کہانی شروع ہوتی ہے ابراہیم،ہادی اور طلال کے پاگل خانے سے بھاگ جانے سے ۔وہ تینوں خودکشی کرنا چاہتے ہیں ۔یہ تینوں زندگی کا فرض نبھائے بغیر موت کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہادی بس ہر حال میں مرنا چاہتا ہے جبکہ ابرہیم کچھ آکسائیٹنگ سی موت چاہتا ہے ۔اور طلال وہ برگر بچہ ہے جو بس ان دونوں کے کسی فیصلے پر پہنچنے کی تلاش میں ہے۔ تو یہ تینوں مرنے کیلیے کھیوڑہ مائنس جاتے ہیں وہاں آپس میں لڑ بھی پڑتے ہیں ۔وہاں ان کی ملاقات امام دین سے ہوتی ہے جو ان کو اپنی امانت دیتا ہے اور بدلے میں وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کو مرنے کی ترکیب بتائے گا ۔کیا یہ تینوں موت کے ارادے سے باز آجائیں گے؟ کیا وجہ ہے جو ماں باپ کا شاہین ، ایشیا کا بیسٹ ریسلر اور پاکستان کا بزنس ٹائیکون موت سے ملنے کو بے چین ہیں؟
سمیرا حمید لکھتی ہیں کہ زندگی موت کے شکنجے میں دم توڑنے لگے تو بھی شیر بن کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دو اور یہی جملہ پوری کہانی کا متن ہے۔ کرداروں کی بات کی جائے تو ہر کردار منفرد تھا اور ہر کردار قاری کو اپنے قریب لگتا ہے ۔ مصنفہ کا طرزِ تحریر نہایت سادہ اور پر لطف ہے۔کہانی کا موضوع بیشک سنجیدہ ہے پر بہت سی جگہوں پر ان کے لکھنے کے انداز کی وجہ سے ہنسی آگئی ۔مجھے ہادی کا کردار تینوں میں سب سے عزیز ہے اس کی بہت پٹائی ہوئی ہے۔بھا کا کردار، بھا کی حویلی کہانی کی جان ہے ۔ بھا کا کردار اس ملک کی ثقافت کی کہانی ہے ۔
ان کی باتوں نے میرا دل موہ لیا ۔مجھے ایسا لگا کہ کہانی تو ان تینوں کی ہے پر بھا کی باتیں میرے لیے ہیں۔اس کے علاؤہ صالحہ کا کردار بہت پیارا ہے اس کی بناوٹ اور اس کو لکھنے کا انداز قابل ستائش ہے۔اور میں یوسف کو کیسے بھول جاؤں وہ ثانوی کردار ہے پر بہت اچھا ہے۔ امام دین کا ہر لفظ گوہر نایاب ہے۔کہانی کا آخر بہت جاندار ہے اور اینڈ پر جو ٹوسٹ ہے وہ تو بہت مزے کا ہے ۔