مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_41 #پارٹ2
”کیا اس دن تم نے کچھ نوٹس کیا تھا۔۔۔؟؟؟“ کچھ پل کی خاموشی چھائی۔
”میں بھی کتنا پاگل ہوں۔۔ کیا پوچھ رہا ہوں۔۔ تم بھلا کیسے نوٹ کرو گی۔۔۔“ وہ خود ہی سوال جواب کر رہا تھا۔
”زندگی میں بہت بار میں نے حاد کو مارا ہے۔۔۔بلاوجہ، جان بوجھ کر، غصے میں اور اسے ٹارچر کرنے کے لیے۔۔۔۔اس نے کبھی مقابلہ نہیں کیا۔۔۔کرنا ہی نہیں چاہا۔۔۔ اس کے سامنے یہ بہت ہی فضول سا کام تھا۔۔ اور پہلی بار وہ میرے مقابل آیا تھا۔۔“ جانے وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا۔۔ اس کا ذہن آج بھی اس طوفانی رات میں اٹکا تھا۔
”میں پہلی بار حیران ہوا۔۔۔ وہ مجھ سے اچھا فائٹر ہے یہ میں اگلے پل میں ہی جان گیا۔۔۔پر اُس نے اس بار مار کھائی تو وجہ تم تھی۔۔۔“
وہ سر جھکا کر ہنس دیا۔
”اس کی نظریں تم پر تھیں۔۔۔۔ وہ حیران تھا۔۔ میں نے حاد جبیل کو زندگی میں پہلی بار حیران دیکھا تھا۔۔۔“
وہ مزید کچھ بولتا اس سے پہلے ہی اس کا فون بج اٹھا۔ اس نے فون کو دیکھا۔
”اوکے ایمانے مجھے جانا ہوگا۔۔۔پھر ملتے ہیں۔۔۔ ٹیک کیئر۔۔“ ہاتھ بڑھا کر اس نے کیمرہ بند کردیا۔
✿••✿••✿••✿
You Are Mine.. 156
رات کا پچھلا پہر۔۔۔
پرائیویٹ کلب کان کے پردے پھاڑ دینے والے میوزک سے گرج رہا تھا۔۔۔ عجیب و غریب لباس پہنے عورتیں اور مرد ایک ایسے نشے میں ڈوبے تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ زندگی بس یہی سب کچھ ہے۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔!
رنگ برنگی روشنیوں اور بےہنگم اچھلتے کودتے جسموں کے درمیان بیٹھا وہ شخص شیشے کی میز پر جھکا سفید پاؤڈر نیک کے ذریعے اپنے اندر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
لڑکیاں اس کے ارد گرد منڈلا رہی تھیں پر اس کا سارا دھیان اس سفید زہر پر تھا جس سے وہ اپنا کھویا ہوا سکون واپس پانا چاہتا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ سکون کھو جائے تو واپس کب ملتا ہے۔
”میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ایسی محبت کرو اگر میں بستر مرگ پر تم سے ڈرگز مانگو تو تم میری تکلیف میری تڑپ دیکھ نہ پاؤ اور ڈرگز لے آؤ۔۔“
اس کے اپنے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے اور اس کے وجود میں بےچینی مزید بڑھ گئی۔
کون کرتا ہے کسی سے ایسی محبت؟؟؟ کوئی بھی نہیں۔
اور جو کرلے ہمیں اس کی محبت چاہیے ہی نہیں ہوتی۔۔ انسانی المیہ ہے کہ ہمیں من پسند محبت بھی من پسند شخص سے چاہیے ہوتی ہے۔۔۔
وہ من پسند شخص جس کو خود اس نے اپنی زندگی سے نکالا تھا۔
پرائیویٹ کلب میں شور بڑھتا جارہا تھا اور کئی لمحے خود سے جنگ لڑنے کے بعد وہ اسی میز پر بےسود گیا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ لاکھوں کی بھیڑ میں اکیلا کھڑا تھا۔۔۔ بالوں کو چھوٹی سی پونی میں قید کیے۔۔۔ ہاتھ میں مائیک تھامے۔۔۔۔ اسپاٹ لائٹس روشنیوں میں سب کی توجہ کا مرکز۔۔
Late at night I could hear the crying
I hear it all, trying to fall asleep
When all the love around you is dying
اس کے ہونٹ کے کنارے پر چھوٹا سا موتی چمک رہا تھا جسے اس نے چھید کروا کر پہنا تھا۔۔۔ اس کے ٹیٹوز سے بھرے ہاتھ اور بازو سننے والوں کو اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔
How do you stay so strong?
How did you hide it all for so long?
How can I take the pain away?
How can I save.....!!
اس کے سامنے ہمیشہ وہ رہتی تھی اکیلے سب سنبھالتی ہوئی۔۔۔ وہ اسے بچانا چاہتا تھا پر نہیں بچا پایا تھا۔
وہ چاہ کر بھی واپس نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہ پہلے۔۔ بہت پہلے۔۔۔ اس کی زندگی سے خود نکل آیا تھا۔۔!! اس نے ایک اچھی لڑکی کی زندگی سے Exit لے لیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ہم کیسے مان لیں کہ اللہ ہمارا ہے؟؟ اس نے کبھی کہا ہی نہیں۔۔۔پھر کیسے ہم یقین کرلیں وہ مہربان ہے۔۔ وہ ہمیں اپنا لے گا۔۔ جب ہم اس کی جانب پلٹیں گے؟؟ کیسے مان لیں کہ سب بدل جائے گا۔۔؟؟“
ایک ایسی لڑکی کا سوال تھا جو بھٹک گئی تھی۔۔ جس سے بےپناہ گناہ ہوگئے تھے۔۔۔اور اب وہ سب چھوڑنا چاہتی تھی پر خوفزدہ تھی کہ اللہ اسے دھتکار دے گا۔۔۔اس کا ہاتھ جھٹک دے گا۔۔ اسے نہیں اپنائے گا۔۔۔ اسی لیے وہ اس کے سیشن میں اپنا سوال لے آئی تھی۔
حاد نے خاموشی سے اس کا سوال سنا۔۔۔اور پھر سر جھکا دیا۔۔۔ اکثر وہ سر جھکا کر نظریں اپنے جوتوں پر گاڑھ دیتا تھا۔۔۔ پتا نہیں وہ کیا سوچتا تھا کیا کھوجتا تھا۔۔۔
اس سوال سے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان ابھری تھی۔
الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ
اس نے عربی میں قرآن کی آیت پڑھی۔
(They are the ones) who, when afflicted with some distress, say: ‘Indeed, to Allah we belong and to Him we shall return.’
اور وہ لوگ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بیشک ہم بھی اللہ ہی کے ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔
(الْبَقَرَة، 2 : 156)
اس نے عربی انگلش اور اردو تینوں زبانوں میں اس آیت کو سنایا تھا۔۔۔
”کیا آپ لوگوں نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ اس آیت میں ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟؟ ڈائریکٹلی ان ڈائریکٹلی؟؟“
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔ سب خاموش تھے۔
”کس نے کہا کہ اللہ ہمارا نہیں ہے؟؟ اللہ آپکا نہیں ہے؟؟ ایسا کیوں لگتا ہے آپ لوگوں کو؟؟“
اب وہ الٹا سوال پوچھ رہا ہے۔
”اگر آپ لوگ سننا چاہیں سمجھنا چاہیں تو اللہ خود کہہ رہا ہے تم لوگ مجھ سے Belong کرتے ہو۔۔ تم میرے ہو۔۔ یو آر مائن۔۔۔اور تمہیں میری طرف ہی لوٹنا ہے۔۔۔۔ یو آر مائن۔۔۔ یو آر مائن۔۔۔“
اس کا سر پھر سے جھک گیا تھا۔۔۔ کچھ ایسا تھا الفاظ میں۔۔۔ اس کے لہجے میں۔۔۔ اس کے جھکتے سر میں کہ اسے سنتا ہر شخص کا دل مچل اٹھا تھا۔۔۔
یور آر مائن۔۔۔ تم میرے ہو۔۔۔ تمہیں میری طرف ہی لوٹنا ہے!!
اس کا سر تب ہی جھکتا تھا جب I am the greatest یعنی اللہ تعالیٰ کی بڑائی پر بات آتی تھی۔۔۔اور یہ بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا تھا۔۔۔
سیشن ختم ہوچکا تھا۔۔۔رات کا پچھلا پہر تھا۔۔۔رات ایک ہی تھی کو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی تھی۔۔۔ اسی ایک رات میں وہ اللہ سے بہت کچھ منوا سکتا تھا۔
سفید شلوار قیمص پہنے وہ وضو کرکے جب باہر نکلا تو اس کا شفاف چہرہ وضو کے پانی میں موتیوں کی طرح چمک رہا تھا۔ اس نے بازو کے کف نیچے کیے۔ سر پر ٹوپی اوڑھی اور جائے نماز بچھا کر اس پر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
وہ جتنا بڑا گیمر سہی پر وہ ایک انسان تھا اور ایسا انسان جس کو سر صرف ایک خدا کے سامنے جھکتا تھا۔۔
وہ جانتا تھا ادھم جبیل اس وقت کہاں تھا۔۔ وہ یہ بھی جانتا تھا عبدل جبیل کا کنسرٹ چل رہا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تو کلب میں آگ لگوا سکتا تھا۔۔۔وہ چاہتا تو کنسرٹ رکوا سکتا تھا۔۔ پر اس سے پہلے وہ اللہ سے کچھ گفتگو کرنے آیا تھا۔۔۔ بہت ضروری گفتگو تھی۔
اس نے نیت باندھی۔۔۔ اس کی پیشانی سے ننھی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ اس کے پاؤں اتنے صاف شفاف تھے کہ اگر کوئی دیکھ لیتا تو نظریں پاؤں سے اٹھا کر سر تک نہ لے جاتا۔۔۔
وہ رکوع کے بل جھکا۔۔پھر کھڑا ہوا۔۔۔پھر وہ جھکا اور سجدے میں چلا گیا۔۔۔اس کا سجدہ لمبا ہوگیا۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔ اس نے تہجد کے نوافل پڑھے اور اس کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔
”زہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔۔“
اس کے سینے کے مقام پر تکلیف ہوئی تھی۔
”یا میرے مالک! تو جانتا ہے میں کیا ہوں۔۔۔ میں کیوں ہوں اور میں کب تک ہوں۔۔۔۔ پر میں شیطان نہیں ہوں!!
اے میرے مالک! میں نے آج تک جو کیا سب کی بھلائی کے لیے کیا ہے اور میں جو آج کرنے جا رہا ہوں اس سے بھی تو واقف ہے۔۔!!
ہر لذت کی انتہا بےزاری ہے۔۔۔ اے میرے مالک عبدل اور ادھم کو اس لذت سے بےزار کردے جس میں وہ مبتلا ہیں۔۔۔۔ میں ان کا دل نہیں بدل سکتا۔۔۔۔ دل بدلنے کی طاقت صرف تیرے پاس ہے۔۔۔یا اللہ تو ان کا دل بدل دے۔۔۔۔!!
وہ سر جھکائے نم آنکھوں سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہا تھا۔۔۔ وہ حاد جبیل جو ایک اشارے سے بہت کچھ کر سکتا تھا اس حاد جبیل کو صرف اللہ سے مدد مانگنا پسند تھا۔۔
وہ عبدل کو اگر سنگنگ تک لایا تھا کہ اسے ڈھونڈ سکے تو وہ آسانی سے اسے اس سے دور بھی کر سکتا تھا۔۔
دعا مانگنے کے بعد وہ اٹھا اور فون اٹھایا۔۔۔۔
جس کلب میں ادھم جبیل تھا وہاں آگ لگ گئی تھی۔۔۔ کچھ دیر بعد وہاں پولیس موجود تھی۔۔۔۔ لوگ جان چھڑا کر بھاگے تھے۔
جس جگہ عبدل کا کنسرٹ تھا وہاں ٹائٹ سیکیورٹی کے باوجود ہوائی فائرنگ ہوئی تھی۔۔۔۔ عوام بوکھلا کر بھاگنے لگی تھی۔۔۔
کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔۔ البتہ دونوں چیزیں رک چکی تھیں۔۔۔۔
خبر سننے کے بعد اس نے فون بند کرکے واپس رکھ دیا۔۔۔۔
وہ حاد جبیل تھا۔۔۔ وہ برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا تھا۔۔!!
✿••✿••✿••✿
صحن ہجراں میں تیری یاد کے جگنو چمکیں
دشت امکاں میں تیری شکل سی آ بنتی ہے
آنکھ سے خون بہے، جسم جلے، راکھ اڑے
اب تیرے عشق میں اتنی تو سزا بنتی ہے۔۔!!
”ایما کی شادی ہوچکی ہے۔۔“
الفاظ تھے یا خنجر۔۔۔ اس کا دل زخمی زخمی ہوا تھا۔
”لاسٹ ٹائم میری اس سے بات ہوئی تو یہی پتا چلا۔۔۔ اس نے کہا کہ میں دوبارہ اس سے کبھی کنٹیکٹ نہ کروں۔۔“
روز گود میں رکھے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے بتارہی تھی۔
وہ سر جھکائے سن رہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ خود کو نہیں سمجھا پارہا تھا کہ وہ لڑکی اب کسی اور کی ہوچکی تھی۔
”ہم نے اسے گنوا دیا۔۔۔۔“ وہ افسردہ تھی۔
”اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔۔۔“
ماثیل نے گہرہ سانس لیا۔ انسٹیٹیوٹ تب سے بند تھا جب سے وہ گئی تھی۔ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود کوئی مجسمہ نہیں بنا سکا تھا۔۔۔ وہ کورس جاری نہ رکھ پایا۔
”اس نے آپ کے لیے ایک پیغام دیا ہے۔۔“
اس نے بار ماثیل نے جھٹکے سے سر اٹھا کر روز کو دیکھا۔۔۔ اس ستم گر کی طرف سے کوئی تو پیغام آیا۔۔۔ اسے کچھ تو یاد تھا وہ۔۔۔ اس کی آنکھیں بےتابی سے روز کے چہرے کو جانچ رہی تھی جیسے سب کچھ وہاں لکھا ہو۔
”ادھم کو کہنا کہ لوٹ جائے۔۔۔ ادھم جبیل کو کہنا کہ جبیل خاندان اس کا منتظر ہے۔۔۔۔“
اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ روز اسے یوں بیٹھے دیکھ کر اٹھی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس سے دور ہوتی گئی۔
آنکھ سے خون بہے، جسم جلے، راکھ اڑے
اب تیرے عشق میں اتنی تو سزا بنتی ہے۔
ہاں وہ جل رہا تھا۔۔۔اور یہ آگ اس کے خود کی لگائی ہوئی تھی۔ یہ صرف عشق کی نہیں عشق میں بےوفائی کی سزا تھی۔ اسے ابھی مزید جلنا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اسی وقت ٹی وی پر ایک عجیب سی خبر گردش کر رہی تھی جو سعد کے لیے کافی پریشان کن تھی۔ اس نے حاد کا نمبر ملایا۔۔ کچھ دیر بعد فون اٹھا لیا گیا۔
”بولو سعد۔۔“ مصروف سی آواز ابھری تھی۔
”حاد بھائی نیوز دیکھیں۔۔“ اس نے چینل کا نام بتایا اور فون بند کردیا۔ کچھ دیر بعد حاد نے ٹی وی آن کیا۔
مطلوبہ چینل پر ایک خبر چل رہی تھی اور ایک ریکارڈ ویڈیو بار بار دکھایا جارہا تھا۔
”ناظرین یہ ہے جانے مانے ینگسٹر حاد کا اصل چہرہ۔۔ جسے دنیا ہیرو سمجھ رہی ہے۔۔ اس نے ڈرا دھمکا کر اس آدمی سے زمین اپنے نام کروالی ہے۔۔“
حاد کی بھنویں سکڑیں۔۔ اس نے اسکول کے لیے جس آدمی سے زمین خریدی تھی وہ اس وقت رو رو کر بتارہا تھا کہ کیسے اسے ڈرا دھمکا کر گن پوائنٹ پر حاد نے زمین ہتھیا لی تھی۔
”حد ہے۔۔۔“ اس نے ٹی وی بند کردیا۔۔ اس کے دشمن آج کل ایکٹیو ہوگئے تھے اور اب اس تک پہنچنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ حاد اس سب کے لیے پہلے سے تیار تھا۔ البتہ سید حویلی میں جب سید جبیل نے یہ خبر سنی تو ان کا دماغ الٹ گیا۔
انہیں پہلے ہی حاد پر غصہ تھا جس نے ابھی تک اپنا سر نیم چھپا رکھا تھا تاکہ لوگ یہ جان نہ سکیں کہ وہ جبیل خاندان کا وارث تھا۔۔ وہ سب اپنے بل بوتے پر کرنا چاہتا تھا۔
شام میں حاد کا سیشن تھا۔۔ اس کے بعد وہ سیدھا جہاں سکول تعمیر ہورہا تھا وہاں چلا گیا۔۔ سعد بھی وہیں تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہاں پولیس آگئی۔۔ ساتھ میں کئی رپورٹرز بھی تھے۔
وہ لوگ سیدھا اندر گھس آئے۔
”مسٹر حاد تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔ تمہارے خلاف اس زمین کے مالک نے کیس درج کیا ہے۔۔“
انسپیکٹر اس کے سامنے کھڑا ہوتے بول رہا تھا۔۔۔ اسے پھنسانے کے لیے جال بچھایا گیا تھا۔۔۔ میڈیا والے دھڑا دھڑ اس کی تصویریں بنا رہے تھے۔ جبکہ حاد گرے آنکھوں پر چشمہ لگائے پرسکون کھڑا تھا۔
اس کی آنکھیں دنیا کی تین فیصد لوگوں میں سے تھیں جن کا رنگ گرے ہوتا ہے اور یہ آنکھوں کی رنگت کی سب سے نایاب قسم ہے۔
”میرے خلاف ثبوت ہے؟؟“
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے بولا۔
”آپ کے خلاف ایک نہیں بہت سارے کیس درج ہیں۔۔۔“
انسپیکٹر نے اسے بہت سارے مفتی اور مولویوں کے اس کے خلاف درج کردہ مقدموں کی لسٹ بتائی۔ وہ لوگ پوری تیاری کرکے آئے تھے۔
”اور سب سے بڑی بات آپ کا وجود ہی سوالیہ نشان ہے۔۔۔ کوئی نہیں جانتا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟؟ یہاں آ کر آپ نے لوگوں کوں بھٹکانا شروع کردیا ہے۔۔ “
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا اچانک وہاں شور اٹھا اور تین چار گاڑیاں آگے پیچھے آکر کھڑی ہوئیں۔
کندھے پر پستول تانے ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر سے سید جبیل باہر آئے۔
کندھوں پر بھاری شال ڈالے وہ رعب سے چلتے ان کی جانب بڑھے۔ رپوٹرز اب دھڑا دھڑ سید جبیل کی تصویریں بنا رہے تھے۔۔
”کس نے کہا اس کا وجود سوالیہ نشان ہے؟؟؟ اگر اس نے اپنے خاندان کا نام چھپایا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سوالیہ نشان ہے۔۔“
وہ گرج دار آواز میں بولے۔
حاد یہ نہیں چاہتا تھا پر اس وقت سید جبیل کو بولنے سے روکنا گدھا اور الو کو پٹھا سننے کے برابر تھا۔
”یہ میرا پوتا ہے۔۔۔سید حیدر جبیل کا پوتا۔۔۔ مشہور اسکالر روحان جبیل کا بیٹا حاد جبیل ہے۔۔ سب سن لو۔۔“
انہوں نے حاد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اعلان کیا۔۔۔ حاد نے اپنا سر پیٹ لیا جبکہ پولیس والوں گھگی بند گئی۔ انہیں اس بات کی امید نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد وہاں پولیس کی گاڑیوں کی لائن لگ گئی تھی۔
”معاف کیجیے گا جبیل صاحب۔۔۔ہمیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ لڑکا آپ کا پوتا ہے۔۔۔ میں خود اس کیس کی جانچ پڑتال کروں گا۔۔“ ایس ایچ او نے معذرت کرنے والے انداز میں کہا۔
یہی سب حاد نہیں چاہتا تھا۔ کچھ دیر بعد یہ خبر ٹی وی پر چل رہی تھی۔۔ حاد صرف حاد نہیں حاد جبیل تھا۔۔
اور بند کمرے کی سیاہی میں دیوار اسکرین پر سید جبیل اور حاد کی آج کی تصویر واضح تھی۔
”کہا تھا نا اس لڑکے کا تعلق جبیل خاندان سے ہے۔۔۔لو دیکھ لو واضح ہوگیا۔۔“
فون کان سے لگائے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حاد جبیل کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا یہ سب کرنے کا مقصد صرف حاد کے خاندان کا پتا لگانا تھا اور وہ اس نے لگا لیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ دیر بعد وہ سید جبیل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تھا۔
گاڑی میں گہری خاموشی چھائی تھی۔ حاد کو سید جبیل سے اس شدید رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
”بابا آپ ملتان سے یہاں آئے ہیں صرف یہ بتانے کے لیے کہ میں آپ کا پوتا ہوں۔۔“
”تو تمہیں چھپانے کی ضرورت کیا تھی برخوردار؟؟“ سید جبیل بھڑک اٹھے۔۔۔اب حاد انہیں کیا بتاتا وہ کس گیم کا حصہ تھا۔۔ اس کے آس پاس کیا چل رہا تھا۔
”میں سنبھال لیتا نا۔۔“ وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
”مجھے جو ٹھیک لگا میں نے وہی کیا۔۔۔اور اب تم کچھ نہیں بولو گے۔۔ میں خود دیکھ لوں گا سب۔۔۔“ ان کا انداز حکمرانہ تھا۔۔۔ حاد نے گہرہ سانس لیتے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔۔۔ وہ اب گھر جا رہے تھے۔۔۔وہ گھر جہاں حاد ابھی رہ رہا تھا۔۔ وہ گھر جو شامو کاکا اور آرجے کا تھا۔
وہ جا چکے تھے جبکہ سعد وہیں حیران کھڑا تھا۔۔ اس کا دل کہیں نہ کہیں یہ کہتا تھا کہ حاد کا جبیل خاندان سے ضرور کوئی رشتہ تھا۔۔ پر حاد نے جس طریقے سے اس راز کو راز رکھا وہ ستائش بخش تھا۔۔۔
اسے خوشگوار حیرانی ہورہی تھی۔۔۔
”حاد بھائی صرف حاد نہیں بلکہ حاد جبیل ہے۔۔۔ روحان جبیل کا بیٹا۔۔۔“
وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔۔۔ ایک الگ سی انرجی رگ و پے میں دوڑ گئی تھی۔
کچھ دیر بعد پورے میڈیا پر ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی۔
”حاد کا تعلق جبیل خاندان سے ہے۔۔۔وہ حاد جبیل ہے۔“ وہ شخص جس پر چند کنالوں کی زمین ہڑپنے کا الزام لگایا جا رہا تھا وہ خود مربعوں اور کڑوڑوں کا مالک تھا۔۔۔
✿••✿••✿••✿
ایک سال بعد
اسلام آباد
بہت کچھ بدل گیا تھا۔۔ بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل گیا تھا۔۔۔ جو نہیں بدلا تھا وہ اس کا کمرہ تھا۔۔۔ گرے رنگ کا وہ خالی کمرہ جس کے اندر صرف ایک بیڈ تھا۔۔ اور وہ نیچے زمین پر بیٹھی تھی۔۔ گھٹنوں میں سر دبائے۔۔۔۔
”تم ایمان نہیں بےایمان ہو۔۔۔“
ماضی کے جملے جو کسی تلوار سے کم نہیں تھے آج بھی اسے ٹارچر کرتے تھے۔ اس نے اپنا سر مزید گھٹنوں میں چھپا لیا۔
”نن۔۔۔نہیں۔۔۔ مم۔۔میں بےایمان نہیں ہوں۔۔“
”میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔“
”میں نے بےایمانی نہیں کی۔۔۔“
وہ مدھم آواز میں خود سے سرگوشیاں کر رہی تھی۔۔ وہ اس آواز کو جواب دے رہی تھی جو اس کی سماعت سے بار بار ٹکرا رہی تھی۔
”آج سے ہمارا تمہارا ہر رشتہ ختم۔۔۔۔ مر گئی ہو تم ہمارے لیے۔۔“
کسی نے اسے زور سے دھکا دیا تھا۔۔۔۔
”نن۔۔۔نہیں۔۔ میں بےایمان نہیں ہوں۔۔“
جب وہ آواز آنا بند نہ ہوئی تو وہ زور زور سے چلانے لگی۔
”نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔بس کرو۔۔۔ امی۔۔۔“
وہ گھٹنوں سے سر اٹھا کر پوری وقت سے چلائی۔
گلاس ونڈو کے باہر کھڑا حاد جبیل سانس روکے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
”ہمیں نفیساتی بنانے میں۔۔۔ہمیں پاگل کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے اپنوں کا ہوتا ہے۔۔۔“
وہ پچھلے ایک ماہ سے یہاں تھا۔۔۔۔ وہ کہیں اور جا ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔ پر اس لڑکی کی حالت اگر ذرا سی سنبھلتی تو اچانک بگڑ جاتی تھی۔
”مجھے اندر جانا ہے۔۔“ اس نے اپنے ساتھ کھڑے ڈاکٹر سے کہا۔
”مجھے نہیں لگتا یہ اچھا خیال ہے۔۔۔ وہ تمہیں دیکھ کر منہ موڑ لیتی ہے۔۔۔“ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
”مجھے پھر بھی جانا ہے۔۔۔“ وہ سپاٹ چہرہ لیے کہہ رہا تھا۔
”پیشنٹ جس بھول بھلیا میں قید میں ہم ابھی تک اس کا دروازہ نہیں ڈھونڈ پائے ہیں۔۔“
”تو کب ڈھونڈیں گے آپ؟؟ میں آپ کو لندن سے یہاں اس لیے نہیں لایا کہ بیٹھ کر انتظار کروں۔۔۔“
وہ دبی دبی آواز میں چلایا۔۔۔ ڈاکٹر ڈینیل نے اسے پہلی بار غصے میں دیکھا تھا۔۔۔ وہ اپنے جذبات چھپانے میں ماہر تھا۔
”انتظار تو کرنا پڑے گا۔۔۔“ اس نے حاد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور حاد نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔
”اوپن دی ڈور۔۔۔“
اس نے جیسے حکم دیا۔۔۔اگلے ہی پل دروازہ کھول دیا گیا۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے سے اندر داخل ہوا۔ سامنے بیٹھی لڑکی اب ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ اس کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔وہ شکستہ قدموں سے چلتا اس کے قریب فرش پر ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔
اس کا شدت سے دل چاہا تھا وہ اسے سینے سے لگائے۔۔۔ لیکن وہ گم سم بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔
وہ رو رہی تھی۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا اسے رونے دو۔۔۔ اس سے اس کے دماغ پر پڑی دھند ہٹے گی تو شاید کچ بہتری آئے۔
کچھ دیر بعد لڑکی نے گھٹنوں سے سر اٹھایا تو اپنے قریب بیٹھے شخص کو دیکھ کر ساکت رہ گئی۔۔۔
اس کے سامنے ایک گرے چمکتی آنکھوں والا خوبصورت شخص بیٹھا تھا۔۔۔۔
وہ کئی لمحے اسے حیرت سے دیکھتی رہی۔۔ پھر اس نے فوراً کروٹ بدل لی۔۔۔ رخ موڑ لیا۔۔۔۔ وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔۔بلکہ مزید پیچھے کھسک گئی۔۔
اس کی یہ حرکت دیکھ کر حاد نے اپنی سے کچھ نکالا۔ اس کے ہاتھ میں اب چند لفافے تھے۔۔۔یہ وہ خط تھے جو وہ وقفے وقفے سے اسے لکھتی رہی تھی۔
”میں نے یہ سارے پڑھ لیے ہیں۔۔۔ سب۔۔۔ ایک ایک لفظ۔۔۔“
لڑکی ویسے ہی بیٹھی رہی۔
وہ اب لفافوں کو ترتیب سے زمین پر رکھ رہا تھا۔۔۔وہ ٹوٹل سات لفافے تھے۔۔۔ وہ خط جو اس نے حاد کے نام لکھے تھے پر کبھی پوسٹ نہیں کیے۔
”کاش تم نے یہ سب مجھے پوسٹ کر دیے ہوتے۔۔۔“
وہ اب انہیں لائن میں ترتیب سے رکھے ان پر انگلی پھیر رہا تھا۔ دائیں سے بائیں تو بائیں سے دائیں۔۔۔۔
”پتا ہے مجھے بھی تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔۔۔ وہ سب جو میرے اندر ہے۔۔“ لڑکی کے وجود میں جنبش نہ ہوئی۔۔۔ وہ جیسے اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
”لیکن تم یوں منہ موڑے بیٹھی رہو گی تو میں کیسے کہہ پاؤں گا۔۔“ وہ جواب نہیں دے رہی تھی پر وہ بولتا رہا۔
”کیا تمہیں پتا ہے میری آنکھ سے کبھی آنسوں نہیں نکلا۔۔۔ آج تک نہیں۔۔۔“ وہ پھیکا سا ہنس دیا۔
”پر تمہیں یہاں دیکھتا ہوں تو دل کٹتا ہے۔۔۔ میں بہت سارا رونا چاہتا ہوں پر رویا نہیں جاتا۔۔۔“ وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح بیٹھا تھا۔
کئی لمحے خاموشی سے گزر گئے۔۔ لڑکی نے کوئی شور نہیں کیا۔۔ نہ وہ دوبارہ روئی تھی بلکہ یوں بیٹھی تھی جیسے پتھر کی مورت ہو۔
”میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اور جانتا ہوں جب تم ٹھیک ہو کر باہر نکلو گی تو تمہیں کچھ یاد نہیں رہے گا۔۔۔“
”میں کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔“
وہ چپ ہوگیا۔۔۔۔الفاظ جیسے دم توڑ گئے تھے۔۔۔۔ پہلی بار وہ کسی سے اپنے دل کی بات کہنے آیا تھا۔۔۔ دل کی بات وہ بھی پاگل خانے میں۔۔
”میں کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ میں حاد جبیل تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔“
کتنا مشکل تھا یہ سب اس کے لیے۔۔۔ اس کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔ جبکہ وہ یونہی بیٹھی رہی۔۔۔ اس نے حاد کی جانب رخ نہیں کیا۔
”میں تمہیں ان سب خطوں کا جواب لکھوں گا۔۔۔تم پڑھو گی نا۔۔۔“ اس نے چہرہ اٹھا کر لڑکی کی جانب دیکھا۔۔۔۔ پر وہ جو یوار سے سائیڈ ٹیک لگائے بیٹھی تھی اچانک اس کی جانب ڈھے گئی۔۔ اس نے فوراً آگے بڑھ کر اسے تھاما۔۔۔
پہلے تو وہ گھبرا گیا۔۔۔لیکن اگلے ہی پل اسے احساس ہوا کہ وہ سو چکی تھی۔۔۔وہ بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔۔۔
لیکن وہ نہیں سمجھ پایا تھا وہ رونے کے بعد ریلیکس ہونے کی وجہ سے سوئی تھی یا اس کی باتوں کو سنتے سنتے۔۔۔۔
البتہ وہ لمبے عرصے بعد بنا نشہ آور دوا کے سوئی تھی۔۔۔حاد جبیل کے لیے یہی کافی تھا۔
✿••✿••✿••✿
ماضی بھیانک ہوتا ہے۔۔۔ اور اکـثر بھیانک ماضی ہمارے حال اور مستقبل کو اژدھے کی طرح نگل جاتا ہے۔
نکاح کے بعد وہ جاب کے سلسلے میں اسلام آباد آگئی تھی۔۔۔وہ لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوئء تھی۔۔یہ ایک پراجیکٹ بیس جاب تھی۔۔۔پراجیکٹ چھ مہینے کا تھا۔۔ اسے صرف چھ مہینے یہاں رہنا تھا۔۔۔ وہ خوبصورت شہر میں آئی تھی پر اسے نہیں پتا تھا یہ خوبصورت شہر اسے ڈس لے گا۔
اس نے اپنے نمبر بدل لیے تھے۔۔۔ ہر جاننے والے سے دوری اختیار کرلی تھی۔۔۔وہ سب پیچھے چھوڑ دینا چاہتی تھی پر وہ آنے والے کل سے ناواقف تھی۔۔
جبکہ سلمی بیگم نے اس عامل کی باتوں کو دماغ میں بٹھا لیا تھا۔ وہ جب بھی ایمان کو فون کرتی تو بس ایک ہی بات کہتیں۔
”دھیان سے رہنا۔۔۔ میں اس عامل کی باتوں سے بہت خوفزدہ ہوں۔۔۔اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہوگیا تو۔۔؟؟ بلکہ اب تم چھ ماہ بعد آؤ گی تو تمہاری رخصتی کردوں گی۔۔۔مشارب کی ماں بھی یہی چاہتی ہے۔۔“
ایمان کے دل پر یہ باتیں کسی گھونسے کی طرح پڑتی تھیں۔۔۔ کیسی سیدھی عورت تھی اس کی ماں کہ ایک عامل کی باتوں کو سچ مان بیٹھی تھی۔
”امی کیا ہوگیا ہے آپ کو؟؟ اللہ پر بروسہ رکھیں۔۔۔ یوں کسی بھی ایرے غیرے شخص کی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔۔۔ جو کرنا ہے اللہ نے کرنا ہے۔۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر ہمارے دماغ سے کھیلتے ہیں۔۔“
”پر وہ تمہیں دیکھتے ہی ایسے کیوں بولے گا۔۔؟“
سلمی بیگم کی پریشانی کسی طور نہیں جاتی تھی۔
”اس جعلی عامل کو آپ نے بتایا کہ میں اسپین سے پڑھ کر آئی ہوں۔۔ میں نے اس کی باتوں کو سیریس نہیں لیا۔۔ اس نے ایک ٹرک آمائی کہ زیادہ آزاد لڑکیاں کسی کا رعب نہیں برداشت کرتی ہیں۔۔۔ اپنی مرضی سے جیتی ہیں۔۔اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور اپنا گھر نہیں بسا پاتی ہیں۔۔۔اس لیے اس نے ایسا کہا۔۔اور آپ نے دل پر لے لی بات۔۔۔ اور اگر اللہ نے میرے نصیب میں ایسا کچھ لکھا ہے تو مجھے کوئی شکوہ نہیں۔۔ مجھے اس پر پورا بھروسہ ہے۔۔“
”نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔تم اپنا گھر بساؤ گی۔۔۔“
سلمی بیگم نے اس کی باتوں کو نظرانداز کرتے آخری بات پر فوکس کیا تھا۔ وہ زمانے سے، لوگوں سے خوفزدہ تھیں۔ کہیں لوگ انہیں باتیں نہ کریں۔۔۔ کہیں کچھ ایسا ہو نہ جائے۔۔۔ جبکہ ایمان افسوس سے انہیں سنتی رہی۔۔۔۔وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
Maseel Previous Episodes
Papers ki tension Mai sukoon kay lamhay hai ye alfaz😆🌚❤️well kahani kafi interesting hoti jarahi hai... Allah apkay mamlat mai asani farmaye❤️
ReplyDeleteUff.. Boht besabri sy wait hota h episode کا aur parh k to dil krta khtm hi na ho itna acha likhti hain ap.. Boht acha episode تھا I enjoyed a lot... ♥️ ♥️ Bss ub had aur eman ki story sidhi rhy 😂
ReplyDeleteI can't explain my happiness after every episode 💓.Noor maam ab ap Bs jldi sy new episode dy dain
ReplyDelete
ReplyDelete!ہمیں نفسیاتی بنانے میں___ ہمیں پاگل كرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے اپنوں كا ہوتا"! This Lines 😣
I was deperately waiting for the episode of this novel and finally ♥♥ ur novels are just owsm baqi writers sy bht alg bht acha likhti hain ap.......ap ky novels ko prh ky sprcially sulphite ko prh ky mai ny apni life m bht c changes ki zindgi ky bht sy mamlaat ky bary m socha 😇😇u r an amazing person and writer mashaAllah😍♥May Allah pak bless u with uncountable happiness♥♥
ReplyDeleteNow i remember emany ny maseel sy q kaha tha k mn pagal khaanny mn mili to...... I got tears in my eyes 🥹🥹🥹 nxt api jldi jldi dy dn...
ReplyDeleteMashaAllah bht hi axa likhti hn ap,bht wait kerte hn episode ka daily dekhte hn k new episode ae k nh , Interesting novel and finally suspence break
ReplyDeleteWonderful Epi special hospital wala seen its mean eman ki shdi haad sy hoi h ?
ReplyDelete💜 جسٹ تھینک یو 💜
ReplyDelete
ReplyDeleteآئی ایم لیٹ😥
ویل ایک بات تو کلئیر ہوئی سب پر آخر ۔۔ حاد جبیل ،، مسٹر جبیل ہے۔۔۔۔
اور یقیناً ادھم جبیل ، ایمانے کی باتوں کو سیریس لے گا۔
اور نہیں یقین کرنا عامل کی بات پر😐
مسٹر جبیل ،، حاد جبیل اور ایمانے کا کپل ہی ہونا ہے ان شاء اللہ
اور اب انتظار ہے روحان جبیل کی مسٹری اوپن ہونے کا بھی۔ وہ کب منظرِ عام پر آئے گا
How to stay safe in summer heat?
ReplyDeleteBe aware of family members who struggle to stay cool in the heat, especially older people with multiple health problems and those who live alone. Stay indoors. Draw curtains on windows facing the sun. Drink plenty of fluids. Never leave anyone, especially
how to cool stay safe in summer heat
How to stay safe in summer heat?
ReplyDeleteBe aware of family members who struggle to stay cool in the heat, especially older people with multiple health problems and those who live alone. Stay indoors. Draw curtains on windows facing the sun. Drink plenty of fluids. Never leave anyone, especially
how to cool stay safe in summer heat
How to stay safe in summer heat?
ReplyDeleteBe aware of family members who struggle to stay cool in the heat, especially older people with multiple health problems and those who live alone. Stay indoors. Draw curtains on windows facing the sun. Drink plenty of fluids. Never leave anyone, especially
how to cool stay safe in summer heat
How to stay safe in summer heat?
ReplyDeleteBe aware of family members who struggle to stay cool in the heat, especially older people with multiple health problems and those who live alone. Stay indoors. Draw curtains on windows facing the sun. Drink plenty of fluids. Never leave anyone, especially
how to cool stay safe in summer heat
Mind blowing.. just loved it.. thank you.. boht wait Kiya hai.. and also waiting for the next one..
ReplyDeleteAmazing...superb..alfaz hi Khatam hogaye hai meri
ReplyDeleteالسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ReplyDelete