قصہ گو ریلوے اسٹیشن
اس روز وہ کالج سے سیدھا ریلوے اسٹیشن آئی تھی۔ بارش تیزی سے جاری تھی جیسے آج برس کر پھر کبھی نہ برسے گی۔۔ سلمی بیگم نے اسے فون کیا تھا۔۔۔ اس کے نانا ابو ٹرین سے آرہے تھے۔ اور ایمان اس وقت انہیں لینے آئی تھی۔
بارش کے باعث اس کی سیاہ ویلوٹ کی موٹی شال بھیگ چکی تھی۔۔ موسم سرما کے آغاز میں ہونے والی بارش ٹھنڈ میں اضافہ کر رہی تھی۔۔۔ وہ اب اسٹیشن پر کھڑی ٹرین آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بھیگ کندھے پر ڈالے سفید یونیفارم میں وہ سیاہ شال لپیٹے کھڑی تھی۔ پاؤں میں سیاہ جوتے تھے۔ ہوا چلنے کے باعث شال اڑ رہی تھی۔ جب ٹھنڈ بڑھنے لگی تو ویٹنگ کے لیے رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ چہرے پر اس نے ماسک لگا رکھا تھا۔ شال گیلی ہونے کی وجہ سے اسے ہوا مزید ٹھنڈی لگ رہی تھی۔
وہ پہلی بار اسٹیشن آئی تھی اور کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ سلمی بیگم بار بار فون کر رہی تھیں۔
”امی میں اسٹیشن پر ہی ہوں۔۔۔ ہاں میں نانا ابو کو ڈھونڈ لوں گی۔۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔“
وہ فون پر زور زور سے بول رہی تھی کیونکہ نیٹ ورک مسئلہ کر رہا تھا۔
”شال ہے میرے پاس۔۔ تھوڑی بھیگ گئی ہے پر گزارا ہوجائے گا۔۔“ وہ جو اب سردی سے کانپ رہی تھی جلدی جلدی بولتی فون بند کرگئی۔ اس نے اپنی شال کو ہاتھ لگایا جس سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔ اس نے فوراً شال اتاری اور اسے تہہ لگا کر بازو پر ڈال لیا۔۔ اس کے سر پر اب ایک پتلا سا سفید ڈوپٹہ تھا۔ ٹرین آکر رک گئی۔۔ وہ کھڑی ہوگئی اور اترنے والی سواریوں میں اپنے نانا ابو کو ڈھونڈنے لگی۔
اور تبھی اسے ایک جھٹکا لگا۔۔ کسی نے ہولے سے اس کے کندھوں پر ایک بڑی کھلی سی ڈینم کی جیکٹ ڈال دی تھی۔ وہ پہلے ڈری اور پھر حیران رہ گئی۔۔اس کے دائیں جانب گیلے بالوں والا ایک لڑکا کھڑا تھا۔۔سفید شرٹ پر اس نے آسمانی رنگ کی ڈینم کی جیکٹ پہن رکھی تھی جو اب اتار کر ایمان کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔۔ یہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ حیران رہ گئی۔ شاید وہ اسے کافی دیر سے دیکھ رہا تھا۔
”اسے پہن لیں۔۔“ وہ اس کے جانب دیکھے بنا کہتے آگے بڑھ گیا۔۔یوں جیسے بھیڑ میں گم ہوگیا ہو۔۔ وہ حیران تھی پریشان بھی۔۔ کہیں کسی نے دیکھ نہ لیا ہو۔۔ کوئی دیکھ لے گا تو کیا ہوگا۔۔؟؟ سو طرح کے وسوسے اس کے دل میں منڈلانے لگے۔۔ پر لوگ بارش کی وجہ سے اتنی ہڑبڑاہٹ میں تھے کہ کسی نے محسوس تک نہ کیا۔۔ ایمان کی نظریں اس کے گم ہونے تک اسے تکتی رہیں۔۔ دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری اور پھر جیکٹ کو پہنتے آگے بڑھ گئی۔۔ نانا ابو اسے کہیں بھی نظر نہیں آئے تھے۔
✿••✿••✿••✿
قرآن اکیڈمی اس کی سوچ سے زیادہ بڑی تھی۔ وہاں ایڈمیشن لینے والے اسٹوڈنٹس کی فیس کچھ وقت بعد واپس کردی جاتی تھی۔۔ وہ یہ راز جان کر حیران رہ گئی تھی۔ اندر دو بڑی لائبریریاں تھیں۔ ایک بڑا سیمنار ہال۔۔ اتنے اسٹوڈنٹس۔۔ وہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔یہاں صرف قرآن کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی بلکہ ایک پورا سسٹم بنا ہوا تھا۔۔ جہاں ماڈرن دور کو سمجھنے میں آسانی ملتی تھی۔
ٹیکنالوجی، سائنس اور قرآن وہ سب ایک ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ آج اکیڈمی سے پہلے سے زیادہ چہل قدمی تھی۔۔کوئی خاص لیکچرر آرہا تھا۔۔ کوئی بڑا اسپیکر۔۔۔
اس کا تو پہلا دن تھا اسے یہی لگا کہ روز ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس نے فارم فل کرکے جمع کروایا۔۔ اسے رجسٹر کرلیا گیا تھا۔۔ یہاں بہت سے نان مسلم اسٹوڈنٹس تھے جو اسلام کے بارے میں جاننے آئے تھے۔
وہ سیمنار ہال میں بیٹھے تھے۔۔ اس کے سامنے اسٹیج پر کسی کو آنے کی دعوت دی جارہی تھی۔ اس اکیڈمی کا چیف ڈائیریکٹرجو اسے اپانسر بھی کر رہا تھا۔ اکیڈمی کو بنے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا لیکن محنت کی وجہ سے یہ چند سالوں میں ہی بڑی اکیڈمی بن گئی تھی۔ حاد کے نام پر وہ تھوڑا حیران ہوئی۔۔ البتہ اسے اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئیں جب اس نے حاد کو اسٹیج پر آتے دیکھا۔۔۔وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
دل رکنا کسے کہتے ہیں اسے پہلی بار محسوس ہوا تھا۔۔ وہ اس کے سامنے تھا۔۔۔عین سامنے۔۔ سب کی توجہ کا مرکز۔۔ حاد۔۔ خوبصورت سا شخص۔۔ شاندار سراپہ لیے اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ وہ ڈریس پینٹ میں ملبوس تھا۔۔ اس نے ٹائی نہیں لگا رکھی تھی۔۔ سفید شرٹ پر Olive رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔۔ وہ اسے دیکھے گئی۔۔ بےیقینی کی سی کیفیت میں۔۔ وہ اسے کیسے بھول سکتی تھی۔۔۔پچھلے چار پانچ سالوں میں ایک بھی دن بھول نہیں پائی تھی۔
وہ اسے واضح نظر آرہا تھا۔۔پر اسے اتنے ہجوم میں بھلا ام ایمان کہاں نظر آتی؟
✿••✿••✿••✿
وہ نانا ابو کا ہاتھ تھامے انہیں پکڑ کر اسٹیشن سے باہر نکل رہی تھی۔۔بارش پہلے سے کم ہوچکی تھی۔۔ اسے جیکٹ پہننے کے بعد کافی سکون محسوس ہوا تھا۔۔گو کہ یہ موٹی اور گرم نہیں تھی پر وہ پرسکون تھی کہ گیلی قمیص سے کہیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔۔جیکٹ نے شال جیسا کام کیا تھا۔۔ اس نے رائیڈ کروائی تھی۔۔ اس کی کیب پہنچ چکی تھی۔۔وہ نانا ابو کو گاڑی میں بٹھا رہی تھی جبکہ اس کی نظر سڑک کے دوسری جانب پڑی۔۔ سامنے ہی بینش اس شخص کے ساتھ کھڑی تھی جو اسے اپنی جیکٹ دے کر گیا تھا۔۔ وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔ وہ ٹھٹک گئی۔
”کیا یہ وہی شخص تھا جس کے گن گاتے بینش تھکتی نہیں تھی۔۔۔یا پھر کوئی اور۔۔۔؟؟“ اس نے پل بھر کو سوچا۔ وہ کئی لمحے دیکھتی رہی۔
”کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔“ وہ بڑبڑائی۔۔اور پھر گہرا سانس لیتے اندر بیٹھ گئی۔ اس کے دماغ نے بینش اور اس لڑکے کو لے کر جانے کیا کیا سوچ لیا تھا۔۔ اس کا دل خاموش ہوگیا۔۔۔اس نے سر جھکا کر اس جیکٹ کو دیکھا جس سے اٹھتی مسحور کن خوشبو اسے اپنے حصار میں لے رہی تھی۔۔۔یوں لگا جیسے وہ اس خوشبو سے سالوں سے واقف ہو۔۔ جیسے یہ جیکٹ اسی کی ہو۔
نانا ابو اب کچھ بات کر رہے تھے۔۔ اس نے سر جھٹک کر اس گرے آنکھوں والے لڑکے کو اپنے ذہن سے نکالنا چاہا۔۔۔۔
وہ اب نانا ابو کی جانب متوجہ ہوچکی تھی پر لاشعور میں وہ جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔
پھر اس نے باتوں باتوں میں بینش سے اپنے ریلوے اسٹیشن جانے کا ذکر کیا۔۔ اور پھر اسے کنفرم ہوگیا تھا کہ ریلوے اسٹیشن پر جو شخص بینش کے ساتھ وہ اس کا کزن عبدل ہی تھا۔۔۔۔ چاروں جانب اوس پڑ چکی تھی۔
اس نے جیکٹ کو بنا دھوئے ہی اپنے صندوق میں رکھ دیا۔ وہ جذبات کو دبا دینے کی عادی تھی۔۔۔اس کے مطابق جو احساسات آپ کے لیے تکلیف کا باعث بنیں انہیں قید کردو۔اور اس نے قید کردیے تھے۔ اپنے تمام جذبات کو۔۔ تمام احساسات کو۔۔ اور یہ احساسات تب تب جاگ اٹھتے تھے جب جب بینش اس کا ذکر کرتی تھی۔۔۔اس نے تنگ آکر بینش سے رابطہ ختم کردیا تھا۔۔۔ رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔۔پر بینش اسے بھولی نہیں تھی۔۔وہ اس کے لیے سب سے الگ اور منفرد بیگ لائی تھی۔ پر جب وہ ویلنیسا آگئی تو اس نے بالکل ہی بات کرنا چھوڑ دی تھی۔
اور پھر وہ اسے دوبارہ نظر آیا۔۔۔وہ پاکستان سے لوٹ رہی تھی۔۔اور وہ پاکستان میں داخل ہوا تھا۔۔ وہ گرے آنکھوں والا شخص اسے تمام جزئیات سے یاد تھا۔
کتنا مشکل تھا دل کو سمجھانا جو اڑ کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ جو ضد پر اتر آتا تھا اور پھر وہ شخص مسٹر گرے نکلا۔۔۔ مسٹر گرے۔۔۔جس سے وہ اپنی ہر الجھن کا حل پوچھنے جاتی تھی۔۔۔جس سے وہ اپنے ہر سوال کا پچھلے چار سالوں سے جواب مانگ رہی تھی۔۔۔ وہ مسٹر گرے جس نے اس کی بہت ساری الجھنوں کو سلجھایا تھا۔۔ وہ جب لائیو آیا تو اور کوئی نہیں عبدل تھا۔۔وہ عبدل جس کے بارے میں وہ برسوں سے سنتی آئی تھی۔۔۔وہ عبدل جو اسے اپنی جیکٹ دے گیا تھا بنا اس کی جانب دیکھے۔۔۔وہ عبدل جو دنیا کے لیے حاد تھا۔۔ اگر وہ حاد تھا تو عبدل کون تھا؟ اور اگر وہ عبدل تھا تو حاد کون تھا۔۔؟؟ وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”میں حاد ہوں۔۔ آپ لوگوں میں سے کچھ لوگ مجھے جانتے ہوں گے جبکہ کچھ لوگوں کے لیے میں بالکل نیا ہوں۔۔ میں نے اس اکیڈمی کی بنیاد کافی سالوں پہلے رکھی تھی جب مجھے لگا کہ ہر ملک میں ایسا کوئی نظام ہونا چاہیے جو لوگوں کی الجھنوں کو سلجھا سکے۔۔جہاں آپ اور میرے جیسے لوگ وہ سب جان سکیں جس کی ہم تلاش میں ہیں۔۔ پہلا قدم مشکل تھا۔۔میں بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ان سب لوگوں کا جو اس وقت اس اکیڈمی کو چلا رہے ہیں اسے دیکھ رہے ہیں۔۔میری غیر موجودگی میں بھی جنہوں نے اس اکیڈمی کا وقار برقرار رکھا ہے۔۔“
وہ شائستگی سے بول رہا تھا۔ جبکہ ایمان وہاں بیٹھی تو تھی پر اس کا دماغ کہیںاور تھا۔۔۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اللہ نے اس شخص کو اس قدر قریب کیوں بھیج دیا تھا۔۔۔سب جانتے ہوئے بھی۔۔۔ اب جبکہ اس کی زندگی میں ماثیل تھا۔۔جس نے آج صبح ہی اسے سفید پھولوں کا گلدستہ بھیجا تھا۔ جب ماثیل اس کی زندگی میں آگیا تھا تو پھر حاد کیوں؟؟؟ اسے تقدیر کی اس بےرحمی پر رونا آیا تھا۔
اپریل کا مہینہ تھا۔۔موسم بہار آچکا تھا۔۔ اب گرم کپڑوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اور ایمان نے پہلی بار بہار کو محسوس کیا تھا۔۔ اسے موسم بہار کبھی اٹریکٹ نہیں کر پایا تھا۔۔۔اسے پھول کچھ خاص پسند نہیں تھے حالانکہ اسے سبزہ بہت پسند تھا پر اسے ہمیشہ سے موسم خزاں پسند تھا۔۔۔۔۔موسم برسات میں درختوں کے ذرد پتوں سے ڈھکی سڑکیں اسے ہمیشہ اٹریکٹ کرتی تھیں۔
وہ بول رہا تھا۔۔۔جانے کتنی دیر بولتا رہا۔۔جانے لوگوں نے کیا کیا پوچھا۔۔۔وہ خاموش بیٹھی رہی۔۔ کسی بت کی مانند۔۔کسی مورت کی طرح۔۔۔
چونکی تب جب کسی نے اس کا نام پکارہ۔۔ اس کا نام بار بار لیا جارہا تھا۔ وہ جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹی۔۔ ہال میں ہلکا اندھیرا تھا جبکہ اسٹیج پر زیادی روشنی تھی۔
”ایمان بنت عبداللہ۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔حالانکہ وہ اٹھنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔اس کا گلا خشک ہوچکا تھا۔۔۔کانٹے اگ آئے تھے۔۔۔ وہ اس شخص کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔۔وہ گمنام رہنا چاہتی تھی۔۔کم از اکم اس شخص کے سامنے۔۔
”مسٹر حاد۔۔ شی از دی گرل۔۔جس کا آپ اکثر ذکر کرتے ہیں کہ وہ اچھا لکھتی ہیں۔۔آج ان کا اکیڈمی میں پہلا دن ہے۔ یہ وہی لڑکی ہیں جو پچھلے چند سالوں سے مسلسل اپنے اندر کی آواز کو لوگوں تک پہنچا رہی ہیں۔۔“ سپاٹ لائیٹ اس پر آکر رک گئی تھی۔ ڈائز پر کھڑی حجاب اوڑھے ہوئے وہ لڑکی اسٹیج پر کھڑے حاد سے اس کا تعارف کروا رہی تھی۔ وہ اس وقت کھلے ٹراؤذر اور پاؤں تک چھوتی کھلی لمبی قمیص پہنے ہوئے تھی۔۔۔جو پستہ رنگ کی تھی اور ہم رنگ سکارف اس کے سر پر جما تھا۔
حاد کی نظر اس پر پڑی۔۔۔ ایمان نے ناچاہتے ہوئے بھی نظریں اٹھائی تھیں۔۔ اس نے حاد کے چہرے پر عجیب تاثرات کو دیکھا۔۔پر اگلے ہی پل سب نارمل تھا۔
”ویلکم مس۔۔۔؟؟“ اس نے نام جاننا چاہا۔
”ایمان بنت عبداللہ۔۔۔۔“ ڈائز پر کھڑی لڑکی نے متعارف کروایا۔ حاد اسے دیکھ رہا تھا جس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔۔۔وہ ان نروس لگ رہی تھی۔ اور پھر پھر باری باری نئے آنے والے اسٹوڈنٹس کو متعارف کروایا گیا۔۔۔ایمان نے سکون کا سانس لیا کہ حاد نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
کتنی دیر لگی اسے خود کو نارمل کرنے میں۔۔۔ پھر اسے سوال یاد آیا۔۔۔پتہ نہیں وہ اس شخص سے دوبارہ مل پاتی یا نہیں۔۔۔اسی لیے اس نے سوال کرنا ضروری سمجھا تھا۔ اسے یاد تھا حمیزہ نے اس سے سوال کیا۔۔قوم عاد سے متعلق۔۔ جن پر ہواؤں کا عذاب بھیجا گیا تھا۔۔۔ جس کا ایک حصہ وہ مکمل کر چکی تھی جبکہ ایک رہتا تھا۔۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب اسے اپنے سوال کا جواب ملنا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ارم والے
”ارم والے کون تھے۔۔۔۔اور انہیں کیوں تباہ کیا گیا۔۔۔؟؟“
ایمان بنت عبداللہ کا سوال تھا۔ حاد پروجیکٹر پر ابھرنے والے سوال کو پڑھ کر مسکرادیا۔
”مجھے لگتا ہے ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرنا چاہیے جو اس وقت اسپین میں موجود ہے۔۔ جو عالیشان مجسموں کو دیکھتا ہو۔۔۔جو عالیشان آرٹ ورک کو دیکھتا ہو کہ ارم والے آخر کون تھے۔۔“ اس نے اپنا کوٹ اتار دیا۔ شرٹ کے کف فولـڈ کرلیے تھے۔۔۔وہ اسے دیکھ رہی تھی۔لوگوں کے ہجوم میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کیا اس شخص کو یاد تھا کہ اس نے کسی لڑکی کو اپنی جیکٹ دی تھی۔۔۔؟؟ اور اس پاگل لڑکی نے وہ جیکٹ آج بھی سنبھال کر رکھی تھی۔
ناجانے کیوں ایمان کی آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھیں۔ اسٹیج پر کھڑے اس شخص کا وجود ایمان کے وجود کو جھلسا رہا تھا۔
’’ارم ذات العماد‘‘
اس چھوٹی سی آیت کا پرفیکٹ اردو ترجمہ تو شاید ناممکن ہے لیکن اس کا قریب ترین ترجمہ دو طرح سے ہو سکتا ہے۔
’’ارم والے ، جو اپنے آپ میں ستون تھے‘‘
یا پھر
’’ارم والے، جن کے ستون تھے‘‘
اور اگر آپ اس کے آگے اور پیچھے والی آیات سٹڈی کریں تو ترجمہ کچھ ایسے ہو گا۔
’’اہل عاد ، ارم ، ستونوں والے ، جن جیسا اور کوئی بھی نہیں بنایا گیا تھا‘‘
وہ اب پروجیکٹر پر ابھرنے والی آیت کا ترجمہ بتا رہا تھا۔
”کون تھے یہ عاد؟ اور ان جیسا کوئی اور کیوں پیدا نہیں کیا گیا؟“
وہ اسٹیج کے درمیان میں آکر کھڑا ہوگیا۔۔ اس کے چہرے پر سوچ کی گہرے آثار تھے۔
”کبھی آپ لوگوں نے سوچا ہے کہ آخر اس ایک قوم جیسی دوسری قوم کیوں نہیں آئی۔۔؟؟“ وہ سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھی عوام کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ لوگوں جانتے ہیں یہ ایک پہیلی ہے اور قرآن کی پہیلہیوں کے Clues بھی قرآن پاک میں ہی ہوتے ہیں۔۔ آپ لوگ ہمیشہ ایک بات یاد رکھیے گا کہ اللہ نے ہر چیز کو غیب میں نہیں رکھا۔۔ جتنا غیب کہا ہے اتنا ہی غیب ہے۔۔ باقی سب واضح ہے بس ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ہمیں وہ آنکھ چاہیے جو دیکھ سکے۔۔۔وہ کان چاہئیں جو سن سکیں۔۔وہ ذہن چاہیے جو سمجھ سکے۔۔
اگر آپ سورہ اعراف پڑھیں تو آپ جانیں گے کہ وہاں قوم عاد کے بارے میں لکھا ہے کہ عاد، بہت زمانے پہلے گزری ایک خوشحال قوم تھی جنہیں اللہ نے وہ دے رکھا تھا جو ان سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا، لیکن ان کا نام صفحہ ہستی سے ایسے مٹ گیا کہ آج ماڈرن ایج اسے ایک myth سمجھتی ہے۔ اس کا کوئی نام و نشان، کوئی باقیات کچھ بھی نہیں بچا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ کس علاقے میں آباد تھے اس کا بھی کوئی نام زندہ نہیں۔۔“
کبھی سوچا ہے آخر کیوں؟؟ اتنا سب کچھ ملنے کے بعد بھی وہ لوگ صفحہ ہستی سے کیوں مٹ گئے۔۔؟؟
وہ سانس لینے کو رکا۔۔۔جبکہ ایمان سانس روکے اسے سن رہی تھی۔
”کیا آپ انہیں جانتے ہیں۔۔۔؟؟“ وہ اب پروجیکٹر کی جانب اشارہ کرتے پوچھ رہا تھا۔۔ اسکرین پر پرانی پتھر اور مٹی کی بنی اینٹوں جیسی ٹیبلٹس یعنی تختیاں تھیں جن پر قدیم زبانوں میں نقش بنے تھے اور قدیم زبان میں کچھ لکھا گیا تھا۔
”انہیں ایبلا ٹبلٹس کہا جاتا ہے۔۔ ایبلا ٹیبلس تقریباً اٹھارہ سو مکمل مٹی کی تخیتوں، سنتالیس سو ٹکڑوں اور کئی ہزار چھوٹی چھوٹی چپس کا مجموعہ ہیں جو شام کے قدیم شہر ایبلا کے محل کے آرکائیوز Archives میں پائی جاتی ہیں۔۔ یہ تختیاں اطالوی ماہر آثار قدیمہ پاولو میتھیا اور ان کی ٹیم نے 1974/75 میں قدیم شہر تل مردیخ میں کھدائی کے دوران دریافت کی تھیں۔آج یہ تختیاں شام کے شہروں حلب، دمشق اور ادلب کے عجائب گھروں میں رکھی گئی ہیں۔۔“
اسکرین پر مختلف قسم کی تختیوں کی ویڈیوز ابھر رہی تھیں۔
”پتہ ہے حیران کن بات کیا ہے۔۔ اگر آپ کبھی گہرائی سے کسی چیز پر تحقیق کریں۔۔ باقی سب پر چھوڑیں صرف ان ایبلا ٹیبلٹس پر ریسرچ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان ٹیبلٹس پر قوم عاد کا تذکرہ ملتا ہے۔۔۔ لیکن صرف ’’عاد-دہ‘‘ کے نام کی حد تک۔۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کم سے کم موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے زمانے میں تھے۔۔“
وہ پھر سے رکا۔۔ سانس لینے کو۔۔۔ کچھ سوچتے ہوئے۔۔سمجھتے ہوئے۔۔
”عاد کہاں رہتے تھے۔۔۔؟؟ اگلا سوال یہ بنتا ہے۔۔“
اور قوم عاد کے بھائی کا ذکر کر جب اس نے اپنی قوم کو (وادی) احقاف میں ڈرایا اور اس سے پہلے اور پیچھے کئی ڈرانے والے گزرے کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو، بے شک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ سورہ احقاف آیت نمبر 21
اگر آپ مطالعہ کریں تو اس آیت میں عاد کے بھائی ہود کا ذکر ہے جنہوں نے عاد کو ’’احقاف‘‘ کے قریب ڈرایا، احقاف ریت کے ان ٹیلوں کو کہتے ہیں جو قدرتی طور پر ہوا سے بنے ہوں۔ علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث ہے۔
علی ابن طالب رضی اللہ عنہ نے حضر موت سے آئے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرموت میں کوئی ایسا سرخ ٹیلہ دیکھا ہے جس کی مٹی راکھ جیسی ہو؟ اس شخص نے کہا کہ آپ تو ایسے بتا رہے ہیں جیسے آپ خود بھی وہاں گئے ہوں، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں وہاں گیا تو نہیں لیکن مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ وہیں ہود علیہ السلام کی قبر ہے۔ کیوں کہ عاد کے طرف بھیجے جانے والے نبی ہود علیہ السلام ہی تھے۔
کیا آپ لوگ بٹرام تھومس کو جانتے ہیں؟؟ وہ یکلخت ہی پلٹا۔۔ جیسے کچھ یاد آیا ہو؟؟
مسٹر تھومس وہ شخص تھا جو نے ربع الخالی صحراء کو اونٹ پر کراس کرنا چاہتا تھا۔۔ یہ قریباً 93 سال پرانی بات ہے۔۔ قریباً انیس سو تیس کی۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا۔
’’حضر موت سے گزرتے ہوئے مجھے میرے بدو ملازم نے بتایا کہ کسی زمانے میں اس جگہ ارم نام کا ایک شہر ہوا کرتا تھا جس پر عذاب الہٰی آیا تھا۔پھر 1948 میں اومان کی ایک جیولوجیکل پارٹی اونٹوں پر زمین کا سروے کر رہی تھی، اپنے سروے کے دوران وہ ash-shisr نامی جگہ پہنچے جہاں انہیں دور سے ایک عام سی سفید دیوار نظر آئی لیکن قریب پہنچنے پر پتہ چلا کہ دراصل وہ زمین میں دھنسا ایک مینار یا ٹاور تھا جسے ریت کے ٹیلوں نے نظروں سے چھپا رکھا تھا۔
لیکن یہ ارم کا قلعہ نہیں تھا، یہ صرف دو ہزار سال پہلے بنا تھا ۔ البتہ اس قلعے کے نیچے دفن راستوں کی سیٹلائیٹ ایکسرے تصویروں سے کافی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ ارم کا گمشدہ شہر صحراء کے اسی حصے میں کہیں آباد تھا جہاں بعد میں مزید قلعے بھی بنے لیکن اہل عاد کی آخر کیا ایسی achievement تھیں کہ بعد میں آنے والے ان جیسے نہ ہو سکے؟ انہوں نے ایسا کیا حاصل کیا تھا کہ قرآن نے انہیں ’’ان کی کوئی مثال نہیں ہوئی‘‘ کہہ دیا؟؟ ہے نا سوچنے والی بات ؟؟
’’ہم نے انہیں اس طریقے کا مکین بنایا تھا کہ جیسا تمہیں نہیں بنایا‘‘ سورہ احقاف
کیا ان کے مساکن یعنی رہنے کی جگہوں کا ان کی achievements سے کوئی تعلق ہے؟؟ تو جواب ہے، ہاں ہے۔
آپ کو ’’ارم ذات العماد‘‘ یاد ہے؟ اسکا دوسرا ترجمہ یاد کریں ’’ارم والے ، جن کے ستون تھے“
اہل عاد اپنی تعمیرات میں انتہائی اونچے ستون بنایا کرتے تھے اور اتنے اونچے ستونوں کی وجہ کیا تھی؟؟
اور یہ ستون کیا ہیں؟؟ ستون کو انگلش میں کالم یا پلر کہتے ہیں۔
قدیم انسان نے اپنی تعمیرات میں کالمز بنانے کا آغاز صرف ایک وجہ سے کیا تھا ۔ یہ ہوا اور زلزلے سے پیدا ہونے والی lateral force سے عمارت کو بچا لیتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ ان کا استعمال beams اور arches کو سپورٹ دینے کے لیے بھی ہونے لگا۔ اور جیسے جیسے آرکیٹیکچر میں انسان کی پسندیدگی بڑھتی گئی، کالمز کا استعمال عمارت کی خوبصورتی کے لیے بھی ہونے لگا۔
اسکرین پر ہر چیز کی تصویریں ابھر رہی تھیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔
ہمارے پاس جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق فرعون بادشاہ کالمز کو بلندی اور طاقت کی علامت سمجھتے تھے۔
یاد ہے آپ کو جب فرعون نے ہامون سے کہا تھا کہ او ہامون بنا نا سیڑھی۔۔۔چل موسی کے خدا کو دیکھتے ہیں۔۔
فرعون آسمان تک لمبی سیڑھی اور پلر بنوانے کی دھن میں تھا۔
کالمز کو طاقت اور رتبے کی علامت مانتے ہوئے قدیم مذہبی عمارتوں میں بھی آپ کو کالمز زیادہ تعداد میں نظر آئیں گے۔ کالمز کے دو حصے ہوتے ہیں ، نیچے والے حصے کو شافٹ اور اوپر والے حصے کو کیپیٹل کہتے ہیں میں آپ کو تصویر کے ذریعے سمجھا دیتا ہوں اور آپ کو یہ دیکھ کر شاید حیرت ہو کہ پاکستان میں بھی بہت سی جگہوں پر ایسے کالمز موجود ہیں جن کا کیپیٹل کنول کے پھول کی طرح ہوتا ہے۔ یہ سٹائل بیسکلی مصریوں نے چار ہزار سال پہلے ڈیزائین کیا تھا کیوں کہ وہ دریائے نیل میں اُگے کنول کے پھولوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔
کالمز کے حوالے سے سب سے زیادہ واضح ڈیزائین قدیم فارس یعنی ایران میں نظر آتے ہیں ، ایران کا ’’سو ستونوں والا ہال‘‘ بہت مشہور ہے جو بادشاہ xerxes نے بنوایا تھا۔ ایرانی اپنے کالمز کے کیپیٹل میں عموماً دو جانور بناتے تھے بالخصوص بیل۔ کبھی سوچا ہے کیوں؟؟
کیوں کہ دو بیلوں والا کیپیٹل ان کے نوروز کے دن کی علامت ہے یعنی ایرانی نیو ایئر۔ ان میں سے ایک بیل سورج کی علامت ہے اور دوسرا بیل چاند کی، اور دونوں ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی یعنی رات اور دن کے بدلنے میں لگے ہیں ، یہی لڑائی دنوں ، مہینوں اور سالوں کی گردش ہے اور یہی لڑائی نوروز کے آنے کا باعث ہے۔ یہاں آپ کچھ نوٹس کر رہے ہیں ؟؟“ اس نے ہال میں دم سادھے بیٹھی عوام کو دیکھا۔
یہ کالمز صرف عمارت کی خوبصورتی نہیں ہوتے بلکہ ان میں پورے کے پورے میسجز ، نظریات اور idealogies چھپی ہوتی ہیں۔
عظیم الشان ستونوں کے ڈیزائین کرنے والے ، جن کے بارے میں پہلے بتایا گیا کہ ہم نے انہیں اس طریقے کا مکین بنایا جس طرح تمہیں نہیں بنایا ، ان کی مثال کوئی اور نہیں ہوئی انہوں نے اپنے ستون بنانے کے بعد ایک بڑی غلطی کر دی ، کہ وہ کہہ بیٹھے ’’کون ہے قوت میں ہم سے زیادہ‘‘
وہ کیسے ستون ہوتے ہوں گے، جو ان کے بعد کسی کو نہیں دیے گئے جنہیں بنانے کے بعد انہوں نے کہا کہ کون ہے قوت میں ہم سے زیادہ ، یہ بات ہم صرف تصور کر سکتے ہیں۔
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کالمز کا ڈیزائین صرف مصر اور ایران تک محدود نہیں رہا بلکہ تئیس سو سال پہلے سکندر اعظم ان ڈیزائینز کو لے کر انڈیا اور پاکستان تک بھی آیا ۔ پاکستان میں تو خیر اتنے نہیں ہیں لیکن انڈیا کی karla اور nasik غاروں میں بنے مندروں کے کالمز میں پوری پوری آئیڈیولوجیز پوشیدہ ہیں۔
اسکرین پر اب کریلا اور ناسک کے مندروں کی تصویریں ابھر رہی تھیں۔
لیکن ایک سوال ہے کہ کیا صرف اونچے اور بڑے بڑے خوبصورت ستون ہی اہل ارم کی achievement تھے؟ آپ کو اوریجنل آیت یاد ہے جہاں سے ہم نے آغاز لیا تھا؟ ’’ارم ذات العماد‘‘
جس کا ایک دوسرا ترجمہ یہ بھی بنتا ہے۔
’’ارم والے جو اپنے آپ میں ستون تھے‘‘
’’ارم والے جو اپنے آپ میں ستون تھے‘‘
اور اس ترجمے نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ بات شاید صرف بڑے بڑے ستونوں تک کی نہ ہو۔
’’ہود علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہیں نوح کے بعد جانشین بنایا ہے اور جسامت میں تمہیں بڑھا دیا ہے۔۔“ سورہ اعراف آیت نمبر 60
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔گہری خاموشی تھی۔ جبکہ ایمان حیران پریشان سی بیٹھی تھی۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا گہرا ہو سکتا تھا۔ اتنی گہرائی میں جا کر سوچا جا سکتا تھا۔
انجیل کے عہد نامہ قدیم میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے nephilim ، کئی جگہ اس لفظ کو ترجمے کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا ہے لیکن جہاں اس لفظ کا ترجمہ ہوا ہے وہاں ’’انتہائی اونچے قد کے لوگ‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
اہل کتاب کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مآخذ قدیم عبرانی لفظ n-p-l یعنی نِفِل ہے جس کا مطلب ’’گرنا‘‘ یعنی ’’fall‘‘ ہوتا ہے اور یہیں سے انہوں نے fallen angel جیسے کانسیپٹس لیے ہیں لیکن مزید سٹڈیز دکھاتی ہیں کہ اس کا اصل مآخذ لفظ دراصل hiff-il ہے جس کا مطلب ’’کسی کو پکڑ کر گرانا‘‘ ہوتا ہے۔
سورۃ شعراء میں ، جہاں ہود علیہ السلام اپنی قوم اہل عاد کو کہتے ہیں کہ جب تم کسی کی پکڑ کرتے ہو تو بہت شدید طریقے سے کرتے ہو ، یہاں اوریجنل عربی الفاظ پر غور کیا جائے تو، ’’بطش‘‘ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے، اس کا literal معانی اچانک کسی کو ہاتھ سے پکڑنا ہوتا ہے ، بیشک وہ لوگ جسامت میں بہت بڑے تھے اور شاید یہی وہ وجہ تھی کہ ان کے ستون بھی اتنے ہی بڑے بڑے ہوتے ہوں گے۔ کچھ سمجھ آیا؟؟
’’ارم ذات العماد‘‘
”ارم والے، جو اپنی ذات میں ستون تھے۔۔“
جب موسیٰ علیہ السلام یہودیوں کو مصر سے نکال کر فلسطین تک لائے لیکن وہاں پہنچ کر یہودیوں نے موسی علیہ السلام کو کہا کہ ہم اس شہر میں نہیں جا رہے، آپ اور آپ کا خدا جا کر ان سے لڑو۔
انہوں نے ایسا کیوں کہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے بارہ قبیلوں میں سے بارہ جاسوس فلسطین بھیجے تھے تاکہ وہ وہاں کی خبر لائیں اور انہی جاسوسوں نے واپس آ کر بتایا کہ ہم نے بہت بڑے اور بہت طاقتور لوگ دیکھے ہیں جن کے سامنے ہم بہت حقیر تھے۔
وہ کون لوگ تھے؟؟ وہ عمالیق یا عمالقہ نامی قوم کے لوگ تھے جو اہل عاد کے بچ جانے والوں کی نسل میں سے تھے اور انہی سے خوفزدہ ہو کر یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہم نے ان سے نہیں لڑنا، بلکہ آپ اور آپ کا خدا جا کر ان سے لڑو۔ کئی سال گزرنے کے بعد یعنی یہودی صحراء میں بھٹکتے سزا کاٹنے کے بعد بالآخر جب عمالقہ سے لڑنے کے لیے پہنچے تو ان کا سامنا جالوت سے ہوا اور یہ شخص نام کے ساتھ قرآن میں مینشن ہے۔ یہ جالوت کون تھا؟ اسے انجیل میں goliath نام سے بلایا گیا ہے ۔ goliath ایک انتہائی اونچا ، لمبا ، تڑنگا اور طاقتور مرد تھا اور masoretic text میں اس کی اونچائی six cubits and a span لکھی ہے یعنی کہ تقریباً دس فُٹ اونچا آدمی۔ جالوت کا قتل حضرت داؤد علیہ السلام نے کیا تھا۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد ہمیں کافی حد تک اندازہ ہو گیا کہ اہل عاد ربع الخالی صحراء میں بسنے والے انتہائی اونچی جسامت اور قد کے لوگ تھے ، وہ اپنی جسامت ہی کے مطابق عالیشان ستونوں والی تعمیرات کیا کرتے تھے ، اور ان ہی باتوں پر تکبر کی وجہ سے وہ کہہ بیٹھے کہ کون ہے جو قوت میں ہم سے زیادہ ہو۔
سورۃ حم السجدۃ میں اللہ نے فرمایا۔
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ اپنی قوت میں ان سے کہیں زیادہ ہے‘‘
قوم عاد پر آنے والا عذاب ایک تیز ، چیختی چلاتی ، کڑک والی ہوا کا تھا جو آٹھ راتیں اور سات دن تک چلتی رہی، اور وہ جس بھی چیز سے گزرتی اسے ریت کی طرح کر دیتی تھی۔
اپنے نبی ہود علیہ السلام کو deny کر دینے کے بعد ، اہل عاد کا اختتام ایک قحط سے شروع ہوا ۔ اس قحط سے تنگ آ کر انہوں نے ایک شخص سے فریاد کی کہ وہ بارش کی دعا مانگے۔ اس شخص نے تہامہ کے پہاڑوں میں جا کر دعا مانگی کہ ہم پر ویسی بارش برسے جیسے پہلے برسا کرتی تھی اور آسمان میں ایک گہرے سیاہ بادل کو دیکھ کر کہا کہ کاش یہ ہم پر برس جائے۔
اور جب وہ برسا تو سب تہس نہس ہوگیا۔
قوم عام کو تباہ کرنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ ان کا تکبر تھا۔۔ انہیں لگا جو ان کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ہے۔۔ وہ اپنے آپ کو سب سے خاص سمجھتے تھے۔۔۔خاص سمجھ لینا تکبر لے آتا ہے۔۔ کیونکہ ہم بھول جاتے ہیں ہمیں خاص بنانے والی ایک بہت بڑی ذات موجود ہے۔ ہم خود کو دوسروں سے اوپر مان لیتے ہیں۔
اگر تم چاہتے ہو تم تباہ نہ ہو تو ہمیشہ یاد رکھو کہ خاص ہونے کے باوجود جھک کر جانا سیکھو۔۔۔ اپنے خدا کے سامنے۔۔ جس نے تمہیں بنایا۔۔۔ورنہ توڑ دیے جاؤ گے۔۔۔ مٹا دیے جاؤ گے۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
(قوم عاد پر اس رسرچ ورک میں فرقان قریشی بلاگز نے بہت مدد کی ہے۔۔ باقی میں خود سے بھی ابھی مزید کام کر رہی ہوں جو آپ لوگوں کو آگے دیکھنے کو ملے گا۔ شاید آپ لوگوں کو اب سمجھ آرہا ہو کہ آخر ماثیل ( بت ساز) ہی کیوں ناول کا نام رکھا گیا۔۔۔)
Episode kab upload hoga
ReplyDelete