Maseel novel episode 41 (part 01)

 

Maseel novel episode 41 part 01

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_41 پارٹ1
نور_راجپوت
To Our Nightmares
دروازے پر مسلسل دستک جاری تھی۔ وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ جبکہ زوئی (ملازمہ) سو چکی تھی۔ موسم طوفانی تھا۔ اسے حیرت ہوئی رات کے اس پہر کون آ سکتا تھا؟؟
اس نے سلام پھیرا اور جا کر دروازہ کے سوراخ سے جھانک کر باہر دیکھا۔۔ باہر وہ کھڑا تھا۔۔ حاد جبیل۔۔۔ اس نے فٹ سے دروازہ کھول دیا۔
وہ بھیگا ہوا تھا۔۔ سر سے پاؤں تک۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔ اس کے پاس برساتی کوٹ نہیں تھا۔۔ ورنہ اسے بھگینے سے کوفت ہوتی تھی۔
”ماں۔۔۔“ وہ اسے دیکھتے ہی فوراً بولا۔ اور پھر آگے بڑھ کر اس ہستی کے گلے لگ گیا جس سے وہ بےپناہ محبت کرتا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ ان کے کمرے میں تھا۔۔ کپڑے بدل لیے تھے جبکہ بال تولیے سے صاف کرنے کے باوجود گیلے تھے۔ وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا۔۔ اس ہستی نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اتنا تھکا ہوا محسوس کیا تھا۔
”کیا ہوا ہے حاد؟؟ پریشان کیوں ہو۔۔“ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ماں نے محبت سے پوچھا۔
”کیونکہ وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔۔۔“
بالوں میں انگلیاں پھیرتا ان کا ہاتھ رک گیا۔۔۔ پہلے ہی ان کا دل کسی انہونی کی خبر دے رہا تھا۔۔ کیونکہ حاد تقریباً پندرہ سولا سال بعد ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا۔۔۔پہلی بار اسے کسی سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔۔۔پہلی بار وہ اتنا پریشان ہوا تھا۔
”کون۔۔؟؟ کون پریشان کرتی ہے“
ماں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”وہی۔۔ ام ایمان۔۔۔ ایمانے۔۔۔ She Haunts Me..“
وہ یوں شکایت کرتا بالکل بچہ لگ رہا تھا۔
”وہ مجھے سونے نہیں دیتی ہے۔۔ اس کے الفاظ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔۔ پہلی بار میں فوکس نہیں کر پا رہا ہوں۔۔ میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔۔۔ پلیز عبدل سے کہیں کہ وہ ایمانے کو سمجھائے وہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔۔“
وہ کسی سحر کے اثر بول رہا تھا۔۔ ماں کی پیشانی پر لکیریں نمودار ہوئیں۔۔
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔“
اس کے الفاظ مسلسل گونجتے تھے۔۔۔
وہ تو سچائی کے راستے پر چل رہا تھا۔۔ اس نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تھا۔۔ وہ تو اللہ والا تھا۔۔ وہ تو شیطان کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔وہ کیسے شیطان بن سکتا تھا؟؟
وہ جانے کتنی راتوں کا جاگا تھا کہ کچھ دیر بعد گہری نیند سوگیا۔۔ جبکہ ماں پریشانی سے اس کے بالوں کو سہلاتے سامنے گلاس ونڈو پر بہتی بارش کو دیکھ رہی تھی۔
آخر ایسا کونسا راز تھا ایسا کون سا کام تھا اور ایسا کون سا انسان تھا جس نے حاد جبیل کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔؟؟
ماں کا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ فریش ہو کر باہر نکلی تو روحان کو بےچینی سے ٹہلتے پایا۔۔۔ آج کل وہ ایسے ہی بےچین تھا۔۔۔
”آپ سوئے نہیں۔۔؟؟“ وہ بھیگا چہرہ لیے فکرمندی سے پوچھنے لگی۔ اس کی آواز پر وہ رک گیا اور گہری نظروں سے اپنی متاع جاں کو دیکھنے لگا۔۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سا رنج تھا۔
حانم چلتے ہوئے اس کے قریب آئی۔
”کیا آپ خوش نہیں ہیں۔۔؟؟“ گرے آنکھیں بجھ سی گئی تھیں۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ روحان نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھایا۔۔
اس کے شہد رنگ بال چٹیا سے نکلے ہوئے تھے۔ شفاف چہرے پر پانی کی بوندیں تھیں۔۔ اور گرے آنکھیں جیسے چمک رہی تھیں۔ وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اور پورے جذب سے اس کے خوبصورت روپ کو دیکھنے لگا۔۔ جبکہ حانم ابھی تک اس کی پریشانی نہیں سمجھ پائی تھی۔
اس نے روحان کو باپ بننے کی خوشخبری دی تھی۔۔ بجائے خوش ہونے کے وہ پچھلے کئی دنوں سے بہت پریشان تھا۔
”خوش ہوں بہت خوش ہوں۔۔“
اس نے گھٹنوں کے بل اٹھتے ہوئے اس کی پیشانی کو عقیدت سے چھوا۔
”خوشی نظر کیوں نہیں آرہی۔۔؟؟“ وہ فوراً بولی۔
”کیونکہ میں خوفزدہ ہوں۔۔“ اس نے حانم کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے جواب دیا۔
”پر کیوں۔۔؟؟ خوفزدہ کیوں ہیں۔۔؟؟“
وہ جاننا چاہتی تھی آخر اس کے شوہر کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔
”اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ اللّٰہ نہ کرے اگر ہمارا بچہ ٹرائسومک ہوا تو؟؟ اگر اسے وراثت میں مجھ سے یہ بیماری مل گئی تو؟؟“ اس کا خوف بجا تھا۔۔ پر حانم کے چہرے پر مسکان ابھری جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گئی تھی۔
”تو کیا؟؟ ایک اور آرجے ہوگا ایک اور حانی کی زندگی مصیبت میں پڑ جائے گی۔۔“
وہ مسکراہٹ چھپاتے شرارت سے بولی تو روحان نے خـفگی سے اسے دیکھا۔
”ایم سیریس۔۔“ وہ خفا ہوا۔
”وہ تو میں بھی ہوں۔۔“ اس نے روحان کے ہاتھوں کو تھاما۔
”یہ دنیا مجھے نہیں جینے دے رہی۔۔۔ اسے کیسے جینے دے گی۔۔۔“ وہ واقعی پریشان تھا۔
”آپ ہی تو کہتے ہیں اللّٰہ جو کرتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی بھلائی ہوتی ہے۔۔ آپ ویسے بھی جینیاتی بیماریوں کو لے کر ویکسین بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔اگر ہمارا بچہ ایسا ہوا تو اس کی بھی بنا لینا اور ہم کسی کو بتائیں گے ہی نہیں کہ ہمارا بچہ خاص ہے۔“
وہ خود بھی اندر سے خوفزدہ تھی لیکن پوری بشاشت سے مسکائی۔
وہ اس کی سادگی پر مسکرادیا۔
”تمہیں پتہ ہے تم میری طاقت ہو۔۔!!“
اس نے گہری سانس فضا کے حوالے کرتے کہا۔۔۔۔۔
ظاہری طور پر وہ پرسکون ہوگیا تھا پر حانم نے اسے ایک بھی رات ٹھیک سے سوتے نہیں دیکھا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اس کی زندگی سے سکون جیسے غائب ہوچکا تھا۔۔ اور اس کی وجہ مشارب حسن سے اس کا نکاح تھا۔۔ جانے یہ کیسا نکاح تھا جس میں اسے اپنے منکوح کی طرف ذرا بھی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اس سے بات نہیں کر پاتی تھی۔
شاید اسی لیے کہ اس کا دل راضی نہیں تھا۔۔۔ اس نے اپنی ماں کے کہنے پر سر ہاں میں تو جھکا دیا تھا پر دل کا راز تو اللہ ہی جانتا تھا۔۔۔
وہ اس بات کو اب اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ اسلام میں لڑکی کی دلی رضامندی کس قدر ضروری ہوتی ہے۔۔!!
ضروری نہیں وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی اس لیے ایسا تھا بلکہ مشارب حسن کی سوچ سے، جس کا اسے ابھی تک پتا چلا تھا، وہ سمجھ گئی تھی وہ ویسا مسلمان شوہر نہیں تھا جیسا وہ چاہتی تھی۔ وہ ویلنسیا واپس جاچکا تھا جبکہ ایمان ابھی لاہور میں ہی تھی۔۔ اس نے اپنی پرانی کمپنی جوائن کرنے کا فیصلہ کیا تھا پر لاہور میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں جہاں نیا آفس بن رہا تھا۔۔ وہ جلد اسلام آباد جانے والی تھی پر اس سے پہلے ہی اس کی زندگی میں ایک عجیب قسم کا طوفان آگیا تھا۔
وہ اپنے غم میں میزو پر دھیان ہی نہ دے پائی۔۔۔ ایک دن وہ اسے چھوٹے کمرے میں جہاں میزو اپنے اسکیچز بناتی تھی وہاں بےہوش ملی تھی۔ وہ اسے ہسپتال لے گئے۔۔
ڈاکٹرز نے ذہنی دباؤ اور جسمانی کمزوری کا کہہ کر اسے ڈرپ لگا دی اور کچھ دوا دے دی۔ شام میں وہ لوگ واپس آگئے۔۔۔
اس نے بہت سارے نئے اسکیچز بنائے تھے۔۔۔اور اس کے اسکیچز دیکھ کر ایمان حیران رہ گئی تھی۔۔
وہ سارے Demons تھے۔۔۔ ہمارے اندر کے ڈیمنز۔۔۔۔
ایک معصوم بچی ڈری سہمی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔ اور بڑا سا کالا سایہ اس پر جھکا ہوا تھا۔۔۔ وہ اسے کچھ کہہ رہا تھا۔۔
ایسے اور اس طرح کے بہت سارے اسکیچز تھے۔۔۔
وہ ٹین ایج لڑکی تھی۔۔۔ اور ٹین ایج سب سے زیادہ vulnerable ہوتی ہے۔۔جہاں ہم لڑکیاں آسانی سے شکار ہوجاتی ہیں۔۔۔ اپنے ڈریمز اور اپنے نائٹ میرز کی۔ اپنے ذہن میں پلنے والی کہانیوں کی۔۔ اور اپنے خوف کی۔۔۔!!
وہ بھی کسی ایسے ہی خوف کا شکار تھی جس سے ایمان ابھی تک ناواقف تھی۔۔
شام کو اس کی حالت بہتر ہوئی تو ایمان نے پیار سے ہاتھ پکڑتے پوچھا۔۔
”کیا ہوا ہے میزو؟؟ تم تو ایسی نہیں تھی۔۔“
اور میزو کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔
”مجھے ڈر لگتا ہے آپی۔۔۔ وہ مجھے سونے نہیں دیتے۔۔۔ وہ ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں۔۔۔ وہ ہر وقت بولتے رہتے ہیں۔۔“
وہ پریشانی سی بتا رہی تھی۔۔۔ جبکہ آنسوں ٹپ ٹپ بہنے لگے تھے۔
”میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔کس سے ڈر لگتا ہے تمہیں۔۔؟؟“ ایمان نے اس کے ہاتھوں کو محبت سے دبایا۔
”وہ سب مجھے کہتے ہیں تم بھی بھٹک جاؤ گی۔۔۔تم بھی ایمان آپی کی طرح بن جاؤ گی۔۔۔اور پھر تمہارا انجام بہت برا ہوگا۔۔۔اور اور۔۔۔“
وہ کسی خوف کے زیراثر بتارہی تھی۔
تنہائی۔۔۔۔ تنہائی جہاں انسان کی دوست ہے وہیں اس کی دشمن بھی۔۔۔ دنیا میں زیادہ تر نفسیاتی مریض تنہائی کا شکار رہے ہیں۔۔۔ اور یہ تنہائی لوگوں کی کمی کی نہیں بلکہ وہ تنہائی ہے جب ہم اپنے ذہن میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔۔!!
جب ایسا ہوتا ہے تو ہمارے اندر کے ڈیمن ہم پر حاوی ہوجاتے ہیں۔۔۔اور ایسا ہی حمیزہ کے ساتھ ہوا تھا۔۔بظاہر تو وہ ٹھیک تھی پر وہ اپنے ذہن میں کہیں قید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔
یہ وہ خوف تھا جو اسے وراثت میں ملا تھا۔۔۔ وہی خوف جس کا ایمان کو دھڑکا لگا رہتا تھا۔۔۔ اسے لگتا تھا وہ ایک دن پاگل ہوجائے گی۔۔اور یہی وہ خوف تھا جس کا شکار اس وقت میزو تھی۔۔
بروکن فیملی۔۔۔ ماں باپ سےملنے والی ادھوری محبت اور پھر پرفیکٹ بن کر سب ٹھیک کر دینے کی چاہ لڑکیوں کو نفسیاتی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔۔
مائیں سوچتی ہیں بیٹیاں کوئی ایسا کام نہ کرجائیں جس سے ان کی تربیت پر حرف آئے کہ وہ طلاق شدہ ماں کی بیٹیاں ہیں یا پھر لوگ انہیں طعنے دیں۔۔۔
اسی خوف سے وہ اپنی بیٹیوں سے پرفیکٹ ہونے کی توقع کرتی ہیں اور اسی توقع پر پورا اترنے کی چکر میں بیٹیاں جانے کیسے کیسے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔۔۔ ان کی شخصیت اندر سے ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوجاتی ہے۔
ایمان خاموشی سے حمیزہ کی باتیں سن رہی تھی جبکہ اس کا فون بج بج کر بند ہوچکا تھا۔۔
مشارب حسن کا فون تھا۔۔۔وہ بےخبر تھی۔۔۔ فون کا پتا بھی چلتا تو بات نہ کر پاتی۔۔۔
جبکہ سلمی بیگم باہر محلے کی دو تین عورتوں کے پاس بیٹھی تھی جو حمیزہ کی عیادت کو آئی تھیں۔۔
”بچی کو دم درود کرواؤ۔۔۔ سائے کا چکر لگتا ہے۔۔۔ ارے اچھی بھلی لڑکی اچانک ایسی باتیں کرنے لگے تو سمجھ جاؤ کہ سایہ ہے۔۔“
سلمی بیگم صدق دل سے مان چکی تھیں کہ ان کی بیٹی پر یقیناً سایہ ہوگیا تھا تبھی تو وہ ایسی خوفناک شکلیں اسکیچ کر رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
چار بار کال کرنے پر بھی جب اس نے فون نہ اٹھایا تو مشارب حسن نے فون صوفے پر پھینک دیا۔
وہ اپنے فلیٹ میں تھا۔۔ اس کے ساتھ اس کا فلیٹ میٹ بھی تھا۔
”عجیب پاگل لڑکی ہے۔۔پتا نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے۔۔“
اس کا چہرہ غصے سے لال بھبوکا ہوچکا تھا۔
”ریلیکس یار۔۔۔کہا تو تھا شادی مت کرو ابھی۔۔۔ پر نہیں تمہیں تو پاکستانی لڑکی سے ہی شادی کرنی تھی۔۔“
اس کا فلیٹ میٹ جو دوست بھی تھا فوراً بولا۔
مشارب حسن پڑھا لکھا ماڈرن لڑکا تھا۔۔ اس نے جیسا ایمان کو تصور کیا تھا وہ ویسی نہیں تھی۔
”امی کی خواہش تھی یار کہ میں پاکستانی لڑکی سے شادی کروں۔۔۔ مجھے لگا تھا لڑکی ویلنسیا رہ کر گئی ہے تو کافی ماڈرن ہوگی۔۔ اس کی سوچ روایتی لڑکیوں سے الگ ہوگی۔۔ پر مجھے آئڈیا نہیں تھا ایسا ہوگا۔۔“
وہ شدید قسم کی کوفت میں مبتلا تھا۔
”تمہیں پہلے مل لینا چاہیے تھا۔۔“
”ملنا چاہتا تھا پر امی نے منع کردیا کہ لڑکی والے کیا سوچیں گے۔۔۔ان کے نزدیک وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی شریف لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں۔۔“
مشارب کی بات پر اس کے دوست نے قہقہہ لگایا۔
”بیٹھے بٹھائے ان کو تمہارے جیسا داماد مل گیا جو ان کی نظر میں شریف بھی ہے اور ان کو کیا چاہیے۔۔“
”اسی لیے میں نے رخصتی نہیں کی۔۔۔ میں پہلے دیکھنا چاہتا تھا جس سے میری ماں میرا نکاح کر رہی ہے وہ میرے معیار کی ہے بھی یا نہیں۔۔؟؟“
”تو اب تک کیا دیکھا تم نے؟؟“
اس نے کے دوست نے ایک آنکھ دباتے لوفرانہ انداز میں پوچھا۔
”خاک۔۔۔“ وہ چڑ کر بولا۔
”محترمہ کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔۔ نکاح کے بعد میں نے ہنی مون پر چلنے کا کہا تو فوراً انکار کردیا۔۔۔حالانکہ ہم اب میرڈ ہیں۔۔۔ میں اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔۔۔ میں اسے ویڈیو کال کا کہتا ہوں تو نہیں کرتی ہے کہ گھر میں ماں بہن ہوتی ہیں ان کے سامنے وہ بےحیائی والی باتیں نہیں کر سکتی۔۔۔ واٹ دا ہیل۔۔۔کونسی بےحیائی۔۔۔؟؟ میاں بیوی میں کونسی بےحیائی ہوتی ہے؟؟ اگر کسی کے سامنے ہم کچھ بھی کریں تو ہمیں جائز ہے۔۔۔ ہم کر سکتے ہیں۔۔۔چاہے وہ گفتگو ہو یا کچھ اور۔۔۔میاں بیوی میں سب جائز ہے۔۔ دیکھتے نہیں ہو تم آج کل کے ولاگرز کو۔۔۔ نکاح کے بعد سب کرتے ہیں سب کے سامنے۔۔۔ بھئی جائز ہوجاتا ہے۔۔ میں بھی ایسا ہی چاہتا تھا۔۔پر پتا نہیں کس زمانے کی لڑکی باندھ دی ہے میرے ساتھ۔۔“
دو مہینے میں ہی وہ ایمان کی سوچ سے اس کی باتوں سے تنگ آچکا تھا۔
”اچھا چل چھوڑ ویک اینڈ ہے کہیں انجوائے کرنے چلتے ہیں۔۔“ اس نے مشارب کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
مشارب اپنے آپ کو ٹھیک سمجھتا تھا۔۔ وہ اپنی جگہ اپنی نظروں میں ٹھیک تھا۔۔۔ کیونکہ ان کا نکاح ہوچکا تھا سب جائز تھا۔۔۔۔
اس نے نکاح صرف اپنے مقصد کے لیے کیا تھا۔ اور اب اسے اپنا مقصد پورا ہوتے نظر نہیں آرہا تھا۔
وہ آج کل کے سوشل میڈیا بہت متاثر تھا۔۔ سوشل میڈیا اور پر موجود عجیب غریب جوڑوں سے۔۔۔ جو نکاح کے بعد سب کرتے ہیں اور پھر جب دل بھر جاتا ہے تو الگ الگ ہوجاتے ہیں۔۔۔ افسوس۔۔۔ وہ بھی اسی سوچ کے ساتھ ایمان کی زندگی میں داخل ہوا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کے نکاح کی خبر نے جیسے اسے پتھر کا بنا دیا تھا۔۔۔ پہلے وہ بت بنا رہا۔۔۔پھر ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔۔۔ اپنی قسمت پر۔۔۔ وہ اس جنگ ہار گیا تھا۔۔۔ وہ جنگ جو اس کی خدا کے ساتھ تھی۔۔۔ اسے نفرت ہورہی تھی۔۔ خدا سے بھی اور اس کی ایمان سے بھی۔۔۔پر یہ نفرت چند لمحوں کی تھی۔۔۔رات ہوتے ہی اس کا اپنا وجود جلنے لگا تھا۔۔۔ اور یہی وہ رات تھی جب اس نے ایمان کو دیکھا تھا۔۔۔ دلہن بنے اپنے خواب میں۔۔۔ اس کی تکلیف وہ اپنے خواب میں بھی نظرنداز کرگیا تھا۔۔۔۔
وہ دلہن کے لباس میں سجی سنوری پہاڑ کی چوٹی پر کھڑی تھی۔۔ نیچے ٹھاٹے مارتا سمندر دور دور تک نظر آرہا تھا۔ وہ دور تک پھیلے سمندر کو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ کتنی گہرائی تھی نا اس سمندر میں اگر وہ یہاں سے چھلانگ لگاتی تو دوبارہ کبھی ابھر نہ پاتی۔ لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ آنسو اسکی آنکھوں سے بےاختیار بہہ رہے تھے۔ اسکا نازک وجود سرخ لہنگے میں ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ اور تبھی اسکے عقب سے آواز ابھری۔۔
”خودکشی کرنے آئی ہو یہاں۔۔؟؟ لیکن میں جانتا ہوں تم کرو گی نہیں۔۔“ وہ کاٹ دار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
دلہن بنی ایمان نے آنکھیں میچ کر اس اذیت کو اپنے اندر انڈیلا تھا جو یہ آواز سن کر اسکے وجود سے ابھر کر اسکی آنکھوں سے بہنے لگتی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔
”ویسے رات کے اس پہر تمہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے۔۔ تمہاری شادی ہوچکی ہے۔ شوہر انتظار کر رہا ہوگا جاؤ اسے خوش کرو۔۔۔“ یہ الفاظ نہیں بلکہ وہ کیل تھے جو اسکے نازک وجود میں ٹھونکے جا رہے تھے۔
وہ اپنے خواب میں بھی اتنا ہی ظالم بن گیا تھا جتنا وہ اس دن بنا تھا جب اسے سچائی کا پتا چلا تھا۔
”تم مشرقی لوگوں کی روایت یہی ہے نا کسی انجان مرد سے شادی کرنا اور پھر اسے خوش کرنے میں لگ جانا۔۔۔“ کتنا زیر بھرا تھا نا اسکے اندر۔
”ویسے مجھے افسوس ہو رہا ہے اس شخص پر جس نے تمہیں اپنا لیا۔۔“ وہ خود اس وقت اتنا جل رہا تھا کہ اسکی یہ جلن لفظوں کی صورت باہر نکل رہی تھی۔ اسکی آنکھیں شعلے ابل رہی تھیں۔
”سنو اسکے ساتھ بےوفائی مت کرنا جیسے میرے ساتھ کی ہے۔آخر کو وہ تمہارا شوہر ہے۔۔“ غصہ اور غم دونوں ہی تھے اس جملے میں۔
ایمان کے وجود میں جنبش ہوئی۔ اور رات کی خاموشی میں چوڑیوں کی آواز گونج کر رہ گئی۔۔ وہ دھیرے سے پلٹی۔۔ اور اس شخص کو لگا تھا کہ وہ پتھر ہوجائے اگر اس نے اس لڑکی کو اس روپ میں دیکھ لیا اور پھر وہ پتھر بھربھری ریت کی طرح ڈھہہ جائے گا۔۔
اس نے ایک پل کو چاہا تھا وہ کبھی نہ پلٹے۔۔۔ وہ اسے کبھی نہ دیکھے حالانکہ وہ اسے دیکھنے کی خواہش لیے یہاں آیا تھا۔
لیکن وہ پلٹ گئی۔ اور پھر وہ سچ میں پتھر کا ہوگیا۔۔۔۔۔
کتنے ہی پل گزر گئے۔۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی لیکن وہ سن کب رہا تھا اور پھر ایک جملہ ایسا تھا جو اسے یاد رہ گیا۔۔
”میں کبھی تمہیں کسی پاگل خانے قید میں نظر آئی جو جان لینا اسکی وجہ تم ہو گے۔۔۔“
اذیت اور بےبسی۔۔۔ اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ان لفظوں میں اور پھر وہ چلی گئی۔۔ وہ اسے روکنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا وہ اسی سجے سنورے روپ میں اسکے سامنے بیٹھی رہے اور وہ اسے قیامت تک دیکھتا رہے۔
پر یہ خیال کہ وہ کسی اور کی ہوچکی تھی اسکی روح کو جھلسا رہا تھا۔
اسکی نظروں نے اس وجود کا پیچھا تب تک کیا تھا جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی تھی۔۔ اسکی آنکھیں جل اٹھی تھیں۔ وہ نم آنکھیں لیے اکیلا کھڑا رہ گیا تھا۔
اسے نہ جیت سکے گا غم زمانہ اب
جو کائنات تیرے در پر ہار دی ہم نے!
اور خواب میں بھی وہ اس سے دور چلی گئی تھی۔۔۔۔وہ جو نیند کی دوا لے کر سویا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔۔۔۔وہ کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔ وہ اس کی زندگی سے بہت دور جا چکی تھی۔۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
صبح ہونے سے پہلے وہ جاچکا تھا۔۔۔ وہ ایسا ہی تھا۔۔ اگر وہ ڈوز کے زیراثر کبھی اپنی ماں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کر بھی دیتا تو اس کے بعد کئی کئی دن غائب رہتا تھا۔۔۔
یقیناً رات کو بھی وہ اپنی ڈوز کے زیراثر تھا تبھی اپنی ماں کے پاس آگیا تھا۔۔۔ورنہ حاد کبھی بھی کسی کے سامنے خود کو کمزور ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔۔
اور لوگوں کا ماننا تھا وہ کمزور تھا ہی نہیں۔۔۔۔
وہ کمزور کیسے ہو سکتا تھا کیونکہ اسے درد تو ہوتا ہی نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
”وہ زندہ ہے۔۔“
”کون۔۔۔؟؟“ دوسری جانب سے پوچھا گیا۔۔۔ سیاہ گھپ اندھیرے میں جلتی بہت ساری اسکرینیں نظر آرہی تھیں اور ہر اسکریں پر الگ الگ ریکارڈنگز چل رہی تھیں۔
”وہی خاص لڑکا۔۔۔ حاد جبیل۔۔۔“
”ناممکن۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔“
”وہ خود سامنے آچکا ہے۔۔۔ وہ اپنے باپ کی طرح سیشنز لیتا ہے۔۔۔۔“
”ضروری نہیں کہ یہ وہی ہو۔۔۔“
دوسری طرف سے کہا گیا۔
”ایک وقت پر دو ایک جیسے چہرے دو مختلف جگہوں پر کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔؟؟“
ایک اسکرین پر اس کی لائیو ویڈیو کی ریکارڈنگ چل رہی تھی تو دوسری پر عبدل کے شو کی ریکارڈنگ۔۔۔ دونوں پر ایک دن کی ہی تاریخ تھی۔
”تم شیور ہو؟؟“
”بہت وقت لگایا ہے میں نے یہاں تک پہنچنے میں۔۔۔ وہ دونوں بھائی ہیں۔۔ دونوں کے چہرے کافی حد تک ملتے ہیں۔۔ بس دونوں کا حلیہ مختلف ہے۔۔۔اگر ان میں سے ایک مرگیا تھا تو اب وہ دو کیسے ہیں؟؟ وہ کبھی مرا ہی نہیں تھا۔۔۔ہمیں اتنے سال بےوقوف بنایا گیا ہے۔۔“ کرسی پر بیٹھا وہ شخص کافی غصے میں لگ رہا تھا۔
”کیا لگتا ہے تمہیں دونوں میں سے ہمارا شکار کون ہے؟؟؟“
”وہ جس کے سسٹمز تک میں پہنچ نہیں پارہا ہوں۔۔۔“
اسکرین پر حاد جبیل کا چہرہ واضح تھا۔
”کیسے واضح ہوگا کہ ان لڑکوں کا تعلق جبیل خاندان سے ہے۔۔؟؟“ دوسری طرف سے سوال کیا گیا۔
”یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔“
لبوں کے کنارے شاطر مسکان میں پھیلے۔۔۔۔ یقیناً وہ کچھ بڑا کرنے والا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”امی حمیزہ کو ذہنی سکون کی ضرورت ہے۔۔ ڈاکٹر اس کا علاج اچھے سے کر سکتے ہیں۔۔“ ایمان سلمی بیگم کو سمجھا رہی تھی جبکہ سلمی بیگم اسی بات پر قائم تھیں کہ حمیزہ کو کسی پیر یا عامل کو دکھانا چاہیے۔ ایمان نے بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی ماں کے سامنے کمزور پڑ گئی تھی۔
لاکھ سمجھانے کے باوجود جب وہ نہ مانیں تو ایمان ان کے ساتھ حمیزہ کو لے کر کسی کے بتائے گئے عامل کے پاس چلی گئی۔۔۔۔ عامل کے گھر کے باہر عورتوں کا رش دیکھ کر اسے لگا کہ جیسے ساری دنیا کے مسائل یہ عامل حل کرتا ہو۔۔ وہ ان سب چیزوں پر یقین نہیں رکھتی تھی۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب ان کی باری آئی تو وہ اندر چلی گئیں۔ عامل نے فوراً کہہ دیا۔
”لڑکی پر بہت برا سایہ ہے۔۔۔ لمبا علاج چلے گا۔۔“
یہ سنتے ہی ایمان کا دماغ خراب ہوا۔
”لمبا علاج چلے گا مطلب؟؟ اور پیسے کتنے لیں گے آپ ؟؟“ اس سے رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا۔ عامل نے گھور کر اسے دیکھا۔ ایمان کی آنکھیں اسے اپنا مزاق اڑاتی محسوس ہوئیں۔
”یہ تمہاری بیٹی ہے؟؟“ اس نے سلمی بیگم سے پوچھا۔
”جی جی میری بیٹی ہے۔۔۔“
”خوار ہوگی۔۔۔تجھے بھی خوار کرے گی۔۔۔“ نفرے آمیز لہجے میں اس نے کہا تو سلمی بیگم کے ساتھ ساتھ ایمان بھی دھک سے رہ گئی۔
”کک کیا مطلب؟؟“ سلمی بیگم ڈر گئی تھیں۔۔۔ وہ سادہ سی عورت تھی دین دنیا سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔۔۔ بد دعاؤں سے ڈرنے والی۔
”کبھی خوش نہیں رہے گی۔۔۔ نہ تجھے رہنے دے گی۔۔۔ کبھی گھر نہیں بسائے گی۔۔۔ نہ اس کا گھر بسے گا۔۔۔“
کتنے آرام سے وہ ایمان کے مستقبل کا نقشہ کھینچ رہا تھا۔۔۔ایمان تو کچھ بول ہی نہیں پائی۔
”ارے نہیں نہیں۔۔۔ بابا جی میری بیٹی کا نکاح ہوگیا ہے۔۔۔ماشاءاللہ میری بیٹی بڑی نیک شریف بچی ہے۔۔۔“
”نہیں رہے گا نکاح۔۔۔ نہ پہلا نہ دوسرا۔۔۔“
ایمان کا دل کیا وہ اٹھ کر بھاگ جائے۔۔۔یہ لوگ کون ہوتے ہیں کسی کی تقدیر بتانے والے۔۔۔
پر وہ سلمی بیگم کی وجہ سے خاموش رہی۔۔۔ اس رات حمیزہ تو کافی حد تک ٹھیک تھی جبکہ سلمی بیگم پوری رات نہیں سو پائی۔۔۔ عامل کی باتیں ان کے ذہن میں گونجتی رہیں۔۔۔ جبکہ ایمان خود انجانے خوف کا شکار تھی لیکن اس کو اللہ پر بھروسہ تھا کہ جو ہونا تھا اسی کی مرضی سے ہونا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ہے ایمانے۔۔۔دیکھو یہ میں ہوں۔۔“ وہ کیمرے کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ کیمرہ اس کی ویڈیو ریکارڈ کر رہا تھا۔
”دیکھو میں ایک راک اسٹار بن گیا ہوں۔۔“
وہ گھوم کر خود کو دکھانے لگا۔
”پتہ نہیں تمہیں اچھا بھی لگوں گا یا نہیں۔۔“ وہ تھوڑا اداس ہوا۔
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔۔ بہت ساری باتیں ہیں۔۔ جنہیں روبرو نہیں کر پاؤں گا اور پتا نہیں کبھی تم سے مل بھی پاؤں گا یا نہیں۔۔ اس لیے سب ریکارڈ کر رہا ہوں۔۔ اور پتا نہیں کب تک کرتا رہوں گا۔۔“
وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔۔ افسردہ مسکراہٹ اس کے خوبصورت چہرے پر پھیلی تھی۔اور اس کی آنکھوں کی اداسی نے سارے منظر اداس کردیے تھے۔
”پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تمہیں بہت مس کرتا ہوں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ میں تم سے کوئی طوفانی محبت کرتا ہوں یا پھر مجھے تم سے عشق ہے۔۔کیونکہ محبت عبدل کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن تم بس یاد آتی ہو۔۔ تم یاد رہتی ہو۔۔۔ ویسے ہی جیسے بچپن میں رہتی تھی اور میں حاد کو تنگ کرتا تھا کہ وہ تمہیں ڈھونڈ کر لائے کیونکہ اس نے تمہیں ڈھونڈنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔“ وہ خاموش ہوگیا۔۔۔ اب وہ نیچے دیکھ رہا تھا۔۔ سامنے کیمرے میں نہیں۔۔۔شاید نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔
”میں نہیں جانتا تم حاد کو کتنا جانتی ہو۔۔ پر اب وہ سب سے زیادہ تمہیں جان لے گا۔۔۔“ وہ پھر مسکرا دیا۔
”اور بتاؤ پھر کیسا تھا میرا مُکا جو میں نے اس دن اسے مارا تھا۔۔آخر کو یہ ایک باکسر کا ہاتھ ہے“ اس نے ہاتھ کا مکا بنایا اور شرارت سے پوچھنے لگا۔۔ پر اس کی آنکھیں ابھی بھی اداس تھیں۔
”کیا اس دن تم نے کچھ نوٹس کیا تھا۔۔۔؟؟؟“

27 Comments

  1. Please complete it i am frustrated
    It's thoughts ahh day and night it haunts mee what's gonna happen to her emaanay what about that 2nd nikkah is she really gonna be sad in future nooooiiiii please complete it quickly i appreciate may Allah take all of sorrows from your life nooray thank you for this masterpieces but please please complete it quickly

    ReplyDelete
  2. Thanks for updating ✨ also we waiting for next part

    ReplyDelete
  3. Thanks for updating ✨ also we waiting for next part

    ReplyDelete
  4. Thank yu so muah Urdu novel bank

    ReplyDelete

  5. میں کیا لکھوں آج؟ ناول تو مزید پریشان کر رہا ہے؟ ہمیں (مجھے*) بھی ایمان جتنی ہی ٹنشن ہو رہی ہے۔
    اوکے ایک بات تو تہ ہے ایمان حاد کا ہی کپل بنے گا تو مطلب یہ ہوا مشارب کے بعد ایمان کا نکاح ادھم یا عبدل سے ہو گا؟ لیکن کیوں 😐
    لیکن عامل پر بھروسہ بھی نہیں کر سکتے نا کیونکہ میزو کو تو سایہ لگوا دیا اس نے۔
    پہلے سین سے وہ سین یاد آ گیا جب روحان جاتا تھا اسی طرح بی جان کے پاس۔۔
    اتنے سالوں پہلے جو کچھ ہوا تھا جس کی وجہ سے عبدل غائب ہو گیا تب حاد مر گیا تھا لوگوں کی نظروں میں جب کہ ہوا یہ تھا کہ عبدل غائب ہو گیا اور حاد عبدل بن کر رہتا رہا۔ پر ہوا کیا تھا؟
    ادھم کا کردار اب بھی اگر سب ڈیفینڈ کریں گے تو یقیناً بہت غلط کریں گے جب کہ وہ ابھی بھی خود کو غلط نہیں مان رہا۔ اب بھی اس کی نظر میں ایمان ہی غلط ہے۔ اسے اپنا گناہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
    عبدل بھی حاد کی طرح پراسرار ہوتا جا رہا ہے اپنی باتوں سے۔۔ اور آخری لائن؟؟ لیٹ می ریڈ ڈیٹ سین اگین۔ اگر وہ کچھ ہنٹ پہلے سے ہی موجود ہے تو۔۔
    کیسے انتظار کریں گے اب اگلی قسط کا؟😐

    ReplyDelete
  6. کہانی کے سارے کردار آپنی آپنی زندگی میں پریشان ہے اور ہم ان کی کہانی پڑھ کر پریشان ہو گے ۔

    ReplyDelete

  7. یاد ہے پچھلی قسط میں پاگل خانے میں ایمان کا شوہر اس سے ملنے آیا تھا اور اس کو ایمان کی ایک بات یاد آئ تھی کہ اگر کبھی میں پاگل ہوئی تو اس کی وجہ تم ہوگے
    اور یہی خواب اب ادھم نے دیکھا نا؟
    جب ایمان دلہن بن کر ادھم کے خواب میں آئی

    ReplyDelete

  8. کس غم کو دل میں جگہ دی جائے۔۔🙂
    کس جستجو کی اب تمنا کی جائے،،🙂
    ہم پر اسرار ہیں ہمیں یوں ہی رہنے دو۔۔
    کہ یوں نہ ہم سے ہم کو چھینا جائے۔۔🙂
    لکھا جائے، پڑھا جائے، دیکھا جائے یا رکھا جائے۔۔
    غم زندگی کو خیر سب سے چھپایا جائے۔۔۔😋
    وہ جو معاون ہو ثابت ہمارے آسیب میں
    ایسی کچھ دواؤں کو اب ، پرکھا جائے۔۔🙂
    کس غم کو دل میں جگہ دی جائے۔۔۔
    کس جستجو کی اب تمنا کی جائے۔۔🥲
    #حاد❤️‍🔥
    #ایمانے💔
    #میزو ❤️‍🩹
    #عبدل 🙂🥲
    #ادھم 🖤

    ReplyDelete
  9. Api ab jaldi krin mzeed intizar nhi hota🥺

    ReplyDelete
  10. Uff kon ha wo jo Haad ko marna chaty ha

    ReplyDelete
  11. کہانی جاندار، کردار پراسرار۔۔۔۔اور فینز بےقرار🤗🤗🤗

    ReplyDelete
  12. Sch Mai agyi hai episode ya I'm day dreaming

    ReplyDelete
  13. Dear writer....mai ye novel perhty hoye Rona nhi chahti....pr ap mujhy Rula rhi hain🥺❤️‍🔥

    ReplyDelete
  14. ماشا رحمان17 April 2024 at 10:41

    Itne Late Dati Hein TU Long Day Krn Kuch Plz.

    ReplyDelete
  15. Jesy sulphite main hashaam ki death ho thi ab is main bhi 3no main se koi na koi lurky ga i guesZeeniya Ayesha

    ReplyDelete
  16. Iman ka dusra nikah q ni rhyga . Haad se couple bnay iska please

    ReplyDelete

  17. بہترین قسط ۔۔۔♥️ حاد اور عبدل بہت انٹسٹنگ ہیں دونوں لیکن ماثیل غلط کر رہا ہے اسے ہدایت مل جائے

    ReplyDelete
  18. Next episode kb aye gi..?

    ReplyDelete
  19. mn ab rona lag jaon ge . itna wait bhala koi kasa kr sakta hi ):

    ReplyDelete
  20. Now i lost interest in this novel 💁🏻‍♀️

    ReplyDelete
  21. Pta nahe q mera dil krta iman ki shade abdall say ho q ky wo he h jo us ko itna pyar krta

    ReplyDelete
  22. From i can buy this novel?? Waiting for episodes is just a distraction

    ReplyDelete
  23. maine ajj tak koi urdu novel nahi phara na hi interest liya .. laiken pehli dafa ye maseel novel phar kar acha laga .. ab jab acha laga hai tu pata nahi writer shayad Allah ko piyari ho chuki hai kyun ke new episode nahi a raha 15 din se daily check kar raha hun ... Allah marhooma ki maghfirat farmaye. Ameen.

    ReplyDelete
  24. Please jldi episode upload Kia krain
    Aur novel kB complete hoga? Abdul Ka kya hoga?

    ReplyDelete
  25. Iman maseel ko mily gi q k wo saya ko safeed kry gi..

    ReplyDelete
  26. No words to appreciate you,
    You are just an amazing Noor Rajpoot.

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post