Maseel novel episode 39 - part 02

 
Maseel(sulphite 02) novel episode 39- part 02


#مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_39 پارٹ2
نور_راجپوت


انسان خود اپنے مقام سے گرتے ہیں!
”مجھے تو اس محبت سے محبت تھی جو آپ اللہ سے کرتے ہیں۔۔۔“
زندگی میں پہلی بار حاد جبیل نے محسوس کیا تھا سانس رکنا کسے کہتے ہیں۔۔۔وہ روبوٹ کی مانند کھڑا تھا پر ایمان کے لفظوں نے اس کی دنیا ہلادی تھی۔ اس کی ساکن پتلیاں سکڑنے پھیلنے لگی۔۔۔ پیوست لبوں میں جنبش ہوئی۔۔۔
”وہ اس سے محبت کرتی تھی؟؟؟ وہ کیسے نہ جان پایا۔۔۔؟؟“
”میں سوچتی تھی میں کمزور دل ہوں کیسے سہہ پاؤں گی میرا پسندیدہ شخص جب کسی اور کا ہوگا۔۔ پر میں نے یہ نہیں سوچا تھا میرا پسندیدہ شخص جب میرا دل توڑے گا تو کیسے سہوں گی؟؟“
اس کے ہونٹ نیلے پڑنے لگے۔ حاد جبیل اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔ اس کی نظریں سامنے جمی تھیں۔۔۔ نیٹ کے جال پر۔۔
جبکہ ایمان کی نظریں اس پر تھیں۔۔۔ اس کے پھٹے ہونٹ سے بہتے خون پر۔۔۔ اس کی نیلی پڑتی آنکھ پر۔۔۔
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔۔۔“
اس نے سینے کے مقام پر ہوتی جلن کو دباتے کہا۔ پھر وہ پلٹ گئی۔۔۔۔ حاد نے پہلی بار پلکیں جھپکیں۔۔۔یوں جیسے روبوٹ میں جان پڑ گئی ہو۔۔ ایمان کے ہاتھ میں وہی بیگ تھا۔۔ آرجے والا بیگ۔۔۔۔ اس کا وجود بھیگ چکا تھا۔ وہ دو چار قدم چلی پھر رک گئی۔۔ اس نے جھٹکے سے پلٹ کر حاد کو دیکھا۔۔۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔
”ہمیں اپنے حصے کی محبت اللہ سے خود کرنی پڑتی ہے، میں یہ بھول گئی تھی۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکی۔
”اور آج سے میں یہ بھی بھول گئی کہ حاد جبیل کون ہے۔۔“اس کا لہجہ نارمل تھا۔۔ حاد جبیل خاص تھا۔۔ پر آج وہ عام لڑکی اس خاص کو عام کر گئی تھی۔
کوئی شکوہ کوئی شکایت کوئی حقارت نہیں تھی۔۔۔ بس اقرار سے انکار تک محبت کی عجیب حقایت تھی۔۔۔ میٹھی چبھن سے شروع ہو کر جلا کر بھسم کر دینے والی روایت تھی۔
وہ قدم قدم چلتی دور ہوتی گئی۔۔۔۔ اس نے پلٹ کر نہ دیکھا۔۔۔اسے پلٹ کر دیکھنا ہی نہیں تھا۔
ابھی کچھ دیر میں محسن وہ پتھر ٹوٹ جائے گا
میں اس کی سرد مہری پر محبت مار آیا ہوں۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ اس کے سامنے نہیں روئی تھی پر اسٹیڈیم سے باہر نکلتے ہی اس کا دل چاہا شدت سے چلائے۔۔ ساری دنیا کو بتائے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا کیوں ہوا تھا۔۔۔؟؟
ہاتھ میں پکڑا آرجے والا بیگ وہیں سڑک پر گر گیا۔۔ عبدل کہیں نہیں تھا۔۔ وہ فٹ پاتھ پر چلتی جارہی تھی جب اچانک ایک گاڑی جھٹکے سے اس کے قریب رکی۔۔ وہ چلتی رہی۔۔۔ اس کے آنسوں بارش کے پانی میں گھل مل گئے تھے۔۔ کوئی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا تھا۔۔
”ایمانے۔۔۔“ کسی نے اسے پکارہ پر وہ سن نہیں رہی تھی۔
”ایمانے چلو میرے ساتھ۔۔“ اچانک کسی نے اس کے سامنے آتے اسے کندھوں سے تھام کر کہا۔۔ ایمان نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔اس کے سامنے ہیزل کھڑی تھی۔ اسے وہاں بھیجنے والا عبدل تھا۔۔ پر وہ خود پتہ نہیں کہاں چلا گیا تھا۔
”چلو چلتے ہیں۔۔“ روبوٹ بن چکی ایمان کو اس نے گاڑی میں بٹھایا اور پھر فراٹے بھرتی گاڑی وہاں سے بھگا کر لے گئی۔
اسٹیڈیم کی کرسیوں میں سے ایک پر وہ بیٹھا تھا۔۔۔سر جھکائے۔۔۔ہونٹ اور منہ سے بہتا خون بند ہوچکا تھا۔ اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔جو کچھ ابھی ہوا تھا وہ خود سمجھ نہیں پایا تھا۔
”ایما۔۔۔ایمانے۔۔۔ام ایمان۔۔ آخر کون تھی وہ لڑکی۔۔؟؟“ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
عبدل کہاں گیا تھا کچھ پتہ نہیں تھا۔۔ وہ جیسے غائب ہوگیا تھا۔۔ ہیزل ایمان کو لے کر اپنے گھر آگئی تھی۔ ایمان کا دماغ جیسے جم سا گیا تھا۔۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے کھڑی تھی۔
”ایمانے۔۔۔“ بالآخر ہیزل نے اسے دوبارہ پکارہ۔ وہ اسے کمرے میں لائی تھی تاکہ وہ اپنے کپڑے تبدیل کر سکے۔ وہ بھیگی ہوئی تھی۔
”کپڑے بدل لو۔۔“ ہیزل اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ایمان نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔۔وہ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ ہیزل اس وقت سادہ سے ٹراؤزر شرٹ میں تھی۔ بال بندھے ہوئے تھے اور چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔
یہ اس ہیزل سے بہت مختلف تھی جسے ایمان نے کافی عرصہ پہلے دیکھا تھا۔
”یہ نئے کپڑے ہیں۔۔“ اس نے بیڈ پر رکھے شاپنگ بیگز کی جانب اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“ ایمان نے سر جھکا لیا۔ اسے روز یاد آئی تھی۔ وہ اتنی ظالم تو نہیں تھی جو ایسا کرتی۔۔ پھر اس نے کیوں کیا تھا ایسا۔۔۔ کیوں اس کا یقین نہیں کیا تھا۔۔
وہ آنسوؤں کو پینے لگی۔ ہیزل اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہی تھی۔ وہ دونوں دوسری بار ایک دوسرے سے مل رہی تھیں اور دونوں بدل چکی تھیں۔ جب ایمان بیگ اٹھا کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی تو ہیزل نے گہرہ سانس خارج کیا۔۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ اسے اب ایمان کے لیے کچھ کھانے کو بھی بنانا تھا۔
اس نے سارے ملازموں کی چھٹی کردی تھی۔ اب وہ اپنے اکثر کام خود کر رہی تھی۔
وہ میگی کے لیے باریک باریک سبزیاں کاٹتی ایمان کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔
جانے کیوں ہیزل کو اس سے ایک پل کے لیے بھی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی۔وہ عبدل کی ایک کال پر بھاگی چلی گئی تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس نے ایمان کو سیڑھیاں اترتے دیکھا۔۔
وہ بہت ہی کھلے ٹراؤذر پر گھٹنوں تک آتا ٹی پنک گھیرے دار ٹاپ پہنے ہوئے تھی۔۔ ہم رنگ سکارف سر پر جما تھا۔۔ بال فولڈ تھے۔۔۔ ہیزل اسے دیکھے گئی۔
عبدل کتنے اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کن کپڑوں میں آرام دہ محسوس کرتی تھی۔ وہ خاموشی سے آکر لاؤنج میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔
”کھانا لاؤں۔۔؟؟”ہیزل نے سوال کیا۔ ایمان اسے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔
”مجھے بھی بھوک لگی ہے کافی۔۔ مجھے بس میگی بنانی آتی ہے وہی بنائی ہے۔۔“ سپر اسٹار دی ہیزل ملک عام انسانوں کی طرح اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ ایمان نے ہاں میں گردن ہلادی۔ اور کچھ دیر بعد ہیزل دو باؤل اس کے سامنے رکھی بیٹھی تھی۔
”عبدل کہاں ہے۔۔؟؟“ ایمان پہلی بار کچھ بولی۔ ہیزل خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور چہرے پر ذرا بھی تازگی نہیں تھی۔ کچھ بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اس کی حالت اب غیر ہورہی تھی۔
”میں نہیں جانتی۔۔۔“ ہیزل نے ہولے سے جواب دیا۔ ”اس نے کبھی بتایا نہیں۔۔۔“
ایمان بھی سر جھکائے سنتی رہی۔ اس نے تھوڑا سا کھایا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ ایسے موسم میں وہ روز کے ساتھ مل کر کوکنگ کرتی تھی۔۔
”تم یہاں محفوظ ہو ایمانے۔۔۔“ ہیزل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جبکہ ایمان دل چاہا وہ پھٹ پڑے اور چیخ چیخ کر اسے بتائے وہ کہیں محفوظ نہیں تھی۔۔۔۔ اسے محـفوظ ٹھکانے سے نکال کر پتھریلے راستوں پر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
”تھینک یو۔۔۔ میں بس آج رات یہاں رکنا چاہتی ہوں۔۔ صبح ہوتے ہی چلی جاؤں گی۔۔“ اس نے سہولت سے اپنا ہات چھڑایا اور پھر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
اسے نئی جگہوں پر نیند نہیں آتی تھی۔۔ وہ جانتی تھی اس کی یہ رات آنکھوں میں کٹنے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ساری رات برسنے کے بعد اگلی صبح مطلع صاف تھا۔۔۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹنے کے بعد جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو سفید پردوں سے سورج کی روشنی اندر آرہی تھی۔۔ اس نے آنکھیں کھول کر دوبارہ بند کرنے کی کوشش تو جلن کے باعث وہ کراہ کر اٹھ بیٹھی۔۔ آنکھوں میں شدید قسم کی درد اور جلن تھی۔۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کھو چھوا تو اسے تکلیف کا احساس ہوا۔۔
کل رات جو ہوا اس کا اثر کسی حد تک کم تھا۔۔ شاید اس لیے کہ رات گزر چکی تھی۔۔۔ رات کے پہر انسان کی تکلیف چار گنا بڑ جاتی ہے۔۔۔انسان چار گنا کمزور پڑ جاتا ہے۔۔۔روشنی اور اجالا انسان کو ہمت اور طاقت بخشتا ہے۔ اس نے گہرہ سانس لیا اور سر جھٹک کر حاد کے خیال سے پیچھا چھڑانا چاہا۔۔۔ پر وہ ایک بھی پل اس کے دماغ سے نہیں نکلا تھا۔۔
وہ فریش ہو کر نیچے آئی تو ہیزل کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔
”ہیزل ملک جو فیصلہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔۔۔ میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں۔۔“ وہ غصے میں تھی۔
”میں نے کہا نا شابز چھوڑ دیا ہے تو مطلب چھوڑ دیا۔۔“
جیسے ہی اس کی نظر ایمان پر پڑی اس نے فون بند کردیا۔
”آؤ ایمانے۔۔ اب کیسی ہو؟؟“
وہ مسکرا کر پوچھنے لگی۔
” مجھے ایک کام سے جانا ہے۔۔ کیا آپ مجھے لے جائیں گی۔۔؟؟“
پچھلے دس گھنٹوں میں اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ماثیل کو جانے سے پہلے سچ بتا کر جائے گی۔۔ وہ اسے بتائے گی آخر ہوا کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ اس کا اعتبار کرے بلکہ اس لیے کہ وہ لوٹ جائے۔۔ اس لیے کہ وہ سچ جان لے۔۔۔اس لیے کہ اس کی تکلیف میں کمی آجائے۔۔۔ اس لیے کہ اس کے اپنے اس کے لوٹ آنے کا انتظار کرتے تھے۔۔ اور اس لیے بھی کہ وہ مجبور تھی۔۔ اور اس لیے بھی کہ اسے ماثیل سے کوئی شکایت نہ تھی۔۔
”ہاں ہاں بولو کہاں جانا ہے۔۔ ابھی چلتے ہیں۔۔“ ہیزل خوشدلی سے مسکرائی تو ایمان کو حوصلہ ہوا۔
اور پھر ایک گھنٹے بعد وہ ماثیل انسٹیٹیوت کے سامنے کھڑی تھی۔۔ یہاں سے اس کی بہت ساری یادیں جڑی تھیں۔۔ پر وہ یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ہیزل کو گاڑی میں انتظار کرنے کا کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔۔
لاؤنج میں ہی اسے مارتھا مل گئی۔ اسے دیکھ کر مارتھا جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ادھم کہاں ہیں۔۔۔؟؟“ ایمان کے سوال پر مارتھا نے بےساختہ لاؤنج سے ملحقہ کمرے کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سا خوف تھا۔
”مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔۔“ ایمان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں کمرے کی جانب دیکھتے کہا۔
”وہ سو رہے ہیں۔۔ آپ جائیں یہاں سے۔۔“ مارتھا گھبراہٹ کا شکار تھی۔
”میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔مجھے آج ہی بات کرنی ہے۔۔“ وہ کمرے کی جانب بڑھی۔
”رک جاؤ۔۔۔“ مارتھا اس کے پیچھے لپکی۔
پہلی بار وہ ایسے ہی زبردستی کلاس روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ اسے ماثیل ملا تھا۔۔۔ اور آج پھر وہ زبردستی اس کے روکنے کے باوجود کمرے کی جانب بڑھتی گئی۔
اس نے مارتھا کے روکنے کے باوجود جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔ سامنے کا منظر دیکھ کر وہ جیسے بت بن گئی۔۔۔
شنایا اس کے پہلو میں لیٹی تھی۔۔ وہ دونوں ایک چھت تلے ایک بیڈ پر تھے۔۔۔ وہ بےسدھ سو رہا تھا جبکہ شنایا کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ تھی۔۔ اس نے پہلے ایمان کو حیرت سے دیکھا اور پھر مسکرادی۔۔ وہ جسے چاہتی تھی حاصل کرچکی تھی۔ جیت کی خوشی سے سرشار وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ رات بتا چکی تھی جس کا اس سے کوئی جائز رشتہ نہیں تھا۔
”جو اللہ کو نہیں مانتے ان سے دور رہنا چاہیے۔۔ ان میں خوف نہیں ہوتا اور جن میں خوف نہیں وہ آسانی سے گر جاتے ہیں۔۔“
دادی اماں کے الفاظ چیخ چیخ کر اس کی سماعت سے ٹکرانے لگے۔۔۔اس نے جھٹکے سے دروازہ بند کردیا۔۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکن پہلی بار اتنی واضح محسوس کی تھی۔
”اور جن میں خوف نہیں ہوتا وہ آسانی سے گرجاتے ہیں۔۔۔“
”وہ آسانی سے گر جاتے ہیں۔۔“
”وہ آسانی سے گرجاتے ہیں۔۔“
اس کا وجود کانپنے لگا۔۔۔ بار بار یہی الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرانے لگے تھے۔۔۔اس نے بہت عرصے بعد اپنے وجود کو کانپتے دیکھا تھا۔۔ وہ جھٹکے سے مڑی اور تیز تیز چلنے لگی۔
”وہ گر گیا تھا۔۔۔“
”وہ اکاروس تھا جسے اپنی حدوں میں رہنا نہیں آیا تھا۔۔۔“
یہ سب۔۔ جنت جہنم۔۔ خدا۔۔۔سب جھوٹ ہوا تو۔۔؟؟ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہ ہوئی کوئی حشر نہ ہوا تو؟؟ کیا ملے گا تمہیں اپنی عبادتوں سے؟؟ اپنی نیکیوں کے عوض پھر کیا ملے گا۔۔؟؟“
”اگر یہ سب جھوٹ بھی ہوا تو مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔۔۔لیکن آپ سوچیں اگر یہ سب سچ نکلا تو کیا ہوگا؟؟ حشر واقعی ہوا تو کیا ہوگا۔۔۔؟؟“ آپکا نقصان ہوگا۔۔۔۔پتا ہے کیا نقصان ہوگا۔۔؟؟“
”جانتا ہوں جنت نہیں ملے گی۔۔“
”نہیں۔۔۔۔ جنت شاید مل جائے۔۔۔ آپ کی کسی نیکی کے بدلے۔۔۔پر۔۔“
”پر۔۔۔۔؟؟“
”آپ کو ایمان نہیں ملے گی۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
ایک عورت کی دی گئی تکلیف دوسری عورت ہی کم کر سکتی ہے۔۔۔ شنایا یہ جانتی تھی اور اسے یہ موقع ملا تھا۔۔ ماثیل اس کی بانہوں میں بکھرا تو اسے سمیٹنے کا موقع مل گیا۔۔ وہ ٹوٹ گیا تھا۔۔ بری طرح سے۔۔۔ وہ بھلا کیسے جڑا رہتا۔۔؟؟ ٹوٹ کر جڑا رہنے کا ہنر تو خدا والوں کے پاس ہوتا ہے۔۔ جو انہیں تھام کر رکھتا ہے۔۔ جبکہ تو کسی خدا کو مانتا ہی نہیں تھا۔۔ اس کا گرنا تو طے تھا۔
وہ جب کسمسا کر اٹھا تو شنایا کو محبت پاش نظروں سے خود کی جانب دیکھتے پایا۔۔ وہ اس کے بےانتہا قریب لیٹی تھی اور جانے کب سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔پہلے پہل تو ماثیل کو خواب لگا۔۔ اس نے آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں تو شنایا خوبصورتی سے مسکرادی۔۔۔
اس بار ماثیل کی پوری آنکھیں کھل گئیں۔۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔۔ اس کے جسم پر شرٹ نہیں تھی۔۔۔
وہ گزری رات یاد کرنے لگا۔۔
ایمان سے ملنے بعد وہ ساحل سمندر پر گیا تھا اور وہاں سے بار۔۔۔ اس نے شنایا کو کہا تھا اور وہ اسے لے گئی تھی۔۔ وہ ڈرگز لینا چاہتا تھا اور شنایا نے اسے ایسا کرنے دیا تھا۔۔ ایمان کی اس کی زندگی میں آنے کے بعد اس نے نشہ آور ادویات نہیں لی تھیں۔۔۔پر وہ جس قدر ٹوٹا تھا اسے لگتا تھا یہ نشہ اس کی تکلیف کم کردے گا۔۔
شنایا اس کے ساتھ تھی۔۔۔وہ اس سے ویسی ہی محبت کرتی تھی جیسی وہ چاہتا تھا۔۔ ساری رات اس نے بار میں گزاری۔۔ صبح شنایا اسے گھر لے آئی۔۔ شام کو اسے ہوش آیا تو اس کی حالت بگڑنے لگی۔۔
ہوش میں آنے کے بعد اسے صرف ایک چہرہ نظر آتا تھا اور وہ ایمان کا تھا۔۔
ایک خیال آتا تھا کہ ایمان نے اس کی قیمت وصول کی تھی۔۔اور یہ خیال اس کی نسیں چیرنے کی مانند تھا۔۔موسم خراب ہوا تو شنایا نے گھر جانے سے منع کردیا۔۔۔وہ جو کہہ رہا وہ کر رہی تھی۔۔ اس نے شراب پی اور اس قدر پی کہ اپنے حواس کھونے لگا۔۔اور یہ موقع شنایا کے لیے اچھا تھا۔۔۔شنایا نے پورے ہوش و حواس میں اسے قبول کیا۔۔ وہ حواسوں میں ہوتا بھی تو یہی کرتا۔۔ ایمان کا خیال اسے آری کی طرح کاٹ رہا تھا۔۔۔اس کے جسم میں وحشت پنپنے لگی تھی۔۔
”ایمان۔۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔“
وہ مدہوشی میں بھی اس کا نام لے رہا تھا۔
”ششش۔۔۔میں ہوں نا۔۔ مجھے دے دو اپنے سارے دکھ درد۔۔ میں سمیٹ لوں گی۔۔“ شنایا نے اس کے لبوں پر انگلی رکھی۔
اسے اپنے قریب دیکھ کر ماثیل کو یاد رہا تو صرف یہ کہ اس نے اپنی وفائیں جس لڑکی کے نام کی تھیں وہ بےوفا نکلی تھی۔۔
اور وہ بھی بےوفا ہوجاتا تو کیا تھا۔۔۔؟؟
وہ جو شنایا کو دوست کہتا تھا اب ساری حدیں پار کر گیا تھا۔۔۔۔
اور جب ہوش میں لوٹا تو بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں ماثیل۔۔“ وہ اس کے قریب ہوئی تو وہ جھٹکے سے بیڈ سے نیچے اترا۔۔ شنایا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”مم۔۔میں فریش ہوتا ہوں۔۔“ وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔اور شنایا اکیلی بیٹھی رہ گئی۔
”آپ اتنی خالص کیوں لگتی ہیں۔۔۔اتنی خالص۔۔۔اتنی مقدس کہ چھونے کا دل کرے اور چھونے سے ڈر لگے۔۔۔“ وہ شاور کے نیچے کھڑا تھا۔۔ ٹھنڈہ پانی اس کے جسم پر بہہ رہا تھا۔۔ اسے تو لگا اس کی ساری اذیت کم ہوجائے گی پر اب اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا وجود کسی نے جلتے تنور میں پھینک دیا ہو۔۔ وہ جتنا خود پر پانی گرا رہا تھا جلن اتنی ہی بڑھتی جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”ماثیل۔۔۔ آر یو اوکے۔۔۔؟؟“ شنایا نے اس کی تپتی پیشانی کو چھوا۔ وہ بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔
”چلیں ہاسپٹل چلتے ہیں۔۔“ وہ اپنے کمرے میں تھا۔۔ بیڈ پر بےسود پڑا تھا۔۔ یہ وہ کمرہ نہیں تھا جہاں اس نے پچھلی رات شنایا کے ساتھ گزاری تھی۔۔۔یہ اس کا ذاتی کمرہ تھا اور اس نے کئی مرتبہ ایمان کو اپنے تصور میں اس کمرے میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔
”جاؤ یہاں سے۔۔“ ماثیل نے غنودگی کی کیفیت میں کہا۔
”نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔ ہمیں ہاسپٹل جانا ہے۔۔“ وہ ضدی ہوئی۔
” پلیز جاؤ یہاں سے۔۔“ اس کا ہاتھ اپنی پیشانی سے ہٹاتے وہ کراہا۔
پورا جسم جیسے دہک رہا تھا۔
”محبت تو ہمیں پابند کرتی ہے کسی اور کا ہونے نہیں دیتی۔۔۔بلکہ یکطرفہ خاموش محبت میں تو کوئی خسارہ ہوتا ہی نہیں ہے۔۔ نہ پانے کی چاہ نہ کھونے کا ڈر۔۔“
ایمان کی باتیں چاروں جانب گونج رہی تھیں۔ ماضی کسی فلم کی طرح تصور کے پردے پر چل رہا تھا۔
”فرض کرو تمہیں کسی سے یکطرفہ محبت ہوجائے۔۔ جیسے میں تم سے کرتا ہوں تو کیا کرو گی۔۔؟؟“
”پابند رہوں گی۔۔۔“
”کب تک۔۔۔؟؟“
”جب تک محبت رہی۔۔۔“
کتنی عجیب منطق تھی اس کی محبت کو لے کر۔۔۔ اس کا ماننا تھا محبت انسان کو مضبوط بناتی ہے۔۔ یکطرفہ خاموش محبت انسان کو بھٹکنے نہیں دیتی۔۔۔
تو پھر آج وہ کیا تھا؟؟ کیا اس کی محبت ختم ہوگئی تھی ؟؟ کیا وہ اب ایمان سے محبت نہیں کرتا تھا؟؟ وفا یا بےوفائی کرنا تو ہر انسان کا اپنا ظرف ہوتا ہے۔۔۔
ایمان بےوفا تھی تو وہ کیوں قائم نہ رہ پایا؟؟ جبکہ ایمان نے تو کبھی محبت کا دعوی نہیں کیا تھا۔۔ پر اسے تو محبت تھی نا۔۔ وہ کیسے بھٹک گیا تھا۔۔ وہ کیسے گر گیا تھا ؟؟
اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا۔۔ پورا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔۔
وہ کیسے بھٹک گیا تھا؟؟؟ وہ کیسے گر گیا تھا۔۔؟؟ آخر کیوں؟؟ اس کا ضمیز اسے کچوکے لگا رہا تھا۔۔ حالانکہ اس نے پہلی نار زنا نہیں کیا تھا۔۔ اس کے نزدیک تو یہ زنا تھا بھی نہیں۔۔ وہ تو اس سب کا عادی تھا۔۔ پر کیوں اسے اتنی تکلیف ہورہی تھی۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟؟
اور جن میں خوف نہیں ہوتا وہ آسانی سے گرجاتے ہیں۔۔!!
✿••✿••✿••✿
”تم رات بھر کہاں تھے؟؟؟“ مرتضے اس کی نیلی آنکھ اور پھٹے ہوئے ہونٹ کو دیکھتے پوچھنے لگا۔
”ادھر ہی تھا۔۔۔“ حاد نے الماری میں رکھا وہ بیگ کوئی بیسویں بار دیکھا تھا۔۔ آرجے برینڈ کا وہ بیگ جو ایمان کی ملکیت تھا۔۔ وہ سڑک پر ہی کہیں گر گیا تھا۔۔ جسے وہ اٹھا لایا تھا اور بار بار نکال کر دیکھ رہا تھا۔۔ خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتا کہ یہ وہ بیگ نہیں ہے جو اسے خواب میں نظر آتا تھا۔۔ پر ہر بار اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔۔ کیونکہ یہ وہی بیگ تھا۔۔۔۔
”یہ سب کیا ہے حاد۔۔؟؟“ اس کے بگڑے چہرے کو دیکھ کر مرتضے نے تشویش سے پوچھا۔
”کچھ نہیں اپنے باکسر بھائی سے مار کھا کر آیا ہوں۔۔۔“سپاٹ سے لہجے میں جواب دیتا وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوا۔ جبکہ مرتضے حیرت سے اسے تکنے لگا۔
”عبدل۔۔۔؟؟ سیریسلی۔۔ یہاں پر۔۔۔ ؟؟“ مرتضے کو یقین نہ آیا۔
”ہاں۔۔۔ عبدل۔۔۔“ اس نے اب آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے اپنے زخم پر دوا لگائی۔ مرتضے اسے دیکھے گیا۔۔۔ اتنا گہرا زخم تھا کہ اسے ٹانکے لگتے۔۔ پر وہ حاد تھا۔۔ جس کے ہاتھ ذرا سے بھی نہیں لرزے تھے۔
”تو تم ہمیشہ سے جانتے تھے کہ عبدل یہاں ہے۔۔؟؟“ حاد اس کا دوست تھا۔۔ وہ حاد کو دوست مانتا تھا پر حاد نے کبھی اسے دوست نہیں کہا تھا۔۔۔اسے دوست بنانے نہیں آتے تھے۔۔ وہ دوست بناتا نہیں تھا۔۔۔اسے دوستوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
”کب ملواؤ گے عبدل سے۔۔۔؟؟“ اس کی خاموشی پر مرتضے نے اگلا سوال کیا۔
”اگر تم چاہتے ہو تمہاری ہڈی پسلی ٹوٹے تو جب چاہے مل لو۔۔“
”کیسی خوفناک باتیں کر رہے ہو۔۔“ مرتضے کے چہرے کے زوایے بگڑے۔
”مجھے ابھی کام سے جانا ہے۔۔۔ میں کل اکیڈمی میں ملوں گا۔۔“ وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوا۔ مرتضے اس سے ملنے ہوٹل آیا تھا رات کو بھی آیا تھا پر وہ ہوٹل میں نہیں تھا۔۔ حاد ابھی تک ہوٹل میں رکا ہوا تھا۔ اگر وہ اکیڈمی کے ریسٹ ایریا میں رکتا تو مرتضے کی وجہ سے وہ اپنے باقی کام نہ کر پاتا۔۔ جبکہ اسے بہت کچھ کرنا تھا۔
”اس بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ جاؤ گے؟؟“
”آفکورس۔۔۔ اتار کر رکھ کے جانے سے تو رہا۔۔۔“ سرد سپاٹ سے لہجہ۔۔ مرتضے نے بمشکل ہنسی چھپائی۔
”اوکے اپنا خیال رکھنا۔۔۔“
وہ خدا حافظ کہتا کمرے سے نکل گیا۔۔ جبکہ حاد گہرہ سانس خارج کرتا بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کا تھرتھرا رہا تھا۔۔ جیسے ہی اس نے فون اٹھایا تو چہرے کے تنے ہوئے تاثرات نرم پڑ گئے۔
”السلام علیکم مام۔۔۔“ اس نے چہرے پر بشاشت لاتے ویڈیو کال اٹھائی۔۔ دوسری جانب اس کی ماں تھی۔
”وعلیکم السلام۔۔۔ یہ کیا ہوا۔۔۔؟؟“
”عبدل سے مار کھا کر آیا ہوں۔۔ ہمیشہ کی طرح۔۔۔“
دوسری جانب بیٹھی ہستی ساکت رہ گئی۔
”وہ مل گیا۔۔۔؟؟“
”کیسے نہ ملتا۔۔۔؟؟“ ڈھونڈنے والا حاد تھا۔
دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔
”تیرہ سالوں بعد میں نے تمہیں جھنجھلایا ہوا دیکھا ہے وجہ کیا ہے۔۔؟؟“
وہ ماں تھی۔۔ بھانپ گئی تھی۔ وہ نظریں جھکائے ہوئے تھا۔
”یہی جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔“ وہ خود پر قابو پاتے بولا۔ اتنی جلدی وہ کسی کو اپنے اندر جھانکنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
تھوڑی دیر جب اندھیرا چاروں جانب پھیل گیا تو وہ سیاہ رنگ کی baggy پینٹ پر ہلکے نیلے رنگ کی اوور شرٹ پہنے، سر پر کیپ جمائے باہر نکل آیا۔۔ کیپ کو اس نے اس انداز میں لے رکھا تھا کہ اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور اس نے ایسی ڈریسنگ کر رکھی تھی جو کسی کی توجہ نہ کھینچتی۔۔۔
اسے اب اپنے چند ضروری کام نبٹانے تھے۔
✿••✿••✿••✿
شام کے سائے چاروں جانب پھی چکے تھے۔۔۔پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔۔۔پارک میں کھیلتے بچے بھی اب واپس جانے جا رہے تھے۔۔۔ آہستہ آہستہ پورا پارک خالی ہوگیا۔۔ وہ اکیلی بیٹھی رہ گئی۔۔ دن میں مطلع صاف تھا جبکہ اب پھر سے بارش کے آثار تھے۔۔۔ وہ پچھلے تین گھنٹوں سے اس پارک میں بیٹھی تھی۔۔ آج جو اس نے دیکھا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔۔ حالانکہ وہ ماثیل کو جانتی تھی پر شاید اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی یہ سب کر جائے گا۔۔۔
وہ اپنے لرزتے وجود کے ساتھ جب ماثیل انسٹیوٹ سے باہر نکلی تو ہیزل وہاں نہیں تھی۔۔ اس کی گاڑی کھڑی تھی جبکہ وہ خود جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔ ایمان کے پاس نہ اس کا نمبر تھا نہ گھر کا پتہ۔۔۔ وہ اسے کیسے ڈھونڈتی؟؟ اور جو اس وقت اس کی حالت تھی وہ وہاں سے پیدل ہی بھاگنے لگی۔
اسے بہت دور جانا تھا۔۔۔ماثیل کی سیاہی سے۔۔۔ بہت دور نکل جانا چاہتی تھی وہ جہاں اس کا نام بھی نہ ہو۔۔۔ جانے وہ کتنی دیر چلتی رہی۔۔۔ کندھوں پر شال لپیٹے وہ اب پارک میں بیٹھی تھی۔۔ دماغ بری طرح فریز ہوچکا تھا یوں جیسے
سن ہوگیا ہو۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکا ہو۔۔۔
مغرب ہوئی تو اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔۔۔
”میں آج تک یہ سوچتی رہی کہ آخر مجھے ادھم جبیل سے محبت کیوں نہیں ہوئی؟؟ اس کی اتنی محبت کے باوجود وہ میرے دل میں جگہ کیوں نہ بنا پایا۔۔ مجھے اس سے ہمدردی ہوتی تھی اے رب!! پر آج سمجھ آیا۔۔ میرے دل تو تُو بھی رہتا ہے نا۔۔۔ آج سمجھ آیا وہ اس دل میں اپنی جگہ کیوں نہ بنا پایا۔۔۔ آج سمجھ آیا مجھے اس سے محبت کیوں نہ ہوئی۔۔ آج سمجھ آیا حاد جبیل اس دل سے کیوں نہ گیا۔۔۔ آج مجھے بہت کچھ سمجھ آگیا۔۔ اور آج میرے سارے شکوے ختم۔۔۔ اب نہ ادھم جبیل سے کوئی شکوہ ہے نہ حاد جبیل سے۔۔۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مالک تو نے لوگوں کی سچائی میرے سامنے رکھی۔۔۔“
وہ نم آنکھیں لیے اپنے دل ہی دل میں اللہ کو پکارنے لگی۔
آگہی عذاب ہوتی ہے۔۔ آگہی انعام بھی ہوتی ہے!!
✿••✿••✿••✿
ایمان کو اس مہینے کی سیلری ٹرانسفر ہوگئی تھی۔ وہ آج آفس نہیں گئی تھی۔۔ اس نے جو پیسے بچا کر رکھے تھے ان میں سے جو روز کے دینے تھے وہ اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے کے بعد وہ ایک ہوٹل میں آگئی۔۔ یہ اس کی آفس کی لوکیشن کے قریب تھا۔۔ رات ہوچکی تھی۔ اس کے جانے میں بس پانچ دن باقی تھے۔۔ اور اسے ان دنوں میں بھی آفس جانا تھا۔ اس نے ایک سستے سے ہوٹل میں کمرہ بک کیا۔۔ پانچ دن کی پیمنٹ اڈوانس کرنے کے بعد وہ مارکیٹ آگئی۔۔۔
وہ نہ ہیزل کو ڈھونڈ پائی تھی اور نہ ہیزل اسے ڈھونڈ پائی تھی۔ نہ اس نے عبدل کو کال کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے پاس اب بہت کم پیسے بچے تھے۔ اگر وہ ہوٹل سے کھاتی تو گزارہ نہ ہوتا۔۔ اسی لیے وہ مارکیٹ آگئی۔۔
اس نے ایک اسٹور سے کھانے پینے کا کچھ سامان خریدا۔۔اس بات سے انجان کے کیپ اوڑھے ایک شخص اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت بھی اسٹور کے باہر کھڑے وہ اسے خریداری کرتے دیکھ رہا تھا۔۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔۔ اور بارش کبھی بھی ہو سکتی تھی۔ وہ اسٹور سے باہر نکلی تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا۔۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔۔ پورا آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔ وہ خاموشی تھی اور پرسکون بھی۔۔۔۔
وہ پوری توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس نے اتنا پرسکون چہرہ کم کم ہی دیکھا تھا۔۔ طوفون ختم ہونے کے بعد والی خاموشی۔۔۔۔۔ سب کے کھو دینے کے بعد ”کچھ نا کھونے کے ڈر“ جیسا سکون۔۔۔
وہ شال لپیٹتی سیڑھیاں اتر کر فٹ پاتھ پر آئی تو باہر رکھے پتھر کے بینچ پر بیٹھ گئی۔۔ ٹھنڈی ہوا اسے سکون بخش رہی تھی۔۔ویسے بھی وہ اس شہر میں اب مہمان تھی۔۔۔وہ جلد یہاں سے جانے والی تھی۔۔ ویلنسیا اسے زیادہ راس نہیں آیا تھا۔۔ یہاں کے لوگوں نے اسے دکھ دیا تھا۔۔پر اس شہر کاکیا قصور تھا۔ کچھ دیر یونہی بیٹھی رہی۔۔۔ روشنیوں کے جال میں چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھنے لگی۔
اسے بھوک لگی تھی اس نے کھانے کے لیے بریڈ نکالے اور پھر اچانک رک گئی۔۔ اس نے ہاتھ کی انگلیوں پر گنتی کی۔۔ اسکے پاس پانچ دن کے بریـڈ تھے۔۔ یقینا وہ ناشتے کے لیے لائی تھی تاکہ ناشتہ کرکے آفس جا سکے۔۔ پر اگر وہ ابھی کھا لیتی تو اسکے پاس ایک دن کا ناشتہ کم پڑ جاتا۔۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر سامنے رکھے سامان کو گھورتی رہی جو مشکل سے پانچ دن کا تھا۔۔ پھر اس نے ایک گہری سانس لی اور ایک جوس کا ڈبہ نکال کر جوس پینے لگی۔ وہ وہاں بینچ پر پورا گھنٹہ بیٹھی رہی۔۔۔اس نے مزید کچھ نہیں کھایا۔۔ جانے وہ کن خیالوں میں گم تھی یہاں تک کہ ابرآلود موسم برسنے لگا۔۔ وہ اٹھ کر چل پڑی۔۔ تبھی اس نے دیوار کے پاس کھڑے ایک چھوٹے سے بچے کو دیکھا۔۔ یقینا وہ بھوکا تھا۔۔ اس کے قدم رک گئے۔۔۔ وہ آگے نہیں بڑھ پائی۔۔ وہ جیسے پتھر کی ہوگئی۔۔ اس نے اپنے تھیلے کو ہاتھ لگایا جس میں اسکا تھوڑا سا سامان تھا۔۔ وہ بچہ سامنے سڑک کی دوسری جانب شیشے کے اُس پار رکھے کھانے پینے کی اشیاء کو حسرت سے تک رہا تھا۔۔۔ وہ اسکی جانب بڑھی اور جا کر اپنے بیگ سے بریڈ کے دو پیکٹ نکال کر اس بچے کو دے دیے۔۔ بچے کی آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر تشکر کے جذبات ابھرے۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔
وہ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
”تم بھیگ جاؤ گے۔۔میرے پاس چھاتہ نہیں ہے۔۔۔ یہ لے لو۔۔“
اس نے اپنے کندھوں پر پڑی موٹی شال اتار کر اس بچے کو دے دی۔وہ شال اسے کتنی عزیز تھی۔ ویسے بھی وہ ویلنسیا سے کچھ نہیں لے جارہی تھی۔۔۔سارا سامان یہاں ہی رہ گیا تھا۔
پھر اس نے اپنے بیگ سے والٹ نکالا۔۔ جو اس وقت بالکل خالی تھا۔ اسکے چہرے پر موت جیسا دکھ تھا۔ اسکا والٹ خالی ہوچکا تھا۔ اسکے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔۔ وہ تیزی سے وہاں سے بھاگتی چلی گئی۔۔
کیپ اوڑھے آدھے چھپے چہرے کے ساتھ کھڑا حاد اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔ اسے پہلی بار اپنے سینے کے مقام پر عجیب سی جلن محسوس ہوئی تھی۔ سانس لینا اسے پہلی بار مشکل لگا تھا۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post