باب اول؛ آدم اور وہ
شہر گھوتم سن 1881ء
نگاہ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو،
کوئی کافر،کوئی فاسق،کوئی زندیق اکبر تھا
مگر جب ھو گیا دل احتساب نفس پر مائل
ھوا ثابت کہ ہر فرزند آدم مجھ سے بہتر تھا!
روئے زمین پر پہلی جنگ کا آغاز تب ہوا جب ایک مخلوق نے دوسری مخلوق کی برتری کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیاں اسی کشمکش میں گزر گئیں کہ دونوں میں سے کون بہتر ہے؟ کیوں بہتر ہے؟ اور جسے بہتری کا درجہ دیا گیا ہے کیا وہ اس پر پورا اترتا ہے؟ اور جس مخلوق کو بہتری کا درجہ دیا گیا وہ آدم تھا جب آدم کے امتحان کا وقت آیا تو بدقسمتی سے وہ ثابت قدم نہ رہ پایا۔ آدم نے ایک حکم نہ مان کراپنی بدقسمتی کو دعوت دی تھی۔ اس نے ایک غلطی کی اور اسے آرام دہ دنیا سے نکال کر ایسی جگہ پھینک دیا گیا جہاں بہت سے دشمن اسکا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔ لیکن، اسکی ایک غلطی سے اسکا درجہ نہ ختم ہوا نہ ہی کم ہوا۔ اسے اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑی اور بالآخر وہ اس میں کامیاب رہا۔ اور پھر آدم کے اپنی اصل دنیا میں واپس جانے کے کچھ پیمانے رکھ دیئے گئے جو ان پر پورا اترتے وہ اس دروازے کو پار کرلیتے جو انکا ابدی گھر تھا۔ جہاں وہ ہمیشہ رہتے آئے تھے لیکن اس دروازے تک پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا۔ یہ ایک انتہائی کھٹن راستہ تھا۔ اس دروازے تک پہنچنے کا راستہ بتانے کے لیے ہر دور میں انکی مدد کو عظیم لوگ آتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ آدم انسان میں بدل گیا اور اس نے خدائی حکم کی ہر جگہ پر ممانعت کی۔ وہ انسان جو اپنے آپکو بہتر سمجھتا تھا لیکن وہ یہ بھول گیا تھا وہ کیوں بہتر تھا اور یہاں سے آدم کی بربادی کا آغاز ہوا!
اس نے صفحہ پلٹا تو اگلے صفحے پر لکھے لفظ معدوم ہوچکے تھے۔ کتاب غالباً کافی پرانی تھی اسی وجہ سے جگہ جگہ سے اسکے صفحے پھٹے ہوئے کہیں کہیں پر پورے صفحے ہی غائب تھے اور کہیں سے پھٹ چکے تھے۔
”اوہ یہ صفحہ تو پھٹ چکا ہے اب میں آگے کیسے پڑھوں؟؟“ تیز روشنی میں چمکتے کانچ جیسی آنکھوں میں مایوسی سی ابھری۔ لیکن اگلے ہی پل کسی خیال کے ابھرنے پر وہ آنکھیں پھر سے چمک اٹھی تھیں۔ وہ کتاب کو چھوڑتا باہر کی جانب بھاگا۔
”مومی! مومی! کہاں ہیں آپ؟؟ مجھے یہ کتاب پسند آئی ہے لیکن مجھے آگے کی کہانی جاننی ہے جبکہ اس کتاب کے کچھ صفحے غائب ہیں! کیا آپ بتائیں گی یہ گھوتم شہر کہاں پر ہے؟؟“ بڑے سے گھر میں اسکی متجسس آواز گھونج رہی تھی۔
______________________________
اس کہر برساتی رات میں وہ دو روشنیاں تیزی سے خلا کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ایک نیلی تو دوسری سرخ روشنی!
وہ نہ صرف خلا کی جانب بڑھ رہی تھیں بلکہ وقفے وقفے سے ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ ان کے آپس میں ٹکرانے سے ایک بار تو جیسے پوری کائنات ہل جاتی تھی۔
کہیں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر گئے تھے۔ ان میں وہ سرخ روشنی ہر چیز کو جلا کر بھسم کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔
”تمہیں لگتا ہے تم مجھ سے بعد میں آکر مجھ سے بہتر درجہ حاصل کر سکتے ہو؟؟“ غرائی ہوئی آواز اس سرخ روشنی سے پھوٹ رہی تھی۔
”میں نے اس درجے کی خواہش نہیں کی تھی۔ کبھی نہیں۔ میں نہیں جانتا مجھے کیوں بنایا گیا لیکن میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ مجھے بنایا جائے!“ وہ نیلی روشنی مصالحتاً کہہ رہی تھی۔
”تم خواہشوں کے غلام کبھی میرے مقابل نہیں آسکتے اور کجا کہ تمہیں مجھ سے بہتر درجہ دیا گیا۔ آخر کیوں؟؟“ اب وہ سرخ روشنی نیلی روشنی کو بھسم کرنے کی خاطر اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ جبکہ نیلی روشنی جنگ نہیں چاہتی تھی۔ وہ صرف اپنا بچاؤ کر رہی تھی۔
”تم بہت افضل تھے تم نے خود اپنا درجہ گنوایا۔“ نیلی روشنی نے مقابل کو کچھ یاد دلایا۔
”وہ صرف تمہاری وجہ سے ہوا تھا۔ اگر تمہیں پیدا نہ کیا جاتا تو میں آج بھی اسی مقام پر ہوتا لیکن صرف تمہاری وجہ سے مجھے میرے عہدے سے ہٹایا گیا مجھے برا بنا دیا گیا میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا“ وہ سرخ روشنی ایک زور دار ٹکر سے نیلی روشنی سے ٹکرائی اور وہ نیلی روشنی اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے اپنے پیچھے موجود ایک بڑے سے ستارے سے ٹکرا گئی۔
”برا بننا تمہارا اپنا فیصلہ تھا میں تو خود آج تک اپنی تلاش میں ہوں اپنے پیدا ہونے کی وجہ جان رہا ہوں!“ اب کی بار نیلی روشنی کی آواز میں کرب تھا۔
”مجھے اپنی جگہ چاہیے۔ یہ کائنات میری ہے اور میری ہی رہے گی میں آج تمہیں اور تمہاری آنے والی ہر نسل کو ختم کرتا رہوں گا۔۔“ وہ سرخ روشنی اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔ اور اس کی یہ بات نیلی روشنی کو گراں گزری تھی۔
”یہ کائنات اسکے بنانے والی کی ہے!“ نیلی روشنی چلا اٹھی تھی۔ ”اور اگر تم نے اسے اپنا بنانے کی کوشش کی تو مجبوراً مجھے جنگ کرنا پڑے گی۔“
اور سرخ روشنی نے اسکی بات سن کر مضحکہ خیز قہقہہ لگایا تھا۔
”تمہاری اوقات نہیں ہے مجھ سے جنگ کرنے کی اور اگر تمہیں شوق ہے تو میں آج تمہارا یہ شوق پورا کیے دیتا ہوں تم ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاؤ گے پھر اس دنیا پر میرا راج ہوگا!“
”یاد رکھنا آدم ہوں میں! اور آدم کبھی نہیں مرتا۔۔!“ نیلی روشنی کا لہجہ اٹل تھا۔ وہ ایک لمحہ خاموشی کا آیا اور پھر وہ دونوں روشنیاں غصے سے ایک دوسرے کی جانب بڑھیں۔ان کے آپس میں ٹکرانے سے ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پھر سب ساکت ہوگیا۔
_____________________________
”چھوڑو مجھے بھینسے تم بہت ہی بھدے ہو“ وہ اپنا بازو چھڑاتے اس موٹے بھدے شخص کو اپنے آپ سے دور کرنا چاہ رہا تھا۔
”میں نے تمہیں خرید لیا اب تم میرے غلام ہو جیسا میں کہوں گا تم ویسے ہی کرو گے!“ اس لمبے بالوں اور مٹی سے بھری داڑھی والے شخص نے اسکا جبڑا دباتے غصے سے کہا تھا۔ شام کے اس پہر شام کے اس مشہور بازار میں جگہ جگی بنے قہوے کھانوں سے قہوے کی خوشبو باراز میں پھیلی ہوئی تھی۔
”چلو اب کام پر لگ جاؤ“ وہ آدمی اسے کھینچتے ہوئے اپنے قہوے خانے میں لایا اور اسے باورچی خانے کی جانب دھکیلتے کہا۔ اس کے اشارے پر دو نوجوان لڑکے باہر نکلے اور اس بارہ دس سال کے بچے کو کھینچتے اندر لے گئے۔
”مجھے جانے دو مجھے یہاں نہیں رہنا“ بچے کے چیخنے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ اسے اسکے پرانے مالک نے آج ہی اس قہوے خانہ کے مالک کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالی وہ خود بکتا دیکھ رہا تھا۔ ایک مالک سے دوسرے مالک کے پاس، ایک شہر سے دوسرے شہر میں!
قہوہ خانہ میں موجود لوگ اس ماحول کے عادی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اس دوران سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ قہوے خانہ کی دیواروں پر جلتی مشعلیں باہر تیزی سے پھیلتے اندھیرے کو چیرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”اگر یہ زیادہ تنگ کرے تو اسے بیڑیاں ڈال دینا، دو دن کچھ کھانے پینے کو نہ دینا، پھر اس ضدی بچے کی عقل ٹھکانے آجائے گی…“ وہ حکم دیتا وہیں کرسی پر ڈھے گیا۔ کچھ دیر بعد بچے کی آواز آنا بند ہوگئی۔
”کیا ہمیں اسے یہاں سے لے جانا چاہیے؟؟“ قہوہ خانہ کے ایک کونے میں بیٹھے وہ دو لوگوں میں سے ایک نے فکر مندی سے کہا۔ انہوں نے اس پورے واقعے کو غور سے دیکھا۔
”نہیں ابھی وہ چھوٹا ہے۔ ابھی اسے بہت کچھ سیکھنا ہے“
وہ دونوں بیش قیمتی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ نین نقش سے وہ علاقائی نہیں لگتے تھے۔
”لیکن یہاں پر جو اسکے ساتھ ہو رہا ہے وہ اس کے قابل نہیں ہے“ پہلا شخص پریشانی سے بولا۔
”جانتا ہوں لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ میں چاہتا ہوں وہ ہمارے پاس اپنے وقت پر آئے۔ اتنا مضبوط ہو کر کہ وہ اندر کے لوگوں سے جو اسکے خاندان سے نفرت کرتے ہیں اپنا بچاؤ کرسکے۔“ دوسرے شخص کا لہجہ اٹل تھا۔
”اگر وہ ایسے ہی کسی نہ کسی کا غلام بنا رہا تھا تو کیا سیکھ پائے گا؟ بلکہ اور بھی بزدل ہوجائے گا۔“ پہلے شخص نے آخری سی کوشش کی۔
”وہ آب سا مزاج رکھتا ہے۔ اور آب اپنے اندر بہت طاقت رکھتا ہے وہ اپنا رستہ نکال لے گا“ دوسرے شخص نے مٹی کے پیالے سے بھاپ اڑاتے قہوے کا گھونٹ بھرا۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی روشنی اور چہرے پر عجیب سا سرد پن تھا۔
__________________________________
چھ سال بعد
نرم گداز بستر پر لیٹی وہ اپنے سر کو دائیں بائیں جھٹک رہی تھی۔ چہرے پر پسینے کی ننھی بوندھیں سائیڈ لیمپ لہ دھیمی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ لب ہولے ہولے کچھ بڑبڑا رہے تھے۔ اس کے چہرے پر پھیلے اضطراب اور کرب سے بخوبی اندازہ ہورہا تھا جیسے وہ خود کو کسی کی گرفت سے چھڑوا رہی تھی۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر کاؤچ پر بیٹھا وجود اسکی کیفیت کو محسوس کرتے اٹھا اور تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔ اسکے قریب پہنچنے پر وہ اسکے اوپر جھکا۔
”حانے! حانے تم ٹھیک ہو؟؟“ اسکا گال تھپتھپاتی وہ اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”لگتا کسی برے خواب کے زیراثر ہے“ اسے بےہوشی کی کیفیت میں دیکھ کر وہ بڑبڑائی۔ ”مجھے کچھ کرنا ہوگا!“ پریشانی کی لکیریں اسکی سنہری پریشانی پر ابھریں۔
بیڈ پر لیٹا وہ نازک سے وجود اب جھٹکے لینے لگ گیا تھا۔
”اوہ خدایا یہ کیا ہو رہا ہے! حانے آنکھیں کھولو“ اس بار اسکی آواز کافی تیز تھی اور وہ اسکے وجود کو اپنے ہاتھوں سے جھنجھوڑ رہی تھی۔
”عکارش۔۔۔!“ سب بےاثر دیکھ کر وہ زور سے چلائی تھی۔
_______________________________
”تو اب تم کچھ نہیں لکھو گی؟؟ تم جانتی ہو ماروہ تم پچھلے ایک سال سے کچھ نہیں لکھ جانے کتنی کتابیں تم نے شروع کرکے ادھوری چھوڑ دی ہیں تمہارے چاہنے والے بہت غصہ ہیں!“
”جانتی ہوں سب جانتی ہوں! لیکن آپ جانتے ہیں مسٹر جیسن مجھے ہائیر اسٹڈیز کے لیے جانا ہے۔ اب میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ میں کچھ لکھ سکوں“ اس نے کمزور سی دلیل پیش کی۔
”پچھلے ایک سال سے تم گھر میں ہی تھی اسٹڈیز سے بھی بریک لیا ہوا تھا تب بھی تم نے کچھ نہیں لکھا۔ تم اپنی صلاحیتوں کو گھن لگا رہی ہو“ وہ اس سے خفا تھے۔
”ہاں میں جانتی ہوں! لیکن یہ لکھنا میرے بس میں نہیں ہے۔ جب مجھ سے لکھا گیا میں نے لکھا اب مجھ سے نہیں لکھا جا رہا تھا تو آپ کو سمجھنا چاہیے۔ میری کتابوں نے مجھ سے زیادہ آپکو فائدہ پہنچایا ہے اب اگر مجھ سے نہیں لکھا جا رہا تو آپکو سمجھنا چاہیے میرا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ آپ مجھ پر برہم ہوں۔ سمجھ آئی؟“ وہ بولی تو پھر بولتی چلی گئی۔ لہجہ کافی تیز اور طنزیہ تھا۔ مسٹر جیسن ایک پل کو ٹھنڈے پڑ گئے۔
”ماروہ میں تو بس۔۔۔“
”آپکا اور میرا ساتھ یہیں تک تھا مسٹر جیسن مجھے امید ہے ہم دوبارہ نہیں ملیں گے!“ وہ اسکی بات کاٹتے غصہ سے اٹھی اور فائل کو میز پر گراتے خارجی دروازے کی جانب بڑھی گئی۔ غصے سے دروازہ کھولا اور پھر ٹھاہ کی آواز سے بند کیا۔ اسکے جوتوں کی ٹک ٹک کی آواز راہداری تب تک گونجتی رہی جب تک وہ وہاں سے باہر نہیں نکل گئی۔
اسکے جانے کے بعد مسٹر جیسن نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا اور چہرے کے زاویے بگاڑتے بڑبڑایا۔
”بددماغ رائٹر! یہ کتاب ادھوری چھوڑ کر میرا اچھا خاصا نقصان کرادیا۔“ انہوں نے داہنے ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں اور انگوٹھے کی مدد سے پیشانی کو مسلتے غصے سے آواز دی۔
”چائے لاؤ میرے لیے۔۔“ اور پھر وہ فائل اٹھا کر الٹ پھلٹ کر دیکھنے لگ گئے۔
_____________________________
”کیا تم نے پھر کوئی برا خواب دیکھا؟؟“ ایلیسا اسکا ہاتھ تھامے پوچھ رہی تھی۔
”بچپن سے اب تک بس یہی خواب دیکھتی آرہی ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟“ حانے پریشانی سے کہہ رہی تھی۔ وہ اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود ان خوابوں سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا پارہی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ویسے ان خوابوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”مجھے بتاؤ کیا دیکھا تم نے؟؟“ ایلیسا نے اسکے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہولے سے پوچھا۔ حانے نے ایک سکون سا اپنے اندر اترتا محسوس کیا۔ جانے ایلیسا کیسا جادو کرتی وہ ہمیشہ پرسکون ہوجایا کرتی تھی۔
”دو روشنیاں! ایک نیلی ایک سرخ۔ وہ سرخ روشنی بہت خوفناک تھی یوں جیسے آگ کا سمندر ہو جو نیلی روشنی کو جلا کر راکھ کرنا چاہتی ہو اور اور۔۔“ وہ بولتے بولتے رک گئی۔
”ہاں بولو میں سن رہی ہوں!“ ایلیسا نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ کمرے کے آتش دان میں جلتی لکڑیاں اب چٹکھ رہی تھیں۔
”کبھی کبھی ایسا لگتا ہے وہ نیلی روشنی میں ہوں جب سرخ روشنی نیلی سے ٹکراتی ہے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے میں جل رہی ہوں۔“ اس کی آنکھوں میں نمی ابھر آئی تھی۔ اسکی بات سن کر ایلیسا کے چہرے پر بہت سے رنگ آکر گزر گئے تھے جنہیں حانے نہیں دیکھ پائی تھی۔ وہ سر جھکائے بیٹھی۔ ایک پل کی خاموشی کے بعد ایلیسا نے اسکے دونوں ہاتھوں پر دوبارہ زور ڈالا۔
”ہمممم! بس اتنی سی بات؟ اتنی سی بات پر پریشان ہوجاتی ہو۔۔“ ایلیسا نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ حانے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر ایلیسا کو دیکھا جو خوبصورت مسکان چہرے پر سجائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں ایسے خواب نظر آتے ہیں جیسے کوئی ان دیکھا وجود ہمارے جسم کو جکڑ رہا ہو۔۔ اسے اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں ڈالنا چاہیے حانے! سب ٹھیک ہوجائے گا۔“ ایلیسا نے پیار سے اسکا گال چھوا تھا۔ ”اب ایک گہرا سانس لو اور اپنے ساری بری سوچوں کو جھٹک دو!“ اسکی بات سن کر حانے نے زبردستی مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔ وہ جانتی تھی اسکی باتوں پر کوئی یقین نہ کرتا لیکن وہ بےبس تھی۔ اس لیے خاموش ہوگئی۔
”صبح ہونے والی ہے باہر چلیں؟؟“ ایلیسا نے اب کے اسکی جانب جھکتے رازدانہ انداز سے کہا۔
”لیکن باہر تو بہت ٹھنڈ ہے نا؟؟“ حانے کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
”یہ ٹھنڈ تمہیں ایک حد تک متاثر کرے گی جب تک تم اسے محسوس کرو گی اور خود پر حاوی ہونے دو گی۔ ویسے بھی صبح کی روشنی بس پھیلنے ہی والی ہے۔ ہم کچھ دیر میں واپس آجائیں گے۔ تمہارے خواب کا اثر بھی تو زائل کرنا ہے!“
وہ چمکتی آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ حانے کے چہرے پر مسکان ابھری۔
”پانچ منٹ سے پہلے نیچے پہنچو میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں!“ وہ لفظ پانچ پر زور ڈالتے کمرے سے باہر جا چکی تھی۔ حانے جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی۔ اس نے پھرتی سے اپنے لانگ بوٹ پہنے، دیوار پر لٹکا کوٹ اٹھایا اور بیڈ پر پڑے سکارف کو اچھے سے خود کے گرد لپیٹتی باہر کی جانب بھاگی۔ ایلیسا اسکی فیورٹ تھی۔ وہ سردی کی چھٹیوں کی وجہ گھر آئی ہوئی تھی۔ دو دن بعد شاید وہ واپس چلی جاتی اور حانے اسکے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت بیتانا چاہتی تھی۔
اس نے دروازے کے قریب پہنچ کر کوٹ پہنا اور پھر دروازہ کھول کر سیڑھیوں کی جانب لپکی۔ اب وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ نیچے ایک بڑا سا ہال تھا جس کے چاروں جانب کمرے ہی کمرے تھے اور اوپر کی منزل پر بھی دائرے میں کمرے ہی بنے تھے۔
ایلیسا اور حانے دونوں کو آگے پیچھے،اپنے کمرے کی کھڑی سے دو پرسوچ نگاہوں نے، باہر جاتے دیکھا تھا۔
”کیا وہ وقت آگیا ہے؟ کیا حانے کو جانا ہوگا؟؟“ کلوپترہ نے کھڑکی سے باہر دیکھتے اپنے پیچھے آرام دہ کرسی پر جھولتے وجود سے پوچھا تھا۔
”کچھ کہا نہیں جا سکتا! لیکن وقت اور حالات اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں“ وہ سگار سے کش لگاتے کہہ رہا تھا۔
”پر ابھی اسکا ایک سال رہتا ہے ایسا کیسے ممکن ہے؟؟“ کلوپترہ کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
”ایڈمز (آدموں Adams) کی دنیا میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔“ سگار کا دھواں مرغولوں میں اڑاتے وہ شخص کسی گہری سوچ کا شکار نظر آرہا تھا۔ کھڑکی میں کھڑی کلوپترہ نے ایک گہرہ سانس فضا میں خارج کیا اور کھڑکی سے ہٹ گئی۔
”ویری گڈ تم تو تین منٹ میں ہی یہاں پہنچ گئی“ ایلیسا نے بھالو بنی حانے کو دیکھتے کہا۔
”ہمیں کہاں جانا ہے؟؟“ حانے نے آسمان کی جانب دیکھتے پوچھا۔
”آؤ تمہیں کچھ نئی چیزوں سے متعارف کراتی ہوں!“ ایلیسا پراسرار لہجے میں کہتی آگے بڑھ گئی اور اسکے پیچھے حانے پرجوش سی بھاگی تھی۔
__________________________
”کہانیاں پرت در پرت کھلتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک کہانی ختم ہوجائے تو دوسری شروع ہوتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ ابھی ایک کہانی ختم بھی نہیں ہوتی جبکہ اسکے ارد گرد بہت سی کہانیاں جنم لینا شروع کردیتی ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کہانی کبھی ختم ہی نہیں ہوتی!“ دیوار میں نسب اس شیلف کے سامنے کھڑا وہ شخص ایک کتاب کے پیچھے چہرہ چھپائے اونچی آواز میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ وہ جو کب سے اپنی ممی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اسٹڈی روم سے آتی آواز پر اسکے ساکت ہوئے۔
اس نے گردن موڑ کر اپنے دائیں جانب دیکھا۔ دروازہ کھلا تھا۔ وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتا کمرے کی جانب بڑھا۔ اور پھر دروازے میں کھڑے ہو کر اپنی گردن لمبی کیے اندر کی جانب تانک جھانک کرنے لگا۔ تب ہی اسے شیلف کے پاس، سیاہ رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کھڑا نظر آیا۔
”میں جانتا ہوں کہانی بہت آگے بڑھ گئی ہے اور آپ لوگ کہانی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو آئیے میں آپ لوگوں کو واپس اسی جگہ پر لے چلتا ہوں جہاں سے یہ شروع ہوئی تھی۔۔۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہانی بہت آگے سے شروع ہوئی جبکہ ہمیں ماضی کو جینا ہے اسے جاننا ہے!“ سیاہ سوٹ بوٹ میں ، سر پر سیاہ ہیٹ جمائے وہ شخص جانے کون سی کتاب پڑھ رہا تھا۔ ننھے بچے کے ماتھے پر کچھ شکنیں ابھریں۔
”ہیلو! کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟“ ننھے بچے نے سوال کیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے گھر میں کسی اجنبی کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
”اور کچھ کہانیاں بچوں کی ہوتی ہیں اور بچوں کو چاہیے وہ ویسی ہی کہانیاں پڑھیں جو ان کی عمر کے مطابق ہوں
ایسی بھاری بھرکم کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاناچاہیے جن کا بوجھ وہ برداشت نہ کر سکیں“ اس ہیٹ والے شخص نے کتاب کو واپس شیلف میں رکھتے پراسرا لہجے میں کہا تھا۔
”آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟؟“ وہ خاموش نہیں رہ پایا تھا۔
شیلف کے قریب شخص نے ایک گہری سانس لی۔ یہ اسٹڈی روم گھر کے پچھلے حصے میں تھا اور اسکے دو دراوزے تھے ایک دروازہ گھر کے پچھلے حصے میں کھلتا تھا۔ وہ شخص بنا بچے کی جانب دیکھے اس عقبی دروازے کی جانب بڑھ گیا جو شیلف کے پیچھے تھا۔
”سنو کہاں جارہے ہو آپ؟؟ کیا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟“ وہ بچہ اپنی عمر سے زیادہ ہوشیار اور ذہین تھا۔ وہ اسکے پیچھے لپکا۔ یہ دروازہ لاکڈ تھا لیکن جیسے ہی وہ شخص دروازے کے سامنے کھڑا ہوا دروزہ جھٹکے سے کھل گیا۔ یہ دیکھ کر بچے کی آنکھیں حیرت اور خوف کے ملے جھلے تاثرات سے پھیل گئیں۔
اب وہ شخص تیزی سے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ جبکہ یہ منظر بچے کے لیے کافی دلچسپ تھا وہ بنا کچھ سوچے اسکے پیچھے بھاگا تھا۔
”کون ہو تم؟؟“ وہ کچھ خوف اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات سے پوچھ رہا ہے۔
”آدم ہوں میں!“ بنا رکے اور بنا پیچھے دیکھے جواب دیا گیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا رہا تھا۔
”یعنی انسان۔۔ اووہ خدایا! میں بلاوجہ ہی ڈر گیا تھا تم بھی ایک انسان ہو۔“
اسکے قدم ساکت ہوئے۔ وہ جھٹکے سے مڑا اور جبڑے بھینچتے بولا،
”میں نے کہا آدم ہوں میں!“
”آدم اور انسان میں کیا فرق ہے؟؟“ وہ گہری کشمکش کا شار ہوا۔
”فرشتوں نے سجدہ آدم کو کیا تھا۔ کیا تم بھول گئے نالائق بچے!!“ وہ کسی ناراض اور غصے سے بھرے بادل کی طرح گرجا تھا۔ بچے سہم کر پیچھے ہوا۔ اس شخص کا آدھا چہرہ ہیٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس سے پہلے ان دونوں میں سے کوئی کچھ بولتا بچے کی ممی کی آواز ابھری۔
”علے تم یہاں کر رہے۔۔۔“ اسکی الفاظ ادھورے رہ گئے۔ اپنے بیٹے کے پاس کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی۔
”پروفیسر آپ؟؟“ وہ حیرت سے ہیٹ اوڑھے شخص کو دیکھ رہی تھی۔
_______________________________
جاری ہے۔