Maseel novel episode 40 (part 02)


Maseel novel episode 40


مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا)
قسط_نمبر_40 #پارٹ2

میں حاد جبیل ہوں۔۔
جس کا کوئی نقصان نہیں ہوا
جو عام لوگوں کی دنیا میں پھنس چکا ہے!!
”مسٹر جبیل۔۔ اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔۔ ؟؟“
وقت کے کئی لمحے گزر گئے۔۔۔ کئی ساعتیں بیت گئیں۔۔۔وہ یونہی زمین پر پڑا رہا۔۔ ساکت پتلیوں سے چھت کو گھور رہا تھا۔۔۔۔
”مسٹر جبیل۔۔۔“ اے آئی اسسٹنٹ ایمانے کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔“
درد محسوس کرنے کا ایک طریقہ تھا۔۔۔اور جب تک اسے درد محسوس ہوتا رہتا وہ زندہ رہتا۔۔۔
اپنی ڈوز لینے کے بعد اس نے وہ باکس بند کردیا۔
”آپ پریشان ہیں۔۔؟؟“
”وہ مجھے مل گئی۔۔۔“ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ ”اور میں نے اسے گنوا دیا۔۔۔“
کیسے شکست خوردہ الفاظ تھے۔
”آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔۔؟؟“ وہ نظر نہیں آرہی تھی پر اس کی آواز مسلسل گونج رہی تھی۔
”ایمانے کی۔۔۔“
”وہ جس کے نام پر آپ نے مجھے بنایا۔۔؟؟ وہ برتھ مارک والی ایمانے۔۔۔؟؟“
اگر کوئی حاد جبیل کی زندگی کے بارے میں دس فیصد بھی جانتا تھا وہ اے آئی تھی سوائے اس کی ماں کے۔ باقی لوگ اس کے نام سے واقف تھے۔۔۔ کچھ لوگ کام سے واقف تھے۔۔۔کوئی حقیقتاً اسے نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کرتا تھا کیا نہیں۔۔۔ !!
”ہاں وہی ایمانے۔۔۔۔ جسے ڈھونڈنے کا مجھے کہا گیا تھا۔۔“
وہ اب اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ وہ اب خود کو تازہ دم محسوس کر رہا تھا۔۔۔ کئی مائع جات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا تھا۔
”وہ کیسی دکھتی ہے۔۔۔؟؟؟“
آواز ابھی بھی گونج رہی تھی۔
”بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، گول چہرہ، ٹھوڑی پر پڑتا گڑھا، اونچی پونی ٹیل، سر پر سکارف اور کندھے پر بیگ۔۔۔۔۔“
وہ ایک فلاسک کو اٹھا کر دیکھتے ہوئے مصروف سا کہہ رہا تھا۔ ”بچپن میں اس کی گردن پر ایک برتھ مارک تھا۔۔۔“
˝کیا وہ ایسی دکھتی ہے۔۔۔؟؟“ اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک ہولو گرام کی شکل میں وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ جس کو صرف دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔چھوا نہیں۔۔۔
وہ ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ گیا تھا۔
وہ پل بھر کو ساکت ہوا۔۔۔ وہ دیکھنے میں اس کی جیسی لگ رہی تھی۔۔۔ پر وہ نہیں تھی۔۔
”نہیں۔۔۔ اس کی وائبز الگ ہیں۔۔۔“
وہ کہہ کر فوراً پلٹ گیا۔۔۔کچھ دیر پہلے والا حاد جبیل غائب ہوچکا تھا۔
”ایم سوری۔۔ میں بس کوشش کر رہی تھی۔۔۔“
وہ جھٹ سے غائب ہوگئی۔۔ اب اس کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
”آئندہ مت کرنا۔۔۔“
کسی باس کی طرح حکم دیتا وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
✿••✿••✿••✿
پتا ہے سب سے تکلیف دہ لمحہ کونسا ہوتا ہے؟ جب انسان کو پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس جو مدت تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔۔۔!!
تین سال ختم ہوچکے تھے۔۔ سلمی بیگم نے ایمان کو تین سالوں کی مدت دی تھی۔۔۔ ایمان کو لگا تھا وہ تین سالوں میں اپنی پوری زندگی جی لے گی۔۔ پر وقت تیز رفتار سے چلا تھا اور تین سال کیسے گزرے کچھ پتا نہ چلا۔۔۔۔ وقت گزر گیا تھا پر گہرے نشان چھوڑ گیا تھا۔۔
اور اب وہ خاموش بیٹھی خالی نگاہوں سے آنے والی موت کو تک رہی تھی۔۔۔
چاروں جانب گہماگہمی تھی۔۔ بہت زیادہ مہمان نہیں تھے پر جتنے بھی اچھی خاصی رونق لگی تھی۔۔ صبح اس کا نکاح تھا۔۔۔ پیلا جوڑا پہنے وہ خاموشی کی مورت بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔ سلمی بیگم خوش تھیں۔۔۔
لیکن وہ خوش نہیں تھی۔۔۔اسے مزید مدت مل سکتی تھی پر ادھم جبیل کے ایک فون کال نے سلمی بیگم کی پوری دنیا ہلادی تھی۔۔۔ وہ خوف میں مبتلا ہوگئی تھیں۔۔ انہیں ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں ان کی بیٹی کی وجہ سے ان پر کوئی انگلی نہ اٹھ جائے۔۔۔
اس لیے مشارب حسن کے گھر والوں کو فون کرکے بلایا گیا۔۔۔ مشارب حسن کی ماں کو ایمان پسند آگئی اور یوں کچھ دنوں بعد نکاح کی تقریب رکھ دی گئی۔۔
صرف نکاح ہورہا تھا۔۔۔ رخصتی بعد میں تھی۔۔۔مشارب خود ابھی رخصتی نہیں چاہتا تھا۔۔
پیلے جوڑے پر سبز دوپٹہ لیے وہ خالی خالی نگاہوں سے سب دیکھ رہی تھی۔۔ چہرے کا رنگ پیلے جوڑے جیسا لگ رہا تھا۔۔ یوں جیسا سارا خون خشک ہوچکا ہو۔۔چاروں جانب سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
”آپی آپی۔۔۔ آپ کا فون کب سے بج رہا ہے۔۔“
میزو نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔۔ وہ جیسے ہوش میں لوٹی۔۔۔ میزو اس کا فون تھامے کھڑی تھی۔۔ اس نے خاموشی سے فون پکڑ لیا۔ کوئی انجان نمبر تھا۔۔۔ اس نے فون نہیں اٹھایا۔۔۔ فون پھر سے بجنے لگا تو اسے اٹھانا پڑا۔۔۔
”ہیلو۔۔۔“
وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔
”کوئی کسی کا سکون چھین کر کیسے جی سکتا ہے۔۔؟؟“
ادھم جبیل کی آواز ابھری۔۔۔ وہ جیسے پوری حواسوں میں لوٹ آئی۔۔۔۔
”کیا ملا تمہیں میری زندگی کے ساتھ کھیل کر ایمان۔۔۔؟؟ بتاؤ مجھے۔۔۔؟؟“
ایمان کا دل چاہا وہ اتنی زور سے چلائے کہ دوسری جانب موجود ماثیل دی بت ساز کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں وہ بہرہ ہوجائے۔۔ وہ اپنی سماعت کھو دے۔۔۔۔
اس کے اندر اتنی تکیلف تھی۔۔۔پر وہ چلا نہ پائی۔۔۔
عجیب شخص تھا۔۔۔ خود آج بھی آزاد تھا آج بھی سب کچھ کر رہا تھا اور اس کی وجہ سے آج ایمان کی زندگی داؤ پر لگنے جارہی تھی۔۔۔ وہ کسی ان چاہے شخص کی منکوحہ بننے والی تھی۔۔۔ اس کے ایک فون کال نے ایمان کو ہمیشہ کے لیے سلمی بیگم کی نظروں میں گرا دیا تھا۔۔۔اسے لگتا تھا وہ کبھی سلمی بیگم کے سامنے سر اٹھا کر چل نہیں پائے گی۔۔۔ ظالم تو وہ تھا۔۔۔ظلم تو اس نے کیا تھا۔۔۔
پھر وہ کس سکون کی بات کرنے آیا تھا؟؟
”میں ایک بھی رات سکون سے نہیں سوپایا ہوں۔۔۔۔ مجھے بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔ ایسے لگتا ہے کسی نے میرا وجود اٹھا کر جہنم کی اس آگ میں ڈال دیا ہو جس سے سب ڈرتے ہیں۔۔۔“
”جہنم کی آگ آپ سہہ نہیں پائیں گے مسٹر ادھم جبیل۔۔۔“
سرد لہجے میں اس نے ماثیل کی بات کاٹی۔ دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔
”اور جس بےسکونی کی آپ بات کر رہے ہیں یہ میری وجہ سے نہیں ہے۔۔۔“
”اوہ رئیلی۔۔؟؟ تو پھر کس کی وجہ سے ہے۔۔؟؟؟“
”گناہ کی تپش انسان کو جلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔انسان کے اندر ایسی بےچینی ایسی آگ بھر دیتی ہے کہ انسان اس آگ کو مٹانے کے لیے پھر سے گناہ کرتا ہے۔۔۔ وہ سکون کی تلاش میں نامحرم کے وجود میں پناہ تلاش کرتا ہے۔۔۔ انسان دھوکا کھا جاتا ہے۔۔۔ اسے لگتا ہے خوبصورت جسم اسے سکون مہیا کرتے ہیں جبکہ بےسکونی کی آگ مزید بھڑک جاتی ہے۔۔۔۔یہ آگ آپ کی اپنی لگائی ہوئی ہے مسٹر ادھم جبیل۔۔۔ مجھے اس الزام سے بھری رکھیں۔۔۔“
چند لمحے گہری خاموشی کی نظر ہوگئے۔۔۔وہ کچھ بول ہی نہیں پایا۔
”واٹ ربش۔۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلایا۔
”زنا جسمانی آگ کو تو مٹا دیتا ہے ادھم پر روح کو ہمیشہ کے لیے بھڑکتا چھوڑ دیتا ہے۔۔“
”ایمان۔۔۔۔“ وہ بےیقینی سے بولا۔۔۔ اس کا دل جیسے رک چکا تھا۔۔۔ کیا وہ اس کے اور شنایا کے جسمانی تعلق سے واقف تھی؟؟ یہ خیال ہی روح فرساں تھا۔۔
اگر ہاں تو اس نے کبھی ظاہر کیوں نہیں کیا۔۔۔؟؟؟
وہ تو پہلے ہی پچھتا رہا تھا۔۔۔ پر اب لگتا تھا وہ کبھی اس آگ سے نہیں نکل پائے گا۔
”میں جانتی ہوں آپ کے بےسکون ہونے کی وجہ کیا ہے۔۔۔ پر میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔ یہ آگ آپ نے خود لگائی ہے۔۔۔“
کیسا انکشاف تھا یہ۔۔۔۔ وہ جو خود کو وفادار سمجھتا پھر رہا تھا آج اسے احساس ہوا تھا اصلی بےوفا تو وہ تھا۔۔ محبت کا دعوی کرکے بھی قائم نہ رہ پایا۔
”میری شادی ہورہی ہے۔۔۔۔ میرا آپ سے نہ پہلے کوئی رشتہ تھا نہ اب ہے۔۔۔۔ میری زندگی میں دخل دینا بند کردیں پلیز۔۔“
اس نے فون کاٹ دیا۔۔۔ اور ادھم جبیل کے ہاتھ سے فون پھسل کر جھولی میں گر گیا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ لمحے عذاب جیسے ہوتے ہیں۔۔ ایسے لمحے جن میں ہم ایسا کام کریں جو ہم کرنا نہ چاہتے ہوں۔۔ جہاں ہم مجبور ہوں بےبس ہوں۔۔۔
ایسا ہی وہ ایک لمحہ تھا۔۔ سادہ سا جوڑا پہنے سر پر سرخ دوپٹہ اوڑھے وہ دلہن کہیں سے نہیں لگ رہی تھی۔۔۔چہرے پر حد درجہ پیلاہٹ تھی۔۔۔ جانے کب مشارب کے گھر والے آئے کب اس سے ملے اور کب اس نے نکاح نامے پر سائن کیے وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔۔۔
وہ ساکت تھی۔۔۔ اور ساکت رہنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے چھوئے اور وہ بھربھری ریت کی طرح ڈھے جائے۔۔۔۔
سارے آنسوں وہ اندر ہی پی گئی تھی۔۔۔
اگر ایک پل کے لیے بھی کسی کا خیال آیا تھا تو وہ حاد جبیل تھا۔۔ وہ جو سب ٹھیک کر دیتا تھا۔۔۔ جانے وہ کہاں تھا۔۔ جانے اس میں ایسا کیا تھا کہ ایمان کا دل اگر رویا بھی تھا تو اسی ایک شخص کے لیے۔۔۔
وہ ایک شخص جو اس کا ذرا سا بھی نہیں تھا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
حال میں رہو!
سدھارت گوتم کہتا تھا کہ ”حال“ میں رہنا ذہنی سکون برقرار رکھ سکتا ہے۔ لیکن یہ حال میں رہنا کیا ہے؟مستقبل کی سوچ اور ماضی کا پچھتاوا انسانی دماغ کی خصلت ہے لیکن ہم ذہین مخلوق ہیں، عقل اور منطق سے اپنے آوارہ ذہن کو حال میں لانے کا فن جانتے ہیں، اور میڈیٹیشن بھی یہی فن سکھاتا ہے کہ کس طرح آپ نے” نتائج “ (outcome) سے خود کو الگ (detach) کرکے بس اس ٹاسک پر فوکس کرنا ہے جو آج ہے، جو ابھی ہے اور آپ اسے انجام دے رہے ہیں، میڈیٹیشن آپ کو اسی کی پریکٹس کراتا ہے۔ خود کو نتائج سے الگ کرکے اپنا کام کرنے میں بہت سکون ہے، آپ پریشانی (anxiety) سے ضائع ہونے والی انرجی بچا کر اپنے ٹاسک پر لگا سکتے ہیں۔ یہ پریکٹس ہے اور اس تک جانے کے لیے ٹیڑھے رستے ہیں، پیچیدگیاں ہیں، لیکن یہ ایک فن ہے جس پر عبور حاصل کرنا ہمارے آوارہ دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر کام کرتے وقت یہ سوچنا ”مجھے کیا ملے گا“، ”ٖاسکا کیا نتیجہ ہے“، آپکو اس کام کی گہرائی، جڑ میں جانے سے روکتا ہے۔
ہم اکثر پوچھتے ہیں کہ یہ کروں گا تو کیا ملے گا؟ یوں ہوگا تو کیا ہوگا؟ یہ سوالات یقیناً غلط نہیں لیکن ان سوالات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا آپ کو اپنے مقصد کی جانب اپنا سو فیصد دینے سے روک سکتا ہے، کیونکہ نتائج کی ضرورت سے زیادہ پرواہ آپ کی کریٹوٹی اور پروڈکٹوٹی کو نقصان دیتی ہے، آپ کی قیمتی انرجی تقسیم ہوجاتی ہے اور وہ بھی ایسے سوالات پر جو آپ کے مکمل اختیار میں بھی نہیں!
اور حال میں رہنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔۔۔ وہ تمام لوگ وہ تمام کردار جو ماثیل کی کہانی کا حصے تھے ان میں سے کوئی بھی حال میں نہیں تھا۔۔۔
سب ماضی میں جی رہے تھے۔۔ ادھم، عبدل اور وہ خود۔۔۔
وہ چاہ کر بھی خود کو ماضی سے اس بھیانک جال سے نہیں نکال پارہے تھے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں عبدل کی۔۔۔
عبدل جبیل۔۔۔کہانی کا وہ کردار جو اس وقت غائب ہوجاتا تھا جب اس کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی تھی۔۔
یہ وہ کردار تھا جسے آرجے بننا تھا۔۔ کڑوڑوں دلوں پر راج کرنا تھا اور وہ کر رہا تھا۔۔
وہ اس فیلڈ میں جانا چاہتا تھا تاکہ اپنے باپ کو ڈھونڈ سکے۔۔۔ اسے آرجے پسند تھا جبکہ اسے ڈاکٹر روحان جبیل سے نفرت تھی۔۔ وہ آج بھی اپنے بچپن اپنے ماضی سے نہیں نکل پایا تھا۔۔۔
وہ آج بھی خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا تھا۔۔ اٹھائیس سالا باکسر اور مشہور سنگر آج بھی اپنے غصے پر کنٹرول نہیں رکھ پاتا تھا۔۔ آج بھی اسے اپنے باپ سے بہت سارے شکوے تھے۔۔۔۔ وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا تاکہ اپنے سوالوں کے جواب مانگ سکے۔۔
آخر کیوں اس کا باپ انہیں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا وہ بھی اس وقت جب اسے سب سے زیادہ اپنے باپ کی ضرورت تھی۔۔؟؟
وہ آرجے بننے آیا تھا اور اب وہ بن چکا تھا۔۔۔ اے جے۔۔۔عبدل جبیل ایک مشہور سنگر۔۔۔
لیکن وہ آرجے کی طرح خود کو ایک اچھی لڑکی کے سحر سے نہیں بچاپایا تھا۔۔۔
اور چاہ کر بھی وہ اس لڑکی کی حفاظت نہیں کر پایا تھا۔۔ کیونکہ وہ عبدل تھا۔۔۔ایک سنگ دل۔۔۔ کھڑوس اور لاپرواہ۔۔جسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔۔
پر آج بھی وہ خود کو ایمانے کے ساتھ ویلنسیا کی گلیوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتا تھا۔
کافی دنوں بعد آج وہ ہیزل سے ملنے آیا تھا۔۔ ہیزل اغواء والے واقعے کے بعد دوبارہ کبھی اپنے گھر نہیں گئی بلکہ وہ حاد جبیل کی اکیڈمی سے ملحقہ ریسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں رہ رہی تھی۔۔ وہ ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔ اس کے ساتھ جو ہوا تھا وہ معمولی نہیں تھا۔۔ یہاں وہ محفوظ تھی۔۔ کبھی کبھار وہ کوئی سیشن جوائن کر لیتی تھی۔۔۔ شابز وہ کب کا چھوڑ چکی تھی اور آج کل خود کی تلاش میں تھی۔ اس نے بڑی مشکلوں سے عبدل سے رابطہ کیا تھا اور اس وقت وہ دونوں اکیڈمی کے بیک یارڈ میں تھے۔۔۔ حاد وہاں نہیں تھا اس لیے عبدل وہاں آگیا تھا ورنہ حاد کی موجودگی میں وہ کبھی نہ آتا۔
وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔۔ آج بھی اس نے ایک کان میں بالی پہن رکھی تھی اور اب تو اس نے نچلے ہونٹ کے داہنی جانب بھی چھید کروا کر ایک چمکتا ہوا موتی پہن رکھا تھا۔۔۔ وہ راک اسٹار کے حلیے میں اچھا لگ رہا تھا۔
وہ خاموش بیٹھا تھا۔۔۔۔ بالآخر ہیزل نے ہی سوال کیا۔
”اچھی لڑکیوں سے دور کیوں رہتے ہو؟“
”ڈر لگتا ہے۔۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔
”کس سے؟؟“ وہ الجھی۔
وہ خاموش رہا۔۔۔ خاموشی کا وقفہ لمبا ہوگیا۔
وہ اکیڈمی کی عمارت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ یقیناً ایمانے یہاں چلتی پھرتی ہوگی۔۔۔ یقیناً وہ یہاں آتی رہی ہوگی۔۔۔اور اب ناجانے کہاں تھی۔
”بتاؤ نا کس سے ڈر لگتا ہے؟؟“
”موت سے۔۔۔۔۔ مرنے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ اچھی لڑکیوں سے محبت آپ کو مرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جیسے حشام جبیل مرگیا تھا۔۔۔۔ جیسا آرجے نہیں بچا۔۔۔ جبکہ میں جینا چاہتا ہوں۔۔۔ اور اس کے ساتھ جینے کی تمنا بھی کسی موت سے کم نہیں ہے۔۔۔ “
وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولا اور پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ چہرہ موڑے کھڑا تھا۔۔ نہیں چاہتا تھا اس کی جلتی آنکھوں کو کوئی اور دیکھے۔
”تو تم بھی اچھے انسان بن جاؤ۔۔۔“ وہ سنجیدہ لہجے میں بولی۔
”اس سے کیا ہوگا۔۔۔؟؟“
”شاید وہ مل جائے جسے تم چاہتے ہو۔۔“
اس کی بات سن کر وہ طنزیہ مسکرا دیا۔
”جتنا بھی اچھا بن جاؤں پر حاد جبیل جیسا نہیں بن سکتا۔۔۔۔“
”لیکن ایمانے کی کہانی میں ہیرو تم ہو۔۔ حاد نہیں۔۔۔“
اس نے سچائی سے پردہ اٹھایا۔۔۔ اور یہی سچ تھا۔۔ عبدل سب کے لیے برا سہی پر ایمانے کے لیے اچھا تھا۔
جبکہ حاد جبیل۔۔۔۔ سب اچھا کرکے بھی اس کی کہانی میں برا بن چکا تھا۔۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ جنگ لڑ رہے تھے۔۔ اور ایمانے خود ادھم جبیل کی کہانی میں بری بن چکی تھی۔
”میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔۔“ وہ اس کی جانب مڑا۔
ہیزل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”جھوٹ بولا تھا کہ میں کبھی شراب نہیں پیتا۔۔ جبکہ میں نے پی تھی۔۔۔ایک بار۔۔۔ ایمانے کے سامنے مشہور ڈرنک لی تھی۔۔۔ اس میں شراب تھی اور میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔۔تاکہ وہ جان لے میں ایک شرابی ہوں۔۔۔“
اس نے ایک اور راز سے پردہ اٹھایا۔ ہیزل سے دیکھتی رہی
خالی خالی نگاہوں سے۔
”ایمانے سے اس قدر گریز کی وجہ کیا ہے عبدل۔۔۔؟؟“
وہ اپنے دل پر پتھر رکھتے پوچھ رہی تھی۔۔ وہ اسے پسند کرتی تھی پر عبدل کا جو کنیکشن ایمانے سے تھا وہ آج تک سمجھ نہیں پائی تھی۔
”کیونکہ میں جانتا ہوں اسے پانے کی ساری کوششیں کرکے بھی میں ہار جاؤں گا۔۔۔“
وہ سر جھکا کر مسکرایا۔۔ زخمی مسکان اسکے خوبصورت چہرے پر پھیل چکی تھی۔۔۔اس کی آنکھیں جلنے لگی تھی۔
”اسی لیے اس سے جتنا دور ہو سکے دور جانا چاہتا ہوں پر اس کا خیال ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔۔“
”اور وہ کون ہے جس سے ہارنے کا عبدل کو ڈر ہے۔۔۔؟؟“ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب آئی۔۔۔ سادہ سی شلوار قمیص پہنے یہ ہیزل اس سپراسٹار ہیزل سے بہت مختلف لگ رہی تھی جس کو عبدل جانتا تھا۔
”حاد جبیل۔۔۔۔“
ہیزل اسے زیادہ نہیں جانتی تھی۔۔۔پر اسے بچا کر لانے والا وہی تھا۔ وہ پراسرار سا حاد جبیل۔۔۔
”کیوں۔۔۔۔ایسا کیوں ہے۔۔؟؟“
”کیونکہ تم اس کی کہانی سے ناواقف ہو۔۔۔۔“
اس نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔۔ سینے کے مقام پر ہونے والی جلن کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
”ویسے بھی خاص لوگ خاص لوگوں کے لیے ہیں۔۔۔“
وہ دھیرے سے مسکرایا اور پھر ہیزل کو وہیں چھوڑ کر گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔ وہ اسے جاتا دیکھ رہی تھی جبکہ دماغ میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا۔۔۔
”حاد جبیل آخر ہو کون تم۔۔۔؟؟“
✿••✿••✿••✿
اسٹائک کہتے ہیں انسان فطرتاً ایسی چیزوں کی طرف جھکتا ہے جو اسکی زندگی کو بہتر بناتے ہیں، جیسا کہ اچھا کھانا، دولت، اچھے دوست اور ہمسفر، جو کہ ہر گز غلط نہیں، کیونکہ اگر انسان بہتر سے بہترین کی تلاش میں نہ ہوتا تو آج ہم اس ڈیجیٹل انقلاب تک نہ پہنچتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان سب چیزوں کا حصول یا انہیں کھو دینے کا ڈر ہمیں پریشانی (anxiety) کی حالت میں رکھتا ہے۔ جب کہ اسٹائک کا ماننا ہے کہ انسان کی خوشی کا دارومدار باہری اشیاء سے زیادہ اسکی ذہنیت (mindset) پر ہوتا ہے، آپ کا وہ دوست جو آپ سے زیادہ کامیاب ہے لیکن مطمئن نہیں، اور اسے ہمیشہ مستقبل کی سوچ ستاتی ہے، آپ اپنے کچھ منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن مستقبل کی سوچ آپ کو روکے رکھتی ہے، چونکہ ہم مستقبل کو قابو نہیں کرسکتے تبھی اسے سوچ کر ہلکان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، اسٹائیسزم ہمیں نتائج (outcome) کی اس سے ہونے والی پریشانی (anxiety) سے لڑنے کے کچھ طریقے بتاتا ہے، اسٹائک فلاسفر سینیکا ہمیں تجویز کرتا ہے کہ جن حالات یا معاملات سے آپکو خوف آتا ہے یا پریشانی ہوتی ہے، اسکا وقت آنے پر سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی اسکی پریکٹس کی جائے۔ سوچئے آپ کو کس بات کن حالات سے خوف آتا ہے؟ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ اگر آپ سج سنور کر باہر نہیں گئے تو کوئی آپ کو اہمیت نہیں دے گا؟ ایک دن اپنے اس خوف کا سامنا کریئے اور یونہی عام سے کپڑوں اور حالت میں باہر جائیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ آپ کو اکیلے رہنے سے ڈر لگتا ہے؟؟ کبھی کبھار اکیلے رہ کر دیکھیے، بنا دوستوں کے باہر جا کر دیکھیے۔ ڈر لگتا ہے کہ فلاں چیز نہ رہی تو کیسے گزارا کروں گا؟ ایک دن اسکے بغیر رہ کر دیکھیے۔ کسی خاص جگہ، اسٹیٹس، لوگ، کھانا، چیز سے اٹیچمنٹ ہے تو کسی دن ان کے بغیر رہنے کی پریکٹس کریں۔
وہ آج پھر آنلائن سیشن لے رہا تھا اور اسے سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔
ڈاکٹر وکٹر فرینکل کی مشہور تھراپی ”متضاد ارادہ“ (paradoxical intention) میں آپ اپنے خوف یا پریشانی سے بھاگتے یا اسے دباتے نہیں بلکہ بہت سہل انداز میں آہستہ آہستہ اسکا سامنا کرتے ہیں۔ اور سدھارت گوتم بھی ہمیں اپنے جذبات یا احساسات کو دبانے یا اگنور کرنے کی بجائے اسکا مشاہدہ کرنا سکھاتا ہے میڈیٹیشن کے ذریعے۔سینیکا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکا تعلق اشرافیہ طبقہ سے تھا، ایک امیر آدمی کے لیے سب سے بڑا خوف دولت کا چھن جانا ہے، سینیکا کبھی کبھار سوکھی روٹی پانی کے ساتھ کھاتا اور زمین پر سوتا اور خود سے کہتا کہ ”کیا یہی وہ زندگی ہے جس کا خوف مجھے ہر وقت پریشان رکھتا ہے، اسے جی کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کس حد تک تکلیف ہے۔“ اگر آپکو کوئی چیز پریشان، فضول، خوف دیتی ہے تو زندگی میں ایک بار اسکو آزمائیں ضرور۔۔۔ کیا پتہ آپکا خوف ہی آپکا ٹیلنٹ ہو!
”مطلب ہمیں بالکل خوفزدہ ہوجانا چاہیے۔۔؟؟ ہر طرح کے خوف سے آزاد۔۔۔؟؟“
سوال ابھرا تھا۔
”جن باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کے خوف سے نکل آئیں۔۔۔صرف ایک واحد ہستی کا خوف رکھیں۔۔۔ اور جب آپ صرف خدا سے ڈریں گے تو باقی سارے خوف آٹومیٹک آپ کی زندگی سے نکل جائیں گے۔۔ کسی چیز کے چھن جانے کا خوف نہیں ہوگا۔۔۔ نہ مستقبل کا خوف نہ ماضی کا ڈر۔۔۔۔!!“
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔۔۔“
یہ وہ جملہ تھا جو اسے چین سے جینے نہیں دیتا تھا۔۔ نہ وہ سو پاتا تھا نہ وہ سکون سے رہ سکتا تھا۔۔۔
اچانک یونہی جب وہ اپنے کام میں مگن ہوتا تو دو بھیگی آنکھیں چھم سے اس کے سامنے آجاتی تھیں اور سماعت میں گونجنے والا یہ جملہ اس کے ادھیڑ کر رکھ دیتا تھا۔۔ اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔۔ اس کے جبڑے بھنچ گئے۔۔۔ گرے میں آنکھوں میں عجیب سا ملال اترا۔۔۔ اور بھی کچھ سوال تھے پر وہ شاید جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا اسی لیے خاموشی سے آفلائن ہوگیا۔
✿••✿••✿••✿

5 Comments

  1. when will be the next episode uploaded

    ReplyDelete
    Replies
    1. Don't know, hope it will be released soon.

      Delete
  2. Next episode kb upload ho gi?

    ReplyDelete
    Replies
    1. next episode is already uploaded
      https://www.urdunovelbanks.com/2024/04/maseel-novel-episode-41-part-01.html

      Delete
  3. Es episode ko hum download nahi kr skty kiaaa?

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post