ہم سب
میں اور تم
تم اور میں
وہ سب، وہ تمام
جو جل رہے ہیں
خاموشی سے
تقدیر کی بھٹی میں
جو نہیں جانتے
ہمارے ارد گرد
کیا ہو رہا ہے
اور کیوں ہو رہا ہے؟؟
وہ سب، ہم سب
ہم سب تخلیق کی ندی میں بہہ رہے ہیں۔۔!!
نور راجپوت
زندگی خاموشی سے گزر رہی تھی۔۔ وہ صبح آفس جاتی شام کو وپس آجاتی۔۔۔ اسلام آباد کا پرسکون علاقہ اسے پسند آیا تھا۔۔ کبھی کبھی وہ شام میں ڈھلوان سڑکوں پر واک کے لیے نکل جاتی تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت فریزنگ کنڈیشن میں تھی۔۔۔ زندگی میں کیا ہورہا تھا کیوں ہورہا تھا وہ نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔۔ مشارب حسن کا رویہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔۔ اس کی ڈیمانڈز وہ چاہ کر بھی پوری نہیں کر پارہی تھی۔
اس وقت وہ گروسری کے لیے نکلی ہوئی تھی جب اسے مشارب کا فون آیا۔۔۔ اس نے گہرہ سانس فضا میں خارج کرتے اس کا فون اٹھایا۔
”کس قدر بےمروت ہو تم۔۔۔“
اس کا شکوہ ابھرا تھا۔
”کیا ہوا؟؟ کیسے ہیں آپ؟؟“ وہ پریشان ہوئی۔
”آج میرا برتھ ڈے ہے تم نے وش ہی نہیں کیا۔۔“
”ہیپی برتھ ڈے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔۔ اس نے مسکرانے کی بھی زحمت نہیں کی۔۔ کیونکہ اس سے ہوتا ہی نہیں تھا۔۔۔مشارب حسن کے معاملے میں الفاظ اس کے گلے میں اٹک جاتے تھے۔۔۔اس کی موجودگی ایمان کے دماغ کو سن کر دیتی تھی۔
”ایسے نہیں قبول کروں گا۔۔۔ مجھے لوکیشن سینڈ کردو اور خود ریڈی رہو میں تمہیں لینے آرہا ہوں۔۔“
مشارب کی اگلی بات نے اس کے سر پر دھماکہ کیا۔
”کک۔۔ کیا مطلب۔۔؟؟ وہ الجھی۔
”مطلب یہ ہے کہ میں لاہور سے اسلام آباد اپنا برتھ ڈے تمہارے ساتھ منانے آیا ہوں۔۔۔اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔۔۔ جلدی سے لوکیشن سینڈ کرو میں آرہا ہوں۔۔“
وہ فون بند کرچکا تھا۔۔۔جبکہ ایمان حیران کھڑی تھی۔۔۔ اگلے ہی پل اس کا میسج اسکرین پر ابھرا۔۔
وہ اس سے نکاح کے بعد پہلی بار مل رہی تھی۔ پہلے تو اسے سمجھ نہ آیا کیا کرے۔۔ پھر وہ کچھ سوچتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔ اس نے مشارب لوکیشن سینڈ کردی تھی۔
اپارٹمنٹ میں واپس آئی اور سوچنے لگی کہ کیا کیا جائے۔۔۔ مشارب کا پھر سے میسج آیا تھا وہ پندرہ بیس منٹ تک پہنچ رہا تھا۔ اس کی کولیگ جس کے ساتھ وہ شیئرنگ پر رہ رہی تھی وہ باہر گئی تھی۔۔۔چناچہ اس نے ٹی پنک کلر کا ایک ہلکا سا جوڑا پہنا۔۔ اونچی پونی ٹیل کرکے کانوں میں ٹاپش پہنے۔۔۔ اس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا وہ اچھی لگ رہی تھی۔۔۔ پتا نہیں مشارب کو لگتی یا نہیں۔۔۔
وہ ذرا بھی پرجوش نہیں تھی حالانکہ وہ اس کا شوہر تھا پر پتا نہیں کیوں۔۔۔ چھ مہینے گزر جانے کے باوجود وہ شخص اس کے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا پایا تھا۔
وہ اب اس کا انتظار کر رہی تھی جبکہ دماغ میں سو طرح کے سوال تھے۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ آگیا تھا۔۔ ایمان نے اپنا بیگ اٹھایا اور دروازہ لاک کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔
باہر ایک چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔۔ اس نے آگے ہو کر تھوڑا جھک کر دیکھا تو مشارب ہی تھا۔۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔ وہ اس کے لیے باہر نکل کر نہیں آیا تھا۔۔ اس نے ایمان کے لیے گاڑی کا دروازہ بھی نہیں کھولا تھا۔۔
وہ اس کی منکوحہ تھی۔۔۔ اس کا اتنا تو حق بنتا تھا۔۔۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے وقت ایمان کو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔ جانے کیوں اس کا دل گھبرا رہا تھا۔
وہ سلام کرتے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
”شکر ہے تمہارا چہرہ بھی نظر آیا۔۔“ وہ نک سک سا تیار بیٹھا تھا۔ اس نے ایمان کو نہیں بتایا تھا کہ وہ پاکستان آیا ہوا تھا یا اس سے ملنے اسلام آباد آرہا تھا۔۔ اس نے سرپرائز دیا تھا۔۔ یا شاید وہ ایمان کو چیک کرنا چاہ رہا تھا۔
اس کی بات سن کر وہ ہلکا سا مسکرائی۔
”ویسے حیرانی والی بات ہے تم آدھے گھنٹے میں تیار ہوگئی ہو۔۔“ اس نے عجیب لہجے میں تبصرہ کیا۔۔ جسے ایمان نے نا سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا۔
”سوری مجھے آپ کا برتھ ڈے یاد نہیں رہا۔۔ اس لیے میں کوئی گفٹ بھی نہیں لے سکی۔۔“ وہ شرمندہ تھی اور خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر ساتھ بیٹھا شخص اس کا محرم تھا۔
”گفٹ تو میں خودی لے لوں گا۔۔“
اس نے ایمان کا تھام لیا۔ ایمان نے گھبرا کر اسے اور پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ایمان کے چہرے پر اسے صرف ناپسندیدگی نظر آئی تھی۔۔۔اگلے ہی پل ایمان نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑا لیا۔
”جی ضرور۔۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔ مشارب کو اس کی اس حرکت پر شدید غصہ آیا جسے وہ ضبط کرگیا۔۔ پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔اور اب وہ جانے کس طرف جارہے تھے۔۔۔ایمان کا دل اب ڈرنے لگا تھا۔۔ ناجانے کیوں اسے اب محفوظ محسوس نہیں ہورہا تھا حالانکہ ان کا رشتہ ایسا تھا کہ اسے سب سے زیادہ تحفظ کا احساس اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔۔
وہ اب گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو مضبوطی سے آپس میں گاڑھے بیٹھی تھی۔۔۔ اس کا ذہن اچانک ماضی میں بھٹکنے لگا۔۔۔
ماثیل۔۔۔۔اسے اچانک وہ پل یاد آیا۔۔۔ کتنی شدت سے وہ اس کے ہاتھوں کو تکتا تھا کہ ایمان کو اپنے ہاتھ چھپانے پڑ جاتے تھے۔
”اتنے بھی خوبصورت نہیں کہ تم انہیں یوں چھڑا لو۔۔“
مشارب نے چوٹ کی۔۔۔ وہ چونکی اور پھر مسکرادی۔ پھر اس نے چہرے کا رخ موڑ لیا۔۔۔اب وہ گاڑی سے باہر بھاگتے ناظر دیکھ رہی تھی۔۔۔موسم خوشگوار تھا۔
کتنی ہی دیر وہ یونہی بیٹھی رہی۔۔۔۔ ان کے درمیان خاموشی تھی۔
”آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے۔۔؟؟“ اچانک اس نے گاڑی جھٹکے سے روک دی۔ وہ غصے سے بولا۔ ایمان نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔
”میں تمہیں پاگل لگتا ہوں جو اتنی دور سے خوار ہونے آیا ہوں۔۔۔ تمہارا رویہ ناقابل برداشت ہے۔۔“
اس نے اسٹرینگ پر زور سے ہاتھ مارا۔۔۔وہ ایمان پر چلایا تھا اور ایمان ایک پل کے لیے سہم گئی تھی۔۔۔
وہ کیسے اس پر چلا سکتا تھا؟؟ اور کیوں۔۔؟؟ صرف اس لیے کہ وہ اس کی ڈیمانڈز نہیں پوری کر پاتی تھی۔
”اگر تمہیں مرد ذات سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو یہ نکاح کرنا ہی نہیں تھا۔۔۔یا پھر تمہاری زندگی میں کوئی اور ہے؟؟“
اس نے شک کی نگاہوں سے ایمان کو دیکھا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔۔ دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اس نے مشارب کے ساتھ آکر بڑی غلطی کردی تھی۔
گاڑی میں گہری خاموشی چھا گئی۔۔ وہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اندر انڈیل رہی تھی۔۔۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ مشارب اپنی جگہ پر بیٹھا غصے پر کنٹرول کر رہا تھا۔۔وہ جو سوچ کر آیا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔ اسے لگا تھا ایمان اس کی شخصیت کو دیکھ کر پگھل جائے گی۔
”ایم سوری۔۔“ کچھ دیر بعد اس کی آواز ابھری۔
”مجھے تم پر غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔“ وہ اب معذرت کر رہا تھا۔
”اٹس اوکے۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھانے چلیں؟؟“ مشارب نے پوچھا تو ایمان نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلادیا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ دیر بعد وہ ایک ریستوران میں بیٹھے کھانا کا انتظار کر رہے تھے۔۔ ایمان نے اس کے لیے کیک آڈر کیا تھا۔۔
”تو تم ویلنسیا سے کیوں لوٹ آئی؟؟“
مشارب اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔ باہر موسم ابر آلود ہو رہا تھا۔
”پڑھائی مکمل ہوگئی تھی۔۔ پھر اماں بیمار رہنے لگی تو مجھے واپس آنا پڑا۔۔“
”لیکن آنٹی کے پاس تو تم ابھی بھی نہیں ہو۔۔ وہ لاہور ہیں اور تم اسلام آباد۔۔۔“ وہ پتا نہیں کیا کھوجنا چاہتا تھا۔
”میں جب چاہے جا سکتی ہوں۔۔“ وہ مسکرائی۔۔”ویسے بھی میرا پرجیکٹ ختم ہی ہونے والا ہے۔۔۔جلد واپس چلی جاؤں گی۔۔“ ویٹر اب کھانا لے آیا تھا۔۔ وہ خاموش ہوگئی۔۔ کھانا سرو کیا جا رہا تھا۔ ایمان نے کیک اٹھا کر مشارب کے سامنے رکھا۔ کچھ دیر بعد برتھ ڈے میوزک آن ہوا تو ایمان نے اسے وش کیا۔۔ مشارب نے کیک کاٹا اور پھر دونوں کھانا کھانے لگے۔
”اماں چاہتی ہیں اب ہماری رخصتی ہوجائے۔۔“
چمچ منہ تک لے جاتا ایمان کا ہاتھ رک گیا۔
”اور آپ کیا چاہتے ہیں۔۔؟؟“ اس نے پہلی بار مشارب کی آنکھوں جھانکتے پوچھا۔
”میں۔۔؟؟ میں کیا چاہتا ہوں۔۔؟“ وہ پرسوچ انداز میں بولا۔ ایمان اسی کو دیکھ رہی تھی۔
”کھانا کھاؤ پھر بتاتا ہوں۔۔“ وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا پر ایمان سے پھر کھایا نہ گیا۔
اس کا ذہن اسی سوال میں الجھا تھا کہ کیا وہ سامنے بیٹھے شخص کے ساتھ پوری زندگی گزار سکتی تھی؟
کیا وہ شخص اسے خوش رکھ سکتا تھا؟؟ کیا وہ شخص ویسا ہی تھا جس کی اس نے چاہ کی تھی؟؟
اس نے اچانک اپنی داہنی کنپٹی پر ہاتھ رکھا۔۔ درد کی لہر اٹھی تھی۔۔۔
اس کا لاشعور اسے سارے سوالوں کے جواب ناں میں دے رہا تھا۔۔ اور اس کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔
”ارے تم نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔۔“ وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔ ایمان جیسے چونک کر خیالوں سے باہر نکلی۔
کسی بھی رشتے میں ذہنی ہم آہنگی کتنی ضروری ہوتی ہے یہ اسے آج احساس ہوا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ واپس گاڑی میں بیٹھے تھے جبکہ ایمان کے دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی۔
دل اسے بھاگ جانے کو کہہ رہا تھا۔۔ اسے کہہ رہا تھا مشارب ویسا انسان نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔
جبکہ دماغ اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا۔۔ ان کا نکاح ہوچکا تھا۔۔۔ شاید وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا۔۔۔
وہ اتنی غائب دماغ تھی کہ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ لوگ کہاں جا رہے تھے۔۔۔۔ اچانک گاڑی رکی تو وہ چونکی۔
”آؤ تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔۔“ وہ فوراً گاڑی سے نکل گیا۔۔ ایمان کو بھی اترنا پڑا۔ یہ ایک فائیور اسٹار ہوٹل تھا۔۔ پورا آسمان اب بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔ مشارب اندر جاچکا تھا۔۔ وہ اس کے پیچھے آئی۔۔ اب وہ کاؤنٹر پر کھڑا کچھ بات کر رہا تھا۔۔ وہ دیکھتی رہی اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگی آخر وہ لوگ یہاں کیوں تھے؟؟
کچھ دیر بعد ہاتھ میں ایک چابی تھامے وہ اس کی جانب آیا۔۔
”چلو۔۔“ اس نے ایمان سے کہا۔
”کدھر؟؟ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔؟؟“ وہ حیران ہوئی۔
”چلو تو بتاتا ہوں۔۔“ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر وہ اب اسے پکڑے سیڑھیوں کی جانب جا رہا تھا۔۔ ایمان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی پر مشارب اس کی سن ہی نہیں رہا تھا۔۔ وہ فون پر مصروف تھا۔۔
کچھ دیر بعد وہ ایک کمرے کے سامنے کھڑے تھے۔۔ وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا اور ساتھ میں کمرے کا لاک کھول رہا تھا۔۔۔ دروازہ کھول کر اس نے ایمان کو اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود واپس چلا گیا۔۔۔
وہ کمرے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی نامحرم کے ساتھ تھی۔۔۔پر اس کا دل اسے بھاگ جانے کو کہہ رہا تھا۔۔
وہ وہیں کھڑی رہی۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا۔۔ تو ایمان وہیں کھڑی تھی۔
”ارے تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو۔۔؟؟ چلو جلدی سے اندر۔۔“
”مشارب یہ سب کیا ہے۔۔؟؟“ وہ غصہ کرنا چاہتی تھی پر آواز کہیں دب کر رہ گئی۔
”ارے بتاتا ہوں چلو تو۔۔ اور بےفکر رہو شوہر ہوں تمہار۔۔“ وہ اسے اندر لایا۔۔۔
کمرہ صاف ستھرا تھا۔۔ اندر میز پر بیڈ پر اور سائیڈ ٹیبل پر سرخ پھول بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ایمان کھڑی رہی۔۔۔
”بیٹھ جاؤ ایمان۔۔“ اس نے کھینچ کر اسے صوفے پر بٹھایا۔ اور خود نیچھے بیٹھ گیا۔۔ اس کے قدموں میں۔۔۔
”اتنا کیوں ڈرتی ہو؟؟ تمہارا شوہر ہوں۔۔“ وہ بار بار یہ جملہ دہرا رہا تھا۔۔ اسے احساس دلا رہا تھا کہ وہ اس کا شوہر تھا۔۔جس کے بیوی پر بہت سارے حقوق ہوتے ہیں۔
”جانتی ہوں۔۔ پر یہ سب کس لیے؟؟“ وہ اب لہجے کی سختی نہیں چھپا پائی تھی۔
”میری اماں چاہتی ہیں اب ہماری رخصتی ہوجائے۔۔“
وہ اپنی موقف کی جانب آیا۔
”اور آپ؟ آپ کیا چاہتے ہیں۔؟؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھنے لگی۔
”دیکھو۔۔ ہمارے ماں باپ پرانے زمانے کے لوگ ہیں جبکہ ہم نہیں۔۔۔ میں نے اماں کی خوشی کے لیے یہ نکاح کیا تھا۔۔ ان کی خوشی کے لیے میں ان کی پسند کی لڑکی سے شادی کرنے پر راضی ہوا۔۔ پر بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تم بیرون ملک رہ کر آئی ہو۔۔ میرا خیال تھا تم بھی میری طرح لبرل ہوگی۔۔“
ایمان کی بھنویں سکڑی ہوئی تھیں۔۔ مشارب بھی سنجیدہ تھا۔
”تم مجھے پسند آگئی ہو لیکن۔۔۔“ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ اس کی جانب متوجہ تھی۔ مشارب نے گہرا سانس لیا۔ اور اٹھ کر ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
”دیکھو ایمان۔۔۔ میں کسی ایسی لڑکی کے ساتھ پوری زندگی نہیں گزار سکتا اگر مجھے اس بات کا آئیڈیا ہی نہ ہو کہ اس لڑکی کے ساتھ میری ازدواجی زندگی کیسی ہوگی؟؟ جس کے ساتھ میں نے کچھ ایکسپرینس ہی نہ کیا ہو۔۔۔۔“
ایمان کو لگا کسی نے اسے کھینچ کر تپتے صحرا میں چھوڑ دیا ہو۔ اس نے ایمان کا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔۔
”پہلے بات کلیئر کریں۔۔۔ ایکسپریئنس نہ کیا ہو۔۔ مطلب؟؟“
”اگر ہم دونوں لبرل ہوتے تو ہمیں یہ شادی وادی کی ضرورت نہ پڑتی۔۔۔ پر تم مذہبی ہو تو تمہارے لیے نکاح کافی ہونا چاہیے۔۔۔“
کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا وہ۔۔۔ کون تھا وہ؟؟ ایمان پھیکے چہرے کے ساتھ اسے دیکھے گئی۔
ایسا تو کبھی نہیں سوچا تھا اس نے۔
”نکاح کافی ہونا چاہیے۔۔۔؟؟ پر کس لیے؟؟“ وہ صاف صاف سننا چاہتی تھی۔
”یہ تجربہ کرنے کے لیے کہ ہم دونوں فزیکلی کتنا ایک دوسرے سے مطمئن ہوتے ہیں۔۔۔“
عجیب آدمی تھا۔۔۔۔ ایمان کا دل کیا قہقہہ لگائے۔۔۔۔ زور زور سے ہنسے اور پھر زور زور سے روئے۔۔
وہ تو کبھی ماثیل کو نہیں اپنا پائی تھی اسی لبرل سوچ کی وجہ سے۔۔۔اور اس کا شوہر کیسی ڈیمانڈز کر رہا تھا اس سے۔۔۔۔ کیا وہ ہنستی بھی نا۔۔۔؟؟؟
”اور اگر میں آپ کو مطئمن نہ کر پائی۔۔؟؟“ وہ سپاٹ چہرہ لیے سوال کر رہی تھی۔۔ اندر امڈتے طوفان کو اس نے اندر ہی رہنے دیا تھا۔۔۔باہر شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔۔۔ کچھ بادلوں کی وجہ سے سورج جلد چھپ گیا تھا۔
”تو ہم الگ ہوجائیں گے۔۔۔ ناٹ اے بگ ڈیل۔۔“ اس نے کندھے اچکائے۔۔۔ یوں جیسے سب اتنا آسان ہو۔۔ ایمان کا سر جھک گیا۔۔۔ وہ اب اپنے داہنے ہاتھ کے ناخنوں سے باہنے ہاتھ کی پشت کو کھرچ رہی تھی۔۔۔
”آج کے دور میں یہ سب بہت ضروری ہے۔۔۔ دیکھو اگر تم نے مجھے خوش کیا تو اس کے بعد ہم کچھ ٹیسٹ کروائیں گے۔۔ تاکہ ہمیں پتہ چلے ہم فرٹیلیٹی کے حساب سے کس قدر فٹ ہیں اور پھر رخصتی کرلیں گے۔۔۔“
اور اس بار وہ ہنس دی۔۔۔ چہرہ جھکائے وہ ہنستی رہی۔۔۔ مشارب کو اس رد عمل کی توقع نہیں کی تھی۔ پھر اس نے چہرہ اٹھایا اور گردن گھما کر کچھ فاصلے پر بیٹھے مشارب کو دیکھا۔۔ یوں جیسے وہ پاگل ہو یا اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہو۔
”مجھے دیر ہورہی ہے۔۔۔ مجھے جانا ہے۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
”کہاں جانا ہے تمہیں۔۔“ اس نے ایمان کا بازو پکڑا۔
”ڈونٹ ٹچ می۔۔۔“ ایمان نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔۔۔ اس کے اندر ایک الاؤ دہک رہا تھا جس کی تپش سے اب اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔۔۔ وہ اپنے اندر امڈتے غصے کے طوفان کو بڑی مشکل سے ضبط کر رہی تھی۔
”حق ہے میرا تم پر چھو سکتا ہوں تمہیں۔۔“ وہ بھی بھڑکا۔
”یہ سب باتیں آپ کو نکاح سے پہلے کرنی چاہیے تھیں۔۔۔ تب آپ کو یہ سب یاد کیوں نہیں آیا۔۔“
اس نے سرخ پھولوں سے سجے بیڈ کو دیکھتے نخوت سے کہا۔
”اب کر رہا ہوں نا۔۔۔ میرے لیے یہ سب ضروری ہے۔۔“
”معاف کیجیے گا مشارب صاحب۔۔ بدقسمتی سے آپ کی ماں نے ایک غلط لڑکی چن لی ہے آپ کے لیے۔۔“
وہ مضحکہ خیز انداز میں کہتی دروازے کی جانب بڑھی۔
”تم ایسے نہیں جا سکتی۔۔ شوہر ہوں میں تمہارا۔۔۔ ہمارے لیے یہ سب گناہ نہیں ہے۔۔“
وہ دبے دبے لہجے میں چلایا۔ پر وہ نہ رکی۔۔۔
”اگر تم نے دروازے سے قدم باہر نکالا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔۔“
ایمان کو لگا کسی نے اس کے سر پر بم پھوڑا ہو۔ دروازہ کا ہینڈل گھماتا اس کا ہاتھ ساکت ہوا۔
کتنا کم ظرف انسان تھا وہ۔۔۔۔ آج اسے پتا چلا تھا۔۔۔ وہ وہیں کھڑی رہی۔۔۔کسی بت کی طرح۔۔۔
”آخر مجھے مشارب سے محبت کیوں نہیں ہوتی ہے؟؟؟“
وہ اکـثر سوچتی تھی۔۔۔ وہ اس کا شوہر تھا پر وہ کبھی اس کی جانب کشش محسوس نہیں کر پائی تھی۔
جن دلوں میں اللہ بستا ہو، ان دلوں تک پہنچتے بھی اللہ والے ہی ہیں۔۔!!!
اور مشارب اس دل میں رہنے کے قابل بالکل نہیں تھا۔
”تمہیں یا تو میری بات ماننا ہوگی یا پھر میں۔۔۔“ وہ کمینی مسکان لیے بات ادھوری چھوڑ گیا۔ باہر اندھیرا مزید گہرا ہوا اور ہلکی پھلکی بوندا باندی شروع ہوئی۔
”آپ کو لگتا ہے میں ڈر جاؤں گی؟؟“ وہ جھٹکے سے پلٹی۔
”ڈرنا تو چاہیے۔۔۔“ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا اس کی جانب بڑھا۔۔۔ کینڈل لائٹ سے اٹھتی مہک سے اب ایمان کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا تھا۔
اس نے یہ سب باتیں سنی تھیں۔۔۔ کسی نہ کسی کے منہ سے۔۔ کہ آج کل ایسا ہوتا ہے۔۔ آج کل پاکستانی مرد۔۔ مسلمان مرد عورت اس طریقے سے شادی کرتے ہیں۔۔۔ پہلے لیونگ ریلیشن شپ میں رہتے ہیں پھر نکاح کرتے ہیں۔۔۔ یہ سب عام تھا۔۔ اس نے سنا تھا۔۔ پر جب آج خود پر آیا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ عام نہیں تھا۔۔۔ مسلمان مرد اور عورت کے لیے یہ عام ہو ہی نہیں سکتا۔۔
”بروکن فیملی۔۔۔ نفسیاتی باپ، جس نے کبھی تمہیں بیٹی نہیں مانا۔۔۔ بیمار ماں، جس کو تم پر بڑا مان ہے۔۔۔۔ چچچ چچچ کیسا لگے گا اگر اس کی بیٹی کو طلاق ہوجائے۔۔۔ رخصتی سے پہلے ہی۔۔۔“ وہ اس کے قریب آکر سرگوشی نما انداز میں بولا۔۔۔۔
ہماری کمزور رگ۔۔۔۔ کسی کم ظرف کے ہاتھ لگ جائے تو ہمارے لیے جینا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔
”سوچو ذرا کیسا لگے گا تمہاری ماں کو جب پتا چلے گا کہ اس کی بیٹی کو گھر بیٹھے طلاق ہوگئی ہے۔۔“
وہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہ رہا تھا۔۔۔ اس پل ایمان کا شدت سے دل چاہا تھا کہ اس کا نکاح کبھی مشارب سے نہ ہوا ہوتا۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔
دل نے آہ بھری تھی۔۔۔پر وہ ڈٹی رہی۔۔۔
”مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔“ اس نے پلٹتے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔۔ اس سے پہلے دروازہ کھلتا مشارب نے سے کندھوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔۔۔ اس کی برداشت ختم ہوگئی تھی۔
”بس بہت ہوگیا تمہارا ڈرامہ۔۔۔ پارسائی کا اتنا ناٹک کیوں۔۔۔“ وہ اس کی جانب جھکا۔۔۔اور ایمان اس بار ضبط نہ کر پائی۔۔ اس کا ہاتھ اٹھا اور مشارب کے گال پر چٹاخ سے پڑا۔۔۔
”دور رہو مجھ سے۔۔۔“ وہ اب غم غصے اور خوف کی وجہ سے لرزنے لگی تھی۔
وہ جانے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔ مشارب تو ساکت رہ گیا تھا۔
”سمجھتی کیا خود کو۔۔“ مشارب نے اس بار اسے دھکا دیا۔
دروازے سے اس کا سر ٹکرایا۔ ”تمہیں کیا لگتا ہے تم جیسی گنوار کے ساتھ میں اپنی پوری زندگی گزاروں گا۔۔؟؟“ وہ غصے سے غرایا تھا۔
”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔“
ایمان کا کراہ اس کے منہ میں ہی رہ گئی۔ اس پر جیسے بجلی گری تھی۔
”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔“
ایمان نے جلدی سے دروازہ کھولا۔۔ دروازے سے باہر نکلتے وقت اس نے مشارب کے منہ سے تیسری طلاق سنی تھی۔ باہر بارش برس رہی تھی۔۔۔۔ بارش کا شور اسے اب سنائی دیا تھا۔۔۔ اس کا دماغ فریز ہوچکا تھا۔۔۔ جیسے سب جم چکا ہوا۔۔۔
وہ کسی روبوٹ کی طرح وہاں سے نکلی تھی۔۔ تیز تیز چلتی وہ اس شخص کی پہنچ سے دور چلی جانا چاہتی تھی۔۔۔وہ شخص جو اب اس کا کچھ بھی نہیں تھا۔
دل کیا تھا شدت سے چیخے چلائے اور روئے۔۔۔۔ وہ اب ہوٹل کا خارجی دروازہ پار کرتی باہر نکل آئی تھی۔۔ باہر بارش تھی۔۔۔۔۔ وہ اب پتھریلی سڑک پر ایک جانب چل رہی تھی۔۔
دوپٹہ سر پر تھا۔۔ بیگ کندھے پر جمائے پر وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔۔دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔۔ خوف کی وجہ سے اس کا پورا وجود کانپنے رہا تھا۔۔ بارش تیز ہورہی تھی جبکہ وہ چلتی جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
کہتے ہیں اسے شہر کے سب لوگ مسیحا
وہ شخص میرے درد سے انجان سا کیوں ہے
مٹی کا بنا ہے تو پگھل کیوں نہیں جاتا
پتھر کا اگر ہے تو پھر انسان سا کیوں ہے
ہوا کے سنگ پھڑپھڑاتا کاغذ آدھا اس کے ہاتھ میں دبا تھا۔۔۔ان خطوں میں سے ایک خط تھا جو اسے لکھا گیا تھا۔
”اس رات میں نے اللہ سے سوال کیا۔۔۔ بار بار یہی پوچھا کہ اس شخص کو میری زندگی میں کیوں بھیجا گیا؟؟ نہ وہ ہوتا نہ یہ سب کچھ ہوتا۔۔۔۔ شاید میں ادھم سے شادی کرلیتی۔۔۔ شاید کسی کو نہ بتاتی وہ اللہ سے کتنا دور تھا۔۔۔پھر نہ میں بےوفا کہلاتی۔۔ نہ بےایمان۔۔۔ نہ پیسوں کے لیے کسی کی محبت قبول کرنے والی۔۔۔پھر نہ ماں کے سامنے میرا سر جھکتا۔۔۔۔ نہ کوئی مشارب ہوتا۔۔۔ نہ میں اکیلی ہوتی۔۔۔۔ آخر کیوں اللہ نے اسے بھیجا۔۔۔ کیوں میرا دل اس معیار سے کم پر راضی نہیں ہوا جو اس شخص نے قائم کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟
کیوں مجھے اللہ والے کی محبت نے ایسا بنا دیا کہ مجھے اللہ سے دور لوگ پسند ہی نہیں آتے؟؟ کیوں اللہ والے کی مداخلت نے مجھے اکیلا کردیا۔۔؟؟؟ کبھی کبھی میں اللہ سے پوچھتی ہوں۔۔۔ایسا کیوں ہوا۔۔“
وہ مٹی کا بنا انسان جو پتھر سے کم نہیں تھا وہ کب کا پگھل چکا تھا۔۔۔ وہ قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔۔۔ وہ ختم ہورہا تھا۔۔۔ پر کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ چلتے چلتے کافی دور نکل آئی تھی۔۔۔۔ سامنے ہی بس اسٹاپ تھا۔۔۔وہ وہاں کھڑی ہوگئی۔۔۔ بارش ہلکی تھی لیکن وہ کافی حد تک بھیگ چکی تھی۔۔
اسے حیرت ہورہی تھی خود پر کہ وہ صحیح سلامت کیسے تھی؟؟
آس پاس کے لوگ بارش انجوائے کر رہے تھے۔۔۔اس نے خالی خالی نظروں سے چاروں جانب دیکھا۔۔۔
ہنستے چہروں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ابھی ابھی اس پر کیا قیامت گزری تھی۔۔۔ اسے شدت سے اکیلا پن محسوس ہوا۔۔۔ جیسے پوری دنیا میں وہ بس اکیلی ہو۔۔۔
”کیا تمہیں کبھی ایسا نہیں لگا کہ ہم آلریڈی جہنم میں ہیں۔۔؟؟“
دور کہیں ماثیل کی آواز گونجی تھی۔
”نہیں بالکل نہیں۔۔۔“ وہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ تھی۔۔۔جانے کونسا ضروری کام تھا جو ماثیل سے زیادہ اہم تھا۔
”لیکن مجھے ایسا ہی لگتا ہے جیسے قیامت گزر گئی ہے اور ابھی میں جہنم میں سزا کاٹ رہا ہوں۔۔“
وہ اس کے چہرے کو آنکھوں میں سموئے کہہ رہا تھا۔
”کیسی سزا؟؟ اور ویسے بھی سزا ایسی نہیں ہوتی۔۔۔“
وہ کام کرتے کرتے اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔۔۔پول میں بطخیں تیر رہی تھیں اور وہ دونوں ماثیل انسٹیٹیوٹ میں تھے۔
”اکیلے پن کی سزا۔۔۔۔ شاید مجھے اکیلے پن کی سزا دی گئی ہے۔۔۔“ وہ بتا رہا تھا۔
”اکیلے پن کی سزا کونسی ہوتی ہے بھلا؟؟“ وہ الجھی۔
”جب آپ کی سوچ کسی سے نہ ملتی ہو۔۔۔ جب کوئی آپ کا درد نہ سمجھ پائے۔۔۔یہاں تک آپ کا محبوب شخص بھی نہیں۔۔۔“ وہ بےبسی سے بولا تھا۔
اور آج اسے یہی احساس ہوا تھا۔۔۔ جیسے قیامت گزر چکی ہو اور اللہ نے اسے ”اکیلے پن“ کی سزا کاٹنے جہنم میں بھیج دیا ہو جہاں کوئی بھی اس کا درد نہ سمجھتا تھا۔۔۔کوئی اس کے دکھ سے واقف نہ تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ کتنی دیر بس اسٹاپ پر کھڑی رہی نہیں جانتی تھی۔۔ بس کب آئی وہ کب اندر بیٹھی اسے یہ بھی احساس نہ ہوا۔۔۔ چونکی تب جب اسے کارڈ اسکین کرنے کو بولا گیا۔۔۔اس کے پاس کارڈ نہیں تھا۔۔۔شاید وہ کہیں بھول آئی تھی۔اس نے ٹکٹ خریدی اور پیسے ادا کر دیے۔
والٹ بیگ میں واپس ڈالٹے اس کے ہاتھ رک گئے۔۔۔ اس کے کندھوں پر ایک جیکٹ تھی۔۔۔وہ ساکت رہ گئی۔۔۔
جیکٹ کہاں سے آئی تھی اسے نہیں پتا چلا۔۔۔کون اس کے کندھوں پر ڈال گیا تھا اسے احساس ہی نہ ہوا۔۔۔ کیا وہ اتنا غائب دماغ رہی تھی۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں اب آنسوں ابھرنے لگے تھے۔۔۔۔ وہ یونہی بیٹھی رہی۔۔۔بس رک رہی تھی۔۔ اسٹاپ گزرتے جارہے تھے۔۔۔ وہ شیشے سے باہر بھاگتے نظاروں کو دیکھ رہی تھی جبکہ دماغ ابھی تک اس بات کو قبول کرنے سے عاری تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوچکا تھا۔۔۔۔
وہ آج صبح تک کسی کی منکوحہ تھا اور اب طلاق یافتہ تھی۔۔۔ کیا دنیا اسے قبول کرلے گی۔۔۔؟؟
وہ گود میں رکھے اپنے بیگ پر جھک گئی۔۔۔ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
اس نے جیکٹ اتار کر گود میں رکھ لی تھی۔۔ اور تبھی اس کی نظر اس سفید کاغذ پر پڑی جسکا کونا جیکٹ کی جیب سے نظر آرہا تھا۔۔۔وہ سیدھی ہوئی اور اس نے کاغذ کو نکالا۔۔ وہ کاغذ فولڈ تھا۔۔۔اس نے کھولا تو اندر بڑا سا لکھا گیا تھا۔
”نہیں ہم جہنم میں نہیں ہیں۔۔۔بلکہ تخلیق کی ندی میں بہہ رہے ہیں۔۔۔ یہ ندی تمہیں صحیح ٹھکانے پر لے جائے گی۔۔“ الفاظ اس کے سر کے اوپر سے گزر گئے۔۔۔اس نے کاغذ کو کا گولا بنا کر بیگ میں ڈال لیا اور پھر سے جھک کر اپنے بیگ پر سر رکھ دیا۔۔۔ اس وقت اس کا شدت سے یہی دل چاہ رہا تھا کہ یہ بس چلتی رہے۔۔۔ کبھی نہ رکے۔۔۔اور اسے کہیں اترنا نہ پڑے۔۔ کیونکہ اس کی کوئی منزل نہیں تھی۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
Maseel Previous Episodes
سط کا آغاز کس قدر خوبصورت ہے۔۔ کمال است!!!
ReplyDeleteاور اس قسط میں جا بجا خوبصورت اقتباس بھی ہیں۔۔
"جن دلوں میں اللہ بستا ہو، ان دلوں تک پہنچتے بھی اللہ والے ہی ہیں۔"
اور یہ لائن خوبصورت ترین!!!
اور پھر دیکھا جائے تو تنقید نگاروں کا کہنا ہوتا ہے یہ فرضی کردار ہمارا سٹینڈرڈ ضرورت سے زیادہ ہائی کر گئے ہیں۔۔ اور اسلام سے زیادہ کس مے سٹینڈرڈز ہائی رکھے ہیں بھلا ؟؟ بس سمجھتا نہیں کوئی۔۔
لیکن ام ایمان ،، حرم نور کے بعد میرا دوسرا پسندیدہ کردار بن چکی ہے۔۔
اور جیکٹ اور نوٹ یہ یقیناً حاد تھا۔۔
اور لاسٹلی آئی رئیلی وش فار ایمان ٹو اینڈ اپ وڈ حاد۔۔۔
کیونکہ جس کرب سے وہ گزر رہی اگر اسے ختم کرنا ہے تو ماثیل اور عبدل کبھی اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔
لیکن دو مرتبہ طلاق😕
مجھے نہیں معلوم کیا ہونا ہے کیا نہیں۔۔ بس اینڈ حاد کے ساتھ ہی پرفیکٹ بنتا ہے وگرنہ میل لیڈز کو چھوڑ کے باقی دو سے تھوڑی بہت ہوتی بھی ہے تو ایمان کے ساتھ سب سے زیادتی ہو جائے گی۔۔
Uff.. Amazing maza a gya parhny کا aur shukr h episode a gi boht impatiently wait hota episode ka.. Osmm likhti hain ap❤️🥰
ReplyDeleteJis epi main maseel na ho mera dil nai khush hota epi parh k ...mtlb hota b ha ..pr nai b hota..samjh rhi hen na 🤭🤭baki episode is best as always...pr plz plz ...maseel or imaan ko mila den...main nai dena imaan ko or kisi ko b plzzz
ReplyDeleteOmGosh
ReplyDeleteYrrr kya likhti hain ap osm
تخلیق کی ندی.. اوسم
ReplyDelete
ReplyDeleteI have no words for today's episode,just amazing 😍
Mind blowing.. osm.. thank u it I jaldi episode ka last time tu it a wait krna pra tha..
ReplyDeleteSpeechless mtlb mzah aagya prh k Or bhttt hi acha likhti hain aap ab or intizaar nahi hoga next epi ka plz is ko jldi cmplt kr dain
ReplyDeleteImpressive👍💖
ReplyDeleteNOOR RAJPOOT aap boht aacha likhti hain ,sab ka favorite novel jannat ka paate ,peer e kamil hai par Mera sulphite or ab maseel bhi favorite hogaya hai
ReplyDelete