”بالکل۔۔ حشام جبیل کا بیٹا ادھم جبیل۔۔۔۔ جس کی دنیا آپ پر رک گئی ہے۔۔۔“
ایک دن میں ہی ایمان کی دنیا پوری طرح الٹ چکی تھی۔۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
کہاں ماثیل اور کہاں سید جبیل (Jabail) خاندان۔۔
اگر یہ سچ تھا تو خوفناک سچ تھا۔ جو اس پر آشکار ہوا تھا۔
وہ کتنے ہی پل بت بنے بیٹھی رہی۔۔۔۔ اسے لگا شاید وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ کوئی ڈراؤنہ خواب۔۔۔۔
حشام جبیل۔۔۔
اسکی سماعت سے یہ نام ٹکرانے لگا۔
”تم تو میرا نام تک نہیں جانتی۔۔۔“ ماثیل کے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ وہ واقعی نہیں جان پائی تھی کہ وہ صرف ادھم نہیں ادھم جبیل تھا۔
”آپ نے مجھے فون کیوں کیا ہے؟؟“ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
کیا اس کی ذات اتنی اہم تھی کہ جبیل خاندان کا کوئی شخص اسے خود فون کرتا۔۔۔؟؟ وہ حیرت کے گہرے سمندر میں تھی۔
”بات کافی لمبی چوڑی ہے۔۔ اور اس وقت جبکہ آپ ذہنی طور پر پریشان ہیں میں یہ اہم بات ابھی نہیں کر سکتا۔۔۔ ہاں البتہ آپ پاکستان پہنچ جائیں اپنی ماں سے مل لیں پھر ہم اس موضوع پر بھی بات کریں گے۔۔“
وہ نرمی سے کہتا فون بند کرچکا تھا جبکہ ایمان جہاں تھی وہیں بیٹھی رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
اپنی ماں کو تکلیف میں دیکھنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔ ایئرپورٹ سے وہ سیدھا ہسپتال آئی تھی۔۔ سلمی بیگم کو مشینوں میں جکڑے دیکھ کر ایمان کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔۔
حمیزہ اس سے لپٹ کر ایسے روئی جیسے پتہ نہیں کب سے وہ چیخنا چلانا چاہتی تھی۔۔ آنسوں تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔ وہ سلمی بیگم کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی۔۔ اس کا بس چلتا تووہ چٹکی بجا کر سلمی بیگم کو ٹھیک کردیتی تھی۔
اس کے آنے کے کچھ دیر بعد اس کے چچا کی فیملی آئی تھی اور پھر آدھے گھنٹے بعد اس کے ماموں آگئے تھے۔۔ ایمان نے بس سلام کیا۔۔ اس نے کوئی بات کرنا گوارہ نہیں سمجھا۔۔
”جو میری ماں کا نہیں وہ میرا نہیں۔۔۔“ وہ ہمیشہ ہی یہ سوچتی تھی۔۔ اسے اپنی ماں کو تکلیف دینے والے سبھی لوگوں سے نفرے ہوجاتی تھی۔۔ اور اس میں اس کا باپ بھی شامل تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے جانے کے بعد کیا ہوا تھا۔۔۔ گھر میں سب ایک ساتھ رہتے تھے وہ اور اس کے چچا کی فیملی۔۔
لیکن ایسا کیا ہوا کہ وہ لوگ اس مشکل وقت میں بھی سلمی بیگم کے ساتھ نہیں تھے۔۔ سلمی بیگم کی آدھی بیماری تو ایمان کو دیکھتے ہی ٹھیک ہوگئی تھی۔۔ ان کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا تھا۔۔اور حمیزہ کو بھی اس کے آنے سے حوصلہ ہوا تھا۔۔ وہ ڈاکٹروں سے خود مل رہی تھی۔۔ خود ان سے ساری رپورٹس لے رہی تھی۔۔ حمیزہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ اتنی بہادر تو کبھی نہیں تھی۔۔ جب وہ ڈاکٹر سے بات کرکے واپس آئی تو اس نے حمیزہ کو خود کی جانب تکتے پایا۔
”کیا دیکھ رہی ہو میزو۔۔۔؟؟“ وہ اس کا ناک کھینچتے اس کے پاس بیٹھ گئی اور اسکا ہاتھ تھام لیا۔
سادہ کھدر کی شلوار قمیص پر گرم جیکٹ پہنے اور اوپر گرم سکارف لیے وہ پراعتماد لگ رہی تھی۔
”آپی آپ بڑی ہوگئی ہیں۔۔۔“ حمیزہ کے کہنے پر وہ بےاختیار ہی ہنس دی۔
”اچھا کتنی بڑی ہوگئی ہوں؟؟؟“ اس نے شرارت سے پوچھا۔۔ حمیزہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ گلابی نم آنکھوں سے مسکراتی ایمان اسے بہت پیاری لگی۔
“اتنی بڑی کہ اب ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔ آپ میرا اور امی کا خیال رکھ سکتی ہیں۔۔“ وہ بولتے بولتے روپڑی۔۔ ایمان نے بےساختہ اسے گلے لگایا۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی سلمی بیگم اور حمیزہ نے اس سے کیا چھپایا تھا پر اب وہ آگئی تھی۔۔۔ اور وہ پہلے والی ایمان نہیں تھی۔۔۔ وہ اب سمجھدار ہوگئی تھی۔۔۔
اگلی صبح سلمی بیگم کو آئی سی یو روم سے شفٹ کردیا گیا۔۔ وہ ایمان کو دیکھ کر جی اٹھی تھیں اسی لیے ان کی حالت میں بھی کافی سدھار آیا تھا۔۔ ایمان کا بیگ اب تک ہسپتال میں پڑا تھا۔۔ اس نے گھر جانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
حمیزہ بھی وہیں ان کے پاس تھی۔۔۔۔ ایمان کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔۔ اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔۔لیکن وہ اب اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ وہ اپنی ماں کے پاس تھی۔۔۔ وہ انہیں زندہ سلامت دیکھ رہی تھی۔۔ اور اس کا ذہن بار بار حشام جبیل کی جانب جارہا تھا۔۔ اس نے آپریشن کے پیسے دیے تھے۔۔۔ وہ کسی فرشتے کی طرح مدد کرنے آیا تھا۔۔۔ اگر آج وہ نہ ہوتا تو۔۔۔؟؟
وہ مزید سوچ نہ پائی۔۔ اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو ذہن سے نکال دیا۔۔
سارے رشتےدار واپس چلے گئے تھے۔۔ اس کے ماموں نے رکنا چاہا لیکن ایمان نے سہولت سے منع کردیا۔۔ انہوں نے پیسوں کا پوچھا اگر ضرورت ہو۔۔ایمان نے پھر بھی منع کردیا۔۔
اس کی مدد کے لیے اللہ نے کسی اور کو بھیجا تھا۔۔ اسے پورا یقین تھا اللہ اگر کسی مشکل میں ڈالتا ہے تو نکالتا بھی خود ہی ہے۔
اس کا فون بیگ میں پڑا تھا۔۔ وہ کسی کو جواب نہیں دے پائی تھی۔۔ نہ روز کو پہنچنے کا بتایا تھا اور نہ ماثیل کے کسی میسج کا جواب دیا تھا۔۔
وہ اس کے بنا بتائے پاکستان آنے پر بہت برہم تھا۔۔۔
”تم میرے ساتھ ایسے کیسے کر سکتی ہو؟؟“
”مجھے بنا بتائے تم مجھ سے سات سمندر دور کیسے جا سکتی ہو۔۔؟؟“
”بہت ظالم ہو۔۔۔“
اس نے گہرہ سانس فضا میں خارج کرتے فون واپس بیگ میں پھینک دیا۔۔ وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
اس کا دماغ اوپر نیچے ہونے والے واقعات و حادثات کی وجہ سے جم چکا تھا۔۔۔ وہ سوچ نہیں پارہی تھی نہ سوچنا چاہتی تھی پر سوچیں اس کا پیچھے نہیں چھوڑ رہی تھیں۔
وہ یہ سمجھ نہیں پارہی تھی اسے ماثیل یعنی ادھم کے باپ نے فون کیوں کیا تھا؟؟؟ اور اسے ماثیل نے بتایا تھا وہ اپنے ڈیڈ سے بہت محبت کرتا تھا۔۔۔
تو کیا وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا۔۔۔؟؟؟ آخر حشام جبیل کو ام ایمان تک کیوں آنا پڑا؟؟؟
ایک بار پہلے بھی حشام جبیل آیا تھا۔۔ ام حانم کے پاس۔۔ آرجے کے سلسلے میں۔۔
اور آج پھر حشام جبیل آیا تھا۔۔۔ ام ایمان کے پاس۔۔۔۔ ماثیل کے سلسلے میں۔۔۔
پہلے بھی حشام جبیل اور ام حانم دونوں کے ساتھ برا ہوا تھا۔۔ اب جانے کس کی باری تھی۔
کچھ دیر بعد سلمی بیگم کو چھٹی مل گئی۔۔ اب وہ کلیرنس کرواتی پھر رہی تھی جب اسکا فون بجا۔۔۔ فون اسی نمبر سے آیا تھا۔۔۔ پر اس نے غور نہیں کیا۔۔ جیسے ہی فون اٹھا کر کان سے لگایا وہی آواز سنائی دی۔
”مس ایما۔۔۔ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟؟؟“
اچانک ہی پوچھا گیا۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔ پھر سوچ میں پڑ گئی۔
”آئی نو ابھی آپ کہیں گی آپ کی مدر صحت یاب ہوجائیں۔۔ وہ ہوجائیں گی ان شاء اللہ۔۔۔ اس کے علاوہ بتائیں۔۔“
وہ راہداری سے گزر رہی تھی۔۔ یہاں شور بہت تھا۔۔ وہ تیز تیز چلتی نسبتاً پرسکون جگہ پر آئی۔ اس کے ہاتھ میں فائل تھی۔
وہ اب کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔۔ کھڑکی سے داخل ہوتی مدھم سی دھوپ اس پل سہانی لگ رہی تھی۔ وہ سردیوں کی دھوپ میں کھڑی ہوئی تو اسے اپنے جسم میں حرارت اترتی محسوس ہوئی۔
”مس ایما۔۔۔؟؟“ اسے پکارا گیا۔
”میں چاہتی ہوں میری روح کو لینے دو نہیں بہت سارے فرشتے آئیں۔۔۔“
دوسری جانب موجود شخص کو اس جواب کی توقع نہیں تھی۔۔۔ گہری خاموشی چھاگئی۔
”صرف وہ دو فرشتے نہ آئیں جو مجھے لے کر جا کر اللہ کے آگے پھینک دیں اور پھر بولیں کہ بنت آدم۔۔ اب کر گناہ۔۔۔ اب کرکے دکھا۔۔۔ اب کر نافرمانی۔۔ اب کرکے دکھا۔۔۔ اب تجھے جھکنا پڑے گا۔۔۔ جھک۔۔۔ جھک اللہ کے سامنے۔۔۔۔“
اس کی آواز بھرا سی گئی۔۔۔ وہ خود نہیں جانتی تھی اس کی یہ خواہش کب زور پکڑ گئی تھی۔
”میں نہیں چاہتی فرشتے مجھ پر غضبناک ہو کر آئیں۔۔ میں چاہتی ہو خوشی خوشی میرے استقبال کو آئیں۔۔“
دوسری جانب سے کچھ نہیں بولا گیا۔
”کتنی پاگل ہوں میں بھی۔۔۔۔کتنی بڑی خواہش پال رکھی ہے۔۔“ وہ طنزیہ مسکرائی تھی۔۔ جیسے خود کا ہی مزاق اڑا رہی ہو۔۔۔ پھر وہ خاموش ہوگئی۔۔ دوسری جانب سے کچھ بولے جانے کا انتظار کرنے لگی۔۔ پر دوسری جانب بنا کچھ کہے فون بند کردیا گیا۔۔۔
ٹوں ٹوں کی آواز سن کر اس نے حیرت سے فون کو دیکھا اور پھر وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
وہ جب سلمی بیگم کو لے کر گھر پہنچی تو وہ گھر کا نقشہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔ یہ وہ گھر نہیں تھا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔۔ یہاں تو دو بڑے بڑے محل نما گھر کھڑے تھے۔۔۔
وہ بہت سارے کمرے۔۔ سرخ ٹائیلوں والا فرش اور ایک گیٹ کہیں غائب ہوگیا تھا۔۔ اس کے دونوں چچاؤں نے اپنے اپنے پورشن الگ کرکے نئی عمارتیں بنا لی تھیں۔۔ جبکہ ایک چھوٹا سا دروازہ لگا تھا جس کی جانب حمیزہ اس کا بیگ لے کر بڑھی تھی۔۔ اس نے سلمی بیگم کو تھام رکھا تھا۔۔ اسے یہ دیکھ کر زور کا جھٹکا لگا تھا۔۔
دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی۔۔ ایمان خالی خالی دماغ لیے اندر آئی۔۔ حصے کے نام پر انہیں تین مرلے کا پورشن دیا گیا تھا۔۔ وہ حیرانی سے سب دیکھ رہی تھی۔۔ ایک کمرہ، ایک چھوٹا اسٹور روم۔۔ ایک کچن چھوٹا سا برآمدہ اور چھوٹا سا صحن۔۔۔۔بس یہی ملا تھا انہیں۔۔۔
پرانا سرخ ٹائیلوں والا فرش۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں بےساختہ پانی آگیا۔۔ وہ کچھ نہ بولی۔۔۔اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا اس کی ماں اس حال میں کیسے پہنچی تھی۔ وہ انہیں اندر کمرے میں لے آئی۔۔۔
ایمان نے راستے میں کھانے پینے کے سامنے کی خریداری کرلی تھی۔۔ حمیزہ سارا سامان لے کر کچن میں چلی گئی تھی۔۔ ایمان کی آنکھوں میں ابھرنے والے آنسوؤں کو سلمی بیگم نے دیکھ لیا تھا۔
”بہت اکیلا کردیا مجھے ان لوگوں نے۔۔۔“ سلمی بیگم رو دینے کو تھیں۔ ایمان نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
“آپ پلیز مت روئیے گا۔۔۔ آپ اکیلی نہیں ہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔“ وہ انہیں حوصلہ دینے لگی تھی۔ جبکہ اس کے اپنے ذہن میں عجیب جنگ جاری تھی۔۔۔ بچپن کی یادیں۔۔ بارش میں گول صحن میں قہقہے لگاتے گھر کے سارے بچے۔۔۔ وہ ہنسی کی آوازیں۔۔۔ وہ بچوں کے لڑائی جھگڑے۔۔
یہ سب بس دادا دادی کے زندہ رہنے تک تھا۔۔ پتہ نہیں انسان اتنا تیزی سے آگے کیوں بڑھنا چاہتا ہے۔۔ کیوں وہ ٹھہر کر ان پلوں کو جی نہیں سکتا۔۔۔؟؟ پتہ نہیں انسان اتنی جلدی میں کیوں ہے۔۔؟؟
اس نے کوئی بات نہ چھیڑی۔۔۔ وہ کچن میں آئی تو حمیزہ چائے بنا رہی تھی۔۔ ایمان کو وہ حمیزہ نظر نہیں آئی جو ہر وقت فون پر گیم کھیلنے میں مصروف نظر آتی تھی۔۔ وہ قد میں اس کے برابر آگئی تھی صرف ایک انچ چھوٹی تھی۔۔۔البتہ اس کے چہرے پر پہلے جیسی رونق نہیں تھی۔ وہ پہلے جیسی چمک اور شرارت کہیں گم ہوگئی تھی۔
”چینی کم۔۔۔“ اس نے ہدایات دیں۔
”ہاں پتہ ہے۔۔ چینی کم اور پتی تھوڑی زیادہ۔۔۔ میں جانتی ہوں آپی آپ کو کیسی چائے پسند ہے۔۔۔“ وہ بولی تو ایمان مسکرادی۔۔ وہ اسے کچن میں چھوڑ کر اس چھوٹے کمرے کی جانب بڑھی جو کبھی اسٹور روم ہوا کرتا تھا اور اب ان کے حصے میں آیا تھا۔۔۔ وہ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور کمرے کی بتی جلائی تو ایک پل کو وہ ڈر سی گئی۔۔ ٹھٹک کر رکی
سامنے ہی دیواروں پر عجیب و غریب سی پینٹگز تھیں۔
وہ جانتی تھی حمیزہ کو آرٹ کا شوق تھا۔۔ پر یہ کیسا ابسٹرکٹ آرٹ تھا۔۔۔ پینسل سے اسکیچز بنائے گئے تھے۔۔ اس نے سامنے ہی دیوار پر ایک بڑا سا اسکیچ لگا رکھا تھا۔۔
ایک لڑکی تھی شاید۔۔۔ جو بیٹھی ہوئی تھی، کسی اذیت اور تکلیف کے باعث وہ جھکی ہوئی تھی۔۔۔ جیسے بیٹھ کر رکوع کرتے ہیں۔۔ اور پیچھے اس کی گردن سے کوئی ڈیمن نکلا ہوا تھا۔۔۔جو بہت لمبا تھا۔۔ کسی سانپ جیسا۔۔۔ وہ منہ کھولے، آسمان کی جانب دیکھتے جیسے چیخ رہا تھا۔۔ البتہ اس کے بڑے بڑے خونخوار دانت نظر آرہے تھے۔
وہ ٹکٹی باندھے اس اسکیچ کو دیکھتی رہی۔۔۔
عجیب و غریب اسکیچز تھے۔۔۔ کمرے میں ایک بیڈ رکھا تھا۔۔ یقیناً حمیزہ نے ہی اسے اپنا کمرہ بنایا تھا۔۔ اور پھر ساری دیواروں کو اسکیچز سے بھر دیا تھا۔۔
”یہ سب میں نے بنائے ہیں۔۔۔“ وہ اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
”میزو یہ سب کیا ہے۔۔؟؟؟“ ایمان بےاختیار اس کی جانب بڑھی۔۔ اور اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
“پتہ نہیں۔۔ایسے لگتا ہے میرے اندر کوئی بری چیز ہے۔۔۔برائی۔۔۔ جیسے ڈیمن۔۔ شیطان۔۔ جو باہر نکلنے کو بےچین ہے۔۔۔“ وہ اپنے اسکیچ کو بیان کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ایمان اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی میزو کہیں کھو گئی تھی۔۔۔ یہ سامنے کھڑی لڑکی تو وہ میزو نہیں تھی۔۔۔۔
ایمان نے بےاختیار ہی اسے گلے لگالیا۔۔۔
” میں آگئی ہوں نا۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ پر تم آئندہ ایسی اسکیچنگ مت کرنا ٹھیک ہے نا۔۔۔؟؟“ وہ اس کے پھولے گال پر پیار کرتے بولی تو حمیزہ مسکرادی۔
اس نے دروازہ بند کردیا۔۔ وہ دونوں سلمی بیگم کے پاس آگئیں جہاں حمیزہ نے چائے بنا کر رکھی تھی۔۔۔۔
بہت ساری باتیں تھیں جو ایمان کو ان دونوں سے کرنی تھیں۔۔۔ وہ اپنے گھر میں تھی۔۔ ایک چھوٹے سے گھر میں۔۔۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ہونے کا عجیب سا سکون تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ایسے کون جاتا ہے؟؟؟“ وہ خفا تھا۔۔ غصہ بھی۔
”میں خودمختار ہوں۔۔ اپنی مرضی کی مالک۔۔۔اب آپ سے پوچھ کر تھوڑی چلوں گی۔۔۔“ روکھے سے جواب پر ماثیل کا شکوہ دم توڑ گیا۔۔ ہاں بھلا وہ اس کے ساتھ تھوڑی بندھی تھی۔
”ہاؤ از یور مام ناؤ؟؟“ اس نے بات پلٹ دی۔
”الحمداللہ بہتر ہیں۔۔۔“ اس کے لہجے میں شکر ہی شکر تھا۔
”کیسے کر لیتی ہو ایمان تم یہ سب؟؟“ وہ بےبس تھا۔۔ اکتایا ہوا۔۔ تھکا ہوا۔
”کیا؟؟“ وہ الجھی۔
”کیسے رہ لیتی ہو اتنا پرسکون۔۔۔ اتنا مطمئن۔۔۔ کیوں تمہیں اللہ سے شکایتیں نہیں ہوتیں۔۔۔؟؟ کیوں تم اس پر غصہ نہیں ہوتی ہو؟؟ کیوں تم پر اس چیختی چلاتی نہیں ہو۔۔؟؟“
”اور اس سے کیا ہوگا؟؟“ ایمان نے الٹا سوال کیا۔۔۔وہ فون سننے صحن میں آئی تھی۔۔ اندر حمیزہ اور سلمی بیگم کسی بات پر ہنس رہی تھیں۔۔ اس کی دنیا مکمل تھی وہ بھلا کیوں شکوے کرتی؟؟
”تاکہ خدا کو احساس ہو کہ ہم اس سے ناراض ہیں۔۔۔“ وہ پتہ نہیں اسے کس راستے پر لانا چاہتا تھا۔
”میں نہیں ہوں ناراض تو میں کیوں غصہ کروں، کیوں چیخوں چلاؤں۔۔؟؟“
”پر میں ہوں۔۔ اس نے تمہیں مجھ سے دور کیا ہے۔۔۔ اور مجھے یہ سب برا لگ رہا ہے۔۔۔“ وہ کہہ دینے کا عادی تھا۔۔۔کوئی بات دل میں رکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اسکی بات سن کر ایمان نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔باہر ٹھنـڈ تھی۔
”ادھم میں تھک گئی ہوں۔۔۔مجھے سونا ہے۔۔۔“ وہ ایسی باتیں نہیں سن پاتی تھی۔
”تمہارے ادھم کہنے پر مجھے اپنی کائنات تھمتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔“ وہ پھر ظاہر کرگیا۔۔۔چھپا نہیں پایا۔
”خیر تم ریسٹ کرو۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔“ وہ فون بند کرکے جاچکا تھا جبکہ ایمان واپس کمرے میں لوٹ آئی۔ وہ ایک ہی بیڈ پر کمبل ڈالے سلمی بیگم کے ارد گرد بیٹھی تھیں۔۔۔۔
اب حمیزہ کوئی پرانہ قصہ سنا کر ان دونوں کو ہنسا رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ رات باہر گہری ہوتی جارہی تھی۔۔۔ اس کی سیاہی بڑھ رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ آج پھر کھڑا تھا۔۔ اکیڈمی کے اس اسٹیج پر جہاں تک پہنچنے کے لیے لوگوں نے جانے کتنے سال محنت کی تھی۔۔ پر وہ بازی لے گیا تھا۔۔۔ اس لیے نہیں کہ وہ سکھانے آیا تھا۔۔۔وہ بڑا بننے آیا تھا۔۔ پر اس لیے کہ وہ جگانے آیا تھا۔۔۔
غلفلت کی نیند میں سوئی آج کی جنریشن کو۔۔۔۔ اپنے ساتھیوں کو۔۔۔۔ وہ اٹھانے آیا تھا کہ اب بھاگنے کا دور آگیا تھا۔۔۔ وہ سیکھنے آیا تھا ان کے ساتھ ہی جو سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے۔۔
اس کے ہاتھ میں آج پھر پزل باکس تھا۔۔۔پر یہ پزل باکس باقیوں جیسا نہیں تھا۔۔۔یہ لکڑی کا بنا ہوا تھا جس پر لکڑی سے عجیب و غریب قسم کے ڈیزان بنائے گئے تھے۔۔۔
کسی خانے پر گول دائرہ تھا۔۔ کسی پر گھڑی بنی تھی کسی پر دروازہ بنا تھا۔۔۔ یوں جیسے کوئی قدیم عمارت ہو۔۔۔۔اور وہ اسے کھولنے کی کوشش میں ہو۔
سیاہ پینٹ ڈریس میں ملبوس وہ شخص موٹے فریم کی عینک کو ناک پر سجائے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس کی یہ عینک اس کی ذہانت میں جیسے اضافہ کرتی تھی۔
”مجھے یہ جاننا ہے کہ پورٹل کیسا ہوتا ہے۔۔۔سننے میں آیا ہے اس کائنات میں بہت سارے پورٹل ہیں۔۔ کیا ہم کسی پورٹل تک پہنچ سکتے ہیں کیا ہم کسی پورٹل کو پار کر سکتے ہیں؟؟؟“ وہ جو لکڑی کے پزل باکس سے کھیل رہا تھا یہ سن کر اس کے ہاتھ تھام گئے۔۔۔ وہ ڈائز سے ہٹا اور چلتا ہوا اسٹیج کے درمیان میں آیا۔۔
سامنے اتنی عوام بیٹھی تھی کہ اسے سوال کرنے والا لڑکا نظر بھی نہیں آیا۔۔۔
”کائنات کے پورٹلز کی بات تو ہم بعد میں کریں گے۔۔ پہلے تو آتے ہیں ہم انسان کے اندر جو پورٹلز موجود ہیں ان کی جانب۔۔۔“ وہ ڈائز کی جانب گیا اور پزل باکس کو وہاں رکھ دیا۔۔
”کیا آپ کا سامنا کبھی اپنے اندر کے ڈیمنز سے ہوا ہے؟؟“ اس نے واپس درمیان میں آتے یہ سوال پوچھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مارکر تھا۔
”ایسے ڈیمنز جو آپ پر حاوی ہوجائیں تو آپ خود کو بھول جائیں۔۔۔ کہ آپ کون ہیں۔۔۔ کیسے ہیں۔۔ آپ کا اصل کیا ہے؟؟“
وہ اپنے پیچھے وائٹ بورڈ پر کچھ بنانا چاہتا تھا پر پھر رک گیا۔۔۔ کیونکہ وائٹ بورڈ پر اگر وہ ہاتھ سے کچھ بناتا تو پیچھے بیٹھی عوام کو کچھ نظر نہ آتا۔۔ اس لیے اس نے پروجیکٹر چلانے کا کہا۔
اب اس کے پیچھے اسکرین پر ایک اسکیچ تھا۔۔ ایک بہت بڑا اسکیچ۔۔۔ کسی میزون نامی لڑکی کے سگنیچر تھے۔ ایک لڑکی زمین پر جھکی ہوی تھی اور اسکے اندر سے کوئی ڈیمن پوری طاقت سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ اسکیچ حال ہی میں نیٹ سے اٹھایا گیا تھا۔۔
”جب میں یہ اسکیچ دیکھ رہا تھا تو میرے ذہن میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی۔۔ کہ جس نے یہ بھی اسکیچ بنایا ہے اس نے آج کے انسان کے نقشہ کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔۔ اسکے لبوں کے پاس چھوٹا مائیک تھا۔۔ اس لیے اسکی آواز پیچھے بیٹھی عوام تک باآسانی پہنچ رہی تھی۔
”انسان اور شیطان۔۔۔نہیں بلکہ انسان اور اسکا نفس تھا۔۔۔درمیان میں ایک پورٹل ہے۔۔ یعنی ایک راستہ جسے ہم اگر پار کرلیں تو سمجھ لیں ہم کسی دوسرے روپ میں منتقل ہوجاتے ہیں۔۔۔۔“
اس نے نگاہ اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھی عوام کو دیکھا۔
”آخر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ جنت دو قدم کے فاصلے پر ہے؟؟ ایک قدم نفس پر رکھو تو دوسرا جنت میں۔۔۔آخر کیوں۔۔؟؟ کبھی سوچا ہے آپ لوگوں نے؟؟“
اس نے سوال کیا۔۔۔پر کوئی جواب نہیں ملا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے یہ جو ڈیمن ہمارے اندر سے نکل رہا ہے یہ کیا ہے؟؟ یہ کوئی باہر کا مونسٹر نہیں ہے۔۔۔یہ وہ نفس ہے جس پر ہم نے قدم رکھ کر پورٹل پار کرنا ہے۔۔۔ وہ راستہ جس کی دوسری جانب جنت ہے۔۔۔ پر ہم اپنی خواہشات کو خود پر اتنا حاوی کرچکے ہیں، ہمارا یہ نفس اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ یہ ہمیں تباہ کرتا، ہمیں ادھیڑ کر باہر نکل آیا ہے۔۔۔“
ہال میں موت سی خاموشی تھی۔
”اس کے طاقتور ہونے سے انسان ہمیشہ تکلیف میں مبتلا ہی رہتا ہے۔۔۔ یہ کوئی عام چیز نہیں ہے جو آسانی سے دب جائے گا۔۔۔اس پر کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔۔۔“
وہ سانس لینے کو رکا۔
”دوسری جانب۔۔۔ یہ ڈیمن۔۔۔ ہمارے اندر کی وہ برائی ہے جو ہمیں اکساتی ہے۔۔۔ جو ہمیں ابھارتی ہے۔۔ جو ہمیں باغی بناتی ہے۔۔۔ جس کو ہم ذرا سی ہوا دیں تو آپ کے سامنے یہ ہمارے وجود کے چیتھڑے اڑاتی باہر نکل آتی ہے اور اس سے صرف ہم نہیں بلکہ باقی لوگ بھی نہیں بچ پاتے۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
دس دن کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔۔ سلمی بیگم اب پہلے سے بہت بہتر تھیں۔۔ ایمان تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔۔ انہیں صحت یاب ہوتے دیکھ کر وہ جیسے جی اٹھی تھی۔۔۔
اس دن وہ سلمی بیگم کے ساتھ دھوپ میں بیٹھی تھی جب سلمی بیگم نے اس سے سوال پوچھا۔
”میرے آپریشن کے لیے اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی؟؟“ سوال ایسا تھا کہ ایمان جو ان کے پاس بیٹھی مٹر نکال رہی تھی اس کے ہاتھ تھم سے گئے۔۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔
”ادھار لیے ہیں کسی سے۔۔“ اس نے بنا ان کی جانب دیکھے جواب دیا۔
”وہی تو پوچھ رہی ہوں آخر اتنی بڑی رقم کس نے دی۔۔؟؟“ وہ جاننا چاہتی تھیں۔۔
”دنیا میں ہوتے ہیں کچھ لوگ جو مدد کر دیتے ہیں۔۔ پر آپ پریشان مت ہوں میں محنت کرکے سارا قرضہ چکادوں گی۔۔ کچھ غلط نہیں کروں گی امی۔۔“ وہ مسکرائی تو سلمی بیگم کو تسلی ہوئی۔۔۔۔ وہ جانتی تھیں ایمان حلال حرام پر بہت یقین رکھتی تھی۔۔ سلمی بیگم کو بےاختیار ہی اپنی بیٹی پر فخر ہوا۔۔۔ جب کوئی نہیں تھا تو اس نے سب سنبھال لیا تھا۔۔ ہاں اب انہیں اور کسی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔۔۔۔ ان کی اولاد ہی ان کی دنیا تھی۔
✿••✿••✿••✿
”مجھے آپ کا قرضہ اتارنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟؟“ جب دوبارہ اسے حشام جبیل کا فون آیا تو اس نے پوچھ لیا۔
”آپ کو لگتا ہے آپ اتار پائیں گی؟؟“ دوسری جانب سے الٹا سوال کیا گیا۔
”اگر صرف پیسوں کی بات ہے تو اتار دوں گی۔۔ اگر احسان اتارنے کا کہہ رہے ہیں تو بھی کوشش کروں گی۔۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولی۔ دوسری جانب ایک پل کو خاموشی چھائی۔
”میرے پاس آپ کے لیے ایک جاب آفر ہے۔۔۔“
وہ سن کر تھوڑا حیران ہوئی۔
”کیسی جاب؟؟؟“ اس نے فوراً پوچھا۔
”ادھم کو واپس لانے کی۔۔۔۔“
”کیا مطلب؟؟؟“ وہ الجھی۔
”وہ محبت پر بہت یقین رکھتا ہے۔۔۔ اور اس وقت وہ آپ سے بےپناہ محبت کرتا ہے۔۔ آپ اسے صحیح راستے پر لا سکتی ہیں۔۔ اگر آپ چاہیں تو۔۔“
بات ادھوری چھوڑ دی گئی۔
”یہ آپ قیمت مانگ رہے ہیں مجھ سے میری مدد کرنے کی؟؟“ ایمان کی بھنویں سکڑ گئیں۔
”خیر مفت میں تو کچھ بھی نہیں ملتا آج کل۔۔۔ پر میں کوئی قیمت نہیں مانگ رہا۔۔ میں بس چاہتا ہوں وہ واپس لوٹ آئے۔۔۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کی محبت کو اپنالیں۔۔۔“
”یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔ اگر میں اسکی محبت اپنانی ہی ہوتی تو میں کب کی اپنا لیتی۔۔۔“ وہ دو ٹوک لہجے میں جواب دینے لگی۔
”کوئی جلدی نہیں ہے۔۔ آپ سوچ لیں۔۔۔۔ یہ ایک باپ کی خواہش ہے کہ اس کا بیٹا گھر آجائے۔۔۔ اگر آپ کوئی مدد کرسکتی ہیں تو ضرور کریں۔۔۔اور مجھے لگتا ہے آپ اس شخص کے لیے اتنا تو کر ہی سکتی ہیں جس نے آپ کی ماں کی جان بچانے میں مدد کی ہو۔۔۔!!“ الفاظ ایسے تھے کہ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
✿••✿••✿••✿