”تمہیں پتا ہے حانے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو تم مجھے بہت عجیب لگی تھی۔ میں نے تمہارے آس پاس ایک زبردست قسم کی انرجی کو محسوس کیا تھا۔۔“ زوئی نے اپنی چھوٹی آنکھوں کو مزید چھوٹا کرتے کہا۔ وہ اب بھی سامنے جلتے آتش دان کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
”کیا وہ انرجی پازیٹیو تھی؟؟“ حانے نے بےساختہ پوچھا تھا۔ اسکے سوال پر زوئی گڑبڑا گئی تھی۔ اس نے جو محسوس کیا تھا وہ ٹھیک طرح سے خود نہیں سمجھ پائی تھی۔ ایلیسا کو بھی اس نے سرسری سا بتایا تھا اب حانے کو کیا جواب دیتی؟
”ہم اس بارے میں پھر کبھی بات کریں گے ابھی میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں“ زوئی نے بات کو ٹالنا چاہا۔
”ہاں پوچھو!“ حانے نے سر جھٹک کر اپنے سوال کو دماغ سے نکالا۔
”تم یہاں پر کب سے ہو؟ اور تم اس گھر سے باہر کیوں نہیں نکلتی ہو؟“ زوئی کا سوال ایسا تھا جو حانے کو کئی سال پیچھے لے گیا۔ ہر کہانی کی ایک شروعات ہوتی ہے چاہے وہ شروعات وقت گزرنے کے بعد ہی ظاہر ہو۔ حانے کی زندگی کے کتاب کے پنے تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹ رہے تھے اور زوئی کو حانے کے چہرے پر گہری سنجیدگی دکھائی دی تھی۔
___________________________
اور جب تمہیں لگے
چیزیں تمہاری پہنچ سے
دور جا رہی ہیں۔۔۔
ایسے واقعات اور حادثات
رونما ہو رہے ہیں
جن سے تمہیں خوف
محسوس ہوتا ہو،
تو جان لو کہ۔۔۔
ایسے حادثات کے
رونما ہونے میں
تمہارے اپنا قصور ہے!
تم نے ان کو دعوت دی ہے
کوئی حادثہ بلاوجہ نہیں ہوتا
جب تک کہ تم اسکے ہونے میں
برابر کے حصہ دار نہ ہو
تو اے آدم!
تمہیں چاہیے کہ غور کرو
تمہیں چاہیے کہ کھوج کرو
ہر اس حادثے کی جو رونما ہوا
جب تم چاہتے تھے کہ ایسا کبھی نہ ہو!
وہ سات سالا بچی خاموشی سے پتھر کے بینچ پر بیٹھی ارد گرد کا نظارہ کر رہی تھی۔ پارک کی ایک جانب شاہراہ تھی جس پر ٹریفک تیزی سے دوڑ رہی تھی جبکہ پارک کے اندر بچے کھیل رہے تھے۔ لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے اس پارک میں کافی جھولے رکھے گئے تھے۔
بچی خاموش بیٹھی تھی وہ ایک نظر پارک میں کھیلتے شور مچاتے بچوں کو دیکھ لیتی اور پھر اپنی نظریں شاہراہ پر تیزی سے دوڑتی ٹریفک کو دیکھنے لگ جاتی۔ وہ گاڑیوں کو تیزی سے گزرتے اتنے غور سے دیکھ رہی تھی کہ اسے انکے یوں چلنے سے خوف محسوس ہونے لگا۔ کیا ہو اگر کوئی بھی ایک گاڑی اپنا توازن کھو دے اور سیدھی چلنے کی بجائے ٹیڑھی ہو کر دوسری سے ٹکرا جائے اور پھر گاڑیوں کے آپس میں ٹکرانے سے دھماکے ہونے لگیں؟ جانے کیوں بچی کا ذہن تصور گاڑیوں کو آپس میں ٹکراتے، کانچ ٹوٹتے اور سائرن ابھرتے دیکھنے لگا۔ وہ اپنے تصور میں یہ سب دیکھ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ اسکے ہونٹ اور گلا خشک ہوگیا۔ اسکا ننھا سا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھی۔ وہ یہ سب دیکھ رہی تھی حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ گاڑیاں نارمل بہاؤ سے چل رہی تھیں۔ اسکے پاس ہی کسہ بچے کی چیخ ابھری تھی اور وہ جیسے کسی ٹرانس کی کیفیت سے باہر نکلی۔ اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور بینچ پر پہلو بدلنے لگی۔ اسکے پورے جسم میں بےچینی سی بھر گئی تھی۔ اس نے اپنا سر جھٹک کر ان خیالات کو خود سے دور کرنے کی کوشش کی۔ چند لمحوں کی ریاضت کے بعد اب اسے سڑک پر سب کچھ نارمل دکھائی دے رہا تھا لیکن اسکا دل ابھی بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ سفید رنگ کی فراک پہنے معصوم بچی اپنے نازک وجود کو آگ میں جھلستا محسوس کر رہی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو نہ کنٹرول کر پارہی تھی نہ ہی سمجھ پارہی تھی۔ وہ بینچ پر بیٹھی تیزی سے اپنی دو ٹانگلیں آگے پیچھے ہلانے لگی۔ اس نے آنکھیں زور سے میچ لیں۔ آہستہ آہستہ سب نارمل ہونے لگ گیا۔ اسکے دل کی دھڑکن بھی معمول پر آگئی۔ چند ثانیے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور دوبارہ ڈرتے ڈرتے شاہراہ پر گزرتی گاڑیوں کو دیکھا۔ اشارہ رکا ہونے کی وجہ سے چھوٹی بڑی ہر طرح کی وہیکلز رکنے لگی تھی اور تبھی ایک گاڑی رک نہ پائی شاید اسکی بریک فیل ہوگئی تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی کو روکنا چاہا لیکن روک نہ پایا اور وہ گاڑی تیزی سے اپنے سامنے کھڑے ایک ٹرک سے ٹکراگئی۔ ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ کانچ ٹوٹنے اور چیخوں کی آوازیں ابھرنا شروع ہوگئی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بچی زور سے چلائی اور بینچ سے نیچے اتر کر سڑک سے دوسری جانب پارک میں بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر ایک خوش شکل عورت قریب رکھے دوسرے بینچ سے اٹھی، جو کچھ دیر پہلے اخبار پڑھ رہی تھی اور دھماکے کی آواز پر گردن موڑ کر سڑک کی جانب دیکھا تھا، اور اب وہ بچی کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ اسکے چہرے کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ پارک میں موجود بچے یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے تھے اور اب رونے لگے تھے۔
جس پارک میں کچھ دیر پہلے سب ہنس رہے تھے اب وہاں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ ٹریفک پولیس کی گاڑیوں کا سائرن فضا میں گونجنے لگا تھا۔
_________________________
سپاہی کی چال
جلتی مشعل کی زرد روشنی کمرے کے اندھیرے کو مٹا رہی تھی۔ کمرے میں گھمبیر سی خاموشی چھائی تھی۔ لکڑی کے میز پر رکھے شطرنج بورڈ کے دونوں جانب بیٹھے وہ دونوں اپنے اپنے مہروں کو غور سے دیکھ رہے تھے اور اگلی چل چلنے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔
”میرے خیال سے آپکو ہار مان لینی چاہیے پروفیسر!“ جب سیاہ ہیٹ اوڑھے اس شخص نے کافی دیر تک اپنی چال نہیں چلی تو ایلیسا نے چہک کر کہا۔ وہ پہلے ہی پروفیسر کی رانی اڑا چکی تھی اور اسے پورا بھروسہ تھا کہ اس بار وہ جیت جائے گی۔
”اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔ ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔“ پروفیسر نے اپنے سپاہی کو ایلیسا کے بادشاہ کے مقابل کھڑا کیا۔ انکی یہ چال ایلیسا کو سمجھ نہ آئی۔
”بادشاہ کی لڑائی سپاہی سے؟ کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔“ اسکے چہرے پر الجھن ابھری تھی۔
”جنگ کا اعلان چاہے بادشاہ کیوں نہ کرتا ہو لیکن جنگ شروع ہمیشہ سپاہی کرتا ہے!“ پروفیسر کی بات پر ایلیسا نے چونک کر انہیں دیکھا۔ انکی اس بات میں ہزاروں مطلب چھپے تھے۔
”مطلب وہ وقت آگیا ہے؟“ ایلیسا نے رازداری سے پوچھا۔ اسکے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔
”وقت آتا نہیں لایا جاتا ہے! اس سے پہلے وقت کے گھوڑے کی لگام کوئی اور پکڑے ہمیں اسے تھامنا ہوگا۔۔“ ان کی بات سن کر ایلیسا اپنی چال چلنا ہی بھول گئی۔
”تو پھر مجھے کیا کرنا ہوگا؟“ وہ سمجھ گئی تھی لیکن پھر بھی جاننا چاہتی تھی۔ اس کی بات پر پروفیسر نے سر اٹھا کر ایلیسا کو دیکھا۔ انکی سرد آنکھیں ایلیسا کو اندر تک پڑھ رہی تھیں۔
”سپاہیوں کو اکٹھا کرو انہیں جنگ کے لیے تیار کرنے کا وقت آگیا ہے!“
_____________________
ایک ہفتے بعد؛
”تم دونوں جلدی سے اپنی پیکنگ کرلو ہمیں کل صبح ہی منہ اندھیرے نکلنا ہوگا۔ اور ہاں کوئی بھی ایسی چیز مت رکھنا جو وہاں کام نہ آسکے!“ کلوپترہ ہمیشہ کی طرح تنگ اسکرٹ پہنے ہوئے تھی۔ موٹے فریم والے چشمے کے پیچھے سے انکی اندر تک اترتی آنکھیں زوئی اور حانے کو حیران کر رہی تھیں۔
”لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں؟“ زوئی نے حیرت سے پوچھا۔
”ایک محفوظ جگہ پر!“ کلوپترہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے جواب دیا اور پھر تیزی سے پلٹ گئیں۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“ انکے جانے کے بعد زوئی نے دھپ سے بیڈ پر بیٹھتے کہا۔ ان دنوں میں اس کی حانے سے اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ حانے کم گو تھی تو فضول زوئی بھی نہیں بولتی تھی لیکن وہ حانے کے مقابل نڈر تھی اور اچھا بول لیتی تھی۔
”کیا یہاں پہلے بھی ایسا ہوا ہے؟“ زوئی نے ساکت بیٹھی حانے سے پوچھا۔ جو ابھی تک کلوپترہ کے کہے گئے لفظوں پر غور رہی تھی۔ ”کوئی بھی ایسی چیز مت رکھنا جو وہاں کام نہ آسکے!“ آخر ایسی کون سی چیز تھی جسے لے جانے سے وہ منع کر رہی تھیں۔ اور آخر وہ دونوں کہاں جا رہی تھیں۔ حانے کے جواب نہ دینے پر زوئی نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تھا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں حانے!“ زوئی کے جھنجھوڑنے پر وہ ہوش میں آئی۔
”کک۔۔کیا کہہ رہی ہو تم؟؟“ سکارف میں لپٹے اسکے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔
”میں نے پوچھا کہ کیا کبھی پہلے ایسا ہوا ہے کہ یہاں رہنے والی لڑکیوں میں سے کوئی ایسے گئی ہو اور کبھی لوٹ کر نہ آئی ہو؟“ زوئی نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔ اسکا دل جانے کیوں تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ”کیا اسے واپس ان برء لوگوں کے پاس جانا پڑے گا؟ کیا وہ پکڑی جائے گی؟“ اسکے ذہن میں یہی خیال گردش کر رہا تھا۔
”ہاں شاید۔۔ ایلیسا جو کئی سال پہلے چلی گئی تھیں اور پچھلے سال ایک اور لڑکی گئی تھی لیکن وہ سال بعد ملنے ضرور آتی ہیں“ حانے نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا۔
”تو اسکا مطلب یہاں سے واقعی ہائیر اسٹڈیز کے لیے لڑکیوں کو باہر بھیجا جاتا ہے!“ اسکے جواب پر زوئی کچھ مطمئن ہوئی تھی لیکن اسکی پریشانی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔
”یہ اچھا رہے گا اگر میں یہاں سے دور چلی جاؤں!“ حانے کو خاموش پا کر زوئی ہولے سے بڑبڑائی۔ اسکی چھوٹی چھوٹی آنکھیں مزید چھوٹی ہوگئی تھیں۔ اور اسکا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے کمرے میں واپس آگئی۔ اور اب وہ ایسی چیزوں کی تلاش میں تھی اور انہیں اپنے بیگ میں رکھنا چاہتی تھی جنہیں وہ کسی بھی قسم کے خطرے سے نبٹنے کے لیے استعمال کر سکتی۔
____________________
وقت کا سوال
”تو تم تیار ہو؟؟“ الینا نے کمرے سے جھانکتے پوچھا۔ ایلس جو اپنے بیڈ پر بیٹھا جانے کن خیالوں میں گم تھا عقب سے ابھرتی اچانک آواز پر چونک گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو الینا دروازے پر کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ اس نے سینے پر باندھ رکھے تھے۔
”تم کب آئیں؟“ وہ بنا آہٹ کیے جانے کب آئی اور کب دروازہ کھلا اسے کچھ پتا نہ چلا۔
”میں ایک شاعرہ ہوں ایلس اور شاعری بنا بتائے اترتی ہے، یونہی اچانک، خاموشی سے!“ اس نے قدم بڑھاتے جواب دیا۔ جانے وہ اتنی مشکل باتیں کیوں کرتی تھی؟ ایلس نے سوچا تھا۔
”کیا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے؟“ ایلس نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ ”میں ویسے بھی کبھی سکول نہیں گیا چھپ چھپا کر میں نے پڑھنا لکھنا سیکھا تو مجھے کسی اچھے کالج میں ایڈمیشن کون دے گا؟“ وہ بلاوجہ ہی اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے سے سب سے چھوٹی انگلی کے ناخن کو کھرچنے لگا تھا۔ سر جھکا ہوا تھا۔ الینا کو وہ تھوڑا پریشان لگا۔
”دیکھو ایلس! جو ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں اور جن باتوں سے ہم ڈر رہے ہوتے ہیں ضروری نہیں مستقبل میں ویسا ہی کچھ ہو۔۔۔ کبھی کبھی وہ ہو جاتا ہے جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔۔۔“ وہ چلتے چلتے اس میز تک آئی تھی جس پر اسکا لکھنے کا سامان رکھا تھا۔ ایلس خاموشی سے اسے سننے لگا۔
”زندگی نئے موڑ لیتی رہتی ہے، کبھی ان چاہے تو کبھی حیران کن! فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ تمہیں ان چاہے موڑ کا حصہ بننا ہے یا حیران کن کا۔۔۔ اور ہوگا وہی جسے تم اپناؤ گے چوز کرو گے!“ اب وہ قلم اٹھائے میز پر رکھے پنوں پر کچھ لکھ رہی تھی۔
”تم جس جگہ جانے والے ہو وہاں تمہارے ہی جیسے لوگ ہوں گے، اور وہاں کسی سکول کی پڑھائی کہ بنیاد پر داخلہ نہیں ملے گا بلکہ تم سے ایک سوال کیا جائے گا۔۔ وقت کا سوال! جس کا تمہیں جواب دینے ہوگا۔“
”سوال؟ کیسا سوال؟ اور یہ وقت کا سوال کیا ہوتا ہے؟“ وہ چونکا تھا۔ اب وہ گردن اٹھائے الینا کو دیکھ رہا تھا۔
”پہلے تو تم یہ جان لو کہ وقت کسے کہتے ہیں؟ پھر وقت کے سوال پر جانا“
”وقت۔۔۔“ ایلس زیرلب بڑبڑایا۔
”ہاں وقت! یہ غور و فکر کرنے والی بات ہے کہ وقت کیا ہے اور کیوں ہے؟ تم اسکا جواب ڈھونڈو تب تک میں کھانا بنا لوں پھر ہمیں نکلنا ہوگا!“ قلم کو واپس رکھتے اس نے سادہ لہجے میں کہا اور واپسی کی جانب قدم بڑھائے۔
”رکو!“ ایلس کے بلانے پر الینا کے قدم ساکت ہوئے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایلس اپنی جگہ سے کھڑا ہو چکا تھا۔
”کیا تم میری مدد نہیں کرو گی؟“ اس نے نظریں چراتے پوچھا۔ اسکے سوال پر الینا کے لبوں پر ہلکی سے مسکان ابھر کر معدوم ہوگئی۔ اسے ایلس کے اس معصوم سوال پر پیار آیا تھا۔
”مدد تب مانگتے ہیں جب تم اپنی ساری ہمت لگا لو۔۔ بنا کوشش کیے اگر تم کسی سے مدد کا سوال کرو گے تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔۔۔“ اس نے پیار سے جواب دیا تھا۔ ایلس کے سر جھک گیا۔ یہ آزادی والی زندگی اتنی بھی آسان نہیں تھی جتنی اس نے سمجھا تھا۔
”لکھنا پڑھنا تو جانتے ہو نا؟ تمہارے پاس ایک گھنٹے کا وقت ہے ان کتابوں سے شروع کرو مجھے امید ہے جلد ہی جواب مل جائے گا۔۔“ وہ شیلف کی جانب اشارہ کرتے کمرے سے نکل گئی تھی جبکہ ایلس ایک گہرا سانس لیتا شیلف کی جانب بڑھ گیا جس میں موٹی موٹی کتابیں ترتیب سے رکھی تھیں۔
_________________________
”تم دونوں نے سامان رکھ لیا اپنا؟؟ کچھ رہ تو نہیں گیا؟؟“ پریشانی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ ماروہ جلدی جلدی کتابیں بیگ میں ڈال رہی تھی۔ جبکہ زیان سکون سے بیڈ پر بیٹھا کباب کھا رہا تھا۔
”مام سب رکھ لیا ہے میں نے۔۔ لیپ ٹاپ، ہیڈ فون ، دوسرا موبائل یعنی سب کچھ۔۔۔“ کباب منہ میں ڈالتے زیان نے تیزی سے کہا۔ اسکی بات ماروہ نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔
”ہاں سب کرلیا بس پڑھائی باقی ہے میں سچ کہہ رہی ہوں مام اگر یہ ٹیسٹ میں فیل ہوگیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ ویسے اچھا ہی ہے اگر یہ فیل ہوجائے جان چھوٹ جائے گی میری!“ وہ ہاتھ کمر پر رکھے غصے سے لال بھبھوکا چہرہ لیے اسے گھور رہی تھی۔
”اوہو! ایک تو میں تم دونوں کی لڑائی سے تنگ آگئی ہوں۔۔“ ماروہ نے کی مام جھنجھلاہٹ کا شکار تھیں۔
”تو میں ریمپ واک کروں گا اگر میں فیل ہوگیا کم از کم تمہارے ساتھ سے تو جان چھوٹے گی نا۔۔۔ اکیلا رہوں گا اپنی دنیا میں مگن!“ وہ مہا ڈھیٹ تھا۔ ماروہ ہونٹ بھینچ لیے۔
”پتا ہے پھر اسکے بعد تم کیا کہلاؤ گے؟؟ ایک Failure, Looser اور بھی بہت کچھ۔۔۔ ایک کامیاب رائٹر کے ناکام بھائی!“ وہ غصے میں بولتی چلی گئی۔
”ایکسکیوز می مس ماروہ دی رائٹر!“ وہ جھٹکے اسکی جانب مڑا تھا۔
”آپ شاید بھول گئی ہیں آپ اپنا کیریئر خراب کر چکی ہیں،بلکہ خراب نہیں ختم کہنا چاہیے۔۔۔ کیریئر بنا کر خود ہی ختم کرنے والی ماروہ دی گریٹ رائٹر!“ وہ تنک کر بول رہا تھا۔ جیسے ہی اسکی بات کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
ماروہ سرخ چہرہ لیے اسے گھور رہی تھی۔ اس نے ہونٹوں کو آپس میں پیوست کیا ہوا تھا۔ یوں جیسے خود کو کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔ اسکی آنکھیں سرخ ہونے لگی تھیں۔