” کیا سب؟؟“ وہ انجان بنتے ہوئے بولی۔
”تم شوبز چھوڑ رہی ہو؟؟“
”چھوڑ دیا ہے۔۔“ تصیح کی گئی۔
”کیوں۔۔۔؟؟“ اس کے لہجے میں ذرا فرق نہیں آیا۔
”میری مرضی۔۔“ وہ اپنے لہجے کو اس کے جیسا بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ عبدل نے سانس روکے اسے گھورتا رہا۔۔۔ وہ اس کے چہرے سے سچ جان لینا چاہتا تھا۔ جبکہ ہیزل خود پر اپنے جذبات پر، اپنے احساسات اور اپنی ناقدری پر بہنے والے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ اسے گھورتا رہا اور وہ سوئمنگ پول میں پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔۔ نظریں صاف شفاف پانی سے نظر آتی پتھریلی زمین پر جمی تھیں۔۔ وہ کہہ نہیں پائی کہ وہ کسی کا ایمان خراب کرنے والی چیز نہیں بننا چاہتی۔۔۔ وہ کسی ہرجائی سے کم نہیں تھا۔۔ پھر وہ کیوں اپنے جذبات کی ناقدری کرواتی رہتی۔
وہ جانتا تھا ہیزل کے اس جذباتی فیصلے سے ہیزل کو خود کتنا نقصان ہونے والا تھا۔۔ پر وہ نہیں جانتا تھا کہ ہیزل کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔۔ وہ نفع نقصان نہیں دیکھتی تھی۔۔۔اس کا جو من میں آتا تھا وہ کرتی تھی۔ وہ کچھ دیر جبڑے بھینچے اسے دیکھتا رہا اور پھر سپاٹ لہجے میں بولا۔
”تو پھر اپنی پی اے کو بھی سمجھا دو کہ وہ مجھے بےکار میں فون کرکے ڈسٹرب نہ کرے۔۔ اسے بتاؤ کہ یہ سب تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے۔۔ اب اگر اس نے میرا دماغ خراب کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“ وہ غصے سے کہتا پلٹ گیا۔۔ ہیزل نے نظریں اٹھائیں۔۔۔ وہ دور جارہا تھا۔۔ گیٹ کی جانب۔۔۔ تیز تیز قدم اٹھاتا۔۔ کیا ہوتا اگر وہ پاس بیٹھ کر محبت سے پوچھ لیتا؟؟ کیا ہوتا اگر وہ ہاتھ تھام کر سارے تکلیفیں جان لیتا ؟؟ پر وہ عبدل تھا۔۔اسے یہ سب نہیں آتا تھا۔۔ اس نے تو اپنی ایمانے کا دل توڑ دیا تھا۔۔
نم آنکھوں میں اس کا عکس دھندلا گیا تھا۔ کتنا پتھر دل تھا وہ جسے ذرا بھی پرواہ نہیں تھی۔۔
جبکہ عبدل نے گیٹ سے باہر آکر گیٹ کو ایک زوردار لات رسید کی۔۔
”ڈیم اٹ۔۔“ اسے ہیزل سے اس بےوقوفی کی امید نہیں تھی۔ اب جبکہ اس کی ہالی موڈ کی مووی آرہی تھی اس کا یوں پریس کانفرنس کرکے خیر آباد کہہ دینا کتنے سنگین نتائج نکال سکتا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔
” بےوقوف لڑکی۔۔“ وہ پھر رکا نہیں اپنے بائیک پر بیٹھا اور ایک کک مارتا وہاں سے فراٹے بھرتا غائب ہوگیا۔۔ گیٹ پر موجود گارڈ نے اس کی اس حرکت پر اسے کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔ شاید ہیزل نے سب کو سکھا رکھا تھا کہ عبدل کو کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔۔وہ جو چاہے کر سکتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ماثیل نے ایمان کو کتنی مشکل سے منایا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔ اس نے وعدہ کیا تھا آج کے بعد وہ کبھی مذہب پر بحث نہیں کریں گے۔۔
لیکن کیا یہ ممکن تھا۔۔ کیا دو لوگ جو مستقبل میں ایک دوسرے کے پارٹنر بننے جا رہے تھے وہ یوں رہ سکتے تھے؟؟
”تمہیں پتہ ہے مجھے تمہارا مذہبی ہونا پسند ہے۔۔“
”ایک مذہبی لڑکی سے شادی کرنے سے کیا فائدہ ہوگا آپ کو؟؟“ ایمان نے سوال کیا۔
”وہ اچھی وائف بنے گی۔۔۔ بچوں کی اچھی پرورش کر سکے گی۔۔ لڑکے اور لڑکوں کو اخلاقیات سکھائے گی اور پھر وہ جب بڑے ہوجائیں گے تو انہیں Suffer نہیں کرنا پڑے گا۔ میری طرح۔۔“ وہ مسکرایا۔
”آپ کے کہنے کے مطابق مذہبی لوگوں کو Suffer نہیں کرنا پڑتا۔۔؟؟“
”بالکل۔۔۔ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں پھر اس کے فیصلوں کو کھلے دل سے مان لیتے ہیں۔۔کوئی سوال نہیں کرتے۔۔ پرسکون رہتے ہیں بالکل تمہاری طرح۔۔“ وہ فون کان سے لگائے بول رہا تھا۔ جبکہ ایمان حیرانی سے سن رہی تھی۔
”جانتے ہی کتنا ہیں آپ مجھے؟؟“ اسے تعجب ہورہا تھا۔
”اتنا تو جانتا ہوں کہ تمہاری خدا سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ اس لیے تم پرسکون رہتی ہو تمہاری زندگی ایک ٹریک پر چل رہی ہے۔۔“ اور ایمان کا دل کیا کہ زوردار قہقہہ لگائے۔۔۔ اور اسے بتائے کہ اس کی زندگی کتنی ڈی ٹریک ہوچکی تھی۔
”مسٹر ماثیل اگر کوئی انسان اپنی تکلیفوں کا رونا نہیں روتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔۔ اس نے کبھی کچھ نہیں جھیلا۔۔ اسے کبھی Suffer نہیں کرنا پڑا۔۔“ اس کا لہجہ خودبخود طنزیہ ہوگیا۔
”تم مطلب تم مان رہی ہو تم خوش نہیں ہو۔۔؟؟“ وہ جانے کیا اگلوانا چاہتا تھا۔
”الحمداللہ میں بہت خوش ہوں۔۔“ وہ فوراً بولی۔
”سی۔۔ ڈیٹس دی پرابلم۔۔۔یہی مسئلہ ہے۔۔ تم مذہبی لوگ کتنے فیک ہوتے ہو خاص طور پر تم ایمان۔۔ تم مان کیوں نہیں لیتی کہ خدا نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔ تم کیوں ہر وقت الحمداللہ بول کر فیک بنی رہتی ہو۔۔عجیب ہے یار۔۔“ وہ چڑ گیا۔۔ اور ایمان نے اپنے لب آپس میں پیوست زور سے کرلیے۔
”خدا کے بنائے ہوئے انسانوں نے برا کیا ہے ادھم۔۔۔خدا نے کچھ نہیں کیا۔“ وہ ہار مان لینے والوں میں سے نہیں تھی۔
”انسان مجبور ہیں۔۔ خدا کے ہاتھوں مجبور ہیں ہم سب۔۔“ وہ جس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے پھر اسی پر بحث کر رہے تھے۔
”آخر کب تک ہم اپنے گناہوں اپنے ظلم و جبر کا بوجھ خدا پر ڈالتے رہیں گے؟؟ ہم انسان آگے بڑھ کر اپنی زمہ داری کیوں نہیں لیتے آخر؟؟ کل کو میں آپ کو دھوکا دے جاؤں تو کیا آپ اس کا الزام اللہ پر ڈال دیں گے۔۔“
”آفکورس۔۔ تم وہی کرو گی جو وہ چاہے گا۔۔ تم اس کی غلام ہو۔۔ تم اس کے حکم سے پھر نہیں سکتی۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔ ایمان کے جبڑے بھنچ گئے غصے سے افسوس سے۔
”اور اگر آپ میرے ساتھ برا کریں تو کیا اس کا الزام میں اپنے اللہ پر ڈال دوں؟؟ آپ تو اس کے غلام نہیں ہیں نا۔۔“
”میں کبھی تمہیں ہرٹ نہیں کروں گا۔۔“
”یہ تو وقت بتائے گا مسٹر ادھم۔۔ اگر آپ برا کر بھی لیں تو اس کا الزام میں آپ کو نہیں بلکہ خود کو دوں گی۔۔ کیونکہ میں نے چنا آپ کو۔۔۔انسان دوسرے انسانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔۔۔ انسان اپنی حدوں سے باہر نکلتے ہیں۔۔ انسان حکم ٹالتے ہیں۔۔انسان نافرمانی کرتے ہیں انسان اپنے مقام سے گرتے ہیں اور پھر سارے الزام خدا پر ڈال دیتے ہیں۔۔“
”مجھ جیسے لوگ بےضرر ہوتے ہیں ایمان۔۔ ہماری لڑائی انسانوں سے نہیں انسانوں کو بنانے والے سے ہوتی ہے۔۔۔ہم انسانوں کو کچھ نہیں کہتے۔۔“
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔۔۔اور اگر ایسا ہوتا تو آپ کبھی مجھے جج نہ کرتے۔۔ میں فیک ہوں یا ریئل۔۔ یہ آپ جج نہ کرتے۔۔ یو نو واٹ۔۔ آپ نے ایک بار پوچھا تھا کہ میں ایمان بنت عبداللہ ہوں تو میں نے کہا تھا نہیں۔۔میں ام ایمان ہوں۔۔ کیونکہ میں جانتی تھی ایمان بنت عبداللہ جو ایک کالم نگار ہے آپ اس کے کالموں سے اس کی زندگی کو کمپیئر کریں گے اور پھر آپ جج کریں گے کہ میں اپنی لکھے گئی تحریروں سے کتنی مختلف ہوں۔۔۔کتنی فیک ہوں۔۔اور آپ نے وہی کیا۔۔“ وہ ہولے سے ہنس دی۔۔طنزیہ ہنسی۔۔
ماثیل کو اب افسوس ہورہا تھا کہ وہ کیوں ایمان تک اپنا صحیح رخ نہیں پہنچا پاتا تھا۔۔ آخر کیوں وہ ہمیشہ برا بن جاتا تھا۔۔۔؟؟ کیوں؟؟
✿••✿••✿••✿
دائمہ چائے لے کر اسٹڈی روم میں آئی تو سید جبیل اسے دیکھ کر کھل اٹھے۔
”ماشاء اللہ۔۔ آج چاند کدھر سے نکل آیا ہے۔۔“ وہ ان کی بات سن کر مسکرادی۔
”آج میں آفس نہیں گئی تو میں نے سوچا کیوں نہ چائے ہوجائے۔۔“ وہ مسکراتا چہرہ لیے ان کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس کے خوبصورت بال کمر پر بکھرے ہوئے تھے اور دوپٹے کو اس نے سر پر اوڑھ رکھا تھا جو بار بار سلکی بالوں سے پھسل رہا تھا۔ دودھیا رنگت والی دائمہ دیکھنے سے میلی ہوتی تھی۔۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔۔۔بالکل اپنی ماں جیسی۔
”بہت اچھا کیا۔۔ کبھی کبھی اپنے لیے بھی وقت نکال لینا چاہیے۔۔ اور بتاؤ آفس کیسا جا رہا ہے۔۔“ سید جبیل نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔
”بہت اچھا۔۔ الحمداللہ۔۔ بہت جلد بابا اور نانا ابو مجھے ایم ڈی بنانے والے ہیں۔۔“ اس کی آنکھوں کے ستارے چمک اٹھے۔پچیس سال کی عمر میں وہ اپنی عمر کی باقی لڑکیوں سے بہت آگے تھی۔ بہت مضبوط اور بہت پریکٹیکل۔ اگر کوئی بنا ڈرے سید جبیل سے ہر قسم کی گفتگو کر سکتا تھا تو وہ دائمہ جبیل تھی۔۔ ضیاء جبیل کی پوتی، حشام جبیل کی بیٹی۔۔
”ماشاءاللہ۔۔ جیتی رہو خوش رہو۔۔“ سید جبیل نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔۔وہ غور سے دائمہ کو دیکھ رہے تھے جو بظاہر تو چائے پی رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں پریشانی کے ڈورے تھے۔ کچھ کچھ تو وہ اس کے یہاں آنے کی وجہ سمجھ چکے تھے۔
”کوئی پریشانی ہے۔۔؟؟“ سید جبیل نے پوچھ ہی لیا۔
“عبدل یہاں حاد بن کر کیوں آئے ہیں؟؟ اور کس مقصد سے۔۔“ وہ الجھی ہوئی تھی۔۔پریشان تھی بہت۔۔۔ وہ شخص اس کا منگیتر ہی نہیں اس کی اولین محبت تھا۔ اس کی بات سن کر سید جبیل نے گہرہ سانس لیا۔
”آپ جانتے ہیں نا چھوٹے بابا یہاں کے حالات کتنے خراب ہیں۔۔ پھر وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔۔؟؟“ وہ رو دینے کو تھی۔۔ اس شخص کے پاس ساری دنیا کی بھلائی کے لیے وقت تھا بس اپنی فیانسی کی خوشی کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔۔ وہ اس کا فون تک نہیں اٹھاتا تھا۔۔ اس کے میسجز کا مہینے بعد ریپلائے دیتا تھا۔۔
”بیٹا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔۔ نہ اس نے مجھ سے آنے سے پہلے پوچھا۔۔اور نہ کچھ بتایا ہے۔۔ وہ جو ٹھان لے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔۔تم تو جانتی ہو نا۔۔“
”پھر اگر کچھ برا ہوگیا تو؟؟“ اس کا دل ڈرا ہوا تھا۔
”اسے کچھ نہیں ہوگا۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔“ سید جبیل نے اس کا گال تھپتھپایا۔ “اور تم تو دائمہ جبیل ہو نا۔۔ اس شخص کی ہونے والی بیوی۔۔ پھر کیسے ڈر سکتی ہو۔۔؟؟ اس کی طرح مضبوط بنو۔۔ سمجھ آئی۔۔“ ہونے والی بیوی کے لفظ پر وہ جھینپ گئی۔۔ کتنے گلال اس کے چہرے پر کھل اٹھے تھے۔
یوں جیسے ساری اذیتیں دھل گئی ہوں۔۔ تکلیفیں ختم ہوگئی ہوں۔۔
”اور ادھم بھیا کا کچھ پتہ چلا؟؟“ اس نے فوراً بات بدل دی۔
”ابھی کچھ دن پہلے ہی دیکھا تھا ٹی وی۔۔“ سید جبیل نے گویا دھماکہ کیا۔
”کب کہاں۔۔۔؟؟“ دائمہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
”کچھ دن پہلے۔۔ ایوارڈ ملا تھا اسے کوئی۔۔“ سید جبیل کی نظروں میں ادھم کا شاندار سراپا ابھرا۔
”جو بننا چاہتا تھا وہ بن گیا ہے۔۔“ سید جبیل کے چہرے پر اب سختی ابھری۔ وہی سختی جو آرجے کے لیے ابھرا کرتی تھی۔
”آپ لوگ اسے معاف نہیں کر سکتے۔۔۔؟؟“ دائمہ دکھی ہوگئی تھی۔
”ہمیں اس سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔۔ اس گھر کے دروازے اس کے لیے کھلے ہیں۔۔پر۔۔۔“ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔ دائمہ جانتی تھی پر کے آگے کیا بولتے بولتے رک گئے تھے وہ۔۔۔ آج بھی سید حویلی میں کسی ملحد کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ دائمہ افسوس سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”فکر مت کرو۔۔ سدھر جائے گا وہ۔۔ سدھرنا تو پڑے گا۔۔ جب آرجے کی زندگی میں کوئی ام حانم آجائے تو وہ زیادہ دیر آرجے بن کر نہیں رہ سکتا۔۔ اسے روحان جبیل بننا ہی پڑتا ہے۔۔“ سید جبیل کے لہجے میں آج بھی ویسی ہی کڑک تھی جیسی سالوں پہلی۔۔ دائمہ چونک گئی۔
”کک کیا مطلب۔۔۔؟؟“ وہ الجھ گئی۔
”دامی بیٹا تم جاؤ اور اطیمنان رکھو۔۔۔ عبدل اسے لے آئے گا۔۔“ سید جبیل نے نرم لہجے میں کہا تو دائمہ ناسمجھی کے عالم میں اسٹڈی روم سے باہر نکل گئی۔۔۔
✿••✿••✿••
ایبل کی کہانی۔۔۔!!
”میری پرورش مذہب کے بغیر ہوئی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ خدا ہے یا نہیں۔ اپنے آپ کے علاوہ، میں ایک اعلیٰ اور بہت بڑی طاقت کے ساتھ باقاعدہ گفتگو کرتا رہتا تھا۔۔ جس کے بارے میں مجھے یقین سے نہیں معلوم تھا کہ اسکا کوئی موجود ہے یا نہیں۔۔“
آج حاد کا لائیو سیشن تھا۔۔ وہ اپنے لندن کے ایک اسٹوڈنٹ کے ساتھ لائیو آیا تھا۔۔تاکہ آج کی جنریشن ایبل کی کہانی جان سکے کہ لندن جیسے شہر میں رہتے ہوئے اس نے خدا کی پہچان کیسے کی۔
لاکھوں کی تعداد میں لوگ انہیں جوائن کرچکے تھے۔
”ایبل۔۔۔لندن میں رہتے ہوئے آپ کو خدا کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔۔؟؟میرا مطلب وہاں تو سب کچھ ہے۔۔۔ پھر خدا کیوں۔۔؟؟“ حاد نے سوال کیا۔
”میری زندگی میں ہر وقت جب جب میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس اختیارات ختم ہو گئے، جب میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا تو میں ہتھیار ڈال دیتا تھا۔۔“
وہ خالص انگلش میں بات کر رہا تھا۔۔۔اپنے بارے میں بتا رہا تھا۔۔ ایبل کی کہانی اس کی زبانی سب سن رہے تھے۔
”اور "ہتھیار ڈالنے" سے میرا مطلب یہ نہیں کہ "میں ہار مان" لیتا تھا بلکہ میں اس تصور کو تسلیم کرتا تھا کہ اب میری بس ہوچکی ہے اور یہاں سے کسی (خدا) کو آگے حالات اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی ضرورت ہے۔۔ میں نہیں جانتا تھا خدا ہے یا نہیں لیکن مجھے ایک الگ احساس ہوتا تھا کہ جب میں چیزوں کو مزید سنبھال نہیں سکتا تھا تو میں انہیں اسی طرح اس ذات کو دے دیتا تھا۔۔ اس کے حوالے کر دیتا تھا جو سب سنبھال سکے۔۔ اور یہ وہم، ءی خیال کہ خدا سب سنبھال لے گا مجھے گہری ترین قسم کا سکون عطا کرتا تھا۔۔“
”تو آپ کے مطابق آپ نے خدا کو پانے کے بعد سکون پایا؟؟“
”بالکل۔۔۔ میں میں بتا نہیں سکتا۔۔ میں سکون کے لیے کہاں کہاں نہیں پھرا۔۔ میں سارا سارا وقت شراب اور شباب میں گرا رہتا تھا۔۔ میں۔۔ میں جسمانی سکون حاصل کرنے کے نت نئے طریقے اپناتا تھا۔۔۔ میں نے بہت غلط کام کیے۔۔۔۔ مم۔۔میں۔۔“ وہ ہاتھ اٹھا کر بات کر رہا تھا۔۔ اور حاد سمیت سب نے اس کے ہاتھوں میں لرزش محسوس کی تھی۔۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔۔۔ چہرے پر ندامت تھی۔
لوگ پوچھ رہے تھے کہ اس کے ماں باپ نے اسے کچھ نہیں کہا کیا؟؟
”میرا باپ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔۔ پر وہ ملحد تھا۔۔ میری ماں کو بھی مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔ انہوں نے ہمیں سب کچھ سکھایا۔۔ بس یہ نہیں بتایا کہ خدا کون ہے؟ وہ ہے یا نہیں۔۔؟؟ میرے کچھ دوست کرسچن تھے۔۔ میں جب اپنی زندگی سے تھک گیا تو میں نے ان کے ساتھ چرچ جانا شروع کردیا۔۔۔ پھر میں نے اس مذہب کی اسٹڈی کی۔۔پر میں مطمئن نہ ہوا۔۔ اور ایک دن وہ ہوا جس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔مجھے کڈنیپ کرلیا گیا۔۔ میری لڑائی ہوگئی تھی۔۔ مجھ سے بدلا لینے کے لیے ان لڑکوں نے مجھے اغوا کرلیا تھا۔۔ انہوں نے مجھے مارا بہت مارا۔۔ انہوں نے ایک بڑے ڈرم میں پانی ڈال کر، مجھے ننگا کرکے اس میں ڈال دیا۔۔ وہ سب ڈرگز کے نشے میں تھے۔۔ وہ میرے سامنے ڈرگز لے رہے تھے۔۔ پھر وہ ایک ننگی بجلی کی تار لے آئے۔۔ وہ تار پانی میں پھینک کر مجھے کرنٹ لگا کر تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ وہ سب لوگ ذہنی طور پر بیمار تھے۔۔ شاید میری طرح۔۔۔جو اپنے آپ کو سکون دینے کے لیے میرے ساتھ یہ سب کرنا چاہتے تھے۔۔ وہ مجھے تڑپتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونا چاہتے تھے۔۔۔میرا دل خوف سے بھر گیا۔۔ اس لیے نہیں کہ میں مرنے والا تھا۔۔بلکہ اس لیے کہ میں یہ جانے بنا مرنے والا تھا کہ خدا ہے یا نہیں۔۔۔؟؟ میں ڈر گیا تھا۔۔ اور اس دن میں نے اس ذات کو پوری شدت سے پکارا جسے میں اکـثر محسوس کرتا تھا۔ میں نے کہا کہ اے خدا اگر تو ہے تو آج مجھے بچا لے۔۔ میں تجھے ڈھونڈ لوں گا۔۔“
وہ سانس لینے کو رکا۔۔اس کے چہرے پر اس منظر ک دہشت نمایاں تھی۔۔۔یوں جیسے وہ سب کسی فلم کی طرح چل رہا ہو۔
”وہ لوگ مجھ سے کچھ فاصلے پر تھے کہ چھت گرگئی۔۔۔ کیسے کیوں مجھے نہیں پتہ۔۔ پر میں بچ گیا تھا۔۔ اور پھر میں اس کی تلاش میں نکل پڑا۔۔ پھر میں نے سارے مذہبوں کا مطالعہ کیا۔۔خدا کہیں بھی ایک نہیں تھا۔۔ جبکہ میرا دل ایک ذات پر اڑا تھا۔۔۔پھر مجھے ایک کتاب ملی۔۔ سیرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔میں نے وہ پڑھی۔۔ پھر میں نے قرآن پاک پڑھا۔۔ اور تب میں نے جانا یہی تو تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔۔۔ اور آج میں ایبل علی ہوں۔۔۔“ وہ آخر میں مسکرایا اور پھر کچھ دیر بعد سیشن سے چلا گیا۔ اب حاد اکیلا تھا۔۔ وہ اپنی سحر انگیز شخصیت لیے بیٹھا تھا۔
”مجھے افسوس بس اس بات کا ہے کہ لندن کے ایک ایبل نے ہمارے اللہ کو پالیا۔۔۔اور ہم۔۔۔ جن کا اللہ تھا ہم نے اسے کیسے گنوادیا۔۔کیسے؟؟“
وہ بول رہا تھا۔۔ پورے دل سے۔۔جذب سے۔۔۔لاجکس سے۔۔۔ اور دور کہیں ویلنسیا میں ایک لڑکی اپنا لیپ ٹاپ کھولے رات کے اس پہر اسے لائیو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں۔۔ وہ جانے کتنے مہینوں بعد اپنے اکاؤنٹ پر ایکٹیو ہوئی تھی اور کتنے دنوں بعد اس نے مسٹر گرے کے نوٹیفیکشن اوپن کیے تھے۔۔۔پر سامنے موجود شخص کو دیکھ کر اس کا سانس اٹک چکا تھا۔۔ سینے کے مقام پر چبھن ہورہی تھی۔۔۔
مسٹر گرے کے ساتھ بریکٹس میں اب حاد لکھا تھا۔۔
وہ الجھنوں کا شکار تھی۔۔ بےیقینی کے زیراثر تھی۔۔۔
وہ جس شخص سے پچھلے چار سالوں سے اپنی ہر الجھن کا جواب مانگ رہی تھی۔۔ ہر سوال کر رہی تھی وہ نکلا بھی تو کون؟؟ جسے اسے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔
انٹرنیٹ نے جہاں فاصلے ختم کیے تھے وہیں تکلیفیں بڑھادی تھیں۔۔۔ اور وہ کس تکلیف میں تھی وہ کسی کو نہیں بتا سکتی تھی۔۔
لاکھوں لوگوں نے اسے جوائن کر رکھا تھا اور وہ لاکھوں میں اسے بھلا کہاں نظر آتی۔۔؟؟
دل پر ڈھیروں بوجھ آگرا۔۔۔ بہت سارے شکوے ابھرے جنہیں وہ زبان تک نہ لائی۔۔۔ورنہ ماثیل جیت جاتا کہ وہ خوش نہیں تھی۔۔ وہ تو خوش تھی۔۔ اللہ نے اسے خوش رکھا تھا۔۔بےچینیاں تو انسان اپنے لیے خود خریدتا ہے۔
بینش کا کزن عبدل، مسٹر گرے یا پھر حاد؟؟ آخر کون تھا وہ شخص؟؟
وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔۔۔ اور اب خود کو کوس رہی تھی کہ کتنا عرصہ ہوگیا تھا وہ ان سب سے دور تھی۔۔۔اسے ماثیل نے اور پھر گھر کے حالات نے بری طرح الجھا کر رکھ دیا تھا۔۔ وہ پچھلے چھ مہینے سے کوئی کالم نہیں لکھ پائی تھی۔۔ وہ کسی روبوٹ کی زندگی جی رہی تھی۔۔ اور آج جب وہ اسے نظر آیا بھی تھا تو کیسے۔۔؟؟
اس کے روبوٹک وجود میں جنبش ہوئی۔۔۔اس کا دل بری طرح مچل اٹھا تھا اور اس کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ سفید سے سفید تر ہوتا جا رہا تھا۔۔ اور وہ کیا بن گئی تھی۔۔۔ مکمل سیاہی میں ڈوب چکی تھی۔۔
اس نے بےدلی سے لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔۔ وہ اس شخص کو گھنٹوں سن سکتی تھی۔۔۔ اس نے اسے پہلی بار بولتے دیکھا اور سنا تھا۔۔۔ وہ جابجا تھا۔۔ انٹرنیٹ اس کے سیشنز اور ویڈیوز سے بھرا پڑا تھا۔۔ پر اس کے راستے میں ماثیل کھڑا تھا۔۔ ایک بت ساز۔۔۔
وہ کافی عرصے بعد سسکیوں سے روئی تھی۔
”یہ کیا کردیا میں نے؟؟ کیوں کیا اپنے ساتھ۔۔؟؟“ وہ رو رہی تھی اور خود کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن وہ آفس گئی تو اس کی آنکھیں بری طرح سوجھن کا شکار تھیں۔۔ نئے آفس میں اپنی جگہ بنانا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس دور سے گزرتا ہے۔۔ وہ صبح سے شام تک کام کرتی رہتی۔۔درمیان میں بریک ہوتی تو وہ بھی ایسے ہی گزر جاتی۔۔ ایک شخص تھا جو اسے نوٹ کرتا تھا۔ پچاس سالا یہ شخص سی ای او کا پرسنل ملازم تھا جو وہ اپنے ساتھ پاکستان سے لائے تھے۔۔۔وہ سالوں سے یہاں کام کر رہا تھا۔۔ یہ وہی شخص تھا جس نے پہلے دن ایمان سے اس کے رائٹر ہونے کا پوچھا تھا۔ بریک ٹائم ہوا وہ راؤنڈ لگاتا اس کے پاس آیا۔
”السلام علیکم۔۔“ اس نے کھوئی کھوئی ایمان کو سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔۔ حجاز بھائی کیسے ہیں آپ۔۔؟؟“ ایمان نے زیادہ تر لوگوں کو انہیں اسی نام سے پکارتے سنا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ بچے یہ بتاؤ آج کل کیا لکھ رہی ہو؟؟“ سوال ایسا تھا کہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔۔ وہ تو کچھ نہیں لکھ رہی تھی۔
”آج کل کچھ نہیں لکھ رہی ہوں۔۔ وقت ہی نہیں ملتا۔۔“ وہ پھیکا سا مسکرائی۔۔ سوجھی آنکھوں سمیت وہ مسکراتی کتنے اچھے سے دھوکا دے رہی تھی۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ جب وقت ملے تب لکھو۔۔ہاں سوچا کم کرو۔۔۔تمہاری عمر نہیں ہے اتنا سوچنے والی۔۔خوش رہا کرو۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔“ وہ اسے نصیحت کرتے جاچکے تھے۔۔ بریک ٹائم تھا۔۔ ایمان ان کے جانے کے بعد وہ ایپ اوپن کی جہاں اس کے سارے لکھے گئے کالم پڑے تھے۔۔ اور پھر اس کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر پھسلنے لگیں۔۔۔وہ بنا سوچے سمجھے لکھ رہی تھی۔۔۔دنیا سے بےگانہ۔۔ یوں جیسے پوری دنیا میں کوئی نہ ہو۔۔ صرف وہ اکیلی ہو۔۔۔اور بادلوں کے اس پار آسمانوں کے اوپر موجو ایک ہستی اسے دیکھ رہی ہو۔۔!
جب میں ہشتم کلاس میں تھی میری ایک سکول ٹیچر، جو مجھے بہت پسند کرتی تھیں شاید کم بولنے اور اچھے پڑھنے کی وجہ سے یا شاید میری تابعداری کی وجہ سے، انہوں نے میری ڈرائنگ کی کاپی پر اپنا آٹوگراف دیا تھا پہلا اور آخری آٹوگراف جو انہوں نے خود دیا تھا اس کے بعد نہ کبھی کسی سے لیا اور نہ کبھی کسی نے دیا نہ میں نے مانگا۔۔
انہوں نے لکھا،
”ماضی راکھ کا سمندر ہے جو مکمل تو نہیں لیکن کچھ حد تک بُجھ چکا ہے، جبکہ مستقبل ایک خوشنما خواب کی مانند ہے، ایک ایسا خواب جو اچانک سے بدرنگ ہوکر ایک برے عکس میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ حال! ہاں یہی حال یہ ایک ریت کے دریا کی مانند ہے جو تیزی سے پھسل رہا ہے، اس پر اپنے قدم مضبوط رکھو نہ رکھ پائی تو پھسل جاؤ گی۔۔ اگر توازن بگڑا یا پیچھے کی جانب گری تو وہ آدھی بجھ چکی راکھ کسی خوفناک آگ اگلتے اژدھے کا روپ دھار کر تمہیں نگل جائے گی۔۔ جلن اتنی ہوگی کہ جینا محال ہوجائے گا دم گھٹنے لگے گا اور خود بھی جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔۔!! اور اگر پھسل کر آگے پہنچ گئی تو وہ خوشنما سیراب نما خواب تپتے تمہیں صحرا میں چھوڑ آئیں گے اور وہاں بھٹکتے برے سائے تمہیں کبھی چین سے سونے نہیں دیں گے۔۔!!
میں پھر کہتی ہوں اپنے قدم مضبوط رکھو،
خود کو پھسلنے مت دو اپنے قدم مضبوط رکھو۔۔!!
یہ الفاظ اتنے گہرے تھے کہ میرا ننھا دماغ اس وقت ان کے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں پایا۔۔ بس آخری سطر یاد رہ گئی کہ اپنے قدم مضبوط رکھو انہیں مضبوطی سے گھاڑے رکھو۔ آج تقریباً آٹھ سال بعد ان کے لفظوں کی سمجھ آئی ہے اور اب میں انہیں ملنا چاہتی ہوں اور بتانا چاہتی ہو کہ ”میں اپنے قدم مضبوط نہیں رکھ پائی میم۔۔ نہیں رکھ پائی۔۔ میں پھسل گئی ہوں۔۔!!“
کبھی ماضی کی بجھ چکی راکھ کی چنگاریاں میرا وجود جلانے لگتی ہیں تو کبھی مستقبل کے برے سائے، وہ برے خواب مجھے سونے نہیں دیتےو مجھے لگتا ہے میں لمحہ بہ لمحہ ختم ہورہی ہوں، میرا جسم بھربھرا ہو کر ریت کی مانند بہہ رہا ہے۔
سب ختم ہوتا جا رہا ہے دھیرے دھیرے میرے اندر باہر سے سب ختم ہورہا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان اندھیری گلیوں میں دور کہیں بہت دور ایک مدھم سی ٹمٹماتی روشنی نظر آتی ہے کسی جگنو کی مانند۔۔!!
کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانے کی غرض سے اور میں بےساختہ اسکے پیچھے بھاگنا شروع کردیتی ہوں، اس اندھیر نگری سے خوف آنے لگا ہے اب مجھے لیکن جتنا میں اس روشنی کے پیچھے بھاگتی ہوں اتنا ہی وہ مجھ سے دور ہوتی جارہی ہے، کبھی کبھی تو نظر آنا بند ہوجاتی ہے جب تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہوں تو وہ پھر سے اپنی جھلک دکھلاتی ہے میں پھر سے اٹھتی ہوں پھر سے بھاگتی ہوں لیکن اس تک نہیں پہنچ پارہی ہوں۔
ایسا لگتا ہے جیسے وہ کوئی کھیل کھیل رہی ہے میرے ساتھ، خود ہی غائب ہوجاتی ہے اور جب میں بری طرح ہارنے لگتی ہوں تو پھر اپنی جھلک دکھلا کر مجھے مکمل طور پر ہارنے سے باز رکھتی ہے۔
کبھی کبھی لگتا ہے یہ اندھیری گلیاں جن میں میں بھٹک رہی ہوں یہ باہر نہیں ہیں یہ تو میرے اندر کا اندھیرا ہے جو مجھے بھٹکائے ہوئے ہے۔ ہاں میرے اندر کا اندھیرا کبھی نہ ختم ہونے والا اندھیرا۔۔!!
کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی ٹمٹماتا چراغ مل جائے جیسے اندھے کو روشنی مل جائے،
گونگے کو زبان اور بہرے کو سماعت
جیسے کسی معذور کو مضبوط سہارا
کسی بھٹکے ہوئے کو راہنما۔۔!!
شاید بھٹکنا مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں جاننا چاہتی ہوں اس اندھیر نگری میں وہ کون سی ذات ہے جو مجھے مکمل طور پر بھٹکنے بھی نہیں دیتی؟ کون ہے وہ جو ایک مدھم سی روشنی کی جھلک دکھلا کر مجھے پھر سے سیدھے راستے پر چلنے پر مجبور کردیتی ہے؟
کون سی ذات ہے وہ جو مجھے گرنے کے بعد اٹھنے پر مجبور کردیتی ہے؟
آخر کیوں؟ کیا رشتہ ہے میرا اس سے؟ جو اندھیری نگری میں مجھے اکیلا نہیں چھوڑتا کون ہے وہ؟
وقت کم ہے اور سوال زیادہ ہیں، اور جواب جیسے ناممکن۔۔!!
کیا کوئی ہے جو اس اندھیری نگری میں میری راہنمائی کو آئے جو مجھے مجھ سے ملائے؟ کوئی ہے؟ شاید کوئی نہیں ہے۔۔!!
اور تم کہتے ہو میں Fake ہوں، میں وہ نہیں جو دکھتی ہوں جو کہتی ہوں۔ ہاں تم سچ کہتے ہو میں فیک ہوں کیونکہ میں جو ہوں وہ تم کبھی دیکھ نہیں پاؤ گے۔ میں کیا ہوں تم کبھی محسوس نہیں کر پاؤ گے۔ میں ایمان بنت عبداللہ وہ نہیں رہی جو میں تھی۔ جو میں تھی تم اس تک نہیں پہنچ پاؤ گے اور جو میں ہوں تم اسے محسوس نہیں کر پاؤ گے۔ میں تمہاری دسترس سے بہت باہر ہوں۔ کیونکہ میں اپنی دسترس میں بھی نہیں رہی۔ میں بھٹک گئی ہوں ہاں میں بھٹک گئی۔ مبارک ہو تمہیں تم جیت گئے میں ہار گئی میں بھٹک گئی ہوں تم جیسی ہوگئی ہوں ایسا ہی چاہتے تھے نا تم اور اب دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہوں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿