Maseel novel episode 37 by noor rajpoot

 

Maseel novel episode 37

وہ جن پانچ لوگوں کے ہجوم میں آیا تھا انہی میں واپس چلا گیا۔۔۔۔ جبکہ ایمان اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔ وہ اللہ سے پوچھنا چاہتی تھی آخر اُس نے ایسا کیوں کیا؟؟ وہ تو اپنی خاموش یک طرفہ محبت کو کہیں اندر دفنا چکی تھی پھر کیوں اس موقع پر اللّٰہ اس شخص کو سامنے لایا تھا جب وہ خود ایک سیاہ کے ساتھ تھی۔۔۔۔ اسے اپنی آنکھیں نم ہوتیں محسوس ہوئیں۔۔ وہ اکیڈمی سے نکل آئی۔ باہر اندھیرا تھا اور خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس نے حاد سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ وہ ایسا چاہتی تھی۔
پر وہ ہاسٹل نہیں جانا چاہتی تھی۔۔ جو دھماکہ اس کے سر پر ہوا تھا اس کے لیے ضروری تھا وہ باہر ہی رہ کر خود کو نارمل کرتی۔۔۔ کوئی اس کا ہمراز نہیں تھا وہ کس سے جا کر اپنی تکلیف بیان کرتی۔۔۔ کس سے مدد مانگتی۔۔۔؟؟ کس کے سامنے اپنا دل ہلکا کرتی۔۔؟؟ وہ اپنے اندر اترتی خاموشی کے ساتھ ایک کافی شاپ میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔ گلاس ونڈو کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ کر وہ باہر روشنیوں سے بھری اسٹریٹ دیکھنے لگی۔۔۔لوگ آجارہے تھے۔۔۔ سیاہ چہل قدمی کر رہے تھے۔ اسے شکوہ تو ہوا تھا اللہ سے پر اس نے زبان سے کچھ نہیں بولا۔۔۔ دماغ میں عجیب سی درد کی ٹیس اٹھی تھی۔۔ وہ کئی لمحے بیٹھی رہی۔۔۔ویٹر اس کے پاس آیا تو اس نے ہاٹ کافی کا آڈر دیا اور میز پر رکھے گلاس کو گھورنے لگی۔۔ اس کے ہاتھ جھولی میں رکھے تھے۔۔۔ بیگ کی اسٹریپ اب تک کندھے پر تھی۔۔جبکہ وہ نیچے لٹک رہا تھا۔ وہ جیسے بیٹھی تھی ویسے ہی جھکتے ہوئے اس نے دائیں جانب سے سر میز پر ٹکا دیا۔۔ خاموشی اس کی ذات کا حصہ تھی۔۔ وہ اب بنا پلکیں جھپکائے گلاس ونڈو سے نظر آتے آسمان کو دیکھ رہی تھی جہاں تارے ٹمٹما رہے تھے۔۔
ایک تھا ماثیل جو اس پر دل و جان سے مرتا تھا۔۔ اور اسے لگتا تھا ایمان اس کے لیے روشنی بن کر آئی تھی۔
اور ایک تھا حاد جو اسے جانتا تک نہیں تھا، اور وہ اس کی چاہت تھا۔۔۔خاموش محبت۔۔۔جسے اس نے خود سے بھی چھپا کر رکھا تھا۔۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا یہ محبت نہیں ہے صرف عقیدت ہے۔۔پر جب جب وہ سامنے آیا اس کے دل نے بغاوت کردی تھی۔
ایمان کے ساتھ رہتے ہوئے کبھی کوئی جان ہی نہیں پایا کہ اس پر کسی شخص کا بسیرا تھا، جو اسے کسی اور جانب دیکھنے ہی نہیں دیتا۔۔۔ ماثیل سے گریز کی ایک وجہ وہ سفید شخص بھی تھا جو اسے کسی اور کا ہونے نہیں دیتا تھا۔
کوئی جان ہی نہیں پایا وہ ہر جگہ اس سفیدی کو ڈھونڈتی تھی جو اس شخص سے جڑی تھی۔۔۔یہ تب مزید بڑھ گئی تھی جب اس نے پہلی بار حاد کو مسٹر گرے والے اکاؤنٹ پر لائیو دیکھا تھا۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا انسان اسے چاہیے تھا۔۔ وہ اس کے دل بسنے والے اس بت پر پورا اترتا تھا جو اس کے لاشعور میں اس کے ہمسفر کا بن چکا تھا۔
”یا اللہ پاک۔۔۔مجھے ہمت دے کر رکھنا۔۔“ اس نے خاموشی سے آسمان کو تکتے نم آنکھوں اور خاموش لبوں سے التجا کی تھی۔
اس نے محبت کو خود سے چھپا کر رکھا تھا۔۔۔اس نے کبھی اللہ سے بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔۔کیونکہ اسے اللہ سے حیا آتی تھی۔۔۔اسے شرم محسوس ہوتی تھی کہ وہ کیسے کسی شخص کا نام دھڑلے سے اللہ کے نام لے اور اسے کہے کہ اللہ جی مجھے یہ پسند ہے۔۔ جب اس نے اتنا چھپایا تھا پھر کیسے وہ شخص اس کے سامنے آکر اس کی ذات کا بھرم توڑ سکتا تھا۔
وہ جانے کب تک بےجان یونہی لیٹی رہی۔۔۔ ویٹر اس کا آڈر رکھ کر جاچکا تھا۔ جب اس کی نظر آسمان سے پلٹی تو گلاس ونڈو کے پار کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی۔۔۔ ہاں وہ وہی تھا۔۔۔ بدتمیز، گستاخ اور ظالم عبدل۔۔۔ وہ اپنے ازلی حلیے میں ونڈو کے پار کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ ابھی تک اس کا سونگ پلے ریلیز نہیں ہوا تھا۔۔ ڈیڑھ سال ہونے والا تھا۔۔ اس نے ڈیڑھ سال بعد عبدل کو دیکھا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔۔۔ عبدل بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ جانے وہ کب وہاں کسی جن کی طرح آیا تھا۔۔ جب اس نے ایمان کو اٹھ کر بیٹھتے دیکھا تو وہ داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا اور پھر اگلے چند پلوں میں وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ ایمان حیرت کے گہرے سمندر میں تھی۔۔ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط حلیے میں تھا۔۔۔ایک باکسر کے حلیے میں۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کے سامنے خاموش بیٹھے تھے۔ اسے آج ایمان کا خیال کیوں آیا تھا؟؟
”کیسی ہو ایمانے۔۔۔؟؟“ بالآخر اس نے ہی خاموشی کو توڑا۔
”زندہ ہوں۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔۔۔ عبدل اسے دیکھ رہا تھا جبکہ ایمان کی نظر ہاٹ کافی کے مگ پر تھی۔ اس نے نہیں پوچھا وہ کیسا تھا۔۔؟؟ نہ پوچھا وہ کہاں تھا۔۔؟ نہ پوچھا اس کی وائف کیسی تھی۔۔ اس نے کچھ نہ پوچھا۔۔ اسے پوچھنا ہی نہیں تھا۔
”میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔
”میں سننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔۔۔“ سپاٹ ، تاثرات سے عاری چہرہ۔۔۔ عبدل نے تڑپ کر اسے دیکھا۔۔ وہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ وہ پہلے والی ایمانے نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی رنگت۔۔ اس کا غصہ اس کی ہنسی۔۔ اس کی خفگی بھری گھوری۔۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔۔ڈیڑھ سال نے اسے کافی بدل دیا تھا۔
”میں پھر بھی سنانا چاہوں تو۔۔؟؟“ عبدل نے ڈرتے دل کے ساتھ پوچھا۔ کہیں وہ کڑک سا جواب دے کر دل ہی نہ توڑ دے۔ اس پر ایمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
ضبط سے سرخ ہوچکی سیاہ آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔۔ ان آنکھوں میں بہت سارے شکوے تھے پر اس کے لب خاموش رہے۔
”دوستی کے نام پر پھر سے دھوکا دینا چاہتے ہیں۔۔؟؟“
سوال ایسا تھا کہ عبدل کے دل پر گھونسا سا پڑا۔ وہ تڑپ اٹھا تھا وہ اسے سب بتانا چاہتا تھا۔۔۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا وہ کیوں چلا گیا تھا۔۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا وہ اس کی ان سیاہ آنکھوں میں کسی اور کا عکس دیکھ چکا تھا۔ پر وہ بھی کچھ نہ بتا پایا۔ ایمان ابھی تک اسے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ حاد سے مشابہ تھا۔۔ اس کی گرے آنکھیں بالکل ویسی تھیں۔۔ اس کا چہرہ کافی حد تک ملتا جلتا تھا۔۔پر جو نہیں ملتا تھا وہ ان کا حلیہ تھا۔۔ اسی لیے وہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ دکھتے تھے۔۔۔ پر ایمان کو عبدل کے چہرے میں کسی اور جھلک نظر آگئی تھی۔ اسی لیے اس نے عبدل سے ایک بار کیفے سینٹ جاؤمے کے باہر بیٹھے کچھ کہا تھا۔
ایسا کیوں لگتا ہے جیسے یہ چہرہ میں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔۔“
”اچھا کہاں دیکھا تھا۔۔؟؟“
”پاکستان میں۔۔ ریلوے اسٹیشن پر۔۔۔۔“
ماضی کی یاد کسی فلم کی طرح چلنے لگی۔۔۔سب کچھ کتنا اچھا تھا۔۔ نہ کوئی ماثیل تھا۔۔ نہ کوئی حاد تھا۔۔ نہ سیاہی تھی نہ سفیدی۔۔ بس وہ دونوں تھے۔۔ اچھے دوست۔۔ اس روز عبدل جان گیا تھا اس نے ریلوے اسٹیشن پر کسے دیکھا تھا۔۔ اور وہ شاید یہ بھی جان گیا تھا کہ ایمان کے لیے وہ چہرہ کس قدر اہم تھا۔۔۔ پر ایمان آج تک نہیں جان پائی تھی کہ دونوں کی آنکھیں کیسے اتنا ملتی تھیں۔
”کیا اس نے تمہیں ڈھونڈ لیا۔۔۔؟؟“ وہ سنجیدہ تھا۔
”کس نے؟؟“ وہ الجھی۔۔۔جبکہ عبدل ٹھٹک گیا۔۔
”کس کی بات کر رہے ہو؟؟“ ایمان کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔۔اس کی چھٹی حس کسی خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی۔ جبکہ عبدل خاموش رہا۔۔۔اسے سمجھ نہ آیا کہ ایمانے کا نام لینے کے باوجود وہ اسے کیسے ڈھونڈ نہ پایا۔۔؟؟
”کیا تم ماثیل کو جانتے ہو ۔۔؟؟“ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی۔ چہرے پر خوف کے سائے ابھر آئے تھے۔ جبکہ عبدل کہیں اور الجھا تھا۔
”ماثیل۔۔۔“ عبدل زیرلب بڑبڑایا۔ یہ نام اس نے کہیں سنا تھا۔
”ہاں ادھم جبیل عرف ماثیل۔۔۔ کیا تم اسے جانتے ہو۔۔؟؟“ ایمان نے خشب لبوں پر زبان پھیرتے تیزی سے پوچھا تو عبدل کو کافی شاپ کی بلڈنگ اپنے سر پر گرتی محسوس ہوئی۔۔ وہ اب حیرت سے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ کیسے ادھم کو جانتی تھی۔۔۔؟؟ اس نے آج ہی ایمان کی تلاش کی تھی کیونکہ وہ اسے بتانا چاہتا تھا وہ کون تھا؟ اس کا آرجے سے کیا تعلق تھا اور وہ کیوں غائب ہوگیا تھا۔ وہ اسے مل بھی گئی تھی۔ پر ادھم۔۔۔۔؟؟ وہ کہاں سے آگیا تھا۔۔۔؟؟ وہ اب بےیقینی سے ایمان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”عبدل کے ساتھ جو پلے سونگ ریکارڈ کیا گیا ہے اس کی ریلیز روک دو۔۔“ وہ کمرے کی کھڑکی میں کھڑا تھا جہاں سے پورا ویلنسیا نظر آرہا تھا۔۔ وہ فون کان سے لگائے سرد و سپاٹ لہجے میں کسی کو حکم دے رہا تھا جبکہ دوسری جانب فون سننے والے کے سر پر گن رکھی تھی۔۔ ایک شخص سوٹ بوٹ میں ملبوس چہرہ ماسک میں چھپائے اس کے سر پر کھڑا تھا۔۔ یہ وہی ڈائریکٹر تھا جس نے ابھی ابھی عبدل کے ساتھ فالن اینجل پر اپنی شوٹنگ مکمل کی تھی۔۔ پر اسے سمجھ نہ آیا تھا اچانک اس کے گھر میں کوئی کیوں گھس آیا تھا اور اب اس کے سر پر گن تانے کھڑا تھا۔ اس نے خاموشی سے ڈائکریکٹر کو فون پکڑا دیا تھا۔ وہ اب کانپتی ٹانگوں سے فون کی دوسری جانب موجود شخص کا حکم سن رہا تھا۔
”لک۔۔لیکن میں ایسا کیوں کروں میں نے بہت پیسہ لگایا ہے اس پر۔۔“ ڈائریکٹر نے احتجاج کیا۔۔ اسے اتنا سمجھ آگیا تھا کہ یہ عبدل کا کوئی دشمن تھا۔
”جتنا لگایا ہے اس سے ڈبل تمہیں مل جائے گا۔۔ پر یاد رہے اگر یہ سونگ ریلیز ہوا تو تم نہیں بچو گے۔۔۔“
اس نے فون پر دھمکی دی۔
”اگر ریلیز نہ ہوا تو عبدل مجھے مار ڈالے گا۔۔“ ڈائریکٹر کے چہرے پر خوف واضح تھا۔
”عبدل آئے تو اسے یہ سب جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے صاف صاف بتادینا۔۔۔“
ٹوں ٹوں کی آواز سے فون بند ہوگیا۔۔ ماسک نے والے شخص نے گن ابھی تک اس کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔ وہ اب اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے عبدل کو سائن کیا تھا۔
”اکاؤنٹ نمبر لکھو۔۔“ ماسک والے شخص نے اپنا فون ڈائریکٹر کے سامنے کیا۔ کل سونگ کی ریلیز ڈیٹ تھی۔ ڈائریکٹر نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے فون میں اپنا اکاؤنٹ نمبر ٹائپ کیا۔
”آج شام تمہیں پیمنٹ مل جائے گی۔۔۔پر یاد رکھنا یہ پلے سونگ اگر ہماری مرضی کے بنا ریلیز ہوا تو تم نہیں بچو گے۔۔“ ماسک والے شخص نے پھنکارتے کہا اور پھر گن اس کے سر پر اس انداز میں ماری کہ وہ وہیں ڈھے گیا۔
✿••✿••✿••✿
عبدل چلا گیا تھا بنا کچھ بتائے بنا کچھ بولے جبکہ وہ وہیں بیٹھی رہ گئی۔۔ کئی لمحے وہ الجھے ذہن کے ساتھ یونہی بیٹھی رہی چونکی تب جب ماثیل کا فون آیا۔۔ اس کا فون بار بار بج رہا تھا۔۔ بالآخر اسے اٹھانا پڑا۔
”کہاں ہو۔۔۔؟؟“ بےتابی سے پوچھا گیا۔۔ ایمان نے کافی شاپ کا نام بتا کر فون بند کردیا۔ کچھ دیر بعد وہ اس کے سامنےبیٹھا تھا۔۔۔ ایمان کی کافی ویسے ہی رکھی تھی۔
”مجھے بلا لیا ہوتا۔۔ اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟؟“ وہ اب اس پر نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔ جبکہ ایمان خاموش بیٹھی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی تھی۔
”اگر میں کہوں میں کسی سے محبت کرتی ہوں تو؟؟“ ایمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ وہ جو مینیو چیک کر رہا اس کے ہاتھ تھم گئے۔۔۔ اس نے بےاختیار ایمان کو دیکھا دونوں کی نظریں ملیں۔ وہ کسی مزاق کے موڈ میں نہیں تھی۔ وہ کچھ ثانیے دیکھتا رہا۔
”اونہوں۔۔ تم محبت نہیں کر سکتی ایمان۔۔“ وہ استہزائیہ ہنستا پھر سے مینیو کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”اگر میں کہوں تو۔۔۔؟؟“
”تم محبت نہیں کر سکتی ایمان! تم دل میں بھی ایک دماغ رکھتی ہو، حواس میں رہنے والا شخص محبت نہیں کر سکتا اور تمہارا تعلق اس ذات سے جڑا ہے جو تمہیں مدہوشی میں بھی ہوش کھونے نہیں دیتا، تم بھلا محبت کیسے کر سکتی ہو؟ تم محبت کر ہی نہیں سکتی۔۔۔!!“
اس کی نظریں ابھی تک مینیو پر تھیں پر اس کا لہجہ اس کے اندر کی تکلیف کو بیان کر رہا تھا۔۔ ماثیل دی بت ساز ایک لڑکی کی محبت نہیں جیت پایا تھا۔
وہ کتنے یقین سے کہہ رہا تھا۔۔ ایمان اسے دیکھتی رہی۔ ماثیل نے ویٹر کو بلا کر دونوں کے لیے فریش کافی کا آڈر دیا۔۔ اور پھر جسے گہرا سانس لیتے اپنے اندر کی تکلیف کو دبا کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔ وہ مسکرادی۔۔ پھیکی سی مسکراہٹ۔۔۔
ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔۔ وہ بھلا کسی سے محبت کیسے کر سکتی تھی۔ شاید یہ سب بس وقتی تھا۔۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔۔ پر وقتی احساسات سالوں آپ سے چمٹے نہیں رہتے ہیں۔
”آپ کو کوئی مسئلہ نہیں؟؟ مجھے آپ سے محبت نہ ہوئی تو۔۔؟“ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”ہاں کوئی مسئلہ نہیں پر شرط یہ ہے کہ تمہیں کسی اور سے محبت نہ ہو۔۔“ وہ اب سنجیدہ تھا۔ ایمان کی پھیکی سی مسکان بھی غائب ہوئی۔ اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش بھی نہ کی۔ وہ بس خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
”ہوگئی تو۔۔۔۔؟؟“ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔۔ ماثیل نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کم از کم جب سے تم میرے ساتھ ہو تب میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس پر تم جیسی لڑکی کا دل آجائے۔۔ نو نیور۔۔ تو مطلب ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔“
پر ماثیل یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ شخص تو ہمیشہ سے تھا۔۔ ہمیشہ سے۔۔ ہر جگہ ہر کہانی میں۔۔ آنکھوں سے اوجھل۔۔ پر وجود رکھنے والا۔۔
✿••✿••✿••✿
”تم ایمانے کو ڈھونڈنے کب جاؤ گے۔۔؟؟“ وہ دونوں سکول میں تھے۔۔ جب سے وہ پاکستان سے واپس آئے تھے عبدل کی زبان بس ایک ہی نام لیتی تھی۔
ایمانے۔۔۔ ایمانے۔۔ ایمانے۔۔
اس وقت بھی وہ سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہی ہوئے تھے جب عبدل نے پھر سے اس کا ذکر چھیڑ دیا۔
”بھول جاؤ اسے۔۔“ سنجیدہ سا حاد سپاٹ لہجے میں بولا۔
”کیا مطلب بھول جاؤں؟؟ اور کیوں بھولوں۔۔؟؟“ اس کی پیشانی پر سلوٹیں ابھریں۔
”کیونکہ وہ ہماری نہیں ہے۔۔۔ اور اب میرا دماغ کھانا بند کرو۔۔“ وہ اکتا چکا تھا۔
دونوں موٹے موٹے کپڑے پہنے برف سے بنے قالین پر چل رہے تھے۔۔ دونوں کے ناک سرخ پڑ چکے تھے اور دونوں جڑواں ہونے کی وجہ سے کافی حد تک ایک دوسرے سے مشابہ تھے۔
حاد تیز تیز قدم بڑھاتا کلاس کی جانب جا رہا تھا۔
”ایمانے ہماری ہے سنا تم نے۔۔۔ وہ ہماری ہے تمہیں اسے لانا ہی ہوگا۔۔نہیں تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“ وہ پیچھے کھڑا زور سے چلایا اور پھر تیزی سے مٹھی بھر کر برف کا گولا بنایا اور اپنی قوت سے حاد کو دے مارا۔۔ حاد نہ رکا نہ پلٹا۔۔ وہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا۔ جبکہ عبدل کا چہرہ غصے سے مزید سرخ ہوا۔۔۔ایسے کیسے وہ مکر سکتا تھا۔۔ حاد ایمانے نہیں مکر سکتا تھا۔۔وہ اسے مکرنے ہی نہیں دیتا۔۔
اور پھر اس رات حاد اپنے اور عبدل کے مشترکہ کمرے میں آیا تو یہ دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
عبدل نے دونوں کے سنگل بیڈ کے درمیان رکھے سفید رنگ کے سائیڈ ٹیبل پر ایمانے کی تصویر (جو اس نے ہسپتال میں بنائی تھی) فریم کروا کر رکھی ہوئی تھی۔۔ وہ دونوں عمر میں چھوٹے تھے پر ذہنی طور پر وہ اپنے آپ کو کسی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ حاد کو اپنے کمرے میں انسانوں یا جانوروں کی تصویریں نہیں پسند تھیں۔
وہ گہرا سانس لیتے آگے بڑھا اور اس نے فریم کو الٹ کر رکھ دیا۔۔ وہ جھک کر اپنے جوتے اتار رہا تھا جب عبدل کمرے میں آیا۔۔ وہ اپنے ننھے ہاتھوں میں فٹبال تھامے ہوئے تھا۔۔ اس نے جیسے ہی فریم کو الٹا رکھا دیکھا تو اس کی تیوری چڑھ گئی۔
اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر فریم سیدھا کرکے رکھا۔ حاد نے اسے گھور کر دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔
”اگر تم نے دوبارہ ایمانے کی تصویر کو ہاتھ لگایا تو میں تمہارا گلا کاٹ دوں گا۔۔“ کسی پیشہ ور قاتل کی طرح وہ اسے دھمکی دے کر جاچکا تھا جبکہ حاد ایمانے کو گھور کر رہ گیا۔ یہ تو طے تھا عبدل اسے کبھی ایمانے کو بھولنے نہیں دے سکتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
حاد اکیڈمی کے لان میں دھری کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا تھا۔۔ وہ اس اکیڈمی کے ایم ڈی کے ساتھ بیٹھا جو اس کا کلاس فیلو رہ چکا تھا۔۔ ایم ڈی کا نام مرتضے تھا اور وہ ترکی سے تھا۔ حاد کی اس سے اچھی بول چال تھی۔۔ وہ دونوں اس وقت ڈوبتے سورج کی کرنوں تلے بیٹھے تھے۔۔ میز پر کافی کے دو مگ پڑے تھے۔۔ ساتھ ہی لمبی راہداری تھی جو سیدھا سیمنار روم تک جارہی تھی۔۔۔ وہ دونوں کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے جب مرتضے کی نظر سامنے سے آتی ایمان پر پڑی تھی۔
وہ سیاہ سادہ شلوار قمیص پہنے ہوئے تھی، سیاہ شال اس کے کندھوں پر تھی جبکہ پاؤں پر سیاہ جوتوں میں قید تھے۔۔ اس کا بیگ کندھے پر تھا۔۔ وہ آفس سے سیدھا اکیڈمی آتی تھی۔ اس کے سر پر کریم کلر کا سکارف تھا۔ اس نے پونی ٹیل کر رکھی تھی اور اسکارف اچھے سے سر پر جما تھا۔۔ وہ اس حلیے میں آتی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ مرتضے کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اس نے فوراً کہا۔
”حاد۔۔ شی از دی ون۔۔ یہ وہی ہے ایمان بنت عبداللہ جس کے کالمز اور آرٹیکل تمہیں پسند آئے تھے۔۔“ اس کے کہنے پر حاد نے ذرا سا رخ موڑ کر ایمان کو دیکھا۔۔ وہ اب فون پر مصروف تھی۔ وہ اسے پہچان چکا تھا۔۔ وہ چہرے نہیں بھولتا تھا۔۔ اسے وہ چہرہ یاد تھا۔۔ بیشک یہ کافی سال پہلے کی بات تھی پر اس نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کو اپنی جیکٹ دی تھی۔۔۔۔
”کافی ذہین لڑکی ہے۔۔ میں نے اس کا فارم چیک کیا تھا پاکستان سے تعلق ہے۔ دن میں جاب کرتی ہے اور شام میں یہاں آتی ہے۔۔۔“
دونوں کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔ وہ قدم قدم بڑھاتی ان کے قریب آرہی تھی۔۔۔
”اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو یہ لڑکی لکھنے کے ساتھ ساتھ اچھا بول بھی لے گی۔۔“
وہ قریب آئی اور بنا ان کی جانب دیکھے آگے بڑھ گئی۔ مرتضے کو تھوڑی حیرانی ہوئی۔۔ کیا وہ واقعی دو خوبصورت مردوں کو بنا دیکھے گزر گئی تھی؟؟ اس نے سلام تک نہیں کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا ان میں سے کوئی بھی دل پھینک تھا۔۔۔پر مرتضے کو اتنا تو یقین تھا کہ وہ انہیں سلام کرے گی۔۔ عموماً مسلمان لڑکیاں ان کے احترام میں گزرتے ہوئے سلام ضرور کرتی تھیں اور غیر مسلم جو سیکھنے آتی تھیں وہ ہر طرح سے گفتگو کی کوشش کرتی تھیں۔
وہ جاچکی تھی۔۔۔۔ اس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔۔ حاد نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔
”کیا اس نے ابھی ابھی ہمیں نظرانداز کیا ہے۔۔؟؟“ مرتضے نے حیرت سے حاد کو دیکھا۔
”اب تم اس کی اتنی تعریف کر رہے تھے۔۔ اگر وہ یہاں رک کر ہم سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو میں ڈس اپاؤنٹ ہوجاتا۔۔ اچھا ہوا وہ گزر گئی۔۔“ حاد کی الگ ہی منطق تھی۔۔۔اسے فین گرل ٹائپ لڑکیاں کبھی اچھی نہیں لگی تھیں۔ اس کی بات سن کر مرتضے ہولے سے مسکرادیا۔
”پس ثابت ہوا اسے احمد مرتضے اور حاد جبیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔“ وہ سوچتے ہوئے بولا تو حاد مسکرائے بنا نہیں رہ پایا۔
✿••✿••✿••✿
وہ دونوں اب دس سال کے تھے۔۔ حاد لائبریری میں بہت ساری کتابیں کارپیٹ پر پھیلائے بیٹھا۔۔ وہ کسی سوال کا جواب ڈھونـڈ رہا تھا۔۔ اچانک کسی آندھی طوفان کی طرح بھاگتا ہوا عبدل اندر داخل ہوا۔۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔۔
وہ جس تیزی سے آیا تھا آتے ہی دروازے کے ساتھ رکھے ٹیبل سے ٹکرایا۔۔ کانچ کا بھاری گلدان نیچے گرا۔۔۔زمین پر کارپٹ بچھے ہونے کی وجہ سے وہ بچ گیا۔۔
وہ ہمیشہ ایسے ہی آتا تھا۔۔ باہر ہوتا تو مار پیٹ کرتا اور گھر ہوتا تو توڑ پھوڑ۔۔۔
”یہ دیکھو۔۔ میں نے کیا بنایا ہے۔۔“ وہ ہاتھ میں ٹیبلٹ تھامے پرجوش سا اس کی جانب بڑھا۔ وہ سامنے ہی بیٹھ گیا
اور ٹیبلٹ کو حاد کے سامنے کیا۔۔۔اسکرین پر ایک چھوٹی سی بچی کی تصویر تھی۔۔ کوئی چار سالا بچی تھی۔
حاد نے اسکرین دیکھ کر سوالیہ نظروں سے عبدل کو دیکھا۔۔ وہ منہ سے کم ہی بولتا تھا۔۔ اس کے سوال جواب اکـثر اس کی نگاہوں سے یا پھر چہرے کے تاثرات سے ہوتے تھے۔ ابھی بھی اس کی نگاہیں عبدل سے یہی پوچھ رہی تھیں کہ اس میں کیا دیکھوں۔۔؟؟
”یہ ایمانے ہے۔۔ میں نے ایک ایپ پر اس کے چہرے کی تصویر ڈالی تھی۔۔ وہی بےبی ایمانے۔۔ ایپ نے یہ چہرہ بنا کر دکھایا ہے۔۔ دیکھو ایمانے اب چار سال کی عمر میں ایسی دکھتی ہوگی۔۔“ اس کی آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک تھی۔ حاد نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی بہت بڑا بےوقوف ہو۔۔۔ وہ خاموش رہا۔۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا تھا جب عبدل ایمانے کا نام نہ لیتا ہو۔ عبدل کی نظریں اسکرین پر تھیں جبکہ حاد اسے افسوس سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کی جانب سے خاموشی پا کر عبدل نے سر اٹھایا۔۔دونوں کی نظریں پل بھر کو ٹکرائیں۔ اسکے تاثرات فوراً بدلے۔۔ پرجوش سے عبدل کا ناک اب غصے سے پھول چکا تھا۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ حاد نے اس کے اٹھنے پر سکون کا سانس لیا کہ وہ جلد جارہا تھا ورنہ اس کا دماغ کھاتا رہتا۔
”تمہاری آنکھیں چیخ چیخ کر مجھے ایڈیٹ کہہ رہی ہیں۔ انہیں منع کرو ورنہ نکال کر جارج کے کتے کو ڈال دوں گا۔۔“
وہ غصے سے پھنکارتا دروازے کی جانب بڑھا اور پھر باہر نکل گیا۔۔جارج ان کا ہمسایہ تھا۔ حاد کی نگاہیں دروازے پر جمی تھیں۔۔ وہ تھوڑا حیران تھا۔۔۔ عبدل بنا کسی چیز کو ٹھوکر مارے چلا گیا تھا۔۔۔پر اگلے ہی لمحے وہ دروازے میں ابھرا۔۔ جس سائیڈ ٹیبل سے اس کے آنے پر گلدان گرا تھا اس نے زوردار لات ٹیبل کو دے ماری۔۔۔ اور پھر غائب ہوگیا۔
ٹیبل زمین بوس تھا۔ حاد نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا۔ اب اگلا پورا ہفتہ عبدل اسے ٹارچر کرنے والا تھا۔ اس کی کیا مجال وہ عبدل کی ایمانے کو اگنور کردے۔
✿••✿••✿••✿
تیرہ سال بعد
دو دن ہوگئے تھے ڈائریکٹر عبدل کا فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ کہاں تو پلے سونگ ریلیز ہونے سے پہلے وہ عبدل کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اب وہ غائب ہوچکا تھا۔۔۔
عبدل کا نمبر شاید اس نے بلاک کردیا تھا۔ عبدل کا تو دماغ گھوم گیا۔ اس نے محنت کی تھی۔۔۔وہ کبھی اپنی محنت کو ضائع نہیں جانے دیتا تھا۔۔ یہ تو اس کا فیورٹ کام تھا۔۔ اس کے فالن اینجل کا پلے سونگ۔۔۔
اس نے کسی طرح ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ کو ڈھونڈا۔۔ کیونکہ ڈائریکٹر کہیں چھپا ہوا تھا۔۔ اسسٹنٹ کا ناک پھوڑ کر اس نے ڈائریکٹر کا پتہ اگلوالیا۔۔اور پھر ایک گھنٹے بعد وہ ڈائریکٹر کے سر پر پہنچ چکا تھا۔
عبدل کو دیکھ کر ڈائریکٹر کو اپنی موت نظر آنے لگی تھی۔
”خود بتاؤ گے سب یا جبڑا توڑ دوں۔۔۔؟؟“ اس کا لہجہ غضبناک تھا۔ ڈائریکٹر نے بےاختیار تھوک نگلا۔۔ اسے عبدل کی یہاں آنے کی امید نہیں تھی۔۔ اس نے اپنے فلیٹ کے باہر گارڈ کھڑے کر رکھے پر عبدل باکسر تھا۔۔ ڈائریکٹر شاید کہ بھول گیا تھا۔
اگلے پی پل ڈائریکٹر نے سب اگل دیا۔۔ عبدل خاموشی سے سنتا گیا اور اس کی کنپٹی کی رگیں ابھرتی گئیں۔
”پیسے کس اکاؤنٹ سے ٹرانسفر ہوئے تھے۔۔۔؟“ اس نے خود پر قابو پاتے بس یہی سوال کیا۔ ڈائکریکٹر نے بنا چوں چراں اسے اکاؤنٹ نمبر دے دیا۔ عبدل جھٹکے سے اٹھا۔
”مم۔۔مجھے کچھ ہوگیا تو؟؟“ڈائکریکٹر خوفزدہ تھا۔۔۔ماسک والا شخص پستول تانے اسے سوتے جاگتے ہر جگہ نظر آتا تھا۔
”تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔ جس نے بھی یہ سب کیا ہے وہ یہی چاہتا ہے میں اس تک پہنچوں ورنہ وہ تمہیں کیش دیتا، رقم اکاؤنٹ سے ٹرانسفر نہ کرتا۔۔“
وہ کہتا تیزی سے نکل گیا جبکہ ڈائریکٹر نے اٹکا ہوا سانس بحال کیا۔
اور پھر ایک گھنٹے بعد وہ یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ ڈائکریٹر کو کس نے رقم بھیجی تھی۔
اس کا فون نمبر تک عبدل نے نکلوالیا تھا۔۔ عبدل نے نمبر ملایا۔۔ دوسری جانب سے دوسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔
”عبدل۔۔۔“ دوسری جانب سے فون اٹھاتے ہی کہا گیا۔ جیسے اسی کے فون کا انتظار ہو۔
”کون ہو تم۔۔؟؟“ عبدل نے سخت لہجے میں پوچھا۔
”لوکیشن بھج رہا ہوں۔۔ ملنا ہے تو آجاؤ۔۔۔“
اتنا کہہ کر فون بند کردیا گیا۔۔ کچھ دیر بعد اسے لوکیشن کا میسج موصول ہوا تھا۔۔ وہ جبڑے بھینچتا اپنے بالو کو پونی میں باندھتے اپنی ہیوی بائیک پر بیٹھ کر اسے ہوا کی اسپیڈ سے بھگا لیا گیا۔ لوکیشن زیادہ دور کی نہیں تھی۔
یہ ایک مشہور ہوٹل کی لوکیشن تھی۔۔ کمرہ نمبر بھی لکھا ہوا تھا۔۔ وہ بھاگتے ہوئے ہوٹل میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھتا اوپر کی جانب بھاگا۔۔ سیکیورٹی نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی پر وہ نہیں رکا۔۔
جیسے ہی وہ مطلوبہ کمرے کے سامنے پہچنا اس نے لات مار کر دروازہ کھولا۔۔ سامنے ہی بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پر کوئی بیٹھا تھا۔۔۔کمرے میں اندھیرا تھا۔۔بالکل ہلکی سی روشنی تھی جس میں ایک شخص کا سراپا نظر آریا تھا پر واضح نہیں تھا۔ سیکیورٹی والے اس کے پیچھے پیچھے اوپر بھاگے آئے تھے۔۔۔ عبدل کا سانس پھولا ہوا تھا۔۔۔وہ بنا آستینوں کی ٹی شرٹ پہنے ہوا تھا۔
اس نے سؤئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائیٹ آن کی۔۔۔ وہ جانتا تھا وہ کسی کا جبڑا توڑنے والا تھا پر جیسے ہی اس کی نظر
کرسی پر بیٹھے شخص پر پڑی وہ ساکت رہ گیا۔۔
سامنے ہی کرسی پر حاد بیٹھا تھا۔۔ پرسکون سا۔۔ ہمیشہ کی طرح خاموش اور پراسرار۔۔۔
ہاں وہ حاد تھا۔۔ حاد جبیل۔۔ عبدل جبیل کا جڑواں بھائی۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے تیرہ سال بعد مل رہے تھے۔
سیکیورٹی والے کمرے تک پہنچ چکے تھے۔۔
”آپ لوگ جائیں۔۔۔یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں۔۔“ حاد نے کہا تو گارڈ واپس پلٹ گئے۔۔۔عبدل کے جبڑے مزید بھنچ گئے۔۔۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ پرسکون سا کھڑا تھا۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔۔۔ دونوں کا قد ایک جتنا تھا۔۔ البتہ عبدل کا جسم کسرتی تھا۔۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح عبدل غصے سے بھرا ہوا تھا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا اور حاد اتنا ہی پرسکون اور بولتی آنکھوں کے ساتھ سامنے والے کو جلا کر راکھ کرنے کا ہنر رکھتا تھا۔
”تو میں نے تمہیں ڈھونڈ ہی لیا۔۔۔“
حاد فاتح تھا۔۔ اس نے ہارنا نہیں سیکھا تھا۔۔۔۔ اسے جن لوگوں کی تلاش ہوتی تھی وہ خود اس تک چل کر آتے تھے۔
ہاں وہ وہی تھا جو منظر عام پر نہیں تھا پر شطرنج کے مہرے اس کی مرضی سے چلتے تھے۔

1 Comments

  1. Thanks
    Amazing episode 🤩🤩
    I love this novel ❣️❣️
    Impressive and informative

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post