Maseel novel episode 40 (part 01)

Maseel novel episode 40 part 01

 
مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
#قسط_نمبر_40 #پارٹ1
نور_راجپوت


آگاہی انعام ہے۔۔!!
وہ جب حواسوں میں لوٹی تو خود کو ایک اندھیری جگہ پر پایا۔۔۔ کئی لمحے تو ہیزل کو یہ سمجھنے میں لگ گئے کہ وہ جاگ رہی ہے یا خواب دیکھ رہی ہے۔۔ پر سر میں اٹھنے والی درد کی ٹیس نے اسے کراہنے پر مجبور کردیا۔۔ یہ گودام نما جگہ تھی جہاں چاروں جانب عجیب سی بو پھیلی تھی۔
اسے یاد تھا وہ گاڑی میں بیٹھی ایمان کا انتظار کر رہی تھی جب ایک مانگنے والے نے گاڑی کے شیشے پر دستک دی۔۔۔ اسکے دروازہ نہ کھولنے پر وہ بار بار ہاتھ مارتھا رہا۔۔ اور جیسے ہی اس نے شیشہ نیچے کیے کسی نے فوراً اس کے سر پر بھاری وزنی چیز ماری۔۔ وہ کراہ اٹھی۔۔ وہ مزاحمت ہی نہ کر پائی اور پھر اگلے ہی پل اسے بےہوشی کی دواء سونگھا کر اغواء کرلیا گیا تھا۔۔۔ جہاں ماثیل انسٹیٹوٹ تھا وہاں زیادہ آبادی نہیں تھی۔۔ اس وقت گلی سنسان تھی جب اسے اغواء کیا گیا۔۔ کس نے کیا تھا کیوں کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ وہ خود بھی نہیں۔۔
اسے کرسی سے باندھا گیا تھا۔ وہ اندر سے بری طرح ڈر چکی تھی۔۔۔ اس کے بہت سارے دشمن بن چکے تھے۔۔۔۔شابز چھوڑنے پر اس نے جن لوگوں کو کام کرنے سے منع کیا تھا وہ سب ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز بری طرح تپے پڑے تھے۔۔ وہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے۔۔۔ اسے شالی نے سمجھایا تھا کہ وہ اکیلی کہیں نہ جائے۔۔۔اسے عبدل نے بھی خبردار کیا تھا۔۔۔ پر اس نے سر سے ٹال دیا تھا۔۔ اور آج وہ قید میں تھی۔
”کون ہو تم لوگ۔۔۔کھولو مجھے۔۔۔“ وہ ہاتھ پاؤں ہلاتی زور سے چلائی۔ کچھ دیر گودام کی ساری بتیاں جل اٹھیں۔
تیز روشنی اس کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اس نے فوراً آنکھیں بند کیں۔۔۔ کچھ دیر بعد کھولیں تو چاروں جانب دیکھا۔۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ یہ ایک گودام تھا۔۔ جہاں چاروں جانب گندم اور چاول کے تھیلے رکھے ہوئے تھے۔۔ اچانک اسے اپنے پاؤں کے انگوٹھے پر چبھن کا احساس ہوا۔۔ اس نے نیچے دیکھا تو ایک موٹا تازہ چوہا اسے کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
ہیزل کی دل دہلا دینے والی چیخ ابھری تھی۔۔ اس نے پاؤں کو جھٹکا دیا اور دونوں پاؤں اوپر اٹھا لیے۔۔۔اس نے بہت سارے موٹے چوہوں کو چاروں جانب بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا۔۔۔ پہلے تو اسے ابکائی آئی پر اگلے ہی پل اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔ وہ کرسی سے بندھی ہوئی تھی۔۔۔نہ اٹھ سکتی تھی کہ بھاگ سکتی تھی۔۔ کیا ہوتا اگر وہ سارے چوہے اس کی جانب آنے لگتے۔۔۔؟؟ اس کے جسم پر رینگتے یا پھر اسے کاٹتے۔۔۔۔؟؟
کوئی اس کے سر پر گن رکھ کر گولی مار دیتا تو شاید وہ اتنا نہ ڈرتی جتنا جان لیوا یہ احساس تھا کہ کیا ہوتا اگر چوہے اسے کاٹنے اور کترنے لگتے۔۔۔۔؟؟
”مجھے یہاں سے باہر نکالو۔۔ پلیز۔۔۔“
دہشت سے اس کا جسم پسینے سے بھیگنے لگا۔ دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا۔۔ اس کا خوبصورت نرم ملائم جسم کانپ رہا تھا۔۔۔۔
چاروں جانب پھیلی بدبو اور موٹے موٹے بھاگتے چوہے اس کی جان نکال رہے تھے۔۔
وہ چیختی رہی پر کوئی نہ آیا۔۔ اور پھر اس نے دیکھا وہ چوہے اس کی جانب بڑ رہے تھے۔۔
وہ اچھلنے لگی۔۔ خود کو چھڑانے لگی۔۔ حلق کے بل چلانے لگی۔۔ کوئی نہ آیا۔۔۔۔ نہ وہ خود کو چھڑا پائی۔۔۔
اس وقت خوفناک منـظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جب اس نے چوہوں کو کرسی سے اوپر کی جانب چڑھتے دیکھا۔ ایک اس کی ٹانگ پر چڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔ ہیزل کو لگا وہ اب سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔ اسے لگا تھا اسے ہارٹ اٹیک ہوجائے گا وہ مرجائے گی۔۔۔ اس نے شدت سے چاہا تھا وہ مرجائے۔۔۔پر وہ نہ مری۔۔۔ وہ گلا پھاڑ کر چلاتی رہی۔۔۔۔ اس نے پوری ہمت کرکے کرسی کو جھٹکا دیا۔۔۔۔۔
وہ دائیں جانب گری۔۔ چوہے بھاگ گئے۔۔۔ اس کا سر زمین پر لگا۔۔۔ سر پھٹ چکا تھا۔۔ وہ اب کرسی سے بندھی ایک جانب پڑی تھی۔۔۔ شور کی آواز سن کر سارے چوہے ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔۔۔ وہ پھٹی پھئی نگاہوں سے پڑی رہی۔۔۔ پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔۔
ہیزل ملک۔۔۔دی سپر اسٹار۔۔۔ جو اپنی مرضی کی مالک تھی۔۔۔جس نے لوگوں کو ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے تب تک استعمال کیا جب تک اسے ضرورت تھی۔۔۔ وہ ہیزل ملک جو جادوگرنی کے نام سے مشہور تھی۔۔ جو گھمنـڈی تھی۔۔۔ جس کی ایک اشارے پر سب رک جاتا تھا۔۔ وہ ہیزل ملک جس نے اپنی مرضی سے شہرت چنی اور اپنی مرضی سے ٹھکرادی وہ ہیزل ملک آج اس مقام پر تھی کہ اس کے جسم پر چوہے رینگ رہے تھے۔۔۔
وہ کئی لمحے سن لیٹی رہی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔چھبیس ستائیس سالا زندگی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگی تھی۔
یہ تو طے تھا اسے جس نے بھی وہاں قید کیا تھا اس کا مقصد صرف ہیزل کو ڈرانا تھا تاکہ وہ اپنی بات منوا سکے۔۔۔پر یہ کون تھا اور یہ سب کیوں کر رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔
وہ پہلی بار بےطرح روئی تھی۔۔ پہلی بار اس نے پورے دل سے اتنا خوف محسوس کیا تھا۔۔پہلی بار اسے کسی سے اتنا ڈر لگا تھا۔۔ اور وہ ذات خدا کی تھی۔۔۔۔
اور پھر ٹک کی آواز سے مزید روشنیاں جل اٹھیں۔۔ اس نے لیٹے لیٹے بھاری بوٹوں کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔۔۔
ایک دو تین چار۔۔۔ جانے کتنے لوگ اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔وہ یونہی پڑی روتی رہی۔۔۔
”چچچچچچ۔۔۔ ذرا دیکھو تو۔۔۔۔ ہیزل ملک کو۔۔۔ ہالی ووڈ کی مووی کرنے والی دی سپر اسٹار کو۔۔۔کیسے بےبس پـڑی ہے۔۔“
ایک گنجا شخص افسوس سے کہتا اس پر جھکا۔۔۔ وہ اس کی آواز سے اسے پہچان گئی تھی۔ یہ ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ ہیزل کا ایک پرانا دوست تھا جس سے وہ بہت پہلے پرسنل اور پروفیشنل دونوں تعلق ختم کر چکی تھی۔
حال ہی میں اس نے ہیزل سے اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ اس نے ہیزل کو ایک فلم آفر کی تھی جس میں کچھ ایسے سینز تھے جن کی بنا پر ہیزل نے انکار کردیا۔۔ یہ ڈائریکٹر لوپز تھا جس کے بہت سے فوٹو شوٹ اس نے رد کیے تھے۔
”صرف تمہاری وجہ سے میرا جتنا نقصان ہوا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ تمہیں یہ سارا نقصان بھرنا ہوگا۔۔۔“
لوپز اچھا انسان نہیں تھا تبھی ہیزل نے اس سے دوستی ختم کی تھی پر وہ اس قدر گرا ہوا تھا یہ اسے آج پتہ چلا تھا۔ اس نے اپنی سسکیوں پر قابو پاتے سرخ آنکھوں اور خون آلود پیشانی سے اسے گھورا۔۔۔
”رسی جل گئی پر بل نہ گئے۔۔“
وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑ ہوا۔
”آج یہاں ہر طرح کا فوٹو شوٹ ہوگا۔۔۔ کیمرے لگاؤ۔۔۔“
وہ پرلطف انداز میں بولا۔۔۔ دو لڑکوں نے آگے بڑھ کر اس کی کرسی اٹھا سیدھی کی۔۔۔
”ویسے بھی تم شوبز چھوڑ چکی ہو۔۔ جاتے جاتے میرا کام ہی کر جاؤ۔۔۔“ وہ ایک آبکھ دباتے خباثت سے مسکرایا۔
”تمہارے پاس دو آپشنز ہیں۔۔۔ میری مووی کرو ان تمام سینز کے ساتھ جن کی بنا پر تم نے مووی ریجیکٹ کی تھی۔۔ یا پھر اسی گودام میں تمہیں چوہوں کا شکار بننا پڑے گا۔۔۔پر اس سے پہلے ہم تمہارے ایسے فوٹو شوٹس کریں گے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔“
دوست جب دشمن بن جائے تو وہ شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔۔ اور اس لوپز انسانیت کے درجے سے بہت نیچے گر چکا تھا۔ ہیزل خاموشی سے سب سنتی رہی۔۔۔
اس کی آنکھوں میں آنسوں کسی انسان کے ڈر سے نہیں تھے۔۔۔بلکہ آج اسے کوئی اور ذات شدت سے یاد آرہی تھی۔
یہ تو طے تھا کچھ بھی ہوجاتا ہیزل واپس نہیں جانے والی تھی۔۔۔وہ جس فیلڈ کو چھوڑ آئی تھی وہ دوبارہ اس میں قدم نہی رکھنا چاہتی تھی۔
”تمہیں لگتا ہے تم مجھے ڈرا کر اپنا مقصد پورا کرلو گے۔۔؟“ وہ کسی زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
”ڈر تو تم چکی ہو۔۔۔ بس اب تمہاری ہاں باقی ہے۔۔“
اس نے ایک لڑکے کو اشارہ کیا تو وہ کنٹریکٹ لے کر آگےبڑھا۔۔
”اس پر سائن کرو اور عزت کے ساتھ واپس جاؤ۔۔۔“
یہ مووی کا کنٹریکٹ تھا جو وہ اس سے سائن کروانا چاہ رہا تھا۔۔
تبھی کسی نے گودام کا دروازہ جھٹکے سے کھولا۔۔۔ وہ سب چونک گئے۔۔۔ دوچار آدمیوں نے اپنی پستولیں تان لیں۔ آنے والے اندر آتے ہی دروازہ بند کردیا۔
”ہلنا مت ورنہ گولی مار دوں گا۔۔۔“ ٹریگر پر انگلی رکھتے ایک ہٹے کٹے بدمعاش نے دروازہ پر کھڑے شخص سے کہا جس کے سر پر ٹوپی جمی تھی۔
اس نے گردن اٹھا کر ان لوگوں کو دیکھا۔۔۔
”او مائے گاڈ۔۔۔ تم لوگ اتنی بدبو میں کیسے کھڑے ہو۔۔“ وہ ناک پر ہاتھ رکھتا آگے بڑھا۔۔
”میں نے کہا وہیں رکو۔۔۔“
گن تھامے شخص نے گولی چلائی پر نشانہ دیوار کا لیا تاکہ وہ ڈر کر رک جائے۔ وہ ان سب کے لیے انجان شخص تھا جس کے ہونٹ اور آنکھ پر بندھی تھی۔۔ بال پیشانی پر بکھرے پڑے تھے۔۔۔حلیے سے وہ کوئی ٹین ایج لڑکا لگ رہا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے میں رک جاتا ہوں پر مجھے مسٹر لوپز کو کچھ دکھانا ہے۔۔یہ ایک ویڈیو ہے۔۔“
اس نے پینٹ کی جیب سے فون نکالا۔۔ کوئی ویڈیو تھا۔۔ اس نے فون آگے کیا۔۔۔ لوپز کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔۔۔ انہوں نے اتنی رازدای سے یہ کام کیا تھا پھر وہ لـڑکا وہاں کیسے پہنچ گیا تھا۔۔۔اور اسے پتہ کیسے چلا۔
”دیکھ لیں یہ آپ کے کام کی ویڈیو ہے۔۔“
ایک لڑکا آگے آیا۔۔۔اس سے فون لے کر لوپز کے پاس گیا۔۔ جیسے ہی لوپز نے ویڈیو دیکھا اس کی آنکھیں پھٹ پڑیں۔
”پاپا۔۔۔پاپا پلیز ہیلپ می۔۔۔“
یہ لوپز کی آٹھ سالا بیٹی تھی جو کرسی پر بندھی تھی۔ لوپز کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔
”میری بیٹی کہاں ہے۔۔۔؟؟“ لوپز نے فون زمین پر دے مارا۔۔۔وہ اس کی جانب غصے سے بڑھا۔
”اونہوں۔۔۔ تم آگے بڑھے تو اپنی بیٹی کے لیے مشکلیں بڑھا دو گے۔۔۔“ اس بار اس کا لہجہ بہت ہی سرد سپاٹ سا تھا۔۔۔کچھ دیر پہلے نظر آنے والا ٹین ایج لڑکا غائب ہوچکا تھا اور اب ان کے سامنے ماسٹر مائنڈ کھڑا تھا۔۔ جو نہ کسی کو ہاتھ لگاتا تھا اور نہ خود کو لگانے کی اجازت دیتا تھا۔
”جان کے بدلے جان۔۔۔ اگر تم چاہتے ہو تمہاری بیٹی بچ جائے تو ہیزل کو عزت کے ساتھ جانے دو۔۔“
لوپز نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔ اس نے سوچا ہی نہیں تھا ایسا بھی کچھ ہوگا۔ بیٹی سے بڑھ کر تو کچھ نہیں تھا۔۔۔اس نے ہیزل کو کھولنے کا اشارہ کیا۔۔۔ جو حیرت سے اس کیپ والے لڑکے کو دیکھ رہی تھی کو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔۔۔اسے ضرورت ہی نہیں تھی۔۔وہ جانتا تھا ہیزل وہ خود اس تک لے آئیں گے۔ اور یہی ہوا۔۔۔ ایک لڑکا اسکی رسیاں کھول کر اسے سہارا دیتا اس تک لایا۔
”میری بیٹی کہاں ہے۔۔۔؟؟“ لوپز نے اپنے خوف پر قابو پاتے جبڑے بھینچتے کہا۔
”تمہاری بیٹی تمہارے گھر پہنچ جائے گی اگر تم نے کچھ غلط حرکت نہ کی۔۔“
سرد لہجے میں انہیں وارن کرتا وہ ہیزل کو لے کر باہرنکل آیا۔ کوئی اسے روک نہ پایا۔۔۔کوئی روک سکتا ہی نہیں تھا۔
اس نے باہر نکل کر ہیزل کو رومال دیا جسے ہیزل نے اپنی پیشانی پر رکھا جہاں تک خون بہہ کر خشک ہوچکا تھا۔وہ اسے لے کر گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔ہیزل اسے نہیں جانتی تھی پر یہ سمجھ گئی تھی وہ اس کے لیے مسیحا بن کر آیا تھا۔۔۔
وہ سارے راستے خاموش رہی۔۔ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھے بیٹھی رہی۔۔۔وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا۔۔۔اب اس نے چہرے سے پٹی اتار پھینکی تھی۔
ہیزل کے دماغ میں اب تک وہی منظر چل رہا تھا۔
”مجھے لگا تھا میں قبر میں ہوں۔۔“ وہ بند آنکھوں سے ہولے سے بڑبڑائی۔
”قبر کے مناظر اس سے بھی خوفناک ہوتےہیں۔۔۔“
ہیزل نے تڑپ کر آنکھیں کھول دیں۔۔ اسی خوف نے اسے حلق کے بل چلا کر رونے پرمجبور کیا تھا۔۔۔اسی خوف نے اس کی جان نکال دی تھی۔
”قائم رہنا۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے مشکل کام۔۔۔“
وہ سامنے دیکھتے گاڑی چلا رہا تھا۔
”میں قائم رہنا چاہتی ہوں۔۔۔“
وہ ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
”جو قائم رہتے ہیں خدا انہیں رسواء نہیں ہونے دیتا۔۔۔ تم قائم رہنا چاہتی ہو اسی لیے مجھے تمہاری مدد کے لیے بھیجا گیا۔۔۔ “
”کون ہو تم۔۔۔؟؟“
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
”حاد جبیل۔۔۔عبدل جبیل کا بھائی۔۔“
وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔جبکہ آنکھیں سامنے سڑک پر جمی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
ایک مہینے بعد۔۔۔۔
وہ عبدل تھا۔۔۔ جس کے ریلیز پلے سونگ نے دنیا میں ہلچل مچادی تھی۔۔۔ اس کی آواز، اس کی ایکٹنگ، اس کا فالن اینجل کا کردار ، اس کا درد اور اس کا حلیہ۔۔۔
لوگوں کو آرجے یاد آگیا تھا۔۔۔۔ وہ راتوں رات جیسے پورے سوشل میڈیا پر چھا گیا تھا۔
چاروں جانب ایک ہی نام تھا۔۔۔ عبدل دی فالن اینجل۔۔۔
آج اس کا کنسرٹ تھا۔۔۔ اتنی عوام اس نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔۔ وہ اسٹیج پر کھڑا تھا۔۔ سپاٹ لائٹ کی روشنیوں میں۔۔۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اس واقعے کو۔۔۔ اس نے ایک مہینے سے ایمانے کی خبر نہیں لی تھی۔۔۔وہ حاد سے نہیں ملا تھا۔۔ اس نے ہیزل کو فون کیا تھا۔۔۔
وہ گم ہوگیا تھا ایک ایسی دنیا جہاں وہ اپنے سارے درد بھول جانا چاہتا تھا۔۔۔ جہاں وہ بھول جانا چاہتا تھا کہ ایمانے نامی لڑکی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔۔۔
پر وہ بھول نہیں پاتا تھا۔۔ ایک پل کو نہیں۔۔۔ وہ ایک پل بھی اسے ذہن سے نہیں نکال پایا تھا۔۔
وہ حیران تھا۔۔۔ اس نے اتنا اطمینان کبھی کسی کے چہرے پر نہیں دیکھا تھا جتنا اسے ایمانے کے چہرے پر نظر آتا تھا۔۔ پتا نہیں ایمانے نے حاد کو کیا سزا سنائی تھی۔۔ پتا نہیں وہ واپس جاچکی تھی یا نہیں۔۔۔ پتا نہیں ادھم جبیل سہہ پایا تھا یا نہیں۔۔ پتا نہیں حاد جبیل کیا پلان کر رہا تھا۔۔۔
وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔۔ وہ جاننا چاہتا بھی نہیں تھا۔۔
وہ تو خود الجھا ہوا تھا۔۔۔
تیز اسپاٹ لائٹ کی روشنی اور بےپناہ ابھرتے شور میں وہ چونک کر جیسے حال میں پلٹا۔۔۔ اس کے سامنے ایک بڑا مجمع تھا۔۔۔۔ ایک مہینے میں اس نے بےپناہ شہرت حاصل کی تھی اور آج اس کا کنسرٹ تھا۔۔ اس کے چاروں جانب لاتعداد عوام تھی پر اتنی عوام میں بھی وہ اکیلا تھا۔۔
اس کے لمبے بال آدھے پونی میں قید تھے تو چند نیلی لٹیں چہرے کے دونوں جانب بکھری ہوئی تھیں۔
آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ اپنی خوبصورت آنکھوں میں ابھرتے درد کو سب سے چھپا گیا تھا۔
ٹیٹو والے کسرتی بازو اور بھرپور سراپا لوگوں کو ہوٹنگ پر مجبور کر رہا تھا۔
وہ کافی شاپ پر بیٹھی تھی۔۔ کرسی سے ٹیک لگائے۔۔۔ نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ کچھ لکھنے میں مگن تھی۔
جھکی تیری پلکوں میں
مل جائے مجھے پناہ۔۔۔۔
اس نے آواز کا ایسا جادو جگایا کہ لوگوں کو ہیپناٹائز کر دیا۔۔۔
لوگوں کے ہجوم سے دور۔۔ بہت دور۔۔۔ وہ اکیلی کھڑی تھی۔۔ کندھے پر آرجے کا بیگ لٹکائے۔۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی کامیابی پر دل و جان سے خوش تھی۔
پلکیں گھرے آنکھوں بھری
رہ جائے میرے نشاں۔۔۔
صرف گٹار کی دھن پر گاتا عبدل عوام کو پاگل کر گیا تھا۔
ٹوٹے دل کی مت کر
تو فکر میرے ہمنواء۔۔۔
وہ مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ اتنی مسکراہٹ اتنی پرخلوص تھی جتنی وہ خود۔۔۔
حاد نے اس کا دل توڑ دیا تھا۔۔۔اس پرفیکٹ لڑکے نے جو اسے ہمیشہ سے عزیز تھے۔۔۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ کھڑی مسکا رہی تھی۔
خاک میں مل جاؤں میں
جیسے کہ اک لمحہ۔۔۔
وہ پلٹ گئی تھی۔۔۔اسے پلٹ جانا تھا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس سے بہت دور جا رہی تھی۔
عبدل نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔ وہ کہیں بھی نہیں تھی۔۔۔۔ وہ اسے ہجوم میں ڈھونڈ رہا تھا۔۔
پر وہ ایمانے تھی۔۔۔وہ اسے ہجوم میں نہیں ملنے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ایک مہینے میں تیس دن ہوتے ہیں۔۔۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے۔۔۔اور ایک گھنٹے میں کئی لمحے۔۔۔ اور وہ ہر لمحہ مری تھی۔۔۔پل پل۔۔۔ سلمی بیگم کا چہرہ اسے ہمیشہ وہ وعدہ یاد دلاتا تھا جو اس نے ان سے کیا تھا کہ وہ کبھی نہیں بھٹکے گی۔۔۔وہ کبھی کسی غیر شخص کو اپنی زندگی میں جگہ نہیں دے گی۔۔۔یہ کہ وہ قائم رہے گی۔۔۔
اسے یاد تھا جب وہ واپس آئی تھی اسے پاکستان آئے ابھی دس دن ہوئے تھے۔۔۔ وہ نماز پڑھ رہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔۔۔ بیڈ پر پڑا اس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔۔۔ سلمی بیگم نے جب دیکھا تو فون اٹھا لیا۔۔۔
”بہت سکون میں ہو نا تم۔۔۔۔ میرا چین برباد کرکے۔۔۔“
ماثیل کی آواز ابھری تھی۔۔۔اور اس آواز میں بہت کچھ تھا۔۔۔ غصہ درد اور شکوے سب کچھ۔۔۔
”کون۔۔۔؟؟“
سلمی بیگم کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ دوسری جانب وہ ٹھٹک گیا۔۔۔ آواز تو ایمان کی تھی۔
”ایمان سے بات کرنی ہے۔۔۔“
وہ اخلاقیات کا قائل نہیں تھا۔۔ اس نے پوچھنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ کون تھیں۔
”ایمان نماز پڑھ رہی ہے۔۔“
سلمی بیگم نے سادہ لہجے میں جواب دیا۔
”نماز۔۔۔ واؤ۔۔۔“ دوسری جانب سے تضحکہ آمیز لہجے میں کہا گیا۔۔۔اور پھر اس کا قہقہہ ابھرا۔۔
”اس سے پوچھنا ایسے نمازیں قبول ہوجاتی ہیں۔۔۔؟؟“
طنز ہی طنز تھا۔ سلمی بیگم نے نماز پڑھتی ایمان کو دیکھا۔ وہ خاموش ہوگئیں۔
”آپ یقیناً وہی ہستی ہیں جس کے لیے اس نے میرے دل سے کھیلا۔۔۔ یقیناً آپ اس کی مدر ہیں۔۔ اسے بس اتنا کہہ دیجیے گا کہ وہ میری خدا سے نفرت کی ایک اور وجہ ہے۔۔۔“
کہہ کر فون بند کردیا گیا۔۔۔ سلمی بیگم نے حیرانی سے فون کو دیکھا۔۔۔
ایمان نے سلام پھیرا۔۔۔ پھر اس نے سلمی بیگم کو دیکھا۔۔
”یہ کون تھا کیا کہہ رہا تھا؟؟“
سلمی بیگم کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔ وہ یہ تصور ہی نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کی بیٹی کبھی کچھ غلط کر سکتی تھی۔ ایمان نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ جن کے چہرے پر خوف کے آثار واضح تھے۔۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا جلد یا بدیر۔۔۔
”نماز پڑھ کر بتاتی ہوں۔۔“ اور ام ایمان بنت عبداللہ اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
اس نے پھر سے نیت باندھ لی۔۔۔۔ سلمی بیگم اسے دیکھتی رہی۔۔ وہ اسی جگہ بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہیں۔۔
ایمان نے نماز پڑھی اور دعا مانگ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔اس کے پاس اب مانگنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔سوائے اس کے
”اے اللہ مجھے بخش دے۔۔۔“
وہ اٹھ کر ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی۔۔
”یہ کون تھا کیا کہہ رہا تھا۔۔۔میرا دل بہت ڈر رہا ہے۔۔۔“
اور ایمان جو اپنی ماں کو اس پریشانی سے بچانا چاہتی تھی۔۔۔اس نے انہیں سب سچ بتادیا۔۔۔
کیسے ادھم جبیل کے باپ نے اسے فون کیا۔۔۔کیسے سلمی بیگم کے آپریشن کے پیسے دیے۔۔ کیسے اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ واپس پلٹ آئے۔۔۔اور کیسے ایمان اسے اپنا نہیں پائی۔۔
حاد جبیل والے حصے کو وہ بالکل چھپا گئی۔۔۔ نہ یہ بتایا کہ اسے استعمال کیا گیا۔۔۔نہ یہ بتایا کہ اس کے ساتھ کیا کیا ہوا۔
”وہ اچھا انسان ہے امی۔۔۔پر میں ایک اور عبداللہ ہاشم کو برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔“
وہ سر جھکائے کہہ رہی تھی جبکہ سلمی بیگم حیرانی سے اسے دیکھے جارہی تھیں۔
انہوں نے یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ ان کی بیٹی کی زندگی میں کوئی مرد نہیں آئے گا؟؟
وہ کیسے بھول گئیں تھیں کہ باہر کی دنیا گھر کی چار دیواری سے الگ ہوتی ہے۔۔۔ اب تو لڑکیاں گھروں میں، چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے اتنا کچھ کر جاتی ہیں کہ والدین کو خبر ہی نہیں ہوتی۔۔۔
وہ تو پھر سات سمندر پار اکیلے رہ رہی تھی۔۔۔وہ تو پھر ایسی لڑکی تھی جس کا گریز۔۔۔ جس کا دائرہ۔۔۔لوگوں کو اس کی طرف کھینچتا تھا۔۔۔
”میں محنت کر رہی ہوں۔۔۔میں ان کے سارے پیسے لوٹا دوں گی۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔“
شنایا کے پہلو میں سویا ادھم جبیل اسے پوری جزئیات سے یاد تھا۔۔۔وہ بھولنا چاہتی تھی پر اس منظر کو بھول نہیں پاتی تھی۔۔
کیا محبت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟
اگر ایسے ہوتے ہیں تو شدت سے خواہش کی تھی اسے کوئی محبت کرنے والا نہ ملے۔۔۔
سلمی بیگم اٹھ کر چلی گئیں اور وہ بیٹھی رہی۔۔۔۔خاموشی کے ساتھ۔۔۔
جانے اب تقدیر کونسا فیصلہ سنانے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”مجھے کہیں سکون نہیں ہے۔۔۔ایک پل کے لیے بھی نہیں۔۔میں جتنا اس کے خیال کو دل سے نکالتا ہوں وہ اتنا مجھ پر حاوی ہوتی ہے۔۔“
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔وہ دونوں جنہیں ایما عزیز تھی پر وہ دونوں اسے رکھ نہ پائے۔۔۔
ماثیل نے اسے اپنی زندگی سے نکالا تھا اور روز نے گھر سے۔۔۔
پر کیا ان کے نکالنے پر وہ زندہ نہ رہ پائی۔۔۔کیا وقت نہیں گزرا تھا۔۔۔پتہ نہیں ہمیں کیوں لگتا ہے اگر ہمارے ساتھ کچھ برا ہوا تو ہم سہہ نہیں پائیں گے۔۔۔
وہ سب سہہ گئی تھی۔۔ بہت خاموشی کے ساتھ۔۔۔
وہ نم پلکوں سے ویلنسیا کو خیر آباد کہہ کر گئی تھی۔۔۔وہ کبھی یہاں پلٹ کر نہیں آنا چاہتی تھی۔
”واٹ اباؤٹ شنایا۔۔؟؟“ روز سنجیدہ تھی۔۔۔ ایمان کے جانے کے بعد وہ بھی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔۔ اسے لگا وہ اپنا سامان لینے آئے گی۔۔۔پر وہ نہیں آئی۔۔۔ اس کے سارا قرضہ اتار کر وہ اپنا سامان وہیں چھوڑ گئی تھی۔۔۔
وہ خاموشی سے ان کی زندگیوں سے نکل چکی تھی پر سچ تو یہ تھا وہ جا کر بھی نہیں گئی تھی۔۔۔
اولڈ ٹاؤن کی گلیوں وہ ان دونوں کو گھومتی پھرتی نظر آتی تھی۔
شنایا کے ذکر پر اس کا جسم پھر سے جل اٹھا تھا۔۔۔عورت کی قربت ایسی ہی ہوتی ہے۔۔۔ اچھا بھلا انسان بھٹک جائے۔۔۔وہ تو پھر پہلے سے بھٹکا ہوا تھا۔
اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ وہ خاموش رہا۔
”میں حاد جبیل سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔“
”ہنہہ۔۔۔ دی پرفیکٹ مسٹر جبیل۔۔۔ پوری کہانی میں جس کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔۔۔ اس سے مل کر کیا کرو گی۔۔۔؟؟“
”سچ جاننا چاہتی ہوں۔۔۔“
جانے کیوں وہ یہ سچ پہلے نہیں جان پائی۔۔۔ اسے اب گلٹ محسوس ہوتا تھا۔۔۔اسے لگتا تھا اس نے ایما کے ساتھ برا کیا۔۔۔پر اب پچھتانے کا کیا فائدہ۔۔۔جو ہونا تھا وہ ہوگیا تھا۔
”کیسا سچ۔۔۔؟؟“
”سچ۔۔۔۔ جو سچ ہے۔۔۔۔بس وہ جاننا چاہتی ہوں۔۔۔“
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ماثیل خاموش رہا۔۔
وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا پر اس بار اس نے بہت جلدی کردی تھی۔۔۔اتنی جلدی کہ اب پچھتا رہا تھا۔۔۔
پر اب پچھتانا کیسا۔۔۔؟؟
روز چلی گئی۔۔۔ وہ بیٹھا رہ گیا۔۔
اچانک ٹرین ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔ اور وہ جیسے ہوش کی وادی میں لوٹا۔۔۔ ٹرین کراچی سے چلی تھی۔۔۔ اور تقریباً تیس اسٹیشن عبور کرنے کے بعد وہ اب لاہور اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔ وہ اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔۔۔
کہانی ایسے بھیانک موڑ لے گی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ رات کے ساڑھے آٹھ بجے کا ٹائم تھا۔۔ ٹرین لاہور سے نو بجے نکلنے والی تھی۔۔۔ان کے پاس آدھا گھنٹا تھا۔
اس نے شال کو اچھے سے لپٹ لیا۔
”مجھے لگتا تھا دنیا میں سب سے زیادہ نفرت صرف میں کر سکتا ہوں اور وہ میں نے اُس لڑکی سے کی جس سے میں بےپناہ محبت کرتا تھا۔۔ پر حقیقت تو یہ ہے اُس کی محبت کبھی میرے دل سے نکلی ہی نہیں۔۔۔ اُم ایمان تم نے مجھے کن راہوں کا مسافر بنا دیا ہے۔۔۔ تم سے نفرت کرنا چاہتا ہوں، محبت آڑے آجاتی ہے۔۔ تم تک پہنچنا چاہتا ہوں پر نفرت راستہ روک لیتی ہے۔۔ تم بتاؤ میں کہاں جاؤں؟؟“
وہ تصور میں اس سے مخاطب تھا۔۔۔ پر وہ اسے سن نہیں سکتی تھی۔۔۔ وہ اسے کبھی سننا چاہتی ہی نہیں تھی۔
اس نے گھٹنوں نے میں چہرہ چھپالیا۔۔۔
لاہور ریلوے اسٹیشن۔۔۔بےوفاؤں کا شہر۔۔۔۔ وہ اسٹیشن پر نہیں اترنا چاہتا تھا۔
اسے نہ جیت سکے گا غم زمانہ اب
جو کائنات تیرے در پر ہار دی ہم نے۔۔
✿••✿••✿••✿
دی پرفیکٹ مسٹر جبیل!
جس کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔۔۔ وہ لندن میں تھا۔۔۔اپنے گھر میں جہاں اس نے بچپن کے کافی سال بتائے تھے۔۔۔جو گھر سالوں سے بند پڑا تھا۔۔۔اسے پاکستان واپس جانا تھا پر اس سے پہلے اسے یہاں آنا پڑا تھا۔۔۔آنا ضروری تھا ورنہ وہ جی کیسے پاتا۔
رات کے اس پہر وہ دبے پاؤں گھر کی پچھلی جانب سے دیوار کود کر اندر داخل ہوا۔۔۔ گھر کے پچھلے لان میں درخت ہی درخت تھے۔۔۔یوں جیسے جنگل اگ آیا ہو۔۔۔سالوں سے یہاں کی صفائی نہیں ہوئی تھی پر حیرانی کی بات یہ تھی لان میں لگی بیلیں جو گھر کے اوپر تک چڑھ گئی تھیں وہ سوکھی نہیں تھی۔۔۔وہ ہری بھری تھیں اور ان بیلوں نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔۔۔
دوسرے وہ گھر کوئی آسیب زدہ لگتا تھا۔۔۔آس پاس اپنی سائیکلوں پر گزرتے بچے اسے ہانٹڈ ہاؤس کہتے تھے۔۔۔
وہ پچھلے حصے میں سوکھے پتوں سے گزرتا اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔اور کمال یہ تھا کہ پتوں کی آواز تک نہیں آرہی تھی۔۔۔ آگے جا کر وہ رک گیا۔۔۔سامنے ہی بیل نے پورا جال بنا رکھا تھا۔۔۔جسے اس نے ہاتھ سے پرے کیا اور دوسری جانب چلا گیا۔۔۔ آگے سیڑھیاں تھیں جو نیچے کی طرف تہہ خانے میں جا رہی تھیں۔
وہ اندھیرے میں سیڑھیاں اترتا نیچے جانے لگا۔۔۔۔ سیڑھیاں ختم ہوگئی پر سامنے کی دیوار تھی۔۔۔ اینٹوں کی دیوار۔۔۔اس نے مخصوص اینٹوں پر ہاتھ لگایا اور ایک پیٹرن لگایا۔۔۔ ٹک کی آواز سے دروازہ کھل گیا۔۔۔ اندر اندھیرا تھا۔۔۔
وہ اندر داخل ہوا اور دروازہ بند ہوگیا۔۔۔ پورا لان سنسنان اور ویران پڑا تھا۔۔۔
”لائٹس پلیز۔۔۔“
اندر داخل ہوتے ہی اس نے مخصوص لہجے میں کہا اور بتیاں جل اٹھیں۔۔۔۔ یہ ایک لاؤنج تھا۔۔۔جہاں صوفے رکھے تھے۔۔۔ بائیں جانب دیوار پر بڑا سا شیلف تھا جس میں کتابیں رکھی تھیں۔۔۔آتش دان تھا جس میں بجھی ہوئی لکـڑیاں پڑی تھیں اور ایک فریج رکھا تھا جس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔
کوئی یہاں آ بھی جاتا تو اسے یہ ایک لاؤنج ہی لگتا۔۔۔یہاں کچھ بھی پر اسرار نہیں تھا۔۔۔ سب کچھ نارمل۔۔۔
”ہے ایمانے۔۔۔مجھے اپنا ڈوز چاہیے۔۔۔ اوپن دی لیب۔۔۔“
اس کی یہ خاص پچ،خاص لہجہ، خاص آواز کسی پاسورڈ کی طرح کام کرتا تھا۔۔۔
شیشے جیسی ایک دیوار نمودار ہوئی۔۔۔ اور دائیں جانب ایک سفید رنگ کی بڑی سی لیب ابھر آئی تھی۔۔۔۔
وہ شیشے کے دروازے کو پار کرتا لیب میں داخل ہوگیا۔۔۔ اور لاؤنج میں نظر آنے والا یہ منظر بالکل غائب ہوگیا۔۔
وہ لیب میں تھا جہاں سے وہ لاؤنج کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔ پر لاؤنج میں بیٹھا یا کھڑا شخص اس خفیہ لیب کو کبھی نہ ڈھونڈ پاتا۔۔۔۔
چاروں جانب رنگ برنگے مائع جات پڑے تھے۔
”گڈ ایوننگ مسٹر جبیل۔۔۔“
یہ اس کی اسسٹنٹ تھی۔۔۔اے آئی اسسٹنٹ۔۔۔جس کا نام اس نے اختیار رکھا تھا بنا سوچے سمجھے۔۔۔
اس کے ذہن میں پہلا نام یہی آیا تھا۔
اس نے ایک الماری سے ڈبا نکالا اور اسے کھولا۔۔۔اندر چند انجیکشن پڑے تھے۔۔۔
اس نے ایک انجیکشن بھرا اور اپنے داہنے بازو کی نبض میں گاڑھ دیا۔۔۔وہ یہ کام بڑی سنجیدگی سے کر رہا تھا۔۔۔
چند پل وہ یونہیں بیٹھا رہا۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا جسم کانپنے لگا۔۔۔ انجیکشن ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔۔۔
اس کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔۔۔چہرہ سرخ پڑگیا۔۔۔ وہ ضبط کے باعث جھک گیا۔۔۔۔ وہ جس سٹول پر بیٹھا تھا اس سے نیچے گرا اور بےجان پڑا رہا۔۔۔
کئی لمحے یونہی گزر گئے۔۔۔
”مسٹر جبیل۔۔۔آر یو اوکے۔۔۔؟؟“
آواز گونج رہی تھی۔۔۔
جبکہ وہ اپنی گرے ساکت پتلیوں سے چھت کو گھور رہا تھا۔۔۔
ہاں یہ میں ہوں حاد جبیل!
میں عام لوگوں کی دنیا میں پھنس چکا ہوں!
جس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔۔۔۔!!
آپ لوگ میری کہانی سے ناآشنا ہیں۔۔۔۔
ایک بات بتاؤں؟؟ خاص ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔کبھی کبھی بہت کچھ کھونا پڑ جاتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ اپنی جان بھی!!

13 Comments

  1. next episode kb aay gi tell me please

    ReplyDelete
    Replies
    1. I'm also waiting, let see kab aati ha , abi koi update nahi di writer ne

      Delete
  2. Abi tak koi update nahi ahi

    ReplyDelete
  3. itna late q i m still waiting

    ReplyDelete
  4. Hey next episode kab aye ga we r waiting plz jaldi upload kar do thanks

    ReplyDelete
  5. Kya kamal likha ha writer NY MN to prh kr likhny waly ke zahnt dakh kr hyran rah gai mny aj tak ketny be novel prhy ha best novel in tha world mry pass alfaz ni KY ksy byan kr sakun KY likhny waly NY Allah sy dur rahy walon ko smjhya ha


    ReplyDelete
  6. Next episode please 🙂

    ReplyDelete
  7. Episode next kbb tk ayy gaa any idea????

    ReplyDelete
  8. Next episode plzzzzz

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post