے زیادہ طاقت ور کچھ نہیں ہے۔۔۔ انسان جب اس پر کنٹرول کر لیتا ہے تو پھر کائنات کے بڑے رازوں کو پا لیتا ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ بدقسمتی سے اگر ہمارا دماغ ہم پر قبضہ کرلے تو یقینی طور پر ہماری موت پکی ہے۔۔۔۔ دماغ ہمارے ساتھ پھر ایسے کھیلتا ہے کہ ہمارا وجود ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔کسی خونخوار مونسٹر کی طرح جو انسانی جذبات اور انسانی خوف پر پلتا ہے یہ ہمارے خوف کو دگنا کرتا ہے۔۔۔ یہ اس پر پلتا ہے اور پھر ہمیں تباہ برباد کر دیتا ہے۔۔۔!!
یہ ہمیں وہ سب دکھاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔یہ ہمیں ہمارے خوفناک اور دردناک لمحے میں قید کرکے رکھتا ہے۔۔۔یہ ہمیں بار بار مارتا ہے۔۔۔اور ہم بار بار مرتے رہتے ہیں۔۔۔“
وہ دونوں گلاس ونڈو کے اس پار بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔
”نن۔۔۔نہیں۔۔۔میں بےایمان نہیں ہوں۔۔۔“
اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔۔۔ یوں جیسے فضا میں گونجنے والی آواز کو وہ اپنی سماعت تک پہنچنے سے روک رہی ہو۔
اور اس کے ارد گرد ایک ہی جملہ گونجتا تھا۔۔۔
”تم بےایمان ہو۔۔۔تم بےایمان ہو۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
سید جبیل کے لاہور سے واپس جانے کے بعد وہ اسلام آباد آیا تھا۔۔۔یہاں بھی وہ اسپیشل سکول بنانے کی غرض سے لوکیشن دیکھنے آیا تھا۔۔۔ بارش کا موسم تھا۔۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھا سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا جب بس اسٹاپ پر اس نے ایمان کو دیکھا۔۔۔
پہلے وہ ساکت رہ گیا۔۔۔ وہ بارش میں بھیگ چکی تھی اور جانے کس دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔۔۔غور سے۔۔۔یوں جیسے جاننے کی کوشش کر رہا ہو کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔۔۔
وہ اس سے مکمل طور پر بےخبر تو نہیں تھا پر کوشش کرکے اسے نظرانداز کرنے کی کوشش ضرور کر رہا تھا۔۔
اس کا نکاح ہوچکا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی وجہ سے ایمان کی زندگی مزید ڈسٹرب ہو۔۔۔
وہ گاڑی سے باہر نکلا اور اس کی جانب بڑھا۔۔۔لیکن وہ اس قدر غائب دماغ تھی کہ اگر اس کے ارد گرد دھماکہ بھی ہوجاتا تو وہ شاید ہلتی بھی نا۔۔۔
اس نے جیکٹ اس کے کندھوں پر ڈالی اور خاموشی سے واپس پلٹ گیا۔۔۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا ایمان اسے دیکھے اور اس کی آنکھوں میں نفرت ابھرے۔۔۔۔
وہ تب تک نہیں گیا جب تک وہ بس میں بیٹھ نہیں گئی۔۔۔ وہ اس کے ساتھ ہی رہا۔۔۔ اور جب وہ اپنے اپارٹمنٹ پہنچ گئی تو وہ اسی خاموشی سے اپنی گاڑی واپس موڑ کر وہاں سے جا چکا تھا۔
وہ تین دنوں سے اسلام آباد میں تھا۔۔۔ اور ان تین دنوں میں وہ ایک پل بھی اس کے ذہن سے نہیں نکلی تھی۔۔۔تھک ہار کر اس نے گاڑی کی سیٹ سے پشت ٹکا کر آنکھیں موندھ لیں۔
تم میرے ذہن سے اتر جاؤ
میں تمہیں عمر بھر دعا دوں گا
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
Maseel Previous Episodes
#urdunovelbank #maseelnovel #maseelby noorrajput
Waooo what a pleasant surprise.. Itni jaldi episode a gya... Maza a gya parh k chalo shukr a past khtm huya.. Ub Bs present chaly GA... ♥️ ♥️
ReplyDeleteBht zaberdas
ReplyDeleteAnd u r right hum hr insan ka aik face apny dil m soch lety hain k ye insan aisa hai aur aisa hi rahy ga but no one understands that we are humans and we can do mistakes in our life but it does'nt mean k us sy har taluq khtm kr dia jaye we can guide that person... I have to write more but this is soo long🤭🤭
ReplyDeleteThanks itni jaldi upload krny k liya
ReplyDeleteNext epi kab aaye gi Amazing novel😍
ReplyDeleteOne of the best novels 😍🤩
ReplyDeletePlz next epi bhi jaldi upload kr dien
Kitna suspance ha
ReplyDelete