Maseel novel episode 29- sulphite 02

 

Maseel novel episode 29

رومیو جولیٹ
”عبدل یہاں ٹھنڈ ہے۔۔ تمہارے زخموں سے خون بہہ رہا ہے چلو گھر چلتے ہیں۔۔“ ہیزل نے اس کے قریب بیٹھتے اس کے چہرے کے زخموں کو چھونا چاہا۔
”میرا کوئی گھر نہیں ہے۔۔“ وہ اسکا ہاتھ ہٹاتے بولا۔ چہرے پر اذیت ہی اذیت رقصاں تھی۔ ہیزل کے لیے عبدل ایک معمہ تھا۔۔ ایک کہانی۔۔ ایک راز جسے وہ آج تک نہیں جان پائی تھی۔ عبدل کے ہاتھ جھٹکنے کے باوجود ہیزل نے اس کے چہرے کو چھوا۔۔ اس کی نیلی پڑتی آنکھ۔۔ پھٹا ہوا ہونٹ۔۔۔وہ کتنا حسین تھا اور کیسے لاپرواہ رہتا تھا۔
“تمہیں ترس نہیں آتا خود پر؟؟“ وہ کسی موم کی طرح اسے چھو کر پوچھ رہی تھی۔۔ عبدل نے اذیت سے آنکھیں موندھ لیں۔
”ترس بےچارے لوگوں پر کھایا جاتا ہے۔۔ میں بےچارہ نہیں ہوں۔۔۔“ وہ سرد لہجے میں بولا۔۔ چہرے کے تاثرات سخت پڑ چکے تھے۔
”کیوں دے رہے ہو خود کو سزا۔۔ اسے ڈھونڈ لو اور سچ بتادو۔۔“
ہیزل کی بات پر وہ مسکرادیا۔۔ استہزائیہ ہنسی۔۔۔خود کا مزاق اڑاتی ہوئی۔
”کونسا سچ بتاؤں اسے۔۔ جب اسے حقیقت کا پتہ چلے گا اس کی نفرت مجھ سے مزید بڑھ جائے گی۔۔“ اس نے آنکھیں کھول کر ہیزل کو دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھوں درد رقصاں تھا۔۔
آخر کس سچ کی بات کر رہا تھا وہ؟؟
کیا چھپایا تھا اس نے ایمانے سے۔۔؟؟
کس بات کی سزا دے رہا تھا وہ خود کو؟؟
وہ ابھی تک جان نہیں پائی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”کام ہوگیا ہے۔۔۔ لڑکی نے ادھم کو قبول کرلیا ہے۔۔۔ اس نے اسے جانے سے روک لیا ہے۔۔“
اس کے لیپ ٹاپ پر پھسلتی انگلیاں رک گئیں۔۔۔ آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی۔۔۔ چہرے پر فاتحانہ مسکان ابھری۔
”یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔“ اسے جیتنا پسند تھا۔۔ اور وہ جیت گیا تھا۔
”وہ کبھی نہ مانتی اگر ہم نےبروقت وہ اہم کام نہ کیا ہوتا۔۔۔“
فون کے اسپیکر سے آواز ابھر رہی تھی۔ وہ کسی خاص کام کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔۔ ”وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی ہے۔۔“
”عام انسان کمزور ہوتے ہیں۔۔۔ ان کی کمزوری ہاتھ لگ جائے تو پھر انہیں ٹریک پر لانا مشکل نہیں ہوتا۔۔“ وہ لیپ ٹاپ کو بیڈ پر رکھتا بیڈ سے نیچے اتر آیا۔ ایئربڈ اسکے کان میں لگا ہوا تھا جبکہ اس کا اپنا موبائل فون بیڈ پر پڑا تھا۔ اس نے پانی گلاس میں ڈالنے کی غرض سے جگ اٹھایا پر وہ خالی تھا۔ وہ جگ اٹھا کر جوتے پہنتا کمرے سے باہر نکل آیا۔
پورے گھر میں خاموشی چھائی تھی۔۔ کوئی گارڈ تک نہیں تھا۔ وہ زیادہ انسانوں میں رہنے کا عادی نہیں تھا۔۔ وہ اکیلے رہنا پسند کرتا تھا۔۔ اس کا ہجوم سے واسطہ پڑتا رہتا تھا پر وہ اپنی ذاتی زندگی تک کسی کو نہیں آنے دیتا تھا۔
وہ سیڑھیاں اترتا نیچے کچن تک آیا۔
دوسری جانب سے مزید کچھ بتایا جارہا تھا جسے وہ غور سے سن رہا تھا۔۔ جگ پانی سے بھرنے کے بعد وہ واپس کمرے میں آگیا۔۔ اسے کھیلنے کا شوق تھا۔۔ خاص طور پر انسانوں سے۔کیونکہ وہ ان کی کمزوریاں جانتا تھا۔۔۔ لیکن اس بار وہ جس کھیل میں جیتنے پر خوش تھا وہ نہیں جانتا تھا اس کی یہ جیت ہمیشہ کے لیے اس کی ہار بننے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ایمان نے نئی جاب جوائن کرنے کے لیے پندرہ دن کا وقت مانگا تھا۔۔۔ وہ یہ پندرہ دن اپنے پروجیکٹ پر کام کرنا چاہتی تھی اور اس نے پورا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ یہ پندرہ صرف کمرے میں رہ کر کام کرے گی۔۔ پر وہ اس پر قائم نہ رہ سکی جب ماثیل نے اسے فون کرنا شروع کردیا۔۔۔ جیسے ہی ماثیل نے اسے ہاسٹل چھوڑا تھا اس نے پلٹ کر ماثیل کو میسج تک نہیں کیا۔۔ وہ بھول جانا چاہتی تھی جو بھی ہوا تھا۔۔ پر بار بار ماثیل کا سامنے آنا اسے یاد رکھنے مجبور کرتا تھا کہ وہ اب ماثیل کو اپنا چکی تھی۔ اب پیچھے ہٹنا ممکن نہیں تھا۔
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اپنے کام میں مگن تھی جب ماثیل کا ساتویں بار فون آیا۔۔۔ بالآخر اسے اٹھانا ہی پڑا۔ ماثیل کی غصے بھری آواز ابھری۔۔۔ اس نے پہلی بار اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
“کہاں تھی تم؟؟ مجھے اگنور کر رہی ہو؟؟“
“پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی۔۔“ ایمان نے اپنی تنے اعصاب کو ڈھیلا کرنا چاہا۔ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔
”میرا دل کرتا ہے ہر اس چیز کو آگ لگادوں جو تمہارے میرے درمیان آتی ہے۔۔“
کچھ دیر بعد وہ بولا تو لہجہ سرد تھا ۔۔ غصے کی تپش ایمان کو یہاں تک محسوس ہوئی تھی۔
”ایسی باتیں مت کیا کریں ادھم۔۔“ اس کے چاروں جانب بےبسی ہی بےبسی تھی۔
”اور تم مجھ سے دور رہنے کی کوشش مت کیا کرو۔۔“ وہ دبی دبی آواز میں چلایا۔ ”مجھ سے نہیں سہا جاتا۔۔“ وہ بھی بےبس تھا۔۔۔ پھر لہجہ نرم پڑ گیا۔ ایمان خاموش رہی۔
”خیر میں نے تمہیں کام کے لیے فون کیا تھا۔۔ نیو ایڈمیشن شروع ہوگئے ہیں میں چاہتا ہوں تم آکر اسٹوڈنٹس کی لسٹ بنا لو۔۔“
“ میں نہیں آسکتی۔۔“
”وجہ۔۔۔؟؟“ وہ چونکا۔
”مجھے نئی جاب مل گئی ہے۔۔ میں جوائن کرچکی ہوں۔۔“
اور دوسری جانب ماثیل کے وجود میں اذیت پھیلنے لگی۔
”ایمان۔۔۔ کیا کہوں اب تمہیں۔۔“ اس نے ماثیل کو بتایا تک نہیں تھا۔
”آپ کسی اور کو رکھ لیں جاب پر۔۔“ وہ پھر سے بولی۔
”ہرگز نہیں۔۔۔تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔ تمہیں جاب نہیں کرنی نہ کرو پر تمہیں ایک گھنٹے کے لیے آنا ہوگا۔۔۔لسٹ تو تم ہی بناؤ گی۔۔ ورنہ یہ کورس ہی نہیں ہوگا۔۔“
اس نے فون بند کردیا۔۔ خفا ہوگیا تھا وہ۔۔ جبکہ ایمان نے حیرانی سے فون دیکھا۔۔ یہ اچھی زبرستی تھی بھئی۔۔
”پاگل۔۔“ اس نے فون دیکھتے کہا اور پھر اسے سائیڈ پر رکھ دیا۔۔ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائیں پر اب کہاں ذہن کام میں لگنے والا تھا۔ وہ تلملا کر رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
وہ نہم کلاس میں تھا جب اس کی کلاس میں ایک نئی لڑکی آئی۔۔ادھم کو وہ لڑکی پہلی ہی نظر میں پسند آگئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔۔ اس کے ساتھ ماڈرن بھی۔۔ اس کے نین نقش بالکل بھی مشرقی نہیں تھے۔۔ ۔ادھم کو لگا وہ یورپ سے آئی تھی۔۔ پر اس کا نام مشرقی تھا۔۔ اسکا لہجہ بھی خالص پاکستانی نہیں تھا۔۔ اسکی رنگت شفاف تھی۔۔ اونچی پونی ٹیل کیے وہ دبلی پتلی سی لڑکی پہلے ہی دن پورے سکول میں چھاگئی۔۔
ادھم کو بھی وہ پسند آگئی تھی پر اس نے ظاہر نہیں کیا۔۔ لڑکی کی چمکتی آنکھیں اس کی ذہانت کی نشانی تھیں۔
ادھم سب سے آخر میں بیٹھتا تھا۔۔ سکول یونیفارم پہنے عجیب و غریب سی کٹنگ کے ساتھ وہ ہمیشہ ہی خاموش رہتا تھا۔۔ اکثر کہیں نہ کہیں سموکنگ کرتا اور پھر سرور کی سی کیفیت میں جانے کس دنیا میں کھویا رہتا۔۔
وہ ڈرگز لیتا تھا اور یہ اسے اپنے دوستوں سے آسانی سے مل جاتی تھیں۔۔ اس کے دوست کہاں سے لاتے تھے اس میں اسے دلچسپی نہیں تھی۔
کلاس میں ہر لڑکے نے اس نئی لڑکی سے دوستی کرنے کی کوشش کی پر اس نے کسی لڑکے کو تو دور کسی لڑکی کو بھی منہ لگانا ضروری نہیں سمجھا۔۔
وہ دنوں کے اندر سکول میں مشہور ہوگئی۔۔ اسے ڈانس کا شوق تھا۔۔ ہر نئے فیشن کا اسے سب سے پہلے پتہ ہوتا تھا۔۔ لائنر کیسے لگانا تھا۔۔۔بال کیسے رکھنے تھے اس پر اس سے کلاسسز لی جاسکتی تھیں۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پڑھائی میں بھی اتنی ہی آگے تھی۔
اگر پورے سکول میں کوئی لڑکا تھا جس نے اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی تو وہ ادھم جبیل تھا۔۔
وہ عجیب تھا۔۔ عجیب تر۔۔ اور بدتمیز بھی۔۔
وہ کلاس کا ٹاپر تھا۔۔ یہ بات اس لڑکی کو کھلنے لگی کہ جب سارے لڑکے اس پر ٹرائے کرچکے تھے تو وہ کیوں نہیں آیا۔۔۔؟؟
ایک دن سردیوں کے موسم میں وہ پلے گراؤنڈ میں ایک بینچ پر بیٹھا سموکنگ کر رہا تھا۔۔اچانک اسے اچھو لگا۔۔ اور سانس اکھڑ گیا۔۔ اسے استھما تو تھا ہی وہ زیادہ دھواں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔ اس نے اپنی جیب میں انہیلر ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ ڈالا پر اسے انہیلر نہیں ملا۔۔ وہ اب کھانستے کھانستے اپنی ساری جیبیں ٹٹول رہا تھا۔۔ وہ اکیلا ہی بیٹھا تھا۔۔ جب اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا تب اچانک کسی نے اس کے سامنے اپنا ہاتھ کیا۔۔ خوبصورت سی ہتھیلی پر اس کا انہیلر رکھا تھا۔۔ اس نے جھٹکے سے اٹھا کر انہیل کیا۔۔
وہ وہی لڑکی تھی جو اب سینے پر ہاتھ باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ جب اس کا سانس بحال ہوا تو اس نے لڑکی کا شکریہ ادا کیا۔
”تمہیں یہ کہاں سے ملا۔۔۔؟؟“ ادھم نے سوال کیا۔
”تمہاری پاکٹ سے نکل کر کلاس روم میں گر گیا تھا۔۔ میں نے اٹھا لیا۔۔ سوچا جب تمہیں ضرورت ہوگی تب دوں گی۔۔“ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ وہ مسکرا دیا۔
”تمہارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں۔۔؟؟“ اس نے پوچھا تو ادھم نے ہاں میں سر ہلادیا۔ وہ اس کے قریب بینچ پر بیٹھ گئی۔۔ سامنے ہی کچھ فاصلے پر اسٹوڈنٹس کھیل رہے تھے۔
“تم باقیوں سے اتنے الگ کیوں ہو؟؟“ بالآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔۔ اس کی بات سن کر ادھم مسکرا دیا۔
”میں الگ ہوں۔۔؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”نہیں تم عجیب ہو۔۔“ اسکی شفاف رنگت دھوپ میں چمک رہی تھی۔۔ وہ ہنس دیا۔
”عجیب کیسے ہوں؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”تم نے ابھی تک مجھے دوستی کی آفر نہیں کی اس لیے۔۔“ وہ صاف گو تھی۔۔۔اور کافی دنوں سے انتظار کرکے تھک گئی تھی شاید اسی لیے خود آگئی تھی۔
”کیونکہ مجھے خود پر اتنا بھروسہ ہے کہ لڑکیاں میری طرف خودبخود کھینچی چلی آتی ہیں۔۔“
لڑکی نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔ اسکے رخ موڑنے پر اس کی پونی ٹیل نے جھٹکا کھایا تھا۔
“خودپرست ہو۔۔“
ادھم کو سمجھ نہ آیا لڑکی نے تبصرہ کیا تھا یا سوال۔
”میرے خیال سے ہونا چاہیے۔۔۔ اور جو انسان سب کا ہوجائے مجھے وہ چاہیے ہی نہیں۔۔“
لڑکی حیران تھی۔۔ اس دبلے پتلے سے لڑکے کو جیسے اپنی ذات سے کچھ زیادہ ہی محبت تھی۔
”اینی وے۔۔۔ میں تم سے کچھ پوچھنے آئی تھی۔۔کیا تم میرے رومیو بنو گے؟؟“ ادھم کو تو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”اصل زندگی میں نہیں پوچھ رہی۔۔۔ سکول کے فنکشن پر رومیو جولیٹ پلے میں کیا تم رومیو بننا چاہو گے؟؟“
اس نے پھر سے سوال کیا۔
“اور جولیٹ کون ہے؟؟“ وہ حیرانی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ گڑبڑا کر الٹا سوال پوچھ لیا۔
“آفکورس میں۔۔۔بھلا ہیزل کے علاوہ کون جولیٹ بن سکتا ہے؟؟“
وہ اک ادا سے اپنی پونی ٹیل ہلاتی اٹھی اور چل دی۔۔بنا اس کا جواب سنے۔
”مجھے جلدی انفارم کر دینا ورنہ۔۔۔“
وہ دور جاتی اونچی آواز میں بولی تھی جبکہ ادھم حیرت سے اس لڑکی کو جاتے دیکھ رہا تھا جسکے پاس آپشنز کی کمی نہیں تھی۔
✿••✿••✿••✿
رات کا ناجانے کونسا پہر تھا۔۔ وہ سویا ہوا تھا پھر اچانک عجیب سے احساس سے اٹھ بیٹھا۔۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا۔۔ وہ کبھی گہری نیند نہیں سوپایا تھا کبھی نہیں۔۔۔ایک پل کے لیے بھی نہیں۔۔
اسی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے آگاہ کر رہی تھی۔اسکے کان جیسے کہیں لگے ہوئے تھے۔۔ پھر وہ بیڈ سے اتر آیا۔۔ جوتا پہنا اور دروازے سے کان لگا کر کھڑا ہوگیا۔۔ وہ کچھ سننے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اسے کچھ آوازیں سنائی دیں۔۔ یقیناً گھر میں کوئی تھا۔۔۔پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر اپنے جوتے پہن کر چشمہ لگاتا بنا آہٹ کے دروازہ کھولتا کمرے سے باہر نکل آیا۔۔ اس نے ہلکی ذرد روشنی والے لیمپ کو بھی بجھا دیا تھا۔۔ وہ سیڑھیوں کی جانب آیا اور جھانک کر دیکھا تو لاؤنج میں ٹارچ تھامے دو نقاب پوش گھوم رہے تھے۔۔ یقیناً وہ وہاں چوری کے ارادے سے آئے تھے۔۔ وہ اب لاؤنج میں رکھا قیمتی سامان اٹھا رہے تھے۔
انہیں کسی نے خبر دی ہوگی کہ یہ گھر خالی پڑا ہے۔۔ تب ہی وہ لوگ وہاں آئے تھے یا پھر کسی ایک انسان کے ہونے سے کون ڈرتا ہے۔۔ اس لیے آگئے تھے۔
وہ سینے پر بازو جمائے انہیں دیکھنے لگا۔۔ اب ان میں سے ایک آدمی لاؤنج میں کھلنے والے گیسٹ روم کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا جو لاکڈ تھا۔۔ ایک نے ٹارچ تھامی تھی جبکہ دوسرا ہینڈل پر جھکا ہوا لاک توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ وہ تسلی سے انہیں دیکھتا سیڑھیاں اترنے لگا تھا۔۔ اس کی چال یا اس کے چہرے پر کہیں کوئی خوف نہیں تھا بلکہ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔
”ہیلو۔۔۔“ اس نے سیڑھیاں اترتے اونچی آواز میں کہا۔۔ ویران گھر میں اس کی آواز گونج گئی۔
وہ دونوں نقاب پوش ہڑبڑا کر پلٹے۔۔ ایک نے جانے کہاں سے گن نکال لی تھی۔
”وہیں رک جاؤ۔۔“ نقاب پوش نے گن اس پر تانتے کڑک دار آواز میں کہا۔
وہ بنا سنے سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔
”میں نے کہا رک جاؤ ورنہ گولی چلا دوں گا۔۔“ وہ غضب ناک تھا۔
”ارے یار لائیٹ تو آن کرلو۔۔ مجھے اندھیرے میں صاف نظر نہیں آتا۔۔“ وہ ان کی بات کو ہوا میں اڑاتے نیچے اتر آیا۔۔ دونوں نقاب پوش اس کی جرأت پر حیران تھے۔۔ وہ سیڑھیاں اتر کر دائیں جانب لگے سوئچ بورڈ کی جانب بڑھا۔ وہ اتنا تو جان گیا تھا کہ نقاب پوش ابھی اناڑی تھے۔
اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹس جلادیں۔
وہ دونوں لڑکے اب بھی گن اس پر تانے کھڑے تھے۔
”ہلنا مت۔۔“ دوسرا نقاب پوش غرایا۔
”اس کمرے میں کچھ بھی نہیں ہے۔۔“ وہ سکون سے کہتا لاؤنج میں رکھے صوفوں کی جانب بڑھ گیا۔۔۔دونوں نقاب پوشوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ وہ صوفے کی جانب بڑھ رہا تھا جب ایک نقاب پوش نے ہاتھ میں پکڑا ایک بھاری قیمتی گلدان اسے زور سے دے مارا۔۔
وہ ہلا نہیں تھا۔۔ گلدان اس کی کمر پر لگا تھا اور نیچے گر گیا۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔۔ صوفے کے قریب پہنچ کر اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
نقاب پوش یہ منظر دیکھ کر ساکت رہ گئے۔۔ کوئی اور ہوتا تو ابھی تک نیچے گرا کراہ رہا ہوتا۔۔ جبکہ وہ سکون سے کھڑا تھا۔۔ گلدان نیچے گرنے کے باعث زوردار آواز پورے گھر میں گونج گئی تھی۔
اس نے زمین پر پڑے گلدان کو دیکھا اور پھر نقاب پوشوں کو۔۔
”مرے ہوئے انسان کو کیا مارو گے تم لوگ؟؟“ اس نے اتنے عجیب انداز میں کہا کہ وہ دونوں جو پہلے ہی گھبرا گئے تھے اب مزید ڈر گئے۔
”پر تم لوگ بتاؤ تم لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔۔ مارا جائے۔۔ پولیس کے حوالے کیا جائے یا پھر۔۔۔“
اس کا انداز ایسا تھا کہ نقاب پوشوں کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہونے لگی۔۔ گن ان کے ہاتھ میں تھی پر وہ ٹریگر نہیں دبا پارہے تھے۔۔ جانے اس شخص میں ایسی کونسی کشش تھی جس نے دونوں کو باندھ دیا تھا۔۔ وہ چشمہ جمائے اب صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔ جبکہ ایک نقاب پوش نے اپنا تھیلا نیچے واپس رکھ دیا۔۔جس میں انہوں نے قیمتی سامان بھرا تھا۔
”تم لوگوں کو کوئی شک ہے تو ٹریگر دبا کر دیکھ لو پر اگر میں نہ مرا تو تم لوگ نہیں بچ پاؤ گے۔۔ لہذا میں تم دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ الٹے پاؤں لوٹ جاؤ۔۔ اور دوبارہ کبھی چوری کی طرف مت آنا۔۔“
عجیب پاگل انسان تھا گن پوائنٹ پر ہونے کے باوجود الٹا انہیں ہی مشورے دے رہا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھا اب گہری نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔
دونوں نقاب پوشوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔۔ ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا۔۔۔جس کے ہاتھ میں گن تھی اس نے سامنے صوفے پر بیٹھے لڑکے کا نشانہ لیا اور ٹریگر دبا دیا۔۔
وہ چست لگاتا سائیڈ پر ہوا۔۔ بنا آواز کے چلی ہوئی گولی سامنے دیوار میں لگی تصویر پر لگی۔۔تصویر نیچر گر گئی۔ اگلے ہی پل وہ پھرتی سے ان کے سر پر پہنچ گیا۔۔۔گن نقاب پوش کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔۔
اس نے زوردار ہاتھ اسکی گردن پر مارا۔۔ نقاب پوش کراہ کر گرگیا۔۔ جبکہ دوسرا بھاگنے لگا۔۔ اس نے اسکی پشت پر زوردار لات رسید کی وہ بھی منہ کے بل گرا۔
”مجھے لگتا ہے تم لوگوں کو عزت راس نہیں۔۔“
وہ مارشل آرٹ کا ماہر تھا شاید تبھی اتنی آسانی سے لڑ رہا تھا۔
”اس سے پہلے کہ میں پولیس کو بلاؤں یہاں سے غائب ہوجاؤ۔۔“ اس کے کہنے کی دیر تھی وہ دونوں گرتے پڑتے وہاں سے باہر کی جانب بھاگے۔
جبکہ اس نے دیوار پر لگی تصویر کو دیکھا۔۔۔ اس پر لگا کانچ کا فریم ٹوٹ چکا تھا۔۔ کانچ نیچے بکھر گیا تھا۔۔ شال اوڑھے صوفے پر بیٹھا وہ شخص کوئی کتاب پڑھنے میں مگن تھا جب اس کی یہ تصویر لی گئی تھی۔۔
وہ نہایت حسین شخص تھا۔۔۔ حشام جبیل۔۔۔
اس نے تصویر کو اٹھایا اور اسے لے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ لاؤنج کی اس دیوار پر بہت ساری تصویریں لگی تھیں۔۔
آرجے، مکی ، روحان جبیل، مستقیم اور سب سے حسین حشان جبیل۔۔۔
تینوں کی تصویروں سے یہ دیوار بھری ہوئی تھی۔۔
یہ گھر بھی تو ان کا ہی تھا۔۔ جہاں وہ چوروں کی طرح رہ رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ فارم سامنے رکھے ، لیپ ٹاپ میں ایکسل کی شیٹ اوپن کیے لسٹ بنا رہی تھی۔۔ ماثیل بہت خوش تھا۔۔ وہ آگئی تھی۔۔۔اسے آنا ہی تھا۔۔
وہ سنجیدگی سے کام کر رہی تھی۔۔ باہر پول کے پاس ہلکی دھوپ میں کرسیاں اور میز رکھی گئی تھیں۔۔جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے۔ جبکہ ماثیل ہتھیلی پر ٹھوڑی جمائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
وہ سنجیدہ سی کام کرتی کتنی اچھی لگ رہی تھی۔۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔۔ وہ پہلے سے تندرست تھی۔۔ پر تھوڑا تھکی ہوئی تھی۔
اسے یوں گھورتا پا کر ایمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ وہ مسکرادیا۔
“کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟“ اس نے ابرو اٹھائے پوچھا۔
”تمہیں۔۔۔اور صرف تمہیں۔۔۔“ وہ مسکرایا۔ اور پھر ایمان کی گھوری پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
”ویسے تھینک یو آنے کے لیے۔۔“ اس نے خوش دلی سے کہا۔۔جبکہ ایمان تیزی سے کام ختم کرنے کے چکر میں تھی۔ وہ ماثیل کو کیا کہتی۔۔ وہ ایسے ہی آج کل مسکراتا رہتا تھا۔۔ مارتھا نے اس کا یہ نیا روپ دیکھا تھا۔۔ وہ بہت خوش رہنے لگ گیا تھا۔۔ مانو جیسے اسے پوری کائنات ملنے والی ہو۔
ایمان نے لسٹ فائنل کرتے اسے محفوظ کیا اور لیپ ٹاپ ماثیل کی جانب سرکا دیا۔
“یہ ہوگئی آپ کی لسٹ ریڈی۔۔ پینسٹھ اسٹوڈنٹس ہیں۔۔“
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔۔اسے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔
وہ پھر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
“جاب کہاں شروع کی ہے؟؟“ وہ اب سنجیدہ تھا۔
”ہے ایک کمپنی۔۔“ ایمان نے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔
”تمہیں کیا ضرورت ہے جاب کرنے کی؟؟ میں ہوں ناں۔۔“
اسکی بات سن کر ایمان نے غور سے اسے دیکھا۔۔۔پھر وہ مسکرادی۔۔۔ استہزائیہ مسکراہٹ۔۔ وہ سمجھ نہ پایا۔
“آپ ہیں تو اس کا مطلب ہے میں جاب نہ کروں۔۔؟؟“ ایمان نے الٹا سوال کیا۔
”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔“ اس نے صفائی دی۔
”آپ کا جو بھی مطلب تھا مسٹر ادھم۔۔ میں آپ کی طرح اکیلی نہیں ہوں۔۔۔میری ایک فیملی بھی ہے اور میرا کوئی سرپرست بھی نہیں ہے۔۔ جو میرا خرچہ اٹھا سکے۔۔ اس لیے مجھے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔۔“
وہ صاف گوئی سے بولی۔ جبکہ ماثیل لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔ وہ اسے دیکھنے لگا۔۔ اس کے چہرے پر کچھ کھوج رہا تھا۔۔ یوں جیسے سارے راز اس کے خوبصورت چہرے پر نقش ہوں۔
”میں خود چاہتا ہوں تم اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤ۔۔ میں بس ویسے ہی کہہ رہا تھا کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں ضرورت نہیں ہے۔۔“ وہ خاموش ہوگیا۔۔ مارتھا چائے کی ٹرے اٹھا لائی تھی۔۔ آج کل ماثیل بھی کافی چھوڑ کر چائے پی رہا تھا۔۔ اور وجہ ایمان تھی۔۔۔صرف ایمان۔۔
ایمان کی نظریں اب پول میں تیرتی بطخوں پر جمی تھیں۔
وہ چائے رکھ کر چلی گئی تو ایمان نے ماثیل کی جانب دیکھا۔
”بہت بہت شکریہ پر میں اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہوں۔۔“ وہ مسکرائی۔ اور پھر چائے کا مگ اٹھالیا۔۔نظریں پھر سے پول پر جمادیں۔
”تمہیں پتہ ہے آج کل میری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟؟“ ماثیل کا انداز ایسا تھا کہ ایمان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
وہ جینز شرٹ میں ملبوس تھا۔۔ بال سلیقے سے سیٹ تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اچھا لگ رہا تھا۔
”آج کل۔۔؟؟“ مطلب آپ کی خواہشیں بدلتی رہتی ہیں۔۔؟؟“ ایمان کا انداز ایسا تھا کہ وہ مسکرادیا۔ وہ لفظوں کو پکڑنا جانتی تھی۔۔ بھاپ اڑاتے کپ کے عقب سے جھانکتی اس کی ذہین آنکھیں ماثیل پر جمی تھیں۔
”ابھی تو لگتا ہے یہی سب سے بڑی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔“
وہ پھر مسکرایا۔۔۔ایمان خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
“میں جب پاکستان میں تھا تب مجھے ایک پروسٹیٹیوٹ ملی۔۔ یو نو طوائف؟؟“ اس نے ایمان کو دیکھا۔۔۔جیسے پوچھا ہو وہ طوائف کو جانتی ہے یا نہیں۔۔وہ خاموش رہی۔
”اس کا شوہر ایک نشئی تھا۔۔ اس نے محبت کی شادی کی تھی۔۔ پر اس کا شوہر نشئی اور جواری نکلا۔۔ وہ کمانا نہیں چاہتا تھا۔۔وہ کما ہی نہیں سکتا تھا۔۔ اور تمہیں پتہ ہے بنا پیسوں کے گزارا نہیں ہوتا۔۔۔محبت سے پیٹ نہیں بھرتا۔۔“
وہ رکا۔۔۔ اب اس کی نظریں چائے کے مگ پر جمی تھیں۔۔۔گرم ہونے کے باعث ایمان نے بھی مگ واپس میز پر رکھ دیا تھا۔
”جب اسے کہیں کام نہیں ملا تو وہ طوائف بن گئی۔۔ اپنا اور اپنے شوہر کا پیٹ پالنے لگی۔۔ اس کا شوہر نشہ کرکے سارا دن پڑا رہتا۔۔ وہ اس کے لیے نشہ بھی لاتی اور اسے جواء کھیلنے کے پیسے بھی دیتی۔۔ میں حیران ہوں۔۔“
وہ پھر رکا۔۔۔جبکہ ایمان اب پوری توجہ سے کہانی سن رہی تھی۔۔۔وہ حیران تھی وہ کیسی لڑکی تھی جو محبت میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی۔ کون عورت ایسے کرتی ہے۔۔؟؟
”ایک بار میں نے اس سے پوچھا کہ رَمشاء تم اپنے شوہر سے اتنی محبت کیسے کر سکتی ہو؟؟ کہ تم اسے خود نشہ لا کر دو۔۔ اسے جواء کھیلنے دو۔۔؟؟ تو اس نے جواب دیا کہ محبت سب کروادیتی ہے۔۔ اور یقین کرو ایمان میں بہت حیران تھا کہ کوئی کسی سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے؟؟“
حیران تو ایمان بھی ہوئی تھی پر اسے اب اس لڑکی پر افسوس ہونے لگا تھا۔۔
“میں نے اسے کہا آخر تم ہی اپنا جسم کیوں بیچتی ہو؟؟ یہ کام تمہارا شوہر بھی کر سکتا ہے۔۔ پھر تم ہی کیوں؟؟ پتہ ہے اس نے کیا جواب دیا۔۔؟؟“
اس نے نظریں اٹھا کر ایمان کو دیکھا۔۔ دونوں کی نظریں ملیں۔
”اس نے کہا کہ میں یہ گوارہ نہیں کرسکتی میرے شوہر کو کوئی اور چھوئے۔۔۔ میں اس سے بےانتہا محبت کرتی ہوں۔۔۔ اس لیے میں خود یہ کام کرتی ہوں۔۔ اور میں اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔۔ اس لیے میں اسے نشہ بھی لا دیتی ہوں۔۔۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرف نہ جائے اس لیے میں اسے جواء کھیلنے کے بھی پیسے دیتی ہوں۔۔۔“
وہ بولتے بولتے رکا۔۔۔ ایمان کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔
”کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے؟؟ مجھے اس مرد کی قسمت پر رشک آتا تھا جس کی بیوی وہ رمشاء تھی۔۔“
اس نے گہرا سانس لیا اور چائے کا مگ اٹھا کر لبوں سے لگالیا۔
”یہ کہانی سنانے کا مقصد کیا ہے؟؟“ ایمان کے چہرے پر الجھن تھی۔
”میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے ایسی محبت کرے۔۔ بےپناہ محبت۔۔۔“ وہ فوراً بولا۔
”یعنی آپ سے محبت کرنے والی کو آپ کے لیے اگر طوائف بننا پڑے تو آپ کو کوئی اشو نہیں؟؟“
اس نے طنزیہ لہجے میں چوٹ کی۔
“تم سمجھی نہیں ہو ایمان۔۔۔ دیکھو۔۔ فرض کرو میں ایک نشئی ہوں۔۔ اور مجھے نشے کی شدید طلب ہورہی ہو۔۔ میرا نشہ چھڑانے کے لیے مجھے میری ماں نے ہسپتال میں داخل کرادیا ہے۔۔ اور میری حالت ایسی ہے کہ اگر میں نے ذرا سا بھی نشہ کیا تو میں مر سکتا ہوں۔۔ تو تم کیا کرو گی؟؟“
اس نے ایمان سے پوچھا۔
”جس جس کو آپ سے محبت ہوگی وہ سب یہی چاہیں گے کہ آپ ٹھیک ہوجائیں۔۔“
ماثیل بےساختہ ہنس دیا۔
”دیکھا یہی فرق ہے۔۔ میری ماں چاہے گی میری جان بچ جائے۔۔ وہ مجھے نشہ کرنے نہیں دے گی۔۔۔وہ سب لوگ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔۔ یہ ان کی مجھ سے محبت ہے۔۔۔پر ایک محبت اور بھی ہوتی ہے۔۔ ان کنڈیشنل۔۔ میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ویسی محبت کرو کہ بستر مرگ پر اگر میں تم سے ڈرگز مانگوں تو تم میری تکلیف، میری تڑپ نہ دیکھ پاؤ اور میرے لیے ڈرگز لے آؤ۔۔۔“
کیا ڈیمانڈ کی تھی اس نے۔۔جانے یہ کونسی محبت تھی۔۔۔ایمان ساکت رہ گئی۔۔۔ اسے اپنے اندر سنسنی سی دوڑتی محسوس ہوئی۔۔ وہ دھواں دھواں سا چہرہ اسے دیکھ رہی تھی جس کی محبت کے اصول ہی الگ تھے۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post