”میں نمبروں کی مدد سے لوگوں کی انرجی کا پتا لگا لیتی ہوں۔ یہ میری خاصیت ہے۔ میں اپنے ارد گرد لکھے نمبروں سے ہوچکے واقعات اور ہونے والے واقعات کو محسوس کر سکتی ہوں کہ اچھے ہیں یا برے جیسے یہاں کچھ برا ہوا تھا یا اچھا اور نمبروں میں سب سے طاقت ور نمبر 1 ہے۔“ وہ بولتی جارہی تھی جبکہ اب ایلیسا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
”سب سے طاقت ور نمبر ایک ہی کیوں ہے؟؟“ ایلیسا نے تجسس سے پوچھا۔
”کیونکہ ہر چیز کی شروعات ایک سے ہوتی ہے“
”تو اسکا مطلب ایک سے زیادہ باقی نمبروں کو طاقت ور ہونا چاہیے جیسے جیسے نمبر بڑھیں ویسے ویسے طاقت۔۔کیا خیال ہے؟“ ایلیسا تیزی سے سوال جواب کرنے لگی تھی۔ وہ بہت کچھ جان لینا چاہتی تھی۔
” ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے جب ہر چیز اپنی بنیاد پر جمع ہوجائے تو بنیاد مضبوط ہو جاتی ہے۔ اسی لیے 1 مضبوط ترین نمبر ہے کیونکہ سارے نمبر اسی بنیاد پر اکٹھے ہوتے ہیں اچھے،برے، کمزور،مضبوط، خوفناک اور پراسرار!“
”اچھا تو ایسا ہے“ ایلیسا نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اسکا دماغ اب تیزی سے کام کر رہا تھا۔
”لیکن تم نے اس جادوگر کو پتھر کو مارا؟؟“
”کیونکہ وہ لوگوں کو بےوقوف بنا رہا تھا۔۔“ لڑکی کے چہرے پر ناگواری ابھری۔
”کیسے؟“ یہ پھر ایلیسا کی دلچسپی کے لیے کافی تھی۔
”کیونکہ وہ نمبروں کی ٹرک استعمال کر رہا تھا۔ جادوگر عموماً 1089 کو اپنی جادوئی ٹرکس میں استعمال کرتے ہیں اسی لیے اسے جادوئی نمبر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد ایسا نمبر ہے جو کسی بھی دو تین نمبروں کی مدد سے بنایا جا سکتا ہے۔ کیسے 201 اگر ہم اس نمبر کو ترتیب دیں تو 102 بنتا ہے جب انکو آپ میں منفی کریں تو 099 نکلتا ہے اور 099 کو دوبارہ سے ترتیب دیں تو 990 بنے اور ان کو آپس میں جمع کریں تو 1089 آجائے گا۔
اسی طرح 504 کو ترتیب دیں اور جمع منفی کریں تو 1089 نکل آئے گا۔
بس شرط یہ کہ ایک نمبر سے جب ہم دو نمبر بناتے ہیں تو انکے آخری ہندسے میں ایک کا فرق ہونا چاہیے۔ یا پھر طاق اعداد کا فرق۔۔ جیسے 201 اور 102 کے آخر میں 1 اور 2 آتے ہیں اور ان میں 1کا فرق ہے۔ 504 اور 405 کے آخری ہندسوں میں ایک کا فرق ہے۔اسی ٹرک کو جادوگر استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو لگتا ہے وہ کمال کرتے ہیں۔۔ہنہہ۔۔!!“
ایلیسا کو حیرانی ہوئی تھی وہ لڑکی ہندسوں پر کافی عبور رکھتی تھی۔
”یہ سب تم نے کیسے اور کہاں سے سیکھا یہ میں بعد میں پوچھوں گی ابھی اتنا بتادو کہ تمہارا نام کیا ہے؟“ ایلیسا نے باقی باتیں کل پر چھوڑدی تھیں وہ نہیں چاہتی تھی اسکے سامنے بیٹھی کسی الجھن کا شکار ہو اور یہاں سے بھاگ جائے۔
”میرا نام زوئی یانگ ہے اور میں کوریا سے ہوں“ لڑکی زبردستی مسکرائی تھی۔
”ٹھیک ہے زوئی تم اب سو جاؤ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تم یہاں پر ہر طرح سے محفوظ ہو“ ایلیسا اپنے ازلی اپنائیت اور لوگوں کا اعتماد جیت کر انہیں اپنا بنا لینے والے موڈ میں واپس آگئی تھی۔ وہ اسے سونے کا کہہ کر دروازے اچھے سے بند کرکے کمرے سے نکل گئی تھی۔ ابھی اسے بہت سے کام کرنے تھے۔
____________________________
ماروہ نے پچھلے دو گھنٹوں میں ٹیکسا کے کوئی بیسیوں بک اسٹور چھان مارے تھے لیکن اسے اپنی مطلب کی کتاب کہیں نہیں ملی تھی۔ تیز بارش اور خون جما دینے والی ٹھنڈ کی وجہ سے وہ اب کانپنے لگی تھی۔ جب وہ آخری بک اسٹور سے باہر نکل رہی تھی تب اسے اسٹور کی مالکن نے کچھ کہا تھا۔
”یہ کتاب ایک انتہائی پرانی اور پراسرار کتاب ہے جو آپکو یہاں کہیں نہیں ملے گی۔“ عینک کے موٹے چشموں کے پیچھے سے جھانک کر وہ ماروہ کو دیکھ رہی تھی عجیب اور گہری نظروں سے۔
”پھر کہاں ملے گی؟“ وہ بےساختہ پوچھ گئی تھی۔
”اسی نئی دنیا میں جہاں ہر پرانی چیز پائی جاتی ہے۔۔“ جواب عجیب و غریب تھا۔ ماروہ کے سر سے گزر گیا۔ وہ گہرا سانس لیتے بک اسٹور سے باہر آئی اور اب تھکی ہاری گھر جانے کے لیے تیار تھی۔
کچھ راز اپنے وقت پر کھلتے اچھتے لگتے ہیں اور ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا جب ماروہ ہر راز جان لیتی۔
____________________________
”میرے خیال سے پروفیسر ہمیں ایڈمز کی کمیٹی کو بٹھانا چاہیے۔۔ باہر کی دنیا میں سب عجیب ہو رہا ہے آپ جانتے ہیں نا؟؟“ ایلیسا کی کینچی جیسی زبان تیزی سے چل رہی تھی۔ جبکہ وہ ہیٹ والا آدمی خاموشی سے کھڑکی کے باہر دھند کے اس پار نظر آتے آسمان کو دیکھ رہا تھا جہاں بہت سی نیلی روشنیاں آپ میں کھیل رہی تھیں۔
”آپ جانتے ہیں میں کس مقصد کے لیے پروگ گئی تھی لیکن آپکو یہ جان کر حیرت ضرور ہوگی کہ میں اس کتاب کو چھو بھی نہیں پائی۔۔ اس کتاب کو صرف عام انسان چھو سکتے ہیں جنہیں وہ عام سی کتاب لگتی ہے یا پھر ایڈمز ایسے ایڈمز جو اس کتاب سے جڑے ہوں اور اب تک صرف حانے اسے چھو پائی ہے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا وہ ایڈم ہے یا پھر ایک عام انسان۔۔۔“ ایلیسا تیزی سے کمرے میں دائیں بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔ اسکا سانس پھولا ہوا تھا۔ اسکا ذہن بری طرح انتشار کا شکار تھا۔
”ایک ایڈم (آدم) کو اتنی جلد بازی زیب نہیں دیتی ایلیسا! تمہیں اطمینان رکھنا ہوگا جب تک چیزیں، حالات و واقعات اپنے آپ کو ترتیب نہ دے لیں۔“ انتہائی سادہ لہجے میں کہا گیا تھا۔ ایلیسا کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن پھر خاموش ہوگئی۔ پروفیسر سے زیادہ ہر چیز کو بھلا کون سمجھتا تھا۔
” اب تم جاؤ اور آرام کرو۔۔ ہر چیز اپنے وقت پر ترتیب پاتی ہے!“ لہجہ حکمیہ تھا اور ایلیسا بنا کچھ کہے وہاں سے پلٹ گئی۔
________________________________
اسکا ذہن دھیرے دھیرے شعور کی طرف لوٹ رہا تھا۔ قہوہ خانہ،طوفان،طویل سفر، نیلی روشنی اور پھر اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ وہ نرم گداز بستر پر لیٹا تھا۔ اور پھر دوسرے ہی پل وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پکڑے جانے کا خوف اور غلامی نے اسے پھر سے ڈرا دیا تھا۔ وہ تو غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر بہت آگے نکل آیا تھا۔ اس کے پاؤں پر پٹی بندھی تھی۔ اور سر پر آئی چوٹ پر کوئی زرد رنگ کی دوا لگائی گئی تھی۔ کتنے ہی پل اس نے یہ سوچنے میں گزار دیے کہ وہ کہاں ہے؟ کیوں ہے؟ کیا وہ پکڑا گیا ہے؟ پھر اس کے دماغ نے تیزی سے کام کرنا شروع کیا۔ وہ نرم گداز لحاف کو اپنے اوپر سے ہٹاتا بیڈ سے نیچے اترا۔ کمرے میں جلتی مشعل سے کمرے کے خدوخال واضح تھے۔ وہاں پرانی طرز کا فرنیچر تھا۔ اس کے دائیں جانب کی دیوار جس پر مشعل لٹکی تھی اسکے نیچے لکڑی کا شیلف تھا جس پر موٹی موٹی کتابیں رکھی تھیں۔ اور اسکے ساتھ ہی چھوٹا سا لکڑی کا میز رکھا تھا جس پر رکھی موٹی سی موم بتی آہستہ آہستہ جل رہی تھی۔ اس نے پاؤں جیسے ہی نیچے رکھے اسکے تلووں نے ایک نرم گداز روئی نما چیز کو چھوا۔ اس سے نرم قالین بلکہ اتنی نرمی اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اسکے جسم پر ایک صاف ستھرا لباس تھا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا اس میز کے قریب آیا۔ میز پر کچھ صفحے بکھرے تھے اور روشنائی رکھی تھی جس میں ایک خوبصورت سا قلم ڈوبا ہوا تھا۔ میز کے ایک کونے پر دو موٹی موٹی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں۔ روشنائی کے بالکل قریب رکھے کاغذ پر کچھ لکھا تھا۔ اس نے وہ کاغذ اٹھایا اور اسے پڑھنے لگا۔
تم جو کھوجتے ہو موت میں زندگی،
جان لو! جو کبھی سانس تھی، اب گرد ہوئی
بھلے پرانے نام جا چکے، نئے اسموں کا ابھی کچھ پتا نہیں
خواہ وقت کی دھول جسموں کو چاٹ جائے
مگر روح کو نہ یہ کبھی بھی بھسم کر پائے۔
تو اے قاری! خوب جیو، جب تک ہے تم میں 'زندگی'
اور جان لو کہ ”موت“ بھی ”ہمیشگی“ کی جانب سفر کے سوا کچھ نہیں!
کتنے خوبصورت الفاظ تھے وہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ ابھی وہ ان لفظوں کے سحر میں تھا جب اسکے عقب پر دروازہ کھلنے کی آواز ابھری۔ اس نے جلدی سے روشنائی میں رکھا نوکدار قلم اٹھایا اور جھٹکے سے مڑا۔ دروازے پر ایک خوبصورت سی لڑکی کھڑی تھی۔
”ہیلو ایلس! اٹھ گئے تم“ وہ ہاتھ میں کچھ گرم کپڑے لیے اندر آئی اور خوشگواریت سے اسکا حال پوچھا ”طبعیت کیسی ہے اب؟“ اس نے وہ گرم کپڑے بیڈ پر رکھے۔ اور ایسے بات کر رہی تھی جیسے اسے اچھے سے جانتی ہو۔ ایلس الجھن زدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا۔ اسکا دل ابھی بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
”اوہ! اس سے کیا کر رہے ہو تم؟“ اس نے ایلس کے ہاتھ میں قلم دیکھ کر پوچھا۔ وہ اب اسکی جانب بڑھی اور قریب آکر قلم اس کے ہاتھ سے لیا۔ لاشعوری طور پر ایلس ڈر کر ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔ جسے اس لڑکی نے اچھے سے محسوس کیا تھا لیکن واضح نہیں ہونے دیا۔
”تمہارے اٹھنے سے پہلے میں کچھ لکھ رہی تھی پھر کام یاد آیا تو باہر چلی گئی۔۔“ اس نے میز پر بکھرے کاغذ سمیٹتے کہا۔ جبکہ ایلس حیرت سے اسے یہ سب کرتے دیکھ رہا تھا۔
”کک۔۔کون ہو تم؟“ وہ پوچھے بنا نہیں رہ پایا تھا۔
”میرے خیال سے اب تم چل سکتے ہو، منہ ہاتھ دھو کر یہ کپڑے بدل لو کھانے کا وقت ہوگیا ہے“ وہ اسکے سوال کو نظرانداز کرتی اپنی سنا رہی تھی۔ وہ اسکی طرف دیکھے بنا بات کر رہی تھی۔ کتابوں کو اٹھا کر بک شیلف میں رکھ کر وہ اب روشنائی کو ڈھانپ رہی تھی۔
”میں کہاں ہوں؟؟“ ایلس نے دوسرا سوال کیا تھا۔ اسکے لیے یہ کافی حیران کن تھا۔ وہ لڑکی اسکا نام تک جانتی تھی۔ جانے کیوں ایلس کو اسکی شکل جانی پہچانی لگی تھی۔ اسکے لاشعور میں یہ چہرہ کہیں قید تھا۔
”تم یہاں محفوظ ہو ایلس!“ اس نے اس لڑکی نے براہ راست ایلس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔ ان آنکھوں میں ایلس کے لیے فکر تھی اور سچائی بھی وہ جو بھی کہہ رہی تھی سچ کہہ رہی تھی۔ ایلس لاجواب ہوگیا تھا۔ اس سے مزید کچھ پوچھا نہیں گیا۔
”دو دن پہلے آنے والے طوفان کی وجہ سے قصبے کی بجلی خراب ہوچکی ہے اور یہ شہر سے اتنی دور ہے کہ یہاں پر جلدی کوئی ٹھیک کرنے بھی نہیں آتا۔ ابھی اتنے ہی اجالے سے گزارا کرنا پڑے گا۔۔“ لڑکی نے مشعل کی جانب اشارہ کرتے کہا۔ اور پھر بیڈ کے پیچھے لگی کھڑکی کی جانب بڑھی جس موٹےپردے لٹکے تھے۔ اس نے کھینچ کر پردہ پیچھے کیا اور پھر کھڑکی کا ایک پٹ تھوڑا سا کھول دیا۔ تیز چبھنے والی روشنی ایلس کی آنکھوں سے ٹکرائی اور وہ آنکھیں بند کرگیا۔ باہر کافی ٹھنڈ ہے اسی لیے میں نے کھڑکی اچھے سے بند کر رکھی تھی۔ تم منہ ہاتھ دھو لو میرا تمہارا کھانا اوپر لے آتی ہوں۔ ایلس کو وہ لڑکی کافی باتونی لگی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی آنکھیں دھیرے دھیرے کھولیں۔ شاید وہ کافی دنوں سے اندھیرے میں رہا تھا اور اب اسکی آنکھیں روشنی برداشت نہیں کر پارہی تھیں۔ وہ پردہ دوبارہ سے ٹھیک کرتی کمرے سے نکل گئی تھی۔ اسکے جانے کے بعد ایلس دھیرے دھیرے چلتے اس کھڑکی تک آیا اور اس نے جیسے ہی پردہ ہٹا کر باہر دیکھا اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
باہر ہر طرف برف ہی برف تھی۔ وہ تو شام میں تھا۔ وہاں اس موسم میں برفباری نہیں ہوتی۔۔ تو وہ کہاں تھا؟؟؟ اس کا سر چکرا گیا تھا۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے تنے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اتنا تو وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ یہاں محفوظ تھا۔ اور یہاں جو بھی لوگ تھے وہ اسے جانتے تھے۔ بجائے اسکے کہ وہ اپنے ذہن پر زور ڈالتا اس نے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کردیا۔ ”اب جو بھی ہون
گا دیکھا جائے گا“۔ اس نے سوچتے کھڑکی بند کرکے پردہ کھسکا دیا۔
__________________________
سلاخوں کے پیچھے سے اسکی چیخوں کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔ نہ چاہنے کے باوجود بھی وہ بری طرح سے کراہ رہا تھا۔ اسے بیڑیوں سے باندھ کر الٹا لٹکایا گیا تھا اور دو ہٹے کٹے موٹے سانڈھ اسکے ارد گرد کھڑے اسے ٹارچر کر رہے تھے۔ اسکے جسم اور چہرے سے خون بہہ رہا تھا۔ اسے لوہے کی موٹی راڈ نما سلاخ سے مارا جا رہاتھا۔اور ضرب ایسے لگائی جارہی تھی کہ ہڈی بھی نہ ٹوٹے اور تکلیف میں کمی نہ ہو۔
”خدا کی قسم! اگر میں یہاں سے زندہ باہر نکل گیا میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا“ وہ اذیت اور غصے کی ملی جُھلی کی کیفیت سے چلایا تھا۔ وہ دونوں آدمی اسکی زبان سمجھنے سے قاصر تھے اسی لیے اسکے چلانے کو بھی کی قسم کی گالی سمجھ کر اسے اور طاقت سے راڈ مارنے لگے تھے۔ تبھی سیاہ کوٹ میں ملبوس ایک شخص سلاخوں کے قریب آیا اور اس نے ان دو آدمیوں کو اشارہ کیا۔ وہ دونوں رک گئے اور ایک سائیڈ پر جا کر کھڑے ہوگئے۔
”میرے خیال سے تمہاری خاطرتواضع کے لیے اتنا ہی کافی ہے اب تم میری طاقت کو سمجھ گئے ہوگے۔۔“ وہ شخص چہرے کے زاویے بگاڑ کر جرمن زبان میں بولا تھا۔
”تم کچھ بھی کرلو لیکن میں تمہاری بات کبھی نہیں ماننے والا!“ وہ لڑکا اسی آدمی کی زبان میں غصے سے چلایا تھا۔
”لگتا ہے تمہیں ابھی مزید خاطر کی ضرورت ہے!“ وہ آدمی دانت پیستا اپنے ان دو آدمیوں کو اشارہ کرتے وہاں سے جا چکا تھا۔جبکہ ایک بار اس لڑکے کی چیخیں اس کمرے میں گونج گئی تھیں۔ وہ پچھلے دو دنوں سے اس جرمن آدمی کی قید میں تھا اور پچھلے دو دنوں سے اسے ٹارچر کیاجا رہا تھا۔
کہتے ہیں ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے، جو اس انسان کی زندگی کے ہر موڑ پر مدد کرتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی خاصیت انسان کی جان کی دشمن بن جاتی ہے خاص کر تب جب آپکی اس خاصیت سے کسی اور کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ اور کچھ ایسا ہی جیرل کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ دنیا کی مختلف زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ ایسا کب ہوا کیوں ہوا وہ نہیں جانتا تھا لیکن جب سے اس نے ہوش سنھبالا تھا اس نے اپنے آپ کو مخلتف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کو با آسانی پڑھ سکتا ہے۔ کسی بھی کتاب کا ترجمی کسی بھی دوسری زبان میں کر سکتا تھا۔ اسکا یہ ہنر جیسے جیسے لوگوں میں پھیلا ویسے ویسے کچھ لوگ برے مقصد کی خاطر اسکی تلاش میں نکل پڑے۔ اور ان میں سے ایک وہ آدمی بھی تھا جس کی قید میں اس وقت جیرل تھا۔
_________________________
ایلس جب کپڑے تبدیل کرکے نیچے آیا تو وہ لڑکی آتش دان کے قریب رکھے ایک چھوٹے سے میز پر کھانے کے لوازمات رکھ رکھی تھی۔ میز کے ایک سرے پر رکھا ریڈیو چڑ چڑکی آواز کے ساتھ چل رہا تھا۔ کافی کوشش کے بعد ایلس کو جو سمجھ آیا اسکا مفہوم کچھ یوں تھا،
”دو دن پہلے آنے والے برف کی طوفان کی وجہ سے شہر آنے جانے والے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔ عوام سے گزارش ہے اس طوفانی موسم میں وہ شہر کی طرف رخ نہ کریں اپنے گھروں میں دبکے رہیں۔۔“
”ارے ایلس آگئے تم؟ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی جلدی آجاؤ اس سے پہلے کہ کھانا ٹھنڈہ ہوجائے!“ ایلس اپنی طرف سے بنا آواز پیدا کیے نیچے آیا تھا تاکہ وہ نیچے موجود لوگوں کی گفتگو سن سکے۔ شاید اس کو کوئی سراغ مل جائے۔ لیکن وہاں اس لڑکی کے سواء کوئی نہیں تھا اور حیرت کی بات باہر چلنے والی تیز ہوا جو اچانک ہی شروع ہوگئی تھی، اور کھانوں کھجلی پیدا کرنے والی ریڈیو کی آواز کے باوجود وہ اسکے قدموں کی آہٹ کو سن چکی اور بنا اسکی طرف دیکھے وہ نارمل انداز میں کہہ رہی تھی۔
اور یہ ایلس کے لیے کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا۔ وہ اس سے زیادہ تجسس برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اسے لڑکی کی بات سن کر بےساختہ ہی غصہ آیا اور وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے نیچے آیا تھا۔
”کیا تم بتاؤ گی تم کون ہو اور میں کہاں ہو؟“ وہ اسکے مقابل آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ سیڑھیاں اترنے کی وجہ سے اسے اپنے پاؤں میں درد کی ٹیس اٹھتی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید اسکا پاؤں ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہو پایا تھا۔
”میرا نام الینا ہے اور تم اس وقت بالکل محفوظ ہو!“ لڑکی نے خوشگواری سے جواب دیا تھا۔ ایلس ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا تھا۔ یہ گھر بہت چھوٹا تھا۔ اوپر شاید دو کمرے تھے ایلس اتنا ہی دیکھ پایا تھا اور نیچے یہ ایک بڑے ہال نما کمرہ تھا جو شاید لاؤنج کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اسکا ساتھ ہی ایک جانب چھوٹا سا باورچی خانہ بنا تھا جس میں ابھی الینا غائب ہو چکی تھی۔ اس ہال نما کمرے میں دو کھڑکیاں تھیں۔ اور آتش دان میں آگ تیزی سے چل رہی تھی۔ وہاں موجود فرنیچر لکڑی تھا جو کافی پرانا ہوچکا تھا۔ ایلس کو لکڑی کے ایک بوسیدہ سے صوفے پر اون کے گولے رکھے نظر آئے تھے اور اسکے ساتھ ہی ایک سویٹر جو شاید الینا ہاتھ سے بن رہی تھی پر ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ وہ ان تمام چیزوں کو دیکھنے میں اس قدر مگن تھا کہ الینا کی آواز پر بری طرح چونک گیا۔
”تم نے ابھی تک کھانا شروع نہیں کیا؟ میں چائے کے لیے پانی رکھنے گئی تھی سوچا جب تک ہم کھانے کھائیں گے چائے بن جائے گی۔۔“ اس لڑکی کے لیے یہ سب کتنا نارمل تھا نا جیسے وہ ایلس کو بچپن سے جانتی ہو۔ ”آؤ بیٹھو!“ وہ خود اس چھوٹے سے میز کے گرد رکھے لکڑی کے اسٹول پر بیٹھ گئی تھی اور اب ایلس کو بیٹھنے کا کہہ رہی تھی۔ کھانے کی شکل دیکھ کر ایلس کو بھوک کا احساس ہوا تھا۔اور پھر وہ بنا کچھ بولے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
یہ فش سوپ تھا جو الینا نے اسے ایک پیالے میں ڈال کر دیا تھا۔ اسکی خوشبو اچھی تھی۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا شروع کردیا۔
”مجھے لگتا ہے تمہارے پاؤں میں ابھی کچھ تکلیف باقی ہے میں گاو چشم کے پتے لائی ہوں اس کا لیپ لگاتی ہوں۔ امید ہے کل صبح تک پوری طرح ٹھیک ہوجائے گا۔۔“ اسکی بات سن کر ایلس چونک گیا تھا۔ ”اسے کیسے پتا چلا میرے پاؤں میں ابھی درد باقی ہے؟“ یہ حیران کن تھا لیکن وہ پوچھ نہ پایا۔
”کیا ہم پہلے کبھی ملے ہیں؟“ یہ بےتکا سا سوال تھا جو ایلس نے پوچھا تھا اور پوچھنے کے بعد اسے اسکے بےتکے ہونے کا احساس ہوا تھاکیونکہ وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ایلس نے اپنی اب تک کی زندگی میں الینا جیسی کوئی لڑکی نہیں دیکھی تھی لیکن تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
”ہاں ہم ساتھ رہے ہیں!“ الینا نے اب ابلے ہوئے انڈے کے ایک ٹکڑے کو منہ میں رکھتے نارمل لہجے میں جواب دیا۔ ایلس کی شفاف پیشانی پر شکنیں ابھریں۔ ”کیا وہ لڑکی اتنی ہی جھوٹی تھی یا وہ پاگل تھی جو کچھ بھی بول رہی تھی۔“ ایلس نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھتے سوچا تھا۔