Maseel novel episode 31 - suilphite 02

 

Maseel novel episode 31


لاس فالاس کے ننوٹس
(بنا اجازت کاپی پیسٹ کرنا، کسی گروپ یا ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنا منع ہے!)
عبدل کے اپارٹمنٹ سے کار تک کا فاصلہ اس نے کیسے عبور کیا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔ اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ عبدل نے اسے ”ایمان خراب کرنے“ والی کہا تھا۔۔ گاڑی کی طرف بڑھتے اس کے قدموں میں واضح لرزش تھی۔۔ اور سانس تو ابھی تک سینے میں ہی اٹکا تھا۔۔ ڈرائیور نے اسے آتے دیکھ کر دروازہ کھولا اور وہ کسی روبوٹ کی طرح گاڑی میں بیٹھ گئی۔
”جلدی چلو ہم لیٹ ہورہے ہیں۔۔“ شالی نے ڈرائیور سے کہا تو وہ فوراً بول پڑی۔
”واپس چلو۔۔“ میکانکی انداز تھا۔۔ اس کی نظر گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پر جمی تھی۔۔ شالی نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ وہ جو پہلے ہی اس کے اتنی جلدی واپس آنے پر حیران تھی اب اس کی اڑتی رنگت دیکھ کر پریشان ہوئی۔
”لیکن میم ہم تو۔۔“
”کہا نا واپس چلو۔۔“ وہ اتنی زور سے چیخی کہ شالی گڑبڑا گئی۔۔ ڈرائیور نے گاڑی واپس موڑ لی۔۔ عبدل نے اپنی کھڑکی سے اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا۔۔ پھر اس نے گہرا سانس خارج کیا۔۔ گاڑی فراٹے بھرتی اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
✿••✿••✿••✿
آخرکار ایک لمبی محنت کے بعد ایمان نے اپنا پروجیکٹ آج پیش کردیا تھا۔۔ بلاشبہ اس کا کام ستائش بخش تھا۔۔ اس نے بہت محنت کی تھی اور اس میں اس کے پروفیسر کا برابر کا ہاتھ تھا۔۔ انہیں ایمان ذہین لگتی تھی ان کا ماننا تھا کہ اگر وہ تھوڑی محنت مزید کرتی تو بہت آگے تک جا سکتی تھی۔۔ آج اس نے کانفرنس ہال میں اپنی پریزنٹیشن پیش کی تھی اور وہ حیران تھی کہ اتنے بڑے بڑے پروفیسروں کے بیچ اس نے یہ کیسے کرلیا تھا۔۔۔؟؟
یہ وہ تجربہ تھا جو اسے ماثیل انسٹیٹوٹ میں جاب سے ملا گھا اگر اس نے جاب نہ کی ہوتی۔۔ لوگوں سے بات چیت نہ کی ہوتی تو وہ یہ کبھی نہ کر پاتی۔۔۔ جاب انسان میں اعتماد لاتی ہے اور یہ اعتماد ایمان میں بھی آیا تھا۔۔ اس کی پریزنٹیشن کے آخر میں ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا۔۔ وہ بائیوڈائیورسٹی میں ایسے ہی نہیں آئی تھی۔۔ اسے گزرے زمانوں تک سے دلچسپی تھی تو پھر زمانوں کی مخلوق سے کیوں نہ ہوتی۔۔۔؟؟
وہ پریزنٹیشن دے کر باہر نکلی تو اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔۔ وہ اس وقت پیروں کو چھوتی سرمئی رنگ کی گرم فراک پہنے ہوئی تھی۔۔ موٹے کپڑے کی فراک جس کے اوپر اس نے سیاہ بلیزر پہن رکھا تھا جو اسے آفیشل لک دے رہا تھا۔۔ سرمئی اور سیاہ رنگ کے سکارف کو سر پر اوڑھے وہ بھلی لگ رہی تھی اور پیروں میں سیاہ جوتے تھے۔۔ سیاہ Loafer جن کی ہیل ایک انچ کی تھی۔۔ وہ فلیٹ جوتے نہیں پہنتی تھی سوائے اسنکیرز کے۔۔ اس کے پاؤں اور ایڑھیاں فلیٹ جوتوں میں درد کرناشروع ہوجاتی تھی۔۔ یونیورسٹی کے شروع کے دنوں میں جب اس کے پاؤں میں مسلسل درد رہنے لگا تو ڈاکٹر نے اسے ہمیشہ ایک انچ اونچی آرام دہ ہیل والے جوتوں کا مشورہ دیا۔۔۔ وہ جرابیں نہیں پہن کر نہیں آئی تھی۔۔ سیاہ جوتوں میں اب اس کے پاؤں چمک رہے تھے۔۔ اس کی فراک پاوں کو چھو رہی تھی۔۔ یہ عام فراک جیسی نہیں تھی یہ میکسی اسٹائل تھا۔۔ وہ اچھی ڈریسنگ کرتی تھی۔۔ اس کی پسند کپڑوں کے معاملے میں اچھی تھی۔
”تم نے اچھا کام کیا ہے۔۔“ یہ جان تھا۔۔ اسے حیرت ہوتی تھی کہ وہ اب تک یونیورسٹی میں کیا کرنے آتا تھا۔۔ اس کا ایم فل مکمل ہوچکا تھا۔۔ کائنات اور عبدل اس کے ہی کلاس فیلوز تھے۔۔ وہ دونوں جا چکے تھے پر جان یہاں کیا کر رہا تھا۔ ایمان نے بھی جان سے کبھی عبدل کا نہیں پوچھا۔۔اسے یقین تھا وہ اپنی زندگی میں خوش ہوگا۔۔
آج پندرہ مارچ تھی۔۔ سردی کی شدت میں واضح کمی ہوئی تھی۔۔ باہر نکل کر اس نے بلیزر یعنی کوٹ اتار لیا۔۔کوٹ زیادہ موٹا نہیں تھا۔۔ پر اسے اب گرمی کا احساس ہونے لگا تھا۔۔ یہ پندرہ دن اس نے جیسے باہری دنیا سے کٹ کر گزارے تھے۔۔۔سوائے سلمی بیگم اور پروفیسر اس کی کسی سے اتنی بات نہیں ہوئی تھی۔۔ ماثیل سے بھی نہیں۔۔ وہ باقاعدگی سے اسے میسج کرتا تھا اور کھانا وقت پر کھانے کی تلقین کرتا اور خیال رکھنے کا کہتا تھا۔
وہ جیسے اولڈ ٹاؤن پہنچی تو وہاں کی گلیاں دیکھ کر اسے خوشی کا احساس ہوا۔۔۔ لاس فالاس Las Fallas تہوار کے لیے ساری گلیاں سجی پڑی تھیں۔
ہسپانوی تہواروں میں سے ایک مقبول ترین تہوار ویلنسیا میں لاس فالاس تھا، ایک پانچ دن کی اسٹریٹ پارٹی جس میں شاندار آتش بازی اور لائٹ شوز ہوتے تھےجس کا اختتام ہر چیز کو آگ لگانے کے ساتھ ہوتا تھا۔ اولڈ ٹاؤن کی تمام گلیاں ننوت Ninots سے بھری پڑی تھیں۔۔ خوبصورت ننوت جو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔۔ پتھریلی زمین پر وہ قدم قدم آگے بڑھ رہی تھی۔۔ بیگ کندھے پر جبکہ اپنا کوٹ بازو پر ڈالے وہ پرشوق نگاہوں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
اس تہوار کی ابتداء غیر یقینی تھی یعنی کسی کو نہیں پتہ تھا یہ کب کہاں سے شروع ہوا، لیکن چند اہم نظریات موجود تھے۔ سب سے مشہور ورژن میں کہا گیاکہ لاس فالاس ایک صدیوں پرانی ویلنسیائی روایت سے آیا ہے جس میں شہر کے بڑھئی یعنی کارپینٹر پرانے سامان کو جلا دیتے تھے جس کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی تھی سینٹ جوزف کے دن سے پہلے پہلے۔ وہ لکڑی کے ان آلات کو بھی جلا دیتے تھے جو تیل کے لیمپوں کو جلانے کے لیے استعمال ہوتے تھے جن کا استعمال انہیں رات کو کام کرنے کے لیے کرنا تھا(مشعلوں میں جلنے والے یہ آلات بالکل طوطوں کی شکل کے ہوتے تھے)۔چونکہ یہ تہوار موسم بہار کے ایکوینوکس کے آس پاس منایا جاتا یے، اس لیے سال کے اس موڑ پر دن زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں اور سورج کی روشنی کے اضافی گھنٹون کا مطلب یہ تھا کہ بڑھئیوں کو دیر گئے تک کام کرنے کے لیے تیل کے لیمپ کی روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
ایک اور نظریہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عمل قدیم زمانے سے تعلق رکھتا تھا، اس قدیم روایت سے ہے کہ سماوی اور سالسٹیز (یعنی موسموں کی تبدیلی) کو منانے کے لیے آگ لگائی جاتی تھی اس خیال میں، لاس فالاس موسم بہار کا جشن منانے والی آگ کی ایک پرانی روایت سے آتا ہے۔ آخر میں، ایک پرانی یورپی روایت ہے جس میں کسی چیز یا شخصیت کی نمائندگی کرنے والی گڑیا یعنی ننوت کو آگ میں پھینکنے سے پہلے بالکونیوں یا پوسٹوں سے لٹکا دیا جاتا تھا۔ یہ نظریہ لاس فالس کی طنزیہ نوعیت کی وضاحت کرتا ہے جیسا کہ یہ آج منایا جاتا ہے۔
اب فالاس کی تقریبات آرٹ کے عارضی کاموں میں تبدیل ہو گئی ہیں جن پر بعض صورتوں میں لاکھوں یورو لاگت آتی ہے۔ شہر کے ہر محلے میں لوگوں کا ایک منظم گروپ ہوتا Casal faller کے نام سے تھا جو سارا سال فنڈ ریزنگ کرتا تاکہ پارٹیوں اور ڈنر کے انعقاد کا انعقاد کرسکے۔ جس میں عام طور پر مشہور ڈش پائیلا بنائی جاتی۔ ہر کیسل فالر ایک ایسی ننوت تیار کرتا تھا جسے فالہ کہا جاتا ہے جسے آخر کار جلا دیا جاتا تھا ایک casal faller کو Comissió fallera بھی کہا جاتا ہے اور اس وقت والنسیا میں تقریباً چار سو رجسٹرڈ ہیں۔
ویلنسیا، تقریباً اسی لاکھ کی آبادی کے ساتھ ایک پرسکون شہر تھا جس کا سائز دگنا سے بھی زیادہ ہوجاتا تھا جب آگ سے محبت کرنے والے دس لاکھ سے زیادہ لوگ لاس فالاس کی تقریبات کی طرف متوجہ ہوتے تھے بالکل ایسے ہی جیسے کیڑے شعلے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
یہ تہوار پانچ دن، پندرہ سے انیس مارچ تک جاری رہتا تھا لیکن فضا کچھ ہفتوں پہلے بننا شروع ہو جاتی تھی یعنی یکم مارچ سے شروع ہو کر انیس مارچ تک جاری رہتا تھا ایک گرجدار آتش بازی کا شو جسے mascletà کہا جاتا تھا ہر روز دوپہر دو بجے منعقد کیا جاتا تھا پلازہ ڈیل آیونٹیمینٹو میں۔ پٹاخے اگلے دس منٹ تک زمین کو ہلاتے تھے، کیونکہ mascletá بصری کے بجائے ایک آڈیٹو یعنی سماعتی تجربہ تھا۔پندرہ سے انیس مارچ تک ہر رات ناقابل یقین بصری آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
تہوار پندرہ مارچ کو لا پلانٹا کے ساتھ شروع ہو جاتا تھا جب شہر کے ارد گرد سات سو سے زیادہ ننوٹس (کٹھ پتلی یا گڑیا) لگائے جاتے تھے۔ اور زیادہ تر سڑکیں ٹریفک کے لیے منقطع ہو جاتی تھیں۔
بہت سے لوگوں کے لیے، لاس فالس کا بنیادی مرکز نینوٹس کی تخلیق اور تباہی تھا۔ جو پیپر ماچ، گتے، لکڑی یا پلاسٹر سے بنے ہوئے بڑے مجسمے ہوتے تھے۔ ننوٹس انتہائی جاندار لگتے تھے یوں جیسے وہ بالکل زندہ ہوں اور عام طور پر کسی بدتمیزی، طنزیہ مناظر اور موجودہ واقعات کی عکاسی کرتے تھے بہت سے ننوٹس کئی منزلہ لمبے ہوتے تھے، اور انہیں ویلنسیا کے پارکوں، پلازوں اور چوراہوں میں ان کے آخری مقامات پر لے جانے کے لیے کرینوں کی ضرورت پڑتی تھی ہر فال کی کثیر جہتی کہانی بنانے کے لیے کئی نینوٹس کو ایک ساتھ ترتیب دیا جاتا تھا۔
اگلے چند دنوں میں، لوگ شہر کے ارد گرد چہل قدمی کرتے ہوئے، تخلیقی شاہکاروں کی فنکاری اور مزاح کی تعریف کرتے ہوئے اور ہر گلی کے کونے پر (بظاہر) فروخت ہونے والی روایتی پیسٹریوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔لوگ انتہائی مستند مقامی تجربے کے لیے، ایک کپ چاکلیٹ کے ساتھ ویلنسیئن کلاسک بنیولز ڈی کاراباسا (کدو کے پکوڑے) کھاتے پائے جاتے تھے۔
انیس مارچ کو تمام فالوں کو آگ لگانے تک نینوٹس اپنی جگہ پر رکھے جاتے تھے اور اس دن کو لا کریما (جلنے والا) کہا جاتا تھا۔
ہر سال، ننوٹس میں سے ایک ننوت کو مقبول ووٹ کے ذریعے تباہی سے بچایا جاتا تھا اسے نینوٹ انڈلٹ (معافی شدہ نینوٹ) کہا جاتا تھا اور اسے گزشتہ برسوں کے دیگر پسندیدہ اور بچے ہوئے ننوتس کے ساتھ مقامی فالاس میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا جاتا تھا۔
روزانہ پٹاخے کے اسراف اور ننوٹس کے جلانے کے علاوہ، ہزاروں دیگر واقعات بھی لاس فالس کا حصہ بنتے تھے۔ تہوار میں جانے والے لوگ شہر بھر میں بلفائٹس، موسیقی، پریڈ، پائیلا مقابلوں، پھولوں کی پیشکش، اور خوبصورتی کے مقابلوں کے ایک وسیع روسٹر سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
آج پندرہ مارچ تھی یعنی پلانٹا کا آغاز۔پندرہ مارچ کی رات سرگرمیوں سے بھرپور رات ہوتی تھی۔اس دن فالاس کمیشن شفٹوں میں کام کرتے تھے کیونکہ ویلینسیا میں بنائی گئی تمام ننوٹس کو سولہ مارچ کی صبح تک جلایا جانا لازمی تھا۔ یہی وہ دن ہوتا تھا جب جج بہترین لوگوں کو انعام دیتے تھے۔۔ یعنی آج پوری رات اولڈ ٹاؤن میں آتش بازی ہونی تھی اور اولڈ ٹاؤن سے کسی ایک ننوت کو جلانے سے بچایا جانا تھا اور وہ ننوت میوزیم کا حصہ بننے والا تھا۔۔ اس کے ساتھ جن کے ننوت قابل ستائش ہوتے انہیں میئر کی طرف سے انعام دیا جانا تھا۔۔
وہ کتنی ہی دیر اولڈ ٹاؤن کی گلیوں میں گھومتی رہی اور اس نے بھوک مٹانے کے لیے اسٹریٹ فوڈ کھایا۔۔ وہ رنگ برنگے ننوت کو دیکھ رہی تھی۔ کہیں کوئی جو کھڑا تھا۔۔ کہیں فیری ٹلیز کی شہزادیاں، کہیں باربی ڈولز، کہیں معروف شخصیات تو کسی خوفناک چڑیلیں۔۔۔
یہ سب دیکھ کر ایمان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ ان کے بنانے والوں پر حیران ہوتی تھی۔ کہیں پر ڈھیروں ننوتس ایک ساتھ کام کرتے کسی خاص کہانی کو پیش کر رہے ہوتے تھے۔ کہیں بوڑھے دادی دادی اپنے پوتے کو پکڑے بیٹھے ہوتے۔۔ کئیں ننوٹس خوش تھے تو کئی اداس۔۔۔۔ کہیں راپنزل اپنے لمبے بالوں کے کٹ جانے پر دکھی تو کہیں کوئی مرمیـڈ پانی سے نکل کر زمین پر پھنس گئی تھی۔۔
وہ رک گئی۔۔ یہ واقعی ایک مرمیڈ تھی۔۔ جو زمین پر خوفزدہ سی پڑی تھی۔۔ جانے کیسے وہ سمندر سے خشکی تک پہنچ گئی تھی۔۔ اس کے پاس لوگوں کا ہجوم تھا جو اسے حیرانی سے اسے دیکھ رہے۔۔ یہ منظر ننوٹس سے بنایا گیا تھا۔۔ وہ حیرانی سے دیکھنے لگی۔۔ وہ ہر بار اس تہوار اس میں بننے والے ننوٹس کو اتنی ہی دلچسپی سے دیکھتی تھی۔۔۔
وہ ایک اسٹریٹ فوڈ کے اسٹال کے پاس کھڑی پکوڑے کھارہی تھی جب اس کی نظر سامنے پڑی تو وہ حیران ہوئی۔۔ سامنے ہی ماثیل سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ وہ کھسیا گئی۔۔ پچھلے تین گھنٹوں میں جانے اس نے کتنی بار ایمان کو فون کیا تھا اس کے پریزنٹیشن پوچھنے کی خاطر اور وہ میڈم ننوٹس انجوائے کر رہی تھی۔۔ اس نے فون اٹھانے کی زحمت نہیں تھی۔۔ وہ خفگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ ایمان زبردستی مسکرائی۔۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی اور اب بعد میں بہانہ نہیں بنا سکتی تھی کہ وہ یونیورسٹی سے لیٹ فری ہوئی۔۔۔ آخرکار ماثیل نے روز کو فون کیا تو اس نے کہا۔
”آج پندرہ مارچ ہے ایمان آپ کو اولڈ ٹاؤن کی گلیوں میں بھٹکتی ملے گی۔۔“ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔ آدھے گھنٹے کی خواری کے بعد وہ اسے پکوڑے کھاتی مل گئی تھی۔۔ وہ کتنی خوش تھی کسی بچی کی طرح جو اپنے آس پاس رنگ برنگی گڑیاؤں کو دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے۔ وہ سفید پینٹ پر آسمانی رنگ کی بند گلے والی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔۔ بازو فولڈ کیے ہوئے تھے۔۔ یہ جرسی کی شرٹ تھی جس میں وہ کافی وجیہہ لگ رہا تھا۔
”کوئی اتنا لاپرواہ کیسے ہوسکتا ہے؟؟“ وہ اس کے قریب آیا۔
”وہ فون بیگ میں تھا پتہ نہیں چلا۔۔“ وہ اب شرمندہ ہوگئی تھی۔۔ ہاتھ میں پکڑا پکوڑا ہاتھ میں ہی رہ گیا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔۔ ماثیل نے سر سے پاؤں تک اسے دیکھا۔۔ وہ سرمئی رنگ پہنے کس قدر دلکش لگ رہی تھی۔ اسکی رنگت نمایاں تھی۔ جیسے جیسے شام گہری ہورہی تھی روشنیوں کا جہاں امڈ آیا تھا۔۔ نوجوان آس پاس مختلف قسم کے بینڈ باجے بجارہے تھے۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا باجے کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی آسمان پر آتش بازی شروع ہوگئی۔۔۔۔۔
لوگوں کی ہوٹنگ بھی ساتھ ہی شروع ہوئی۔۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔
”چلیں۔۔؟؟“ ماثیل نے پوچھا تو وہ اپنے پکوڑوں کی پلیٹ واپس رکھتی اس کے ساتھ چل پڑی۔ وہ دونوں اولڈ ٹاؤن برج کی جانب جارہے تھے۔۔ ٹاؤن کے بیچوں بیچ ننوٹس کی تقریب کا آغاز ہوچکا تھا۔ وہ دلچسپی سے آس پاس سے گزرتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ توجہ کا مرکز ان کے لباس تھے۔
اس تقریب کے لیے لوگ خوبصورت لباس بنواتے تھے۔ مردوں کا روایتی لباس سیاہ پتلون اور سفید قمیض اور سیاہ جیکٹ سے بدل کر رنگین اور بہت سی سجاوٹ کے ساتھ ایک روایتی اور تاریخی رواج بن گیا تھا۔۔ مرد حضرات رنگ برنگے لباس پہنے گھومتے تھے یہ ملبوسات بہت مہنگے ہوتے لیکن اتنے نہیں جتنے ”رینز فیلیرس“ (تہوار کی ملکہ) اور رائل کورٹ کے ملبوسات۔۔ خواتین کے روایتی ملبوسات کی قیمتیں دو ہزار یورو سےبیس ہزار یورو تک ہوتی تھیں ان میں سے کچھ خوبصورتی میں حیران کن تھے۔ وہ انہی عورتوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ فیری ٹیلز کی شہزادیوں کی طرح لباس پہنے یہاں کی عورتیں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔ اوپر سے ان کے ہیئر اسٹائل اور زیورات انہیں کسی ملکہ سے کم نہیں بنا رہے تھے۔۔۔
وہ شاید ان سب میں سب سے الگ لباس میں تھی۔۔ صرف وہی نہیں بلکہ ماثیل بھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے برج کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں لوگ ہاتھوں میں رنگ برنگی الیکٹرک لائیٹس تھامے ماحول کو الگ رنگ بخش رہے تھے۔
”تم نے بتایا نہیں۔۔“ گفتگو آغاز ماثیل نے کیا۔
”تم اپنے ڈیڈ سے نفرت کیوں کرتی ہو؟؟“ وہ رک گیا اور پلٹ کر ایمان کو دیکھا۔۔۔ خوبصورت روشنیوں کے سنگم میں اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔
”میں ان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔۔“ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔ اس کے بدلتے رویے کو دیکھ کر ماثیل کو لگا اس نے غلط سوال پوچھ لیا تھا۔۔
وہ اب برج پر کھڑے تھے۔۔ آتش بازی جاری تھی لیکن یہاں وہ اب ایک دوسرے کی بات سن سکتے تھے۔ وہ آسمان کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں اب پہلی سی چمک نہیں رہی تھی بلکہ نمی کی ہلکی سی تہہ تھی۔ وہ غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
”تمہارا کوئی دوست نہیں بنا یونیورسٹی میں؟؟ مطلب تم اکیلے کیسے گھوم لیتی ہو۔۔؟؟“
وہ کبھی کبھی اس کے اکیلے رہنے کی عادت سے خائف ہوجاتا تھا۔۔
”روز بزی تھی۔۔“ ایمان نے بنا کسی تاثر کے جواب دیا۔
”یونیورسٹی فرینڈز؟؟“ وہ اچھی لڑکی تھی ایسے کیسے ہو سکتا تھا کوئی اس کا دوست نہ ہو؟
”ایمانے۔۔۔“ اس کی سماعت سے عبدل کی آواز ٹکرائی۔
”تھا نا۔۔ ایک۔۔ عبدل۔۔“ وہ ابھی تک آسمان کو دیکھ رہی تھی۔۔ جیسے وہاں کچھ کھوج رہی ہو۔
”اب کہاں ہے؟؟“
”اس نے شادی کرلی۔۔“ اگر دکھ تھا تو بھی اس نے اپنے چہرے پر آنے نہیں دیا۔
”اوہ۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔۔ کبھی کبھی اس سے بات کرنا اتنا مشکل کیوں لگتا تھا۔
”ایسا کیا خاص تھا اس میں۔۔؟؟“ جانے وہ کیوں پوچھ رہا تھا۔۔ ایمان نے چونک کر اسے دیکھا ۔ پھر وہ مسکرادی۔
”وہ اچھا تھا۔۔“
”کیا اچھا تھا اس میں۔۔؟؟“ وہ سوال جواب کر رہا تھا۔
”اس کا کردار۔۔“ عبدل کا سراپہ چھم سے سامنے آیا۔۔ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھے جھکا ہوا کچھ کہہ رہا تھا یوں جیسے وہ اس کے لیے بہت قابل احترام ہو اور کبھی جیسے چھوٹی سی بچی ہو۔ اس کی بات سن کر ماثیل ہنس دیا۔
”یعنی تمہیں نیک لوگ پسند ہیں۔۔“ انداز مزاق اڑانے والا تھا۔۔ ایمان کی بھنویں سکڑ گئیں۔
”اس میں غلط کیا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”غلط کچھ نہیں ہے پر یہ کانسیپٹ پرانا ہوچکا ہے۔۔ اپنے لیے نیک پارٹنر ڈھونڈنا۔۔ جس نے کبھی کسی کو چھواء نہ ہو۔۔“ وہ ایسے لوگوں سے چڑتا تھا۔
”یہ سب کا ذاتی معاملہ ہے۔۔ آپ کسی کا مزاق نہیں اڑا سکتے۔۔ “ وہ خفا ہوئی۔۔ رخ پھیر لیا۔ وہ گھوم کر اس کے سامنے آیا۔
”کہیں تمہیں تو کوئی نیک انسان نہیں چاہیے۔۔؟؟“ تھوڑا خوف تھا تھوڑی بےیقینی۔۔ وہ پوچھ رہا تھا۔
”میری ایسی قسمت کہاں۔۔“ ایمان اسے دیکھ نہیں پائی۔۔ وہ بس ہولے سے بڑبڑا دی۔۔ وہ دونوں جہاں ننوٹس کو جلایا جارہا تھا اس جانب بڑھ گئے تھے۔۔ وہ انہیں جلتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ دونوں کے ذہن میں الگ الگ سوچ تھی۔ اپنی اپنی سوچوں میں سرگداں وہ خاموشی سے چلتے رہے۔
اس کا فون پھر سے بجنے لگا تو اس نے کال اٹھائی۔۔دوسری جانب سلمی بیگم تھیں۔ وہ اب انہیں بتارہی تھی کہ اس کا پروجیکٹ اچھا گیا تھا۔۔۔پھر اس نے اپنے باہر ہونے کا بتایا اور فون بند کردیا کیونکہ شور کی وجہ سے آواز نہیں آرہی تھی۔ وہ اب اپنے فون کو دیکھنے لگی۔۔ وہ ایسے موقعوں کو کم ہی ریکارڈ کرتی تھی پر وہ میزو کا سوچ کر جلتے ننوٹس کی ویڈیو بنانے لگی۔۔ تاکہ اسے دکھا سکے۔
ماثیل کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔۔ وہ اسے ہمیشہ سے ہی خالص لگتی تھی اور وہ چاہ کر بھی اسے چھو نہیں پاتا تھا۔۔ وہ اب بھی اس کے چہرے کے عجیب رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کا گول بیضوی چہرہ، Chin Scar اور بڑی بڑی آنکھیں اور اس کا لباس اس وقت اس کو کوئی ننوت ہی بنا رہا تھا۔۔بالکل ایک گڑیا۔۔
وہ ویڈیو بنا رہی تھی جب اسے نوٹیفیکشن موصول ہوا۔۔ اس نے نوٹیفکشن بار سے ہی چیک کیا۔۔ مسٹر گرے نے کوئی اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تھا۔۔ اس نے آئی ڈی نہیں کھولی۔۔ وہ نوٹیفیکشن سے ہی جان گئی تھی کہ کیا اسٹیٹس اپڈیٹ ہوا تھا۔۔ سورہ النور کی آیت تھی۔
”خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں۔۔“
وہ ساکت سی کھڑی تھی۔۔ نظریں موبائل پر جمی تھیں۔۔ اکاونٹ کھول کر مزید آگے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے آس پاس چاروں جانب آگ تھی۔ وہ اس وقت اس آیت کا مطلب سمجھ نہیں پائی۔
”ایمان۔۔۔“ ماثیل نے اسے موبائل میں غرق دیکھا تو پکارہ۔۔ وہ چونکی۔۔ لوگ ڈھول پیٹ رہے تھے۔۔ اور پھر خاموشی چھائی۔۔ ڈھول اور بینڈ باجوں کی آواز رک گئی۔
”میں کوئی پاک صاف مرد نہیں ہوں۔۔ اور نہ میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔۔۔ تم خالص ہو میں جانتا ہوں۔۔ لیکن اگر نہ بھی ہوتی تو شاید مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔ میرے نزدیک ان سب باتوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔جو کچھ ہے وہ آج ہے ابھی ہے۔“
وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔ اور ننوٹس کو آگ نے پکڑ لیا۔۔۔اب وہ دھکڑ دھکڑ جلنے لگے تھے اور ایسی ہی آگ ایمان کو اپنے وجود کے ارد گرد محسوس ہوئی تھی۔ اسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔چاروں جانب آگ تھی بس۔۔
”میرے نزدیک یہ سب نارمل ہے لیکن شاید تمہارے نزیک میں ایک زناکار ہوں۔۔۔ربش۔۔۔“ وہ استہزائیہ ہنسا۔۔۔ مزاق اڑاتی ہنسی۔۔ لفظ زنا کا مزاق اڑاتا ماثیل دی بت ساز۔۔ اور خود کا مزاق اڑاتا ادھم جبیل۔۔۔
1111111111111111111111111111111111111111
وہ کتنے آرام سے بتارہا تھا۔۔ اپنے زانی ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔۔۔وہ جھوٹ نہیں بولتا تھا۔۔ وہ صاف گو تھا۔۔۔پر اتنی صاف گوئی۔۔۔اور یہ سچ تو قتل کرنے جیسا تھا۔
”خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں۔۔۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں۔۔“
اس کے ذہن میں آیت کے الفاظ گونجے۔
”کون تھی وہ؟؟ کیا وہ اتنی خبیث تھی کے اسے ایک زانی ملتا؟؟؟ یا وہ پاک مردوں کے لیے نہیں تھی۔۔“ اس کا وجود لرز گیا۔۔۔ وہ خوبصورت گڑیا جلنے لگی تھی۔۔۔ دھڑ دھڑ دھڑ۔۔۔
وہ اسے دیکھ تو رہا تھا لیکن اس کے اندر چلتے طوفان سے ناواقف تھا۔
”اللہ جی میں نے ایسا کب چاہا تھا۔۔؟؟“ لبالب آنکھیں بھرنے لگیں۔۔۔ اس نےسر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔۔ اس بار وہ آتش بازی نہیں دیکھ رہی تھی۔۔ دور بادلوں کے پرے آسمان کے اس پار موجود ذات کو پکارہ۔
ماثیل سمجھنے سے قاصر تھا۔۔ وہ کیا کر رہی تھی۔
”کیا میں اتنی ناپاک ہوں؟؟“ آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر نکلنے کو تیار تھا۔ پہلے اسے فرق نہیں پڑتا ماثیل کون تھا کیا کرتا تھا پر اب جب وہ اسے اپنا چکی تھی اور جانتی تھی اسے چھوڑ نہیں سکتی تھی۔۔ اب اس کے کام اس کے اعمال تکلیف کا باعث تھے۔
”اور انسان اپنے اعمال کا خود زمہ دار ہے۔۔“ سلمی بیگم کے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔۔
اس کا سر جھک گیا۔۔ شرمندگی کے باعث۔۔۔ نازک وجود اب لرزنے لگا تھا۔
ہاں وہ خود زمہ دار تھی۔۔ اس نے خود چنا تھا ماثیل کو۔۔
اپنے سامنے کھڑا وہ شاندار شخص اسے اس وقت بہت برا لگا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہونے کا مطلب ایمان کو صاف سمجھ آرہا تھا۔۔اس کے وجود پر سوالیہ نشان چھوڑ رہا تھا۔۔؟؟ کون تھی وہ پاک یا ناپاک؟؟؟ حلق میں کچھ اٹک چکا تھا۔
”تم ٹھیک ہو۔۔؟؟“ وہ اس کے قریب ہوا پر ایمان تب تک جل چکی تھی۔۔ اس نے ایمان کو چھونا چاہا۔۔ اس کا بازو تھامنا چاہا۔۔ وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔۔ جیسے ماثیل کا وجود اسے مزید جہنم میں دھکیل دے گا۔
”ایمان۔۔۔“ وہ ساکت ہوا۔۔۔
”دور رہیں مجھ سے۔۔ پلیز۔۔“ ٹوٹا پھوٹا وجود لیے وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں۔۔؟؟“ وہ پریشان تھا۔۔ جانے اس نے فون میں کیا دیکھ لیا تھا۔
”آپ کا وجود میرے لیے جہنم جیسا ہے۔۔ آپ کا ہونا جلا رہا ہے مجھے۔۔ “ وہ چلانا چاہتی تھی اسے بتانا چاہتی تھی۔۔ پر الفاظ گلے میں ہی اٹک گئے۔ وہ تیزی سے اس کے پاس سے نکلتی چلی گئی۔۔۔لوگوں کے ہجوم میں وہ بھاگتے بھاگتے اب اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی تھی۔
وہ اکیلا کھڑہ رہ گیا تھا۔۔اپنی شاندار شخصیت لیے۔۔ بالکل اکیلا۔۔۔ شاید یہ وہ زمانہ نہیں تھا جہاں صاف گوئی کام آتی۔۔ ایمان کا وجود اس کے لیے ناقابل تسخیر تھا۔۔ وہ پل پل رنگ بدلتی تھی۔۔۔
ننوٹس جل رہے تھے۔۔ جل جل کر بجھ کر نیچے گر رہے تھے۔۔۔ اور وہ بھاگتی جارہی تھی۔۔ جہاں ماثیل کا سایہ بھی اس کے آس پاس نہ ہوتا۔
✿••✿••✿••✿
وہ چار سال ساتھ رہے تھے۔۔ ایف ایس سی کے بعد ہیزل میڈیکل کالج چلی گئی تو ادھم بائیوٹیکنالوجی کی جانب آگیا۔۔ اسے سرجن بننے میں دلچسپی نہیں تھی۔۔ وہ چار سال بہت اچھے سے ساتھ رہے تھے۔۔ لوگ انہیں کپل سمجھتے تھے اور ادھم کو اس پر اعتراض نہیں تھا۔۔۔ہیزل اسے پسند تھی وہ باقی لڑکیوں سے الگ تھی اگر وہ اس کی پارٹنر بن جاتی تو اسے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔۔ وہ اسے پسند کرنے لگا تھا۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسکی پسندیدگی بڑھتی جارہی تھی۔۔ لیکن پھر ہیزل بدلنے لگی۔۔ وہ میڈیکل کالج جانے کے بعد بہت مصروف ہوگئی تھی وہ اب ادھم کو نظرانداز کرنے لگی تھی۔۔ ادھم کے کچھ اور کلاس فیلوز جو ہیزل کے ساتھ تھے وہ اسے عجیب و غریب خبریں سنارہے تھے۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی سال میں ہیزل نے میڈیکل کالج کے ٹاپ ڈاکٹر اور پروفیسر کو اپنی طرف مائل کرلیا تھا۔۔ادھم نے سنا پر یقین نہ آیا۔۔ پھر ایک دن وہ ہیزل سے ملنے اس کے کالج گیا تو حیران رہ گیا۔۔ اس نے ہیزل کو کسی آدمی کے ساتھ اس کی گاڑی میں جاتے دیکھا تھا۔۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔۔ غصے اور تکلیف سے اس کی حالت بری ہوگئی تھی۔۔۔وہ اٹھارہ سال کی تھی۔۔۔اپنے فیصلے خود کر سکتی تھی۔۔ اور پھر اسی شام جب ادھم نے اسے فون کرکے پوچھا تو ہیزل نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ جانا چاہتی ہے کسی رشتے میں نہیں بندھنا چاہتی۔۔
ادھم حیران رہ گیا۔۔۔ یہ وہ ہیزل نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا۔۔ اس کا دل ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ پھر سے اکیلا ہوگیا تھا۔۔ اور اس بار چوٹ گہری لگی تھی۔۔ پہلی عورت۔۔ پہلا دھوکا۔۔
وہ زخمی تھا۔۔اس کے کلاس فیلوز جان بوجھ کر اسے جلانے کے لیے ہیزل کی روز کی خبریں اسے سناتے تھے۔۔
وہ اب فون بند رکھتا۔۔ زیادہ تر سموکنگ کرتا۔۔ اور پھر سے ڈرگز لینے لگا تھا۔۔ اور پھر کچھ وقت بعد اسے پتہ چلا کہ ہیزل غائب ہوگئی تھی وہ گھر سے بھاگ گئی تھی۔۔
اسے فرق نہیں پڑتا تھا جب وہ اسے چھوڑ چکی تھی تو جہاں مرضی جاتی۔۔ پر ادھم کے لیے یہ برا ہوا تھا۔
اسے ایک دن حویلی کے اسٹور روم سے پرانی کتابیں ملیں۔۔۔ فلسفے کی کتابیں۔۔ نفسیات کی کتابیں۔۔۔ اور ان کتابوں نے اس کے ذہن کو مزید بدل ڈالا۔۔۔ کتابیں جو آباد کرتی ہیں۔۔ اور کتابیں جو تباہ کردیتی ہیں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ اب حویلی میں کسی کی نہیں سنتا تھا۔۔ وہ خود سر اور ضدی بن چکا تھا۔۔ کئی بار اسے بڑے بھائی ابو حنیفہ نے سمجھانا چاہا پر وہ اپنی دنیا میں گم رہتا۔۔۔۔ اس نے کالج جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔ اس کے مطابق یہ دنیا رہنے کے لائق نہیں تھی۔۔۔ اس نے ایسا فلسفہ پڑھا تھا جس نے اس کا مزید برین واش کردیا تھا۔۔ اسے اب خدا برا لگتا تھا اپنا دشمن لگتا تھا جس نے انسانوں کو دنیا میں سسکنے اور ٹرپنے کے لیے بھیج دیا تھا۔۔۔
ایک بار وہ کئی دن غائب رہا۔۔ پھر سید جبیل کو اس کے ریڈ لائٹ ایریا میں ہونے کی خبر ملی۔۔۔وہ اسے برستی بارش میں وہاں سے نکال کر لائے تھے جہاں وہ نشے میں دھت تھا۔۔ یہاں اسے رمشاء ملی تھی۔۔جس کی کہانی نے اس کی محبت کا رخ بدل دیا تھا۔۔
سید جبیل کو کبھی سکون کا سانس نہیں آیا تھا۔۔ پہلے انکا اپنا بیٹا آرجے تھا۔۔ جس نے ان کے ناک میں دم کرکے رکھا تھا اور اب سالوں بعد ادھم نے پھر سے کہانی دہرادی تھی۔۔ وہ لوگوں سے لڑتا جھگڑا نہیں تھا پر اس کی ڈرگز لینے کی عادت بری تھی۔۔۔۔ اس رات ادھم کو زوردار تھپڑ پڑا تھا۔۔ حنیفہ بھائی نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو خاندان کی عزت کا خیال رکھنا ہوگا۔۔ ورنہ۔۔۔
اور پھر اگلے دن جب وہ ہوش میں آیا تو اپنے بستر پر اوندھا پڑا تھا۔۔ سر میں شدید درد تھا۔۔۔ اس کا فون بج رہا تھا۔۔ اس نے بنا نمبر دیکھے فون کان سے لگایا۔۔
”ہیلو ادھم۔۔ یہ میں ہوں۔۔“ چھ مہینے بعد اس کا فون آیا تھا۔۔۔وہ ہیزل کی آواز کیسے بھول سکتا تھا۔
”رانگ نمبر۔۔ اور ہاں آئندہ مجھے کال مت کرنا۔۔ یو آر ڈیڈ فار می۔۔“ وہ اس عمر میں تھوڑا جذباتی تھا۔ اور پھر کبھی ہیزل کا فون نہیں آیا۔ اور پھر وہ بھی کچھ دنوں بعد ہی پاکستان چھوڑ گیا۔۔۔بنا بتائے۔۔۔وہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔۔ بس یہ لکھ کر رکھ گیا تھا اسے ڈھونڈا نہ جائے۔۔
اس کا اب یہاں دم گھٹتا تھا۔۔ آس پاس سب اسے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے جیسے اس کا اپنی مرضی سے جینا کوئی بڑا جرم ہو۔۔۔۔
وہ اسپین آگیا۔۔۔ اس نے کڑی محنت کی۔۔۔ اس نے شروع ہی مجسمہ سازی سے کیا تھا۔۔۔اور پھر آٹھ سالوں بعد آج وہ ماثیل دا بت ساز کے نام سے جانا جاتا تھا۔۔۔ اس نے جلد شہرت کمائی تھی۔۔ صرف چار سالوں میں ہی وہ بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔۔ اس نے نہ صرف مجسمہ گری میں نام کمایا بلکہ وہ بہت پراثر شخصیت بن گیا تھا۔۔ اس نے کبھی پلٹ کر کسی کی خبر نہیں لی۔۔۔ باہر کے تجربے نے اسے جذباتی سے سمجھدار بنادیا تھا۔۔۔ ہزاروں لڑکیاں آئی گئیں نہ وہ محبت کر سکا اور نہ کوئی رشتہ بنا سکا۔۔ صرف شنایا ملی تھی دوست کے روپ میں۔۔۔اور وہ اسے دوست ہی مانتا تھا اور پھر ایک سال پہلے اس کی زندگی میں وہ آئی۔۔۔ام ایمان۔۔۔۔جو اب اسے اپنی زندگی لگنے لگی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ ٹھنڈے یخ بستہ فرش پر لیٹی تھی۔ سوئمنگ پول کے پاس آسمان تلے۔۔۔چمچماتا ماربل۔۔۔ سلک کا چھوٹا سا شب خوابی کا لباس پہنے۔۔۔ بنا آسینوں کے پنڈلیوں تک آتا سفید سلک کا گاؤن۔۔۔
اسکی نظریں آسمان پر جمی تھیں جبکہ سبز آنکھوں میں آنسوں تھے جو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلنے کو بےتاب تھے پر وہ نکلنے نہیں دے رہی تھی۔۔۔ اس کی سماعت میں عبدل کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی طرح لگ رہے تھے۔۔۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کوئی شخص اس کے قیامت خیز حسن کو ایمان خراب کرنے کی چیز کہے گا۔۔
کیا کچھ نہیں کیا تھا اس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے۔۔ اور اس نے زندگی صرف اپنے باپ کو اذیت دینے کے لیے چنی تھی۔۔۔
وہ جس خاندان سے تھی اسے اس خاندان سے نفرت تھی۔۔ سلطان ملک کی بیٹی تھی وہ۔۔ اور اس خاندان سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔۔ وہ ساکت لیٹی تھی جبکہ ماضی کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چلنے لگا تھا۔۔
اسکی ماں اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئی تھی۔۔۔اس نے ہوش سنبھالا تو ایک بوڑھی نینی اس کی دیکھ بال کرتی تھی۔۔۔وہ نینی کے ساتھ اکیلی رہتی تھی۔۔ نینی اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی اسے سکول لے جاتی واپس لاتی۔۔ اس کا باپ سلطان ملک کبھی کبھی ہی آتا تھا۔۔ وہ ڈری سہمی رہتی تھی اور پھر ایک دن اس کا باپ اسے پاکستان لے آیا۔۔ اپنے ابائی گھر میں۔۔ اپنے خاندان میں جہاں اس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔۔ اس کے دادا اور تایا نے خوب ہنگامہ کیا۔
”یہ میری بیٹی ہے میں اسے کہیں باہر نہیں پھینک سکتا۔۔“ سلطان ملک نے اپنے گھر والوں سے کہا۔۔ اس کی ایک اور بیوی تھی۔۔۔ہیزل کی سوتیلی ماں اور ایک بھائی۔۔ وہ دونوں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔
زمان ملک۔۔ اس کے تایا۔۔ ان کے دو ہی بچے تھے۔۔ ایک بارہ سالا عبید ملک اور ایک چار سالا کائنات جو کسی گڑا جیسی تھی اور ہیزل سے دو سال چھوٹی تھی۔۔ وہ خود اس وقت چھ سال کی تھی۔ بارہ سالا عبید ذہنی طور پر معزور تھا۔۔
اسے خاندان میں ایک شرط پر اپنا گیا تھا۔۔
”اس لڑکی کو اس خاندان میں تب ہی جگہ ملے گی جب اس لڑکی کی شادی میرے عبید سے ہوگی۔۔“ زمان ملک نے اپنے چھوٹےبھائی سلطان کے سامنے شرط رکھی تھی اپنے معزور بیٹے کے لیے ہیزل ملک کو ابھی سے مانگ لیا تھا۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی یہ سب کیا تھا۔
وہ وہاں آ تو گئی تھی اسے کبھی پیار نہیں ملا تھا۔۔ صرف ایک کائنات سے اس کی دوستی ہوئی تھی۔۔کائنات بھی ڈری سہمی رہتی تھی کیونکہ ان کے گھر کی عورتوں کو اتنی زیادہ آزادی حاصل نہیں تھی۔۔۔ جب وہ بارہ سال کی تھی اور کائنات دس سال کی تھی ہیزل کی منگنی کائنات کے معزور بھائی سے جبکہ کائنات کی منگنی ہیزل کے سوتیلے بڑے بھائی سے کردی گئی تھی۔۔۔
ہیزل جلد سمجھدار ہوگئی تھی۔۔۔ اسے بس نفرت ملی تھی اور اس کے اندر نفرت بڑھتی جارہی تھی۔۔ اسے اپنے باپ سے، اپنے دادا سے اپنے تایا سے یہاں تک کہ اپنے سوتیلے بھائی سے بھی نفرت تھی اور اپنے منگیتر کو تو وہ کسی خاطر میں لاتی ہی نہیں تھی۔۔
وہ جیسے جیسے بڑی ہورہی تھی ضدی اور خوسر بنتی جارہی تھی۔۔۔اسے جواب دینے آتے تھے۔۔۔وہ باز نہیں آتی تھی۔۔۔اسے اکثر گھر کے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھوں مار پڑتی رہتی تھی پر وہ مار کھا کھا کر ڈھیٹ ہوگئی تھی۔
کائنات اسے سمجھاتی کہ ایسا نہ کیا کرو پر وہ کسی کی نہیں سنتی تھی۔۔۔ پندرہ سال کے ہوتے ہی اسے پردہ کرنے کا کہا پر وہ نہیں مانی۔۔ وہ بھی سلطان ملک کی بیٹی تھی۔۔ ڈھیٹ تھی۔۔ اس نے اپنے سوتیلے بھائی سے مار کھائی پر مانی نہیں۔۔
اور پھر سب کو ہارنا پڑا۔۔۔ہیزل ملک کے سامنے۔۔ اس کی ضد اور خودسری کے سامنے۔۔ اور پھر کہانی میں موڑ تب آیا جب اسے نئے سکول میں عجیب لڑکا ملا۔۔۔ادھم جبیل نامی یہ لڑکا باقیوں سے الگ تھا۔۔۔وہ جلد دوست بن گئے۔۔
اسے ادھم کی سوچ پسند تھی باقی روایتی مردوں سے الگ۔۔۔ اپنی مرضی سے جینے کی خواہش کرنے والا ادھم اس کے لیے پرفیکٹ تھا۔۔ پر وہ اس سے اپنی ذاتی زندگی کبھی ڈسکس نہ کر پائی۔۔وہ اسے بتا نہیں پائی کہ جب وہ بچپن میں بھوکی ہوتی تھی اور رو رو کر اپنے باپ کو فون کرتی جو زیادہ تر ملک سے باہر رہتا تھا تو اس کا باپ اس کے لیے کچھ نہیں کر پاتا تھا۔۔۔
اس نے ہمیشہ نفرت سہی تھی سوائے کائنات کے جو اسے عزیز تھی۔۔ اور جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کے راستے مزید کھٹن ہورہے تھے۔۔ اٹھارہ سال کے ہوتے ہی اس کا نکاح عبید سے ہوجانا تھا جو پاگل تھا۔۔ جبکہ کائنات کا اس کے بھائی سے۔۔۔پر اس سے پہلے اسے یہاں سے نکلنا تھا۔۔
اس نے سب سے پہلے تائی کو اپنی جانب کیا۔۔ اس کا رویہ بدلنے لگا۔۔ اس نے سوچ لیا تھا اس نے کیا بننا تھا۔۔ اور اب وہ یہی کر رہی تھی اداکاری۔۔
اس نے تائی کو کہا کہ میں ڈاکٹر بن کر سب سے پہلے آپ کے بیٹے کا علاج کروں گی۔۔ اس نے آہستہ آہستہ سب کا بھروسہ جیتا۔۔ اور پھر جب اسے میڈیکل میں جانے کی اجازت مل گئی تو وہاں سب سے پہلے ایک سنیئر ڈاکٹر اور پروفیسر اس پر عاشق ہوا تھا۔۔ ہیزل نے اس بات کا فائدہ اٹھایا۔۔۔اپنا پاسپورٹ بنوایا۔۔
اس پروفیسر نے اس کی قیمت ایک رات مانگی تھی۔۔ وہ اسے ملک سے باہر بھیجنے کے لیے راضی ہوگیا تھا پر سودا عزت کا تھا۔۔ صرف ایک رات کا۔۔
وہ ڈر گئی تھی۔۔۔گھبرا گئی تھی۔۔پھر اس نے پلان بنایا۔۔۔ کائنات یہ راز جان گئی تھی۔۔ اس نے کسی کو نہیں بتایا۔۔۔
”تم جاؤ اور آزادی سے جیو۔۔“ اس نے ہیزل کو گلے لگایا۔
اور ہیزل اس دن کائنات کو خدا حافظ کہہ کر کالج آئی وہاں سے پروفیسر کے ساتھ بیٹھ کر اس کے ساتھ ہوٹل گئی۔۔ وہ نہیں جانتی تھی ادھم اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔ کسی غیر مرد کے ساتھ ہوٹل میں ایک لڑکی کیا کرنے جاتی ہے؟؟
پر وہ پلان بنا کر آئی تھی۔۔ اللہ نے ذہن دیا تھا تو وہ اس کا استعمال کرنا جانتی تھی۔۔ آج صبح تین بجے کی اسکی ٹکٹ تھی۔۔
اسے ہوٹل جاتے ہی پہلے اپنے پاسپورٹ اور ٹکٹ کا اگلوایا کہ کہاں رکھے تھے کس قدر خوفناک تجربہ تھا۔۔ پروفیسر اس کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔۔ اس کے سامنے ڈرنکس پڑی تھیں جس میں اس نے نظر بچا کر نیند آور دوا ملا دی تھی۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے وجود تک بڑھ پاتا وہ وہیں ڈھے گیا۔۔۔اگلے بارہ پندرہ گھنٹوں تک وہ اٹھ نہیں سکتا تھا۔۔
اس نے روتے ہوئے بیگ اٹھایا۔۔ پاسپورٹ وغیرہ ڈالا اور نقاب لیپٹ کر وہاں سے نکل آئی۔۔
شاید اس نے پہلی اور بار آخری بات خدا کو یاد کیا تھا۔۔ کہ وہ اس کی مدر کرے۔۔۔اور بچ بچا کر نکل آئی تھی۔۔ وہ فرانس چلی گئی تھی۔۔ اور یہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔۔ وہ اکیلی تھی ڈری ہوئی۔۔ وہ اپنا بندوبست کرکے آئی تھی اسے پتہ تھا اسے کیا بننا تھا۔۔۔ اسے ماڈلنگ کرنی تھی۔۔۔اس نے یہاں آکر ویٹرس کی جاب کی۔۔ جانے کیا کچھ کیا۔۔۔لوگوں سے بچتی پھری۔۔ ڈر تھا اسے کوئی ڈھونڈ نہ لے۔۔۔پر کوئی نہیں آیا ڈھونڈنے۔۔ اس نے ادھم سے رابطے کی کوشش کی تاکہ سچ بتاسکے۔۔۔ پر وہ اس کے لیے مرچکی تھی۔۔فرانس میں ایک سال گزارنے کے بعد وہ اسپین آئی۔۔
یہاں مختلف جگہ آڈیشن دیے۔۔ بہت کوشش کی پر ہر جگہ قیمت تھی۔۔بدلے میں ایک ہی چیز مانگی جاتی تھی۔۔۔اور وہ تھی عزت۔۔۔ اسے اس کا سودا کرنا تھا پھر جلد اپنی منزل تل پہنچ جاتی پر وہ کر نہ پائی۔۔
اس نے پہلی سیڑھی سے آغاز کیا۔۔ وہ ایک ماڈل کی اسسٹنٹ بن گئی۔۔ اس کے حسن کو دیکھ کر اسے فوٹو شوٹ کی پیشکش ہوئی اور اسے لگا اس نے اپنی منزل کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ لیا تھا۔۔۔پھر وہ رکی نہیں۔۔۔ جب وہ ٹاپ کی ماڈل بن گئی تب ایک دن سلطان ملک کا فون آیا۔۔ وہ غصے تھے ناراض تھے۔۔ پر وہ اب مطلبی بن گئے تھے۔۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔
وہ سب جانتی تھی پھر بھی اپنے باپ سے منہ نہ موڑ سکی۔۔۔اور پھر ایک دن کسی طوفان کی طرح عبدل آیا۔۔جانے کس دنیا سے آیا تھا کیا کرتا تھا۔۔ وہ سب سے الگ تھا۔۔ اپنے کردار میں۔۔۔
جھگڑالو تھا۔۔ غصے والا تھا۔۔ لیکن عزت دینا جانتا تھا۔۔۔
وہ اسے بچانے والا تھا۔۔۔ اس کی حفاظت کرنے والا تھا۔۔پہلی بار محبت نے دل پر دستک دی۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ پوری آب و تاب سے اس کے دل کے تخت پر براجمان ہوگیا حالانکہ وہ کسی ایمانے کو زیادہ اہمیت تھا تب بھی اس کی محبت میں کمی نہیں آئی۔۔
وہ جو چاہتی تھی بن گئی تھی۔۔۔اس نے اپنے باپ کو جلا کر اپنے خاندان سے سارے بدلے لے لیے تھے۔۔۔وہ ان کی پہنچ سے دور نکل آئی تھی۔۔ وہ آسمانوں کو چھو رہی تھی۔۔ہالی ووڈ میں کام کر آئی تھی۔۔۔ وہ عام انسانوں سے بہت اوپر چلی گئی تھی پر آج عبدل کے لفظوں نے اسے آسمان سے زمین پر لا پٹخا تھا۔۔۔ وہ دھڑام سے گری تھی۔۔ وجود کانچ کی طرح ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔
وہ اس کے لیے کچھ بھی نہیں تھی سوائے ”ایمان خراب“ کرنے والی چیز کے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿

جاری ہے۔
نوٹ؎ کہانی میں کسی کا ماضی نہیں چل رہا سوائے ادھم اور ہیزل کا جن کا مکمل کھل چکا ہے ابھی جو کہانی چل رہی ہے وہ حال ہے۔۔ چاہے وہ کوئی بھی کردار ہو۔ باقی آپ لوگ خود سمجھ جائیں۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post