Maseel novel episode 32- sulphite 02

 

Maseel novel

حاد کے نام

”اپنے گھر سے آغاز کریں، اپنے محلے کی مسجد سے، اپنے محلے کے امام سے۔۔۔ پھر دیکھیں سچ کیسے باہر آتا ہے۔۔ “
وہ حاد تھا۔۔ وہ حادثاتی طور پر نہیں آیا تھا اسے لایا گیا تھا۔۔ وہ سوچ سمجھ کر آیا تھا اور اس کے ان لفظوں نے دماغ والوں کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔۔ وہ سوچ ہی تو بدلنے آیا تھا۔۔۔اور یہ پہلے سوال تھا جب اس کی دی گئی نئی سوچ پر ایک لڑکے نے اپنے محلے کے امام مسجد سے پوچھا۔۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا جو نماز پڑھنے آیا تھا۔۔ دعا کے بعد اس نے امام کو مخاطب کیا۔
”امام صاحب میرا آپ سے ایک سوال ہے۔۔“ لوگوں کی بھیڑ میں اس نے پوچھ لیا۔ کچھ لوگ بھی رک گئے۔۔ امام نے چونک کر لڑکے کی جانب دیکھا۔۔ وہ حیران ہوئے۔۔ لڑکے کو وہ پہلی بار مسجد میں دیکھ رہے تھے۔ محلے کے نمازی بھی حیران تھے۔
”پوچھو۔۔“ امام کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”آپ نے جمعے کے خطبے میں فرمایا تھا کہ پاکستان کے حالات بہت بدتر ہوچکے ہیں۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے مکہ میں تھے جب لوگوں کو چھپ کر نمازیں پڑھنا ادا کرنا پڑھتی تھیں۔۔۔ کیا یہ سچ ہے۔۔؟؟“
لڑکا سوچ سمجھ کر آیا تھا۔
”بالکل ایسا ہی ہے۔۔ ہم جس قدر برے معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں رشوت عام ہے سود عام ہے قتل و غارت عام ہے۔۔ جہاں سیاستدانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔۔ جہاں سچ بولنے پر پابندی ہے جان جانے کا خطرہ ہے۔۔ وہاں یہ لازم ہوگیا ہے کہ ہم اپنے ایمان کو بچائیں جیسے مکہ میں بچاتے تھے۔۔ تزکیہ نفس کریں اور اللہ کو یاد کرتے رہیں۔۔“ امام نے افسوس کے ساتھ جواب دیا۔۔
”اللہ ہمارے ایمان کو بچائے۔۔“ امام صاحب نے آمین کہا تو اس کے ساتھ ہی باقی مردوں نے بھی آمین کی صدا لگائی۔۔ لڑکے نے افسوس سے سب کو دیکھا۔۔ اس کی آنکھوں اس کے چہرے پر افسوس ہی افسوس تھا۔۔
”آپ کی بیٹی پردہ کرتی ہے امام صاحب۔۔؟؟“ اگلا سوال عجیب تھا۔۔۔ امام کے ساتھ ساتھ باقی مردوں نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔
”الحمداللہ۔۔ میری بیٹی شرعی پردہ کرتی ہے۔۔“ امام کے لہجے میں فخر ہی فخر تھا۔ لڑکے نے امام کے پیچھے بیٹھے ایک کمزور اور ضعیف آدمی کو دیکھا تھا جس کا سر جھکا ہوا تھا۔۔ وہ ناتواں مرد سر اٹھانے کے قابل نہیں تھا۔۔۔ ابھی دو دن پہلے اس کی بیٹی کا قتل ہوا تھا۔۔قتل کرنے والا اور کوئی نہیں اس کا اپنا بیٹا تھا۔۔ بھائی نے غیرت کے نام پر اپنی بہن کو مار ڈالا تھا۔ وہ آدمی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔
”میرے خیال سے امام صاحب۔۔ آپ کو اپنی بیٹی کا حجاب اتروا دینا چاہیے۔۔ کیونکہ اگر آپ آج کل کے حالات کو مکہ کے حالات سے ملا رہے ہیں تو مکہ میں پردے کی اجازت نہیں تھی۔۔ پردہ کرنے سے منع کریں اپنی بیٹی کو، یہ مسجدیں ہٹا دیں۔۔۔ اور پھر تو کسی کافر کو چاہیے کہ آپ کو گرم ریت پر ڈالے۔۔ آپ کی کھال جلا ڈالے۔۔جیسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ڈالا گیا تھا۔۔ مکہ کا ماحول تو ایسا تھا۔۔۔۔“
لڑکے بولا تو بولتا چلا گیا۔۔۔ امام مسجد دھواں دھواں ہوتے سامنے بیٹھے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔۔
”خاموش گستاخ۔۔۔ خبردار جو ایسی باتیں دہرائیں۔۔“
امام گرج اٹھے۔
”آپ لوگوں کو ڈر نہیں لگتا اللہ سے۔۔؟؟ کیا سمجھتے ہیں آپ تزکیہ نفس سے بچ جائیں گے۔۔؟؟ آپ کے پڑوس میں ایک ایک بھائی نے اپنی بہن کا قتل کر ڈالا تب کیوں نہیں ڈرایا آپ نے۔۔۔؟؟ یہ سبق کیوں نہیں دیا تھا آپ نے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔ کہاں سورہی تھیں آپ کی تعلیمات جب ایک باپ اپنی بیٹی کا زبردستی نکاح کرنا چاہتا تھا۔۔ اور اس کے نا ماننے پر اس کا قتل کردیا گیا؟؟ آپ نے کیوں نہیں سکھایا جو پورا اسلام تھا؟؟ آپ کو کیا لگتا ہے یہ روزانہ کے وظائف کا بتا کر آپ بچ جائیں گے؟؟؟ نکاح کیسے کرنا ہے طلاق کیسی دینی ہے۔۔طلاق ہوگئی یا نہیں ہوئی۔۔پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی جائز ہے یا نہیں بس یہ سکھایا آپ نے؟؟ کون سا فرقہ کافروں کا کونسا مسلمانوں کا ہے آپ عالموں نے آج کے نوجوان نسل کو اتنا کنفیوژڈ کردیا ہے کہ ہم نوجوان ایسے اسلام کو دیکھ کر اس سے دور بھاگ گئے ہیں۔۔ کیوں امام صاحب۔۔۔کیوں آپ لوگوں نے اسلام کو اتنا مشکل بنا دیا ہے ؟؟“
وہ آج رکنے والا نہیں تھا اور یہ کسی اور کا نہیں حاد کا اثر تھا۔۔ جو بہت سارے لوگوں پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اور مسجد میں خاموشی چھاگئی۔۔ موت جیسی خاموشی۔
”باپ سے سوال کرتا ہے شرم نہیں آتی۔۔؟؟“ امام سے جب کچھ جواب نہ بن پایا تو وہ غصے سے دھاڑے۔
”بالکل نہیں۔۔۔میں آپ کا بیٹا باہر ہوں یہاں میں ایک امام مسجد سے سوال کرنے آیا ہوں جس نے اس امانت کو آگے پہچانے کا کام سنبھال رکھے جس کو لینے سے پہاڑوں نے انکار کردیا تھا۔۔۔“ لڑکے کے لہجے میں ذرا بھی لچک نہیں آئی۔ وہ امام کا بیٹا تھا۔۔۔اسے پھر بھی اسلام میں دلچسپی نہیں تھی۔۔ اور آج وہ مسجد آیا تو کس لیے؟؟؟ سوال کرنے۔۔۔
کسی نے تو آغاز کرنا ہی تھا نا۔
”اس دن سے ڈریں جب اللہ پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام پورا کیوں نہیں پہنچایا۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”اگر صرف تزکیہ نفس ہی آپ کا اسلام ہے تو بقول آپ کے میں کافر ہی ٹھیک ہوں کیونکہ مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں کیا وعدہ کرکے آیا تھا۔۔ میں اسی وعدے کو پورا کرنے نکل چکا ہوں۔۔ آپ اپنا اسلام درست کرلیں یہ نہ ہو مکہ کے ان حالات میں کہیں آپ پر کافر کا نہ فتوی لگ جائے۔۔۔“ وہ پھر رکا نہیں اٹھا اور چلا گیا۔۔۔امام مسجد تلملا کر رہ گیا تھا۔۔
اسکی نظر میں بیٹا کافر تھا جو لاکھ چاہنے کے باوجود اللہ کے آگے نہیں جھکتا تھا۔۔ مار کھانے کے باوجود کبھی مسجد نہیں آیا اور اگر آج آگیا تھا تو اپنے باپ کی ہی بنیاد ہلا کر چلا گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
تیسرے سیشن کے بعد تو جیسے بنیاد ہی ہل گئی تھی۔۔ ہر جانب صرف حاد تھا۔۔۔تیسرے سیشن میں اس نے علما کرام کو مخاطب کیا تھا۔۔ آج کے امام کو آج کے اسلام کو۔۔۔کیا بنا دیا تھا انہوں نے اسلام کو۔۔
اور دوسرے سیشن سے کی سوشل میڈیا پر ایک ہلچل سی مچ گئی تھی جب ریکارڈنگ سامنے آئی تھی۔ اور پھر تیسرا سیشن تو تھا ہی ایسا کہ علما کرام تک ہل گئے تھے۔۔۔
وہ اسٹڈی روم میں بیٹھا تھا۔۔ آج اس نے پہلی دفعہ سوشل میـڈیا پر لائیو آنا تھا۔۔ جس مقصد کا آغاز وہ کرچکا تھا اس کے لیے ضروری تھا کہ گرم لوہے پر لگاتار ہتھوڑے مارے جائیں۔۔ وہ اسی تیاری میں لیپ ٹاپ آن کرکے بیٹھا جب اس کا فون بجنے لگا۔۔ یہ وہ نمبر تھا جس کے ذریعے وہ مختلف یونیورسٹیوں اور تنظیموں سے رابطہ کر رہا تھا۔۔
کوئی انجان نمبر تھا۔۔ اس نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
”ہیلو۔۔۔“ محتاط انداز میں کہا گیا۔
”سمجھتا کیا ہے تم اپنے آپ کو؟؟ آج کل کے لڑکے ہو کر ہمیں اسلام سکھانے چلے ہو؟؟“ یہ ایک مشہور اسلامی سکالر تھا جو غصے میں لگ رہا تھا۔ اسی اندازہ تھا کہ ایسا ہوگا۔۔ اتنی جلدی ہوگا اس کا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔ وہ ہولے سے مسکرادیا۔
”جب سے پیدا ہوا ہوں اسلام سیکھ رہا ہوں، اسلام جان رہا ہوں۔۔ دس سال لگائے ہوں گے آپ نے اسلام کی پڑھائی میں۔۔۔پچھلے پانچ سالوں سے آپ اسلام سکھا رہے ہوں گے یقیناً۔۔ میری عمر اٹھائیس سال ہے۔۔ اٹھائیس سال صرف میں نے سیکھا ہے اور سیکھ رہا ہوں۔۔ان اٹھائیس سالوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میری ماں نے مجھے اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد نہ دلایا ہو۔۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں کل کا لڑکا ہوں اور میں آپ سے کم اسلام جانتا ہوں۔۔؟؟؟“
وہ پرسکون انداز میں کہتا اگلے کو سلگا گیا تھا۔
”جو کرنے آئے ہو اس پر دھیان دو۔۔مشہور ہونا ہے تو ناچ گانا کرو۔۔ اسلام میں مت پڑو یہ تمہاری لائن نہیں ہے۔۔ ورنہ بہت نقصان اٹھاؤ گے۔۔“ دوسری جانب موجود شخص کا لہجہ تنبیہہ تھا۔
”بالکل۔۔ میری لائن آپ سے الگ ہے۔۔۔میں فرقہ بازی کرنے نہیں آیا۔۔۔نہ کسی پر فتوے لگانے آیا ہوں۔۔ میں پورے اسلام کو منظر عام پر لانے آیا ہوں۔۔۔“ اس نے نارمل لہجے میں صاف صاف اپنی بات سمجھائی۔۔۔دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا۔ اس نے گہرا سانس لے کر فون واپس رکھ دیا۔۔ اب وہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔۔ جہاں اس کا واحد سوشل میـڈیا اکاونٹ اوپن تھا۔۔ ”مسٹر گرے“ وہ پچھلے پانچ سالوں سے اپنے اکاؤنٹ پر ہر طرح کی تعلیمات دے رہا تھا۔۔۔چاہے وہ سائنس سے مطلق ہو ، نفسیات سے یا پھر اسلام سے۔۔ آج وہ پہلی بار سامنے آرہا تھا۔۔۔
آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار۔۔۔سوشل میڈیا۔۔۔۔
اور وہ اسے ہی استعمال کرنے والا تھا۔
✿••✿••✿••✿
شالی کب سے ہیزل کو فون کر رہی تھی لیکن وہ جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔مسلسل بجنے والی فون کی گھنٹی اسے ماضی کی یادوں سے کھینچ لائی تھی۔۔ آج بھی اگر اسے کوئی یاد آتا تھا تو وہ کائنات تھی۔۔ جانے اس کے گھر چھوڑنے کے بعد اس پر کتنا ظلم ہوا ہوگا۔۔ وہ اکثر یہ سوچتی تھی۔ پر کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ فون نے توجہ کھینچی تو اس نے برف ہوتے وجود کے ساتھ اپنے پاس فرش پر رکھا فون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔۔
”ہیلو میم۔۔۔ڈائریکٹر صاحب کافی ناراض ہیں۔۔ آج کی میٹنگ نہیں ہوئی میں نے ان سے آپ کی خراب طبیعت کا بہانہ بنایا ہے۔۔۔مجھے بتائیں اگلی میٹنگ کب کرنی ہے۔۔ ؟؟ آپ کے بہت سارے فوٹو شوٹس ہیں۔۔ شیڈول بزی جارہا ہے۔“
فکرمند سی شالی بول رہی تھی۔۔
”کینسل کردو۔۔“ اس نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
”کک۔۔کیا مطلب؟؟“ شالی الجھی تھی۔
”سارے پروجیکٹس سارے شوٹس کینسل کردو۔۔۔“ ٹھنڈے لہجے میں کہتی وہ اٹھ بیٹھی۔۔ ہونٹ، ہاتھ اور پیر نیلے پڑ چکے تھے۔۔۔ دوسری جانب شالی کو شاک لگا تھا۔۔ وہ جان گئی تھی ہیزل ہوش میں نہیں تھی۔
”میم آئی تھنک آپ ہوش میں نہیں ہیں۔۔۔میں کل صبح آکر بات کرتی ہوں۔۔“ وہ سمجھتے ہوئے بولی تو ہیزل چلائی۔
”میں نے کہہ دیا نا سب کینسل کردو۔۔ کچھ نہیں چاہیے مجھے۔۔۔آج سے سب ختم۔۔۔ ہیزل ختم۔۔۔“ وہ واقعی اپنےحواس میں نہیں تھی۔۔ وہ پوری وقت سے چلائی تھی اور پھر فون بند کرکے اپنے دائیں جانب سوئمنگ پول میں پھینک دیا۔۔۔ پھر وہ اٹھی۔۔۔ پاؤں اتنے سن ہوچکے تھے کہ وہ گرتے گرتے بچی اور پھر وہ خاموشی سے اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔
جبکہ دوسری جانب شالی سن بیٹھی رہ گئی تھی۔۔ اسے یقین نہیں ہوا تھا کہ یہ سب ہیزل نے کہا تھا۔۔ ہیزل ملک نے۔۔!!
✿••✿••✿••✿
یہ ایک چھوٹا سا پلے تھا۔۔ عبدل سے بار بار ڈائریکٹر کانٹیکٹ کر رہا تھا۔۔ فالن اینجل کے نام پر ایک گانا تھا جسے پلے کی فارم میں پیش کیا جانا تھا۔۔
” آپ اچھا گاتے ہیں اس سے اچھا آپ پرفارم کرلیں گے۔۔ ہم آپ کو منہ مانگی قیمت دیں گے آپ بس فالن اینجل کا رول پلے کرلیں۔۔“ عبدل سے بار بار ایک ہی درخواست کی جارہی تھی۔
”میں کسی عورت کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔۔“ اس نے عجیب وجہ بتائی تھی۔ ڈائریکٹر کچھ دیر خاموش رہا پھر سوچنے کے بعد بولا۔
”ٹھیک ہے ہم اس میں سے ہیروئن نکال دیتے ہیں۔۔ یہ کہانی صرف فالن اینجل کی ہے۔۔ صرف آپ کی ہوگی۔۔ آپ سے بہتر یہ کردار کوئی ادا نہیں کر سکتا۔۔“ عبدل نے پیسوں کی جگہ یہی ڈیمانڈ رکھی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی لڑکی نہ ہو۔۔ اور اسکی یہ شرط مان لی گئی تھی۔۔۔ وہ پہلی بار کسی پلے کا حصہ بننے جارہا تھا۔۔ اس کے چہرے پر چھائی سرد مہری ابھی تک کم نہیں ہوئی تھی۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کوئی لڑکی ہو جسے اسے چھونا پڑے۔۔
اسے ڈائکریکٹر نے میٹنگ کے لیے وینیو بھیج دیا تھا۔۔۔
کتنی عجیب بات تھی۔۔ ایک کردار اپنا سب کچھ کھونے جارہا تھا۔۔۔۔
اور ایک کردار نے آغاز کیا تھا۔۔۔
✿••✿••✿••✿
وہ خاموشی سے بستر میں دبکی پڑی تھی۔۔ اتنی سردی نہیں تھی جتنی اسے لگ رہی تھی۔۔۔اس کا وجود کانپ رہا تھا وجہ جو بھی تھی پر وہ آیت اس کے ذہن سے نہیں نکل رہی تھی۔۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی ایسے دلدل میں دھنستی جارہی تھی جہاں سے نکلنا ناممکن تھا۔۔
وہ خالی خالی دماغ لیے چھت کو گھور رہی تھی جب اسکا فون تھرتھرایا۔۔ اس نے دیکھا تو اس کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم ٹرانسفر ہوئی تھی۔۔ وہ حیرت اور اچنبھے سے موصول ہونے والے پیغام کو دیکھنے لگی۔۔ بھنویں سکڑ گئیں۔۔ آخر اتنی بڑی رقم کون بھیج سکتا تھا؟؟ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئی تھی؟؟
وہ اسی کشمکش میں تھی کہ فون بج اٹھا۔ یہ وہ نمبر تھا جس سے اسے اس دن میسج ملا تھا جب ماثیل سب چھوڑ کر جارہا تھا اور ایمان سے پوچھا گیا تھا کہ اگر وہ چلا جاتا تو اس کا زمہ دار کون ہوتا؟؟
اس کا دل کیا فون دیوار میں دے مارے۔۔۔فون نہ اٹھائے۔۔ دور کہیں چھپ جائے۔۔ یقیناً وہ حشام جبیل تھا جو نمبر بدل کر رابطہ کر رہا تھا۔۔ اس نے دوبارہ فون نہیں کیا تھا پھر آج؟؟
”السلام علیکم!“ اس نے فون کان سے لگایا۔
”وعلیکم السلام۔۔ رقم مل گئی آپ کو؟؟“ دوسری جانب سے پیشہ ورانہ طور پر پوچھا گیا جیسے اسے اس کی تنخواہ دی گئی ہو۔
”آپ حشام جبیل ہیں؟؟“ وہ آوازیں نہیں پہچان پاتی تھی۔ اس معاملے میں وہ تھوڑی کچی تھی اسی لیے پوچھا تھا۔
”باس بزی ہیں۔۔ میں ان کا اسسٹنٹ ہوں۔۔ آج سے میں ہی یہ سب دیکھوں گا۔۔ آپ مجھے کنٹیکٹ کر سکتی ہیں۔۔“
اس کا دل بجھ گیا۔۔۔مزید دکھی ہوگیا۔۔ وہ اس خاندان کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔۔ اپنا کام نکلتے ہی حشام جبیل نے اسے فون کرنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔۔ وہ جذباتی تھی۔۔۔اور اس وقت اس کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھرنے لگی تھیں۔
”مجھے پیسے نہیں چاہئیں۔۔“ گلے میں کچھ اٹک گیا تھا۔۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولی۔
”تو پھر کیا چاہیے آپ کو؟؟“ دوسری جانب سے حیرانی سے پوچھا گیا۔
”کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔ میں یہ سب پیسوں کے لیے نہیں کر رہی ہوں۔۔ مجھے اپنا احسان اتارنا تھا۔۔“ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔
”آپ اپنے باس کو بتادیجیے گا۔۔ میں کوئی غلام نہیں ہوں جسے وہ خرید لیں گے۔۔ اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں۔۔“ اس نے کھٹاک سے فون بند کردیا۔۔ اسے اب سانس لینے میں مشکل پیش آرہی تھی۔۔وہ اٹھ بیٹھی۔۔ آنسوؤں کو گرنے نہیں دیا۔۔ گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنا چاہا۔ وہ شدید دکھ میں تھی۔۔ کون کسی کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔۔؟؟
وہ اٹھی اور اٹھ کر اپنے کپڑے استری کرنے لگ گئی۔۔۔اسے صبح آفس جانا تھا۔۔ وہ خود کو ان سب چیزوں سے آزاد کرنا چاہتی تھی۔۔جب تک اس کا رزلٹ نہیں آجاتا اسے یہاں رکنا تھا۔۔ اور اس کے لیے جاب لازمی تھی۔۔کپڑے استری کرنے تک وہ خود کو کافی حد تک نارمل کر چکی تھی۔۔پر اس کا فون پھر سے بج اٹھا۔۔
ماثیل کا نمبر جگمگ کر رہا تھا۔۔۔وہ خالی دماغ لیے بیٹھ گئی اور فون کو گھورنے لگی۔ سوچتی رہی کہ فون اٹھائے یا نا۔۔ لیکن وہ بھی شاید ضد کرکے بیٹھا تھا کہ اس سے بات کرکے ہی سکون لے گا۔۔۔
بالآخر اس فون اٹھا ہی لیا۔۔
”کافی پیو گی؟؟“ وہ نارمل انداز میں بولا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔ جیسے وہ ذکر ہی نہ کرنا چاہتا ہو کہ وہ اس سے کیسے دور بھاگی تھی۔
”کیا تم مجھے کچھ اپنے بارے میں بتاؤ گی؟؟“ ماثیل نے پہلی بار اس سے اس کی ذات کے بارے میں پوچھا تھا۔۔ وہ اپنے بستر میں بیٹھ گئی۔۔ بیڈ سے ٹیک لگا کر۔۔ کمبل کو اپنے ارد گرد لپیٹ لیا۔
”میں چابی والی گڑیا جیسی ہوں جسکی چابی لگا دی جائے تو وہ ہنستی ہے بولتی ہے۔۔ اور چابی نکال لیں تو بےجان پڑی رہتی ہے اور جس کی چابی چند ایک لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔۔ جیسے کہ میری ماں۔۔“ وہ کسی ٹرانس کے زیراثر بول رہی تھی۔۔جیسے کوئی بچی رات کے اس پہر کسی خوف سے اپنے بستر میں دبکی پڑی ہو۔
20763628
”اور۔۔۔ بولو۔۔ میں سننا چاہتا ہوں۔۔“ وہ اپنی بالکونی میں کافی کا کپ تھامے کھڑا تھا۔
”اجنبی اور ایسے لوگ جو مجھے پسند نہیں ان کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔۔ ان کے لیے میں پتھر جیسی ہوں۔۔“
وہ ہولے سے مسکرادیا۔۔ وہ اس کے لیے پتھر ہی تھی۔۔ یا تو وہ اب تک ایمان کے لیے اجنبی تھا اس کی زندگی میں اب تک ماثیل کی جگہ نہیں بن پائی تھی۔
”کیسے لوگ پسند ہیں۔۔؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔
”اپنے جیسے۔۔۔“ ہولے سے جواب دیا گیا۔
”اور تم کیسی ہو؟؟“
”جسے کوئی ناپسندیدہ انسان یا پھر ایسا کوئی انسان جسے میں ناپسند ہوں، مجھےچھوئے تو جل کر خاک ہوجاؤں گی۔ ایسی ہوں میں۔۔“ وہ شدت پسند تھی۔۔۔ اتنی پسند کہ اپنی پسند کے علاوہ کسی کو دیکھتی ہی نہیں۔۔
”اور اگر میں چھوؤں؟؟“ وہ پتہ نہیں کیا سننا چاہتا تھا۔
”تو مرجاؤں گی۔۔۔“ ایمان نے اذیت سے آنکھیں موندھ لیں۔
”آخر کیوں۔۔؟؟؟“ دوسری جانب بھی ایسی ہی گہری اذیت تھی جس سے ماثیل کا وجود کٹ رہا تھا۔
”اتنا برا ہوں میں؟؟“ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔
”اچھائی برائی کی بات نہیں ہورہی۔۔ صحیح غلط کی بات ہورہی ہے۔۔“ وہ ہولے ہولے بول رہی تھی۔۔۔ اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں۔۔۔ ذہن کو سکون مل رہا تھا۔
”تمہیں لگتا ہے تم صحیح ہو؟؟“
”ہاں۔۔۔ جیسے آپ کو لگتا ہے آپ صحیح ہیں۔۔“ وہ بیٹھی تھی پھر دھیرے دھیرے سرک کر وہیں لیٹ گئی۔
”کبھی سوچا ہے کیا ہوگا اگر یہ سب جھوٹ ہوا تو؟؟“ ماثیل نے سوال کیا۔
”یہ سب۔۔ جنت جہنم۔۔ خدا۔۔۔سب جھوٹ ہوا تو۔۔؟؟ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہ ہوئی کوئی حشر نہ ہوا تو؟؟ کیا ملے گا تمہیں اپنی عبادتوں سے؟؟ اپنی نیکیوں کے عوض پھر کیا ملے گا۔۔؟؟“
”اگر یہ سب جھوٹ بھی ہوا تو مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔۔۔لیکن آپ سوچیں اگر یہ سب سچ نکلا تو کیا ہوگا؟؟ حشر واقعی ہوا تو کیا ہوگا۔۔۔؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا تو ماثیل خاموش رہ گیا۔
”آپکا نقصان ہوگا۔۔۔۔پتہ ہے کیا نقصان ہوگا۔۔؟؟“ وہ نیند کی کیفیت میں گویا ہوئی۔۔ اس کا سر بھاری ہورہا تھا۔
”جانتا ہوں جنت نہیں ملے گی۔۔“ وہ ہنسا تھا۔۔ اذیت بھری ہنسی۔
”نہیں۔۔۔۔ جنت شاید مل جائے۔۔۔ آپ کی کسی نیکی کے بدلے۔۔۔پر۔۔“ وہ رک گئی۔
”پر۔۔۔؟؟“ ماثیل الجھا۔
”آپ کو ایمان نہیں ملے گی۔۔۔“
اور ماثیل کی ریڑھ کی ہـڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔۔ کیا تھی وہ لڑکی۔۔۔ ایک پل کو اس نے سوچا اور پھر جھرجھری سی لی۔۔وہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔۔مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔
کتنے ہی پل خاموشی چھائی رہی۔۔ پھر اس نے ایمان کو پکارا۔۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔۔۔یقیناً وہ سوچکی تھی۔۔۔ماثیل نے فون بند کردیا کہ کہیں شور سے اسکی آنکھ نہ کھل جائے۔
”آخر آپ نے ایسا کیا کیا ہے مسٹر عبداللہ کہ آپ کی بیٹی مرد ذات سے اتنی بدگمان ہوچکی ہے۔۔“ وہ بالکونی میں کافی کامگ تھامے کھڑا تصور میں عبداللہ شہاب سے مخاطب تھا۔
✿••✿••✿••✿
عبداللہ شہاب دین
خود غرضوں میں ایک خود غرض۔۔۔ خود پرستوں میں ایک خود پرست۔۔
وہ عبداللہ تھا۔۔۔منتوں مرادوں سے مانگا گیا بیٹا۔۔۔
میر شہاب دین کی شادی مرہ سکینہ سے ہوئی تھی جو خوبصورتی میں کسی جمیلہ سے کم نہیں تھی۔۔۔شادی کے پانچ سال تک کوئی اولاد نہیں ہوئی۔۔ پھر اوپر تلے اللہ نے تین بیٹیاں دیں۔۔ سکینہ بی بی کو بیٹے کا شوق تھا۔۔ اللہ سے دعائیں کی، عبادتیں کی منتیں مانی، درگاؤں کے چکر لگائے پھر کہیں جا کر اللہ نے بیٹا دیا۔۔ چاند سا خوبصورت بیٹا۔۔ نہایت حسین۔۔۔ جس کے نام پر جنگ چھڑ گئی تھی خاندان میں۔۔ اور پھر آخر میں عبداللہ نام رکھا گیا۔۔
عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔۔ جسے اللہ نے حسن اور ذہن بہت دیا تھا۔۔۔ وہ بچپن سے ہی ذہین تھا۔۔ آرٹسٹ بننے کا شوق تھا جبکہ گھر والے چاہتے تھے پڑھ لکھ کر فوج میں چلا جائے۔۔۔ پر آرٹ سے جڑے لوگ باقی دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔۔ عبداللہ شہاب کو لکھنے کا شوق تھا اس کے علاوہ وہ ایک اچھا پینٹر تھا۔۔ دن بھر کتابیں پڑھنا، اچھا کھانا اچھا پہننا۔۔ بابو بن کر گھومنا۔۔ اس کے علاوہ اسے کچھ آتا ہی نہیں تھا۔۔نہ وہ فوج میں جا سکتا تھا نہ ہی جاب کر سکتا تھا۔۔ اس کے شوق الگ تھے۔۔۔ سردیوں میں لمبا اوورکوٹ پہن کر سگار سلگائے گھومتا تھا۔۔۔ شہاب دین کو باتیں سننے کو ملتی تھیں کہ خود تو نماز روزہ کرتا تھا۔۔ جبکہ بیٹا گوروں سے متاثر تھا۔۔ رنگ برنگی عورتوں کی تصویریں بناتا تھا۔۔ بیس بائیس سال کا ہوا تو گھر والوں نے تنگ آکر شادی کردی۔۔ان کا ماننا تھا کہ شادی کے بعد سدھر جائے گا۔۔۔ لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔۔ سلمی بیگم، عبداللہ شہاب کو ایک آنکھ نہ پسند آئی۔۔ سانولے رنگ کی ان پڑھ سلمی بھلا عبداللہ جیسے نوجوان کو کیسے پسند آتی۔۔خیر بیوی تو تھی ہی چوں چراں کے بعد عبداللہ شہاب نے سلمی بیگم کو بیوی مان ہی لیا۔۔ لیکن اسے بیویوں والی عزت اور مان کبھی نہ دیا۔۔ غصہ جس کا بھی ہوتا سلمی بیگم پر اترتا۔۔ یہاں تک کہ شادی کے چھ مہینوں ہی عبداللہ شہاب نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا تھا۔۔۔وہ گاؤں کی سیدھی سادی لڑکی تھی جو خاموشی سے سب سہہ جاتی اور پھر اپنی ساس کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی جس نے اپنے بیٹے کی جھوٹی تعریفیں کرکے سلمی بیگم کا رشتہ لیا تھا۔۔ اپنے بیٹے کو محنتی بنا کر پیش کیا تھا۔۔ چھپایا تھا کہ وہ عیاش تھا۔۔ وہ جواری تھا۔۔ کچھ نہیں بتایا تھا۔
شادی کے بعد تو جیسے عبداللہ شہاب اور آزاد ہوگیا تھا۔۔ کسی دوسرے شہر میں آرٹ کا کوئی بڑا مقابلہ چل رہا تھا۔۔ عبداللہ اپنی بیوی اور ہونے والے بچے کو چھوڑ کر چلا گیا۔۔
اور پھر چھ ماہ تک واپس نہ آیا۔۔۔ یہ مقابلہ کراچی میں تھا۔۔ چھ ماہ تک عبداللہ نے پلٹ کر اپنے گھر والوں کی کوئی خبر نہ لی۔۔۔ اس کی بیوی زندہ تھی یا مر گئی تھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔۔
کراچی میں عبداللہ کو ایمانے ملی۔۔۔۔وہ برطانیہ سے آئی تھی۔۔۔ ہاتھ لگائے میلی ہونے والی گوری Emmany Robert.. جو شخص یہ مقابلہ کروارہا تھا ایمانے اس کی خاص مہمان تھی۔۔ اس کا بولنا اس کا ہنسنا عبداللہ شہاب کو پاگل کرگیا تھا۔۔۔ ایمانے بھی عبداللہ شہاب کی وجاہت اور ذہانت دونوں سے متاثر ہوئی تھی۔۔ وہ دونوں جلد قریب آگئے۔۔۔
عبداللہ نے اپنی آرٹ کے بڑے بڑے نمونے پیش کیے۔۔۔وہ فائنل راؤنڈ میں پہنچ گیا تھا۔۔
وہ دونوں اکثر ساحل سمندر پر گھومتے پائے جاتے تھے۔۔ ایک دن بھی عبداللہ شہاب کو سلمی بیگم کا خیال نہیں آیا تھا۔۔۔ ایمانے جس شخص کی مہمان تھی وہ ایمانے کا جھکاؤ عبداللہ کی جانب دیکھ چکا تھا۔۔ اور یہ اس سے برداشت نہ ہوا۔۔ عبداللہ بہت خوش تھا۔۔ اسے یہ مقابلہ جیتنے کا بھوت سوار تھا۔۔ وہ ملک کا سب سے بڑا مصور بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔۔ پر خواب چکنا چور ہوگیا تھا۔۔جب اسے جان بوجھ کر ہرادیا گیا تھا۔۔
اسی شام اسے ایمانے نے بتایا وہ جلد شادی کر رہی ہے۔۔۔وہ اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ واپس جارہی تھی۔۔
عبداللہ شہاب کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔۔۔ایمانے چلی گئی اور وہ اپنی محبت اور اپنی مصوری دونوں ہار گیا۔۔۔
وہ ٹوٹے دل کے ساتھ واپس آیا تو سانولی سی سلمی بیگم ایک بچے کو تھامے بیٹھی تھی۔۔ خوبصورت سا بچہ جو اب بیمار دکھائی دے رہا تھا۔۔۔وہ رنگ و روپ میں باپ کی پرچھائی تھا۔۔۔ وہ اچانک ہی بیمار پڑ گیا تھا۔۔ عبداللہ واپس تو آگیا تھا لیکن گھر نہ آتا۔۔ آئے دن گھر میں اس کے نہ کمانے کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی تھیں۔۔ سکینہ نے سلمی بیگم کو الگ کردیا تھا۔۔ شہاب دین کے دو اور بیٹے تھے جو عبداللہ سے چھوٹے تھے اور سب ایک ساتھ رہتے تھے۔۔ پر سلمی بیگم اور ایک شیر خوار بچے کا رزق سب پر بھاری پڑگیا۔۔ سلمی بیگم ناجانے کتنے کتنے دن بھوکی رہتی تھیں پر اپنے بچے کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔ وہ اپنے مائیکے چلی گئیں۔۔ بچے کا بہت علاج کروایا پر اللہ کے حکم سے وہ بچ نہ پایا اور اللہ کو پیارا ہوگیا۔۔
عبداللہ شہاب کا بت پھر بھی نہ ٹوٹا۔۔۔ اس کا غصہ بھی سلمی بیگم پر اترا تھا۔۔۔ وہ بیچاری خاموشی سے سہتی رہی۔۔ اسکا قصور تھا کہ وہ اپنے شوہر کی ناپسندیدہ بیوی تھی۔۔۔ اسے تو ایمانے رابرٹ چاہیے تھے۔۔۔افسوس۔۔۔ جو نہ مل سکی۔۔
عبداللہ شہاب پھر سے کتابوں میں غرق ہوگئے۔۔۔ کبھی کبھی جواء کھیلنے چلا جاتا تھا۔۔جیت جاتا تو گھر میں عید ہوجاتی اور اگر ہار جاتا تو تشدد کا شکار سلمی بیگم ہوتی تھیں۔۔ جانے کتنی عجیب و غریب کتابیں پڑھی تھیں عبداللہ شہاب نے اسے خدا پر ہی شک ہونے لگا تھا۔۔
اب ان کا دھیان لکھنے کی طرف تھا۔۔ سلمی بیگم پھر امید سے ہوگئیں۔۔۔اس دوران عبداللہ شہاب نے ایک کتاب لکھی تھی۔۔۔ایمانے کے نام سے لکھی گئی یہ کتاب بہت مشہور ہونے والی تھی۔۔۔وہ جانتا تھا وہ اب ملک کا نامور رائٹر بننے جارہا تھا۔۔ عبداللہ شہاب بہت خوش تھا۔۔ وہ اپنی لکھی ہوئی کتاب لے کر دوسرے شہر گیا۔۔ وہ کسی بڑے پبلشر کو کتاب دے آیا تھا۔۔۔ ان کے ساتھ اگریمنٹ کرلیا تھا۔۔ ابھی کوئی پیسے بھی نہیں لیے تھے۔۔پر شاید ان کی قسمت اچھی نہیں تھی۔۔
عبداللہ شہاب کی کتاب ایمانے چھپ تو گئی تھی پر عبداللہ شہاب کے نام سے نہیں بلکہ کسی اور رائٹر کے نام سے۔۔۔ عبداللہ شہاب کے ساتھ پھر سے دھوکا ہوا تھا اور یہ دھوکا ان سے برداشت نہ ہوا۔۔
کسی نے ان کا یقین نہیں کیا۔۔۔ان کے پاس ایسا کوئی پکا ثبوت بھی نہیں تھا۔۔ وہ ایک اور صدمہ لے کر واپس آگیا۔۔۔اس بار سلمی بیگم کے ہاتھوں میں ایک چھوٹی سی ننھی پری تھی۔۔جس کا نام عبداللہ شہاب نے کتاب لکھتے وقت ہی سوچ لیا تھا کہ اگر بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا نام ام ایمان ہوگا۔۔
سلمی بیگم نے یہی نام درج کروایا تھا۔۔سلمی بیگم کو اپنے شوہر سے انسیت تھی۔۔ گھر والوں کے کہنے پر بھی انہوں نے طلاق نہیں لی تھی۔۔۔ وہ اپنے دوسرے بچے کو نہیں کھونا چاہتی تھیں۔۔۔ ام ایمان نے عبداللہ اور سلمی بیگم دونوں کا رنگ روپ چرایا تھا۔۔۔ وہ جسمانی لحاظ سے کمزور تھی کیونکہ اسے پینے کو کبھی کبھی دودھ بھی نہیں ملتا تھا۔۔ جو گھر والے دے دیتے وہ سلمی بیگم اپنی بچی کو پلا دیتی تھیں۔۔ سارا زیور، سارا قیمتی سامان عبداللہ شہاب جوئے میں ہار چکا تھا۔
عبداللہ شہاب نے پہلی بار بیٹی کو اٹھایا۔۔۔وہ بہت چھوٹی تھی نازک سی معصوم سی۔۔۔جو ہر طرح کی نفرت سے پاک تھی۔۔پھر عبداللہ شہاب کی نظر بچی کی گردن پر پڑی۔۔ دائیں جانب کندھے سے تھوڑا اوپر گردن پر مٹر کے دانے جتنے دو نشان تھے۔۔۔ سفید نشان۔۔ ان کا رنگ باقی جلد سے زیادہ سفید تھا۔۔ وہ دونوں ٹیڑھ میں اوپر نیچے تھے۔۔ عبداللہ شہاب چونک گیا۔۔ انہوں نےبچی کی گردن کو چھو کر دیکھا کہ کہیں پاؤڈر تو نہیں لگا ہوا پر وہ حقیقی نشان تھے۔۔۔عبداللہ شہاب نے سوالیہ نظروں سے سلمی بیگم کو دیکھا۔
”مجھے لگتا ہے پیدائشی نشان ہے۔۔“ سلمی بیگم نے آہستہ سے جواب دیا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی عبداللہ نے پھینکنے والے انداز میں ننھی گڑیا کو خود سے دور کیا۔ سلمی بیگم نے تڑپ کر اسے تھاما۔۔۔ عبداللہ شہاب کے چہرے پر نفرت تھی۔۔۔بلا کی نفرت۔۔۔ اور پھر کبھی عبداللہ شہاب نے اپنی بیٹی کی جانب نہیں دیکھا۔۔۔ یوں جیسے وہ کوئی غلیظ چیز ہو۔۔نفرت کے قابل۔۔ اور اس کے بعد ام ایمان کو اپنے باپ عبداللہ شہاب دین سے صرف نفرت ہی ملی تھی۔ وجہ وہ نہیں جانتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
آج اس کا آفس میں پہلا دن تھا۔۔ صبح صبح سلمی بیگم سے دعائیں لے کر وہ آفس چلی آئی تھی۔۔ اسے ایڈمن میں رکھا گیا تھا وجہ وہ پہلے انسٹیٹیوٹ میں اس کا تجربہ حاصل کرچکی تھی۔۔ یہ کمپنی بـڑی تھی۔۔ پہلے ہی دن کام کی نوعیت دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔۔ اتنا زیادہ کام تھا جوصرف اسے ہی کرنا تھا۔۔ اسے یہ سب سیکھنا تھا۔۔بہت کچھ اس کے لیے نیا تھا۔۔ وہ پوری توجہ سے کام پر فوکس کرنے لگی۔۔
اسے ایک لڑکی یہ سب کام سکھا رہی تھی۔۔ اور وہ جلد سب سیکھ لینا چاہتی تھی۔۔
لنچ آفس کی طرف تھا۔۔ اس نے لنچ کیا اور اس کے بعد پھر سے اپنی سیٹ پر آگئی۔۔ اسے جو لڑکی کام سکھارہی تھی وہ اچھی تھی۔۔ اس کی نیت صاف تھی۔۔۔اس نے جو سیکھا تھا وہ جانے سے پہلے سب ایمان کو سکھا دینا چاہتی تھی۔وہ لنچ کے بعد چائے پی رہی تھی جو انہیں ان کے ٹیبل پر مل گئی تھی۔۔۔ اچانک ہی اڈھیر عمر آدمی ان کے پاس آیا۔۔
”آپ دونوں میں سے رائٹر کون ہے؟؟“ آدمی نے سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا۔۔ یہ شخص بھی پاکستانی تھا۔
”جج۔۔جی میں ہوں۔۔“ ایمان کھڑی ہوگئی۔
”گڈ جاب بیٹا۔۔ میں آپ کا لکھا شوق سے پڑھتا ہوں۔۔“ انہوں نے تھمب اپ کا نشان بنا کر ایمان کی تعریف کی۔۔۔ایمان پہلے تو حیران ہوئی اور پھر اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔۔ کبھی کسی نے یوں اس کے کام کی تعریف نہیں کی تھی۔۔ اسے اپنا آپ تروتازہ محسوس ہوا۔۔ اور وہ دوبارہ توجہ کام کی جانب مبزول کرتی بیٹھ گئی۔ پر چہرے پر مسکان تھی۔
✿••✿••✿••✿
20757800
”آپ لوگ مجھے بتائیں کہ آپ لوگ ایک ٹرین میں بیٹھے ہیں اور وہ ٹرین سیدھا جارہی ہے اچانک آپ لوگوں کو خبر ملے کہ ٹرین آگے کھائی میں گرنے والی ہے تو آپ لوگ کیا کریں گے؟؟“ وہ لائیو تھا۔۔۔ بہت ساری عوام اسے سن رہی تھی۔۔ جن میں زیادہ نوجوان تھے۔۔۔اور النور اکیڈمی کے بہت سارے اسٹوڈنٹس جو اسے دل و جان سے سنتے تھے اس وقت سوال و جواب کر رہے تھے۔
”اس ٹرین کا ڈرائیور مر چکا ہے۔۔ کھڑکیاں دروزے کھل چکے ہیں۔۔ اب بتائیں آپ لوگ کیا کریں گے؟؟؟ ٹرین کے ساتھ ہی کھائی میں گرجائیں گے، کھڑکیوں سے کود جائیں گے یا پھر کیا کریں گے؟؟“ وہ سوال پوچھ رہا تھا اور کمینٹس میں لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔۔ سب سے نے ٹرین سے کود جانے کا کہا تھا۔
”ان کمزور بچوں اور بزرگوں کا کیا جو کودنے کی طاقت نہیں رکھتے؟؟ کیا آپ انہیں مرنے دیں گے؟؟ کھائی میں گرنے دیں گے۔۔؟؟“ اس نے اگلا سوال کیا۔
”ہمیں نہ تو کودنا ہے نہ ہی ٹرین کے ساتھ کھائی میں گرنا ہے ہم نے ٹرین کا رخ بدلنا ہے۔۔ سمجھ آرہا ہے نا؟؟ اس وقت امت مسلمہ اسی ٹرین میں سوار ہے جو تیزی سے جہنم کی جانب بڑھ رہی ہے۔۔ ہم اپنا اپنا سوچ کر تزکیہ نفس کرنے نہیں بیٹھ سکتے۔۔ ہم ان لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے جیسے ہمارے ماں باپ جنہیں اسلام کا صحیح رخ پتہ ہی نہیں ہے۔۔ ہمیں اپنا ٹریک بدلنا ہے۔۔ ہمیں صحیح اسلام سامنے لانا ہے۔۔۔ ہم کس گیم کا حصہ بن چکے ہیں اور کون یہ گیم کھیل رہا ہے ہمیں اس سب کا پتہ لگانا ہے اور یہ آپ لوگ کر سکتے ہیں۔۔ پاور آف نمبرز کا اصول پتہ ہے نہ آپ کو؟؟ آپ لوگ دنیا ہلا سکتے ہیں پر پہلے خود کی پہچان کرلیں۔۔خود کو پہچان لیں۔۔“ وہ بولتا تھا تو رکتا نہیں تھا۔
”سر میرے والد نے آج مجھے گھر سے نکال دیا ہے صرف اس وجہ سے کہ میں نے ان سے صحیح اسلام کو پوچھا۔۔ مجھے بتائیں میں کیا کروں۔۔میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں صحیح اسلام کو جاننا چاہتا ہوں۔۔“ سعد نامی لڑکے نے کمینٹ کیا تھا۔ حاد کی نظر پڑ گئی تھی۔
”سعد۔۔۔ سعد۔۔“ اس نے سعد کو مخاطب کیا۔
”اگر رہنے کا کوئی مسئلہ ہے تو میرے گھر کے دروازے کھلے ہیں۔۔۔پر اپنے ماں باپ کا احترام کبھی نہ بھولنا۔۔ وہاں تک کرو جہاں تک اللہ کی نافرمانی نہ ہورہی ہو۔۔“ سیشن پچھلے دو گھنٹے سے جاری تھا لیکن اس سیشن میں وہ نہیں تھی جو مسٹر گرے سے اپنے سارے سوال پوچھتی تھی۔ اپنی الجھنیں لے کر آجاتی تھی۔۔۔ اس نے آنلائن نہیں آئی اور نہ وہ دیکھ پائی تھی کہ مسٹر گرے اصل میں کون تھا۔
✿••✿••✿••✿
اسکا آفس کا پہلا دن اچھا گزر گیا تھا۔۔ وہ جب واپس اولڈ ٹاؤن پہنچی تو اسٹیشن پر ہی ماثیل اسے مل گیا تھا۔۔۔ وہ اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔ ایمان اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔۔ شام کے وقت ٹھنــڈی ہوا چل رہی تھی۔۔ اس نے اپنی شال کو درست کیا اور آگے بڑھی۔
”کیسا گزرا پہلا دن؟؟“ وہ اسے دیکھتے پوچھ رہا تھا۔۔ آج اس نے ایک کھلا ٹراؤزر اور قمیص پہن رکھی تھی اوپر موٹا سکارف سلیقے سے لے رکھا تھا جبکہ ایک شال کندھوں پر ڈال رکھی تھی۔ وہ کافی تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔
”اچھا تھا۔۔“ ایمان نے اسے اپنا آف ٹائم بتایا تھا اور اسی وقت وہ اس کا انتظار کرتے پایا گیا تھا۔
”میں نے سوچا تم اکیلے واک کرکے آؤ گی تو تمہیں لینے آجاتا ہوں۔۔“ وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
”پیدل ہی لینے آگئے؟؟“ ایمان نے سوال کیا۔
”ہاں کیونکہ گاڑی نہیں رہی۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔
”نہیں رہی مطلب۔۔؟؟“ ایمان نے رک کر حیرت سے پوچھا۔
”کل رات میں جوئے میں ہار گیا۔۔“ وہ سر پر ہاتھ پھیرتے بتارہا تھا۔۔ جبکہ ایمان تو ساکت رہ گئی۔۔ وہ اب بےیقینی سے ماثیل کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر اپنی اتنی مہنگی گاڑی کھونے کا افسوس تک نہیں تھا۔
”تمہیں پتہ ہے انسان کے بعد کائنات کا دوسرا بڑا نشہ Gambling یعنی جواء ہے۔۔ بہت برا نشہ ہے یہ۔۔“ وہ ایمان کے اندر چلتے طوفانوں سے بےخبر آرام سے بتارہا تھا۔۔ رات اس کے سو جانے کے بعد وہ جواء کھیلنے چلا گیا تھا۔۔۔وہ جب ذہنی طور پر پریشان ہوتا تھا تو ہار جاتا تھا۔۔ اور وہ کل رات اپنی قیمتی گاڑی ہار گیا تھا۔۔
منظر جیسے بدل گیا۔۔۔ویلینسا غائب ہوا اور ماثیل بھی۔۔ وہ اب اپنے سرخ ٹائیلوں کے صحن والے گھر میں تھی۔۔
اس کا باپ لڑ رہا تھا۔۔ جھگڑ رہا تھا
”گھٹیا عورت مجھے انکار کرتی ہے۔۔۔مجھے پیسے دینے سے منع کرتی ہے۔۔۔ مجھے جواء کھیلنے سے روکتی ہے۔۔“ اس کا باپ سب کچھ جوئے میں اڑا چکا تھا۔۔ سلمی بیگم کے پاس صرف ایک انگوٹھی بچی تھی جو انہوں نے ایمان کے لیے سنبھال کر رکھی تھی۔۔اس کے باپ کو پتہ چل گیا تھا اور اب وہ جواء کھیلنے کے لیے انگوٹھی مانگنے آیا تھا۔۔ انکار کرنے پر اب وہ سلمی بیگم کو مار رہا تھا۔۔ سلمی بیگم نے ایمان کو کمرے میں بند کردیا تھا۔۔
وہ دروازے کے ساتھ سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔۔ چھوٹی سی بچی جو اپنی ماں کو مار کھاتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔جو اپنے پڑھے لکھے باپ کی جاہلانہ زبان سن رہی تھی۔۔۔
وہ اب وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔۔خوف سے اس کے چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔
”ایمان۔۔۔ ایمان۔۔۔“ ماثیل کے بار بار پکارنے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی تھی۔۔ اس کا حلق سوکھ چکا تھا۔۔ پیاس سے کانٹے اگ آئے تھے۔۔۔پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوئی تھیں۔۔ وہ اب بےیقینی سے اپنے چاروں جانب دیکھنے لگی۔
بچپن تھا گزر گیا تھا پر وہ اسی بچپن میں کہیں کھو کر رہ گئی تھی۔۔
”تم ٹھیک ہو۔۔؟؟“ ماثیل نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔ وہ ایک قدم پیچھے ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔۔
اس کے سامنے کھڑا وہ شاندار شخص گیمبلنگ کرتا تھا۔۔ وہ ایک جواری تھا۔۔ ایمان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔۔ وہ اس زندگی کو دوبارہ نہیں جینا چاہتی تھی۔۔ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔۔۔وہ اپنی زندگی میں ایک اور عبداللہ شہاب کو نہیں برداشت کرسکتی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔۔“ اس نے بمشکل خود پر قابو پایا۔ پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا اور پھر سے چلنے لگی۔۔ دس منٹ کی واک میں اسکا ذہن الجھا رہا۔۔ جبکہ ماثیل اب کسی اور موضوع پر گفتگو کر رہا تھا۔۔ وہ جان گیا تھا ایمان اس کے جواء کھیلنا کا سن کر پریشان ہوگئی تھی اسی لیے اس نے اب موضوع بدلنا چاہا۔
”ادھر دیکھو میری جانب۔۔“ اسکی بات پر ایمان نے پلٹ کر اسے دیکھا جو اس سے دو قدم پیچھے کھڑا تھا، پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ فرصت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا، ایمان کی آنکھوں میں الجھن ابھری۔
”غور سے دیکھ لو مجھے، کتنا ہینڈسم ہوں نا، یقین کرو مجھ سے زیادہ ہینڈسم اور چاہنے والا تمہیں نہیں ملے گا۔۔“ وہ زیرلب مسکراہٹ دبائے اسے تنگ کر رہا تھا، ایمان سٹپٹا کر چہرے کا رخ موڑ گئی۔
“آپ سے کس نے کہا مجھے ہینڈسم چاہیے؟“
”ہینڈسم نہیں چاہیے؟“ اس نے ایمان کے ہمراہ چلتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔۔“
”ذہین۔۔؟“
“نہیں۔۔۔“
”تعلیم یافتہ؟“
”نہیں۔۔“ ایمان نے گہرہ سانس لیا۔
اب وہ سوچ میں پڑ گیا تھا۔
“محبت کرنے والا؟؟“
اس بار ایمان کے قدم ساکت ہوئے۔ شوہر کو اپنی بیوی سے محبت ہونی چاہیے۔۔۔ورنہ زندگی گزارنا مشکل ہوجاتی ہے۔
”ہاں شاید محبت کرنے والا چاہیے۔۔“ وہ بےیقینی کی سی کیفیت میں بولی۔
”ہاں تو محبت بھی تو کرتا ہوں تم سے۔۔“
وہ پرسکون ہوا تھا۔
”آپکو لگتا ہے آپ محبت کرتے ہیں؟؟“
سوال کیا گیا۔ وہ اب اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
”میری محبت پر کوئی judgement مت دینا ایمان ورنہ میں برا پیش آؤں گا۔۔“ اسکی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے وہ تپا۔
”اچھا نہیں کر رہی جج۔۔“
وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے بچوں کو دیکھنے لگی جو کچھ فاصلے پر اپنے گھر کے لان میں کھیل رہے تھے۔
”ہمارے بچے بھی اتنے پیارے ہو سکتے ہیں، سوچ لو۔۔“
وہ اسکی نظروں کے زاویے میں دیکھتے ہوئے بولا۔
”یہ کس نے کہا؟“
”میں نے۔۔“
”آپکو کیسے پتہ؟“
“میں اتنا ہینڈسم اور تم بھی ٹھیک ٹھاک ہو تو۔۔“
ایمان کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت بولا اور بات ادھوری چھوڑی دی۔
وہ اب تیوری چڑھائے اسے گھور رہی تھی۔
”کیا ہوا۔۔“اس نے کندھے اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک ٹھاک مطلب۔۔؟“
”مطلب میں زیادہ ہینڈسم ہوں، تم پیاری ہو لیکن میرے جتنا نہیں، خیر کوئی بات نہیں گزارا ہوجائے گا۔۔“
وہ اب اسے جان بوجھ کر تنگ کر رہا تھا تاکہ وہ اپنی سوچ سے باہر نکل سکے۔
”امیزنگ۔۔ تو جائیں پھر کوئی حسین ترین لڑکی ڈھونڈ لیں نا۔۔“
وہ پھر سے چلنے لگی۔ وہ اسکے پیچھے لپکا۔
”نہیں میں کافی ہینڈسم ہوں تو ایسے ہی بیلنس ہوجائے گا۔۔“
وہ مسکراہٹ دبائے کہہ رہا تھا۔
”نہیں اب خوبصورت ہی ڈھونڈیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔۔“ وہ سنجیدہ تھی۔
”یقین کرو میں نے تو تمہیں ڈھونڈا ہے اور بہت وقت لگا ہے، اب میرے پاس وقت نہیں ہے تم ڈھونڈ دو۔۔“ وہ اسے تنگ کرنے کا پورا ارادہ کرکے آیا تھا۔
”کیسی لڑکی چاہیے آپکو؟“
”تمہارے جیسی۔۔“
“یعنی فیک (fake)“
وہ طنزیہ لہجے میں بولی، ماثیل کا قہقہہ بلند ہوا تھا، اب وہ خشمگیں نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی۔ اسے یاد تھا ماثیل نے اسے فیک کہا تھا۔۔ وہ کہتا تھا جو تم اندر سے اسے چھپا کر رکھتی ہو۔
”ہاں فیک بھی چلے گی، جب وہ میرے ساتھ رہے گی تو خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔۔“
”آپ سے شادی کرنا کون چاہے گا؟“
”یقین کرو بہت سی حسینائیں ایسا چاہتی ہیں۔۔“
”ہاں تو کرلیں، روکا کس نے ہے آپ کو؟“
”مجھے کسی میں دلچسپی نہیں رہی۔۔“
وہ صاف گوئی سے بتارہا تھا۔
”تو آپ کو کیا چاہیے؟“
وہ بےبسی سے بولی تھی، مقابل سے وہ کبھی جیت نہیں سکتی تھی۔
”تم۔۔۔۔!!“ تم نے سینے پر بازو جمائے فرصت سے کہا۔ ”کیونکہ ادھم کو ایمان کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔۔ ایمان کی وہ روشنی جو ادھم کے اندھیرے کو کم کر سکے۔۔۔“
وہ اب پوری سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا، وہ اسکی سچائی سے نظریں چرا گئی، بلاوجہ ہی اُدھر اِدھر دیکھنے لگی۔۔
”اوکے اب میں چلتا ہوں کچھ کام ہے،بائے۔۔“
وہ سنجیدگی سے کہتا بنا اسکی بات سنے واپس مڑ گیا تھا۔ایمان نے بےبسی سے اسے جاتے دیکھا تھا، وہ ایسا ہی تھا کبھی چھاؤں تو کبھی دھوپ سا۔۔ اس کا ہاسٹل بھی آگیا تھا۔
سردی کا احساس ہوا تو وہ شال درست کرتی آگے بڑھ گئی تھی۔
وہ کس منزل کی راہی تھی
اور اب کن راہوں پر بھٹک رہی تھی
وہ خود نہیں جاتی تھی۔۔!!“

1 Comments

  1. Amazing novel
    Thanks for the update
    Very interesting and informative novel
    I love this novel ❣️❣️❣️❣️
    Story was amazing and wonderful
    Thanks again Urdu novel Bank
    ❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post