Maseel novel episode 30 - sulphite 02

 

Maseel novel episode 30

میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ویسی محبت کرو کہ بستر مرگ پر اگر میں تم سے ڈرگز مانگوں تو تم میری تکلیف، میری تڑپ نہ دیکھ پاؤ اور میرے لیے ڈرگز ل

ے آؤ۔۔۔“

کیا ڈیمانڈ کی تھی اس نے۔۔جانے یہ کونسی محبت تھی۔۔۔ایمان ساکت رہ گئی۔۔۔ اسے اپنے اندر سنسنی سی دوڑتی محسوس ہوئی۔۔ وہ دھواں دھواں سا چہرہ اسے دیکھ رہی تھی جس کی محبت کے اصول ہی الگ تھے۔
”اور ان لوگوں کا کیا جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔۔ آپ کی بھلائی چاہتے ہیں۔۔؟؟“
”آئی ڈونٹ کیئر۔۔۔“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ایمان کے لیے سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔
”حد سے زیادہ خودغرض ہیں آپ۔۔“ وہ رخ موڑ گئی اور سانس لینے کی کوشش کی۔۔ گہرا سانس۔۔۔ ذہن ماضی میں الجھنے لگا تھا۔۔
”ہر انسان خودغرض ہوتا ہے۔۔ تم بھی تو ہو۔۔ تم بھی کسی ملحد یا کسی منکر سے شادی نہیں کرو گی۔۔کیونکہ وہ تمہارے معیار پر پورا نہیں اترتا۔۔ ہر انسان خودغرض ہوتا ہے ایمان۔۔ فرق صرف یہ ہے میرے جیسا انسان صاف گوئی سے کام لیتا ہے۔۔“ وہ کہہ تو سچ ہی رہا تھا۔ پر سچ کڑوہ تھا۔ جبکہ وہ خاموش رہی۔۔۔ دماغ پر جیسے ہتھوڑے پڑ رہے تھے۔۔ دور کہیں سرخ ٹائیلوں والے صحن کے گھر میں ایسا ہی شخص تھا جس نے پورے خاندان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔۔
عبداللہ شہاب۔۔ خودغرضوں میں ایک خودغرض۔۔ خود پرستوں میں ایک خود پرست۔۔
”کیا سوچ رہی ہو۔۔؟؟“ اسے کسی گہری سوچ میں غرق دیکھ کر ماثیل نے اسے پکارہ۔ وہ چونک گئی۔۔ جیسے کسی خواب سے باہر نکلی ہو۔۔ برے خواب سے۔۔۔ چہرے کی رنگت بدلنے لگی تھی۔
”مجھے جانا ہے۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ چائے ویسے ہی چھوڑ دی۔
”مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔۔ کسی کی نہیں۔۔“
عبداللہ شہاب کی نفرت بھری پکار اس کی سماعت سے بار بار ٹکرا رہی تھی۔
”ایمان۔۔۔ کیا ہوا؟؟“ وہ بھی فوراً اٹھا۔
”میں تھک گئی ہوں۔۔مجھے جانا ہے۔۔۔“ وہ حال میں رہنے کی کوشش کر رہی تھی پر عبداللہ شہاب اسے ماضی میں کھینچ رہا تھا۔۔۔ وہ شخص جس سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتی تھی۔۔ اسے لگا تھا وہ مزید یہاں بیٹھی تو مرجائے گی۔
”ایمان رکو تو۔۔“ وہ اسے پکارتا رہ گیا۔۔ جبکہ ایمان اپنا بیگ سنبھالتی بھاگنے کے انداز میں اس سے دور ہوتی گئی۔۔
ماثیل نے افسردہ نگاہوں سے اسے خود سے دور جاتے دیکھا تھا۔
✿••✿••✿••✿
رومیو نے ہاں کردی تھی۔۔پہلی بار وہ سکول کی کسی تقریب میں حصہ لے رہا تھا۔۔ اس کی ایکٹنگ اچھی تھی۔۔ جب وہ پلے کی ریہرسل کر رہے تھے ادھم ایکٹنگ سے زیادہ ڈائریکشن پر فوکس کر رہا تھا۔۔ وہ ہر چیز پرفیکٹ چاہتا تھا۔۔ وہ آج کل خوش تھا۔۔ وہ دل سے سارے کام کر رہا تھا۔۔ اس نے آج کل مجسمہ سازی پر سے بھی توجہ ہٹائی ہوئی تھی۔۔
دس دن۔۔۔ دس دن اس نے اپنے پلے کو دیے تھے۔۔ ہیزل ایکٹنگ میں بہترین تھی۔۔ اسے سکول کے سبھی ٹیچرز ایکٹنگ کی طرف جانے کا کہہ رہے تھے۔۔ وہ جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی قابل بھی تھی۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف تیزی سے اٹریکٹ ہوئے تھے۔۔۔
اور پھر دس دنوں بعد رومیو جولیٹ کو دیکھ کر پورا سکول حیران رہ گیا۔۔
دونوں کے ڈائیلاگز۔۔۔دونوں کی باڈی لینگویج بہترین تھی۔وہ اسٹوڈنٹس کم جبکہ اداکار زیادہ لگ رہے تھے۔
اور یہاں سے دونوں کی دوستی کی شروعات ہوئی تھی۔۔ ہیزل اپنے کیریئر کو لے کر بہت سنجیدہ تھی۔ دونوں نے سکول ایک ساتھ پاس کیا اور پھر ایک ہی کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔۔ ادھم اب اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دینے لگا تھا۔۔
“تم کیا بننا چاہتے ہو؟؟“ وہ دونوں کیفے میں بیٹھے تھے جب ہیزل نے پوچھا۔۔ اس کے کھلے بال کندھوں پر بکھرے تھے۔۔ وہ فرسٹ ایئر میں تھی پر کسی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ سے زیادہ سمجھدار تھی۔
”گھر والے چاہتے ہیں میں ڈاکٹر بنوں اور اس فیلڈ میں بہت آگے جاؤں۔۔۔ ایک کامیاب سرجن۔۔۔“ وہ ہنس دیا۔
”اور تم کیا چاہتے ہو؟؟“
اس کے سوال پر ادھم نے سر اٹھا کر ہیزل کو دیکھا۔
”ایک بت ساز۔۔۔“ وہ گویا ہوا۔
”ضرور بننا۔۔فیملی جائے بھاڑ میں۔۔“ وہ اپنے فیملی سے نفرت کرتی تھی۔۔۔ زیادہ تر غصے میں رہتی تھی۔
”اور تم کیا بننا چاہتی ہو؟؟“ اب کی بار ادھم نے پوچھا۔
”میں وہ بننا چاہتی ہوں جو میری فیملی کو تکلیف دے ، درد دے۔۔۔ میرے باپ کو جلا کر راکھ کردے۔۔سب کو بھسم کردے“ اس نے کس قدر خوفناک انداز میں کہا تھا کہ ادھم چونک گیا۔۔۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ظالم بھی تھی۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔ تاثرات سے عاری۔۔۔البتہ آنکھوں میں شعلے لپک رہے تھے۔
”اسکا کیا مطلب ہوا۔۔؟؟“ وہ الجھا۔۔
”یہی کہ کوئی پتہ نہیں۔۔ڈاکٹر بننے آئی ہوں پر لگتا نہیں بن پاؤں گی۔۔“ وہ مسکرادی۔۔۔چہرے کے تاثرات فوراً ہی نرم پڑ گئے۔ جبکہ ادھم پل پل رنگ بدلتی ہیزل کو دیکھ کر وہ گیا تھا۔۔ جس کے ارادے وہی جانتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ دوبارہ سو نہیں پایا تھا۔۔ پزل باکس کو ہاتھ میں تھامے خاموشی سے لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا رہا۔۔
اسکا پزل باکس۔۔۔ جسے کھولنے کی کوشش میں وہ لگا ہوا تھا۔۔ ایک دروازہ کھل چکا تھا اب سامنے گھڑی تھی۔۔۔ کوئی وقت درکار تھا۔۔
ایسا وقت جسے وہ گھڑی پر لاتا تو ایک تالا مزید کھل جاتا۔۔ وہ الجھا ہوا تھا۔۔ تھک گیا تھا۔۔ اس نے پزل باکس صوفے پر رکھا اور صوفے کی پشت سے گردن ٹکادی۔۔ اس کا چہرہ اب اوپر کی جانب تھا۔۔
وہ خاص وقت کونسا تھا جسے اس پزل باکس پر رقم کردیا گیا تھا۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اچانک فجر کی اذان اس کی سماعت سے ٹکرائی۔۔ فجر کا وقت ہوچکا تھا۔۔ وہ چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔۔
مؤذن پورے جذب سے اذان دے رہا تھا۔۔ پہلے پہر کی اس خاموشی میں سنائی دیتی خوبصورت اذان کی آواز اسے سکون پہنچانے لگی۔۔ اس کی آنکھیں اب بند ہونے لگی تھیں۔
اچانک وہ چونک گیا۔۔
”پہلا پہر۔۔۔“ وہ بڑبڑایا۔۔
”سات پہروں کی کہانی۔۔“
اذان ہوچکی تھی۔۔ اس نے پزل باکس اٹھا لیا۔ عجیب و غریب سا پزل باکس جسے وہ لمبے عرصے سے سلجھانے کی کوشش میں تھا۔
”پہلا پہر کیا تھا۔۔؟؟ کیا ہوسکتا تھا۔۔؟؟“
اس کی نظریں لکڑی کے پزل باکس پر جمی تھیں۔
ایک اشارہ مل چکا تھا۔۔ وہ تیزی سے اٹھا۔۔۔نماز پڑھنے مسجد جانے کا ارادہ کرتے وہ سیڑھیاں پھلانگتا اوپر اپنے کمرے میں آیا۔۔
پزل پاکس کو وہیں چھوڑ کر جیکٹ پہنتے وہ کمرے کو لاک کرتے اب تیزی سے مسجد کی جانب رواں تھا۔۔۔ اسکا ذہن جو کچھ دیر پہلے تھکا ہوا تھا اب تیزی سے کام کر رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”آخر مسٹر ماثیل جیت ہی گئے۔۔۔ ایما جان محبت کے آگے بڑے بڑے ہار جاتے ہیں۔۔“ روز بہت خوش تھی۔۔اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔۔
جبکہ ایمان خاموش بیٹھی تھی۔۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔۔ اسے مائیگرین ہورہا تھا۔۔۔ مسلسل سوچنے اور لیپ ٹاپ پر کام کرنے کی وجہ سے مائگرین کا اٹیک ہوا تھا اور اب وہ تکلیف میں تھی۔
”تم نے بہت اچھا کیا ایما۔۔ مسٹر ماثیل تمہیں بہت خوش رکھیں گے۔۔ ایم سو ہیپی۔۔“ وہ اس کا گال چومتے بولی۔ جبکہ ایمان نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اسے کیسے سچ بتاتی۔۔؟؟ وہ اپنے راز اپنے تک رکھتی تھی پھر روز کو کیسے بتادیتی؟؟ وہ بھی اتنی بڑی بات۔۔۔
گھوم پھر کر دماغ ایک ہی جگہ پر رکتا تھا کہ اسے جاب کرنی تھی اور جلد از جلد حشام جبیل کے پیسے واپس لوٹانے تھے۔
روز اپنے جوش میں جانے کیا کیا بول رہی تھی جبکہ ایمان خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔اور ذہن کہیں اور الجھا تھا۔۔
کیا ہوگا جب روز کو حقیقت پتہ چلے گی۔۔۔؟؟
✿••✿••✿••✿
وہ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔ غور سے اپنا جائزہ لے رہی تھی۔۔ اس کی سبز آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے پڑے ہوئے تھے۔۔ اس کی رنگت بھی پہلے کی نسبت ماند پڑ چکی تھی۔۔۔وہ ایک ماڈل تھی اسے اپنا بہت سارا خیال رکھنا پڑتا تھا۔۔ لیکن اس کی ڈرنک کی عادت نے اس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا تھا۔۔ اس نے کیبن سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔۔ سگریٹ نکال کر لبوں میں دبایا اور لائٹر جلایا وہ سگریٹ سلگھانے ہی والی تھی کہ اسکی سماعت سے عبدل کا جملہ ٹکرایا۔
”آئندہ سموکنگ نہیں کرو گی۔۔“ اس کے ہاتھ تھم گئے۔۔ اس نے سگریٹ پھینک دیا۔
وہ عبدل کو پچھلے دو سالوں سے جانتی تھی۔۔ لیکن اسے آج تک سمجھ نہیں پائی تھی۔۔ وہ پل پل رنگ بدلتا تھا۔۔ اس نے ایک مہینہ بھی جاب نہیں کی تھی جب ہیزل نے اسے ڈرائیور رکھا تھا۔۔ وہ ماڈل تھی اسے شوٹنگ کے سلسلے میں دوسرے ملکوں اور شہروں میں آنا جانا پڑتا تھا۔۔اس نے ایک پراجیکٹ کیا تھا جس سے وہ سپراسٹار بن گئی تھی۔۔ ہیزل اس انڈسٹری میں بہت سوچ سمجھ کر چلی تھی۔۔ اس نے یہ سب حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔۔ وہ زیادہ کام نہیں کرتی تھی اس کے اسٹنڈرڈ بہت ہائی تھے۔ وہ دو چار مہینوں میں کسی برانڈ کے لیےشوٹ کرتی اور پھر آگ لگا دیتی تھی۔۔ وہ میڈیا سے بچ کر رہتی تھی پر جب اس کا دماغ گھومتا تھا وہ زبان پر کنٹرول نہیں رکھ پاتی تھی۔۔۔ اور پھر منہ پھٹ ہیزل اخبار کی سرخی بن جاتی تھی۔ اس نے جہاں دوست نہیں بنائے تھے وہاں اسے لگتا تھا اس کے دشمن بھی کم ہی تھے۔۔۔ پر وہ حقیقت سے ناواقف تھی۔
اس نے ہر وہ پراجیکٹ ٹھکرا دیا تھا جہاں اسے کسی خطرے کا احساس ہوتا تھا۔۔۔ ہیزل ملک نام ہی کافی تھا اس کے پاس پراجیکٹ خود آتے تھے۔۔ اس نے کسی اڈوائزر کو نہیں رکھا تھا۔۔ وہ کام خود چنتی تھی۔۔ اور جہاں سے عزت اور نفس کا سودا دکھائی دیتا وہ ٹھکرادیتی تھی۔
وہ شوٹ کے بعد باہر بھی کم ہی نکلتی تھی۔۔ زیادہ وقت اپنے بنگلے نما گھر میں گزارتی اور نشے میں بےسدھ رہتی تھی۔۔ ایک ہی انسان اس کا خیر خواہ تھا اور وہ شالی تھی۔۔ جو اس کے ہر کام کا خیال رکھتی تھی۔۔ اس کے اسکن ٹریٹمنٹ سے لے کر اس کے کھانے پینے تک کو وہ دیکھتی تھی۔۔۔ اس وقت بھی شالی اسے کسی اچھے اسکن ٹریٹمنٹ کا بتارہی تھی وہ اس کی بکنگ کرواچکی تھی۔
آج کل ہیزل ڈرنک کم کرتی تھی پر وہ سو نہیں پاتی تھی۔۔۔ کئی کئی گھنٹے ٹھنڈے فرش پر لیٹی رہتی تھی۔ یہ اس کی ہمیشہ سے عادت تھی۔۔۔ وہ اپنے جلتے وجود کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتی تھی۔۔ پر آج تک کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ جب سے عبدل آیا تھا کافی کچھ بدل گیا تھا۔۔ وہ پچھلے چھ مہینے سے نیویارک میں تھی اس کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے اسے بڑا رول ملا تھا۔۔ مین لیڈ کا۔۔۔ اور ہیزل نے یہ دوسرا پروجیکٹ کیا تھا جو اسے پسند آیا تھا۔۔ اور جب وہ واپس آئی تو عبدل اسے ایک باکسر کے روپ میں ملا تھا۔۔
اسے آج بھی یاد تھا اس نے روتے ہوئے عبدل سے شادی کا کہا تھا پر عبدل نے صاف انکار کردیا تھا۔۔ وہ ایسا لڑکا نہیں تھا جو اس پر رحم کھا کر اس سے شادی کرلیتا۔۔ اس پر ہیزل کے حسن کا جادو بھی نہیں چلا تھا۔۔ وہ اسے اس کی حدود تک رکھنا جانتا تھا۔۔ پر ہیزل کی سوئی عبدل پر اٹک چکی تھی۔
اس کا نیا پروجیکٹ بہت جلد ریلیز ہونے والا تھا اور وہ جو کافی وقت سے کوئی کام نہیں کر رہی تھی جانتی تھی ایک بار پھر سے اسکرین پر چھاجانے والی تھی۔۔۔ اور اس کے لیے ضروری تھا اب وہ خود پر توجہ دیتی۔۔ ہر ماڈل اور اداکارہ کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پرفیکٹ رکھے۔۔۔ آنکھوں کو جلا بخشنے والا وجود بنائے رکھے۔
اس نے عبدل کے کہنے کے بعد سموکنگ نہیں تھی۔۔ انکا رشتہ بہت ہی عجیب سا تھا۔۔ نہ وہ اس کی دوست تھی اور نہ اجنبی۔۔۔
اور پھر عبدل کی زندگی میں جانے کہاں سے ایمانے آگئی اور عبدل کا اس سے رشتہ بھی عجیب تھا۔۔۔ کچھ دوستی کا تھا۔۔ پھر عبدل نے دوستی بھی ختم کردی۔۔
عجیب پاگل لڑکا تھا سارے رشتے ختم کر دیتا تھا۔۔ ہر وہ رشتہ جہاں اسے اپنا آپ کمزور پڑتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔ وہ گہرا سانس لیتے اٹھی اور شالی کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئی۔۔۔۔۔
✿••✿••✿••✿
سلفائٹس اور برومائڈز
آج اس کا یونیورسٹی میں دوسرا دن تھا۔۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج ہال اسٹوڈنٹس سے بھرا پڑا تھا۔۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ یعنی اس کی بات اسٹوڈنٹس تک پہنچ گئی تھی۔ وہ کافی پرجوش لگ رہا تھا۔۔۔ جینز پر سادہ شرٹ اور جیکٹ پہنے آج پھر وہ لڑکیوں کے دل میں اتر رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھ میں آج بھی پزل باکس تھا۔۔ وہ ڈائز سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اور پزل باکس کو گھما رہا تھا۔۔ ہال تیزی سے بھرتا جارہا تھا۔۔ سب کرسیاں فل ہوگئیں تو اسٹوڈنٹس نے نیچے بیٹھنا شروع کردیا تھا۔۔
پوری یونیورسٹی میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی کہ کوئی حاد نام کا نیا لڑکا آیا ۔۔۔ جانے کون ہے کہاں سے آیا ہے پر وہ بہت Cool ہے۔۔وہ سب سمجھتا ہے۔۔۔ اور یہی دیکھنے باقی اسٹوڈنٹس بھی آئے تھے۔ اس نے کلائی پر بندی گھڑی دیکھی۔۔ جب وقت ہوگیا تو وہ سیدھا ہوا اور چلتا ہوا اسٹیج پر درمیاں میں آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ پزل باکس کو وہ ڈائز پر رکھ آیا تھا۔۔۔ اس کے پیچھے پراجیکٹر آن ہوا تھا جس پر صاف لکھا نظر آرہا تھا۔۔ سلفائٹس اینڈ برومائیڈز!
یعنی آج کا دن وہ مزید دلچسپ بنانا چاہتا تھا۔
جب سارے اسٹوڈنٹس بیٹھ گئے تو اس نے ہال میں نظریں جمائیں۔۔۔ مائیکروفون اٹیچ تھا۔۔
”آپ میں سے کتنے لوگ سلفائٹ تھیوری کو جانتے ہیں اور خود کو سلفائٹ مانتے ہیں۔۔؟؟“
اس نے پہلا سوال پوچھا۔۔ ہال میں خاموشی چھائی رہی۔ کوئی نہیں بولا۔۔
”یعنی آپ سب لوگ برومائڈز ہیں۔۔؟؟“ اس نے تعجب کیا۔ تبھی اسٹوڈنٹس نے ہاتھ کھڑے کرنے شروع کیے۔۔
کچھ لوگ ہی اس تھیوری سے واقف تھے۔۔ اس نے ایک اسٹوڈنٹ کو مائیک پکڑانے کا اشارہ کیا۔
”آپ سلفائٹس کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔۔؟؟؟“ اس نے لڑکے سے سوال پوچھا۔
” آرجے۔۔۔“ لڑکے نے یک لفظی جواب دیا۔ اور وہ مسکرادیا۔
“آرجے سلفائٹ تھا۔۔“ کافی دیر اس مسکان نے اس کے چہرے کا احاطہ کیے رکھا۔ یعنی آج بھی سلفائیٹ کی پہچان آرجے تھا۔
”سلفائٹس وہ خاص لوگ ہوتے ہیں جو باقیوں سے ہٹ کر چلتے ہیں۔۔۔ باقیوں سے الگ سوچتے ہیں باقیوں سے الگ کرتے ہیں تو اب آپ لوگ بتائیں آپ میں سے کون کون سلفائیٹ ہے۔۔؟؟“
اور اس بار پورے ہال نے ہاتھ کھڑے کرلیے۔۔ آج کے سشین کی ریکارڈنگ بھی جاری تھی پر کیمرے کا رخ صرف اسٹیج کی جانب تھا۔۔ اسٹوڈنٹس کا چہرہ نہیں ریکارڈ کیا جارہا تھا۔ سب کے کھڑے ہاتھ دیکھ کر وہ پھر سے مسکرادیا۔
”چلیں سب باری باری بتائیں کہ آپ میں کیا خاص بات ہے اور آپ لوگ کیا خاص کام کرتے ہیں۔۔۔“ دائیں جانب بیٹھی پہلی لڑکی کو مائیک تھمایا گیا۔۔ جینز شرٹ پہنے جو حاد کو پرشوق نگاہوں سے دیکھ رہی تھی وہ اس کے بلانے پر خوشی سے پھولے نہ سمائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں ولوگر ہوں۔۔ میرے دو لاکھ فالورز ہیں۔۔“
لڑکی کی بات سن کر ہال سے دبی دبی ہنسی کی آواز گونجی۔۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلفائٹ کا اصل مطلب جانتے تھے۔
”آپکی ولوگنگ میں کوئی خاص قابل ذکر بات؟؟ جو آپ کو باقی ولوگرز سے الگ بنائے۔۔؟؟“ حاد نے اگلا سوال کیا۔۔ لڑکی سوچ میں پڑ گئی۔۔۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔
”آپ کو لگتا ہے آپ سلفائٹ ہیں؟؟“ اس بار لہجہ تھوڑا طنزیہ تھا۔
”میرے دو لاکھ فالورز ہیں۔۔ “ لڑکی نے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ جواب دیا۔
”محترمہ کیا سکھایا آپ نے اپنے دو لاکھ فالورز کو؟؟ یوٹیوب بھرا پڑا ہے ایسی ویڈیوز سے۔۔یہ کام پاکستان میں اب نیا ہے جبکہ باقی دنیا میں پرانا ہوچکا ہے۔۔“
اور پھر سناٹا چھا گیا۔۔۔
”اور کوئی۔۔۔ جو خود کو سلفائیٹ سمجھتا ہے۔۔؟؟“
اس بار ایک لڑکا اٹھا۔
”میں ایک سنگر ہوں۔۔“ لڑکے نے فخر سے بتایا۔ حاد کے جبڑے بھنچ گئے۔
”نیکسٹ۔۔۔؟؟“
”میں ایک آرٹسٹ ہوں۔۔“
”نیکسٹ۔۔“
ایسے اور اس جیسے کئی جواب۔۔۔ لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا۔
”میں ہمیشہ سوچتی ہوں آخر پاگل خانے سلفائیٹس سے کیوں بھرے ہوتے ہیں۔۔؟؟“ ایک لڑکی بولی تھی۔
اور حاد رک گیا۔
”کیونکہ ہمارا معاشرہ خاص لوگوں کے لیے تیار ہی نہیں کیا گیا۔۔“
اسے افسوس ہورہا تھا۔۔ اسٹوڈنٹس کے حالات اس کی سوچ سے بھی زیادہ خراب تھے۔ اسلام کو تو چھوڑو وہ مغرب سے متاثر ہونے باوجود بھی ویسے کے ویسے تھے۔۔۔ برومائڈز۔۔۔ عام سے بھی عام تر۔۔ جن کی سوچ سوشل میـڈیا تک محدود تھی۔۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ تھا دنیا میں کیا ہورہا تھا۔۔؟؟
”تو پھر پاکستان جیسے ملک میں رہ کر ہم کیسے خاص سوچ سکتے ہیں؟؟“ ایک لڑکا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان جیسے ملک میں رہ کر آپ ولوگر بن سکتے ہیں۔۔۔سنگر بن سکتے ہیں اور آپ سارے گناہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔۔ بالک ویسے ہی۔۔“
وہ سرد لہجے میں بولا۔۔ کل کی نسبت آج اس کا انداز بدلا ہوا تھا۔۔ اور یہ ضروری تھا کیونکہ وہ انہیں جھنجھوڑنے آیا تھا لوری سنا کر سلانے نہیں۔
”آپ کو کیا پتہ ہم کیسے رہ رہے ہیں اس ملک میں۔۔ آپ تو لندن سے آئے ہیں اور آکر ہمیں سوچ بدلنے کا کہہ رہے ہیں۔۔ آپ یہاں رہیں تو آپ کو پتہ چلے۔۔“
اسٹوڈنٹس کی عزت نفس مجروح ہوگئی تھی بھئی۔۔ انکا طنز کرنا تو بنتا تھا۔۔ وہ مسکرادیا۔
”میں مغرب سے آیا ہوں پر میں نے یہ تھوڑی کہا کہ میں مغرب سے متاثر ہوں۔۔“ وہ اب مسکراتے بول رہا تھا۔
”پر اس ملک میں سب سے برا مسئلہ تو ہمارا مذہب ہے۔ جس نے ہمارا سانس بند کیا ہوا ہے۔۔ ایسے گھٹ گھٹ کر کون جی سکتا ہے۔۔ یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔۔ اور کیا کریں ہم؟؟“ وہ تپ گئے تھے۔۔ لوہا گرم ہوچکا تھا۔۔ اور یہی وہ چاہتا تھا۔
”اسلام اور پاکستان کو چھوڑیں آپ لوگ۔۔ آپ لوگوں کو مغربی معاشرہ پسند ہے نا۔۔ آپ لوگوں نے ان کے رہن صحن کو پوری طرح اپنا لیا ہے۔۔ جب امی ابو مام ڈیڈ بن گئے ہیں۔۔ جب لڑکی لڑکا لیونگ ریلشن شپ میں رہ سکتے ہیں۔۔ جب یونیورسٹیز میں ڈرگز اور ڈانس عام ہوگیا ہے۔۔ جب پردہ اتار کر لڑکیوں نے مغربی لباس کو اپنی زینت بنا لیا ہے۔۔ جب ہم نے انگلش بولنا سیکھ لی ہے۔۔ جب ہم نے گوروں کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔۔ جب ہم پڑھائی کرنے باہر جا سکتے ہیں۔۔ جب ہم دوسرے مذہب کے انسان سے شادی کر سکتے ہیں تو۔۔ جب ہم نے کلب اور کسینو ہم عام کردیے ہیں۔۔ تو پھر کیوں ہم گوروں کی اس سوچ سے متاثر نہیں ہوپائے جو انسان کو چاند پر لے گئی ہے؟؟ کیوں ہم نے صرف اپنا لباس، اپنا رہن سہن تبدیل کرلیا ہے جبکہ سوچ کو وہی 'چھوٹی سوچ' رہنے دیا ہے۔۔؟؟ آخر کیوں۔۔“
وہ ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گیا تھا۔ سناٹا مزید بڑھ گیا۔
”آپ لوگوں کو اسلام کول نہیں لگتا آپ لوگ اسی لیے اس سے دور ہیں پر حقیقت تو یہ ہے آپ لوگ اتنے Cool نہیں کہ اسلام اور قرآن کی حکمت تک پہنچ سکیں۔۔ آپ لوگوں نے اپنی سوچ کو بس اتنا سا بدلا ہے کہ آپ لوگ خدا کو ڈھونڈنے کی بجائے اس سے انکاری سے ہوگئے ہیں۔۔۔ واہ۔۔“ وہ استہزائیہ ہنسا۔
”اینڈ یو نو واٹ۔۔ گوروں نے اپنی کتاب سے Genesis کی صرف پانچ آیتوں سے کائنات کا راز پالیا ہے۔۔۔ ارے کہاں دور ہوئے ہیں وہ اپنے مذہب سے؟؟ وہ لوگ تو خدا ڈھونڈنے نکلے ہوئے ہیں۔۔ کس نے کہہ دیا آپ لوگوں سے کہ وہ لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے۔۔ وہ تو اب ہمارے خدا کو ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔؟؟“
Genesis 1:1-5 NIV
In the beginning God created the heavens and the earth. Now the earth was formless and empty, darkness was over the surface of the deep, and the Spirit of God was hovering over the waters. And God said, “Let there be light,” and there was light. God saw that the light was good, and he separated the light from the darkness. God called the light “day,” and the darkness he called “night.” And there was evening, and there was morning—the first day.
یہ پانچ آیتیں جس سے انہوں نے آسمان زمین کی پیدائش کو سمجھ لیا اور اب وہ گورا ہماری کتان قرآن پاک لیے بیٹھا ہے۔۔ خدا ڈھونے نکلا ہوا ہے۔۔“
”پر ہم تو غیب پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں ہم کیسے یہ سب کر سکتے ہیں۔۔؟؟“ ایک الجھی ہوئی لڑکی تھی۔
”جتنا اللہ نے کہا غیب ہے اتنا غیب ہے۔۔۔باقی تو کہا اللہ نے کہ غور کر۔۔ ڈھونڈ۔۔دیکھ کائنات کیسے بنی ہے۔۔ تو کیوں نہیں ڈھونڈتے ہم۔۔؟؟ آخر کیوں نہیں سوچتے ہم۔۔؟؟“
اسٹوڈنٹس دم سادھے بیٹھے تھے۔
“کیوں ہم نے اپنے دماغ کو بند کرلیا ہے؟؟ وائے۔۔؟؟“
”پر ہمیں تو علماء اکرام کہتے ہیں کہ نماز پڑھو روزے رکھو۔۔ حج کرو گناہوں سے بچو۔۔۔دین یہی ہے۔۔ تزکیہ نفس کرو۔۔ کیا کریں ہم؟؟ یہاں ہزاروں فرقے بنے ہوئے ہیں۔۔ کس پر چلے ہم کس کی مانیں۔۔؟؟“
اسٹوڈنٹس کو اتنی بری طرح سے الجھایا گیا تھا کہ وہ اپنی پہچان بھول گئے تھے۔
”یہی تو مسئلہ ہے۔۔ آج میں کھلے عام کہتا ہوں آج کے مسلمان کو برباد کرنے کے زمہ دار آج کے علما اکرام ہیں جنہوں نے اپنی اپنی مسجدیں بنا رکھی ہیں۔۔۔“
وہ جانتا تھا وہ کس سسٹم کو ہلانے والا تھا پر اسے یہ کرنا تھا۔۔ وہ حق کے راستے پر نکلا تھا۔۔ اسے وجہ بیان کرنی تھی۔
”دین اور مذہب کو مکس کردیا گیا ہے۔۔ بھئی آپ نماز نہیں پڑھتے آپ تو پھر مسلمان ہیں ہی نہیں نا۔۔ یہ تو بیسک ہے۔۔ یہ سب جانتے ہیں۔۔ علما اکرام اس سے آگے کیوں نہیں بڑھتے ہیں۔۔؟؟ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مذہب کیا ہے۔۔؟؟
کیوں ہمارے دماغ پر پٹی باندھ دی گئی ہے کہ اسلام بس یہی ہے۔۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔۔ مجھے افسوس ہوتا ہے۔۔ بےحد افسوس۔۔
آپ کو کیا لگتا ہے آپ صرف تزکیہ نفس کرنے سے بچ جائیں گے؟؟ اپنے نرم گرم بستر پر بیٹھ کر تسبیح گھمانے سے بچ جائیں گے؟؟ جبکہ آپ کے پڑوس میں کسی بچی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو؟؟ آپ کے پڑوس میں کوئی لڑکا خدا کے وجود سے انکاری ہوگیا ہو؟؟ آپ کو لگتا ہے آپ بچ جائیں گے؟؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ علما اکرام غلط کہہ رہے ہیں پر وہ پورا اسلام سامنے کیوں نہیں لا رہے ہیں؟؟ وہ اسلام کو نوجوان نسل کے لیے اتنا مشکل کیوں بنا رہے ہیں؟ میرا ان سے یہ شکوہ ہے۔۔ اور رہے گا۔۔“
وہ بولتے بولتے رک گیا جب ایک لڑکی نے ہاتھ کھڑا کیا۔ لڑکی کو مائیک دیا گیا۔۔ لڑکی نے شرعی پردہ کیا ہوا تھا۔
”سب کہتے ہیں قرآن پاک سکون پہنچانے والی کتاب ہے۔۔ اسے پڑھ کو دل کو سکون ملتا ہے تو ہم اس سے کائنات تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟؟ جبکہ تو انسان کے سکون کے لیے بنی ہے۔۔؟؟“
حاد نے گہرا سانس لیا۔
”آپ کو کس سبجیکٹ سے سب سے زیادہ نفرت ہے۔۔جو آپ کو نہیں پسند۔۔؟؟“ حاد نے لڑکی سے پوچھا۔
”میتھس۔۔۔ اکثر لڑکیوں کو سمجھ نہیں آتا۔۔“ لڑکی نے جواب دیا۔
”اگر میں آپ کو یہاں میتھس کی کتاب دوں اور کہوں کہ کچھ پرابلمز کو حل کرنا ہے۔۔ ایسے پرابلمز جن کی آپ کو سمجھ ہی نہیں ہے تو آپ کیا کریں گی؟؟“
”جب مجھے سمجھ نہیں آئے گی تو میں تھک جاؤں گی۔۔شاید تھک کر سوجاؤں گی۔۔ کیونکہ یہ میرے بس کا کام ہی نہیں ہے۔۔“ لڑکی نے صاف گوئی سے کام لیا۔
”اگزیکٹلی۔۔۔ جب ہم سمجھ نہیں پاتے یا ہمیں سمجھ نہیں آتی تو یہ ہمارا دماغ سوجاتا ہے۔۔“ اس نے کنپٹی کی جانب اشارہ کیا۔
”وہ کونسا انسان ہے جو منافقوں کی نشانیاں پڑھ رہا ہے قرآن پاک میں، وہ کونسا انسان ہے جو جہنم کے خوفناک مناظر پڑھ رہا ہے اور کہے کہ مجھے سکون مل رہا ہے۔۔ کیا یہ ممکن ہے؟؟ اللہ کہہ رہا ہے اٹھ دیکھ۔۔ کھوج کر۔۔ اور ہم سوجاتے ہیں کیونکہ ہمیں سکون ملتا ہے۔۔۔ ایسا ہی ہےنا۔۔؟؟“
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ایسا پتہ ہے کیوں ہوتا ہے کیونکہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔۔ ہمیں قرآن پاک کی سمجھ نہیں ہے۔۔ ہم سمجھ کر نہیں پڑھتے ہیں۔۔ ہم پڑھتے ہیں تھک جاتے ہیں سوجاتے ہیں اور کہتے ہیں سکون مل گیا ہے۔۔۔ کیسے مل گیا سکون آپ کو؟؟ جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما قرآن پاک پڑھتے وقت رویا کرتے تھے۔ کیوں روتے تھے وہ لوگ۔۔؟؟ کیونکہ وہ جانتے تھے سمجھتے تھے۔۔۔اگر تو آپ کو قرآن پاک کے ایک لفظ پڑھنے پر دس نیکیاں چاہئیں تو آپ پڑھیں اور پھر سکون سے سوجائیں پر اگر آپ کو جاننا ہے کیا لکھا ہے ہم سے کیا فرمایا گیا ہے تو آپ کو سمجھنا ہوگا۔۔ جاننا ہوگا۔۔
ہمارا المیہ بھی تو یہی ہے ہم نے سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔ ہم بس یوٹیوب دیکھ رہے ہیں۔۔ سوشل میڈیا پر سلیبریٹی بنے ہوئے ہیں پر ہمیں آتا جاتا کچھ نہیں۔۔ ہم نے اپنے دماغ کو بند کرلیا ہے۔۔ اور ہم نے دراصل خود کو تباہ کرلیا ہے۔۔۔“
”تو ہم کیا کریں۔۔ کہاں جائیں۔۔ اس سسٹم سے کیسے نکلیں باہر؟؟“ وہ سب پریشان تھے۔
”میں آج صرف یہ کہنا چاہوں گا چھوڑیں دین کو مذہب کو اسلام کو پاکستان کو۔۔ سب کو چھوڑ دیں صرف خود کو دیکھیں۔۔ کون ہیں آپ؟؟ کیا کر رہے ہیں؟؟؟ کیا آپ خاص ہیں ؟؟ اگر ہیں تو کیسے؟؟ اور اگر نہیں ہیں تو کیوں۔۔؟؟ آج صرف خود کو پہچانیں۔۔۔ اپنی پہچان کریں پھر سمجھنے لگیں گے کہ آخر ہم کس کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔۔چلیں تزکیہ نفس نہیں تو خود کی پہچان ہی کرلیں۔۔ میں اسلام کی تبلیغ کرنے نہیں آیا وہ علما اکرام کر رہے ہیں۔۔ میں تو آپ لوگوں کے لیے آیا ہوں۔۔ آپ لوگوں کو جگانے۔۔۔ جاگ جائیں۔۔ میں چاہتا ہوں آپ لوگ مجھے چیلنج کریں مجھے ہی نہیں پوری دنیا کے دانشوروں کو۔۔ اپنی سوچ بدلیں۔۔
یہاں سے سلفائیٹ بنیں۔۔۔ اس دنیا کو سلفائٹس کی بہت ضرورت ہے۔۔!!
اور یقین کریں جب آپ لوگ خود کی تلاش میں نکلیں تب آپ اپنے بنانے والے کو بھی ڈھونـڈنے نکلیں گے بھئی مجھے کس نے اور کیوں بنایا ہے۔۔ اور جب ایسا ہوگا تب آپ ان گوروں کی طرح قرآن پاک کی طرف آئیں گے یہ سب سمجھنے کے لیے پھر آپ کو اسلام Cool بھی لگے اور پھر آپ کو پتہ چلے گا اصل کول ہونا لباس، لہجہ اور رہن سہن بدلنے کو نہیں کہتے۔۔ بدلتے اس بدلنے کو کہتے ہیں سوچ کو۔۔ذہن کو۔۔ اور مجھے امید ہے کل آپ لوگ تیار ہو کر آئیں گے۔۔“
✿••✿••✿••✿
وہ اپنا اسکن ٹریٹمنٹ کروانے کے بعد وہیں سے اچھے سے تیار ہوئی بالکل کسی سلیبریٹی کی طرح۔۔ اور جب باہر نکلی تو وہاں رپوٹرز کا ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا۔۔ اس نے اپنی گہری سبز آنکھو پر چشمہ لگایا اور تیزی سے چلنے لگی۔۔
اسکا ڈرائیور باہر ہی کھڑا تھا۔۔ جبکہ شالی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔۔
”میم ہیزل ہم نے سنا ہے آپ کا نیا پروجیکٹ آرہا ہے۔۔ وہ بھی ہالی ووڈ کا۔۔کیا یہ خبر سچ ہے۔۔؟؟“
شیطان کا دوسرا نام رپوٹر تھا۔۔ جن کے پاس جانے کہاں سے خبریں آجاتی تھیں۔۔۔
دھڑا دھڑ اس کی تصویریں بنائی جارہی تھیں۔۔ اسے ایک پرائیویٹ کلب جانا تھا۔۔ اسی لیے وہ بالکل تیار تھی۔
اس نے سرخ آف شالڈر شرٹ پہن رکھی تھی اور نیچے اسکرٹ تھی جو نہایت تنگ اور ایک طرف سے کھلی تھی۔۔چلتے ہوئے اس کی ایک ٹانگ صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔ شام کا وقت تھا پھر بھی اس نے اپنی آنکھیں چھپانے کے لیے سن گلاسز لگا رکھے تھے۔۔ بال اونچی پونی ٹیل میں قید تھے جو چلتے ہوئے ایک ادا سے ہل کر اسکے برہنہ خوبصورت شانوں کو چھو رہے تھے۔۔ کانوں میں باریک سے ڈائمنڈ چمک رہے تھے جبکہ پیروں میں اس نے اونچی ہیل والے بوٹ پہن رکھے تھے۔۔۔ وہ تیزی سے چلتی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس نے کوئی ذاتی گارڈ نہیں رکھا تھا۔۔ اس کی زندگی بہت ہی پرائیویٹ تھی۔۔ اس کا ڈرائیور ہی اسے ایسے ہجوم سے بچاتا تھا۔۔ ابھی بھی لمبا چوڑا سا ڈرائیور بھاگتے ہوئے آیا اور اسے ہجوم سے نکال کر لے گیا۔۔
اس نے کسی ایک رپوٹر کے کسی بھی ایک سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گہرا سانس لیا اور ڈرائیور گاڑی تیزی سے گھما لے گیا۔۔۔
”آپ کی شہرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے آپ کو گارڈز رکھ لینے چاہئیں۔۔“ شالی نے مشورہ دیا۔۔ جبکہ وہ خاموشی سے باہر دیکھتی رہی۔۔ پتہ نہیں اسے سیاہ شیشوں کے اس پار کیا نظرآرہا تھا۔
“عبدل کے اپارٹمنٹ کی طرف لے چلو۔۔“ ہیزل نے کہا تو شالی نے چونک کر دیکھا۔۔ وہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔ لیڈیز بلیزر پہنے اور بڑا سا بیگ تھامے وہ ہمیشہ اسکے ساتھ ہوتی تھی۔
”عبدل۔۔؟؟ پر آپ نے تو پارٹی میں جانا تھا نا۔۔۔؟؟“ عبدل کا نام سنتے ہی شالی کی تیوری چڑھی۔
۔”جو کہا ہے وہ کرو۔۔“ وہ سرد لہجے میں بولی تو شالی ڈرائیور کو ہدایات دینے لگی۔۔۔ گاڑی تیزی سے منزل کی جانب رواں تھی۔ وہ نسبتاً کم پوش ایریا میں رہتا تھا جہاں اپارٹمنٹس بنے ہوئے تھے۔۔ بلند عمارت کے سامنے گاڑی رک گئی۔۔ عبدل کا اپارٹمنٹ کافی اوپر تھا۔
”تم لوگ یہیں رکو۔۔“ وہ بیگ تھامتی گاڑی سے باہر نکل آئی اور پھر عمارت کی جانب بڑھی۔۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے لفٹ نظر آئی۔۔ یہاں کافی خاموشی اور ویرانہ تھا۔۔۔ لفٹ میں کھڑی وہ سوچ رہی تھی عبدل اس کے یہاں آنے پر جانے کیا ری ایکٹ کرنے والا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اس کے اپارٹمنٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے گہرہ سانس لیا اور پھر بیل بجائی۔۔ کوئی نہیں آیا۔۔ اس نے چشمہ اتارا اور دوبارہ بیل دینے لگی اور تب تک بیل سے ہاتھ نہیں اٹھایا جب تک عبدل نے دروازہ نہیں کھول دیا۔۔ وہ کافی برہم لگ رہا تھا پر اپنے سامنے ہیزل کو دیکھ کر چونک گیا۔ اس نے سر سے پاؤں تک ہیزل کو دیکھا اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر واپس مڑ گیا۔۔ اس کی خاموشی پر ہیزل نے سکون کا سانس لیا اور اندر داخل ہو کر دروازہ بند کردیا۔ اپارٹمنٹ اس کی توقع کے خلاف بہت صاف ستھرا تھا۔۔۔ وہ اک ادا سے چلتی اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔
”میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔۔؟؟“ ہیزل نے خاموشی کو توڑا۔ عبدل نے آنکھیں کھولیں اور اس کے قیامت خیز سراپے کو دیکھا۔۔ پھر وہ اٹھا اور سامنے ہی کھلی کھڑکی میں جا کر کھڑا ہوگیا۔
”یہ نازیبا لباس پہن کر تم کیوں بار بار میرا ایمان خراب کرنے آجاتی ہو۔۔؟؟“ وہ سرد و سپاٹ لہجے میں بولا تو ہیزل اپنی جگہ سن رہ گئی۔۔۔۔ اس کے چہرے کی رنگت یکلخت بدلی۔۔ ہتک سے اسے اپنے چہرے سے آگ نکلتی محسوس ہوئی۔۔ پہلے پہل وہ کچھ بول نہیں پائی اور پھر کھلکھلا کر ہنس دی۔ وہ ابھی تک کھڑکی میں ہی کھڑا تھا۔۔
”ایمان۔۔۔؟؟ جیسے تم بہت مذہبی ہو۔۔۔۔۔“ وہ اب اس کا مزاق اڑا رہی تھی۔
”میں اگر مذہبی نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے میرے پاس ایمان نہیں ہے۔۔۔کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔۔ ایسے کپڑے پہن کر ایک عورت کسی غیر مرد کے اپارٹمنٹ کیا کرنے آسکتی ہے؟؟“ لہجہ طنزیہ تھا۔۔۔ یعنی وہ سنجیدہ تھا۔ ہیزل کی ہنسی کو بریک لگی۔۔ وہ اب تک رخ موڑے کھڑا تھا۔۔۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ اس سے رخ موڑے کھڑا تھا۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔۔ ہیزل کی نظریں اس کی پشت پر جمی تھیں اس نے بال پہلے سے چھوٹے کروالیے تھے۔ عبدل اس کی نظروں کو اپنی پشت پر محسوس کر سکتا تھا۔
ایک دم ہی ہیزل کو اپنا آپ برا محسوس ہونے لگا۔۔ وہ کسی برے ارادے سے تو نہیں آئی تھی۔ وہ بس اس سے ملنے آئی تھی۔
”میں شراب نہیں پیتا، جواء نہیں کھیلتا، کسی لڑکی کو نہیں چھوتا۔۔ اس کا مطلب کچھ تو ایمان بچا ہوا ہے نا۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔
” اب جاؤ ہیزل میں اپنا بچا ہوا ایمان خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔“ اس کے لہجے میں التجا تھی۔۔۔۔
ہیزل نے شدت سے چاہا کہ زوردار زلزلہ آئے اور یہ عمارت گر کر تباہ ہوجائے اور تباہ ہونے والی چیزوں میں اس کا یہ قیامت خیز وجود سرفہرست ہو۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post