وہ ویسا ہی تھا۔۔۔ صاف شفاف حاد جبیل۔۔ ہمیشہ جیسا۔۔
کتنے لمحے عبدل اسے حیرانی سے دیکھتا رہا اور پھر غصے سے مٹھیاں بھینچتا اس کی جانب بڑھا۔۔
”تم یہاں کر رہے ہو؟؟“ اس نے حاد کا گریبان پکـڑا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے ایک مکا جڑتا۔۔ حاد فوراً بولا۔
”اگر یہاں کی کوئی چیز ٹوٹی تو بھرپائی تمہیں کرنی پڑے گی۔۔ میرے جبڑے سمیت۔۔۔“ عام لہجہ۔۔ نارمل انداز۔۔ جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پـڑتا ہو۔ عبدل کا مکا ہوا میں ہی معلق ہوگیا۔۔۔
کسی کی سیاہ آنکھوں میں اسے اپنے سامنے کھڑے شخص کا سراپا نظر آیا تھا۔۔ اس نے جھٹکے سے حاد کا گریبان چھوڑ دیا۔۔ دھیمی سی مسکان حاد کے لبوں کو چھو گئی۔ اس نے جھاڑنے والے انداز میں اپنی شرٹ کا کالر درست کیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح پرسکون تھا۔ اور اس کا یہ پرسکون انداز عبدل کو آگ لگاتا تھا۔ اب وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا حاد اسے ڈھونڈ لے گا۔۔
خاموش رہنے والا حاد بولنے سیکھ گیا تھا۔۔
”باہر چل کر بات کریں۔۔۔؟؟“ حاد نے اپنا فون اٹھاتے نرم لہجے میں کہا تو عبدل نے اسے گھوری سے نوازہ اور پھر دروازے کو ٹھوکر مارتے کمرے سے نکل گیا۔۔ حاد نے اس کی حرکت پر گہرہ سانس لیا اور فوراً اس کے پیچھے لپکا اس سے پہلے کہ وہ غائب ہوجاتا۔
✿••✿••✿••✿
”آپ کو سب سے زیادہ خوف کس چیز سے آتا ہے۔۔؟؟ کوئی فوبیا۔۔ سب سے بڑا فوبیا۔۔۔؟؟“
اس نے ماثیل کو میسج کیا تھا۔
”اکیلے رہ جانے سے۔۔۔“ کچھ دیر بعد اس نے جواب دے دیا تھا۔
”ہزاروں چاہنے والے ہیں آپ کے۔۔ پھر کیسا ڈر۔۔؟؟“
وہ الجھی تھی۔
”مجھ جیسے لوگ آخر میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔۔“
ہاں وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔ عبداللہ شہاب بھی آج اکیلا تھا۔۔ کوئی نہیں تھا اس کے پاس۔ وہ خاموش ہوگئی۔۔ ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔۔ حاد کا آنا۔۔ اور پھر عبدل کا ملنا۔۔
اس کی سمجھ سے یہ سب باہر تھا۔۔ روز حاد کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ کیسے بکھر جاتی تھی یہ وہی جانتی تھی۔۔ پتا نہیں وہ شخص واپس کیوں نہیں جارہا تھا۔
”اور تم مستقبل میں کس بات کو لے کر خوفزدہ ہو۔۔۔؟؟“
ماثیل پوچھے بنا نہیں رہ پایا تھا۔
”پاگل ہوجانے سے۔۔۔“ اس نے نہیں چھپایا۔ صاف صاف بتادیا۔
”مجھے خوف آتا ہے۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے کبھی کبھی۔۔ کبھی کبھی خود کو کسی پاگل خانے میں پاتی ہوں۔۔۔ یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔“
”اوہ کم آن ایمان۔۔ تم بہت اسٹرونگ ہو۔۔ تمہیں خود پر پورا کنٹرول ہے۔۔ تم پاگل نہیں ہو سکتی۔۔“ ماثیل کا مسیج پڑھتے وقت اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
وہ کہہ نہ پائی کہ اسے عبداللہ شہاب کی طرح بےوفائی کرنے سے ڈر لگتا تھا جیسے اس نے کی تھی۔۔ اپنی بیوی سے۔۔۔ اور ایمان کو آج کل یہ خوف ستا رہا تھا کہ اس کا انجام عبداللہ شہاب جیسا نہ ہو۔۔
وہ بھی اپنے دل کو ہزار چاہنے کے باوجود ادھم جبیل کی طرف مائل نہیں کر پائی تھی۔۔ وہ اس کی محبت کو اپنا کر اب ان زنجیروں سے آزادی چاہتی تھی۔
اور وجہ بہت ساری تھیں۔۔۔ ماثیل وہ شخص نہیں تھا جس کی اس نے کبھی چاہ کی تھی۔ اور اسے یہ خوف تھا اگر وہ بےوفا ہوئی تو حواس کھو دے گی۔
وہ اب اسے کال کر رہا تھا۔۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا جبکہ ایمان نے فون بند کردیا۔
اسے آج کل اپنا آپ بہت گرا ہوا محسوس ہوتا تھا۔۔ حاد کی سچائی پر مبنی باتیں اسے آئینہ دکھاتی تھیں کہ وہ غلط راستے پر تھی۔۔ پر واپسی کا کوئی سرا مل نہیں رہا تھا۔ وہ آگے بڑھنا نہیں چاہتی تھی اور پیچھے ہٹ نہیں سکتی تھی۔۔۔وہ پھنس چکی تھی۔۔ اور اب حالات کی چکی میں بری طرح پس رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”کیا کرنے آئے ہو یہاں۔۔؟؟“ وہ دونوں تقریباً سنسان ہوئی پھتریلی سڑک پر چل رہے تھے۔ عبدل کا ناک غصے سے اب تک پھولا ہوا تھا۔
”تم سے ملنے۔۔۔تمہیں ڈھونڈنے۔۔۔“ وہ دونوں قدم ملاتے چل رہے تھے۔۔ اسٹریٹ لیمپوں کی روشنی میں ان کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔
”وجہ۔۔۔؟؟“ عبدل نے نخوت سے پوچھا۔
”تیرہ سالوں سے عبدل بن بن کر تھک گیا ہوں۔۔“ وہ رک گیا۔
”مجھے میری شناخت اب واپس چاہیے۔۔“
اس بار عبدل کو بھی رکنا پڑا۔ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ بال نفاست سے سیٹ تھے۔ صاف ستھرے کپڑے اور مہکتا سراپا۔
”کیوں۔۔؟؟ تم تو خاص ہو۔۔ عام انسانوں سے الگ۔۔ تمہیں درد بھی نہیں ہوتا۔۔ تم کیسے تھک سکتے ہو۔۔؟؟“ عبدل کا لہجہ طنزیہ تھا۔۔ اسے ہمیشہ سے جو بات آگ لگاتی تھی وہ اس کا خاص ہونا تھا۔۔ جو باقیوں سے الگ ہوتا ہے وہ خاص بن جاتا ہے۔۔ اور عبدل کو اپنا بچپن یاد تھا جب لوگوں نے حاد کے پیچھے جانے بہت کیا کچھ نہیں کیا تھا۔۔ تیرہ سال گزارنے کے بعد بھی وہ اپنی پندرہ سالا وہ زندگی نہیں بھولا تھا جو اس نے حاد کے ساتھ گزاری تھی۔
”میرا خاص ہونا میں نے نہیں چنا تھا۔۔“ حاد نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ اس کی بات سن کر عبدل دو قدم چل کر واپس آیا۔
”پر تمہیں ملا۔۔ خاص ہونا۔۔ تمہیں عطا کیا گیا۔۔ صرف تمہیں۔۔“ وہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔۔ دونوں کی نظریں پل بھر کو ٹکرائیں۔ حاد کی آنکھیں بےتاثر تھیں جبکہ عبدل کی آنکھوں میں غصہ نفرت اور ناجانے کیا کیا تھا۔ وہ آج بھی نہیں بدلا تھا۔ پھر وہ جھٹکے سے پلٹا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اس سے دور جانے لگا۔
” واپس چلو عبدل۔۔ سب تمہاری راہ تک رہے ہیں۔۔“
”مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔“
”ماں تمہیں یاد کرتی ہیں۔۔“
”ماں مضبوط عورت ہے۔۔ جو اپنے شوہر کے بنا عمر گزار سکتی ہے وہ میرے بنا بھی عمر گزار دے گی۔۔“
وہ رکا نہیں تھا تڑا تڑ جواب دیتا آگے بڑھ رہا تھا۔ حاد وہیں کھڑا رہا۔۔ البتہ عبدل تک اپنی بات پہنچانے کے لیے اسے اپنی آواز اونچی کرنا پڑی تھی۔
”میں انہیں ڈھونڈ لوں گا۔۔ میرے پاس ڈیڈ کو ڈھونڈنے کا کا راستہ ہے۔۔“
عبدل کے قدم ساکت ہوئے۔
”تم جھوٹے ہو۔۔ تم نے بچپن میں بھی یہی کہا تھا کہ تم ایمانے کو ڈھونڈ لو گے۔۔ تم آج تک نہیں ڈھونڈ پائے۔۔“
پھر وہ رکا نہیں۔۔ بھاگتے ہوئے۔۔ وہ دور جا رہا تھا۔۔پھر اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔ جبکہ حاد اکیلا کھڑا رہ گیا تھا۔۔ اکا دکا لوگ گزرے تھے۔۔ جو ان کی زبان نہیں سمجھ پائے تھے۔
خوشگوار ٹھنڈی رات میں حاد نے گہرا سانس خارج کیا اور آسمان کی جانب دیکھا۔۔ لاکھوں کڑوڑوں ستارے ٹم ٹم کر رہے تھے۔
عبدل آج بھی ایمانے کو نہیں بھولا تھا۔ آج بھی اس نے ایمانے کا طعنہ دیا تھا۔ اس نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔اس کے ہاتھ اب تک پینٹ کی جیبوں میں تھے۔۔ پھر اس نے واپس ہوٹل کی جانب قدم بڑھا دیے۔
✿••✿••✿••✿
بریک ٹائم تھا اور وہ اکیلی بیٹھی تھی۔۔گلاس ونڈو سے نظر آتے باہر کا نظارہ کر رہی تھی۔۔ وہ اب تک آفس میں کوئی دوست نہیں بنا پائی تھی۔۔ وہ زیادہ خاموش ہی رہتی تھی۔بمشکل کسی سے بات کرتی تھی۔
آفس میں اسے سب سے زیادہ نوٹ کرنے والا ایک ہی شخص تھا۔۔۔حجاز بھائی۔۔ ابھی جب انہوں نے ایمان کو اکیلے کھڑے دیکھا تو وہ اس کے پاس آگئے۔۔۔وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔ اس کی آنکھوں سے اس کا درد نظر آتا تھا پر دیکھنے والی آنکھ بس شاید حجاز بھائی کے پاس تھی۔
”محبت ایک حقیقت ہے۔۔۔“ اپنے عقب سے آنے والی آواز پر وہ جھٹکے سے پلٹی۔
”السلام علیکم! کیسے ہیں آپ۔۔؟؟“
شلوار قیمص پہنے اور سر پر ٹوپی اوڑھے وہ شخص اپنی دنیا میں مگن رکھتا تھا۔۔ اس وقت بھی ایمان کے سلام کا ہولے سے جواب دیا۔
”محبت ایک حقیقت ہے تم اس سے مکر نہیں سکتی۔۔ اسے قبول کرنا سیکھو۔۔ اسے جھٹلاؤ گی تو یہ تنگ کرے گی۔۔ محبت کو قبول کرو پر پانے کی چاہ مت رکھو۔۔“ کبھی کبھی وہ اس قدر گہرائی میں مشاہدہ کر لیتے تھے کہ ایمان حیران رہ جاتی تھی۔
”ایک عمر ہوتی ہے جب انسان ضدی بن جاتا ہے وہ چاہتا ہے بس ہمیں وہی ایک شخص ملے۔۔بس وہی چاہیے۔۔ جو کہ جائز ہے کیونکہ محبت ایسی نہ ہو تو پھر وہ کیسی محبت۔۔؟؟“
وہ ان کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔
”پر ایک عمر آتی ہے جب انسان سوچتا ہے جو بھی ملے بس اچھا ہو۔۔۔ہم اتنا ڈسے جا چکے ہوتے ہیں کہ کسی اچھے انسان کی دعا کرنے لگتے ہیں۔۔“
وہ ایمان کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔ اور ایمان ان کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اور پھر ایک عمر آتی ہے، ہاں یہ جو میری عمر ہے۔۔ جس میں انسان کہتا ہے میرے پاس جو ہے بس یہی سب کچھ ہے۔۔۔“
وہ ہولے سے مسکا دیے۔۔۔ بہت دھیمی سی مسکان۔۔۔
ایمان کو اپنے ذہن میں جھماکہ سا محسوس ہوا تھا۔۔ بس تین جملوں میں انہوں نے کتنی گہری بات سمجھا دی تھی۔ گہرا فلسفہ تھا۔۔۔ ”صرف وہی“ سے شروع ہو کر ”جو ہے بس یہی ہے“ تک کا سفر تھا۔
اس وقت ایمان پہلے مرحلے پر تھی۔۔۔اسے صرف ایک انسان سے زیادہ کوئی دکھتا نہیں تھا۔۔
ابھی تو مرحلے باقی تھے۔۔ ابھی تو بہت کچھ جھیلنا تھا۔۔
جو ہے اسے قبول کرلینا۔۔ خاموشی سے۔۔ بنا احتجاج کیے۔۔بنا سوال کیے۔۔۔ یہ صفت انسان میں اتنی جلدی نہیں آتی۔۔ یہ وقت لیتی ہے۔
✿••✿••✿••✿
کائنات کی زبان
”مسٹر حاد۔۔ میرا ایک سوال ہے۔۔“
یہ ایک پچیس سالا لڑکی تھی جس کا تعلق غرناطہ سے تھا۔۔ وہ صرف حاد کی کلاس لینے آئی تھی۔
”آج کل بہت سارے نان ملسمز صرف اس لیے اسلام قبول کر رہے ہیں کہ انہیں قرآن پاک میں جو باتیں لکھی ہیں وہ سائنس کے ذریعے مل رہی ہیں۔۔ کیا یہ صحیح ہے۔۔ کیا ہم صرف اس لیے خدا پر ایمان لاسکتے ہیں کہ اس کی بھیجی گئی کتاب آج چودہ سو سال بعد سائنس کے ذریعے سچ ثابت ہو رہی ہے۔۔ جو کائنات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔۔یہ سب سچ ہورہا ہے۔۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟؟“
آج وہ ہلکے آسمانی رنگ کی ڈریس شرٹ میں تھا۔ کف فولڈ کر رکھے تھے اور وہ اپنے ازلی انداز میں مائیکروفون لگائے اسٹیج کے درمیان کھڑا تھا۔۔ اس کے پاس آج بھی پزل باکس تھا۔ اس نے غور سے لڑکی کی بات سنی۔۔ وہ ماڈرن کپڑے پہنے ہوئے تھی اور وہ مسلمان نہیں لگ رہی تھی۔
”پہلے تو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے۔۔؟؟ سائنس مشاہدہ سے شروع ہوتی ہے۔۔۔“
وہ پزل باکس کو گھماتے گویا ہوا۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔۔ اس نے سوال سن لیا تھا اتنا کافی تھا۔
مشاہدہ انسان کی سرشت میں ہے۔ بچہ پیدائش کے بعد جب بولنا نہیں جانتا سن کر سمجھ نہیں سکتا، صرف اور صرف اپنے مشاہدے کی بنیاد پر، آنکھ کھولنے سے لے کر شعور کی ابتدائی دہلیز پر قدم رکھنے تک کی تمام منازل بخوبی طے کر لیتا ہے۔ سائنس کی بنیاد اسی مشاہدہ پر ہے۔ انسان جب کسی طبعی چیز یاعمل کو دیکھتا ہے اس کے بارے اپنے موجودہ علم کی بنیاد پر اسے سمجھ کر ایک رائے قائم کرتا ہے۔ پھر وہ اس رائے کو مختلف تجربات کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ نتائج کی درستگی کی بنیاد پر وہ اس خاص سوچ یا نظریہ کو سائنس کا نام دےدیتا ہے۔
اینڈ یو نو واٹ۔۔ سائنس کی ایک خوبصورتی ہے کہ سائنسدان اپنے کسی بھی نظریہ کو کبھی بھی قطعی قرار دینے پر اسرار نہیں کرتا۔ وہ اپنے نظریات کو تھوپتا نہیں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مشاہدات مسلسل تغیرات کا شکار رہتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتے علم کی بنیاد پر ہر نئی آنے والی صبح ہماری سوچ فکر اور مشاہدہ کو نئی جلا بخشتی ہے۔ اور ہم دوبارہ اپنے نظریہ سے رجوع کرتے ہوئے اسے نئی بلندیوں پر پہنچا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سائنس تیزی کے ساتھ ترقی کا سفرطے کر رہی ہے۔
موجودہ فزکس کے بانی نیوٹن کی نظریات کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے کچھ لوگ یہ سوچنا شروع ہو گئے تھے کہ سائنس تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور پھر یوں ہوا ہمیں آئن سٹائن جیسا بہترین دماغ ملا جس نے مشاہدہ کی بنیاد پر سائنس کو ایک نئی جہت دی۔ کیا بوہر کے نظریات کو لے کر اس پر آئن سٹائن کی تنقید نے کوائنٹم فزکس کا باب مکمل بند کیا؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ سائنس کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ ہر نظریہ قطعی نہیں ہوتا اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ یعنی سائنس مکمل نہیں ہے۔۔۔یہ بات دماغ میں بٹھا لیں کہ سائنس مکمل نہیں ہے۔۔۔سائنس لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے۔
وہ سانس لینے کو رکا۔
”تو اس کا مطلب وہ سب لوگ جو سائنس کے ذریعے ثابت ہونے والی مذہب کی باتوں پر یقین کرکے ایمان لے آتے ہیں کیا وہ نقصان میں ہیں۔۔۔؟؟“
لڑکی نے اگلا سوال کیا۔
”مذہب کی بنیاد مشاہدات سے مبرا خالق کی قطعی پہچان پر ہے۔ ماضی میں انسان جب بھی کسی طاقتور چیز کو دیکھتا تھا تواپنے مشاہدات سے اسکی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنا خالق تسلیم کرتا رہا ہے۔ انسان کی بشری کمزوری کو جانتے ہوئے الہام کے ذریعے خالق نے اپنی پہچان کروائی۔
جب ہم کسی بھی نئی سائنسی تحقیق یا ایجاد کو اسلام پہ لاگو کرتے ہوئےاسے اسلام کی حقانیت کا ثبوت گردانتے ہیں تو یہ مذہب کے ساتھ ذیادتی ہے۔۔“
اس کی یہ بات سن کر ہال میں بیٹھے اسٹوڈنٹس الجھ گئے۔
کوئی بھی سائنسی نظریہ، جسے لوگ آج مذہب سے جوڑکر حق ثابت کرنے کے لیے رطباللسان ہیں ،اگر کل کو غلط ثابت ہو گیا تو کیا یہ مذہب پر شکوک و شبہات میں اضافہ کا موجب نہیں ہو گا؟؟ آپ کو کیا لگتا ہے وہ لوگ اپنے عقیدے پر قائم رہ پائیں گے اس وقت جب سائنس مذہب سے ٹکرا جائے گی۔۔۔؟؟“
قرآن مجید میں بارہا مشاہدے کی دعوت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ جس چیز کے بارے انسان سوچ اور سمجھ سکتا تھا اسے انسان کی عقل پر چھوڑ دیا گیا یعنی سائنسی علوم۔
ایک بات کی نشاندھی بہت ضروری ہے کہ جب سائنس قطعی نہیں ہے تو اسےدلیل بنا کر مذہب کو ہٹ نہیں کیا جا سکتا ۔سائنسی حلقوں کی جانب سے کسی بات کا تمسخر جسے مذہب نے اشارتاً ذکر کیا ہو بالکل ہی غلط اور بے بنیاد ہے۔ جیسے قرآن میں سات آسمان کا تذکرہ آیا ہے جسے سائنس ابھی تسلیم کرنے سے قاصر ہے ،اسکی وجہ ہمارا سطحی مشاہدہ ہے ۔ابھی ہم سائنس کی اس معراج تک نہیں پہنچے جس کی بنیاد پر ہم کوئی قطعی فیصلہ صادر کر سکیں ۔ جیسے آئین سٹائن کی تھیوری سے پہلے کئی صدیوں تک ارسطو کا دیا گیا ایتھر کا نظریہ کئی سائنسی نظریات میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے۔ پھر نظریہ اضافیت نے اسے غلط ثابت کیا اور اسی پرانے اصول پر قائم سائنسی نظریات کو ایک نئی سمت کی طرف گامزن کیا۔
بس اسی فرق کو پہچاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور مذہب کی عمارت اس وقت تک دو الگ قسم کے اصولوں پر استوار رہےگی جب تک ہم سائنس کی معراج کو نہیں پہنچ جاتے ۔میرا ماننا یہی ہے کہ اسلام کسی بھی سائنسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔اسےمن و عن تسلیم کرتے ہوئے سائنس میں بہتر سے بہترین کا سفر جاری رکھا جا سکتاہے۔ بجائے اس کے کہ آپ اس بات سے متاثر ہو اسلام میں داخل ہوں کہ یہ مذہب سائنس کے ذریعے ثابت ہورہا ہے۔
وہ خاموش ہوگیا۔۔ وہ سائنس کا اسٹوڈنٹ تھا پر اس کا پیروکار نہیں۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا سائنس مکمل نہیں ہے جبکہ خدا کی ذات کامل ہے۔
”اور آخری بات۔۔۔ اگر آپ سائنس سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں کہ اب تو سائنس نے بھی قرآن پاک کی آیتوں کو سچ قرار دے دیا ہے تو آپ کو نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔۔ کیونکہ یہاں آپ نے اسٹینڈرڈ سائنس کو بنایا ہے۔۔ اسلام کو نہیں۔۔ آپ سائنس پر ایمان لائے ہیں۔۔اللہ پر نہیں۔۔آپ ضرور سوچیں آپ کس کے پیروکار ہیں۔۔“
وہ بول رہا تھا پر ایمان کا ذہن اس ایک لفظ پر اٹک گیا تھا۔۔ لفظ ایتھر پر۔۔۔ اسے یاد تھا اس نے پڑھا تھا۔ ارسطو کا ماننا تھا۔
”کائنات ایتھر سے بھری ہے۔ یہ شفاف ہے اور تبدیل نہ ہونے والا ہے۔ نہ سرد ہے اور نہ گرم، نہ خشک ہے اور نہ گیلا۔ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اس کے گرد مادی کرے ہیں۔ کائنات کرے کی شکل میں اور محدود ہے۔ اس میں اوپر، نیچے، دائیں، بائیں کے تصورات موجود ہیں۔ خالی کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ خلا غیرفطری شے ہے۔۔“
”کوئی اور سوال۔۔۔؟؟“ اس نے ہال میں نظر گھمائی۔ اور تبھی ایمان نے ہاتھ کھڑا کیا۔۔ وہ پہلی بار براہ راست اس سے کوئی سوال کر رہی تھی۔ حاد کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
”یس پلیز۔۔۔“ وہ پورا متوجہ ہوا۔
”آپ نے ابھی ایک لفظ استعمال کیا ہے ایتھر۔۔۔ کائنات ایتھر سے بھری پڑی ہے۔۔ اس کا کیا مطلب ہے۔۔ ؟؟“
اور حاد آوازیں بھی نہیں بھولتا تھا۔۔ اسے لگا اس نے یہ آواز کہیں سنی تھی۔۔ پہلے بھی۔۔۔پر اسے فوراً یاد نہ آیا کہ کہاں۔ وہ سیشن بس سنتی تھی۔۔ خاموشی سے اور پوری توجہ کے ساتھ۔۔ ابھی وہ سننے کے مراحل میں تھی۔۔ وہ کسی سے بات بھی کم ہی کرتی تھی۔
”گریٹ۔۔۔ مطلب آپ کے پاس سننے کی صلاحیت ہے۔۔“
اسے ایسے لوگ پسند تھے جو مکمل طور پر اپنے حواسوں میں رہتے ہوں۔۔ اور ایمان ان میں سے ایک تھی۔
”ایتھر کی اصطلاح قدیم یونانیوں سے نکلی ہے۔ اس کا مطلب تھا خلا کے اوپری علاقے، یا آسمان؛ یا وہ مادہ جس نے ان بالائی علاقوں کو بھر دیا ہے۔ کچھ یونانی فلسفیوں، خاص طور پر ارسطو، نے ایتھر کو پانچواں کلاسیکی عنصر (پانی، آگ، ہوا اور زمین کے ساتھ) کہا۔ ارسطو نے دعویٰ کیا کہ آسمان (یعنی جنت) کسی زمینی مادے سے نہیں بن سکتے کیونکہ وہ غیر تبدیل ہوتے ہیں، اس لیے انہیں آسمانی مادہ یعنی ایتھر سے بنا ہونا چاہیے۔ بعد میں اس اصطلاح کو طبیعیات دانوں نے کسی مادے، میڈیم یا فیلڈ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا، جو پوری جگہ کو بھرتا ہے، اور جس کے ذریعے مخصوص لہریں یا قوتیں پھل سکتی ہیں اور سفر کرتی ہیں۔
یہ بہت سے نظریات میں واضح مسائل پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، نیوٹن کے گریویٹی کے قانون کے مطابق گریویٹی فوری طور پر اور ایک خاص فاصلے پر کام کرتی ہے۔ یہ انسانی عقل کے خلاف ہے۔
اور پھر ایک میڈیم جو متعارف کروایا گیا، وہ تھا گریویٹیشنل ایتھر، جس کے ذریعے گریویٹی کی طاقتیں پھیلتی ہیں۔یعنی ایتھر ایک میڈیم طور پر کام کرنے لگا۔ اور یوں ایتھر پوری کائنات میں پھیل گیا۔۔ یا کہہ لیں کائنات ایتھر سے بھری ہوئی کہلائی جانے لگی۔
اور پھر آئن سٹائن نے اس نظریے کو اپنے نظریے سے رد کردیا۔۔ آپ لوگ اس پر غور کریں کہ سائنس کا نظریہ کتنا کی بڑا کیوں نہ ہو وہ رد ہوجاتا ہے۔۔۔ بعد میں آنے والوں نے اپنے سے پہلے والوں کو رد کردیا۔
یاد رکھیں کائنات کی زبان فلسفہ نہیں ہے۔ ہم فلسفوں کی بنا پر کائنات کو بیان نہیں کر سکتے۔ اس کائنات کو ہماری منطق کی پرواہ نہیں۔ ہم اس کو نہیں جانتے، لیکن جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس سے بات کرنے کا گُر سیکھ سکتے ہیں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ سیشن کے بعد کچھ کتابیں ڈھونڈنے لائبریری آگئی۔ اس کا دل ابھی تک دھڑک رہا تھا۔۔ اس شخص سے بات کرنا کس قدر مشکل تھا۔ وہ شیلفوں پر رکھیں کتابوں کو گھورتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب اسے کسی نے عقب سے مخاطب کیا۔
”ایمان بنت عبداللہ۔۔۔“
اس نے پلٹ کو دیکھا تو سامنے ہی مرتضے کھڑا تھا۔۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔
”جج۔۔جی۔۔؟؟“
”کیا آپ ہماری ٹیم کا حصہ بنیں گی۔۔؟؟ ہم چاہتے ہیں ہم لڑکیوں کو بھی آگے لائیں انہیں اس پلاٹ فارم کا حصہ بنائیں تاکہ وہ آگے بڑھ کر بولنا سیکھیں۔۔“
سوال ایسا تھا کہ وہ حیران رہ گئی۔ اسے اس کی توقع نہیں تھی۔ پر اکیڈمی کا مینجنگ ڈائریکٹر اگر بات کرنے آیا تھا تو یقیناً کوئی خاص بات ہی تھی۔
”میں۔۔۔؟؟“ اسے جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
”ہاں آپ۔۔ ہم آپ کو اپنی اسپیشل کلاس میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔۔ پر اس کے لیے آپ کو وقت دینا ہوگا۔۔ صبح سے شام تک یہاں سیکھنا ہوگا۔۔“
وہ اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ وہ ایسا ہی تھا۔۔ خود اسٹوڈنٹس سے بات کرتا ان سے سوال کرتا تاکہ اسے پتہ چلتا رہے کہ اکیڈمی کے حالات کیسے چل رہے تھے۔
”پر میں کیسے۔۔۔؟؟“ اسے جیسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔
”آپ اپنی قابلیت کے بارے میں نہیں جانتی ہیں۔۔ آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں۔۔ میں نے اور مسٹر حاد نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم پرماننٹ آپ کو اپنی ٹیم میں لے لیں۔۔“
اس کا دل جیسا دھڑکنا بھول گیا۔۔
کیا اس شخص کی زبان پر کبھی ام ایمان کا نام بھی آیا تھا ؟؟
اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔۔ آنکھوں میں ایک دم ہی نمی امڈ آئی۔۔ کتنے خواب تھے اس کے۔۔ وہ خود کسی ایسی ٹیم کا حصہ بننا چاہتی تھی۔۔پر گھر کے حالات نے اسے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا تھا۔۔ سچ کہا تھا کسی نے کہ حقیقت بڑی ظالم ہوتی ہے۔۔ آپ کے سارے خوابوں کو پل بھر میں چکنا چور کر دیتی ہے۔۔۔ وہ کیا بننے آئی تھی گھر سے اور اب کہاں بھٹک رہی تھی۔
”پر میں جاب کرتی ہوں۔۔ پورا دن نہیں دے پاؤں گی۔۔“ اس نے صاف صاف بات کرنا مناسب سمجھا۔ اس کی بات سن کر گلابی رنگت والے مرتضے کے ہونٹ اوہ کے انداز میں سکڑے۔
”کیا آپ جاب نہیں چھوڑ سکتیں۔۔؟؟“
اس سوال پر ایمان کے لب بھنچ گئے۔
”چھوڑ سکتی تو کب کی چھوڑ چکی ہوتی۔۔“ اس نے حقیقت سے بھاگنا چھوڑ دیا تھا۔۔ جو تھا وہ تھا۔۔
”ہمم۔۔۔“ مرتضے نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا۔
”چلیں میں دیکھتا ہوں کوئی حل نکالتا ہوں۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔ ”آپ سیکھنا جاری رکھیں۔۔“ پھر وہ ہولے سے مسکرا کر خدا حافظ کہتا چلا گیا۔۔ جبکہ وہ وہیں کرسی پر ڈھے سی گئی۔
کیا حاد نے اسے اپنی ٹیم میں لانے کی اجازت دے دی تھی۔ کیا اس شخص نےانجانے میں ہی سہی کبھی اسے سوچا تھا؟؟ کتنے سوال تھے جو اب اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والے تھے۔
✿••✿••✿••✿
”ڈو یو لو ایمانے۔۔۔؟؟“ وہ دونوں اب بارہ سال کے تھے۔ شام چار بجے عبدل فٹبال کھیلنے جاتا تھا جبکہ حاد لائبریری جاتا تھا۔ وہ دونوں اکٹھے گھر سے نکلتے تھے اور اکٹھے واپس آتے تھے تاکہ ان کی ماں کو لگے کہ دونوں میں اتفاق تھا۔
ابھی وہ دونوں پتھریلی سڑک پر چل رہے تھے جب عبدل نے عجیب و غریب سوال پوچھا۔ حاد نے رک کر تعجب سے اسے دیکھا۔۔ وہ دونوں اتنے بڑے تو نہیں ہوئے تھے کہ پیار محبت کو ڈسکس کر سکیں۔ حاد کی نگاہیں اس وقت بھی چیخ چیخ کر اسے اسٹوپڈ بلا رہی تھیں۔
”ہولڈ آن۔۔ مجھے ان آنکھوں سے مت دیکھو۔۔“ عبدل کا ناک پھر سے پھیلا۔ جبکہ حاد پھر سے چلنے لگا۔۔ اس نے عبدل کی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔
”میں نے دیکھا تھا۔۔ تم نے ایمانے کے فارہیڈ پر کس کیا تھا۔ ماں کے بعد پہلی اور آخری بار تم نے کسی اور لڑکی کو کس کیا تھا۔۔ وہ کیا تھا۔۔؟؟“ حاد رک گیا۔۔۔اسے رکنا پڑا تھا۔۔ عبدل سچ کہہ رہا تھا۔۔ اس نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں کیا تھا۔۔۔سوائے اپنی ماں کے۔ البتہ چھ سال پہلے اس نے بےاختیار ایمانے کی پیشانی کو چھوا تھا۔۔۔ وہ یہ سب بھول بھی جاتا تو عبدل اسے بھولنے نہیں دیتا تھا۔۔ پتہ نہیں اس کی یاد داشت اتنی تیز کیوں تھی۔
”وہ بےبی تھی اس لیے۔۔“ حاد نے جواب دیا۔
”بےبی تو منحے بھی تھی۔۔تم نے اسے نہیں کس کیا۔۔۔“
عبدل باز آجاتا ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
”مجھے ایسا کچھ یاد نہیں ہے۔۔۔“ اس نے انکار کرتے اپنی رفتار بڑھادی۔
”پر مجھے سب یاد ہے۔۔۔ تم کیسے بھول سکتے ہو۔۔“ عبدل چڑ گیا۔ اور اس بار حاد کو پھر سے رکنا پڑا۔
”تم چاہتے کیا ہو۔۔۔؟؟“ اس نے پلٹ کر عبدل کو دیکھا۔ وہ اپنی فٹبال ٹیم کا یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔ قدم قدم چلتا اس کے قریب آیا۔
”ینگ مین۔۔ میں بس چاہتا ہوں کہ تم مان لو کہ تم بھی ایمانے کو یاد کرتے ہو۔۔“ اس نے حاد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔یوں جیسے بڑا بزرگ حوصلہ دے رہا ہو اپنی غلطی ماننے کا۔ حاد حیرت سے اسے تکنے لگا ہونقوں کی طرح۔
”آئی نو شی از یور فرسٹ لو (میں جانتا ہوں وہ تمہاری پہلی محبت ہے۔۔)“ وہ اب اس کا گال تھپتھپا کر آگے بڑھ گیا جبکہ حاد بس اسے جاتے دیکھتا رہا۔
”آہ ایمانے۔۔۔“ وہ تلملایا۔۔ وہ اب اسے اریٹیٹ کرنے لگی تھی۔
✿••✿••✿••✿
سچائی سے آگاہی
”عبدل کے الفاظ بار بار اس کی سماعت میں گونج رہے تھے۔۔ وہ چاہ کر بھی سامنے رکھی کتاب پر توجہ نہیں دے پارہا تھا اور آخر وہ جھٹکے سے اٹھا اپنا بیگ کندھے پر ڈالا اور لائبریری سے باہر نکل گیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ پلے گراؤنڈ کے سامنے کھڑا تھا۔ عبدل باقی لڑکوں کے ساتھ سرخ رنگ کی شرٹ اور شورٹس میں فٹبال کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
”عبدل تمہارا بھائی آیا ہے۔۔“ اچانک ہی کسی نے عبدل کو پکارا۔ وہ رک گیا۔۔ اور پھر گول کرنے والے نیٹ کے قریب آیا۔اس کے پار حاد کھڑا تھا۔
سارے لڑکے انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ جس جذبے سے وہ کھیلتا تھا اس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔ عبدل کے ساتھ ساتھ اس کے سب دوست بھی حاد کی وہاں موجود گی پر حیران تھے۔۔۔وہ اسپورٹس میں کم دلچسپی لیتا تھا۔ زیادہ وقت کسی کھوج میں رہتا تھا۔
”اب کیا ہوا۔۔۔؟؟“ وہ آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔ درمیان میں نیٹ تھا۔
”تم غلط ہو۔۔۔ اور غلط رہو گے۔۔۔“ حاد نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ جبکہ عبدل نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
”میرا فرسٹ لو مام ہیں۔۔ اور ہمیشہ رہیں گی۔۔۔“ اس نے واضح کردیا۔۔ عبدل حیران ہوا وہ گھنٹے بعد یہ بات بتانے آیا تھا بلکہ کلیئر کرنے آیا تھا۔
“یو آر رونگ۔۔ میں کسی ایمانے کو نہیں جانتا اور نہ جاننا چاہتا ہوں۔۔“ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا جھٹکے سے مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ان سے دور جانے لگا۔۔ عبدل کمر پر ہاتھ جمائے کھڑا تھا۔ وہ حاد تھا۔۔ وہ کسی کے سحر میں کم ہی آتا تھا۔
”ہی از جینٹل مین۔۔“ اس کے دوستوں میں سے کسی ایک نے تبصرہ کیا۔۔ وہ جس حلیے میں تھا۔۔ جس نفاست سے اس کے بال سیٹ تھے۔ اسکے چمکتے جوتے، اس کا بولنے کا چلنے کا انداز اسے کسی جنٹل مین سے کم نہیں بناتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ اکیڈمی کی لائبریری میں بیٹھی حساب کتاب کر رہی تھی۔ اس کے بال ہمیشہ کی طرح پونی ٹیل میں تھے اور سر پر دوپٹہ تھا۔ وہ اپنے کام میں اتنا مگن تھی کہ آنے والے قریب حاد کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔
”مس ایمان۔۔۔“
آواز پر وہ چونک اٹھی۔۔۔سر اٹھا کر دیکھا تو حاد سامنے کھڑا تھا۔۔ اس نے ابھی تک مرتضے سے دوبارہ ان کی ٹیم میں شامل ہونے والے موضوع پر بات نہیں کی تھی۔
وہ شخص اس کے سامنے ہی کھڑا تھا جس سے اس کی بہت ساری یادیں جڑی تھیں۔۔ ایسی یادیں جن سے صرف وہ واقف تھی۔ سامنے کھڑا شخص نہیں جانتا تھا۔
”جج۔۔جی۔۔“ اس نے کھڑے ہونا چاہا۔
”پلیز سٹ ڈاؤن۔۔“ اس کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئی۔۔ سیاہ پینٹ پر سیاہ شرٹ پہنے وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔ یہ اس کا انداز تھا۔ پھر وہ کرسی کھینچ کر میز کے دوسری جانب بیٹھ گیا۔۔ جس کی لمبائی زیادہ اور چوڑائی کم تھی۔ وہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوئی اور وہیں خوشگواریت آس پاس بکھر گئی۔
”آپ یہاں جاب کرتی ہیں؟؟“ پہلا سوال ابھرا تھا۔
”جی۔۔۔“ اس نے دھڑکتے دل پر قابو پانے کی کوشش کی۔ پہلی بار وہ اسے اتنا قریب سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے سامنے بیٹھا اسی سے مخاطب تھا۔ ایمان کو لگا جیسے چاروں جانب روشنی پھیل گئی ہو۔
”پاکستان واپس کب جائیں گی؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔
”کچھ دنوں بعد کی ٹکٹ ہے۔۔“
”اور واپسی۔۔۔؟؟“
”نہیں جانتی۔۔ اگر ایم فل میں ایڈمیشن لیا تو آؤں گی واپس ورنہ نہیں۔۔“ اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
حاد کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔ وہ سوچ کے تانوں بانوں میں الجھا تھا۔
”اگر آپ پاکستان میں ہماری ٹیم جوائن کریں تو۔۔۔۔؟؟ میرے خیال سے پھر آپ کو جاب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔“ شاید مرتضے نے حاد کو اس کی مشکل بتا دی تھی۔
ایمان نے خاموشی سے اس کی بات سنی۔۔ جاب کی ضرورت اسے ہمیشہ رہتی یہ وہ اسے کہہ نہ پائی۔
”میں سوچ کر بتاؤں گی۔۔“ اس نے بس اتنا ہی کہا۔ وہ اپنا بھرم نہیں توڑ سکتی۔
”اوکے گریٹ۔۔۔ ضرور سوچیے گا۔۔ ہمیں آپ جیسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔۔“
وہ پیشہ ورانہ انداز میں مسکرایا اور پھر اٹھ کر اسی انداز میں واپس چلا گیا۔ جبکہ ایمان اسے دیکھتی رہ گئی۔
جو بات اسے حاد کی اب سب سے زیادہ اچھی لگتی تھی وہ اس کا کانفیڈنس تھا۔۔ اس کا پراعتماد ہونا۔
خود پر بھروسہ رکھنا۔ اور وہ خود میں اتنا اعتماد لانا چاہتی تھی کہ اپنے بڑے بڑے فیصلے خود کرسکے۔ وہ پراعتماد نظر تو آتی تھی۔۔ کبھی کبھی بڑے بڑے کام کر جاتی تھی پر کئی جگہوں پر وہ کمزور تھی۔۔۔اموشنلی ویک۔۔ اپنے سے جڑے لوگوں کو لے کر وہ ہمیشہ کمزور پڑ جاتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اس رات وہ بہت خوش تھی۔۔۔ خود کو پرجوش محسوس کر رہی تھی۔۔ اکیڈمی کے بعد وہ سیدھا ہاسٹل آئی۔۔
مسکراتے ہوئے اس نے اپنے لیے کھانا بنایا اور اپنے کمرے میں آگئی۔۔ روز ابھی آئی نہیں تھی۔۔۔ ماثیل کا خیال دور دور تک نہیں تھا۔۔ ابھی وہ کھانا کھانے بیٹھی ہی تھی جب سلمی بیگم کا فون آگیا۔ ویڈیو کال تھی۔
”السلام علیکم امی۔۔۔“ اس نے خوشدلی سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔کیسی ہو ایمان۔۔“ سلمی بیگم نے پوچھا۔ ایمان نے انہیں اپنے پاکستان کا بتادیا تھا۔ تقریباً ایک ہفتے بعد اس نے جانا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ کھانا کھا رہی ہوں۔۔“ وہ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں۔۔ پھر اچانک سلمی بیگم سنجیدہ ہوگئیں۔
”مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی۔۔“
وہ تھوڑی کشمکش کا شکار تھیں۔
”تمہارے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔۔ لڑکا بہت اچھا ہے۔۔“
وہ نوالہ نہیں لے پائی۔ ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔ وہ اب بےیقینی سے سلمی بیگم کو دیکھنے لگی۔
”میں نے کہا تھا تمہارے پاس تین سال ہیں۔۔ وقت گزر چکا ہے۔۔ اب میں تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔“
”پر امی۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”تمہیں پتا ہے لڑکا وہیں رہتا ہے جہاں تم ہو۔۔ پڑھا لکھا ہے۔ اور مجھے تو بہت پسند آیا ہے باقی تم جب آؤ گی تو دیکھ لیں گے۔۔۔پہلے اس لیے بتا رہی ہوں تاکہ تم ذہنی طور پر تیار ہو کر آؤ۔۔“
وہ خاموشی سے سنتی رہی۔۔ ساری خوشی غائب ہوچکی تھی۔ کچھ دیر بعد فون بند ہوگیا اور وہ اکیلی بیٹھی رہ گئی۔
مطلب وہ کسی ٹیم کا حصہ نہیں بن پائے گی اور شادی کے بعد ایک عام لڑکی کی زندگی گزارے گی۔۔
سارے خواب پھر سے چکنا چور ہوگئے۔۔۔ ماثیل کا خیال پھر نہ آیا۔۔۔ دل میں عجیب سا درد تھا۔ اس نے منہ کھول کر گہرا سانس لینے کی کوشش کی تبھی اس کی نظر دائیں جانب لگے آئینے پر پڑی۔ وہ ہڑبڑا گئی۔۔ بلکہ ڈر گئی۔۔
سامنے ہی آئینے میں وہ کھڑی تھی۔۔
ام ایمان۔۔۔ ہاں وہی تھی۔۔ جو غصے بھری نظریں لیے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کیا کر رہی ہو اپنے ساتھ؟؟ ماثیل کے ساتھ۔۔؟؟“ اس کا اندر اس سے سوال کر رہا تھا۔
”اور اب کیا کرو گی؟؟ خاموشی سے جا کر شادی کرلو گی۔۔؟؟ ماثیل کو بنا بتائے۔۔۔؟؟“
وہ کچھ بول نہ پائی۔
”تم کبھی اتنی کمزور تو نہ تھی۔۔ اتنی غائب دماغ جسے اپنے زندگی کا ہی نہیں پتا کہ کس طرف جا رہی ہے۔۔“
اب کی بار اس کی آنکھیں بھرنے لگیں۔
”ادھم کو خواب مت دکھاؤ۔۔ کیونکہ تم اپنے لیے نہیں لڑ سکتی۔۔۔اور تم اتنی بھی سیاہ نہیں ہوئی جتنا تم نے خود کو سمجھ لیا ہے اور خود کو غائب دماغ ہی کرلیا ہے۔۔۔“
اس کے اندر کی لڑکی اس پر خفا تھی۔
”پر میں امی کو منع کیسے کروں۔۔؟؟“ وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔
”انکار کرنا سیکھو۔۔۔ ماں کو نہ سہی پر ادھم کو ہی سہی۔اسے انکار کرو کہ تم چاہ کر بھی اپنے دل میں اس کی جگہ نہیں بنا پائی ہو۔۔ سچ کا سامنا کرنا سیکھو۔۔۔“
آئینے میں نظر آتا وہ ہیولا غائب ہوگیا۔۔ اور وہ پھر سے اکیلی رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن وہ آفس میں اسی کشمکش کا شکار رہی۔۔ بریک ٹائم تک اسے میزو نے لڑکے کی تصویر بھیج دی تھی۔ وہ دیکھنے میں خوش شکل تھا۔۔ مشارب حسن نام تھا۔۔ اس نے ایک نظر دیکھا اور فون رکھ دیا۔
اگر اسے حسن سے ہی متاثر ہونا تھا وہ ادھم اور حاد کے پاس بہت تھا۔۔۔
”امی بہت خوش ہیں آپی انہیں لڑکا بہت پسند آیا ہے۔۔“
یہ وہ جملہ ہوتا تھا جہاں ایمان بنت عبداللہ اپنی کائنات ہار سکتی تھی۔
وہ اگر کمزور پڑتی تھی تو اپنی ماں کی وجہ سے۔۔ اپنے سے جڑے لوگوں کی وجہ سے۔۔۔ اور اسی لیے اس نے ماثیل کو ہاں کہا تھا۔۔۔کیونکہ وجہ اس کی ماں تھی۔۔
وہ کتنی دیر سوچتی رہی پھر اس نے ماثیل انسٹیٹیوٹ جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ اسے سب سچ بتانا چاہتی تھی۔ وہ مزید یہ بوجھ لے کر نہیں جی سکتی تھی۔ آفس سے سیدھا وہ انسٹیٹوٹ پہنچ گئی۔۔ پر سامنے ہی اسے لان میں ماثیل کے ساتھ شنایا بیٹھی نظر آئی۔ اسکا دیا گیا زخم آج بھی ایمان کی پیشانی پر تھا۔ ماثیل اسے دیکھ کر حیران ہوا جبکہ شنایا کے نین نقش جیسے تن سے گئے۔
”مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔“
وہ واپس نہیں پلٹی۔ اسے آج سب کلیئر کرنا ہی تھا۔۔ اس کی شادی ہوتی نہ ہوتی۔۔ اسے اس کی محبت ملتی یا نہیں ملتی پر اسے آج اپنے سر سے یہ بوجھ اتارنا تھا۔
”ہاں ہاں آؤ۔۔۔“ ماثیل خوشدلی سے بولا۔
”اکیلے میں۔۔“ وہ اپنی جگہ پر جمی رہی تو ماثیل نے بےاختیار شنایا کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔۔پھر آجاؤں گی۔۔“ پتہ نہیں اس نے کب ماثیل سے صلح کی کب آنا جانا شروع کیا تھا۔۔ ایمان کو خبر نہیں تھی۔ جب وہ چلی گئی تو ایمان گول میز کے قریب رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔
”آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کی شنایا سے صلح ہوگئی ہے۔۔“ اس کے ہاتھ جھولی میں رکھے تھے۔ وہ ماثیل کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کا دل توڑنے آئی تھی اچھے سے جانتی تھی۔
”آئی تھنک یہ پرسنل ہے۔۔جیسے تم آفس کے بعد کہاں جاتی ہوں وہ تمہارا پرسنل ہے۔۔“ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
شاید ماثیل نے اس پر طنز کیا تھا۔۔کیوں کیا تھا یہ وہ نہیں جانتی تھی۔۔ شاید اس لیے کہ وہ اسے نظرانداز کر رہی تھی۔ یا شاید اس لیے کہ سارے خواب ماثیل کو اکیلے دیکھنے پڑ رہے تھے۔
”میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔“ اس نے پھر سے نظریں جھکائیں۔۔ ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔
”ہاں ہاں بولو سن رہا ہوں۔۔“ وہ متوجہ تھا۔ ایمان خود چل کر آئی تھی اس کا مطلب کچھ ضروری بات تھی۔ پل بھر کی خاموشی چھاگئی۔۔ ایمان الفاظ تلاشنے لگی جن سے ماثیل کو کم تکلیف ہوتی۔
”بولو ایما۔۔۔“ وہ اب ٹھوڑی پر ہاتھ جمائے اسے تکنے لگا۔ خاموشی چبھنے لگی تھی۔
”میں آپ کے ساتھ مزید نہیں چل سکتی۔۔۔“
ماثیل کے دل پر پہلا پتھر پڑا۔۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر ہنس دیا۔ وہ ہنستا رہا۔۔ ایمان نے سر نہیں اٹھایا۔
”تو میں چل لوں گا نا تمہارے ساتھ۔۔“
کچھ دیر بعد وہ گویا ہوا۔
”نہیں۔۔۔“
”کیا نہیں۔۔۔؟؟“ اسے لگا ایمان ذہنی طور پر پریشان ہوگی اسی لیے ایسا کہہ رہی تھی۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ ان دونوں کا ساتھ ناممکن تھا۔۔پر وہ ممکن بنانا چاہتا تھا۔
”میں نے بہت کوشش کی۔۔ پر۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا مزید۔۔“ گلے میں کچھ اٹکنے لگا تھا۔۔ آنسوؤں کا گولا سا۔۔
ماثیل کو سنجیدہ ہونا پڑا۔
”اور ایسا کیوں ہے۔۔۔؟؟“
”کیونکہ آپ میری پسند نہیں ہیں۔۔“ اس نے نظریں اٹھائیں۔۔ اور دوسرا پتھر پڑنے سے کانچ ٹوٹ کر دور دور تک بکھرا تھا۔ پر آواز ایمان نہیں سن پائی تھی۔ وہ اب اسے دیکھ رہا تھا۔۔بے یقینی سے۔۔ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
”میں تمہاری پسند کیوں نہیں ہوں۔۔۔؟؟“ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ماثیل نے اگلا سوال کیا۔ پر اندر کچھ چھبنے لگا تھا۔
”کیونکہ میری پسند کوئی اور ہے۔۔“ وہ چہرے کا رخ موڑ گئی۔۔ پول کی جانب۔۔ تیرتی بطخوں کی جانب۔۔
”ڈونٹ سے دز۔۔ (ایسا مت کہو۔۔)“ وہ جیسے تڑپ اٹھا تھا۔
”میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں۔۔“ وہ نہ رکی۔
”آئی سیڈ ڈونٹ سے دز۔۔ (میں نے کہا یہ مت کہو)۔۔“ وہ چلاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ دل کی دھڑکن جیسے رکنے لگی تھی۔ وہ اب خود پر ضبط کر رہا تھا۔۔ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔ جبکہ ایمان ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔ اگر وہ بتادیتی کہ سلمی بیگم اس کے لیے لڑکا پسند کرچکی تھیں تو ماثیل اس کا مزاق اڑاتا۔۔ وہ اس پر ہنستا کہ اکیلی سات سمندر پڑھنے تو آگئی ہو پر شادی اپنی مرضی سے نہیں کرسکتی۔۔
پر وہ کیسے بتاتی۔۔۔مشرقی ماں باپ ساری خوشیاں دے کر یہ خوشی اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔۔اسے اپنی خوشی بنا لیتے ہیں۔
”میں پاکستان واپس جارہی ہوں۔۔۔ شاید جلد شادی بھی کرلوں۔۔“
اس نے نہیں کہا کہ "محبت کی شادی" کرلوں۔۔ جبکہ ماثیل رخ موڑے کھڑا تھا۔۔۔وہ سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا۔
تو اس کا مطلب اس دن کیفے میں وہ سچ کہہ رہی تھی۔ وہ واقعی کسی اور سے محبت کرتی تھی۔
”ادھم ایم سوری۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اس کے عقب میں۔
”گیٹ آؤٹ۔۔۔“ اس نے دبے دبے لہجے میں کہا۔ وہ غصے پر قابو پا رہا تھا۔۔اپنے غصے پر۔۔۔
”ادھم۔۔۔“ اس نے پکارنا چاہا۔
”آئی سیڈ گیٹ آؤٹ ایمان۔۔۔“ وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ ایمان ڈر کر پیچھے ہوئی۔
اس نے کہا تھا اگر تم اب مجھ سے مکری تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔۔پر اس وقت تو ماثیل کی اپنی جان پر بن آئی تھی۔
وہ کبھی اونچی آواز میں نہیں بولا تھا۔۔پر اس وقت وہ جس کنڈیشن سے گزر رہا تھا ایمان اس سے واقف نہیں تھی۔
وہ کتنے خواب دیکھ چکا تھا اور وہ بتانے آئی تھی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ ماثیل نے آنکھیں میچ لیں۔۔۔جبکہ ایمان خاموشی سے پلٹ گئی۔۔ اسے افسوس ہو رہا تھا۔۔۔ خود پر ، ماثیل پر اور اپنے حالات پر۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ماثیل اسے اتنی آسانی سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔ آنے والے کل سے وہ بالکل ناواقف تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ اکیـڈمی آگئی۔۔ پر ذہن وہیں اٹکا تھا۔۔ چاہے جانے کا سرور الگ ہوتا ہے پر اپنے من پسند شخص سے۔۔ ایمان وہ لڑکی نہیں تھی جس کی تعریفیں کرکے اس کے دل میں جگہ بنا لی جاتی۔۔ وہ حاد کے سامنے بھی بالکل نارمل انداز میں رہتی تھی۔ وہ اپنا ویک پوائنٹ مزید کسی کو نہیں دکھا سکتی تھی۔ جتنے دن وہ یہاں تھی سیشن لینا چاہتی تھی۔ اس کی آج حاد سے بات نہ ہوپائی۔۔ سیشن میں بھی اس کا ذہن ماثیل کی جانب اٹکا رہا۔
اسے افسوس بھی تھا کہ جس خاندان کے ایک شخص سے ملنے کی امید لیے وہ ویلنسیا آگئی تھی اسی خاندان کے دوسرے شخص کا اس نے دل توڑ دیا تھا۔ وہ ادھم جبیل کو جتا آئی تھی کہ وہ اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔
وہ جب توجہ نہ دے پائی تو خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئی۔۔ آج سیشن مرتضے لے رہا تھا حاد نہیں۔۔ حاد نے سامنے بنے مرتضے کے آفس میں بیٹھے ایمان کو ہال سے باہر نکلتے دیکھا۔۔ وہ کوئی سیشن ادھورا نہیں چھوڑتی۔
اس کا ذہن بار بار فون کی جانب تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ ماثیل اسے ضرور فون کرے گا یا پھر حشام جبیل۔۔
پر کسی کا فون نہیں آیا۔۔۔وہ ہاسٹل واپس آگئی۔۔ رات ایسے ہی گزر گئی۔ وہ جانے کیا کیا سوچتے سوگئی تھی۔
صبح اٹھی تو جیسے ذہن سے بوجھ ہٹ چکا تھا۔۔۔اسے ماثیل کی اتنی بھی پرواہ نہیں تھی کہ وہ اسے ہی سوچتی رہتی۔۔البتہ اسے اپنے کیے گئے کام پر افسوس تھا۔ وہ آفس میں تھی جب اسے عبدل کا فون آیا۔۔
”میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔پلیز ایمانے یہ بہت ضروری ہے۔۔“
حاد ویلنسیا میں تھا۔ عبدل اسے اب صاف صاف بتانا چاہتا تھا وہ کون تھا۔۔ حاد سے اس کا کیا رشتہ تھا۔۔وہ اتنا باغی کیوں تھا۔۔۔وہ ایمان کو سب سچ بتانا چاہتا تھا۔
وہ آفس سے نکلی تو سیدھا اسی کافی شاپ پر آگئی جہاں وہ کچھ دن پہلے عبدل سے ملی تھی۔
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
”تم ادھم جبیل کو کیسے جانتی ہو؟؟“ عبدل نے سوال کیا۔
”اس کے انسٹیٹیوٹ میں میں نے جاب کی تھی۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”اور۔۔۔؟؟“ وہ متجسس تھا۔
”اور کیا۔۔۔؟؟“ ایمان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو عبدل نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی اس کا فون بجنے لگا۔ روز کا فون تھا۔۔ فون کی اسکرین مسلسل بلنک کر رہی تھی۔ اس نے فون اٹھا لیا۔
”کہاں ہو تم۔۔۔؟؟“ روز کی سنجیدہ سی آواز ابھری۔
”ضروری کام سے آئی ہوں۔۔“ ایمان نے فون بند کرنا چاہا۔
”کس جگہ۔۔؟؟“ وہ جانے کیوں پوچھ رہی تھی۔
ایمان نے جلدی سے کافی شاپ کا نام بتا کر فون بند کردیا۔
اب وہ عبدل کی جانب متوجہ ہوئی۔
”تم جانتے ہو ادھم کو؟؟“ وہ اب پریشان ہوگئی تھی۔
”میں نے شادی نہیں کی۔۔۔“ عبدل نے بم پھوڑا۔
ایمان حیرت سے اسے تکنے لگی۔
”میری کوئی فیانسی نہیں ہے اور نہ میں نے کوئی شادی کی ہے۔۔۔“ وہ سچ بول رہا تھا۔۔ شاید سچائی سے آگائی کا وقت آچکا تھا۔۔۔ہر انسان کا سچ دوسرے کے سامنے آنا تھا۔
”وہ لڑکی میری فیانسی نہیں تھی۔۔ میں نے جان بوجھ کر وہ سب کیا تھا۔۔“
ایمان اسے دیکھ رہی تھی جبکہ عبدل بول رہا تھا۔
”میں جانتا تھا کائنات مجھے پسند کرنے لگی تھی۔۔ اسی لیے میں نے تمہارے سامنے وہ ڈرامہ کیا۔۔“
ایمان کی نظروں کے سامنے ڈیڑھ سال پہلے کا منظر گھوم گیا۔۔ کتنا سچا دوست مان چکی تھی وہ عبدل کو۔۔اور کیا کیا تھا عبدل نے۔۔
”دوست ڈرامے نہیں کرتے۔۔۔“ وہ بس اتنا کہہ پائی۔
”میں چاہتا تھا تم مجھ پر اندھا بھروسہ مت کرو۔۔تم لوگوں پر یقین کرنا چھوڑ دو۔۔ اسی لیے وہ سب کیا۔۔ اور۔۔۔“
وہ جیسے سانس لینے کو رکا۔۔ جبکہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”اور اگر تمہیں پتا چل جاتا کہ میں کون ہوں تو تمہیں دکھ ہوتا۔۔“
اور تب ہی ایمان کی نظر کافی شاپ کے اندر داخل ہوتے ماثیل پر پڑی۔ وہ ساکت رہ گئی۔ وہ اسی جانب آرہا تھا۔۔ایمان کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔
اس کے چہرے کی رنگت اور تاثرات دیکھ کر عبدل ٹھٹکا۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
وہ بکھرے بکھرے حلیے میں اس کے سامنے تھا۔۔ پوری رات میں جانے کتنی سگریٹیں پھونکی تھیں۔
اور وہ کتنے آرام سے کسی اور لڑکے کے پاس بیٹھی تھی۔
”تو یہ ہے وہ لڑکا جس کی خاطر تم نے۔۔۔“ وہ طنزیہ لہجے میں کہتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔۔ عبدل بھی اپنی جگہ سے اٹھا۔۔جبکہ ایمان کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ یقیناً روز نے ماثیل کو اسکی لوکیشن بتائی تھی۔
”کانگریچولیشنز مین۔۔!!“ ماثیل نے عبدل کی جانب دیکھتے کہا۔ جبکہ ایمان کا گلا خشک ہوگیا تھا۔
”تمہاری وجہ سے اس نے مجھے چھوڑ دیا۔۔“ وہ جانے کس کرب سے گزر رہا تھا۔۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔
”ادھم آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔۔“ ایمان نے خشک ہوچکے لبوں پر زبان پھیرتے کہا۔۔ جبکہ عبدل ماثیل کو دیکھ رہا تھا۔۔اپنے سے ڈیڑھ دو سال بڑے اپنے فرسٹ کزن کو۔۔ ادھم جبیل کو۔۔ جو ماثیل دی بت ساز کہلاتا تھا۔
”میں بس یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔ تم نے مجھے تب کیوں روکا جب میں جا رہا تھا۔۔ اپنا کر چھوڑ دیا۔۔ بتاؤ ایسا کیوں کیا۔۔“ وہ چاہ کر بھی آواز نیچی نہ رکھ پایا۔ جبکہ ایمان کا وجود کانپنے لگا تھا۔ اس نے گھبرا کر عبدل کو دیکھا۔
”ادھر دیکھو میری جانب۔۔۔ گزار لینا اس کے ساتھ پوری زندگی۔۔پر مجھے میرے سوال کا جواب دو۔۔ کیوں کیا تم نے ایسا۔۔۔؟؟“ وہ واقعی اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔
”ادھم۔۔ مم۔۔میں مجبور تھی۔۔۔“ وہ ہکلائی۔
”کیا مجبوری تھی تمہاری۔۔۔؟؟“
”کیونکہ آپ کے اس فادر نے جسے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں مجھے فون کیا تھا۔۔ میری منتیں کی تھیں کہ میں آپ کو جانے سے روک لوں۔۔“ وہ پوری قوت سے چلانا چاہتی تھی پر چلا نہ پائی۔ اس کی یہ بات سن کر عبدل اور ادھم نے بیک وقت حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ اور پھر چند لمحوں بعد ادھم کا بےساختہ قہقہہ ابھرا تھا۔ وہ ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔۔ ایمان بےبسی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جبکہ عبدل حالات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”مجھے نہیں پتہ تھا ایمان کہ تم جھوٹی بھی ہو۔۔“ وہ نم آنکھوں سے مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔۔ چہرے پر بےاختیار ہاتھ پھیرا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہی۔۔ مجھے حشام جبیل کا فون آیا تھا۔۔ بلکہ آتا رہا ہے۔۔۔“
”تو تم نے ان کی بات کیوں مانی۔۔؟؟“ ماثیل نے اس کی بات کاٹی۔
”کیونکہ میری ماں بیمار تھی ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھی۔۔ ان کا آپریشن ہونا تھا۔۔ آپ کے فادر حشام جبیل نے ان کے علاج کے لیے پیسے دیے۔۔ اور پھر انہوں نے بدلے میں مجھ سے یہ مانگا۔۔۔“
”شٹ اپ۔۔۔“ اس بار وہ دھاڑا۔۔ لوگ آس پاس تھے پر کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا باتیں کر رہے تھے۔
”بند کرو یہ ڈرامہ۔۔ تم اتنا کیسے گر سکتی ہو۔۔۔اتنی جھوٹی کیسے ہو سکتی ہو۔۔؟؟“
یہ وہ نرم مزاج ماثیل نہیں تھا۔ ایمان نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔ وہ اسے جھوٹی کیسے کہہ سکتا تھا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔“ اس بات وہ خود پر قابو نہیں رکھ پائی۔۔ آنکھوں میں لبالب آنسوں بھرنے لگے تھے۔
”یو نو۔۔ میرا ڈیڈ اس وقت اس دنیا سے چلا گیا تھا جب میں نائنتھ کلاس میں تھا۔۔ ایٹ لیسٹ ان پر تو الزام مت لگاؤ۔۔۔“
ادھم نے اس کے قریب ہوتے دھیمی آواز میں گویا دھماکہ کیا۔ ایمان کو لگا ویلنسیا ہل گیا ہو۔ وہ اب بےیقینی سے ماثیل کو دیکھ رہی تھی۔
”مجھے یقین نہیں ہورہا ایمان یہ تم ہو۔۔۔“ وہ مزید قریب ہوا۔۔ پر اس سے پہلے وہ اسے چھوتا عبدل نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”یہ سچ کہہ رہی ہے۔۔۔“ عبدل نے کہا تو ماثیل نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
”سیریسلی۔۔۔اب تم کون ہو؟؟“ انداز میں حقارت تھی۔
”عبدل جبیل۔۔۔ روحان جبیل کا بیٹا۔۔“
وہ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اپنا کسرتی جسم لیے۔۔ اپنی گرے آنکھیں ماثیل کی سرمئی آنکھوں میں گاڑھ دیں۔ اسے ایمان پر یقین تھا۔۔ وہ جھوٹ نہیں بول رہی تھی۔
ایمان تو جیسے بت بن چکی تھی۔۔ اسکی لوگوں سے بےخبر رہنے کی عادت اسے لے ڈوبی تھی۔۔۔اس نے کبھی جاننے کی کوشش نہ کی عبدل کون تھا۔۔ پر آج تو جیسے ویلنسیا زلزلوں کی ضد میں تھا۔
”اوہ مائی۔۔۔“ ماثیل نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔ اسے اپنے خاندان کے لوگوں میں کم ہی دلچسپی ہوتی تھی اور اس کے دو کزنز تھے۔۔۔فرسٹ کزنز جن سے وہ ہمیشہ ہی غافل رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ لندن میں تھے۔
”مطلب تم دونوں نے مل کر مجھے بےوقوف بنایا۔۔“
ماثیل کو اپنے اتنی آسانی سے بےوقوف بن جانے پر افسوس ہورہا تھا۔
”اور تم ایک جبیل کو دھوکا دے دوسرے جبیل کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہو؟؟ آئی کانٹ بلیو اٹ۔۔“
وہ اسے کہہ رہا تھا جبکہ ایمان اب بے یقینی سے عبدل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
تو یہ سچ تھا عبدل کا۔۔۔وہ آرجے کا بیٹا تھا۔۔۔روحان جبیل کا۔۔۔۔ تبھی وہ ام حانم کو جانتا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں بےاختیار آنسوں بھرنے لگے۔۔
بےوقوف تو وہ تھی۔۔ کتنی آسانی سے جبیل خاندان کے ہاتھوں بےوقوف بن گئی تھی۔
اگر حشام جبیل مر چکا تھا تو اسے کال کرنے والا کون تھا؟؟ ذہن اب تڑخنے لگا تھا۔ اسے لگا تھا وہ گرجائے گی اگر اس پر مزید کوئی دھماکہ ہوا۔
”اور تم پیسوں کے لیے یہ سب کرتی رہی۔۔۔ پیسوں کی خاطر میری محبت کو اپنایا۔۔ تم نے یہ سب پیسوں کے لیے کیا۔۔؟؟“ وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت تھے۔۔ ڈسے ہوئے اور حیران پریشان۔۔ ایمان نے ایک نظر اٹھا کر ماثیل کو دیکھا۔۔
وہ بےاعتبار ہوچکا تھا۔۔۔وہ کیسے اپنی صفائی دیتی۔۔ اس نے اپنا منہ بند ہی رکھا۔۔
”میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔“ وہ اسے نفرت سے دیکھتے پلٹ گیا۔۔ وہ آگ کی لپیٹ میں تھا۔۔یہاں رہتا تو کچھ غلط کر دیتا تھا۔۔
عبدل وہیں تھا۔۔ وہ ایمان کی حالت سے واقف تھا۔۔وہ جانتا تھا یہ سب کس نے کیا تھا اور کیوں کیا تھا۔۔ اس کے غصے سے جبڑے بھنچ گئے۔
”میں سب تمہیں بتانا چاہتا تھا۔۔۔“ ایمان کو بےیقینی سے اپنی جانب تکتا پا کر عبدل قدم بڑھا کر اس کے قریب آیا۔
”یہ سب تم نے کیا۔۔۔؟؟“
”نن۔۔نہیں۔۔۔ ایمانے۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔ لیکن ادھم ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ حشام انکل واقعی بہت سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔۔“
اور ایمان نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔
یہ سب کیا ہورہا تھا۔۔ کیوں ہو رہا تھا۔۔۔؟؟ سر میں درد کی شدید ٹیسںیں اٹھنے لگی تھیں۔
✿••✿••✿••✿