حاصل گھاٹ بانو قدسیہ کا ایک ایسا ناول ہے جو ایک بوڑھے شخص کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جو اپنی بیٹی سے ملنے امریکہ جاتا ہے۔ یہ بوڑھا شخص اپنی بالکونی میں بیٹھے، سارا دن سڑک پر چلتے لوگوں کو دیکھتا اور ان کے بارے میں خیالات باندھتا ہے۔ سامنے والے گھر میں نظر آنے والے ہمسایوں کے بارے میں بھی اندازے لگاتا رہتا ہے۔
حاصل گھاٹ میں کوئی واضح پلاٹ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بوڑھے آدمی کی خیالات کی دنیا ہے جو امریکہ اور پاکستان کے مابین تقابلی جائزہ لیتا ہے۔ پورا ناول اس کے خیالات پر مبنی ہے اور اس میں کچھ سسپنس بھی ہے۔ بانو قدسیہ کی تحریر میں بھرپور فلاسفی شامل ہے جو پڑھنے میں آسان نہیں ہے، لیکن جب سمجھ آ جاتی ہے تو ایک گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
ناول میں کبھی کبھی جب کچھ آسان پڑھنے کا دل کرتا ہے، جس میں زیادہ پیچیدگیاں نہ ہوں اور کہانی سیدھی سیدھی چلتی جائے، تو حاصل گھاٹ ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ بانو قدسیہ نے بعض جگہوں پر شاندار طنز و مزاح بھی شامل کیا ہے، جیسے کہ "اس زمانے میں لڑکیاں غسل خانے میں رویا کرتی تھیں۔" یہ سطر پڑھ کر میں بہت ہنسی تھی۔
کتاب میں سینکڑوں موضوعات پر بات کی گئی ہے جیسے تقسیم کے بعد کے حالات، دولت، ترقی پسندی، لبرل طبقہ اور ہماری احساس کمتری وغیرہ۔ ان میں سے ڈپریشن سے متعلق گفتگو میری پسندیدہ تھی۔
میں ہر رات سونے سے پہلے یہ کتاب پڑھتی تھی، اس لیے اسے ختم کرنے میں کافی دن لگ گئے۔ البتہ، گھونٹ گھونٹ پڑھ کر زیادہ مزہ آیا۔ حاصل گھاٹ ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ قاری کے ذہن میں اپنی جگہ بناتی ہے اور اسے مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔