Jo chale to jaan se guzar gaye novel - pdf download

 

JO chalay to jaan se guzar gaye

**کتاب: جو چلے تو جاں سے گزر گئے**  

**مصنفہ: ماہا ملک**


"کیا کوئی ایسا اسم ہے جسے پڑھنے سے انسان اپنی تقدیر سے باہر آسکے۔ ایک سیدھی، رواں، متوازن راہِ پرسکون و اطمینان سے چل سکے۔ مجھے محض اس راہ کی آرزو ہے۔"


یہ کہانی سید عالم شاہ، زوفشاں اور آزر کی ہے۔ کہانی بظاہر سادہ ہے مگر اس کی گہرائی میں وہ جذبات اور احساسات چھپے ہیں جو کسی بھی قاری کو متاثر کر سکتے ہیں۔ زوفشاں اپنی محبت کی زندگی بچانے کے لیے ایک ایسے شخص سے شادی کر لیتی ہے جو انتہائی مغرور شخصیت کا مالک ہے اور زوفشاں سے محبت کا دعویدار تھا۔ 


یہ ایک سادہ سی 'لو ٹرائنگل' ہے جس میں آزر اور زوفشاں دو محبت کرنے والے علیحدہ کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم، آزر کا کردار کچھ خاص متاثر کن نہیں ہے اور کئی مواقع پر یہ کردار کافی 'کرنج' محسوس ہوتا ہے۔ 


البتہ، اس ناول کے اختتامی سینز واقعی بہت خوبصورت لکھے ہوئے ہیں۔ 


🌟 یہ کہانی ہے عالم شاہ اور زوفشاں کی۔ ماہا ملک کا یہ پہلا ناول ہے جو میں نے پڑھا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے، ایک ایسی کہانی جس میں ایک بگڑا ہوا شہزادہ کیسے کسی کی محبت کے آگے ہار جاتا ہے۔ 


🌟 اس کہانی میں اور بھی کردار ہیں جیسے آزر اور مہ جبین کا۔ لیکن جو کہانی ہے وہ عالم شاہ کی محبت کو ہی دکھاتی ہے۔ آزر کی محبت بھی دکھاتی ہے، لیکن عالم شاہ کی کہانی کے اردگرد کی کہانی گھومتی ہے۔ 


🌟 یہ سفر ضوفی کو دیکھنے سے شروع ہو کر جان عالم بننے پر مکمل ہو جاتا ہے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے انسان بھاگ نہیں سکتا۔ ہم کسی کی محبت کو زبردستی حاصل نہیں کر سکتے، یہی سب کہانی کا خلاصہ ہے۔


ماہا ملک نے اپنے اندازِ تحریر سے کہانی کو جذباتی اور احساساتی رنگ دیا ہے، جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ یہ کہانی محبت، قربانی اور انسان کے داخلی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ کہانی سادہ ہے مگر اس کے پیچھے چھپے پیغامات اور اختتامی مناظر قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتے۔

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا

مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا

کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

اُدھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

یہ غزل اس ناول کے نام کے ساتھ گہرائی میں جڑتی ہے اور پوری کہانی کی عکاسی کرتی ہے۔ سید عالم شاہ اور زوفشاں کی محبت اور ان کے درمیان کی مشکلات کو جیسے غزل میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ غزل کہانی کے موضوعات اور جذبات کو مزید واضح کرتی ہے، اور قاری کے دل میں ایک گہری تاثیر چھوڑتی ہے۔

ماہا ملک نے کہانی میں جذبات اور احساسات کو بخوبی بیان کیا ہے، اور اس غزل کے اشعار نے ان جذبات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ غزل اور ناول ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورتی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اور قاری کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتے ہیں۔



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post