Maseel novel episode 35- sulphite 02

Maseel novel episode 35 -suphite 02

 

”ہم شادی کب کریں گے؟؟“ وہ پھر سے سوال لے آیا تھا۔ ایمان نے رک کر اسے دیکھا۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ واک کرتے ہوئے ایمان کے ہاسٹل کی جانب جا رہے تھے۔

”پہلے آپ کوئی جاب وغیرہ تو کرلیں۔۔میرے گھر والے ایسے مانیں گے نہیں۔۔“
”کیا مطلب جاب کرلوں؟؟ میں کما تو رہا ہوں۔۔“ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔۔ بھنویں سکڑ گئی تھیں یوں جیسے ایمان نے پتہ نہیں کیا کہہ دیا ہو۔
”اچھا۔۔ اور اگر میں کہوں کہ مجسمہ سازی چھوڑ دیں تو؟؟“ ایمان نے الٹا سوال کیا۔۔۔ماثیل ساکت ہوا۔۔۔ کیا مانگ رہی تھی وہ؟؟ اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔
”تم کہو تو جواء چھوڑ دوں گا۔۔“
”اونہوں۔۔۔میں نے مجسمہ سازی کی بات کی ہے۔۔اگر میں یہ شرط رکھ دوں تو؟؟ کیا کریں گے آپ؟؟“
اس نے پہلی بار ماثیل کے چہرے پر بےبسی دیکھی تھی۔۔ کِسے چنتا وہ؟؟ ایمان یا پھر اپنی شناخت۔۔؟؟
”پر کوئی وجہ بھی تو ہو نا؟؟“ وہ احتجاجاً بولا۔
”بس میں کہہ رہی ہوں اس لیے۔۔“ وہ جان بوجھ کر اڑی رہی۔۔جاننا چاہتی تھی کہ کیا وہ اپنی شناخت آسانی سے چھوڑ دیتا۔۔۔؟؟؟
”ہاں میں چھوڑ دوں گا۔۔“ وہ جو اپنی خوشی پر کسی کی جان بھی قربان کر سکتا تھا، وہ اس کی خوشی کے لیے اپنی شناخت قربان کرنے کو تیار تھا۔۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”تو پھر؟؟ کیا کمائیں گے کیا کھائیں گے۔۔؟؟“ وہ اب ٹریک پر آرہی تھی۔
”دیکھو ایمان۔۔ مجھے جاب کرنا نہیں پسند۔۔ میں نے اٹھارہ انیس سال کی عمر میں، ویلنسیا آنے سے پہلے ایک بہت بڑی گورئمنٹ جاب حاصل کی تھی۔۔ ٹیسٹ پاس کرکے۔۔۔پر وہ میرے بس کا کام نہیں۔۔ میں جاب کرنے والا بندہ نہیں ہوں۔۔“ وہ کتنی آسانی سے بتا رہا تھا۔۔ جبکہ ایمان افسردہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔عبداللہ شہاب کی ایک اور نشانی پوری ہوچکی تھی۔ وہ کما نہیں سکتا تھا۔ حلال رزق تو بالکل نہیں۔۔
”تو پھر مجھے کیا کھلائیں گے؟؟“ وہ چڑ گئی۔۔ عبداللہ شہاب کا خیال اس کے زخم ادھیڑ دیتا تھا۔ اس کے چڑنے پر ماثیل نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
”تمہارے لیے میں جاب کرلوں گا۔۔“
”آخر کب تک؟؟ چند مہینے۔۔۔پھر آپ کہیں گے مجھ سے نہیں ہوتا۔۔ پھر کیا کریں گے ہم۔۔؟؟“ وہ سراپہ سوال تھی۔ وہ خاموش رہا۔
”یا پھر آپ چاہتے ہیں کہ میں جاب کروں گی اور ہم دونوں کا پیٹ پالوں گی۔۔؟؟“ وہ طنزیہ لہجہ میں بولی۔۔ اس کے چہرے تک پر کڑواہٹ تھی۔
”ویسے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔۔ پر میں ایسا نہیں چاہوں گا۔۔“ وہ گہرا سانس لیتے گویا ہوا۔۔ نظریں ایمان سے ہٹا کر اب ادھر ادھر جما دی تھیں۔۔
”تو پھر جواء کھیلیں گے؟؟ یا ڈاکہ ڈالیں گے۔۔؟؟ مجھے حرام کھلائیں گے۔۔؟؟“ وہ پتہ نہیں کیوں اتنی کڑوی ہورہی تھی۔ اس کا مزاق اڑا رہی تھی یا اپنا۔۔۔ ہاں شاید اپنا کہ اس نے خود کے لیے کس شخص کی محبت کو اپنا لیا تھا۔۔ ایسا شخص جو اسے حلال رزق تک نہیں کھلا سکتا تھا۔
”ایمان۔۔ پلیز یار اتنا مت سوچا کرو۔۔“ وہ اس کی اورتھنکنگ سے پریشان تھا اس لیے بےبسی سے بولا۔
”مسٹر ماثیل ایک بت بنانے کے علاوہ آپ کے پاس ہے ہی کیا؟؟ کوئی خوبی۔۔؟ کوئی ہنر۔۔۔؟ مجسمہ گری کو آپ سے چھین لیا جائے تو آپ کے پاس کیا بچتا ہے۔۔؟؟“
ماثیل کے دل پر گھونسا پڑا تھا۔۔ وہ ماثیل دی بت ساز کو کہہ رہی تھی کہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔۔ کوئی ہنر نہیں تھا۔۔ وہ بےیقینی سے اس کا چہرہ تکنے لگا۔۔ وہ بہت اکھڑی اکھڑی سی تھی۔۔ چہرے پر ذرا بھی تازگی نہیں تھی۔۔جاب کے بعد وہ زیادہ چڑچڑی ہوگئی تھی۔
”پلیز ایمان۔۔۔ایسے مت کہو۔۔ تم تو مجھے جانتی ہو۔۔“
اس کا دل کیا ایمان کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے دل کے جذبوں کی گہرائیوں تک محسوس کروائے۔
”آپ کو کیا لگتا ہے جاب کرنا صرف آپ کے لیے مشکل ہے باقیوں کے لیے بہت آسان ہے؟؟“
وہ دونوں پتھریلی سڑک کے بیچ کھڑے تھے۔
”یہ دیکھیں۔۔“ ایمان نے شوز کے اندر سے اپنا داہنا پاؤں نکالا۔۔۔اس نے موزے نہیں پہن رکھے تھے۔۔ اس کے پاؤں سوجھے ہوئے تھے۔
”جاب صرف مجھے ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بیمار کررہی ہے ہے۔۔ یہ میرے پاؤں سارا دن کرسی بیٹھنے کی وجہ سے سوجھ چکے ہیں۔۔ میرا مائیگرین مسلسل اسکرین پر کام کرنے کی وجہ سے نہیں جاتا۔۔ میرے کندھے اتنے اکڑے ہوئے ہیں کہ ہاتھ لگانے سے درد کرتے ہیں۔۔ایک پوزیشن میں بیٹھنے کی وجہ سے میری ٹانگوں کا درد نہیں جاتا۔۔ میں دن میں سو بار بھی کرسی سے اٹھوں تو وہ مجھے فائدہ نہیں دیتا بلکہ مجھے تھکا دیتا ہے۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے میں جاب کرنے کے لیے بنی ہوں؟؟ اتنا کچھ سہنے کے بعد میں پھر بھی جاب کر رہی ہوں صرف اس لیے کہ حلال کما سکوں۔۔۔اور آپ مجھے حلال کھلا نہیں سکتے۔۔۔واؤ“
آخری بات پر جیسے اس نے رکھ کر چپیڑ ماری تھی۔۔۔ ماثیل حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ وہ واقعی چہرے سے بیمار لگ رہی تھی۔
”ایمان۔۔۔“ اس نے ایمان کو پکارہ۔
”میرے باپ نے ساری عمر یہی کیا تھا۔۔۔“ اس کا لہجہ سرد تھا۔
”میں ایسا نہیں کروں گا۔۔۔“ اس نے دہائی تھی۔ ایمان نے خاموشی سے اپنے پاؤں بند جوتوں میں اڑس لیے۔
”انہوں نے محبت کی دوسری شادی کی اور اپنی محبوبہ بیوی سے یہی وعدے کیے تھے۔۔“ ایمان نے نگاہیں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔ ” پر افسوس وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہ پائے۔۔“ اس کی آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی۔ ماثیل ساکت کھڑا اسے سن رہا تھا۔
”دو مختلف لوگوں کا ایک ساتھ زندگی گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا مسٹر ادھم۔۔ یہ بات مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔“ پھر وہ رکی نہیں۔۔ اس کے پاس سے نکلتی چلی گئی۔۔۔اور پھر پیچھے ماثیل اپنا سر پکڑ کر رہ گیا تھا۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ کسی کی غلامی نہیں کر سکتا۔۔۔ وہ تو اس لیے خدا سے بھی لڑتا رہتا تھا جو انسانوں کو اپنے احکامات پر چلنے کا کہتا ہے۔۔ پر وہ کہاں سننے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
والدین، ہمارے پہلے قصوروار
”آج کے پیرنٹس۔۔۔ہمارے پیرنٹس۔۔۔ ہمارے پہلے دشمن ہیں۔۔“ اس کا یونیورسٹی میں سیشن تھا۔۔ بہت سارے اسٹوڈنٹس اس کا سیشن لینے آئے تھے۔ اور اب خاموشی سے بیٹھے اسے سن رہے تھے۔
”آپ لوگوں کو لگے گا میں غلط بول رہا ہوں پر میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔ لیکن کیسے یہ میں آپ کو ابھی بتا دیتا ہوں۔۔“
کیا کسی نے بتایا تھا اسے کہ وہ سیاہ پینٹ پر گہرے زیتون رنگ کی شرٹ پہنے کس قدر دلکش لگ رہا تھا۔۔ سیاہ جوتے چم چم کر رہے تھے۔۔۔اور ایسے ہی اس کا وجود چمکتا تھا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے آپ اپنے بچوں کو دو تین سال کی عمر میں موبائل پکڑا دیں گے، اسے یوٹیوب کے کھول کر دے دیں گے اور پھر یہ توقع کریں گے کہ آپ کے بچے تو بہت ہی شریف اور معصوم ہیں اور رہیں گے؟؟ آپ کو کیا لگتا ہے آپ کا گمان سچا ہے؟ یا پھر آپ نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے۔۔؟؟“
وہ آج براہ راست والدین سے مخاطب تھا۔۔ سامنے بیٹھی نسل بھی چند سالوں بعد اسی رتبے پر فائز ہونے والی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں سمجھادے آخر والدین کی زمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔
”جس عمر میں آپ کو چاہیے اپنے بچے کو باہر لے کر جائیں یا اسے مٹی میں کھیلنے دیں۔۔اسے قدرت سے قریب ہونے دیں۔۔۔انہیں چرند پرند اور حشرات دیکھنے دیں تاکہ وہ کائنات پر غور سکے، چلیں باہر نہ سہی پر اپنے گھر کے باغیچے میں ہی۔۔اس عمر میں آپ نے اسے موبائل فون پر لگا دیا ہے۔۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک بڑا سائنسدان بن جائے۔۔۔ کیا آپ نے دماغ پر بھی پٹی باندھ لی ہے؟؟ وہ فون پر ناچ گانہ دیکھ کر بڑا ہوگا اور پھر آپ امید رکھیں گے کہ آپ کا بیٹا ایک بڑا انسان بنے گا۔۔۔ کیا بڑے انسان کا مطلب بھی پتہ ہے آپ لوگوں کو؟؟“ وہ لمحے بھر کو خاموش ہوا۔
”آپ نے اپنے بچوں کو ذہنی بیماری میں مبتلا کرکے جوان کیا ہے اور آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بڑا ہو کر آئن سٹائن بنے گا آپ کا نام روشن کرے گا۔۔؟؟ مضحکہ خیز!
آپ کو کیا لگتا ہے جب آپ نے اپنے بچوں کو بچپن میں ہی فون دے کر اسے گھر کی چار دیواری میں بند کردیا تھا اسے آپ نے ڈرپوک انسان بنا کر بڑا کیا ہے۔۔ تو کیسے آپ کا بیٹا یا بیٹی بہادر ہوں گے؟؟ یہ مائیں۔۔ یہ آج کل کی مائیں۔۔ انہوں نے اپنے بچوں کو زنگ لگا دیا ہے۔۔ ہماری پچھلی دو نسلیں ان ماؤں نے تباہ کرکے رکھ دی ہیں۔۔“
اس کا لہجہ آج سخت تھا۔
”آپ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ ہماری پرورش ٹھیک سے نہیں ہوئی۔۔؟؟“ پہلا سوال ابھرا تھا۔
”آپ کی تعلیم و تربیت ٹھیک سے نہیں ہوئی۔۔ پرورش میں تو آپ لوگوں کو سب ملا ہے۔۔“ اس نے نگاہ ہال پر ڈالی۔
”پتہ ہے آج سے دو نسلیں پہلے تک ہماری مائیں اتنی بھولی تھیں کہ انہیں دنیا کا کچھ نہیں پتہ تھا۔۔وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں پر انہوں نے اپنی اولاد کو غلط اور صحیح کی تمیز سکھائی۔۔ انہیں چند اسلامی واقعات پتہ تھے انہوں نے اپنے بچوں کو مضبوط بنایا۔۔پر پچھلی دو نسلوں میں جو ریڈی میـڈ سی مائیں مارکیٹ میں آگئی ہیں ان کی وجہ سے آج ہماری نوجوان نسل اس قدر بزدل ہوگئی ہے کہ حق بات کرنا تو دور انہیں پتہ ہی نہیں کہ حق ہوتا کیا ہے۔۔؟
کیا سکھایا ہے آپ نے اپنے بچوں کو؟؟ کبھی سوچا ہے کہ حشر کے روز جب آپ کی پکڑ ہوگئی کہ میں نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا۔۔۔اسے کائنات سر کرنے بھیجا اور تم نے اس انسان کو چھوٹا سا ڈرپوک سا بےبی بنا دیا۔۔ کیوں کیا تم نے ایسا تو کیا جواب دیں گی آپ۔۔؟“
وہ سانس لینے کو رکا۔
”آج کے باپ کو خیر پیسوں کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پتہ نہیں کیا کیا کر رہا ہے یہاں تک کہ حرام کما کر اپنے بچوں کو آج کی مادیت پرستی کی دوڑ میں شامل کر رہا ہے۔۔ وہ جو دنیا دیکھ چکا ہے پھر بھی وہ اپنے بچوں کو کچھ نہیں سکھا رہا۔۔ سوائے اس کے بڑی ڈگری لو۔۔ بڑا بزنس کرو۔۔ اور خوب پیسا کماؤ۔۔۔ کیا ہم بس یہی کرنے آئے تھے؟؟
یو نو واٹ ہم نے اپنے بچوں کو گوروں کی طرح کا رہن سہن تو دے دیا ہے۔۔۔اپنے بچوں کو ہرطرح سے ویسا تو بنا دیا ہے پھر کیا وجہ ہے ہم اپنت بچوں کو ویسا مائنڈ سیٹ نہیں دے پائے۔۔۔ کیوں ہمارے بچے ان جیسے ماحول میں رہ کر بھی آسمانوں کی بلندیوں کو دیکھنے کی بجائے صرف مادیت پرست چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ ہمارے ماں باپ ہمیں کورس کی کتابیں پڑھنے کا تو کہتے ہیں۔ کم مارکس لانے پر ہمیں لعنت ملامت تو کرتے ہیں پر کیوں ہمیں وہ کتابیں پڑھنے کو نہیں کہتے جو ہمارے ذہن کو کھولنے میں مدد دیں۔۔ کیا آپ کا مقصد صرف اچھی زندگی جینا اور مرجانا ہے۔۔۔؟؟ میرا سوال ہے آج کی ماؤں سے کہ آپ کو کیا لگتا ہے آپ اپنے بیٹے کو خود سے اس قدر قریب کرکے کب تک اپنا بنا کر رکھ لیں گی۔۔۔؟؟ آج کی مائیں بارش بھی ہو تو کہتی ہیں کہ سکول نہ جاؤ۔۔ کالج نہ جاؤ۔۔۔ دن میں ہزاروں فون کرتی ہیں۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ ماں کو کہ اپنی محبت کم کر دینی چاہیے۔۔پر آپ کو اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کو اپنے بچوں کو سروائیوو کرنا کیسے سکھانا ہے۔۔ مشکل وقت میں۔۔ مشکل حالات میں کیسے رہنا ہے۔۔۔ارے سروائیوو کرنا تو دور کی بات ہے آج کی نسل کا نوجوان لڑکا اب اتنا نازک ہوچکا ہے کہ وہ آفس میں اے سی کے نیچے بیٹھ کر کام بھی نہیں کر پاتا۔۔۔وہ کہتا ہے مجھ سے جاب نہیں ہوتی۔۔ میں ویڈیوز بناؤں گا۔۔۔پیسہ کما لوں گا۔۔۔ میرے پاس تو الفاظ نہیں ہیں جس میں آج کی نوجوان نسل کی پستی کو بیان کر سکوں۔۔ ان حالات میں ہم کیسے لڑیں گے کوئی جنگ؟ کیا سب مائیں بھول گئی ہیں ہمیں ایک جنگ لڑنی ہے۔۔ آخری وقت میں فتنوں کے خلاف۔۔۔ کیسے لڑیں گے ہم وہ جنگ۔۔۔۔جبکہ ہم تو خود اپنی اولاد کی شکل میں فتنہ پیدا کر رہے ہیں۔۔ کبھی سوچا ہے آپ نے؟؟“
وہ بولا تو بولتا چلا گیا۔
”میں آپ لوگوں کو ایک بات بتاؤں۔۔ تمام مائیں ایک بار میری بات غور سے سن لیں۔“
اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”یقین کریں آج آپ پریشان ہیں کہ آپ کے بچے آپ کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ، کچھ ڈرگز لیتے ہیں کچھ برے کاموں میں ملوث ہیں۔۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ بچے اس قدر پستی میں گرجائیں گے کہ آپ سے لڑائی کریں گے جانتے ہیں کس لیے؟؟ ایک لڑکا اپنے میل بیسٹ فرینڈ سے شادی کرنا چاہے گا۔۔۔ایک لڑکی لڑکیوں میں انٹرسٹد ہوگی۔۔اس کی شروعات ہوچکی ہے۔۔۔اور وہ وقت دور نہیں جب یہ کھلے عام ہوگا۔۔ ایک اور بات بتادوں میں آپ کو۔۔ آپ آج چاہ رہے ہیں کہ آپ کے بچے باہر چلیں گے۔۔ لندن امریکا یورپ میں سیٹلڈ ہوجائیں۔۔کیا آپ نے کبھی وہاں رہنے والے پاکستانیوں سے۔۔ چلیں مسلمانوں سے ہی سہی پر پوچھا ہے کہ ان کے بچے کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟ یقین کریں وہ ماں باپ رو رہے ہیں کیونکہ ان کے بچے گہری کھائیوں میں چھلانگیں لگا چکے ہیں۔۔ “
وہ جب لندن میں تھا تو اکیڈمی میں اس کے پاس ایسے بہت سارے کیس آئے تھے جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو لے کر بہت پریشان تھے۔
”ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا مسلمان لڑکا خودکشی کر رہا ہے صرف اس لیے کہ وہ کسی جارج سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔ ماں باپ کے لیے یہ کسی موت سے کم نہیں ہے۔۔ یہ وہاں کھلے عام ہو رہا ہے۔۔۔اور آپ نے اپنی اولاد کو اسی جانب راغب کر دیا ہے۔۔ افسوس کی بات ہے۔۔۔“
وہ دنیا دیکھ کر آیا تھا۔۔وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
”مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم ٹیکنالوجی کو کتنی آسانی سے استعمال کر رہے ہیں وہ بھی غلط کاموں میں۔۔ کیوں ہمارے بچے یہ نہیں سوچتے کہ یہ ٹیکنالوجی کیسے بنتی ہے کون بناتا ہے؟؟ کیوں ہمارے دماغوں سے سوال مٹ چکے ہیں۔۔ کیوں ہم اتنے الجھ گئے ہیں کہ سوال کرنا ہی بھول چکے ہیں۔۔؟؟“
”پر ان ماؤں کا کیا قصور ہے جنہیں اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے آج کے اس مہنگائی کے دور میں خود جاب کرنا پڑتی ہے۔۔ ان کا کیا قصور ہے؟؟ اور اگر ہم جاب نہ کریں تو ہمارے پڑے لکھے ہوئے کا کیا فائدہ۔۔؟؟ یہاں تک کہ اگر ہم پاکستان سے باہر رہیں اور جاب نہ کریں تو وہاں ہمیں یوزلیس سمجھا جاتا ہے۔۔ ہماری کوئی ویلیو نہیں ہے۔۔“ یہ ایک پروفیسر تھی جو اسی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی۔
”جاب کرنے سے منع نہیں کیا کسی نے۔۔۔پر آپ خود دیکھیں آپ ٹیچر ہیں۔۔ہمارا تعلیمی نظام ہمیں صرف ڈگری دے رہا ہے۔۔ وہ کچھ سکھا نہیں رہا۔۔کوئی تربیت نہیں کر رہا۔۔ اگر آپ دن رات محنت کرکے اپنے بیٹے کو صرف ایک ڈگری دلواتی ہیں اسے کچھ سکھا نہیں پاتیں تو اس سے بہتر ہے آپ اسے کم ڈگریاں دلوا لیں، اس کے ساتھ رہ کر اسے وہ سکھائیں جو ایک انسان کو علم ہونا چاہیے۔۔ وہ انسان جسے علم دیا گیا۔۔۔اسے وہ انسان بنائیں۔۔اسے وہ مسلمان بنائیں۔۔۔فرق پھر آپ خود دیکھیں گی۔۔
اور دوسری بات اگر آپ باہر رہ کر اپنے بیٹے کو وہ نازک حسینہ بنا رہی ہیں جو کل کو کسی مرد سے شادی کرلے گا تو اس سے بہتر ہے آپ لوگ گھر میں ہی رہ رلیں پر اپنے بچوں کو کچھ سکھائیں۔۔ خدا کا واسطہ ہے اس مادیت پرستی سے نکل آئیں۔۔ آپ کے بیٹے بچپن سے دوسرے مردوں کی جانب راغب نہیں ہوتے۔۔ بلکہ وہ یہ سب دیکھتے ہیں اور عام سمجھ کر اس کی جانب بڑھتے ہیں۔۔۔یہ زہر آپ لوگ ان کے اندر گھول رہے ہیں۔۔ آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں۔۔ آخر کب آپ تک اپنی اولاد کے پہلے دشمن بنے رہیں گے۔۔۔آخر کب تک۔۔؟؟“
✿••✿••✿••✿
”یہ میری ہے۔۔۔“
”نو شی از مائن۔۔“ دو خوبصورت سے بچے ہسپتال کے اس کمرے میں ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک جھگڑالو تھا جبکہ دوسرا خاموش طبع تھا۔ وہ دونوں ایک ننھی سی بچی کے کاٹ کے پاس کھڑے تھے۔۔ پہلی بار کم گو بچے نے ضد کی تھی۔ وہ دونوں چھ سال کے تھے۔ دونوں کی آنکھیں ایک جیسی تھیں۔
وہ ہسپتال میں اپنی آنی سے ملنے آئے تھے جنہیں اللہ نے چھوٹی سی پری سے نوازہ تھا۔۔ ان کی ماں کمرے کے دروازے پر کھڑی ڈاکٹر سے کچھ پوچھ رہی تھیں۔۔ اس پورے کمرے میں دو صرف دو بیڈ رکھے تھے۔۔۔ ایک بیڈ خالی تھا جبکہ دوسرے پر ایک عورت لیٹی تھی۔۔ اور دو کاٹ رکھے جن میں دو بچے تھے۔۔ بلکہ بچیاں تھیں۔۔ وہ دونوں بھاگتے ہوئے پہلے کاٹ کے قریب رک گئے۔۔ اندر پڑی بچی نے دونوں کی توجہ بروقت کھینچی تھی۔
کم گو بچہ پہلے متوجہ ہوا تھا۔۔ اس سے پہلے وہ بچی کو چھوتا دوسرا بچہ غصے سے پھنکارا۔۔
”شی از مائن۔۔ ڈونٹ ٹچ ہر۔۔ (وہ میری ہے اسے مت چھوؤ۔۔)“ اس نے پہلے بچے کا ہاٹھ جھٹک دیا۔
”یہ کتنی پیاری ہے نا۔۔“ اس کے روکنے کے باوجود پہلے بچے نے اس پری کے گال کو چھوا۔ جبکہ بیڈ پر لیٹی عورت حیرانی سے دو بچوں کو اپنی بچی کے لیے لڑتے دیکھ رہی تھی۔
”عبدل۔۔ حاد۔۔۔ بیٹا آنی ادھر ہیں۔۔۔“ تبھی وہاں نرس آئی اور اس نے بچوں کی ماں کو بتایا کہ وہ غلط کاٹ کے پاس کھڑے تھے۔ تبھی ماں نے اپنے بچوں کو آواز دے کر انہیں انگلی کے اشارے سے دوسرے بیڈ کی جانب اشارہ کیا۔۔اس کاٹ میں لیٹی بچی اب رو رہی تھی۔۔
واشروم کا دروازہ کھلا اور ماہم باہر آئی۔
”عبدل۔۔ حاد۔۔۔“ وہ ان کی آنی تھی۔۔ جس نے دونوں کو دیکھتے ہی خوشی سے پکارہ۔ دونوں نے اپنی آنی کو دیکھا لیکن وہ بچی کے کاٹ کے پاس سے نہیں ہلے۔۔۔
ماہم اب انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا وہ بھاگتے ہوئے اس کی جانب نہیں گئے۔۔۔ماہم نے حیرت سے اپنی بہن کی طرف دیکھا جو اب کمرے میں داخل ہوئی جبکہ بیڈ پر بیٹھی وہ عورت دلچسپ نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس نے بچوں کو نہیں روکا۔
”کیا کر رہے ہیں آپ لوگ۔۔۔“ ان کی ماں اپنی بہن سے ملنے کے بعد چلتے ہوئے ان کے قریب آئی۔ وہ تھوڑا جھک کر بچی کو دیکھنے لگی۔
”شی از کیوٹ نا۔۔ ماشاءاللہ۔۔“ وہ اب اپنے بچوں سے پوچھ رہی تھی۔
”میں نے اسے پہلے دیکھا ہے۔۔ میں اسے پہلے اٹھاؤں گا۔۔“ کم گو بچہ پہلی بار کسی بات پر اڑا تھا۔۔ ماں نے حیرت سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
”پر یہ ہماری نہیں ہے۔۔۔ ہماری منحہ ادھر ہے۔۔“ ماں نے دوسرے کاٹ کی جانب اشارہ کیا۔
”نو شی از مائن۔۔۔“ غصیلہ بچہ اتنی زور سے چیخا کہ اس بار بچی کی ماں بھی ڈر گئی۔۔ وہ دونوں کاٹ کے دونوں جانب کھڑے تھے۔۔۔ کم گو بچے کی نگاہیں بچی پر جمی تھیں۔۔۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔۔ بچی جو دوسرے بچے کے چیخنے پر ڈر گئی تھی وہ اب ادھر ادھر گردن ہلا رہی تھی۔۔ کم گو بچے نے بچی کی گردن پر دو سفید نشان دیکھ لیے تھے۔۔۔ وہ اس کے لیے دلچسپی کا باعث تھے۔۔۔ جبکہ دوسرا بچہ غصے سے اپنے بھائی کو گھور رہا تھا۔ اس نے بچی کو چھونے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تبھی کم گو بچے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ پہلی بار اس نے اپنے بھائی کو کسی کام سے روکا تھا۔۔ وہ اس کے بڑے بڑے نقصان کر دیتا تھا پر اس نے کبھی اسے کچھ نہیں کہا تھا۔
”تم اسے ہرٹ کردو گے۔۔ یہ بہت معصوم ہے۔۔۔اسے مت چھوؤ۔۔“ اور پھر کیا تھا۔۔ غصیلے بچے نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔۔
ان کی ماں یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے بیـڈ پر بیٹھی بچی کی ماں کو دیکھا جو تھوڑا پریشان لگ رہی تھی۔
”معذرت۔۔ بچوں کو لگ رہا ہے یہ ہماری بچی ہے۔۔“ اس نے اپنے بچوں کی طرف سے معذرت کی۔
” کوئی بات نہیں۔۔“ بچی کی ماں مسکرائی۔
”حاد بیٹا۔۔۔“ اس نے اب اپنے کم گو بیٹے کو پکارہ۔۔ بچے نے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا۔۔ اس کی ماں کی ٹھوڑی پر عجیب سا نشان تھا۔۔ چمکتا ہوا نشان۔۔ اسے وہ نشان کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ لیکن آج اسے کاٹ میں لیٹی بچی کی گردن پر دو سفید نشان نظر آئے تھے اور وہ اسے بھلے لگے تھے۔
”بھائی کو بھی دیکھنے دو۔۔“ ماں نے پیار سے اپنے بچے کو پچکارہ۔
”اگر اس نے ہرٹ کیا تو؟؟“ وہ پریشان ہوا۔
”نہیں کروں گا میں ہرٹ۔۔“ غصیلہ بچہ تیزی سے بولا اور پھر فٹافٹ بچی کو اٹھانے لگا۔۔ اس کی ماں نے بچی اٹھا کر دینے میں مدد کی۔ جبکہ کم گو بچے کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔۔ اسے اپنے بھائی عبدل پر پہلی بار غصہ آیا تھا جسے وہ خاموشی سے ضبط کر رہا تھا۔ بچی کی ماں خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔
عبدل اب بچی کو اپنے ننھے بازوؤں میں اٹھائے دوسرے بیـڈ کی جانب گیا۔
”آنی دیکھیں۔۔۔شی از سو کیوٹ۔۔“ وہ اب اپنی آنی کے پاس کھڑا انہیں ننھی پر دکھا رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔۔ جبکہ کم گو بچہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔۔۔وہ کاٹ کے پاس ہی کھڑا تھا۔۔ پھر اس نے چہرہ گھما کر بچی کی ماں کی جانب دیکھا۔
”اسکا نام کیا رکھا ہے آپ نے۔۔۔؟؟“ وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسا کوئی چھ سالہ بچہ نہیں بلکہ چبھیس سال کا نوجوان لڑکا ہو۔ اس سے پہلے بچی کی ماں نام بتاتی۔
”اس کا نام ہم ایمانے رکھیں گے۔۔“ بچی کو گود میں اٹھائے عبدل اب اپنے بھائی کی جانب آیا۔ وہ بچی کو لے کر خوش ہوگیا تھا۔
”دیکھو نا آنی نے اپنی بیٹی کا نام منحہ رکھ دیا ہے۔۔ جبکہ ہمیں تو ایمانے چاہیے تھی نا۔۔“ اس کا غصہ جیسے کہیں غائب ہوگیا تھا۔۔۔پاکستان آنے سے پہلے دونوں بھائیوں نے پہلی بار مل کر کوئی پلان بنایا تھا بلکہ عبدل نے اپنے بھائی کے سر پر تھوپہ تھا۔
”آنی کی بیٹی ہوئی تو ہم اس کا نام ایمانے رکھیں گے۔۔۔“ وہ پورا دن اپنی ماں کا سر کھاتا۔ پر ان کے آنے سے پہلے ہی اس کا نام منحہ رکھا جاچکا تھا۔ پر اسے تو ایمانے چاہیے تھی۔ جانے کیوں اسے ایمانے نام سے اتنی رغبت کیوں تھی۔
”یہ لو تم بھی دیکھ لو۔۔“ عبدل کا جب دل بھرا تو اس نے بچی اپنے بھائی کو تھمادی۔ اسے بانہوں میں لیتے ہی حاد کے چہرے پر عجیب سی خوشی ابھری۔ اس نے جھک کر بچی کی پیشانی کو چھوا۔ بہت ہی محبت سے بہت ہی عقیدت سے۔۔۔
”آپ کی بیٹی بہت اچھی ہے۔۔ بہت پیاری ہے۔۔ ذرا بھی نہیں روتی۔۔ جبکہ منحے روئی جارہی ہے۔۔“ وہ بچی کو تھامتا اس کی ماں کے قریب گیا۔ وہ دونوں اب منحہ کو منحے بنا چکے تھے۔ انہیں اپنی مرضی کے نام پسند آتے تھے۔
”آپ اس ہسپتال میں کب تک ہیں۔۔؟؟“ اس نے بچی کی ماں سے پوچھا۔
”شاید شام تک۔۔“ ماں حیرانی سے اس بچے کو دیکھ رہی تھی جو کتنا عجیب تھا اور اب کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
”آپ مجھے اپنا فون نمبر دے دیں۔۔ میں جب تک یہاں ہوں ایمانے سے ملنے آتا رہوں گا۔۔“ وہ اب سنجیدہ سے اپنی ماں سے کہہ رہا تھا کہ وہ بچی کی ماں کا نمبر لے لے۔
”میرے پاس موبائل فون نہیں ہے۔۔“ بچی کی ماں پھیکا سا مسکرائی۔
”اوہ۔۔۔“ اس نے اب بچی کو واپس کاٹ میں لٹایا۔
“آپ اپنے گھر کا پتہ بتادیں۔۔ ہم آجائیں گے۔۔“
وہ اپنی بات پر قائم تھا۔۔ بچی کی ماں ذرا ڈری سہمی سی تھی اس نے پھر بھی اپنے گھر کا پتہ بتادیا۔
”ایمانے کا خیال رکھیے گا۔۔۔ یہ بہت خاص ہے۔۔ بالکل میری مام کی طرح۔۔“ بچے نے اپنی ماں کی جانب دیکھا جو اپنی بہن سے باتیں کر رہی تھی۔
”گڈ بائے ایمانے۔۔ میں تم سے جلد ملنے آؤں گا۔۔“ اس نے جھک کر پھر سے بچی کو پیار کیا اور پھر وہ اپنی ماں کی جانب بڑھ گیا۔۔ اب وہ منحہ کو دیکھ رہا تھا۔ جبکہ عبدل کافی خوش نظر آرہا تھا۔۔ وہ کبھی منحہ کو دیکھتا تو کبھی ایمانے کو۔۔ دونوں میں ایک دن کا فرق تھا اور دونوں اسے پیاری لگ رہی تھیں۔
”تم نے ایمانے کی مام کا نمبر لے لیا تھا۔۔۔؟؟“ وہ اب واپس جارہے تھے جب عبدل نے حاد سے پوچھا۔
”ان کے پاس موبائل فون نہیں تھا۔۔“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”تم ہم اس سے کیسے ملیں گے۔۔؟؟“ اسے حاد سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ بنا فون نمبر لیے آجائے گا۔ اس کی تیوری چڑھ چکی تھی۔ ناک بھول چکی تھی۔
”میں نہیں جانتا۔۔۔“ حاد نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اب اپنی آنی کے گھر جا رہے تھے۔۔ منحہ ان کے ساتھ تھی پر وہ دو تھے۔۔ انہیں ایمانے بھی چاہیے تھی۔ عبدل تو ضدی تھا۔۔ واپسی کے وقت اس نے جتنا بڑا ڈرامہ کیا تھا وہ ہسپتال والوں کو، بچی کی ماں کو یہاں تک ان کی اپنی ماں کو ساری عمر یاد رہنے والا تھا۔۔وہ ایسا ہی تھا اس کا دماغ کبھی بھی کہیں بھی الٹ جاتا تھا۔
”آپ ایمانے کو ہمیں دے دیں۔۔ ہم اس کا خیال رکھیں گے۔۔“ وہ اس کے پاس سے ہل نہیں رہا تھا۔۔
”عبدل غلط بات ہے۔۔“ جب اس کی ماں تنگ آگئی تو گھوری سے نوازہ۔
”نہیں۔۔ ہم ایمانے کو لے کر جائیں گے۔۔“ اور پھر اگلے ہی پل اس کی چیخوں سے پورا ہسپتال جیسے کمرے کے باہر اکٹھا ہوگیا تھا۔۔۔وہ ڈرامے باز تھا۔۔ لیکن اتنا بڑا ڈرامے باز تھا یہ حاد نے آج دیکھا تھا۔
وہ وہاں سے نہ ہلتا اگر حاد اس کے کان میں سرگوشی نہ کرتا۔ اور اب وہ گاڑی میں بیٹھے تھے۔۔۔وہ ایمانے کو چھوڑ آئے تھے۔
”تم نے جھوٹ کیوں بولا۔۔۔ تم نے کہا تم ایمانے سے ملنے کا طریقہ جانتے ہو۔۔“ عبدل اب کھا جانے والی نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا۔ اسے لگا تھا حاد کے پاس ضرور کوئی طریقہ ہوگا۔ اس نے اس کے کان میں یہی سرگوشی کی تھی۔
”ایمانے اگر ہماری ہوئی تو ہمیں مل جائے گی۔۔“ حاد کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔جبکہ عبدل کا دل کر رہا تھا اپنے بھائی کو اٹھا کر باہر پھینک دے۔ وہ آج ایمانے کو اپنے ساتھ لے کر ہی آتا پر اس کے بھائی نے بیچ میں آکر کام خراب کردیا تھا۔۔وہ اسے کبھی معاف کرنے والا نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ایمان کو گرینری بہت پسند ہے۔۔ میں سوچ رہا ہوں پورے لان میں درخت لگوادوں۔۔ اور پورے انسٹیٹیوٹ کو بیلوں سے بھردوں۔۔“ وہ ٹیرس پر کھڑا مارتھا سے ڈسکس کر رہا تھا۔۔وہ بھول چکا تھا کہ ایمان نے اس سے حلال رزق کو لے کر کس قدر بحث کی تھی۔۔ اسے لگتا تھا کچھ بھی ہوجائے ، ایمان کتنا ہی جھگڑ لے پر اسے ہونا تو ماثیل کا ہی تھا نا۔۔ بھئی وہ اس کی محبت کو اپنا جو چکی تھی۔
وہ ایمان کو اپنی سمجھتا تھا۔۔ اس نے اپنی آنکھوں میں جانے کتنے خواب سجا لیے تھے۔
جبکہ وہ نہیں جانتا تھا ایمان کوئی راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔وہ راستہ جو اسے ماثیل سے الگ کر سکے۔۔کیونکہ وہ ایک اور عبداللہ شہاب کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
پر وہ دماغ اور دل کی عجیب جنگ کے زیراثر تھی۔۔۔ وہ ماثیل کے خواب بھی نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اور وہ اس کے ساتھ رہ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ اس نے اپنی پوری کوشش کرلی تھی پر وہ دونوں مشرق اور مغرب جیسے تھے۔۔۔ایک کا عروج دوسرے کا زوال تھا۔
وہ ہر وقت سوچتی رہتی کہ آخر کیسے سلمی بیگم کو بتائے گی کہ وہ کسی پرائے شخص کی محبت اپنا چکی ہے۔۔۔وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار چکی ہے۔
ابھی تک اس نے سلمی بیگم سے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔ پر ایک نہ ایک دن تو کرنا ہی تھا۔۔
اس کے پاس بس ایک مہینہ رہ گیا تھا۔۔ صرف ایک مہینہ۔۔۔
وہ واپس چلی جاتی۔۔شاید ہمیشہ کے لیے۔۔ وہ کبھی پلٹ کر نہ آپاتی۔۔۔ اور اسی خوف سے اسے اکیڈمی کا یاد آیا۔۔ وہ یہ ایک مہینہ اکیڈمی جوائن کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے آفس بات کرلی تھی۔۔ ویلنیسا آفس سے اسے پاکستان میں موجود آفس میں ٹرانسفر کردیا جاتا۔ اس کا یہ مسئلہ تو حل ہوگیا تھا۔۔ وہ اب مزید دیر نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لیے اسے اکیڈمی کی طرف سے جو ای میل کائنات کے ہوتے ہوئے موصول ہوئی تھی اس نے اسی ای میل پر اب جوائننگ کا پوچھا تھا اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی جب اکیڈمی والوں نے اسے بلا لیا تھا۔۔
وہ کل سے اکیڈمی جوائن کرنے والی تھی۔۔اسی خوشی میں وہ پوری رات ٹھیک سے نہیں سوپائی۔۔۔وہ بےچین رہی تھی۔ پر وہ نہیں جانتی اگلی صبح اس کی زندگی میں ایک بھیانک موڑ لانے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”میں لائیو آتا رہوں گا۔۔ تم پریشان مت ہونا۔۔“ وہ اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔۔ حاد کچھ دنوں کے لیے ویلنیسا جارہا تھا۔۔ اسے وہاں کی اکیڈمی وزٹ کرنی تھی۔ وہ سعد کو کچھ ہدایات دے رہا تھا۔
”میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔۔؟؟“ سعد نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔۔۔اسے حاد سے عجیب سی انسیت ہوگئی تھی۔
”جب میں ورڈ ٹوور پر جاؤں گا تمہیں ضرور لے کر جاؤں گا۔۔پر ابھی یہاں کا پلیٹ فارم تم دیکھو۔۔ میں جلد واپس آؤں گا۔۔ میں چاہتا ہوں میرے آنے تک تم اسکول کی جگہ کنفرم کرلو۔۔“
سعد نے اس کی بات سن کر ہاں میں سر ہلایا۔۔ واقعی یہ کام تو سب سے ضروری تھا۔
حاد کا ارادہ اسپیشل بچوں کے لیے ایک اسکول بنانے کا تھا۔ اور یہ بہت بڑا پروجیکٹ تھا جن کی شروعات انہیں ابھی سے کرنی تھی۔ حاد نے ایک دو جگہ دیکھی تھیں جنہیں اب وہ سعد کے حوالے کرکے جا رہا تھا تاکہ وہ وزٹ کرکے کنفرم کرلے۔ سعد بہت سمجھداری سے اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ حاد سے بہت متاثر تھا اور اسی کی طرح اب اپنے ذہن کو ایکٹیو رکھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔ سعد چلا گیا جبکہ حاد ایک ضروری کام میں مصروف ہوگیا۔۔ وہ رات ایک بجے فری ہوا۔۔ اگلی صبح اس کی فلائیٹ تھی۔۔
ایک بجے کے قریب وہ سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔ وہ کافی تھکا ہوا تھا اس لیے جلد ہی نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔پر وہ گہری نیند کبھی نہیں سویا تھا اور اس وقت بھی وہ کچی نیند کے ہی زیر اثر تھا جب اسے وہ خواب پھر سے نظر آیا۔۔
دلدل میں دھنستی وہ لـڑکی بری طرح چیخ رہی تھی۔۔۔سیاہ بارش میں اس کا آرجے والا بھیگ دلدل کے باہر پڑا رہ گیا تھا۔
عبدل کی ایک زوردار پکار پر وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔۔ اس نے گہرے سانس لے کو خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ وہ جانتا تھا یہ خواب تھا۔۔پر وہ اس خواب سے نہ پیچھا چھڑا پاتا تھا اور نہ اس خوف سے باہر نکل سکتا تھا۔
وہ بیڈ سے پاؤں نیچے لٹکا کر سر تھا کر بیٹھ گیا۔۔ سفید رنگ کی ٹی شرٹ اور کھلے سے ٹراؤزر میں وہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔
اسے جب بھی یہ خواب نظر آتا وہ عجیب خوف میں مبتلا ہوجاتا تھا۔۔۔۔ وہ کسی سے نہ ڈرنے والا ایک خواب سے ڈر جاتا تھا۔
پھر کچھ یاد آنے پر اس نے مس ایلف کی وہ چیٹ اوپن کی جہاں انہوں نے کسی ام ایمان نامی لڑکی کا نمبر سینڈ کیا تھا جس کا وہ بیگ تھا۔۔ اس نے نمبر ملایا پر وہ بند جارہا تھا۔ اس نے فون واپس رکھ دیا۔۔۔ اس کے لیے وہ لڑکی اتنی اہم نہیں تھی کہ وہ بار بار فون کرتا۔۔ ایک بار اس نے پہلے کال کی تھی پر اچانک ہونے والے روڈ حادثے کی وجہ سے وہ بات نہیں کر پایا تھا۔۔۔اور آج اس کا نمبر بند تھا۔۔۔
”آخر کون ہے یہ لڑکی۔۔ کیوں نظر آتی ہے بار بار۔۔“ وہ جھنجلا اٹھا تھا۔۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ آٹھ بجے اس کی فلائیٹ تھی۔۔وہ تین گھنٹے ہی سو پایا تھا اس میں اس نے یہ خواب دیکھ لیا تھا۔۔ اسے اب نیند نہیں آنی تھی وہ جانتا تھا۔۔ کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد وہ اب لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگیا۔۔ اس کا میل باکس سینکڑوں ای میلز سے بھرا پڑا تھا۔ وہ اب کام کی ای میلز کو پوری توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ خواب اس کے ذہن سے محو ہوچکا تھا اور ای میلز پڑھنے کے بعد وہ یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اگلا لائیو سیشن اسے کس موضوع پر کرنا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
دو منٹ کی خاموشی ان سب کے لیے جنہوں نے حاد اور عبدل کو ایک سمجھا۔۔۔ وہ چار سو لوگ جنہوں نے حاد اور عبدل کے ایک ہی شخص ہونے پر ووٹ دیا۔۔ am just Laughing.. اور پانچ منٹ کی خاموشی ان پچاس ساٹھ لوگوں کے لیے جنہوں نے ماثیل کو ہی حاد بنادیا۔۔ لوٹس آف لاف۔۔۔😁سب رائٹر ایک جیسا نہیں لکھتے۔۔۔اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے ایک ہی وقت میں اپنے ایک کردار کو چار پانچ کردار بنا کر پیش کرنے کا۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ سب کا حال چل رہا ہے۔۔ ہسپتال یعنی پاگل خانے والے مناظر فیوچر کے ہیں۔۔ جبکہ یہ حال ہے۔۔ پھر بھی آپ لوگوں کو فلمی بننے کا بہت شوق ہے۔۔ سو انوسینٹ۔۔ 😁
نور راجپوت

3 Comments

Post a Comment
Previous Post Next Post