”نہیں ایلس میں بالکل بھی پاگل نہیں ہوں۔ میں الینا ہوں تمہاری بڑی بہن! “ اس نے گویا دھماکہ کیا تھا۔ جانے وہ اسکی سوچ کیسے پڑھ رہی تھی۔ ایلس کا تو حیرت سے منہ کھل گیا تھا۔
”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا!“ ایلس نے بےیقینی سے گردن ہلائی۔
”ایسا ہوچکا ہے ایلس!“ الینا کے چہرے پر ابھی بھی وہی اطمینان تھا۔
”میں کبھی تم سے نہیں ملا،میں ہمیشہ سے اکیلا رہا ہوں، میں یتیم ہوں اور میں غلام۔۔
”تم اب غلام نہیں ہوں ایلس!“ الینا نے اسکی بات کاٹی تھی۔ ”اور تم اکیلے رہے نہیں تھے تمہیں اکیلا کردیا گیا تھا،یہی ہونا طے تھا، اور یہی سب کے لیے بہتر بھی تھا۔۔“
”کیا ہم کبھی ساتھ رہے ہیں؟“ ایلس نے بےساختہ سوال پوچھا تھا۔ اسکی بھوک اچانک سے غائب ہوچکی تھی۔ یہ انکشاف اسکے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ اسے لگا تھا وہ یتیم ہے اسکا کوئی نہیں اور اس نے بات کو قبول کرلیا تھا لیکن اس نے غلامی کو قبول نہیں کیا تھا۔ اسے لگا تھا اسکی آنے والی زندگی اسکی گزری زندگی سے بہت الگ ہوگی۔۔بہت پرجوش اور خوشیوں سے بھرپور۔۔ ہر رات اس نے زمین پر سوتے یہ خواب دیکھا تھا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی۔ اور اب جو اس پر انکشاف ہوا تھا اس نے ایلس کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یعنی وہ اکیلا نہیں تھا۔۔ اگر ایسا ہے تو پھر اسے اکیلا کیوں کیا گیا؟ اسے اپنے سر کے پچھلے حصے میں عجیب سی ٹیس اٹھتی محسوس ہوئی تھی۔ الینا اب اسکی جانب خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ اسکے سوال کا جواب دینے کے لیے لفظوں کو ترتیب دے رہی تھی۔
”ہاں ہم ساتھ رہتے تھے جب تم بہت چھوٹے تھے“ الینا نے نظریں چراتے کہا۔ اس بار اسکی آواز میں پہلے جیسا توازن نہیں تھا۔ اسکے چہرے پر پھیلا کچھ دیر پہلا اطمینان اب غائب ہوچکا تھا۔
”میں کیسے مان لوں؟“ وہ بےتاثر چہرے لیے الینا کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے الینا کے چہرے پر عجیب سا کرب دکھائی دیا تھا۔ اسکے سوال پر الینا کچھ نہ بولی۔ خاموشی۔۔گہری خاموشی۔۔ پھر وہ آہستہ سے اٹھی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ ایلس کی نظروں نے اس کا پیچھا کیا تھا۔ وہ سیڑھیوں کے اوپر غائب ہوچکی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں کچھ تھا جسے اس نے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا صندوق تھا۔ ایک پیتل کا صندوق جسکے کنارے سنہری تھے۔ اس نے اپنی جگہ پر واپس بیٹھتے اس صندوق کوکھولا اور اس میں سے ایک تصویر نکالی ایک پرانی، بےرنگ سی تصویر اس میں وہ دونوں تھے۔ الینا اور ایلس! اس نے وہ تصویر ایلس کی جانب بڑھا دی جسے ایلس نے بنا کسی توقف کے تھام لیا تھا اور پھر اس نے تصویر پر غور کیا۔ ایک پانچ چھ سالہ بچی ایک چھوٹے سے بچے کو گود میں لیے کھڑی تھی۔
”تم چھوٹے ہوتے بہت گول مٹول ہوا کرتے تھے!“ اسکا لہجہ بھیگ گیا تھا۔ ایلس غور سے اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ لڑکی الینا ہی تھی۔ اور وہ بچہ۔۔ جیسے ہی ایلس کی نظر بچے کے ہاتھ پر پڑی وہ چونک گیا۔ بچے کے بائیں ہاتھ کی کلائی کے قریب ایک سیاہ نشان تھا۔ ایسا ہی ایک نشان ایلس کے ہاتھ پر بھی تھا۔ ایلس کو اپنے وجود سے دھواں اٹھتا محسوس ہوا تھا۔
____________________________
وقت کے چکر میں بہتے،
کہانی ہے کچھ ایسے لوگوں کی
جو نکلے تھے اپنی تلاش میں،
انسان سے آدم کی تلاش کرنے
ایک ایسے سفر میں جہاں،
نہیں کوئی دشمن تھا انکا
فقط انکے نفس کے علاوہ
اور وہ جسے بنایا گیا تھا
آدم سے بھی پہلے۔۔۔۔
لیکن یہ سفرصرف
دو قدموں کا تھا،
ایک خود پر رکھنا تھا
اور ایک اُس پر!
وہ جو نفس سے بھی
بدتر تھا!
اور پھر سامنے منزل کا
نشان واضح تھا
لیکن یہ دو قدموں کا سفر
صدیاں بیت جانے کے بعد بھی
مکمل نہ ہوپاتا تھا!
وقت کا پہیہ چلتا جاتا تھا
آدم کی تلاش جاری رہتی تھی
انسان بڑھتے گئے!
آدموں کی تلاش میں نکلے آدم
کبھی لوٹ کر نہ آ سکے!
الینا کی لکھی گئی ایک نظم جو سچ میں ایلس کے دل کو چھو گئی تھی اب اسے مزید الجھن میں ڈال گئی تھی۔ الینا نے ابھی تک اسکے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ اسے تصویر دکھانے کے بعد وہ جانے باورچی خانے میں گھسی کیا کر رہی تھی۔ ایلس کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کون تھا؟ اسے کیوں اسکے اپنوں سے الگ کردیا گیا؟ ایسے سوال اسے بےچین کر رہے تھے۔ وہ جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔ کبھی کبھار دروازہ کھول کر نیچے جھانک لیتا لیکن اسے آوازیں ہمیشہ باروچی خانے سے آرہی ہوتی تھیں۔
”اور اگر تم سچ کی تلاش میں نکلو
تو کبھی اتنی جلدی مت کرنا کہ
وقت کے پہیے کے مکمل طور پر
گھومنے سے پہلے تم کوئی منظر دیکھو
تو وہ تمہیں الٹا نظر آئے،
تم ڈر جاؤ، دھوکا کھا جاؤ
اور پھر تم اکیلے پڑ جاؤ!
بالکل اسی طرح جیسے ایک شیرنی
اپنے بچے کو بچانے کے لیے اسے
اپنے منہ میں ڈال کر لے جاتی ہے
لیکن،
اگر بنا غور کیے اسے سرسری سا دیکھیں
تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے بچے کو
خودی کھا رہی ہو۔۔۔۔۔! ایسے ادھورے سچ
ہمیشہ خوفناک ہوا کرتے ہیں۔۔
تو اے آدم! تم اگر سچ کی تلاش میں
نکلو تو کبھی بےصبری سے کام مت لینا۔۔۔!!
ایک دوسرے کاغذ پر آدم کے نام کچھ لکھا گیا تھا۔ ایلس کو لگا جیسے یہ سب اسے ہی سنایا جا رہا ہو۔ اس نے وہ کاغذ واپس میز پر رکھا اور اپنے تنے کندھے ڈھیلے چھوڑ دیے۔ وہ خود کو پرسکون رکھنا چاہتا تھا کچھ دیر بعد وہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اسے غنودگی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو بند ہوتے محسوس کیا تھا۔ اور پھر وہ ایک جانب کو ڈھے گیا۔
___________________________
باب سوئم؛ میں ہمزاد
”میں ہوں حانے معین! میں بس اپنا نام ہی جانتی ہوں۔ میں کون ہوں اور یہاں کلوپترہ ہاؤس میں کیا کر رہی ہوں یہ میں آج تک نہیں سمجھ پائی ہوں۔ سب کو لگتاہے میں ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی ہوں۔۔جسے کچھ بھی نہیں معلوم۔ لیکن اکثر وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے چلتا ہے کہ ہم کب بڑے ہوتے ہیں ہمیں خود پتا نہیں چلتا۔ ہم چیزوں کو سمجھنے لگتے ہیں، ان کہی باتوں کو سننے لگتے ہیں، اور نظروں سے چھپے وجود کو دیکھنے لگتے ہیں!“ وہ قدآور آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ جس میں اسکا پورا سراپا نظر آرہا تھا۔ وہ واقعی اب بچی نہیں رہی تھی۔ اسکے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ حد درجہ سنجیدگی! وہ کہیں سے بھی دج والی حانے نہیں لگ رہی تھی جو کلوپترہ کے ہر حکم کو بجالاتی تھی۔ اسکے ٹھیک پیچھے ایک سایہ نظر آرہا تھا لیکن وہ اسکا سایہ نہیں تھا بلکہ۔۔
”میں نے اسے پہلی بار تب محسوس کیا جب ان سرخ روشنیوں نے میرا پیچھا کیا تھا۔ وہ روشنیاں مجھے جلا دینا چاہتی تھیں لیکن ان روشنیوں میں ایک روشنی وہ بھی تھی ان سب سے تیز ان سب سے چمکدار۔۔ میں اس سرخ روشنی کو باقی روشنیوں کے خلاف کھڑے ہوتے دیکھا۔ پھر میں نے اسے ہر دم اپنے قریب محسوس کیا۔۔ کہا جاتا ہے ہر انسان کے ساتھ اسکا ایک ہمزاد پیدا ہوتا ہے۔۔ جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ میں نے تو بس کتابوں سے پڑھا ہے لیکن اب میں اس دنیا کو کتابوں کی نظر سے نہیں بلکہ خود کی نظروں سے دیکھنا چاہتی ہوں! خود کی نظروں سے پرکھنا چاہتی ہوں، اور یہ جانے کب ہوگا۔۔“ وہ آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی اور ہولے ہولے چلتی کھڑکی کے پاس آئی۔
”میں جانتی ہوں وہ میرے ساتھ رہتا ہے میرا سایہ بن کر لیکن میں ڈرتی ہوں کیونکہ میں بہت سے رازوں سے واقف نہیں ہوں لیکن اسکی موجودگی مجھے محفوظ ہونے کا احساس دلاتی ہے۔۔“ وہ سایہ سا ابھی بھی وہیں کھڑا تھا۔
”کبھی کبھی دل کرتا ہے مام یا ایلیسا سے اس کا ذکر کروں انہیں بتاؤں کہ کوئی ان دیکھا وجود ہر وقت میرے ساتھ رہتا ہے لیکن پھر ڈر جاتی ہوں کہ وہ مجھے پاگل سمجھیں گی۔۔۔“ وہ سایہ اب دائیں جانب پلٹ گیا تھا۔ وہ اب حانے کی پشت کو گھور رہا تھا۔
”اور کبھی کبھی دل کرتا ہے اس سرخ روشنی سے کہوں کہ وہ میرے سامنے آجائے میں اسے چھو کر دیکھنا چاہتی ہوں، میں اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ سالوں سے میرے ساتھ کیوں ہے؟ لیکن پھر ڈرتی ہوں اگر وہ روشنی چلی گئی تو؟“ یخ بستہ ہوائیں کھلی کھڑکی سے داخل ہو کر اسکے بالوں کو پیچھے کی جانب اڑا رہی تھیں۔ وہ سایہ اب ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہو چکا تھا۔
”اور پھر ہمیشہ ویسا ہی نہیں ہوتا جیسا ہم چاہتے ہیں کچھ خواہشیں پورا ہونے میں بہت وقت لگا دیتی ہیں۔۔۔!!“
____________________________
”مجھے لگتا ہے پروفیسر اس بار بہت کچھ الگ اور عجیب و غریب ہونے والا ہے! کچھ بچوں کو وقت سے پہلے روشنیاں نظر آرہی ہیں۔ میں نے پتا لگایا ہے اس بار سترہ سالا ایڈمز بھی ان روشنیوں کو دیکھ پا رہے ہیں“ وہ نیلے سوٹ میں ملبوس ایک دراز قد عورت تھی۔ جس نے بالوں کو اونچے جوڑے میں باندھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر آنکھوں کے قریب کی جلد پتلی ہوچکی تھی۔ اور جب وہ آنکھوں کو چھوٹا کرکے غور سے دیکھتی تھی تو آنکھوں کے قریب جھریاں پڑتی تھیں۔
”وقت کا پہیہ کبھی بھی ایک سا نہیں گھومتا۔۔ کبھی اسکی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور پھر کچھ واقعات اسی رفتار سے وقوع پذیر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔۔“ سیاہ ہیٹ والے شخص نے اپنے ازلی اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔ انکے چہرے پر کبھی پریشانی کی رمق نظر نہیں آتی تھی۔
”لیکن ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ اس بار جو وقت سے پہلے ہو رہا ہے وہ اچھے کے لیے ہو رہا یا برے کے لیے؟؟“ وہ نیلے سوٹ والی عورت ابھی تک الجھی ہوئی تھی۔
”انسان کی ایک خامی ہے۔ وہ ہمیشہ جلدی میں رہتا ہے وہ کبھی ٹھہر کر خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار نہیں کرتا جبکہ ہم آدم ہیں۔۔۔ اور ہمیں انتظار کرنا ہے۔ کچھ بھی بلاوجہ نہیں ہوتا۔۔ہر ہونی انہونی اپنے پیچھے ایک بڑی وجہ لاتی ہے۔۔“ انہوں ٹھہر کر جواب دیا تھا۔ جبکہ نیلے سوٹ والی عورت نے صرف ہاں میں گردن ہلائی۔
”میرے خیال سے وقت آگیا ہے! نیو ورلڈ میں نئے (آدموں ) ایڈمز کی جگہ بنائی جائے۔۔!!“ وہ تیز آواز میں کہہ کر آگے بڑھ گئے تھے۔ جبکہ نیلے سوٹ والی عورت کے چہرے پر عجیب سا شوق تھا۔
”گھر آنے کے لیے تیار ہوجاؤ ایڈمز!“ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا اور پھر وہیں سے واپس پلٹ گئی۔
_____________________________
زوئی اس وقت کلوپترہ کے آفس میں اس بڑی سی میز کے ایک جانب بیٹھی تھی جسکے دوسرے سرے پر ایک بڑی سی کرسی پر کلوپترہ اپنی تمام شوکت سے براجمان تھی۔
کلوپترہ کی شخصیت نے اپنے اندر نہایت رعب و دبدبہ پایا تھا۔ انکے بھورے بال جو اب کنپٹیوں کے قریب سے گرے ہوچکے تھے ہمیشہ سلیقے سے پیچھے کی جانب بندھے ہوتے تھے۔ کلوپترہ ہاؤس میں رہنے والی تمام لڑکیاں صبح سے شام تک انہیں ایک ہی طرز کے لباس میں دیکھتی تھیں۔ ایک لمبی سکرٹ اور اس پر لمبی سی جیکٹ پہنے وہ ہمیشہ ہر کام کے لیے تیار رہتی تھیں۔ انکے دو انچ کے ہیل والے جوتوں کی گونج دور سے سنائی دے جاتی تھی۔ ان کا رنگ دودھیا تھا جبکہ موٹے چشموں والی عینک کے پیچھے سے جھانکتی انکی بھوری آنکھیں سامنے والے کو اندر تک کھوج لیتی تھیں۔
یہی وجہ سے زوئی ان کے سامنے بیٹھی نروس ہو رہی تھی۔ اسکی نظریں جھکی ہوئی تھیں جبکہ کلوپترہ کی نظریں اسکے آر پار ہورہی تھیں۔
”کوریا سے بھاگ کر کیوں آئی ہو؟؟“ ان کا پہلا سوال تھا۔
”کیونکہ کچھ برے لوگ اپنے برے مقصد میں مجھے استعمال کرنا چاہتے تھے۔۔“ زوئی نے سچ بولنا بہتر سمجھا تھا۔ ویسے بھی اپنے سامنے بیٹھی عورت سے وہ چاہ کر بھی جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
”یہاں پروگ میں کیسے پہنچی؟“ انکا دوسرا سوال تھا۔
”ایک دوست کی مدد سے، وہ کوریا ایئر پورٹ پر ہوتا ہے۔۔“
”کیا کوئی جانتا ہے تم اس وقت یہاں ہو؟؟“ انکا تیسرا سوال تھا۔
”نہیں۔۔یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا اور نہ میرے پاس کسی سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون ہے۔۔“
”یہاں کی پولیس تمہیں کیوں پکڑنا چاہتی ہے؟؟“
”میرے یہاں آنے کے بعد ان برے لوگوں کو میرے اس دوست کا پتا چل گیا جس نے میری بھاگنے میں مدد کی تھی۔ وہ اسے پکڑ کر لے گئے۔۔ شاید اسے مار۔۔۔“ زوئی کی بات ادھوری رہ گئی۔ اسکا لہجہ اور آنکھیں دونوں بھیگ گئے تھے۔ وہ کچھ پل کے لیے رکی اور پھر آنسوؤں کے گولے کو اندر کی جانب کھینچتے دوبارہ سے بولی ”پھر انہوں نے فلائٹ سے میری ساری ڈیٹیل نکلوالیں اور یہاں اس شہر میں بھی ان کا جال بچھا ہوا ہے۔۔ میں اپنی تصویر کو ٹی وی پر چلتے دیکھا تھا شاید اسی لیے یہاں کی پولیس مجھے پکڑنا چاہتی ہے!“
کلوپترہ کے چہرے کی سختی اب کچھ کم ہوچکی تھی۔ ان کے چہرے پر سوچ کی لکیریں واضح تھیں۔
”ٹھیک ہے اب تم جاؤ اور اپنے کمرے میں آرام کرو۔۔“
زوئی دھیرے سے اٹھی اور دروازے کی جانب پلٹ گئی۔
”لیکن ایک بات یاد رکھنا۔۔“ کلوپترہ کی آواز پر اسکے قدم ساکت ہوئے تھے۔ ”بنا پوچھے نہ تم باہر جاؤ گی اور نہ کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو گی۔۔ اگر ایسا کیا تو نتیجے کی ذمہ دار تم خود ہوگی!“ وارن کرتا سرد لہجہ ، زوئی کی ریڑھ کی ہـڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ وہ سر ہلا کر تیزے سے کمرے سے باہر نکل گئی۔
__________________________
رات کے اس پہر جب سفید دھند چاروں جانب پھیل چکی تھی، یخ بستہ ہوائیں ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھیں، ٹمٹماتے تارے سیاہ بادلوں کی دبیز تہہ میں کہیں چھپ سے گئے تھے، وہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا آسمان کو گھور رہا تھا۔ اسکی سیاہ پوشاک ہوا چلنے کے باعث پیچھے کی جانب اڑ رہی تھی۔ اسکی آنکھیں لال ہوچکی تھیں اور اسکے جسم سے، اس وقت جب ہر چیز جم جانے کو تیار تھی، آگ نکل رہی تھی۔
”میں ہوں ہمزاد! ایک ایسا وجود جسکا اپنی زندگی، اپنی ذات پر کوئی حق نہیں ہے۔ میں اس مخلوق میں سے ہوں جس سے سب نفرت کرتے ہیں، میں وہ ہوں جو ہونا نہیں چاہتا تھا اور وہ بن نہیں سکتا جو میں بننا چاہتا ہوں۔۔ مجھے خدا سے ہمیشہ ایک شکوہ رہے گا کہ اس نے مجھے ایسا کیوں بنایا کہ مجھے اپنی ہی ذات سے نفرت ہے۔
کاش میں بھی ایک آدم۔۔۔“ اسکے الفاظ دم توڑ گئے جب اس نے اپنے قریب ایک سرسراتی آواز سنی۔
”ہر وجود وہی ہوتا ہے جس کا وہ انتخاب کرتا ہے، اچھا یا برا۔۔یہ تمہارے ہاتھ میں ہے میرے بیٹے کہ تم کیا بننا پسند کرتے ہو۔۔!“ یہ وہ آواز تھی جو اسے کبھی ٹوٹنے نہیں دیتی تھی۔ اسکی ہمت ہمیشہ بندھائے رکھتی تھی۔ اسکا سر جھک گیا۔
”عکارش میرے بچے! خدا تم سے ہمیشہ خوش رہے گا تم اپنے وجود کا پورا حق ادا کر رہے ہو!“ پیار بھرے لہجے میں اسے پچکارہ گیا تھا یوں جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو۔ اسکی گردن جھک گئی۔
”لیکن اس دل کا کیا؟؟ کیسے روک پاؤں گا خود کو؟“ اسکے تصور میں آئینے کے سامنے کھڑے اس وجود کا عکس ابھرا جو اسے اپنی جان سے زیارہ عزیز تھا۔
وہ تو جلا کر راکھ کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس وقت اسے اپنے سینے میں کچھ جلتا محسوس ہوا تھا۔
____________________
”کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟“ زوئی نے کمرے کے دروازے پر دستک دیتے پوچھا جو ذرا سا کھلا تھا۔دستک کی آواز پر حانے نے اپنی نظریں کتاب سے اٹھائیں اور حیرت سے زوئی کو دیکھا۔
”ہاں آؤ۔ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے“ حانے نے خوشدلی سے کہا اور کتاب بند کرکے ایک جانب رکھی۔ زوئی نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کردیا۔ وہ اس وقت ڈھیلے ڈھالے سے ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھی اور اوپر اس نے بھاری بھرکم کوٹ پہنا ہوا تھا۔ اسکے چہرے کے زخم ٹھیک ہوچکے تھے لیکن نشان باقی رہ گئے تھے۔ وہ حانے کے قریب ہی بیـڈ پر بیٹھ گئی۔
”کیا پڑھ رہی تھی؟؟“ اس نے کتاب کے سرورق کو گھورتے پوچھا۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی فارغ تھی تو سوچا کچھ پڑھ لوں۔۔“ حانے ہولے سے مسکرائی۔
”تم ہمزاد پر یقین رکھتی ہو؟؟“ زوئی نے کتاب کے سر ورق پر بڑا سا ہمزاد لکھا دیکھا تو تجسس سے پوچھا۔
”ہاں! لیکن یہ جاننا کافی مشکل ہے کہ ہمزاد کون ہوتا ہے“ حانے نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”میں نے بائبل میں پڑھا تھا۔ ہر انسان کے ساتھ ایک اینجل (فرشتہ) اور ایک ڈیول (شیطان) پیدا ہوتا ہے جو مرنے تک انسان کے ساتھ سائے کی طرح رہتا ہے۔ اسے ہمزاد کہتے ہیں۔۔“ زوئی نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا۔
”ہاں ایسا ہی ہے پر۔۔“ حانے نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”پر کیا؟؟“
”شاید اسکے علاوہ بھی کوئی ایسا وجود ہو جو صرف ہمارے لیے پیدا ہوا ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتا ہو۔۔ شاید وہ بھی ہمزاد ہو!“ حانے نے ہولے سے جواب دیا۔ اسکا جواب سن کر زوئی چونکی تھی۔ اس نے گہری نظروں سے حانے کے چہرے کو دیکھا تھا جو ایک گرم سکارف میں لپٹا ہوا تھا۔ وہ جب سے کلوپترہ ہاؤس آئی تھی اس نے حانے کو ایسے ہی سکارف لپیٹے دیکھا تھا۔ ”ویسے تم بستر میں آجاؤ نا ایسے باہر کیوں بیٹھی ہو اتنی ٹھنڈ ہے یہاں پر۔۔“ حانے نے اپنے بائیں جانب بیـڈ پر ہاتھ رکھتے اسے اوپر آنے کو کہا۔ کمرے میں جلتا آتش دان سردی کی شدت کو کم کر رہا تھ لیکن شاید دروازے کھلا رہنے کی وجہ سے گرمائش نہیں ہوپائی تھی۔
”کیا تمہیں لگتا ہے تمہارا کوئی ہمزاد ہے؟؟“ یہ سوال حانے کے لیے غیر متوقع تھا۔ اس نے چونک کر زوئی کو دیکھا اور پھر کچھ پل ایسے ہی خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی لیکن اسکے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ اسکے خاموش رہنے پر زوئی اٹھ کر اسکے پاس بستر میں بیٹھ گئی۔ اس نے بھی بیڈ سے پشت ٹکا لی۔
”میں نہیں جانتی۔۔“ بالآخر کچھ ثانیے بعد وہ دھیرے سے گویا ہوئی تھی۔
”تمہیں پتا ہے حانے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو تم مجھے بہت عجیب لگی تھی۔ میں نے تمہارے آس پاس ایک زبردست قسم کی انرجی کو محسوس کیا تھا۔۔“ زوئی نے اپنی چھوٹی آنکھوں کو مزید چھوٹا کرتے کہا۔ وہ اب بھی سامنے جلتے آتش دان کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
”کیا وہ انرجی پازیٹیو تھی؟؟“ حانے نے بےساختہ پوچھا تھا۔ اسکے سوال پر زوئی گڑبڑا گئی تھی۔ اس نے جو محسوس کیا تھا وہ ٹھیک طرح سے خود نہیں سمجھ پائی تھی۔ ایلیسا کو بھی اس نے سرسری سا بتایا تھا اب حانے کو کیا جواب دیتی؟
________________________________
جاری ہے۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ اس بار قسط لیٹ ہوگئی۔ دراصل قسط تو مکمل تھی لیکن میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جسکی وجہ سے پوسٹ کرنا یاد نہیں رہی۔ ابھی کچھ ہوش بحال ہوئے تو ناول یاد آیا۔ اسی لیے پوسٹ کردی۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں شکریہ۔