کچھ دنوں سے وہ اس نیلی روشنی کو باقاعدہ اپنے آس پاس دیکھ رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا یہ روشنی کیا تھی اور کیوں تھی۔ لیکن عجیب و غریب روشنی اسے ایک راہ دکھاتی تھی اسی لیے اس نے شام سے ہمیشہ کے لیے بھاگ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
”لگتا ہے تمہارا دماغ درست کرنا پڑے گا“ وہ ہٹاکٹا نوجوان اسے گردن سے دبوچ چکا تھا لیکن وہ شاید نہیں جانتا تھا وہ لڑکا اب بڑا ہوگیا تھا جسے وہ بچپن میں مارا پیٹا کرتا تھا۔ اس نے پھرتی سے اسکا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹایا اور زور دار گھونسا اسکی ناک پر رسید کیا۔ اس سے پہلے وہ پھر سے اٹھ پاتا اس نے نیچے دیوار کے ساتھ رکھا ایک چھوٹا سا بیگ اٹھایا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے پلٹ کر دیکھا۔ پہلا لڑکا جگہ پر کھڑا کانپ رہا تھا۔ اسکے چہرے اور آنکھوں سے خوف واضح تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے دوست کے لیے خوش بھی تھا جو اس جیل سے آزادی پانے والا تھا۔
”شکریہ دوست! زندگی رہی تو پھر ملیں گے!“ اس نے مسکرا کر اپنے کمزرو سے دوست کو الوداع کہا اور دروازے کے باہر غائب ہوگیا۔
”کوئی پکڑو اسے یہ بھاگ رہا ہے“ نیچے گرا لڑکا اب اٹھ چکا تھا۔ اسکی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ اتنا زبردست گھونسا کھانے کے بعد اسکا دماغ گھوم گیا تھا۔ وہ اب اس بھاگے ہوئے لڑکے کو گالیوں سے نواز رہا تھا۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی جس سے گردو غـبار ہر جانب اڑ رہا تھا۔ اسکی آواز پر قہوہ خانہ میں کھلبھلی سی مچ گئی تھی۔
_____________________________
”حانے کیا تم ٹھیک ہو؟؟“ اسکی چیخ کی آواز پر ایلیسا بھاگتے ہوئے لائبریری کے ہال میں پہنچی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے زور زور سے چلا رہی تھی۔
”حانے یہ میں ہوں کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے“ ایلیسا حقیقتاً پریشان ہوگئی تھی۔ ایلیسا کو اپنے قریب پا کر وہ اس سے چپک گئی تھی۔
”ریلیکس ہوجاؤ سب ٹھیک ہے“ ایلیسا نے اسکے سر کو سہلایا تھا۔ لائبریرین نے آگے بڑھ کر نیچے گری کتاب اٹھائی۔
”یہاں پر بھوت تھا!“ حانے نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔ اسکی بات سن کر ایلیسا کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
”کیا کہا بھوت؟؟“ ایلیسا نے اسے خود سے الگ کرتے پوچھا تھا۔
”ہاں ادھر۔۔“ حانے کے الفاظ بیچ میں ہی رہ گئے۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔
”پر حانے یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے!“
”لل۔۔لیکن۔۔میں نے دیکھا“ وہ ابھی تک ڈری ہوئی تھی۔
”اسکا حلیہ کیسا تھا؟؟“ ایلیسا نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”کالے کپڑے،لمبے بال اور اور۔۔۔“
”جمی تو باز نہیں آؤ گے!“ اسکی بات سن کر ایلیسا بڑبڑائی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی یہ شرارت کس کی تھی۔
”مس ایلیسا۔۔!“ لائبریرین نے سرگوشی نماز آواز میں اسے پکارہ تھا۔ ایلیسا نے مڑ کر دیکھا۔ لائبریرین کی نظریں کتاب پر جمی تھیں۔ ایک موٹی جلد والی کتاب! اسے دیکھ کر ایلیسا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ اسی کے لیے تو وہ یہاں آئی تھی۔
”یہ کتاب تمہیں کہاں سے ملی حانے؟؟“ ایلیسا نے خود کو سنبھالتے اس سے پوچھا۔
”یہاں اس شیلف میں“ حانے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا۔
”او مائی گاڈ!“ وہ صحیح معنوں میں ششدر رہ گئی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی لائبریرین تک پہنچی اور اس کتاب کو چھونے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی پل وہ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچ چکی تھی۔ اسے کتاب کو چھونے سے جھٹکا لگا تھا۔ اس نے جھٹکے سے مڑ کر حانے کی طرف دیکھا اور تجسس سے پوچھا۔
” یہ کتاب تمہارے ہاتھ سے کیسے گری؟؟“ وہ کچھ کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔
”میں اس کتاب کو کھولنے ہی والی تھی پھر وہ بھوت سامنے آگیا تو میں ڈرگئی۔۔ اسی لیے یہ میرے ہاتھ سے گر گئی۔۔“ حانے نے ناسمجھی سے کہا۔
”تم اسے چھو کر دکھاؤ۔۔“ ایلیسا کی بات پر حانے نے الجھن زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھی اور کتاب لائبریرین کے ہاتھ سے لے لی۔ یہ دیکھ کر ایلیسا کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے تاثرات بھی ابھرت تھے۔
”یہ کتاب آپکے پاس میری امانت ہے آپ اسے سنبھال کر رکھیں۔ نیو ورلڈ سے جلد ہی اسے لینے آئیں گے!“ ایلیسا نے آہستگی سے لائبریرین سے کہا تھا۔ وہ اثبات میں سر ہلا گئی تھی۔
_____________________________
تم ہو اِک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاﺅ گے
آزادی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ اور آزادی حاصل کرنے کے بعد کیسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی اس سے پوچھتا جو جانے کتنے زخم کھانے کے باجود اس غلامی کے زنجیر کو آج توڑ آیا تھا۔
اسکے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ آنکھ سوجھی ہوئی تھی اور باہنے پاؤں کی ہڈی شاید ٹوٹ گئی تھی پھر بھی وہ لوگوں سے لڑ جھگڑ کر، جانے کتنے کو زخمی کرکے اور خود بھی زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا۔ وہ اپنے مالک کی پہنچ سے بہت دور آگیا تھا۔ اسے اپنے پاؤں میں حد سے زیادہ درد محسوس ہو رہا تھا۔ اسکی ہمت اب جواب دینے لگی تھی۔ وہ ایک ویران جگہ پر تھا۔ صبح کی روشنی پھیلنے کی والی تھی۔ تکلیف کتنی بھی ہو مشکلات کتنی ہی کیوں نہ آئیں انسان ایک دن اپنی منزل پا ہی لیتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں کو بند ہوتا محسوس کیا تھا۔ اسکا ہلق خشک ہوچکا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ بےہوش ہوتا اس نے اس نیلی روشنی کو بہت قریب پایا تھا جسے دیکھتے وہ بھاگتا آیا تھا۔ وہ اسکے بہت قریب تھی بہت قریب اسکے دل کے مقام پر۔۔ اور اسکی آنکھیں بند ہوگئیں۔
__________________________
”کیا میں پوچھ سکتی ہوں وہ کیا تھا؟؟“ وہ دونوں لائبریری سے باہر نکل چکی تھیں اور حانے نہیں جانتی تھی وہ اب کس طرف جا رہے تھے۔ صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ ہلکی نیلی روشنی اور حانے نے صبح کی روشنی میں پروگ کا یہ خوبصورت منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے ایک پل کو سوچا کہ کاش وہ اکیلی ہوتی اور کسی کونے میں بیٹھ کر سہانے منظر سے لطف اندوز ہوتی لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ ایلیسا ہمیشہ کسی تلاش میں رہتی تھی۔ وہ کبھی ایک جگہ نہیں رکتی تھی اسکے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی جگہ ٹھہر قدرت کے اس خوبصورت نظاروں کو دیکھ سکے انہیں محسوس کر سکے۔
”وہ کتاب؟؟“
”ہاں اور وہ لڑکا۔۔ میں نے اسے دیکھا تھا وہ سچ میں تھا“ حانے ایک جھٹکے سے رک گئی تھی۔ مجبوراً ایلیسا کو بھی رکنا پڑا۔ اس نے حانے کی جانب دیکھا اور انتہائی سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔
”کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو؟؟“ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں۔۔!“ حانے نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو پھر صبر رکھو۔ عنقریب تمہیں معلوم پڑ جائے گا“ ایلیسا نے اسکا گال تھپتھپایا۔
”آؤچ۔۔ دور رکھو اپنے ٹھنڈے ہاتھ!“ حانے کو جیسے کرنٹ لگا۔ ایلیسا اسکی حرکت پر مسکرادی۔
”ٹھیک ہے اب جلدی چلو ہمیں ڈانسنگ ہاؤس پہنچنا ہے“ ایلیسا نے تیز تیز قدم اٹھاتے کہا۔
”کیا؟؟ وہ تو یہاں سے کافی دور ہے نا“ حانے کو صدمہ لگا تھا۔ وہ اتنا زیادہ پیدل نہیں چل سکتی تھی۔ وہ تھک گئی تھی جبکہ ایلیسا ویسے ہی فریش تھی جیسے وہ پیدل چلنے کے لیے ہی بنی ہو۔
”یہاں سے 2.7 کلو میٹر دور ہے تیز تیز چلیں گے تو بیس منٹ میں پہنچ جائیں گے!“
”لیکن مجھے بھوک لگی ہے۔ مجھے ناشتہ کرنا ہے!“
”ہاں مجھے بھی لگی ہے بس یہ کام کرلیں پھر تمہیں اچھا سا ناشتہ کراؤں گی۔۔ آئی پرامس!“ وہ مسکرائی تھی اور حانے کو خاموشی سے اسکے ساتھ چلنا پڑا۔
___________________________
ڈانسنگ ہاؤس پروگ کی خوبصورت عمارات میں سے ایک ہے۔ یہ دو مشہور ڈانسرز جنجر اور فریڈ کی یاد میں بنایا گیا اور اسے فریڈ اور جنجر ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ اسکی نو منزلہ عمارت انتہائی دلکش اور شاندار ہے۔ اس عمارت کے دو ٹاور ہیں۔ گلاس ٹاور جنجر جبکہ میٹل ٹاور فریڈ کو ظاہر کرتا ہے۔ 1945 کے ایک بمب بلاسٹ میں یہ تباہ ہوگیا تھا اسے دوبارہ 1992 میں بنانا شروع کیا گیا اور یہ 1996 میں مکل ہوا۔ اس ہاؤس کی ساتویں منزل پر جنجر اور فریڈ ریستوران جبکہ نویں منزل پر گلاس بار ہے۔ اور اس عمارت میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری بھی موجود ہے۔
”واؤ یہ تو کمال کا ہے!“ حانے نے سر اٹھا کر آسمان چھوتی عمارت کو دیکھا۔ وہ دونوں ڈانسنگ ہاؤس کے سامنے تھیں۔
”کیا ہم یہاں آرٹ گیلری وزٹ کرنے آئے ہیں؟؟“ یہ غیر متوقع سوال تھا۔ اس بار چونکنے کی باری ایلیسا کی تھی۔
”ہاں! لیکن تمہیں کیسے پتا چلا؟؟“
”کیونکہ آج آپ ایسی جگہوں پر جارہی ہیں جہاں پر کچھ عجیب و غریب اور پرانی چیزیں مل سکیں۔ جیسے وہ کتاب۔۔۔ اور میں جانتی ہوں یہاں ایک آرٹ گیلری ہے جہاں یقیناً آپکی دلچسپی کا کوئی سامان تو ہوگا نا“ حانے نے کندھے اچکائے۔ اور ایلیسا مسکرادی۔
”تم کافی ذہین ہو حانے!“ وہ پورے دل سے کہہ رہی تھی اور حانے اس تعریف پر کھل اٹھی تھی۔
___________________________
”مجھے اندازہ نہیں تھا پروگ میں اتنی ٹھنڈ بھی ہوتی ہے میں تو اپنے بستر میں دبکی رہتی ہوں۔“ حانے نے گرم گرم چائے کے کپ کو ہاتھ میں پکڑتے کہا۔ اس سے اسکے ہاتھوں کو حرارت پہنچ رہی تھی۔ وہ پیدل چلتی رہی تھی جس سے سردی کی شدت کا احساس نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ جیسے ہی ناشتے کے لیے اسکے دانت بجنا شروع ہوگئے تھے۔ یہاں ریستوران کے اندر کافی گرمائش تھی لیکن وہ حانے کے لیے کافی نہیں تھی۔
”اسی لیے میں نے پیدل چلنے کو ترجیح دی تاکہ ہمیں زیادہ ٹھنڈ نہ لگے“ ایلیسا نے بریڈ کی بنی پکوڑی کو منہ کے اندر رکھتے کہا۔ ”مجھے یہاں کا کھانا ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے!“ اب وہ منہ چلاتے بتا رہی تھی۔
”یہ زندگی میں پہلی بار ہوا ہے جب میں کلوپترہ ہاؤس کے باہر کچھ کھا رہی ہوں۔“ حانے نے آلوؤں سے بنے پین کیک کی طرف ہاتھ بڑھاتے کہا۔ صبح کے دس بج رہے تھے اور یہ صرف حانے ہی جانتی تھی اسے کتنی بھوک لگی ہوئی تھی۔
”دل بھر کر کھاؤ!“ ایلیسا نے مسکراتے کہا۔ ”اچھا تو یہ بتاؤ اب ہم کہاں جانے والے ہیں!“
ایلیسا کی بات پر حانے نے اسے غور سے دیکھا تھا۔ وہ اسے کچھ پل یونہی دیکھتی رہی اور پھر آہستگی سے بولی؛ نیشنل میوزیم آف پروگ۔۔ شاید۔۔“ وہ خاموش ہوگئی۔۔”یہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔۔لیکن بس مجھے محسوس ہوا!“ وہ یہ نہیں بتا پائی کہ جب ایلیسا نے اس سے پوچھا تو اس نے اپنے آپ کو میوزیم کے سامنے پایا تھا۔
”نہیں نہیں ہنی! تم نے بالکل ٹھیک جواب دیا ہے۔ ہم وہیں جانے والے ہیں!“ ایلیسا نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
”کیا تم کچھ اور محسوس کر سکتی ہو؟ جیسے کہ میوزیم کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟“ جانے ایلیسا کیا جاننا چاہتی تھی۔ حانے نے کوشش کی لیکن اس بار وہ کچھ نہ کہہ پائی۔
”میں نہیں جانتی یہ جانے کیسا ہوگیا۔۔“ اسکے چہرے پر افسردگی تھی۔
”چلو کوئی بات نہیں تم اچھے سے کھانا کھاؤ۔۔ ہو سکتا ہے اسکے بعد ہم بس ڈنر ہی کر پائیں!“ وہ ہمیشہ مثبت رہتی تھی اور حانے کو ایلیسا کی یہ عادت اچھی لگتی تھی۔
_____________________________
”اور کیا کرنا چاہیے جب ہمیں اپنے آس پاس کچھ عجیب و غریب سی انرجی محسوس ہو۔۔ گرم۔۔ بہت گرم۔۔ آتش زدہ۔۔ جلا کر راکھ کر دینے والی! مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا میں کیوں لکھتی تھی اور اب میں کیوں نہیں لکھ پارہی۔۔ یہ شاید ان باتوں کی وجہ سے جو پبلشر جیسن ایک دوسرے مشہور رائٹر سے کہہ رہا تھا اور میں نے سن لیں۔۔کیا وجہ صرف وہی تھی؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ روشنی وہ سرخ روشنی جو بالکل آگ جیسی ہے وہ کیا ہے؟ اور میں اسے آج کل اپنے پیچھے ہر جگہ محسوس کر سکتی ہوں۔ جب وہ میرے ارد گرد ہوتی ہے تو مجھے اتنی ٹھنڈ میں بھی پسینے آجاتے ہیں۔۔ گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے کیا یہ حقیقت ہے یا پھر میرا وہم؟ کیا میں پاگل ہو رہی ہوں؟۔۔ او نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا!“ ماروہ نے اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔ آج ٹیکسا میں صبح سے بارش ہورہی تھی۔ کبھی وہ اس موسم میں رغبت سے لکھا کرتی تھی اور اب صرف سوچتی رہتی تھی۔ ابھی بھی وہ ان ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی جب اسکے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔
”ماورہ جلدی سے فری ہو کر نیچے آجاؤ آج ہم بہت اچھا سا لنچ کریں گے۔ موسم بھی اچھا ہے تو میں فش فرائے کرنے کا سوچ رہی ہوں!“ یہ ماروہ کی مام تھی۔
”آتی ہوں مام۔۔ آپ جائیں!“ ماروہ نے بےدلی سے جواب دیا تھا لیکن وہ جانا بھی چاہتی تھی وہ انہیں دکھ نہیں پہنچا سکتی تھی۔ دس منٹ بعد وہ نیچے انکے پاس کچن میں تھی۔ گلاس ونڈو سے بہتا بارش کا پانی خوبصورت منظر ہیش کر رہا تھا۔ پورے کچن میں فش فرائے ہونے کی بھوک بڑھا دینے والی خوشبو پھیلی تھی۔
”تمہاری گرین ٹی ٹھنڈی ہوجائے گی“ اسے کھویا ہوا دیکھ کر اسکی مام نے کہا۔
”اوہ ہاں۔۔ میں بھول گئی تھی“ ماروہ نے زبردستی مسکراتے کہا اور کپ اٹھا لیا۔ ”آپ نے ڈیڈ سے شادی کیوں کی تھی؟ وہ انڈین تھے اور آپ امریکن۔۔کیوں؟“ یہ غیر متوقع سوال تھا۔ کڑاہی میں چمچ ہلاتے اور فش کے ٹکڑوں کو الٹے اسکی مام کے ہاتھ ساکت ہوئے تھے۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا وہ ایسا سوال کرے گی۔
”شاید یہ ہماری قسمت میں تھا“ کچھ پل کی خاموشی کے بعد انہوں نے جواب دیا۔ ماروہ خاموش ہی رہی۔
”ہنی تمہیں پتا ہے میں کل تمہاری فیورٹ رائٹر آیت فریڈلے کی کتاب پڑھ رہی تھی بہت عجیب و غریب لکھا ہوا ہے جانے تم کیسے پڑھ لیتی ہو۔۔“ انہوں نے بات بدل دی۔ اور ماروہ کے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا تھا۔ اسے کچھ یاد آیا تھا۔
”مام میں ابھی آتی ہوں!“ وہ کچن سے بھاگتے ہوئے باہر نکلی اور لاؤنج کے صوفے پر رکھا کوٹ اٹھا کر پورچ کی جانب لپکی۔
”دی اوریجن آف بیسٹ بائے آیت فریڈلے! ہاں یہی کتاب تھی جو اس نے ابھی تک نہیں پڑھی تھی اور اسے یقین تھا اسکے بہت سے سوالوں کے جواب اسے اس کتاب میں مل جانے تھے اور یہ کتاب اسے کہاں ملتی یہ وہ نہیں جانتی تھی۔۔ مطلب آج وہ ٹیکسا کی ہر بک شاپ ہر لائبریری چھاننے والی تھی۔
_________________________
باب دوئم؛ اعداد کی پراسراریت
”کافی اچھا دن گزرا آج ہے نا؟؟“ شام کے سائے پروگ پر اپنے پر پھیلا چکے تھے۔
”ہاں اور تھکا دینے والا۔۔“ حانے نے ہانپتے ہوئے کہا وہ دونوں اب کلوپترہ ہاؤس کی طرف جارہی تھیں۔ ابھی ایک دن پہلے کرسمس تھی اور پروگ میں اسٹریٹ فوڈ کی وجہ سے رات گئے تک خاصی رونق لگی رہتی تھی۔ ابھی بھی ان سے کچھ فاصلے پر ایک جھمگٹا لگا ہوا تھا۔ گلی تقریباً پوری بند تھی اور لوگوں کی سیٹیوں اور قہقہوں کی آواز دور تک سنائی دے رہی تھی۔
”میں یقین سے کہہ سکتی ہوں تم آج بہت اچھی نیند لینے والی ہو۔۔ انسانی جسم جتنا زیادہ تھکا ہوتا ہے وہ اتنی پرسکون نیند لیتا ہے۔۔ اسی لیے قدرت نے دن کو کام کرنے جبکہ رات کو آرام کرنے کے لیے بنایا ہے۔ آج کی ٹیکنالوجی نے دنیا کو سمیٹ کر بہت چھوٹا بنا دیا ہے اور آج کی جنریشن قدرتی مناظر کی بجائے اپنا زیادہ وقت ٹیکنالوجی کو دیتی ہے۔ وہ واک کی بجائے سوشل میـڈیا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں، وہ جسمانی کام کی بجائے آرام دہ کام چاہتے ہیں جسے آسانی سے کر سکیں۔۔۔ یہ سب چیزیں انسانی ذہن کو زنگ لگا رہی ہیں اسی وجہ سے آج کل کی جنریشن اچھی نیند نہیں لے پاتی۔۔ ان کا دماغ کبھی سکون حاصل نہیں کر پاتا۔۔۔“ کاش کوئی بتاتا ایلیسا کو کہ وہ کتنا بولتی تھی۔ حانے نے بےدھیانی میں اسکی باتیں سنیں اسکی نظریں اس ہجوم پر جمی تھیں۔ اسے اپنی طرف متوجہ نہ پا کر ایلیسا نے ایک گہرہ سانس لیتے ہوئے اپنے کندھے ڈھیلے چھوڑے اور ہولے سے کہا۔
”میرے خیال سے ہمیں وہ دیکھنا چاہیے۔۔“ وہ کہتے ہجوم کی طرف بڑھ گئی۔حانے نے بھی اسکی پیروی کی۔
”یہ کمال کا جادو گر ہے!“ وہاں ایک چھوٹا سا اسٹیج بنا ہوا تھا۔ جس پر رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک شخص ہاتھ میں کتاب لیے کھڑا تھا۔ اس نے کتاب کو کھولا اور وہاں موجود ہجوم کو دکھایا۔۔ اور پھر اس نے وہ کتاب سامنے رکھے میز پر رکھ دی کچھ دیر بعد اس نے وہ کتاب کھولی تو اس کتاب کے سارے صفحے کورے تھے۔۔ ان پر لکھے الفاظ مٹ چکے تھے۔
”یہ کیسے ہوا؟؟“ حانے نے حیرت سے پوچھا۔ لوگ اب جوش سے تالیاں بجا بجا کر اسے داد دے رہے تھے۔
”یہ سب نظر کا دھوکا ہے میرے خیال سے ہمیں چلنا چاہیے“ ایلیسا نے بےزاریت سے کہا۔
”رکیں مجھے ابھی دیکھنا ہے“ حانے بھی وہاں موجود باقی سب کی طرح پرجوش تھی۔ ”آؤچ۔۔“ تبھی کوئی زور سے اسے ٹکرایا تھا۔ وہ گرتے گرتے بچی۔
”تم ٹھیک ہو؟؟؟“ ایلیسا نے اسے تھامتے پوچھا۔ وہ شاید کوئی لڑکی تھی جو بھاگتی ہوئی آئی تھی اور حانے سے ٹکراگئی۔ اس نے اوور کوٹ پہنا تھا اسکی پشت نظر آرہی تھی اور پھر وہ ہجوم میں گھم ہوگئی۔
”مجھے نہیں پتا تھا پروگ کے لوگ دھکا بھی دیتے ہیں۔۔ “ حانے کچھ کہتے کہتے رک گئی۔اس نے پلٹ کر دیکھا لیکن تب تک وہ لڑکی جانے کہاں جا چکی تھی۔
”کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟؟“ ایلیسا نے اسکے الجھے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔
”ہا۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔“ وہ مسکرائی۔
”اب میں آپکو دکھانے جا رہا ہوں ایک اور جادو جسے دیکھنے کے بعد یقیناً آپ دھنگ رہ جائیں گے۔“ وہ جادوگر کافی پرجوش تھا۔ جادوگر کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی ایک ریاضی کی کتاب۔ اسکے پیچھے ایک چھوٹا سا بورڈ لگا تھا۔ میں یہاں پر وہ ہندسے لکھوں گا جو آپ بتائیں گے کوئی بھی دو ہندسے۔ جیسے 99 یا پھر جو آپ کہیں۔ میں ان دو الفاظ کو استعمال کرکے ایک چار ہندسی لفظ بناؤں گا اور پھر یہ کتاب جو میرے ہاتھ میں آپکا اس کا کوئی بھی صفحہ کھولیں اور کوئی بھی لائن دیکھیں آپکو وہی الفاظ ملیں گے جو یہاں لکھیں ہوں گے۔۔“ جانے وہ کیسا جادو کرنے والا تھا۔
ہجوم میں سے دو لوگوں نے اسے دو قیمتیں لکھوائی تھیں۔
ایک نے 501 بولا تھا اور دوسرے نے 723 اور جب جادوگر نے ان دو قیمتوں کو آگے پیچھے کرکے جواب نکالا تو وہ 1089 تھا۔ دونوں کا ایک ہی جواب۔۔ پہلی بات تو حیران کن یہ کہ دونوں کا جواب ایک سا آیا تھا۔ یعنی 1089
اب جادوگر نے میز سے وہ کتاب اٹھا کر ہجوم میں کھڑے ایک لڑکے کو پکڑائی تو اس نے 108 صفحہ نمبر کھولا اور اسکا نواں حرف دیکھا تو وہ 9 تھا یعنی 1089 پورا پوچکا تھا۔ اب وہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو اپنے جوہر دکھا رہا تھا۔ وہ 10 صفحہ نمبر کھلواتا تو اسکی وہاں سے 89 مل جاتا لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن ہر بار ایک لفظ ملا۔۔ وہ حیران رہ گئے تھے۔
اب وہ لوگوں سے کچھ پوچھتا لوگ بتاتے اور وہ جانے کیا کرتا کہ ہر کتاب سے وہی لفظ نکلتا جو لوگ کہتے تھے۔
”کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟؟؟“ حانے کافی متاثر نظر آرہی تھی۔
”نہیں جانتی لیکن سنا ہے یہ لوگ کچھ ایسا ضرور کرتے ہیں کہ لوگوں کو وہی نظر آئے جو یہ دکھانا چاہتے ہیں۔۔“ ایلیسا نے سادہ لہجے میں جواب دیا۔ اب وہ دونوں باتیں کرتے آگے بڑھ آئی تھیں جب پولیس کے سائرن کی آواز سنائی دی۔
”کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔۔“ پولیس کی نفری تیزی سے پھیلنے لگی۔ سب ساکت رہ گئے۔ اور تب کسی نے ہجوم میں سے ایک پتھر اٹھا کر جادوگر کو دے مارا۔ نشانہ پکا تھا وہ پتھر اسے سر پر لگا تھا اسکی چیخ ابھری اور اسکے ساتھ ہی ہجوم میں ہلچل مچ گئی لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔
”ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔۔“ اب پتھر وہاں لگی اسٹریٹ لائٹس پر پڑ رہے تھے۔ چاروں جانب اندھیرا چھانے لگا۔ ایلیسا نے حانے کا ہاتھ پکڑا اور بھاگنے والے انداز میں وہاں سے نکلتی گئی۔ ابھی وہ دونوں کچھ ہی دور پہنچی تھیں جب اچانک کوئی انکے سامنے آیا۔
”کیا تم دونوں میری مدد کر سکتی ہو؟؟؟“ یہی وہی لڑکی تھی جو حانے سے ٹکرائی تھی۔ اسکے چہرے پر زخموں کے نشان تھے۔ یقیناً پولیس وہاں اسی کی تلاش میں آئی تھی۔
ایلیسا نے ایک پل کو سوچا اور اگلے پل اثبات میں سرہلاتے کہا۔
”بھاگو یہاں سے۔۔“ پیچھے کافی شور مچا ہوا تھا اور وہ تینوں وہاں سے نکلتے چلی گئیں۔
____________________________
”میں نے تمہیں منع کیا تھا ایلیسا کہ تم حانے کو باہر نہیں لے کر جاؤ گی۔۔“ کلوپترہ کافی غصے میں تھیں۔وہ دبی دبی آواز میں چلا رہی تھیں۔ یہ کلوپترہ کا آفس تھا جہاں وہ ایلیسا کی ماں نہیں بلکہ میڈم کلوپترہ تھی۔
”اور آپ اسے کب تک یہاں قید کرکے رکھیں گی؟ آپکو پتا ہے وہ کچھ نہیں جانتی اب وہ بچی نہیں رہی۔۔ جمی تک کو نہیں پہنچانتی۔۔ اسے اپنے بارے میں جاننے کا حق ہے اگر آپ نے سچ بتایا ہوتا تو اب تک وہ اپنی خاصیت جان چکی ہوتی۔۔ “
“وہ اپنے وقت پر جان جائے گی تمہیں اسکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے“ کلوپترہ نے نظریں چراتے کہا لہجہ ہنوز وہی تھا۔
”آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے وہ کیسے رکھے گی مام وہ کچھ جانتی ہی نہیں۔۔“ ایلیسا کو یہ بات بری طرح چُبھ رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ کلوپترہ کچھ کہتیں دروازے پر دستک ہوئی اور حانے اندر آئی۔
”ایم ساری میم! میری وجہ سے انہیں کچھ مت کہیں میں دوبارہ باہر نہیں جاؤں گی“ وہ سرجھکائے کھڑی معافی مانگ رہی تھی۔
”بس یہی چاہتی تھیں نہ آپ۔۔۔“ ایلیسا نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا اور پھر غصے سے کمرے سے نکل گئی۔حانے وہیں کھڑی تھی۔
”تم اپنے کمرے میں جاؤ حانے!“ یہ حکم تھا اور حانے کبھی ٹال نہیں سکتی تھی۔ وہ خاموشی سے چلی گئی۔
”یا خدایا! میں اس لڑکی کا کیا کروں۔۔ اب جانے کس کو اٹھا کر یہاں لے آئی ہے جبکہ یہاں اجنبیوں کا آنا سختی سے منع ہے“ کلوپترہ کو اب اس بات پر غصہ آرہا تھا کہ ایلیسا ایک نئی لڑکی کو اپنے ساتھ لے آئی تھی۔
”کیا کروں میں اس لڑکی کا۔۔“ وہ پریشانی سے اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہی تھیں۔ آتش دان میں جلتی لکڑیاں چٹکھ رہی تھیں۔
_________________________
”میں نہیں جانتی تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو لیکن اتنا پوچھنا چاہوں گی تم نے اتنے لوگوں میں سے صرف ہمیں ہی کیوں چنا مدد کے لیے؟؟“ ایلیسا اب اس لڑکی سے سوال کر رہی تھی۔
”میں نے محسوس کیا۔۔“ لڑکی نے سپاٹ انداز میں کہا۔
”کیا محسوس کیا؟؟“ ایلیسا نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا۔ اسکے بھورے بال اپنی پونی میں قید تھے اور اب وہ ڈھیلے ڈھالے سے ٹراؤزر شرٹ میں تھی۔
”انرجی کو۔۔“ اس بار لڑکی تھوڑی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ کیونکہ ایلیسا شاید پہلی لڑکی جو اس سے یہ نہیں پوچھ رہی تھی کہ وہ کون تھی کہاں سے آئی تھی بلکہ اسکے سوال الگ تھے۔
”کیسی انرجی؟؟“
”ایک طاقت ور انرجی! جو حد سے زیادہ پوزیٹیو بھی ہے اور نیگیٹو بھی۔۔“ لڑکی نے بالکل سچ بولا۔
”اور تمہیں یہ کیسے پتا چلا؟؟“ ایلیسا تیزی سے سوال کر رہی تھی۔
”نمبر سے۔۔“
”کونسا نمبر؟؟؟“
”وہی جو دوسری لڑکی کے کوٹ کے پیچھے بڑا سا لکھا ہے، نمبر ایک (1) ، جو لڑکی آپ کے ساتھ تھی۔۔“ اس لڑکی کی باتیں گھما دینے والی تھیں۔ ایلیسا کو یاد آیا حانے کے کوٹ کی پشت پت بڑا سا ایک لکھا تھا ایک فینسی ڈیزائن میں۔
”میں کچھ سمجھی نہیں، صاف صاف بتاؤ۔۔“ ایلیسا الجھی تھی۔
“میں نمبروں کی مدد سے لوگوں کی انرجی کا پتا لگا لیتی ہوں۔ یہ میری خاصیت ہے۔ میں اپنے ارد گرد لکھے نمبروں سے ہوچکے واقعات اور ہونے والے واقعات کو محسوس کر سکتی ہوں کہ اچھے ہیں یا برے جیسے یہاں کچھ برا ہوا تھا یا اچھا اور نمبروں میں سب سے طاقت ور نمبر 1 ہے۔“ وہ بولتی جارہی تھی جبکہ اب ایلیسا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔