پروگ
”تم یہاں اس شہر میں کب سے ہو حانے؟؟“ ایلیسا جانتی تھی لیکن اس نے پھر بھی حانے سے جاننا چاہا۔
”میں نہیں جانتی میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے آپکو میم کلوپترہ کے گھر میں پایا ہے۔ اپنے کمرے سے لیکچر ہال تک اور پھر واپس اپنے کمرے میں، میں نے باہر کی دنیا کبھی نہیں دیکھی۔۔“ وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ صبح کے اس وقت پروگ میں خاصی خاموشی چھائی تھی۔ اسٹریٹ فوڈ کی ساری دکانیں بند تھیں۔ حانے نہیں جانتی تھی ایلیسا اسے کہاں لے جارہی تھی لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی وہ بلاوجہ کہیں بھی نہیں جانتی تھی۔ آج ایلیسا اسے اپنے ساتھ باہر لائی تھی یعنی اسکا دن اچھا گزرنے والا تھا۔
”اوہ کم آن حانے تم میری مام کو میم کہتی ہو حالانکہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں بلکہ ہم سب سے زیادہ۔۔ میرے بھائیوں سے زیادہ اور کلوپترہ ہاؤس میں رہنے والی ان تمام لڑکیوں سے زیادہ جو آج تک وہاں رہتی آئی ہیں!“ ایلیسا نے مسکرا کر کہا تھا اور یہ سچ تھا۔ کلوپترہ کو حانے بہت عزیز تھی۔ وجہ شاید ایلیسا بھی نہیں جانتی تھی لیکن اسے کچھ کچھ اندازہ تھا اسکے باوجود سے کبھی حانے سے نفرت یا حسد نہیں ہوا تھا وہ اسے اچھی لگتی تھی چھوٹی سی گڑیا جیسی۔۔
”ہاں میں جانتی ہوں میں انہیں مام ہی کہتی ہیں بس جب وہ کلاس میں ہوتی ہیں تب میم کہنا پڑتا ہے!“ حانے نے جھینپ کر صفائی دی۔
”اور اگر انہیں پتا چلا کہ تم انہیں مام صرف زبان سے کہتی ہو سمجھتی نہیں ہو تو انہیں برا لگے گا۔۔“ ایلیسا نے اس بار رک کر انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔ اسکی بات سن کر حانے ساکت ہوئی تھی۔
” وہ مم۔۔میں۔۔“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ ایلیسا نے دیکھا تھا اسکا چہرے کا رنگ نیلا پڑھ گیا تھا۔ اسکی حالت دیکھ کر ایلیسا نے قہقہہ لگایا۔
”تم کتنی ڈرپوک ہو حانے! میں تو بس مذاق کر رہی تھی!“ وہ ہنستے ہوئے سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔ اور حانے سب سمجھنے کی کوشش کرتے اسکے پیچھے چل پڑی۔
”کیا مام نے تمہیں منع کیا تھا گھر سے باہر نکلنے پر؟؟“
”ہاں۔۔ بس ایک بار منع کیا تھا!“
”اور تم نے مان لیا؟ وجہ نہیں پوچھی؟“ ایلیسا نے ابرو اچکا کر پوچھا۔ اب وہ اسکے بالکل سامنے تھی اور الٹے قدم بڑھا رہی تھی۔
”تب میں بہت چھوٹی سی انہوں نے کہا یہ جگہ خطرناک ہے کوئی بھی لڑکی اُن سے بنا پوچھے باہر نہ جائے جب ہماری پہلی کلاس تھی۔۔ مجھے یاد ہے!“ اور حانے کے تصور میں وہ دن گھوم گیا جب میڈم کلوپترہ نے اسے اپنی موٹے شیشوں والے چشمے کے پیچھے سے گھورتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس روز حانے کو محسوس ہوا تھا یہ باہر نہ جانے والا حکم صرف اسے ہی دیا گیا تھا۔
”اور تم نے اس کے بعد کبھی باہر جانے کی کوشش نہیں کی؟؟“ جانے ایلیسا کیا جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔
”ایک بار کی تھی۔۔“ حانے نے انکشاف کیا۔
”کیا واقعی؟؟ اور پھر کیا ہوا؟؟“ اب وہ اس کے سامنے رک گئی تھی۔ مجبوراً حانے کو بھی رکنا پڑا۔
”میں نے بہت سی سرخ روشنیوں کو اپنے پیچھے آتے دیکھا جیسے کوئی جگنوں ہوں، میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ بس اسکے بعد میں نے قدم گھر سے باہر نہیں نکالے، پروگ میرے لیے خوفناک سا ہوگیا اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے ہی دنیا کو دیکھا۔۔ کتابیں پڑھیں اور انٹرنیٹ پر دنیا کو اکسپلور کیا!“ اس نے گہری سانس فضا میں خارج کرتے کہا۔
”اور تمہیں کیا لگتا ہے تمہارا وہ فیصلہ غلط تھا یا درست؟؟“ ایلیسا نے اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ام۔۔شاید۔۔ غلط۔۔!“ حانے نے اپنے تنے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
”لیکن مجھے لگتا ہے تمہارا واپس بھاگ آنا غلط تھا۔۔ ان روشنیوں نے تمہارا پیچھا کیا تھا تمہیں انکی کھوج کرنی چاہیے تھی“ ایلیسا کو حقیقتاً برا لگا تھا۔ اب وہ اسکے مقابل چل رہی تھی۔ حانے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے اسکے ساتھ چلتی رہی۔ وہ دونوں اب اولـڈ ٹاؤن برج سے گزر رہی تھیں۔ برج کے کناروں پر برف جمی تھی۔ رات بھر ہونے والی برفباری کی وجہ سے پورا پروگ سفید روئی جیسا نظر آرہا تھا۔ دونوں میں کچھ پل کی خاموشی چھائی رہی۔ حانے نے پہلی بار یہ مناظر دیکھے تھے جو سحرزدہ کر رہے تھے۔
”میں کل واپس جارہی ہوں!“ بالآخر ایلیسا نے خاموشی کو توڑا۔ اس بار حانے ٹھٹک کر رکی تھی۔ اسکے رکنے پر ایلیسا نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
”پر ابھی تو ایک ہفتے کی چھٹیاں باقی ہیں آپ اتنی جلدی کیوں جارہی ہیں؟“ حانے کا دل ایک پل کو رک سا گیا تھا۔ اسکی پوری زندگی میں سال کے بس یہی کچھ دن ایسے ہوتے تھے جب اسے اپنا وجود زندہ محسوس ہوتا تھا۔ جب ایلیسا اسکے پاس ہوتی تھی۔ بھورے بال اور بھوری آنکھوں والی وہ ایلیسا کمال کی تھی۔ اسکے دونوں گالوں اور ناک پر بھورے دھبے تھے جو اسے اور خوبصورت بناتے تھے۔ وہ بہت پھرتیلی اور ذہین تھی۔ ہر وقت ہر کام کے لیے تیار رہنے والی ایلیسا اسے بہت پسند تھی۔
”ہاں میں جانتی ہوں لیکن میرے پرنسپل کی کال آئی ہے مجھے جانا ہوگا۔۔“ ایلیسا نے دھیمے لہجے میں کہا۔ اسے افسوس ہوا تھا اسے ابھی حانے کو نہیں بتانا چاہیے تھا۔
”پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔۔“ وہ اب تک شاکڈ تھی۔
”ہاں بہت سی باتیں پہلی بار ہو رہی ہیں!“ وہ زیرلب بڑبڑائی تھی۔ ”میری پڑھائی بس مکمل ہوگئی ہے اس بار جلد لوٹ آؤں گی!“ ایلیسا نے مسکرانے کی کوشش کی۔ لمبے اونی کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”لیکن میں تمہارا آج کا دن بہت شاندار بنانے والی ہوں۔ ہم سارا دن گھومیں گے پھریں گے اور مزے کریں گے۔۔ٹھیک ہے؟؟“ ایلیسا نے پرجوش لہجے میں کہا۔ وہ اپنی اصل ٹون میں واپس آچکی تھی۔ اور حانے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مسکرا دی تھی۔
”تو پوچھو ابھی ہم کہاں جارہے ہیں؟؟“
”کہاں؟؟“
”نیشنل لائبریری آف پروگ“ ایلیسا نے مسکرا کر کہا۔
”لائبریری اور وہ بھی اس وقت؟؟“ حانے نے اپنے باہنے ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھا۔ ”ابھی تو صبح کے چھ بجے ہیں، لائبریری کا وقت صبح نو سے شام سات بجے تک کا ہے اور لائبریری یہاں سے ابھی ایک کلو میٹر دور ہے!“ حانے کو حیرت ہو رہی تھی۔ اس وقت ایلیسا کو وہاں کیا کام ہو سکتا تھا بھلا؟اور حانے نے انٹرنیٹ سے پروگ کی ہر مشہور جگہ کو اچھے سے ازبر کرلیا تھا۔ اسکی بات سن کر ایلیسا دو قدم چل کر اسکے قریب آئی۔
”جانتی ہوں لیکن شاید تم نہیں جانتی وہاں لائبریرین میری بہت اچھی دوست ہے وہ میرے لیے کسی بھی وقت لائبریری اوپن کر سکتی ہے!“ اس نے حانے کے قریب جھکتے ہوئے آنکھ دبا کر شرارت سے کہا۔ حانے مسکرا دی۔
”کیسے کر لیتی ہیں آپ یہ سب کیسے اتنے دوست بنا لیتی ہیں؟؟“ حانے نے بےساختہ پوچھا تھا۔
”ایک وقت آئے گا تمہیں سب پتا چل جائے گا۔ اب جلدی چلو ہمیں بہت سی جگہوں پر جانا ہے اس سے پہلے کے دیر ہوجائے!“ ایلیسا نے اسکا ہاتھ تھامتے کہا اور تیزی سے قدم آگے بڑھا دیے۔
__________________________
ٹیکسا
پچھلے ایک سال سے ماروہ اپنے کمرے میں بند تھی۔ اسکے کمرے میں جگہ جگہ کاغذ بکھرے پڑے تھے اور اسکالیپ ٹاپ میز پر کھلا رکھا۔ شاید وہ اس پر کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔ اور اب وہ میز پر ایک جانب رکھی کتابوں کو اٹھا کر الماری کے نچلے حصے میں غصے سے پھینک رہی تھی۔ یہ سب اسکی لکھی کتابیں تھیں۔ وہ اب تک چار مشہور کتابیں لکھ چکی تھی۔ لیکن پچھلے ایک سال سے وہ کچھ نہیں لکھ پارہی تھی۔ اس نے بہت سے پروجیکٹ شروع کیے اور چھوڑ دیے۔ کتابیں اندر پھینکنے کے بعد اس نے جیسے ہی الماری بند کی اسکے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔
”دروازہ کھولو ماروہ یہ میں ہوں زیان!“ یہ ماروہ کا جڑواں بھائی تھا جو اس سے پانچ منٹ بڑا تھا اور ہمیشہ اپنے بڑے ہونے کا رعب جھاڑتا تھا۔
”مجھے ابھی بات نہیں کرنی ہے زیان تم جاؤ!“ وہ اونچی آواز میں چلائی تھی۔
”لیکن مجھے بات کرنی ہے اور بھی بہت ضروری اگر تم نے دروازہ نہیں کھولا تو مجبوراً مجھے یہ توڑنا پڑے گا!“ اسکی اس بات نے ماروہ کو چڑا دیا۔
”مجھے تنگ کرو! میرا دماغ خراب ہوا پڑا ہے۔“
”وہ میں پہلے سے جانتا ہوں تم ایک بددماغ لڑکی ہو مجھے تمہارے منہ لگنے کا شوق نہیں ہے لیکن پھر بھی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں!“ اسکا لہجہ اٹل تھا۔ ماروہ جانتی تھی وہ اس سے بات کیے بنا ٹلنے والا نہیں تھا۔
”کیا مصبیت ہے یار!“ وہ بڑبڑاتی دروازے کی جانب بڑھی۔
”کیا مسئلہ ہے تمہیں؟“ دروازہ کھول کر اس نے اپنا سر باہر نکالا اور خونخوار نظروں سے اپنے بھائی کو گھورا۔
”مسئلہ مجھے نہیں تمہیں ہے اور وہ بھی بہت بڑا بہرحال دروازہ کھولو مجھے اندر آنا ہے“ اس نے جیسے حکم دیا تھا۔
”میں ابھی بزی ہوں بعد میں آنا“ ماروہ نے دروازہ بند کرنا چاہا۔
”ہرگز نہیں۔۔ تم بالکل بھی بزی نہیں ہو لکھتی تم ہو نہیں کچھ تو بزی کیسے ہوئی؟“ وہ دروازہ کو دھکا لگا کر کھولتا اندر آیا۔ اسکی اس حرکت پر ماروہ کا خون کھول اٹھا تھا لیکن وہ اسے روک نہیں پائی۔
”اتنا گند وہ بھی مس ماروہ دی گریٹ رائٹر کے کمرے میں، یقین نہیں ہوتا“ وہ جگہ جگہ بکھرے کاغذوں کو دیکھ کر بولا۔ انداز سلگانے والا تھا اور وہ سلگ بھی گئی تھی۔
”یہ میرا کمرہ ہے میں جو چاہے کروں تمہیں اس سے کیا؟؟“ وہ خفا ہوئی تھی۔
”تمہارے پبلشر کی کال آئی تھی“ زیان نے اسکے بیڈ پر بیٹھتے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا کہتا ہے!“ ماروہ نے نظریں چراتے جواب دیا۔ زیان غور سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”تم اپنا کیریئر خراب کر رہی ہو ماروہ! تم جانتی ہو تم بہت اچھی رائٹر ہو۔ کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے ڈسکس کرو بالکل ایک دوست کی طرح۔۔“ وہ پیار سے کہہ رہا تھا۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے بس لکھنے سے بریک لیا ہے کچھ وقت کے لیے“ اس نے قالین پر بکھرے کاغذ اٹھاتے کہا۔ جبکہ زیان خاموشی سے اسکی ہر حرکت نوٹ کر رہا تھا۔ وہ کافی دنوں سے بدلی بدلی تھی۔ یقیناً اس نے آج بھی لکھنے کی کوشش تھی لیکن ناکام رہی۔
”کیا محسوس ہوتا ہے تمہیں؟ کوئی بریک اپ والا سین تو نہیں ہے؟“
زیان کی بات پر ماروہ نے گھور کر اسے دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑا وہ کاغذ جسکا گولا بنا کر اس نے نیچا پھینکا تھا زیان کے منہ پر دے مارا۔
”بکواس بند کرو اپنی۔ میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں ہوتا کہ تمہاری طرح چار چار افیئرز ایک ساتھ چلاؤں“ اسے برا لگا تھا۔ زیان نے اپنا بچاؤ کرنا چاہا لیکن وہ گولا اسکی ناک پر لگا تھا۔
”ہاں جانتا ہوں تم جیسی سڑیل سے محبت تو کیا کوئی دوستی بھی نہیں کرنا چاہے گا۔۔تو پھر آخر مسئلہ کیا ہے؟؟“ وہ جھنجھلا گیا تھا۔
”میں نہیں جانتی اور تمہیں بتایا تو ہے میں نے لکھنے سے بریک لیا ہے۔ اور مجھ سے سوال جواب پوچھنے سے بہتر ہے تم اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرو“
”ٹیسٹ اگلے ہفتے ہے اور میرا کوئی موڈ نہیں ہے پڑھنے کا“ اس نے صاف انکار کیا۔
”اگر ٹیسٹ کلیئر نہیں ہوا ہمیں ایڈمیشن بھی نہیں ملے گا جانے کالج والے کس قسم کا ٹیسٹ لیتے ہیں وہاں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔۔ انکی کوئی بکس بھی نہیں ہیں ۔۔“ وہ پریشانی سے کہہ رہی تھی۔
”ماروہ!“ وہ اٹھ کر اسکے قریب آیا۔ ”ریلیکس ہوجاؤ سب ٹھیک ہوگا“ اسے کندھوں سے پکڑ کر پرسکون کرنا چاہا۔ ماروہ نے ایک گہرا سانس فضا میں خارج کیا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
”میرا دل کہتا ہے اس دفعہ کچھ الگ ہونے والا ہے!“ وہ شاید پہلی بار اتنا سنجیدہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ ماروہ کوئی جواب دیتی زیان نے فون کال نے دونوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔
”ارے نہیں !“ فون کی اسکرین پر لارا کالنگ دیکھ کر اس نے اپنا ماتھا پیٹا۔
”جاؤ اور جا کر اسکی گالیاں سنو!“ وہ اسے کمرے سے نکال کر دروازہ بند کرچکی تھی۔ اور پھر اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
”میں جو آج کل محسوس کرتی ہوں بتا نہیں پاتی۔۔ وہ سرخ روشنی۔۔ جانے وہ کیا چیز ہے وہ مجھے کچھ دنوں سے نظر آرہی ہے یوں جیسے جگنوں ہوں لیکن انہیں دیکھ بالکل بھی اچھا محسوس نہیں ہوتا عجیب سا خوف دل کو جکڑ لیتا ہے۔۔۔!!“ وہ لکھتی چلی گئی۔۔ اپنے ان احساسات کو جنہیں وہ کسی کو بتا نہیں پارہی تھی۔
_____________________________
”ایلیسا کو میری بات ماننی چاہیے تھی۔ اسے حانے کو اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہ لڑکی میری کبھی نہیں سنتی!“ میڈیم کلوپترہ کافی غصے میں تھیں۔
”تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کلوپترہ کہ ایلیسا بچی نہیں ہے اس نے اپنی پڑھائی مکمل کرلی ہے اور وہ ہر خطرے سے نپٹنا جانتی ہے!“ وہ ہیٹ والا شخص ابھی بھی اسی کرسی پر بیٹھا تھا۔
”حانے نے آج تک میرے حکم کے خلاف جا کر کوئی کام نہیں کیا اور وہ زیادہ دن ایلیسا کے ساتھ رہی تو باغی بن جائے گی“
”پہلی بات تو یہ جان لو کہ ایلیسا باغی نہیں ہے۔ دوسری بات مجھے اس پر پورا یقین ہے!“ وہ بنا چہرے پر شکن لائے بولے تھے۔ جبکہ کلوپترہ صرف ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔
____________________________
”میں آپکا کافی دیر سے انتظار کر رہی تھی مس ایلیسا!“ لائبریرین سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
”معاف کیجئے گا ہمیں آنے میں تھوڑی دیر ہوگئی“ ایلیسا نے آگے بڑھتے کہا۔ جبکہ حانے آنکھیں پھاڑے اس لائبریری کو دیکھ رہی جہاں اس نے آنے کی کئی بار خواہش کی تھی۔
”یہ تو کمال ہے!“ وہ لائبریری کی اونچی گنبد نما چھت کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”یہ کون ہے؟“ لائبریرین نے حانے کو دیکھا۔ اسکے چہرے پر عجیب سا خوف تھا۔
”یہ حانے ہے! حانے معین!“ ایلیسا نے جواب دیا۔
”کیا واقعی؟ یقین نہیں ہوتا“ لائبریرین نے حیرت سے حانے کو دیکھا۔ ”تمہیں پچھلے کئی سالوں سے کسی نے نہیں دیکھا!“ اس نے حانے سے کہا۔
”ہاں میں کئی سالوں سے گھر سے باہر نہیں نکلی!“ حانے سے ہولے سے جواب دیا۔
”میرا خیال سے مجھے اپنا کام شروع کرنا چاہیے بس کچھ ہی وقت ہے۔“ ایلیسا کہتے ایک جانب بڑھ گئی۔
”کیسا کام؟؟“ حانے نے حیرت سے پوچھا۔
”دراصل مجھے ایک کورس کی کتاب چاہیے جو مجھے نہیں مل رہی بس اسی لیے یہاں آئی ہوں“ ایلیسا نے مسکرا کر بتایا۔ اور حانے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اب ہاتھوں سے وہاں رکھی ہر چیز چھو کر دیکھ رہی تھی۔
اس لائبریری میں چھ ملین سے زیادہ ڈاکومنٹس تھے۔ ایلیسا اور لائبریرین اندر جانے کس کونے میں چلی گئی تھیں۔
”میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ شاندار لائبریری نہیں دیکھی“ وہ اب ایک کتاب نکالے اسکے پنّے الٹتے خود سے باتیں کر رہی تھی۔
”دیکھو گی بھی کیسے تم کبھی کلوپترہ ہاؤس سے باہر نہیں نکلی“ اسکے عقب سے آواز ابھری تھی اور وہ جھٹکے سے مڑی۔ اسکے سامنے سیاہ لباس میں ایک لڑکا کھڑا تھا جسکے بال لمبے تھے اور اسکے کپڑوں پر سینے کے مقام پر ایک گول سا بڑا سا نشان بنا تھا۔
”کک۔۔کون ہو تم؟؟“ حانے نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ اسے اپنے،ایلیسا اور لائبریرین کے علاوہ وہاں کسی اور وجود کا اندازہ نہیں تھا۔
”کیا تم مجھے دیکھ سکتی ہو؟“ اب کے حیران ہونے کی باری لڑکے کی تھی۔
”کیا مطلب؟؟“
”مطلب یہ کہ میں ایک بھوت ہوں!“ لڑکے نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی جیسے کوئی راز کھل گیا۔ حانے کے ہاتھ سے کتاب چھوٹ کر نیچے گر گئی۔
_____________________________
شام:
”کیا تم سچ میں آج رات یہاں سے بھاگنے والے ہو؟؟“ قہوہ خانہ کے باورچی خانہ میں بس وہی دو لوگ تھے۔
”شش۔۔آہستہ بولو!“
”معاف کرنا!“ پہلا لڑکا شرمندہ ہوا تھا۔
”ہاں اور اس بار میں کامیاب ہوں گا“ دوسرے لڑکے نے جواب دیا۔ وہ رات کے اس پہر قہوہ کے لیے استعمال ہونے والے پیالوں کی صفائی کررہے تھے۔
”لیکن تم جانا کیوں چاہتے ہو؟ تمہیں اب یہاں سب پسند کرتے ہیں“ پہلا لڑکا اسکے جانے پر دکھی تھا۔
”میں نے اپنی زندگی کے چھ سال یہاں گزار دیے لیکن مزید نہیں رہ سکتا!“ وہ سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے۔ باہر ہوا چلنے کی تیز آواز آرہی تھی۔
”لگتا ہے طوفان آنے والا ہے!“ پہلا لڑکا خاصا پریشان تھا۔پھر اس نے ایک توقف کے بعد پوچھا”تو تم نے یہاں چھ سال کیوں گزارے؟ تم پہلے بھی تو بھاگ سکتے تھے“ وہ ایک ڈرپوک اور جسمانی طور پر دبلا پتلا کمزور سا لڑکا تھا۔
”میں جب چھوٹا تھا تب بھاگنے کی بہت کوشش کی تھی۔لیکن میں ہر بار پکڑا جاتا تھا۔ اور پھر بہت بری سزائیں دی جاتی تھیں۔۔“ وہ افسردگی سے بتا رہا تھا۔ غلامی کیسی ہوتی ہے یہ اس سے بہتر کون جانتا تھا۔ وہ آزاد جینا چاہتا تھا۔ ایک غلام ہونے کے باوجود بھی اسکے ذہن میں کچھ بڑا کرنے کے خواب تھے۔ ”میں بس صحیح وقت کا انتظار کر رہا تھا اور خود کو مضبوط بنا رہا تھا تاکہ اپنی حفاظت کر سکوں!“
”اسی لیے تم رات کو مزدوری کرنے جاتے تھے۔ وزنی کام کرتے تھے تاکہ تم خود مضبوط ہوجاؤ اور تم۔۔؟“
”ہاں ایسا ہی ہے!“ جو بھی تھا وہ اپنے سارے راز ایسے ہی کسی کو نہیں بتا سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا اگر اسکے جانے کے بعد پہلا لڑکا پکڑا جاتا یا اس سے پوچھ گوچھ کی جاتی تھی تو وہ سب بتادیتا۔ اس لیے فی الحال وہ زیادہ نہیں بولنا چاہتا تھا۔ پہلا لڑکا کچھ بولنے ہی والا تھا جب دوسرے لڑکے نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اسے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی کوئی ان کی طرف ہی آرہا تھا۔
”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہوں۔۔“ یہ ایک بائیس سالا نوجوان تھا۔ جو ان کے مالک کا چمچہ تھا۔ اور ہر وقت اپنے سے کمزوروں پر روب ڈالتا رہتا تھا۔ ”اگر میں یہاں سے بھاگنے کے بعد کبھی لوٹ کر آیا تو اس کا بھرکس بنا دوں گا۔۔“ اس نے سوچا تھا لیکن کہا کچھ نہیں۔
”کک۔۔کام کر رہے ہیں“ پہلے لڑکے نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
”اور تم؟؟ تم کیا کر رہے ہو “ اس نے اب پیٹھ موڑے کھڑے دوسرے لڑکے سے کہا جو اب بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے ڈرتا بھی نہیں تھا۔ اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
”تم سے پوچھ رہا ہوں جواب دو۔۔“ اسے اسکے جواب نہ دینے پر غصہ آیا تھا۔ جبکہ دوسرے لڑکے کی نگاہیں کھڑکی سے باہر جمی تھیں جہاں اندھیرے میں اسے ایک ٹمٹماتی روشنی نظر آرہی تھی۔ ایک نیلی روشنی جو اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔
Read Previous Episode
Episode 01: Click me!