Maseel novel episode 28- sulphite 02

 

Maseel novel episode 28 by noor rajput

وہ بےچینی سے ٹہل رہا تھا جبکہ ایمان ابھی تک غنودگی کے اثر میں تھی۔۔ اسکا بخار پہلے سے کم تھا پر وہ اتنی گہری نیند میں تھی جیسے برسوں سوئی نہ ہو۔
وہ ایک دو بار کمرے میں آیا پر پھر واپس چلا گیا۔۔۔ یقیناً ایمان حواس میں ہوتی تو کبھی نہ چاہتی ماثیل اسے یوں سوتے ہوئے دیکھے۔۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ کبھی گلاس ونڈو سے جس کا پردہ تھوڑا سا سرکا رکھا تھا تو کبھی جھانک کر دروازے سے۔۔۔
وہ آج خوش تھا۔۔ بےانتہا خوش۔۔ پر ایمان کی بگڑتی طبیعت نے اسے پوری طرح خوش نہیں ہونے دیا۔۔
“کاش تم اتنی مذہبی نہ ہوتی ایمان کہ کسی غیر کی محبت اپناتے وقت تمہیں بےہوش ہونا پڑے۔۔“
وہ اسے دیکھتے سوچ رہا تھا۔ وہ کب سے دروازے کے باہر چکر لگا رہا تھا۔۔ اس وقت اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اسے سیدھا اپنے گھر لے آیا تھا۔۔ ڈاکٹر اس کے آنے تک پہنچ چکا تھا۔۔ وہ کافی اسٹریس میں تھی اور اوپر سے بخار اور ناجانے کونسا شاک تھا جسے وہ سہہ نہ پائی تھی۔
مارتھا وہیں تھی۔۔۔ ماثیل کے کہنے پر وہ بار بار ایمان کو چھو کر اسکا بخار چیک کر رہی تھی۔۔ اور جب مارتھا نے اس کے تپتے جسم کو پرسکون ہوتے دیکھا تو ماثیل کو بتایا۔۔ اسے سکون کا سانس آیا تھا۔
”اٹھ جاؤ ایمان۔۔ مجھے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔۔“ وہ اب دروازہ کھولے بڑبڑا رہا تھا۔ پر وہ نہ اٹھی۔
پھر وہ گہرا سانس لیتا دروازہ بند کرکے واپس لاؤنج میں آگیا۔۔ مارتھا اس کے کہنے پر وہیں رکی ہوئی تھی۔۔ باہر بارش ابھی تک برس رہی تھی جبکہ رات جیسے رک گئی تھی۔۔ وہ بےچین تھا۔۔ وہ اسے ہوش میں دیکھنا چاہتا تھا۔۔ اسے سننا چاہتا تھا۔۔ اپنی سنانا چاہتا تھا۔۔۔ اس کی بےچینی بڑھتی جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”دانش کیا یہ تھوڑا عجیب نہیں ہے کہ تمہارے انکار کرنے پر اللہ تمہیں جلانے کا کہتا ہے اور اس لیے تمہیں اس سے نفرت ہے۔۔۔کیونکہ تم آزاد ہو انکار کا حق رکھتے ہو۔۔۔ پھر بھی تمہیں جلایا جائے تو یہ غلط ہے نا۔۔۔ میں سمجھ گیا۔۔۔
پر ٹیل می ون تھنگ۔۔۔۔ میرے انکار کرنے پر ولیم نے مجھے جلایا۔۔۔ بیشک وہ یہ سب کرنے کے بعد روپڑا اور اس نے مجھ سے معافی بھی مانگی۔۔۔پر اس نے جلایا نا مجھے۔۔ تکلیف تو دی۔۔پھر بھی وہ تمہاری نظروں میں ٹھیک کیسے ہوگیا۔۔۔؟؟؟ مجھے ایکسپلینشن چاہیے۔۔۔؟؟“
وہ جواب سننا چاہتا تھا تاکہ آسانی سے اسٹوڈنٹس کے مائنڈ سیٹ تک پہنچ جائے۔
”اگر کوئی ہمیں تکلیف دینے کے بعد معافی مانگ لے تو ہمیں معاف کر دینا چاہیے۔۔“
دانش کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے جواب دیا۔
”خدا بھی تو ہمیں جنت میں بھیج دیتا ہے جب ہم اپنی سزا بھگت لیتے ہیں۔۔۔ پھر ہم کیوں اسے قبول نہیں کر پاتے۔۔۔؟؟“ وہ اب پرسکون انداز میں پوچھ رہا ہے۔
“میرا ایک سوال ہے۔۔“ اس سے پہلے کوئی کچھ بولتا ایک لڑکا کھڑا ہوا تھا۔۔ اسے مائیک دیا گیا۔
”کیوں نہیں۔۔۔۔؟؟“ وہ متوجہ ہوا۔
”آپ نے کہا۔۔ بلکہ سب کہتے ہیں کہ خدا جو ہے وہ انصاف کرتا ہے اور وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے جنت یا جہنم میں بھیجتا ہے۔۔ میں اس ذات ر یقین نہیں رکھتا۔۔۔ وہ جو بھی ذات ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے اپنی خدائی میں لوگوں کو جج کرکے انہیں جنت یا جہنم بھیج سکتا ہے؟؟ اس کو یہ حق کس نے دیا۔۔؟؟“
وہ بہت کنفیوز تھا۔۔ الجھا ہوا۔۔ جھنجھلایا ہوا۔
اس نے توجہ سے لڑکے کی بات سنی۔۔ پھر وہ ہولے سے مسکرایا۔
“وہ سب بولیں جو آپ کے ذہن میں چل رہا ہے۔۔ میں سب سننا چاہتا ہوں۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔
”کہتے ہیں خدا ہمیشہ سے ہے۔۔ وہ خدا ہے۔۔ وہ کچھ کرکے خدا نہیں بنا۔۔ اسے خدا ہونے کی پاور جہاں سے بھی ملی مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔ لیکن یہ بات مجھے غصہ دلاتی ہے کہ وہ خدا اپنی پاورز کے غرور میں ہم جیسے انسانوں کو بناتا ہے اپنی عبادت کے لیے اور پھر ہمارے انکار کرنے وہ ہمیں سزا دیتا ہے۔۔ ہم سے بدلے لیتا ہے۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟؟ اسے کس نے حق دیا۔۔۔؟؟ مجھے جواب چاہیے۔۔“
اس کی آواز شدت جذبات سے کانپ اٹھی تھی۔۔۔ وہ کافی تپا ہوا لگ رہا تھا۔۔
اور پھر اللہ کہتا ہے جو الجھ جاتے ہیں بھٹک جاتے ہیں بھٹکے ہوئے رہنا چاہتے ہیں میں انہیں بھٹکائے رکھتا ہوں۔الجھنوں کے بیابان میں۔۔۔ میں انہیں الجھائے رکھتا ہوں۔
”آپ سے کس نے کہا کہ اللہ اپنے بدلے لیتا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال پوچھا۔ ”کہاں لکھا ہے ایسا۔۔؟؟ کس سے سنا آپ نے؟؟“
”تو پھر سزا کیوں دیتا ہے وہ ہمیں۔۔؟؟“ لڑکا ابھی تک وہیں اٹکا تھا۔
”جب ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچاتا ہے، دوسرے کو ایزا دیتا ہے۔۔ سزا اس کی نے جاتی ہے۔۔“
ہال میں پل بھر کی خاموشی چھاگئی۔
”تو میں کیسے مان لوں وہ انصاف کرے گا؟؟ وہ تو ملحد پر ایک مسلمان کو اہمیت دے گا نا۔۔ وہ تو اسی کا ساتھ دے گا۔۔ میں کیسے مان لوں وہ انصاف کرے گا۔۔ میں کیسے اس پر یقین کرلوں۔۔؟؟“
”ہم کسی پر یقین کیوں کرتے ہیں ینگ مین۔۔؟؟“ وہ اب پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پوچھ رہا تھا۔۔ انداز بہت خاص سا تھا۔
”وہ کونسا پیمانہ ہوتا ہے جس پر ہم یقین کرکے کہتے ہیں کہ فلاں انسان میں یہ خوبیاں ہوں گی تو ہم اسے منصف مانیں گے؟؟“ عینک سے جھانکتی اس کی ذہین آنکھیں لڑکے پر جمی تھیں۔ لڑکا کشمکش کا شکار تھا۔
”جب کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔۔ سچا ہوتا ہے۔۔“
“اگزیکٹلی۔۔۔ اللہ نے تو کھول کر سب بتادیا ہے۔۔۔پھر اس سے سچا کون ہے؟؟“
”پر میں یہ کیسے مان لوں وہ میرے ساتھ انصاف کرے گا۔۔؟؟ وہ تو کسی کا بھی ساتھ دے سکتا ہے۔۔“
”ہمم۔۔۔“ اس نے سر جھکایا اور پھر چند قدم چلتا اس بائیں جانب والی قطار کی طرف آیا جہاں وہ لڑکا کھـڑا ہوا تھا۔
”یو نو واٹ۔۔ قیامت کے دن اگر اللہ آپ کے سامنے نہ بھی ہوا تب بھی انصاف ہوگا۔۔“
اس نے سرگوشی نما انداز میں کہا۔
”کون کرے گا۔۔؟؟“ لڑکے کی بھنویں سکڑیں۔
”یہ سب۔۔۔“ اس نے اپنے ہاتھ جیبوں سے نکالے اور اٹھائے۔
”ہمارا جسم۔۔ ہمارے اعضاء۔۔ سب خود بولیں گے۔۔۔“
”یہ تو خدا کے تابع ہوں گے۔۔ اس کے کہنے پر کچھ بھی کریں گے۔۔“ لڑکے کا انداز طنزیہ تھا۔۔
وہ سن کر ہولے سے مسکرادیا۔
”ینگ مین۔۔۔کچھ دیر پہلے آپ باہر لان میں سموکنگ کر رہے تھے۔۔ کیا ہال میں بیٹھے یہ سب لوگ جانتے ہیں وہ صرف عام ویپ نہیں تھا بلکہ اس میں ڈرگز بھی تھیں۔۔۔“
اس کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا ساکت رہ گیا۔۔ اسے لگا کوئی دھماکہ ہوا ہو۔
وہ کیسے جان گیا تھا۔۔ حاد جب سمینار روم میں آیا تھا اس نے اسی لڑکے کو باہر لان میں سموکنگ کرتے دیکھا تھا پر اس کے آس پاس والی لڑکیاں نہیں جانتی تھیں کہ اس ویپ میں ڈرگز بھی تھیں۔۔ وہ ایک پل کی نگاہ تھی جس میں حاد نے اسے کش لگاتے دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ابھرنے والا سرور حاد کو سب سمجھایا گیا تھا۔
اسٹوڈنٹس حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔ کھلے عام ڈرگز لینا الاؤ نہیں تھا۔۔ پر وہ لے رہا تھا۔۔ جبکہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
یقیناً اس نے اپنے چشمے میں دوربین فٹ کر رکھی تھی۔
”یقیناً کوئی نہیں جانتا ہوگا۔۔ اور کیا ہوگا جب آپکی زندگی کے ایک ایک پل کو کسی فلم کی طرح آپکے سامنے چلایا جائے اور پھر آپ کے جو اعمال تھے آپ جو کام کرتے تھے اس سے باقی لوگ کس طرح ایفیکٹ ہوئے یہ سب سامنے آجائے پھر تو آپ مان لیں گے نا کہ ہاں اب انصاف ہوا ہے۔۔؟؟“
اس کا انداز ایسا تھا کہ ہال میں بیٹھے اللہ والوں کے دل خوف سے لرز اٹھے۔۔
”انصاف ایسے ہی ہوگا۔۔ تمام انسان برابر کھڑے ہوں گے۔۔۔ایک نے دوسرے کا کتنا نقصان کیا وہ سب دکھایا جائے گا۔۔بتایا جائے گا۔۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے۔۔۔سب دیک رہے ہوں گے
۔ وہاں پر اگر اللہ نہ بھی موجود ہوا تو انصاف پھر بھی ہوگا۔۔ اللہ نے ہمارے اعضاء کو ایسے ہی ڈیزائن کیا ہے۔۔ ہم بھاگ نہیں سکتے۔۔ انصاف سے تو بالکل نہیں۔۔“
”اور دوسری بات کہ اللہ اتنا بےنیاز ہے۔۔ اسے غرور ہے۔۔ تو آپ بتائیں غرور ہم میں کب آتا ہے ہم عام انسانوں میں۔۔“
اس نے ہال کی جانب دیکھا۔۔۔ سب خاموش تھے۔۔۔تب ایک حجاب والی لڑکی نے ہاتھ اٹھایا۔۔ اسے مائک دیا گیا۔
”جب ہم خود کو پرفیکٹ مان لیتے ہیں کہ مجھ سے بہتر تو یہ کام کوئی کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ تب ہم غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔۔“ لڑکی نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی۔
”اگزیکٹکلی۔۔۔ پرفیکشن۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرایا۔۔۔یوں جیسے اسے خدا کی یہ جنگ لڑنے میں بہت لطف آرہا ہو۔
”کبھی کائنات دیکھی ہے؟؟ باقی سب چھوڑیں اپنے آپ کو دیکھیں۔۔۔جو خدا اتنی پرفیکٹ کائنات بنا سکتا ہے جو اتنا پرفیکٹ ہے اس کا بےنیاز ہونا تو بنتا ہی ہے نا۔۔۔
اور رہی بات کہ خدا کو خدائی مل گئی ہے۔۔ جہاں سے بھی ملی ہم نہیں جانتے۔۔۔ تو ہم اسے خدا کیوں مانیں۔۔؟؟“
اس نے سوالیہ نظروں سے اسٹوڈنٹس کو دیکھا۔
”اگر وہ خدا پہلے خدا نہ ہوتا۔۔۔ آپ لوگوں کے مطابق اگر وہ انسان سے خدا بنتا۔۔۔ پہلے غلطیاں کرتا۔۔۔پھر محنت کرکے خدا بن جاتا تو پتہ ہے ہم پھر بھی اسے جھٹلا دیتے۔۔ یہ کہہ کر کہ وہ تو عام انسان سے خدا بنا ہے۔۔ میں اسے خدا کیوں مانوں جو پہلے خدا نہیں تھا۔۔۔“ وہ نرمی سے مسکایا۔
”ہم انسان ہیں۔۔۔جب ہم نے انکار کرنا ہوتا ہے کسی چیز سے تو ہم ایسے ہی بےتکے لاجک ڈھونڈ لیتے ہیں۔۔“
ہال میں پھر سے گہری خاموشی چھاگئی۔۔
اس نے کلائی میں بندھی گھڑی دیکھی۔۔ وقت کم تھا۔۔۔ وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔۔ اس کی شخصیت نے سب کو باندھ لیا تھا۔ وہ جو ایک منٹ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے وہ اب دم سادھے سن رہے تھے۔
”مجھے اب جانا ہے۔۔ میرے آپ لوگوں کے ساتھ تین سیشن ہیں۔۔ کل دس بجے میں یہاں ہوں گا۔۔ جو اسٹوڈنٹس ڈسکشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ دس بجے یہاں پہنچ جائیں۔۔“
اس نے اپنا کوٹ اٹھا کر داہنے بازو پر ڈالا۔۔۔ ہال میں ایک شور سا تھا اٹھا۔۔ یوں جیسے کوئی طلسم ٹوٹا ہو۔ وہ اپنا پزل باکس اٹھاتا خارجی دروازے کی جانب بڑھا۔۔ اسکے پیچھے انتظامیہ تیزی سے لپکی۔
“اوو مائے گاڈ۔۔۔“ لڑکیاں جیسے ہوش میں آئی تھیں۔
”کون تھا یہ شخص۔۔آخر کون ہے یہ حاد۔۔؟؟“
پوری ہال میں ایک ہی سوال گونج رہا تھا۔ ابھی تو اس نے شروع کیا تھا۔ اسے کہیں اور بھی جانا تھا کسی ضروری کام کے لیے اس لیے وہ جلدی چلا گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کی جب آنکھ کھلی تو اسے اپنا سر بھاری بھاری محسوس ہوا۔ کئی لمحے وہ یونہی لیٹی رہی گم سم سی۔۔۔پھر اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔۔ اسے یہی لگا وہ اپنے بستر میں ہے پر جب اسے یاد آیا کہ آخر ہوا کیا تھا تو وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔ جیسے خواب کوئی خواب تھا۔۔۔پر جب اس نے آس پاس دیکھا تو خود کو اجنبی جگہ پر پایا۔۔ نرم گرم سا بستر اور کھلا بـڑا سا کمرہ۔۔۔
اسکے سانس خشک ہوئے۔۔۔ وہ تیزی سے بستر سے باہر نکلی۔۔ دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ بیڈ کے پاس ہی پڑے صوفے پر اس کا کوٹ رکھا تھا اور اس کے شوز رکھے تھے۔۔۔ سائیڈ ٹیبل پر اس کا فون پڑا تھا۔
وہ جلدی سے کھڑکی کی جانب بڑھی۔۔ اس نے پردہ ہٹایا تو سامنے کا منظر اسے جانا پہچانا لگا۔۔ سامنے ہی لان کے اس پار انسٹیٹوٹ کی عمارت تھی۔۔۔یعنی وہ خواب نہیں دیکھ رہی تھی۔۔یہ سب سچ تھا۔۔
وہ واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔اپنے دماغ پر زور ڈالنے لگی۔۔
یعنی اس نے سچ میں ماثیل کی محبت کو اپنالیا تھا۔۔ اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپایا۔۔۔ اور خود کو کوسنے لگی۔۔ وہ کیوں جذباتی ہوئی تھی۔۔۔ اسے سب یاد آگیا تھا۔۔۔اسے یہاں لانے والا ماثیل ہی تھا۔۔اس کے کپڑے وہی تھے جبکہ اوپر ایک گرم جیکٹ تھی۔۔ جو مارتھا نے اسے پہنائی تھی پر سوچ سوچ کر اسے کچھ ہورہا تھا۔۔
اس نے اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹا۔۔ اور پھر وہ باتھ روم کی جانب بڑھی۔۔ کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر نکلی۔
اس نے جیکٹ اتار کر وہیں رکھی۔۔ اپنا کوٹ اٹھا کر پہنا اور شوز پہن کر اپنا فون اٹھاتی کمرے سے باہر نکل لائی۔۔چھوٹی سی راہداری تھی اور پھر لاؤنج تھا۔۔
ماثیل صوفے پر لیٹا تھا۔۔ اسکی نظریں اسی جانب تھیں۔۔ جیسے ہی اس نے ایمان کو آتے دیکھا وہ تیزی سے اٹھا۔۔ وہ ساری رات یہیں بیٹھا رہا تھا۔۔ سو نہیں پایا تھا۔۔۔
”تم ٹھیک ہو اب۔۔؟؟“ اس کے لہجے میں بےچینی واضح تھی۔۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔۔“ وہ نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔۔ عجیب سی تپش نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔
”میں چھوڑ آؤں گا۔۔ آؤ پہلے ناشتہ کرو۔۔“ وہ نرمی سے کہنے لگا۔
”نہیں مجھے جانا ہے۔۔۔“ وہ ضدی تھی یہ ماثیل جانتا تھا۔۔ تبھی وہاں مارتھا آئی۔
”ناشتہ لگوادوں۔۔؟؟“ اس نے ماثیل سے پوچھا۔ مارتھا کو یہاں دیکھ کر ایمان کو سکون کا سانس آیا۔ وہ سمجھ گئی تھی مارتھا یہاں اسی کی وجہ سے تھی۔
”ٹھیک ہے چلتے ہیں۔۔ ریلیکس ہوجاؤ۔۔“
وہ نہیں چاہتا تھا ایمان کی طبیعت پھر سے خراب ہو۔ کچھ دیر بعد مارتھا اسکی دواء کی خوراک لے آئی تھی۔۔
”ناشتہ کرلو پھر دوائی لینی ہے اس کے بعد چلیں گے۔۔“
ماثیل نے پیار سے کہا۔ اس کی نظریں پل پل بدلتی ایمان پر جمی تھیں۔
”نہیں مجھے ابھی جانا ہے۔۔“ وہ ضد کرتی بالکل کسی بچی کی طرح لگ رہی تھی۔ ماثیل نے گہرا سانس لیا اور میز پر پڑی چابی اٹھا کر ایمان کو باہر چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔
وہ اپنے جسم میں بہت کمزوری محسوس کر رہی تھی۔۔ بھوک تو اسے لگی تھی بہت پر وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی۔۔۔وہ تصور نہیں کر پارہی تھی کہ وہ کسی غیر انسان کے گھر میں تھی۔
باہر آکر وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔ماثیل نے بیٹھتے ہی فوراً گاڑی اسٹارٹ کی۔
مارتھا کی نظریں دونوں پر جمی تھیں۔۔۔اسے ایمان بری لگتی تھی پر اسے ماثیل عزیز تھا اس لیے وہ خاموشی سے اسے برداشت کر رہی تھی۔
گاڑی میں خاموشی چھائی تھی۔۔ جبکہ ماثیل الجھا ہوا تھا۔۔۔ایمان کے رویے میں ذرا بھی لچک نہیں تھی۔
”ایمان۔۔۔ ایم سوری۔۔“ بالآخر اس نے ہی خاموشی کو توڑا۔
ایمان خاموش بیٹھی رہی۔۔ اسکے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔
”کیوں سزا دے رہی ہو مجھے۔۔۔؟؟“ اس کی خاموشی بری لگ رہی تھی۔۔۔ایمان نے چہرے کا رخ موڑا۔۔ اس کی آنکھوں میں بہت سارے شکوے تھے۔۔ شکایتیں تھیں۔۔
”آپ کو تو خوش ہونا چاہیے نا۔۔“ وہ اپنے اندر کے طوفان کو دباتے بولی۔
”میں ایسے خوش نہیں ہو سکتا۔۔“ اس نے گاڑی روک دی۔ پھر وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے باہر نکل گیا۔۔ ایمان کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا تو سامنے ہی بیکری تھی۔۔۔کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں سینڈوچ تھے اور ساتھ میں جوس۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھا اور بیگ ایمان کی جانب بڑھایا۔۔وہ سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”تمہاری وجہ سے میں بھی بھوکا ہوں۔۔ کچھ کھا لو۔۔“
اس کی بات سن کر ایمان نرم پڑی۔۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایسے حالات میں کیا کرتے ہیں۔۔۔ اس کے اندر بس خوف تھا۔۔۔ عجیب سا خوف۔۔۔
پھر اس نے ایک سینڈوچ نکال کر ماثیل کی جانب بڑھایا۔۔
”تم کھاؤ پہلے۔۔“ اس نے ٹوکا تو ایمان نے ایک نوالا لیا۔ وہ سن بیٹھی تھی۔
”ایمان۔۔“ پھر سے خاموشی چھانے لگی تو ماثیل نے اسے پکارہ۔
”تمہیں پتہ ہے میرا تعلق مسلم گھرانے سے ہے۔۔۔ میں میرج ٹائپ والا لڑکا نہیں ہوں۔۔ لیکن میں تمہارے لیے سب کروں گا۔۔ تمہیں کسی کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑے گا۔۔“ وہ اپنی طرف سے تسلی دے رہا تھا۔۔ جبکہ ایمان کی آنکھیں گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پر جمی تھیں جن میں اس نے سینڈوچ تھام رکھا تھا۔۔ اسکا دل بھر آیا۔۔
لوگوں کی تو اسے پرواہ نہیں تھا۔۔ اللہ کے سامنے سر جھکنے کا ڈر تھا آخر کیسے اس نے اپنے لیے ایک منکر کو چن لیا تھا۔۔۔ آخر کیسے۔۔؟؟؟ اگر اس سے پوچھا جاتا تو وہ کیا جواب دیتی۔۔؟؟ نوالہ اس کے گلے میں ہی اٹک گیا۔۔
وہ جس اذیت سے گزر رہی تھی ماثیل اسے کبھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔۔۔ اس نے تڑپ کر نظر اٹھائی۔۔ سامنے سڑک پر گاڑیاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔۔ اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔
”ایمان۔۔۔“ اس نے پھر سے پکارہ۔ ایمان نے رخ موڑا تو اس کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔ ماثیل کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوا۔ کیا تھی وہ لڑکی۔۔؟؟ کیوں تھی وہ ایسی۔۔؟؟
”مجھے تھوڑا سا وقت دیں۔۔ مجھے سنبھلنے کے لیے وقت چاہیے۔۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔“ وہ زبردستی مسکرائی۔ اب محبت اپنا ہی لی تھی تو وہ بھاگ نہیں سکتی تھی۔۔ اس کی یہ بات سن کر ماثیل کو سکون کا سانس آیا۔ جبکہ ایمان کا ذہن کہیں دور الجھا ہوا تھا۔۔۔کیسے ہوگا ممکن سب کچھ؟؟ سلمی بیگم کا چہرہ بار بار تصور کے پردے پر لہرا رہا تھا۔
”بہت بہت شکریہ مادام۔۔“ وہ مسکرایا۔ جبکہ ایمان نے رخ پھیر لیا۔۔ ماثیل اب پرسکون ہوچکا تھا۔۔ وہ جانتا تھا ایمان کہیں نہیں جا سکتی تھی۔۔۔وہ جانے ہی نہیں دیتا۔
✿••✿••✿••✿
وہ بری طرح زخمی ہوچکا تھا۔۔ پر اس نے ہار نہیں مانی تھی۔۔ چاروں جانب عبدل عبدل کی پکار تھی۔۔۔
وہ جتنا خود زخمی ہوا تھا اپنے سامنے والے کو اس سے تین گناہ زیادہ زخمی کردیا تھا۔۔۔ وہ جیسے اپنے ہوش میں نہیں تھا۔۔ ایک سال گزر گیا تھا۔۔۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔
وہ ایمانے سے نہیں مل پایا تھا۔۔ آج بھی اس کے سامنے وہ بھیگی پلکوں والا چہرہ جانے کہاں سے ابھر آتا تھا۔۔۔
اس نے سب چھوڑ کر اب باکسنگ شروع کردی تھی۔۔ جسمانی طور پر وہ پہلے سے زیادہ مضبوط بن چکا تھا۔۔ پر جانے کیوں وہ ایمانے کو نہیں بھول پایا تھا۔۔
وہ اس کے آخری الفاظ۔۔۔ اس نے کتنی بری طرح ایمانے کا دل توڑا تھا۔۔ جانے وہ کہاں تھی۔۔۔کیسی تھی۔۔ اس نے کبھی جان سے بھی نہیں پوچھا تھا۔۔ وہ اس دن کے بعد کبھی یونیورسٹی نہیں گیا۔۔۔ جان جب اس سے ملنے آتا تو اکـثر ایمانے کا ذکر کرتا پر وہ خاموش رہتا۔
وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔۔بالکل ویسے جیسے آرجے ام حانم کے سامنے ہار گیا تھا۔۔ جیسے مون نے اینجل کو چھپ چھپ کر فالو کیا تھا۔۔۔ وہ اپنی الگ دنیا میں تھا پر اس دنیا میں بھی ایمانے کسی حقیقت سے کم نہیں تھی۔۔
”میں شادی کر رہا ہوں۔۔“ اس نے کیسے ایمانے کا دل توڑا تھا۔۔وہ معصوم لڑکی اسے اپنا دوست مان بیٹھی تھی اور دوست ایسے نہیں کرتے۔۔۔
غصے کی ایک تیز لہر اٹھی اور اس نے پوری طاقت سے ایک زوردار گھونسا اپنے مخالف کو دے مارا تھا۔۔ وہ لڑکھڑا کر گرا اور دوبارہ نہیں اٹھ پایا۔۔۔
اس کے ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا گیا۔۔ جیت کا اعلان ہوچکا تھا۔۔۔ اس پر لگائی گئی شرطیں جیتی جاچکی تھیں۔۔۔
وہ کھڑا تھا۔۔۔ اس شور میں اسے وہ نظر آرہی تھی۔۔ سب سے آخر میں کھڑی تھی۔۔ خاموش۔۔۔ سب سے الگ۔۔۔ بھیگی پلکیں لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ وہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑاتا وہاں سے بھاگا تھا۔
وہ بھاگ جانا چاہتا تھا دور۔۔۔بہت دور۔۔ جہاں ایمانے کا خیال بھی اسے چھو نہیں پاتا۔۔
وہ زخمی تھا۔۔۔پر رات کے اس پہر سڑک پر تیز رفتاری سے بھاگ رہا تھا۔۔
اسے لگا جیسے ایمان اس کا پیچھا کر رہی ہو۔۔۔ وہ اب اسے پکار رہی تھی۔۔۔ وہ غصہ تھی۔۔ وہ اسے منحوس کہہ رہی تھی۔۔۔کبھی جن تو کبھی ڈریکولا۔۔۔ وہ اب تھک چکی تھی۔۔ اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔ وہ اب سڑک پر منہ پھلا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ اس نے بھاگنے کی رفتار بڑھا دی۔۔ وہ ایک دو بار سامنے سے آنے والے لوگوں سے ٹکرایا۔۔۔اور ایک بار گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔۔
وہ جاننا چاہتی تھی وہ آرجے کو کیسے جانتا تھا۔۔۔پر وہ اس سے دور بھاگ آیا تھا۔۔ وہ اب رو دینے کو تھی۔۔۔
غصہ کرتی وہ نم آنکھیں لیے واپس پلٹ گئی۔۔۔ اور وہ رک گیا۔۔۔۔ وہ جا چکی تھی۔۔ جبکہ عبدل سامنے ساحل سمندر پر تھا۔۔
”مجھے پریشان کرنا بند کرو ایمانے۔۔“ وہ جھکا۔۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر جمائے زور سے چلایا۔۔۔ ٹھنڈی ہوا اس سے ٹکرائی اور اسے زخم اکڑ گئے۔
”اسی لیے مجھے اچھی لڑکیاں نہیں پسند۔۔“ وہ غصے سے چلایا۔ اور پھر تھک کر وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
”کیا وہ اتنی عزیز ہے تمہیں۔۔۔؟؟“ نسوانی آواز پر اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا۔ ہیزل لہراتے لباس میں اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس کے بال ہوا کے رخ کے باعث اڑتے ہوئے اسکے چہرے کو چھو رہے تھے۔
”میں جانتی تھی تم یہیں آؤ گے۔۔“ وہ گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھی۔ عین اس کے سامنے۔۔
”تم اس سے محبت کرتے ہو؟؟ مان کیوں نہیں لیتے۔۔؟؟“
“ایسا کچھ نہیں ہے۔۔“ وہ پھٹ پڑا۔۔ ”محبت کے علاوہ بھی کچھ رشتے ہوتے ہیں۔۔ کچھ لوگ آپ کو بلاوجہ ہی عزیز ہوجاتے ہیں۔۔ ان کا دکھ ہمیں دکھ دیتا ہے۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس کا بھروسہ توڑا۔۔کائنات نے اس کا بھروسہ توڑا۔۔۔ اسے دوستی میں کیا ملا؟ صرف دھوکا۔۔ وہ یہ ڈیزرو نہیں کرتی تھی۔۔ “
ہیزل رات کے اس پہر عبدل کے چہرے پر جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔
”وہ میرے لیے نہیں بنی۔۔۔ وہ جس کے لیے بنی ہے میں اسے بتاچکا ہوں۔۔“
ہیزل الجھ گئی۔۔ وہ کیا کہہ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی۔سمجھ پائی تو صرف یہ کہ عبدل ایمانے کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post