مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_39 پارٹ1
وہ عبدل کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔ ماثیل کی باتیں ابھی تک سماعت میں کسی ہتھوڑے کی مانند لگ رہی تھیں۔ کیا تھی وہ گری ہوئی پیسے کے پیچھے بھاگنے والی لڑکی؟؟
سینے کے مقام پر بہت زیادہ جلن تھی۔۔ وہ روئی نہیں۔۔ اسے رونا نہیں تھا۔۔ آخر کیوں روتی وہ۔۔ اور کب تک؟؟
جو ہونا تھا وہ ہوگیا تھا۔۔ ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ رات کو اس نے اپنا سامان پیک کیا۔۔ بس کچھ دن باقی تھے۔۔ وہ مزید یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی۔
انسان صرف اپنی تکلیف دیکھتا ہے۔۔ اسے دوسرے کی تکلیف نظر نہیں آتی۔۔ جیسے ماثیل کو اس کی نظر نہیں آئی تھی۔۔ اور اسے ماثیل کی نہیں۔
پر وہ شخص تو محبت کا دعوی کرتا تھا نا۔۔۔ محبت کرنے والے اعتبار بھی کرتے ہیں وہ کیسے بےاعتبار ہوگیا تھا؟؟
جبکہ ایسی ہی کچھ حالت ماثیل کی بھی تھی۔۔۔وہ ساحل سمندر پر آگیا تھا۔۔ موسم ابرآلود تھا۔۔ٹھنڈی ہوائیں سائیں سائیں کرتی گزر رہی تھیں۔۔ آج پھر ایمان نے اس کا دل توڑ دیا تھا۔۔ دل کے ساتھ ساتھ اس کا یقین بھی۔۔۔
وہ چیخنا چاہتا تھا چلانا چاہتا تھا۔۔۔ وہ سب برداشت کر سکتا تھا پر اپنے ڈیڈ پر الزام نہیں۔۔
”نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔ اور تم سے بھی۔۔۔“ وہ آسمان کی جانب منہ کرکے چلایا۔ اس کی خدا سے نفرت مزید بڑھ گئی تھی۔۔
وہ گھٹنوں کے بل جھکا چیخ رہا تھا۔
”میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔“
وہ ریتلی زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔ تبھی اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔۔۔اس نے سر اٹھا کر تو دیکھا تو شنایا اس کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ تڑپ کر اس سے لپٹ گیا۔
”اس نے میری محبت اپنانے کے پیسے لیے شنایا۔۔ یہ تصور جان لیوا ہے۔۔“ وہ سسک رہا تھا جبکہ شنایا کا دل چاہا وہ اسے پوری دنیا سے چھپا کر کہیں دور لے جائے۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کی پوری رات آنکھوں میں گزر گئی۔۔ صبح ہوئی تو سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔ وہ تیار ہوئی اور آفس چلی گئی۔۔۔روز نے اس سے بات کرنا چاہی پر وہ بنا کچھ بولے نکل آئی۔۔ موسم خراب تھا تو اس نے اپنے بیگ میں چھوٹا سا چھاتہ رکھا ہوا تھا۔۔ سیاہ رنگ کی شال اس کے کندھوں پر تھی جبکہ وہ خود ٹی پنک کلر کے پلازو اور شرٹ میں تھی۔ آفس میں بھی پورا دن خاموشی کی نظر ہوگیا۔۔۔وہ لاشعور میں انتظار کرتی رہی کہ اب ماثیل کا فون آئے گا اور وہ کہے گا کہ ”مجھے تم پر بھروسہ ہے ایمان۔۔۔“
پر کوئی فون نہ آیا۔۔۔ دل کی حالت عجیب ہوچکی تھی۔
شام ہوئی تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔۔وہ آفس سے سیدھا اکیڈمی آگئی۔ چھاتہ سر پر تانے وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو راہداری میں کافی کا کپ تھامے ہلکی ہلکی بارش انجوائے کرتا مرتضے اسے دیکھ کر حیران ہوا۔۔ وہ کل آئی نہیں تھی۔۔
وہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ بارش سے بےخبر۔۔ کہیں کھوئی ہوئی تھی۔
”السلام علیکم۔۔۔“ جب وہ راہداری میں پہنچی تو اس نے مرتضے کو دیکھ کر سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ آج اکیڈمی میں غیر معمولی خاموشی تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں مس عبداللہ۔۔ آپ کل آئیں نہیں تھیں۔۔“
وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔“ وہ جواب دے کر آگے بڑھنے لگی تو مرتضے کی آواز پر اسے رکنا پڑا۔
”آج سیشن نہیں ہے۔۔ آج آف ہے۔۔ آپ کل آئی نہیں تھیں تو اسی لیے آپ کو پتا نہیں چلا۔۔۔“
وہ رک گئی۔۔ اور اب خالی خالی نگاہوں سے مرتضے کو دیکھنے لگی۔
”کیا ابھی تک آپ کی کسی سے دوستی نہیں ہوئی۔۔؟؟“ وہ پوچھ رہا تھا۔۔جبکہ ایمان کا دماغ جیسے سن ہوچکا تھا۔۔ وہ مرتضے کوبولتے دیکھ رہی تھی پر سن نہیں پارہی تھی۔
”میں عبدل جبیل ہوں روحان جبیل کا بیٹا۔۔۔“
اس کی سماعت میں اب تک ملی جلی آوازیں گونج رہی تھیں۔
”میں حشام جبیل ہوں۔۔ ادھم جبیل کا باپ۔۔۔“
”مس عبداللہ۔۔۔ آر یو اوکے۔۔۔؟؟“
وہ تھوڑا اونچا بولا تو ایمان کسی ٹرانس سے نکلی۔ وہ واپس پلٹنے لگی تو مرتضے نے پھر سے اسے پکارا۔
”آپ اسپیشل کلاس لے لیں۔۔ حاد لے رہا ہے۔۔۔ آج صرف وہی کلاس ہے۔۔“ وہ رک گئی۔۔ سمجھ نہ آیا کیا کرے۔۔۔اور تبھی مرتضے نے آگے بڑھ کر ایک راہدری میں موجود ایک دروازے کو ہاتھ کی مدد سے کھول دیا۔۔ سامنے ہی حاد بیٹھا تھا۔۔ دائرے میں کرسیاں رکھی تھیں جن پر پندرہ بیس اسٹوڈنٹس موجود تھے۔۔۔ جبکہ وہ درمیان میں بیٹھا تھا۔
ہمیشہ کی طرح پرفیکٹلی تیار۔۔۔ ایمان نے کبھی اسے رف حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔۔ ٹی شرٹ پہنے، بکھرے بالوں یا پھر چپل جوتوں میں۔۔۔
”گو۔۔۔“ مرتضے نے اشارہ کیا تو وہ اندر داخل ہوگئی۔
”مس ایمان۔۔ہماری ٹیم کا نیا حصہ ہیں۔۔“ مرتضے اعلان کرکے چلا گیا جبکہ وہ دائرے میں رکھی گول کرسیویں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔
”اپنے بارے میں کچھ بتائیں مس ایمان۔۔۔“ حاد نے تو کہا تو سب اس کی جانب متوجہ ہوگئی۔
”میں ام ایمان بنت عبداللہ ہوں۔۔ میں نہیں جانتی میں کون ہوں۔۔ میں بھٹک گئی ہوں۔۔ پتہ نہیں سفید ہوں یا سیاہ۔۔یا پھر گرے۔۔۔اچھا برائی کا مکسچر۔۔۔“
اس کی نگاہیں فرش پر جمی تھیں۔
”اچھا برا کچھ نہیں ہوتا۔۔ صحیح غلط ہوتا ہے۔۔۔ اور ضرور نہیں جو اچھا ہو وہ صحیح بھی ہو۔۔“
حاد نے اس کی تصیح کی۔۔۔اس نے نظر اٹھا کر حاد کو دیکھا۔۔اور پھر سے نظریں جھکالیں۔
”میں نے ایک سیاہ کو اپنایا اور خود سیاہ بن گئی۔۔۔ پتہ نہیں میں غلط ہوں یا صحیح۔۔۔پر بری نہیں ہوں۔۔۔مجھے برا بنا دیا گیا۔۔“
”ہم ہر کسی کی کہانی میں ہیرو نہیں بن سکتے۔۔۔اور ضروری تو نہیں جو اچھا ہے وہ صحیح بھی ہو۔۔“
وہ پھر سے بولا۔
”کیسے پتہ چلے گا ہم صحیح ہیں یا غلط۔۔؟؟“
”جب تم رپورٹ جمع کروانے سے خوفزدہ نہ ہو۔۔۔ جب تمہیں اس بات سے ڈر نہ لگے کہ تم جو کر رہے ہو اس کی رپورٹ دینی پڑے گی۔۔۔ اور تمہیں شرمندہ ہونا پڑا گا۔۔۔“
”کیا ہم کسی ان چاہے رشتے کو چھوڑ سکتے ہیں جس میں ہم کسی مجبوری کی وجہ سے بندھے ہوں۔۔“ وہ جان لینا چاہتی تھی۔
”فرق اس سے پڑتا ہے کہ رشتہ کیا ہے؟؟اور آپ اس رشتے میں کتنا انوالو رہے ہیں۔۔ ان کیس اگر آپ مسلمان ہیں تو آپکا رشتہ حلال ہے یا حرام۔۔۔ حلال رشتوں میں گنجائش نکل آتی ہے۔۔ کچھ رشتے کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔۔جیسے خون کے رشتے۔۔۔ باقی اگر آپ صحیح ہیں تو تمام رشتے خودبخود آپ کو چھوڑ جائیں گے۔۔کیونکہ صحیح ہونے کے پر آپ سب سے پہلے اکیلے پڑ جائیں گے۔۔۔“
وہ کوئی چالیس پچاس سالا شخص نہیں تھا۔۔۔پتہ نہیں وہ اتنا کچھ کہاں سے سیکھ کر آیا تھا۔۔ ایمان حیرت سے اسے تکنے لگی۔
اور وہ سچ کہہ رہا تھا۔۔ جب آپ اچھائی برائی سے نکل کر صحیح اور غلط کے مقام پر آجاتے ہیں تو آپ سب سے پہلے تنہا پڑتے ہیں اور پھر اجنبی بن جاتے ہیں۔۔۔اور تنہا اجنبیوں میں حاد جبیل سرفہرست تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ جب اکیڈمی سے واپس آئی تو دل سے بہت سارا بوجھ اٹھ چکا تھا۔۔ ہم ہر کسی کی کہانی میں ہیرو نہیں ہو سکتے۔۔ حاد نے ٹھیک کہا تھا۔۔تو پھر وہ کیوں سب ٹھیک کرنے میں لگی رہتی تھی۔۔۔ وہ کیوں ہیرو بننا چاہتی تھی؟؟
یہی سوچتے ہوئے اس نے بیگ سے چابی نکالی اور درازے کا تالا کھولنا چاہا۔۔ پر تالا نہ کھلا۔۔ اس کے اور روز کے پاس الگ الگ چابی تھی۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔۔اس نے پھر سے کوشش کی پر تالا نہ کھل پایا۔۔ پھر اس نے بیل دی۔۔ آج روز ادھر ہی تھی۔ وہ اب روز کو فون کر رہی تھی۔۔ پر روز نے فون نہ اٹھایا۔۔ کئی بار بیل بجانے پر دروازہ کھلا۔۔
روز سامنے ہی کھـڑی تھی۔۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اس نے ایمان کو اندر جانے کی جگہ نہ دی۔
”کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے؟؟“ اس نے پہلی بار روز کو اتنا سنجیدہ دیکھا تھا۔
”تمہاری آج سے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔ اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو۔۔“ روز نے کہا تو ایمان کو چہرہ پھیکا پڑ گیا۔۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟؟“ اس نے مرے مرے انداز میں پوچھا۔
”بہت پیسہ ہے نا تمہارے پاس۔۔ مسٹر ماثیل کی پوری قیمت لی ہے نا تم نے۔۔۔ تو آج سے اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو۔۔“ وہ حقارت سے بولی تو ایمان کا دل ڈوب گیا۔
”میں تمہیں سب بتاتی ہوں۔۔۔“ وہ روز کو نہیں کھونا چاہتی تھی جس نے ہر مشکل میں اس کی مدد کی تھی۔
”مجھے صرف ایک بات بتاؤ۔۔۔ تم نے مسٹر ماثیل کے ساتھ رہنے کے پیسے لیے۔۔؟؟“ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔
”روز۔۔۔“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔
”ہاں یا ناں۔۔۔؟؟“
”ہاں۔۔۔“ اور ایمان کا سر جھک گیا۔۔ جو سچ تھا وہ سچ تھا۔۔ اس نے وہ سارے پیسے واپس اسی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیے تھے جو اسے ہر مہینے ملتے تھے۔۔۔اس نے کبھی استعمال نہیں کیے تھے پر جو سچ تھا وہ سچ تھا۔۔ ابھی وہ قرضدار تھی۔۔ اپنی ماں کے علاج کے پیسے اسے واپس کرنے تھے۔
”تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟؟“ روز نے اس کا جھکا سر دیکھا پر ان آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھ پائی۔۔ ایمان ویسے ہی کھڑی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے منہ پر لگنے والے بیگ کی وجہ سے لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچی تھی۔ یہ آرجے والا بیگ تھا۔۔ جو روز نے اس کے منہ پر مارا تھا۔
”جاؤ یہاں سے اور آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔۔“ اس نے دروازہ بند کرنا چاہا۔۔
”اور ہاں تم میری قرضدار ہو۔۔ جب مجھے رقم واپس کرو گی تو اپنا سامان لے جانا۔۔ اور ہاں پلیز محنت سے کما کر پیسے واپس کرنا۔۔کیونکہ میں نے تمہیں اپنی محنت کے پیسے دیے تھے۔۔۔“
اور ٹھاہ کی آواز سے دروازہ بند ہوگیا۔۔۔وہ کسی مجرم کی طرح رات کے اس پہر طوفانی موسم میں اکیلی کھڑی رہ گئی۔ اس ایک بیگ میں اس کی ضرورت کی چند چیزیں تھی جو روز اسے دے گئی تھی۔ اس کا دل کیا وہ روئے چلائے۔۔۔پر اس نے ایک آنسوں نہ بہنے دیا۔ اس نے سارے حساب کتاب کر رکھے تھے وہ جانے سے پہلے اس کے سارے پیسے لوٹانے والی تھی۔ پر روز نے موقع ہی نہ دیا۔
کسی بھی وقت تیز بارش ہو سکتی تھی۔۔ اس نے شال کو مضبوطی سے لپیٹا۔۔۔ اور آس پاس دیکھنے لگی۔۔ گلی سنسنان تھی۔۔۔اور گلی کے آخر میں وہ تھا۔۔ ٹیرو کا گھر۔۔ جس کے دکان میں وہ روز کے ساتھ گئی تھی۔۔۔جس نے ایمان کو تنبیہہ کی تھی۔
”اکاروس سے بچ کر رہنا اور خود اکاروس نہ بن جانا۔۔“
کیا وہ اپنی حدوں سے نکل گئی تھی۔۔ یا پھر وہ اکاروس سے نہیں بچ پائی تھی جو سالوں پہلے اپنی حدوں سے نکل گیا تھا۔۔۔
وہ اکیلی کھڑی سوچتی رہی۔۔ کہاں جاتی۔۔ کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے موبائل نکالا۔۔وہ کوئی سستا ہوٹل دیکھنا چاہتی تھی پر تبھی اس کا فون تھرتھرانے لگا۔ عبدل فون تھا۔ وہ فون اٹھانا نہیں چاہتی تھی پر وہ بجتا رہا۔
”کیا تم جاننا چاہتی ہو تمہارے ساتھ یہ سب کس نے کیا؟؟“ عبدل کی آواز ابھری۔
”نہیں۔۔۔“ یک لفظی جواب دیا گیا۔
”جان لو ورنہ ساری عمر ایک غلط شخص کو یاد کرتی رہو گی۔۔“ اس کا انداز ایسا تھا وہ دوبارہ انکار نہ کر پائی۔۔۔
”تمہیں لوکیشن بھیج دی ہے۔۔ آجاؤ۔۔۔“
اس نے فون بند کردیا۔۔ ایمان نے لوکیشن دیکھی تو زیادہ دور کی نہیں تھی۔ اس نے رائیڈ کروائی اور خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔ اس کی نظروں نے دیر تک اس دروازے پر جمی رہی تھیں جس پر وہ دوبارہ کبھی دستک نہیں دینے والی تھی۔ اس جگہ سے اس کی بہت ساری یادیں جڑی تھیں۔۔۔پر سب کچھ خواب بن گیا تھا۔۔حقیقت بہت خوفناک تھی۔
کچھ دیر بعد وہ ایک اسٹیڈیم کے باہر کھڑی تھی۔ ایک بیگ کندھے ہر ڈالے ایک ہاتھ میں تھامے وہ عبدل کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔عبدل کے پاس اسٹڈیم کا پاس تھا۔۔ اسے اب ڈر بھی لگ رہا تھا کہ وہ یہاں کیوں آگئی تھی۔۔۔
لیکن عبدل کے کردار پر اسے اتنا تو بھروسہ تھا۔۔۔وہ اسے اندر لے گیا۔۔۔اور پھر پلے گراؤنڈ کے دائیں جانب رکھی کرسیوں میں سے پہلی قطار والی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ یہاں تھوڑا اندھیرا تھا جبکہ گراؤنڈ میں کافی روشنی تھیں۔ نیٹ کے اس پار عبدل کھڑا تھا۔ جو گارڈ سے کچھ کہہ کر آیا تھا۔
وہ شال لپیٹے بیٹھی تھی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جبکہ عبدل نے فون نکال کر کسی کو پیغام بھیجا۔۔
”اگر تم چاہتے ہو کہ میں لوٹ چلوں مام کے پاس، تو جتنی جلدی ہوسکے مجھ سے ملنے آؤ۔۔“
اس نے فون واپس جیب میں ڈال لیا۔۔۔اب وہ غصے سے فٹبال کو نیٹ پر مار رہا تھا۔۔ وہ جنون میں تھا۔۔ اتنا جنون کہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔
وقت گزرنے لگا۔۔۔موسم مزید خراب ہوتا گیا۔۔ کسی بھی پل بارش ہوسکتی تھی۔۔ پانچ سے دس اور پھر پندرہ منٹ گزر گئے۔۔ اور تب ایمان نے کسی کو اسٹڈیم کے گراؤنڈ میں داخل ہوتے دیکھا۔۔ اوپر سے نیچے تک سیاہ لباس پہنے وہ شخص اندر آرہا تھا۔۔ اس نے سیاہ برساتی کوٹ پہن رکھا تھا۔۔جبکہ چہرہ بڑی سی سیاہ ہیٹ میں چھپا تھا۔ اس کا برساتی کوٹ ہوا چلنے کے باعث اڑ رہا تھا۔
اس نے دیکھنے کی کوشش کی پر وہ چہرہ نہ دیکھ پائی۔۔ وہ شخص پرقار چال چلتا اب عبدل کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔دونوں ہاتھ برساتی کوٹ کی جیبوں میں تھے۔
اس نے عبدل کے قریب پہنچ کر ہیٹ اونچا کیا۔۔
”ہائے۔۔۔“ وہ عبدل کی رفتار دیکھنے لگا۔۔ فٹبال سامنے ٹکراتا اور تیزی سے واپس عبدل کی جانب آتا اور عبدل پوری طاقت سے فٹبال کو کک مار رہا تھا۔۔۔وہ جیسے اپنا غصہ نکال رہا تھا۔
جیسے ہی اس شخص نے اپنا ہیٹ اونچا کیا تو ایمان کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔۔ ہاں وہ وہی تھا۔۔ حاد۔۔۔حاد جبیل۔۔
لوگوں کو لگتا تھا وہ کہانی میں سب سے آخر میں آیا تھا۔۔پر وہ تو وہیں تھا ہمیشہ سے۔۔ شروع سے۔۔۔
وہ حاد تھا۔۔۔حاد جبیل
جس کا دماغ آرجے جیسا تیز تھا۔
جس کا ایمان روحان جبیل جیسا تھا۔
جس کا کردار حشام جبیل جیسا تھا۔
جو فائٹنگ میں جورڈن جبیل جیسا تھا۔
وہ اس کہانی کا ماسٹر مائنڈ تھا۔۔ وہی تھا جس نے ماثیل پر نظر رکھی۔۔۔وہی تھا جس نے ایمان کو ماثیل کے پاس بھیجا۔۔ تاکہ ماثیل واپس آسکے۔۔۔
وہی تھا جس نے مختلف ملکوں کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے میوزک شو کروائے تاکہ اپنے بھائی عبدل کو ڈھونڈ سکے۔۔
اور اس نے ڈھونڈ لیا تھا۔
وہ وہی تھا جو عبدل کے جانے کے بعد پچھلے تیرہ سالوں سے عبدل بنا ہوا تھا۔۔
ہاں وہ وہی تھا جو اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ دنیا بچانے نکلا تھا پر وہ سب کی کہانی میں ہیرو نہیں تھا۔
اور وہ وہی تھا جو خود روشن تھا پر سیاہی میں رہتا تھا۔۔ اسی لیے وہ مسٹر گرے تھا۔
”تم آج بھی فٹبال کے لیے اتنا ہی کریزی ہو۔۔۔“ عبدل کی خاموشی پر اس نے خود ہی بات شروع کی۔
”ایما کون ہے۔۔۔؟؟“ عبدل نے آخری کک ماری اور پھر اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔۔ فٹبال کتنی دیر گراؤنڈ میں گھومتا رہا اور پھر رک گیا۔
”ایکسکیوز می۔۔؟؟“ وہ کون ہوتا تھا یہ سوال پوچھنے والا۔
”وہی ایما جس کو تم نے ادھم کے پاس بھیجا۔۔ جس کا تم نے پورا نام تک جاننے کی کوشش نہ کی۔۔۔جسے تم نے کسی مہرے کی طرح استعمال کیا۔۔“ عبدل ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔
”تم کیا بول رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔“
البتہ وہ ٹھٹک گیا۔۔ عبدل کو یہ سب کیسے پتہ چلا تھا ؟؟ اس کے آدمی بہت رازداری سے کام کرتے تھے بلکہ ہر کام تو وہ اپنے آدمیوں سے کرواتا بھی نہیں تھا۔
”تم نے ایک لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا اپنے مقصد کے لیے۔۔تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے۔۔؟؟“ عبدل نے جبڑے بھینچتے کہا۔
”جانتے ہو وہ ایما کون ہے؟؟ وہ وہی ایمانے ہے جس کو ڈھونڈ لانے کا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔۔“ وہ چلایا۔
”مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔میں کسی ایمانے کو نہیں جانتا۔۔“ وہ سرد تھا۔۔ سرد ترین۔۔ وہ شطرنج کا کھلاڑی تھا۔ مہرے اس کی مرضی سے چلتے تھے۔ وہ جانتا تھا کب کس مہرے کو سامنے لانا تھا۔ پر وہ نہیں جانتا تھا اس بار اس نے غلط مہرہ چن لیا تھا۔۔۔وہ مہرہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا بدلا تقدیر خود لیتی تھی۔
”ہاں تمہیں کیسے فرق پڑے گا۔۔تم تو ہو ہی پتھر۔۔“
وہ ہنس دیا۔۔۔زخمی ہنسی۔۔۔جبکہ حاد نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ حد درجہ سپاٹ تھا اور آنکھیں سرد۔۔ اس کا ہاتھ ہیٹ پر جما ہوا تھا تاکہ وہ اڑ نہ جائے۔
”پر تمہیں کیا لگتا ہے تم ایک منکر کو واپس لانے کے لیے ایک لڑکی کو مہرہ بناؤ گے؟؟ تمہیں کیوں لگا کہ لڑکی کی محبت اسے بدل دے گی؟؟ تمہیں کیوں لگا وہ روحان جبیل بن جائے گا۔۔ سب کی کہانیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں مسٹر حاد جبیل۔۔۔“
ایمان ساکت بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ اس تک ان دونوں کی آواز پہنچ رہی تھی۔۔ وہ اندھیرے میں تھی حاد اسے نہیں دیکھ پایا تھا۔
تو وہ صرف حاد نہیں حاد جبیل تھا۔۔۔عبدل جبیل کا جڑواں بھائی۔ ایمان کو جیسے سکتا ہوگیا تھا۔
”فری میں کچھ نہیں کیا اس نے، ہر مہینے ایک اچھی خاصی رقم اسے ملتی رہی ہے۔۔“
نیٹ کے پار بیٹھی ایمان کا دل ہزار ٹکڑوں میں بٹا۔
”تمہیں لگتا ہے تم پیسوں سے لوگوں کو خرید سکتے ہو۔۔۔؟؟“ عبدل چلایا۔
”میں خرید لیتا ہوں۔۔۔“ آگ لگا کر سلگا دینے والا ٹھٹرتا لہجہ۔۔۔عبدل آگ تھا تو وہ برف۔۔ سرد تر۔۔ خون جما کر مار دینے والی برف جیسا بےرحم۔۔۔
خوبصورت لوگ اکـثر خوفناک ہوتے ہیں۔۔۔ایمان نے پڑھا تھا اور آج دیکھ بھی لیا تھا۔۔
حاد کا یہ کونسا روپ تھا وہ نہیں جانتی تھی۔۔پر یہ خوفناک تھا۔
”تمہیں لگتا ہے تم ام ایمان بنت عبداللہ کو خرید لو گے۔۔۔؟؟“
اور اس بار وہ چونکا ضرور تھا۔ ام ایمان کا ان سب سے کیا تعلق۔۔۔ پہلے ہی اس کے ذہن میں سوال گونج رہے تھے۔ اس نے ایما سے تب تک حشام جبیل بن کر بات کی تھی جب تک اس کا کام نہیں ہوگیا تھا اس کے بعد ایمان نے چاہا بھی تو اس کے آدمی نے ایمان کی بات نہیں کروائی تھی۔ ایمان کو موصول ہونے والا آخری میسج بھی حاد کے آدمی نے کیا تھا جس دن ادھم سب چھوڑ کر جارہا تھا۔ اور ایمان کو اسے روکنے پڑا تھا۔
”تم نے اسے تباہ کردیا ہے مسٹر حاد جبیل۔۔۔“
”انسان اپنی تباہی خود چنتے ہیں، انسان خود اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔۔کوئی دوسرا ان کی تباہی کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔۔“
اور بس عبدل مزید نہیں سن سکتا تھا۔۔۔ وہ کتنا ڈھیٹ تھا۔۔ اپنے کیے پر ذرا بھی شرمندہ نہیں تھا۔ اس نے پوری وقت سے مکا گھما کر حاد کے منہ پر مارنا چاہا پر حاد نے پھرتی سے اس کا طاقت ور مکا روک لیا۔
” اونہوں عبدل۔۔۔مجھے آج بھی نہیں پسند کوئی مجھے چھوئے۔۔۔“
کتنا عجیب تھا وہ دوسروں کی زندگیوں سے بنا پوچھے کھیل گیا تھا اور کوئی اسے چھوئے بھی تو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
عبدل نے لات گھما کر مارنا چاہی پر وہ پلٹ گیا۔
”فضول کوششیں مت کرو عبدل ورنہ ایک باکسر ہونے کے باوجود تم ہار جاؤ گے۔۔۔“
اس نے تیرہ سالوں میں بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔۔ اپنا دفاع کرنا بھی۔۔ اور عبدل اس وقت اتنے غصے میں تھا کہ وہ کم از کم بھی اسے جان سے مار دیتا۔۔ اس کی ہیٹ اڑ کر دور جا گری۔۔چہرہ مزید واضح ہوگیا۔
بارش شروع ہوچکی تھی۔۔۔ جیسے ہی بوندوں نے ایمان کے چہرے کو چھوا وہ جیسے ہوش میں آئی۔۔ وہ کسی روبوٹ کی مانند اٹھی۔۔کندھے پر شال لپیٹے آرجے والا بیگ ہاتھ میں پکڑے وہ گراؤنڈ میں داخل ہونے والے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
ؑوہ دونوں لڑ رہے تھے۔۔ عبدل مار رہا تھا تو حاد صرف اپنا بچاؤ کر رہا تھا۔۔
عندل کا دل کر رہا تھا وہ پوری دنیا کو آگ لگا دے اور شروعات اپنے بھائی سے کرے۔
وہ چلتی ہوئی گراؤنڈ میں آئی۔۔ اور تبھی حاد کی نظر ایمان پر پڑی۔ وہ اسے وہاں دیکھ کر ساکت ہوا۔ وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟؟
اور یہی وقت تھا جب حاد جا ذہن بھٹکا۔۔ اور عبدل نے ایک زور دار مکا اس کے جبڑے پر مارا۔۔ حاد پورا گھوم گیا۔۔۔
اس کی نظریں ایمان پر جمی تھیں۔۔ تیز ہوا کے باعث بارش کی ننھی بوندوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔
”دیکھو اسے۔۔۔یہی وہ ایما جسے تم نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔۔۔“ عبدل نے لات اس کے پیٹ میں ماری۔۔ وہ دہرا ہوگیا پر نظریں ایمان سے نہ ہٹائیں۔۔
آخر کیوں اس نے لڑکی کو اتنا نظرانداز کیا تھا؟؟؟
کیسے اس نے غلط مہرہ چن لیا تھا۔۔۔۔؟؟
”غور سے دیکھو یہی وہ ایما ہے جسے تم بچپن میں مجھے چھونے بھی نہیں دے رہے تھے اور خود نے تم نے اسے ادھم کے پاس بھیج دیا۔۔۔“
عبدل اسے بری طرح مار رہا تھا۔۔ اور ایمان کے چہرے اور بالوں پر پڑی ننھی بوندیں موتیوں کی مانند چمک رہی تھیں۔
آج ہی وہ اسے بتارہی تھی کہ وہ کیسے سیاہ ہوگئی تھی۔۔ وہ کیسے بھٹک گئی۔۔ وہ کیسے کسی ان چاہے رشتے میں پھنس گئی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔ حیرانی سے۔۔۔ کسی نے غور نہ کیا کہ حاد کی سرد آنکھیں اسے دیکھ کر نرم پڑ چکی تھیں۔۔ نرمی کا وہ تاثر کوئی نہ دیکھ پایا۔۔
”یہی ہے وہ ام ایمان جس کی ماں کا علاج کرواکر تم نے اسے خریدنا چاہا۔۔۔“
حاد کے منہ سے خون ابل رہا تھا۔۔۔ایمان کے ساتھ ساتھ وہ دونوں بھی بھیگ رہے تھے۔۔ گارڈز کی اتنی ہمت نہیں تھی وہ عبدل کے راستے میں آتے۔۔ اور بادلوں کی گرج چمک میں اس کی آوازیں کہیں دب کر رہ جاتی تھیں۔
”یہی ہے وہ لڑکی جس نے اگر کسی مرد کو پسندیدگی سے دیکھا تو وہ صرف تم تھے حاد جبیل۔۔ صرف تم۔۔۔۔“ اس بار پڑنے والا مکا اس نے روک لیا۔ بجلی کی چمک میں ایمان کا وجود نہا گیا۔۔
وہ اپنی جگہ پر کھڑی جیسے کانپ رہی تھی۔
”عبدل۔۔۔ مجھے ان سے بات کرنی ہے۔۔۔“ اس نے خود پر قابو پاتے کہا تو عبدل جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔وہ دونوں اب اکیلے رہ گئے تھے۔۔۔بالکل اکیلے۔۔۔
خوفناک رات کے سائے تلے دونوں اکیلے کھڑے تھے۔۔۔
حاد کے چہرے پر ابھی بھی ویسا ہی سپاٹ پن تھا۔۔ایمان قدم قدم چلتی اس کے قریب آئی۔
اس کے ہاتھ میں وہی بیگ تھا۔۔ آرجے والا بیگ۔۔۔۔۔۔
وہی بیگ جسے وہ خواب میں دیکھ چکا تھا۔۔ تو کیا وہ لڑکی ایمان تھی جو اسے نظر آتی تھی ؟ جو اسے سونے نہیں دیتی تھی۔۔۔۔
اتنا کچھ کیسے اس کی نظروں سے چھپ گیا۔۔۔۔
اس نے بےاختیار ایمان کو دیکھا۔۔
کون تھی وہ لڑکی۔۔؟؟ کون تھی ام حانم۔۔۔؟؟؟
وہ اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔
”پتا ہے میں نے آپ کو پہلی بار کب دیکھا تھا۔۔؟؟“
وہ جبڑے بھینچے کھڑا تھا۔ اس کا خون بارش کے ساتھ ہی نیچے بہہ رہا تھا۔۔ عبدل نے اس کے ذہن بھٹکنے کا اچھا خاصا فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ خاصا زخمی تھا۔ پر ایسے کھڑا تھا جیسے اسے سوئی بھی نہ چبھی ہو۔
”سالوں پہلے جب پہلی بار میرے باپ نے کہا تھا کہ اسے خدا پر یقین نہیں۔۔“
یہ کافی سال پہلے ہی بات تھی وہ فرسٹ ایئر میں تھی۔ نیا نیا کالج جوائن کیا تھا۔۔ جہاں اسے بینش ملی تھی۔
اسے یاد تھا وہ دن۔۔۔ جمعے کا دن تھا۔۔ عبداللہ شہاب کمرے میں لیٹے کسی کتاب کہ ورق گردانی کر رہے تھے۔۔ گھر کے سارے مرد جمعہ پڑھنے جا چکے تھے۔۔۔ قریب کی مسجد میں خطبہ ہورہا تھا۔
”آپ جمعہ پڑھنے نہیں جائیں گے؟؟“
اس نے ہمت کرکے عبداللہ شہاب سے پوچھا۔
”نہیں۔۔۔“
”کیوں۔۔۔؟؟“ وہ وجہ جانے بنا نہیں رہ پائی۔۔ اس نے اپنے باپ کو مسجد جاتے نہیں دیکھا۔۔ نہ نماز پڑھتے نہ جمعہ پڑھتے یہاں تک کہ عید کی نماز پڑھنے بھی نہیں جاتا تھا وہ شخص۔
”کیا مطلب کیوں۔۔۔؟؟ مجھے اس پر یقین نہیں۔۔ میں نہیں جاتا۔۔ جب یقین آجائے گا چلا جاؤں گا۔۔“
الفاظ ایسے تھے کہ وہ سن کر ساکت رہ گئی۔ اکثر وہ چھپ چھپ کر عبداللہ شہاب کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔ کچھ سمجھ آتی تھیں اور کچھ اوپر سے گزر جاتی تھیں۔
خدا کو نہ ماننے والا کون ہوتا ہے یہ وہ جان گئی تھی۔۔
بہت بات عبداللہ شہاب نے اس کا دل توڑا تھا۔۔ایک بار آج پھر بھی توڑ دیا تھا۔۔
اس نے اپنی دادی ماں کو اللہ کے بہت قریب دیکھا تھا۔۔ وہ اکثر ایمان کو کہتی تھیں،
”جو اللہ کو نہیں مانتے ان سے دور رہنا چاہیے۔۔ ان میں خوف نہیں ہوتا اور جن میں خوف نہیں وہ اپنے مقام سے آسانی سے گر جاتے ہیں۔۔اور سیاہ ہوجاتے ہیں۔۔“
اس رات وہ اسی بات کو سوچ سوچ کر روتی رہی کیونکہ اس رات عبداللہ شہاب کئی گھنٹے اللہ سے تکرار کرتا رہا تھا۔۔ جانے وہ شخص وہ اپنا ذہنی توازن کھو رہا تھا یا کچھ اور۔۔ پر ایک نارمل انسان ایسی حرکتیں نہیں کرتا۔۔
اس رات اس نے سیاہی دیکھی تھی اور وہ خوفزدہ ہوگئی۔ وہ سو نہیں پائی تھی۔ اور اگلے دن جب وہ کالج گئی۔۔۔وہ کالج جہاں اسے سکالر شپ پر ایڈمیشن ملا تھا۔ بینش اپنا لیپ ٹاپ لائی تھی۔ وہ دونوں کیٹین میں بیٹھی تھیں۔ وہ کھانے پینے کے لیے کچھ لینے گئی تھی جب ایمان نے وہ ویڈیو دیکھی۔۔۔
ویڈیو میں ایک لڑکا تھا۔۔ جو رات کی تاریکی میں سفید لباس پہنے لان میں جائے نماز بچھائے نماز ادا کر رہا تھا اور کسی نے یہ ویڈیو اپنے کمرے کی کھڑکی سے بنائی تھی۔۔۔وہ دیکھتی رہی۔۔۔بار بار۔۔ جب تک بینش واپس نہیں آگئی۔
”جو اللہ کو مانتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جو ڈرتے ہیں وہ قائم رہتے ہیں۔۔۔وہ سفید ہوتے ہیں۔۔“
اور اس نے پہلی بار اتنی سفیدی دیکھی تھی۔۔ اس چیز نے اٹریکٹ کیا تھا وہ سفید ہالہ تھا۔۔ جو اسے دکھائی دے رہا تھا۔۔ اس لڑکے کے اردگرد۔۔۔
”یہ عبداللہ بھائی ہیں۔۔میرے کزن۔۔۔لندن میں رہتے ہیں۔۔ انہیں رات کے پچھلے پہر کھلے آسمان تلے عبادت کرنا بہت پسند ہے۔۔میں نے چھپ کر ویڈیو بنائی تھی۔۔“
وہ اسے بتا رہی تھی اور ایمان تجسس سے سننے لگی۔۔ اس نے مردوں کو ہمیشہ بھیانک اور سیاہ پایا تھا۔۔
کوئی اتنا سفید کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟؟؟
اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں۔۔ وہ سفیدی بڑھتی گئی۔۔۔ اتنا بڑھ گئی کہ اسے لگا وہ اس شخص سے محبت کرنے لگی تھی۔
اور وہ شخص کتنی سیاہی لایا تھا اپنے ساتھ۔۔
”میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ مجھے ایک ایسے شخص سے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟؟ کیسے؟؟ جو مجھے جانتا بھی نہیں۔۔۔“ وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ جبکہ حاد یوں کھڑا تھا جیسے کوئی روبوٹ ہو۔۔ جیسے وہ سانس نہ لیتا ہو۔۔
”پر مجھے آج سمجھ آیا۔۔۔مجھے تو اس محبت سے محبت تھی جو آپ اللہ سے کرتے ہیں۔۔۔“
اسے اللہ والے پسند تھے۔۔۔پر آج ایک اللہ والے نے بھی اس کا دل توڑ دیا تھا۔۔۔ شاید وہ اپنی کہانی میں صحیح تھا۔۔۔پر ایمان کی کہانی میں وہ ولن بن کر آیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔