وہ اس وقت اپنے کریئر کے عروج پر تھی اور کیسے اپنی مرضی سے اپنے زوال کا فیصلہ کر رہی تھی۔۔شالی پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہیزل کو دیکھ رہی تھی جو کہیں سے بھی نشے میں نہیں تھی۔
”میں نے آج سے ابھی سے یہ انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔ میں شوبز کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ رہی ہوں۔۔“ وہ سنجیدہ تھی۔۔ شالی کو اپنے دل پر گھونسا پڑتا محسوس ہوا۔۔۔ اس کے سامنے بیٹھی حسین ترین لڑکی کیسے اپنی قسمت کو ٹھکرارہی تھی۔۔ شالی نے پہلی بار اسے اتنے عام لباس میں دیکھا تھا۔۔ ایک کھلا سا ٹراؤزر شرٹ پہنے بکھرے بالوں اور بکھرے وجود کے ساتھ وہ جانے کیسے کیسے فیصلے کیے بیٹھی تھی۔۔
”آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔۔؟؟“ شالی بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔
”دل بھر گیا ہے شابز سے۔۔“ سپاٹ چہرے پر کوئی تاثرات نہ تھے۔۔ آنکھوں میں سرد پن اور ویرانی تھی۔۔ اسے کائنات یاد آئی۔۔۔ جو اپنے ہاتھ پاؤں تک چھپا کر رکھتی تھی۔۔ وہ کتنی خوبصورت تھی۔۔۔اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ پر اسے کوئی ایمان خراب کرنے والی چیز نہیں سمجھتا ہوگا۔۔۔ جبکہ ہیزل جسے پوری دنیا جانتی تھی۔۔ وہ کیا تھی؟؟
عبدل کے لفظوں کی بازگشت اسے آج بھی ویسے ہی سنائی دیتی تھی۔۔۔ اس نے اذیت سے آنکھیں میچیں۔
”میم ایک بار اور سوچ لیں۔۔“ شالی نے جھجھکتے کہا۔۔”میرے خیال سے ہمیں اتنی جلدی پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے۔۔ میں سب سے کہہ دیتی ہوں آپ چھٹیوں پر گئی ہیں۔۔۔ کچھ وقت سوچیں گے کیا کرنا ہے۔۔“ وہ اس کی خیر و خواہ تھی اسی لیے پریشان تھی۔
”جو کام کل کرنا ہے وہ آج کیوں نہیں شالی؟؟ میں فیصلہ کر چکی ہوں۔۔ تم اب اسے جیسے مرضی ہینڈل کرو۔۔“ اس نے آنکھیں کھول کر شالی کی آنکھوں میں جھانکتے جواب دیا۔۔ سبز آنکھوں میں واضح پیغام تھا۔۔۔۔ شالی خاموش ہوگئی۔
”جتنی جلدی ہو سکے اس کانفرنس کا اعلان کرو۔۔“ اس نے نگاہیں موڑ لیں۔۔ وہ اب دیوار پر لگی پینٹنگ کو دیکھ رہی تھی۔ جبکہ شالی مایوسی سے سر جھکا کر چلی گئی۔
اسے افسوس تھا۔۔ گہرا افسوس تھا۔۔ یہ سب اس دن سے شروع ہوا تھا جب ہیزل عبدل سے ملنے اس کے اپارٹمنٹ گئی تھی۔۔۔ شالی کو عبدل اب مزید زہر لگنے لگا تھا۔ اسی کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا۔
”اس کی اصلیت تو اب میں میڈم کے سامنے لاؤں گی۔۔“ وہ نفرت سے سوچتی گھر سے باہر نکل آئی پھر اس نے فون نکالا اور دوسری جانب وہ کسی سے ملنے کا کہہ رہی تھی۔۔جبکہ ہیزل پیچھے اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
جیسے ہی حاد نے آنلائن سیشن ختم کیا ویسے ہی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ وہ لاؤنج میں بیٹھا تھا۔۔ اکیلے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور جا کر دروازہ کھولا۔۔ سامنے ہی ایک نوجوان لـڑکا کھڑا تھا۔
”السلام علیکم! میں سعد ہوں۔۔ آپ نے مجھے یہاں آنے کا کہا تھا۔۔“ وہ تھوڑا ہچکچکا رہا تھا۔ حاد اس کی بات سن کر ہولے سے مسکرایا اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ سعد اندر داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند کردیا۔ سعد تھوڑا گھبرایا ہوا تھا وہ حاد کے پیچھے چلتا لاؤنج تک آیا۔ حاد نے اسے بیٹھنے کا کہا اور خود اس کے پانی لے آیا۔
”ارے آپ کیوں تکلف کر رہے ہیں۔۔” اتنے ذہین، اتنے بڑی شخصیت کو اپنے لیے پانی لاتا دیکھ کر وہ سٹپٹا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”کسی عام انسان کی تعظیم میں کھڑے نہیں ہوتے۔۔بلکہ کسی بھی انسان کے لیے نہیں۔۔ بیٹھے رہو۔۔“ کتنا رعب تھا اس میں۔۔۔وہ فوراً بیٹھ گیا۔۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔ سعد چوبیس سال کا تھا اور ایم فل کر رہا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اپنے باپ کے بتائے گئے دین کے خلاف تھا اور اب جب کوئی سچ کو اس کے سامنے لایا تھا وہ بھلا کیوں نہ اس کا ساتھ دیتا؟؟
حاد اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔۔ وہ گرے پینٹ پر سیاہ ڈریس شرٹ پہنے ہوا تھا جس کے کف اس نے فولڈ کر رکھے تھے۔۔ اس کے بال سلیقے سے جمے تھے اور پیچھے کان کی لو کو چھو رہے تھے۔ اس کے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی۔۔ جو اس کے چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھی۔۔ اس کی بالوں اور داڑھی یہاں تک کے پلکوں کا رنگ بھی ہلکا سا بھورا تھا۔ سفید چمکتی ہوئی جلد اور اس پر گرے چمکتی ذہین آنکھیں۔۔ وہ تھوڑا سا جھک کر بیٹھا تھا۔۔۔جیسے سعد کی جانب متوجہ ہو۔۔ اس نے دو گھونٹ پانی پیا اور گلاس واپس رکھ دیا۔۔۔ سعد کی نظریں اس کے سراپے سے ہوتی اب اس کے ہاتھوں پر جم گئی تھیں۔۔ خوبصورت ہاتھ۔۔ صاف ستھرے، تراشی ہوئی انگلیاں جو نہ زیادہ لمبی تھیں نہ زیادی موٹیں۔۔ اور ہاتھوں کی رنگت سرخی مائل تھی۔۔ چمکتے ناخن۔۔ پھر اس کی نظریں پاؤں پر آجمی۔۔۔ ایسے ہی صاف و شفاف پاؤں۔۔۔
کوئی اتنا صاف ستھرا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے دیکھ کر صرف پاکیزگی کا خیال آئے۔۔۔؟؟
وہ بےدھیانی میں سوچ رہا تھا۔ حاد اس کے ایسے دیکھنے پر حیران نہیں ہوا۔۔ کوئی اسے جب قریب سے دیکھتا تھا ایسے ہی نظریں ہٹا نہیں پاتا تھا۔
”پاکستانی ہی ہوں یقین رکھو۔۔“ حاد نے کہا تو سعد کھسیا گیا۔
”ماشاءاللہ آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے۔۔ آپ اتنے مکمل انسان ہیں شبہ سا ہورہا تھا۔۔“ سعد چھپا نہیں پایا تھا۔
”میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ سب وراثت میں ملا ہے اور بنانے والا اللہ ہے۔۔“ وہ نرم لہجے میں بولا۔ تبھی سعد کی نظر حاد کے پیچھے دیوار پر گئی۔۔ پوری دیوار تصویروں سے بھری ہوئی تھی۔۔
”یہ آرجے۔۔۔؟؟“ سعد نے حیرانی سے دیوار کی جانب اشارہ کیا۔
”انہی کا گھر ہے میں بس یہاں رہ رہا ہوں۔۔“ وہ گھور سے سعد کو دیکھ رہا تھا جیسے جانچ رہا ہو کہ وہ کب تک اپنے فیصلے پر قائم رہ سکتا تھا۔
”میں آپ کی ٹیم میں آنا چاہتا ہوں۔۔“ سعد اب اس کی جانب متوجہ تھا۔
”میری کونسی ٹیم ہے؟؟“ وہ جیسے انٹرویو لے رہا تھا۔ جانچتی نگاہیں اسے اندر تک ٹٹول رہی تھیں کبھی کبھی لگتا تھا وہ آنکھیں نہیں ایکسرے مشین فٹ کرواکر آیا تھا۔۔ اس کا چشمہ سامنے ہی میز پر رکھا تھا۔
”جہاں میں اسلام کا صحیح رخ جان سکوں۔۔ اور جو ہمیں ہمارا عہد یاد دلانے میں مدد کر سکے۔۔“ وہ سچ کہہ رہا تھا۔۔ حاد نے گہرا سانس لیا اور چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگا لیا۔۔ ایسے کرنے سے اس کی آنکھوں کا وہ رنگ چھپ گیا تھا جو اسے سرد بناتا تھا۔۔۔اس کے اندر کی سرد مہری جسے وہ باہر نہیں آنے دیتا تھا۔
20787827
”یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔۔“ وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
”اسی لیے تو آیا ہوں۔۔ حق کے راستے مشکل ہی ہوتے ہیں۔۔آج سے میں ہر جگہ آپ کے ساتھ جاؤں گا۔۔“ وہ کشتیاں جلا آیا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ چلنے والا پہلا قدم۔۔ اس کی آنکھیں مسکرائیں پر چہرہ سپاٹ رہا۔
”میں امید کرتا ہوں تم اس پر قائم رہو گے۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا قد دراز تھا۔۔
”حاد بھائی۔۔“ سعد نے اسے پکارہ۔۔۔ اس کے پاؤں رک گئے۔۔ ساکت ہوگئے۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ احساسات عجیب تھے پر اس نے ظاہر نہ ہونے دیے۔
”میں ہمیشہ ساتھ نبھاؤں گا۔۔ یہ سعد کا وعدہ ہے۔۔“
اور اس کے چہرے کے تاثرات نرم پڑ گئے۔۔ وہ اسے چھوڑ کر کچن میں چلا گیا تھا تاکہ کچھ کھانے کے لیے لا سکے۔ جبکہ سعد کی نظریں دیوار پر لگی ان تصویروں پر جمی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
”ہاں بھئی برخوردار کس ارادے سے آئے ہو وہ بھی بنا بتائے؟؟“ سید جبیل کا فون تھا۔۔ ایئر بڈ کان میں لگائے وہ اپنے بیڈ پر بیٹھا سامنے بہت سارے کاغذات پھیلائے جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا جب اسے سید جبیل کا فون آیا۔۔ سید حیدر جبیل ملک کا ایک بڑا سیاسی اور سماجی نام!
”وہی جس کے لیے پیدا ہوا ہوں۔۔“ اس نے سادہ لہجے میں جواب دیا۔
”ہیش ٹیگ کے ساتھ تمہارا نام ہر جگہ گھوم رہا ہے۔۔ ارادے مجھے خطرناک لگتے ہیں۔۔“ دوسری جانب خدشہ ظاہر کیا گیا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
”ارے نہیں۔۔ ارادہ تو نیک ہے۔۔ پر مجھے حیرت ہورہی ہے آپ کب سے سوشل میڈیا پر اتنے ایکٹیو ہوگئے ہیں۔۔؟؟“ وہ جلدی ہاتھ آنے والا نہیں تھا۔
”ارادہ اور مقصد چاہے نیک ہی کیوں نہ ہو۔۔۔پاکستان جیسے ملک میں کسی ٹھیک انسان کا زیادہ دیر ٹکنا ذرا مشکل ہے۔۔“ وہ اپنے تجربے کی بنا پر اسے سمجھانے لگے۔
”میں کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہوں بابا جان۔۔ جسے ہٹایا جا سکے۔۔ میں پاکستان کی عوام کو جانتا ہوں پر شاید یہ لوگ مجھے نہیں جانتے۔۔یہ لوگ حاد جبیل کو نہیں جانتے۔۔“
”پھر بھی میں تمہیں چوکنا رہنے کا مشورہ دوں گا۔۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ علما اکرام اور سکالرز سے دور رہنے کی کوشش کرنا۔۔ ان سے پنگا لینے کا نتیجہ برا نکل سکتا ہے۔۔“
”مجھے تو پیغام پہنچانا ہے۔۔ صحیح پیغام۔۔ باقی مجھے کسی سے کوئی مسئلہ نہیں۔۔“ بلا کا پرسکون لہجہ۔
”یہ مت بھولو کہ تم پاکستان کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کی نیشنلٹی رکھتے ہو۔۔ اسے تمہارے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔۔ تمہیں کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔۔ایک جاسوس، ایک دشمن یا پھر کچھ بھی۔۔“ سید جبیل کے دل میں ڈر بھی تھا۔۔ پر ناجانے کیوں ان کی نوجوان نسل ہمیشہ اس ڈر سے بری رہی تھی۔
”مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔ یہی نیشنلٹی میرے کام آئے گی۔۔“
اس کی بات سن کر سید جبیل نے گہرا سانس لیا۔
”ماننے والے دن پیدا ہی نہیں ہوئی تھی میری اولاد۔۔“ وہ اب خفا ہوگئے تھے۔۔۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی سب اپنی مرضی کرتے تھے۔ وہ ان کے خفا ہونے پر محظوظ ہوا۔
”آپ خواہ مخواہ ڈر رہے ہیں۔۔“
”یہ تم سب عام انسانوں کی طرح زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟؟ جبیل خاندان کا نام لوگوں کے ذہن سے محو ہو ہی نہیں سکتا نا۔۔“ وہ خفا ہو کر اسے سناتے فون بند کرگئے۔۔۔جبکہ اس نے اپنی پوری کوشش کی تھی سید جبیل کو اس کی طرف سے کوئی پریشانی نہ آئے۔۔اس نے تو جبیل خاندان کا نام تک استعمال نہیں کیا تھا پر سید جبیل کو اپنی اولاد کی وجہ سے کوئی پریشانی نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔
اس وقت بھی سید جبیل اپنے کمرے میں تھے۔۔سامنے ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں۔۔۔ ایک ٹاک شو تھا جہاں اس کا ذکر کیا جارہا تھا۔۔
ایک بڑے مشہور اسکالر کہہ رہے تھے ایسے بہت سے نوجوان آتے جاتے رہتے ہیں۔۔۔ان کے مطابق یہ نیا لڑکا صرف توجہ کے لیے یہ سب کر رہا تھا۔۔
سید جبیل نے غصے سے چینل بدلا۔۔۔ اور سامنے منظر کا دیکھ کر ان کا منہ مزید کھل گیا۔۔ اسکرین پر نظر آتے لڑکے کو وہ فون پہچان گئے تھے۔
”ادھم۔۔۔“ ان کے لب ہولے سے پھڑپھڑائے۔
کسی شو کی ریکارڈنگ چل رہی تھی جہاں ماثیل نامی ایک بڑے آرٹسٹ کو اس کے فن کی بنا پر ایوارڈ سے نوازہ جا رہا تھا۔۔ سیاہ ڈریس پینٹ میں ملبوس ایوارڈ ہاتھ میں تھامے وہ شخص کس قدر پیارا لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں یوں جیسے اس نے سب کچھ پالیا ہو۔
”یہ لڑکے مشہور ہوئے بنا جی ہی نہیں سکتے۔۔“ انہوں نے جل کر ٹی وی بند کردیا۔ اب وہ غصے سے کچھ بڑبڑا رہے تھے۔
✿••✿••✿••✿
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی جب روز نے دروازے سے جھانکا۔۔
”کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے؟؟“ وہ اسے دیکھتے اشتیاق سے پوچھنے لگی۔
”آپکے وہ دل پھینک ٹیچر، مسٹر ماثیل صاحب ایوارڈ جیتنے کی خوشی میں مجھ سے چائے کی فرمائش کر رہے ہیں۔۔۔“ اس نے ڈوپٹہ اٹھاتے جواب دیا۔
”وہ تو پورے کے پورے تمہارے ہیں۔۔ میرے کب سے ہوگئے۔۔“ وہ اب اندر آگئی تھی۔ ”ویسے میں بہت خوش ہوں۔۔ چوتھا سال ہے انہیں بیسٹ آرٹسٹ کا ایوارڈ جیتتے ہوئے۔۔ آئی وش کہ میں ان سے تھوڑا پہلے ملی ہوتی۔۔“ وہ اب اس کے پیچھے کھـڑی تھی۔۔ آئینے میں ایمان کا وجود خوبصورت لگ رہا تھا۔۔ درمیانہ قد، نازک سراپہ، صاف رنگت۔۔۔ اور اوپر سے ذہانت۔۔۔ ہاں ذہانت جو سب پر بھاری تھی۔ ایمان خاموشی سے دوپٹہ سیٹ کرتی رہی۔
”ویسے مجھے یقین نہیں ہورہا تم ڈیٹ پر جارہی ہو۔۔“ اور ایمان کو لگا کسی نے کھینچ کر تھپڑ مارا ہو۔۔ اس کے ہاتھ تھم گئے۔۔ وہ بےیقینی سے آئینے میں اپنے پیچھے کھڑی روز کو دیکھنے لگی۔۔ اس کی بدلتی رنگت دیکھ کر روز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”میرا مطلب ہمارے ہاں کب کوئی کپل اسپیشل ملتے ہیں تو اسے ڈیٹ کہتے ہیں۔۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔۔۔ سر پر دوپٹہ اوڑھتا اس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق تھا۔
”ڈیٹ۔۔۔۔“ یہ لفظ لگاتار اس کی سماعت سے ٹکرانے لگا۔
”کیا وہ دوپٹہ اوڑھ کر ڈیٹ پر جارہی تھی؟؟“ اس کی اپنی سوچیں اب اسے کچلنے لگی تھیں۔
”میری بات کو اتنا سیریس مت لو۔۔ میں تمہیں اچھے سے جانتی ہوں۔۔ مزاق کر رہی تھی۔۔“ روز اس کی بدلتی رنگت دیکھ کر اب شرمندہ ہوگئی تھی۔
”میں جانتی ہوں ڈیٹ کیسے کہتے ہیں۔۔ پر میر ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔“ وہ جو پہلے ہی منتوں سے مانی تھی اس کا دل پھر بدل گیا تھا۔۔ اب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی اب پیروں میں جرابیں پہنتی اپنے اسنیکرز پہننے لگی تھی۔
روز اسے ہی دیکھنے لگی۔۔ اس کا حلیہ کسی سے بھی ایسا نہیں تھا کہ وہ ڈیٹ پر جارہی تھی۔۔۔وہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی حلیے میں تھی۔
”سوری ایما۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔“ روز افسردہ ہوگئی۔ جبکہ ایمان خود پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
”ڈونٹ وری۔۔۔ اب تم نے ہمیں کپل مان ہی لیا ہے تو یہ بھی مان لو کہ میں ڈیٹ پر جا رہی ہوں۔۔“ وہ اس کے عین سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔ زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی نم آنکھوں والی ایما اسے اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوئی۔۔۔روز نے بےاختیار اسے گلے لگایا۔
”تمہیں مسٹر ماثیل یا میری خوشی کے لیے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم وہی کیا کرو جو تمہارا دل کرے۔۔“ روز نے اس کے کان میں سرگوشی کی جبکہ وہ یوں ہی ساکت کھڑی رہی۔۔۔ اس نے پلٹ کر روز کو گلے بھی نہیں لگایا تھا۔ دل اندر ہی اندر کہیں کرلایا تھا۔۔۔وہ مجبور تھی۔ یہ سب کرنے کے لیے مجبور تھی۔۔۔وہ کیسے اسے بتاتی۔۔؟؟
✿••✿••✿••✿
وہ دونوں لاس ایرینا بیچ پر بنے ایک پرائیویٹ کیفے میں بیٹھے تھے۔ ایمان نے بس ایک بار اسے مبارک باد دی۔ وہ اس کے سامنے مختلف حلیے میں تھا۔۔ اس ایوارڈ کے بعد اسے بہت سارے لوگ جاننے لگے تھے۔۔۔کیونکہ اس نے یہ ایوارڈ پہلی دفعہ خود جا کر لیا تھا ورنہ پہلے وہ اپنی جگہ کسی نہ کسی کو بھیج دیتا تھا۔۔۔ اور ماثیل نے یہ سب ایمان کے لیے کیا تھا تاکہ اس لڑکی کو یہ نہ لگے کہ وہ کسی عام شخص کی محبت تھی۔۔۔وہ ایسے شخص کی محبوبہ تھی جسے پوری دنیا دی بت ساز کے نام سے جانتی تھی اور اب پہچاننے بھی لگی تھی۔۔ اس کے چہرے سے۔۔۔ اسی لیے ماثیل نے بکنگ ایسی جگہ کی تھی جہاں انہیں پرائیویسی مل سکے۔
”تم خوش ہو میرے جیتنے پر؟؟“ ماثیل نے سوال کیا۔۔۔وہ دور امڈتی لہروں پر نظریں ٹکائے بیٹھی تھی۔
”آپ خوش ہیں۔۔؟؟“ ایمان نے الٹا سوال کیا۔
”میرے لیے یہ پہلی بار نہیں ہے۔۔ میں پہلے بھی یہ ایوارڈ جیت چکا ہوں۔۔۔“ وہ نرم لہجے میں بولا۔۔ وہ اسی حلیے میں تھا جس میں وہ ایوارڈ لینے گیا تھا۔۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس سے نظریں نہ ہٹاپاتی۔۔ پر محبوب تو ظالم ہوتا ہے۔ اور وہ بھی ظالم تھی اسے فرق ہی نہیں پڑتا اس کا چاہنے والا کس قدر شاندار شخص تھا۔
ایمان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔ آنکھوں میں محبت کی الوہی چمک لیے وہ ایمان کو ہی تک رہا تھا۔
”مجھے خوش کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔“ وہ نظریں اپنی چائے کی جانب جماتے بولی۔
”یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔۔۔“ وہ دھیرے سے مسکرادیا۔
”انسانوں کو خوش کرنے کی کوشش بےکار ہے۔۔“ وہ اب چائے کا گھونٹ بھرتے کہہ رہی تھی۔
”میں ایسی کوششیں کرتا بھی نہیں ہوں۔۔ یہ تو صرف تمہارے لیے کر رہا ہوں۔۔“
”نہ کیا کریں۔۔“ وہ فوراً بولی۔
”کیوں نہ کروں۔۔۔؟؟ تم اپنے خدا کو خوش کرنے کے لیے جانے کیا کیا کرتی رہتی ہو۔۔۔ تو میں اپنے محبوب کو خوش کرنے کے لیے اتنا تو کر رہی سکتا ہوں۔۔“ اس کے پاس ہر بات کا جواب تھا۔
”آپ خدا والے نہیں ہیں نا اس لیے۔۔“ وہ بھی کم از کم اس گفتگو میں تو چپ نہیں رہ سکتی تھی۔
”مذہبی نہیں ہوں اس لیے۔۔“
”خدا کے اقرار کے لیے کسی مذہب میں تو آنا پڑتا ہی ہے۔۔“
”مذہب میری لائن نہیں ہے۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔
کیا کبھی ایسے دو لوگوں کو دیکھا ہے جو خوبصورت رات کے اس پہر اتنی خوبصورت جگہ پر بیٹھ کر ایسے بحث کر رہے ہوں؟؟
”آپ کے کہنے کا مطلب ہے آپ کو آج تک کسی مذہب میں دلچسپی نہیں ہوئی؟؟“ وہ بھونیں سکیڑے پوچھنے لگی۔
”نہیں ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔ مجھے بدھ مت کی کافی تعلیمات نے متاثر کیا ہے تھا، اس مذہب سے انسانی کو اندرونی سکون ملتا ہے۔۔ انسان کا وجدان مضبوط ہوتا ہے۔۔“ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا تھا اس لیے جو سوچتا تھا کہہ دیتا تھا۔
”اسلام بھی انسان کو امن کا درس دیتا ہے۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔
”ہاں لیکن انسان کو اتنا مضبوط نہیں کرتا۔۔“ وہ جانے کیا کہنا چاہتا تھا۔
”کوئی ایک مثال دیں جس سے یہ بات ثابت ہو۔۔“ وہ آج پہلی بار مذہب پر اس سے یوں بحث کر رہی تھی۔
”جیسے ابھی کچھ سالوں پہلے بدھ مت کے ایک پیروکار نے خود کو سب کے سامنے آگ لگالی تھی۔۔ میڈیا نے اس واقعے کو live coverage کیا تھا۔۔ میں حیران ہوں وہ انسان جب جل رہا تھا ہلا تک نہیں۔۔۔اس نے مجھے متاثر کیا تھا۔۔۔“ وہ خطرناک حد تک صاف گو انسان تھا۔ جو محسوس کرتا فوراً بول دیتا تھا۔
”کسی نے روکا نہیں اسے؟ یہ تو خودکشی کرنے جیسا ہے اور کونسا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے۔۔؟؟“ وہ خفا سی بولی۔ اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔
”اس آدمی نے باقاعدہ لکھ کر دیا تھا کہ وہ یہ کام اپنی مرضی سے کرنے جا رہا ہے کوئی اسے روکے مت۔۔۔کبھی کبھی اپنے مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔۔“
”ایسے تو میرے مذہب میں بھی بہت سے ایسے واقعات گزرے ہیں جب معجزے ہوئے ہیں۔۔۔“
”اچھا کوئی ایک بتاؤ۔۔۔“ ماثیل نے لفظ ایک پر زور دیتے کہا۔
”جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے آگ میں چھلانگ لگادی تھی۔۔۔ وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر تھا۔۔“ یہ بات کہتے ایمان واقعی لرز گئی تھی۔
”اس واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سنی سنائی بات لگتی ہے ہم جیسوں کو۔۔“ اس نے کتنے آرام سے کہا تھا جبکہ ایمان کو آگ سی لگ گئی۔
”اور جس ویڈیو کی آپ بات کر رہے ہیں کیا ثبوت ہے کہ وہ اصلی ہے؟؟؟ سوشل میڈیا کا دور ہے آج کل تو کچھ بھی ممکن ہے۔۔ نقلی ویـڈیو بنائی جا سکتی ہے۔۔ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔“وہ بھڑک اٹھی تھی۔
”اوہ پلیز مس ایمان! یہ واقعہ لوگوں نے لائیو دیکھا تھا کوئی مذاق نہیں ہے یہ۔۔۔“ وہ پہلی بار خفا ہوا۔۔ جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اسے جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو غیب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
”ہاں تو آپ کو کس نے حق دیا آپ دوسروں کے مذہب کا مذاق اڑائیں۔۔ اسکے معجزات کو نقلی کہیں۔۔۔؟ جس واقعے کو لوگوں نے آج دیکھا ہے شاید کچھ سالوں بعد اس کے دیکھنے والے سبھی مرجائیں اور تب آپ جیسے لوگ اسی بدھ مت کے واقعے کو کہیں گے اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ نقلی ہے۔۔ سب نقلی ہے۔۔ تب کیا جواب ہوگا اس بات کا؟؟“
وہ خفا ہوتے غصے سے بولی۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ ماثیل کو مذہب کو لے کر نظریہ اتنا بگڑ چکا تھا۔
”میں اس پر یقین رکھتا ہوں جو میں دیکھتا ہوں۔۔ جو میں سنتا ہوں۔۔اور مجھے لگتا ہے تمہیں بھی غیب کی پٹی اتار دینی چاہیے۔۔“
اور یہ بات ایمان کے دل پر لگی تھی۔۔۔ عبداللہ شہاب کی کاپی تھا وہ شخص۔۔۔ وہ عبداللہ شہاب جس نے اپنی آنکھوں اپنے کانوں پر یقین کرکے ایمان کو بہت سی اذیتوں سے نوازہ تھا۔
”کچھ باتوں کا تعلق ثبوت سے نہیں بلکہ غیب سے ہوتا ہے۔ ان پر بس یقین کیا جاتا ہے۔ اور آپ اپنا نظریہ اپنے تک رکھیں میں نے کبھی آپ سے مذہب پر بحث نہیں کی، آپ بھی اپنے نظریات مجھ پر نہ تھوپیں تو اچھا ہوگا۔۔۔“ وہ سپاٹ لہجے میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ماثیل کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنا برا مان جائے گی۔
”ایمان۔۔۔ ڈونٹ بی سلی۔۔“ وہ بھی اٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑا تاکہ اسے جانے سے روک سکے۔ ایمان نے جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑائی۔ وہ جانتی تھی دو الگ نظریات، دو الگ سوچ کے لوگوں کا ایک ساتھ رہنا کتنا مشکل تھا۔ وہ سلمی بیگم اور عبداللہ شہاب کو نہیں بھولی تھی۔ وہ ان جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔
”ڈونٹ ٹچ می۔۔کبھی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔“ اس کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ ماثیل کا دل رک سا گیا۔۔ اس نے بےیقین سے ایمان کو دیکھا۔۔۔ وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔
وہ تیزی سے وہاں سے نکلتی چلی گئی جبکہ ماثیل نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اس لڑکی کو اپنے جیسا نہیں بنا سکتا تھا۔ وہ اکیلا بیٹھا رہ گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
20787827
نیا اور پرانا الحاد
آج وہ کسی اور یونیورسٹی میں موجود تھا۔۔ اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ کام سعد کے حوالے کردیا تھا جو اب اس کے ساتھ ہوتا تھا۔۔ اور اسکی ٹیم میں آنے کے بعد سعد کو پتہ چلا تھا کہ حاد کون تھا۔۔؟؟
وہ النور اکیڈمی کا ایک بہت بڑا پروفیسر تھا۔۔ وہ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ہر موضوع پر لیکچرز دیتا تھا۔۔۔ یو کے میں اس کے اسٹوڈنٹس کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جسے دیکھ کر سعد حیران رہ گیا تھا۔۔
نفیسات، سیاست، معاشرت، بزنس، سائنس اور ناجانے کیا کیا۔۔ اس کے ریکاڑد سیشنز سن کر سعد کا دماغ کھل گیا تھا۔۔ اس کے دل میں حاد کی عزت مزید بڑھ گئی تھی۔ اس وقت بھی وہ اسپاٹ لائٹ کی روشنی میں اسٹیج پر کھڑا نئے اور پرانے الحاد کے بارے میں ڈسکس کر رہا تھا۔
”خدا کے وجود کا سوال ایک ایسا سوال ہے جو پوری انسانیت کو پریشان کرتا ہے۔ Theist دلیل دیتے ہیں کہ وہ حقیقت میں موجود ہے، جبکہ Atheist کا کہنا ہے کہ وہ نہیں ہے۔۔“ وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
”الحاد کی کم از کم دو قسمیں ہیں، پرانا، روایتی الحاد، اور نیا الحاد۔ پرانا الحاد الٰہیاتی دلائل کو ان کا حق دیتا ہے، انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، اور منطقی استدلال اور استدلال کے اصولوں کے مطابق ان کا جائزہ لیتا ہے۔۔۔ یوں کہہ لیں کہ پرانا الحاد منطق پر چلتا ہے۔۔ آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ سال پہلے جو ملحد تھے ان کے پاس منطقیں ہوتی تھیں چاہیں کیسی بھی ہوں۔۔ وہ ان کو لے کر بحث ومباحث کرتے تھے۔۔ وہ کم جذباتی ہوتے تھے۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔
”جبکہ نئے الحاد کو بیان بازی، ناقص یا گمشدہ دلائل، اور جذبات کی اپیل سے نشان زد کیا گیا ہے۔۔ بلاشبہ یہ نئے الحاد کے نتائج کو غلط نہیں بناتا۔۔ تاہم، یہ تجویز کرتا ہے کہ نیا الحاد بہت ہی دیوالیہ قسم کا الحاد ہے اور اس کے دلائل اتنے قابل نہیں کہ منطقی طور پر آگے بڑھ سکیں۔ تمام نئے ملحدوں کا سروے نہیں کیا گیا ہے البتہ وہ اپنی فلسفیانہ صلاحیت کی سطح میں مختلف ہیں۔۔۔ اینـڈ یو نو واٹ۔۔۔؟؟“ اس نے تجسس پیدا کیا۔۔ وہ سامنے بیٹھی عوام کے اندر تک اپنی بات پہنچانا چاہتا تھا۔
”یہ جو نئے ملـحد نکل رہے ہیں نا مارکیٹ میں انہیں الحاد کا معنی تک نہیں پتہ۔۔۔صرف کول دکھنے کے چکر میں اور کبھی کبھی اپنے سے اونچے لوگوں کی پیروی کے چکر میں یہ اندھے میں کنویں گر رہے ہیں۔۔“
وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔۔ وہ سائیکولوجی جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا لوگ کیسے دوسرے لوگوں کی سائیکولوجی سے کھیلتے تھے۔
”مسٹر حاد میرا ایک سوال ہے۔۔“ یہ ایک نوجوان لڑکی تھی۔۔ جس کے بال کھلے تھے اور دوپٹہ تک نہیں تھا۔
”میں نے آپ کے سارے سیشنز سنے ہیں۔۔ آپ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی پہچان کرنی چاہیے۔۔۔ آپ کو نہیں لگتا پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔۔۔جو بس یہ سوچتے ہیں کہ دو وقت پیٹ بھرنے کو روٹی مل جائے وہ لوگ کیسے اپنی پہچان کے بارے میں بات کریں گے جبکہ بہت سارے بڑے فلاسفرز کہتے ہیں کہ انسان اس وقت ہی اپنی پہچان کے لیے نکلتا ہے جب وہ محفوظ ہوتا ہے۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟“
حاد نے غور سے لڑکی کی بات سنی اور پھر ہولے سے مسکرادیا۔۔ وہ یوں مسکراتا ہوا بہت دلکش لگا تھا۔۔ اس کے لبوں کے قریب مائکروفون تھا۔۔
”میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ ہم اس عجیب گیم کا حصہ ہیں جہاں سمجھا جاتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں صرف کتابیں اچھی لگتی ہیں۔۔۔ اور کتابیں بھی صرف سلیبس کی کتابیں۔۔۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ ہی کیوں ہے؟؟ پھر میں سوچتا ہوں کہ ہماری جنریشن مجبوری کی وجہ سے سلیبس یعنی کورس کی کتابیں پڑھتی ہے۔۔ پھر میں نے جانا کہ نہیں ان میں کچھ عوام ایسی بھی ہے جو کتابیں پڑھتی ہے۔۔ لڑکیوں کے لیے ناولز اور لڑکوں کے لیے وہ کتابیں جو ان کا برین واش کر سکیں۔۔ یو نو۔۔۔فلسفہ۔۔۔سو کالڈ فلسفہ۔۔۔ “ اس کے لہجہ میں طنز تھا۔
”تو ایٹ لیسٹ لڑکیوں نے ناول سے ہٹ کر کتابیں پڑھنا شروع تو کی ہیں جہاں سے وہ تھوڑا ریشنل ہو کر سوچ سکیں“ اس نے مائیک تھامے کھڑی لڑکی کی جانب دیکھا۔
”میں جانتا ہوں آپ Maslow کی بات کر رہی ہیں۔۔ اور میں حیران ہوں کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے اس تک تو پہنچ گئی ہیں پھر اسلام کے بیسک تک کیوں نہ پہنچ پائیں؟؟“
اس کا سیشن انگلش میں تھا۔۔ اور اس کا ایکسنٹ برٹش تھا۔۔ بہت ساری ایسی لـڑکیاں جنہیں اس سیشن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ صرف اسے دیکھنے اسے سننے آتی تھیں۔
”آپ لوگوں میں سے کون کون میزلو کو جانتا ہے؟؟“ اس کے سوال پر چند ایک نے ہاتھ کھڑا کیا تھا۔
”وہ کہتا ہے کہ ایک انسان تب ہی خود ہی پہچان کی جانب بڑھ سکتا ہے جب اس کے پاس کھانے کو کچھ ہوگا، جب وہ محفوظ ہوگا، جب لوگ اس سے محبت کریں گے، جب وہ کسی مقام پر ہوگا اسکی کچھ عزت ہوگی تب ہی وہ اپنی پہچان کی جانب بڑھے گا۔۔ یہ بیسک سا اصول ہے آپ لوگوں نے سلیبس میں بھی پڑھا ہوگا۔۔ یعنی پہچان کا مرحلہ سب سے آخر میں آتا ہے۔۔۔ ایسا کیوں؟؟“
اس نے ہال میں بیٹھی عوام کی جانب دیکھا۔
”ہمارے پیٹ بھرجائے تو ہم کیا کرتے ہیں؟؟“ ایک اور سوال کیا۔
”ہم بےفکر ہوجاتے ہیں۔۔۔ اور بےفکرا انسان کیسے خود کی پہچان کر سکتا ہے؟؟ بہت سادہ سی بات ہے ایک انسان اپنی صلاحیتوں کا استعمال تبھی کر سکتا ہے جب وہ کسی مشکل میں ہوتا ہے۔۔ آپ لوگوں نے اکـثر دیکھا ہوگا کہ ایک کمزور لڑکی کو اگر کوئی قتل کرنے کی کوشش کرے تو وہ بھی اپنی پوری جان لگا دیتی ہے تاکہ اپنا بچاؤ کر سکے۔۔۔ ایک ہرن شیر سے بچنے کے لیے بہت تیزی سے بھاگتی ہے۔۔ہم اپنی جان بچانے کے لیے کسی حد تک چلے جاتے ہیں۔۔۔ پھر کیوں ہم آخر اس بات پر ضد کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ میرے پاس تو کھانے کو روٹی نہیں مجھے کیا لینا دینا خدا سے؟؟ میرے پاس سب کچھ ہوگا تب ہی میں خود کی پہچان کرنے کے لیے نکلوں گا؟؟ یہ غلط ہے۔۔۔ یاد رکھیں فلاسفر بھی انسان ہی ہیں۔۔۔ان کی ہر بات کو آنکھیں بندکرکے مان لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ آپ بھی انسان ہیں آپ کے پاس بھی اتنا ہی دماغ ہے، آپ بھی اتنا ہی سوچ سکتے ہیں۔۔۔ پھر کیوں ہم تباہ کر دینے والی کتابیں پڑھ کر خود کو تباہ کر لیتے ہیں۔۔؟؟ کیوں ہم اپنے دماغ سے نہیں سوچتے؟؟“
وہ سانس لینے کو رکا۔۔
”جب ہم سے اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے پھر کیوں ہم سوچتے نہیں ہیں؟؟ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنی خودی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟؟ وہ تھی اصلی پہچان۔۔ ان کی دعا بھول گئے ہیں ہم، یہی ہمارا المیہ ہے یہی ہمارا زوال ہے۔۔“
”یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو اگر وہ بھی خود کی پہچان کر سکتا ہے؟؟“
”دیکھیں نا خودی تو آپ کے اندر ہے۔۔ جو چیز آپ کے اندر پہلے سے موجود ہے آپ کو اسے باہر لانے کے لیے باہر کے Factors کیوں چاہئیں؟؟ وائے؟؟“
اس کے سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
عبدل کے پلے کی شوٹنگ چل رہی تھی۔۔ اس نے بالوں کی چند لٹیں اب سبز، نیلی اور جامنی رنگوا لی تھیں۔ اس کے ایک کان میں ابھی تک بالی تھی۔ اپنے کردار کے حساب سے اس نے اپنی گردن کے داہنی جانب ایک فالن اینجل کا ٹیٹو بنوا لیا تھا۔
آج اس کا پہلا دن تھا۔۔۔اور جب وہ کردار کے مطابق تیار ہو کر آیا تو ایک پل کو ڈائریکٹر حیران رہ گیا۔۔۔
اتنا اچھا فالن اینجل عبدل کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا۔۔؟؟
وہ پینٹ کے اوپر کیمسول پہنے ہوئے تھا اس کے کسرتی بازو نمایاں تھے۔۔۔ان پر بنے ٹیٹو اور اس کا باکسر کا جسم اسے مضبوط ترین بنا رہا تھا۔۔
اس کی گرے آنکھیں جنہیں کسی بھی لینز کی ضرورت نہیں تھی اسے الگ ہی روپ بخشتی تھیں۔۔
”وہ بھلا کیوں باکسنگ کرتا تھا؟ اسے تو ماڈل ہونا چاہیے تھا۔۔“ بہت سارے لوگوں نے اسے دیکھ کر سوچا تھا۔
”تمہیں ماڈل ہونا چاہیے۔۔ تم ماڈلنگ اچھی کر لو گے۔۔“ سیٹ پر ایک لڑکے نے مفت میں مشورہ دیا تھا۔
”مجھ پر کافی کیسز ہیں کیونکہ میں ہڈیاں بھی اچھی توڑ لیتا ہوں۔۔“ اس کے سرد لہجے پر مقابل ڈر کر کھسک گیا تھا۔ وہ کسی سے دوستی نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایمانے ہی تھی جس کے لیے وہ ڈھیر سارے تحفے لاتا تھا۔
وہ شوٹس سے فارغ ہوا تو اس نے اپنا فون دیکھا۔۔۔کسی انجان نمبر سے کئی فون آئے تھے۔ وہ کال بیک کرنے کا عادی نہیں تھا۔۔ وہ اپنا بیگ اٹھاتا ڈریسنگ روم میں جانے لگا تو فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔
”ہیلو۔۔“ اس نے فون کام سے لگایا۔
”تمہاری وجہ سے۔۔۔صرف تمہاری وجہ سے میڈم ہیزل نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔۔ سمجھتے کیا ہو تم خود کو۔۔ کوئی بڑی توپ ہو؟؟“ شالی غصے سے پھنکار رہی تھی۔۔ اس کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
”بالکل ہوں۔۔۔بس خیال رکھنا تم نہ اڑ جاؤ میرے کسی دھماکے سے۔۔“ اس کی شالی سے نہیں بنتی تھی۔۔ ایمانے کے بعد تو وہ جیسے بارود ہی بن گیا تھا۔۔ہر وقت پھٹنے کو تیار۔۔
”تم۔۔تم۔۔انتہائی خبیث۔۔“ وہ تلملائی۔
”بائی دا وے تم بھی کسی خبیثہ سے کم نہیں ہو۔۔۔۔“ اس نے ٹک سے فون بند کردیا۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا دوسری جانب شالی کا جل بھن کر کوئلہ بن گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
novelbank most romantic novel is here
ReplyDelete