Maseel novel episode 27- sulphite 02

 

Maseel novel episode 27

”ایمان۔۔۔ کیوں رو رہی ہو۔۔؟“ وہ آنسوں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے روپڑی۔۔ دل ناجانے کیوں اتنا اداس ہوگیا تھا۔۔۔ دل کر رہا تھا سب چھوڑ چھاڑ کر دور بھاگ جائے۔۔۔
ماثیل کی جان پر بن آئی تھی۔۔ اس کا دل کیا اپنے قریب کھڑی ایمان کو کہیں چھپالے۔۔۔ دنیا سے دور لے جائے۔۔ اتنی دور جہاں اس ظالم دنیا کے اصول نہ ہوں۔۔ بندشیں نہ ہوں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
لیکن وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگ گئی۔۔ رو روتی گئی۔
”دیکھو اگر تم چپ نہ ہوئی تو میں تمہیں گلے لگالوں گا۔۔“ وہ جب برداشت نہ کرپایا تو اسے بولنا ہی پڑا۔۔ اور یہ خالی دھمکی نہیں تھی۔۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی وہ کر سکتا تھا۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی ایمان جیسے ہوش میں آئی۔۔ اس نے چہرے سے ہاتھ اٹھا کر ماثیل کو دیکھا۔۔
”افف۔۔“ وہ نظریں پھیر گیا۔۔۔ اس نے بےساختہ سانس لینے کی کوشش کی تھی۔۔ پاس کھڑی لڑکی اسے مارنے کا پورا انتظام رکھتی تھی۔ جبکہ ایمان نے اپنے آنسوں صاف کیے۔ اسکی بھیگی پلکیں اور سرخ ناک۔۔۔وہ تاب نہ لا پایا تھا۔
”ایم سوری۔۔“ وہ تیز تیز چلنے لگی۔۔ جبکہ ماثیل کے لیا سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔۔
کیوں وہ لڑکی اسے اتنی عزیز ہوگئی تھی۔۔۔
وہ اسکا کیری تھامے کھڑا اسے دور جاتا دیکھ رہا تھا۔۔ اور پھر اس نے اپنا رکا سانس بحال کیا اور اس کے پیچھے لپکا۔ اسے پل پل رنگ بدلتی ایمان کبھی سمجھ نہیں آئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ کافی سالوں بعد اس گھر میں آیا تھا۔۔ لاہور کا وہ گھر جہاں اس کے اپنوں کی کافی یادیں جڑی تھیں۔۔ اس نے یہاں آنے سے پہلے پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی سے سیشن کی بات کی تھی۔۔ وہ نہ کوئی سکالر تھا نہ موٹیویشنل اسپیکر۔۔ وہ صرف نوجوان نسل سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کافی مشکلوں کے بعد اسے اجازت مل گئی تھی۔۔۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر پہلا قدم یونیورسٹی سے اٹھایا تھا۔۔۔ ایجوکیشن سسٹم اور ینگ جنریشن۔۔۔دونوں تباہ حال تھے۔۔ اور ایک بار یوتھ تک اس کی بات پہنچ جاتی تو پھر آگے کے معاملات خود بخود ترتیب پا جاتے۔
انتظامیہ کا کہنا تھا آج کی نسل کو کسی قسم کے سیشن میں دلچسپی نہیں ہوتی۔۔ اس نے بس ایک گھنٹا مانگا تھا۔ کسی نے تو شروعات کرنی ہی تھی نا۔۔ کہیں نہ کہیں سے۔۔
تو اس نے اپنے بل پر کوشش شروع کردی تھی۔۔
دو تین گھر چھوڑ کر سامنے ہی حمدان صاحب کا گھر تھا لیکن وہ وہاں نہیں گیا تھا اور ابھی جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ اس نے اپنے آنے کی خبر کسی کو نہیں دی۔۔۔
وہ جس مقصد کے لیے آیا تھا اسے اس پر ہی توجہ دینی تھی۔۔ اور وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان پہلی بار اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔۔ شاید اس لیے کہ وہ ذہنی طور پر غیر حاضر تھی۔۔۔ وہ وہیں کہیں ایئر پورٹ پر خود کو چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔ اپنی ماں اور بہن کی تکتی نگاہوں میں۔۔۔ اس ہوا کے جھونکے جیسے شخص کے پہلو میں۔۔۔ وہ بھول آئی تھی خود کو۔۔
ماثیل نے اس کا بیگ گاڑی میں رکھا اور اس کے لیے دروازہ کھول دیا۔۔۔ وہ غائب دماغی سے بیٹھ گئی۔۔ اس نے دوسری جانب بیٹھتے ایمان کو دیکھا۔۔ اسکی آنکھیں بند تھیں وہ سیٹ سے سر ٹکائے بیٹھی۔۔۔ اسکی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔۔ ناک سرخ پڑ چکا تھا۔۔
مارچ شروع ہونے والا تھا۔۔ سردی کی شدت پہلے سے کم ہوگئی تھی۔۔ پھر بھی اس کی ناک ذرا سی ٹھنڈ میں یا رونے سے فوراً سرخ ہوجاتی تھی۔۔ اس نے گہرا سانس اندر کھینچا اور اسٹرینگ پر ہاتھ رکھتے گاڑی آگے بڑھا دی۔
ایمان کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔۔ ماثیل کو اسے اس حالت میں دیکھنا برا لگ رہا تھا۔۔ وہ مضبوط ہی اچھی لگتی تھی۔۔ اسے تیکھے جواب دیتی اور ہراتی ہوئی۔۔ سفر کم ہورہا تھا اور ماثیل کا دل بھی ڈوب رہا تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہ اس کے پاس نہیں ہوگی۔۔۔
”ایمان۔۔“ بالآخر اس نے پکارا۔
”بولیں سن رہی ہوں۔۔“ اس نے آنکھیں کھولیں اور گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ ماثیل نے گاڑی کی رفتار آہستہ کردی تاکہ وہ اس سے بات کر سکے۔
”ایم سوری۔۔“ اس نے ایمان کی سرخ آنکھوں کو دیکھا۔۔ اسے لگا ایمان اسکی وجہ سے رو رہی تھی۔
”میں آئندہ کبھی بنا پوچھے تم سے ملنے نہیں آؤں گا۔۔“ وہ معذرت کر رہا تھا۔ ایمان نے گہرا سانس لیا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔۔ اب اسے اپنے بےاختیار رونے پر غصہ آرہا تھا۔
”میں آپکی وجہ سے نہیں روئی۔۔“ اس نے ایمانداری سے بتایا۔
”تو پھر۔۔۔؟؟“ وہ چونکا۔
”بس حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں۔۔ امی کو چھوڑ کر آنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔۔“ وہ اب سامنے دیکھ رہی تھی۔ دماغ کہیں اور الجھا تھا۔
”تم اسٹرونگ ہو۔۔ ہمیشہ ایسے ہی رہنا۔۔“ وہ ہولے سے مسکرایا۔
“میں ہی کیوں ادھم۔۔۔؟؟؟“ اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔۔ نگاہیں اب بھی سامنے جمی تھیں۔ ماثیل نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔ ایمان اسے بہت سنجیدہ نظر آئی۔
”مطلب۔۔؟؟؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”آپ کو میں ہی کیوں پسند آئی؟؟؟“
یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔ اسے کیا بتاتا۔۔ کچھ دیر کے لیے گہری خاموشی چھاگئی۔
“مجھے جواب چاہیے۔۔“ وہ پھر سے بولی۔
”تم وفادار ہو اس لیے۔۔۔“ بالآخر وہ بول ہی پڑا۔
”آپ کو ایسا کیوں لگا کہ میں وفا کروں گی۔۔؟؟“ الٹا سوال ابھرا۔
”کیونکہ تم مذہبی ہو۔۔ اور مذہبی لڑکیاں دھوکہ نہیں دیتیں۔۔“
”اور۔۔۔؟؟“ وہ جانے کیا سننا چاہتی تھی۔
”اور یہ بھی کہ مجھے لگتا ہے میں تمہاری زندگی میں آنے والا پہلا لڑکا ہوں۔۔ آج سے پہلے کسی نے تمہاری زندگی تک اتنی رسائی حاصل نہیں کی ہوگی۔۔“
اسے یقین تھا۔۔۔ اور یہ بات سنتے ہی ایمان اذیت سے آنکھیں میچ گئی۔
”اور میں یہی چاہتا ہوں میں پہلا اور آخری رہوں۔۔۔ اور اس کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔۔ “
ایمان نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
”ہاں کچھ بھی۔۔۔“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
اولڈ ٹاؤن آگیا تھا۔۔ ایمان نے گہرا سانس لیا۔
”پر میں تمہیں روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور میں زبردستی تمہاری زندگی میں نہیں گھسنا چاہتا۔۔۔ اگر تم کہو گی تو میں سب چھوڑ چھاڑ کر دور چلا جاؤں گا۔۔ بہت دور۔۔۔“
ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“میں بہت اذیت سے گزر رہا ہوں ایمان۔۔ میں شاید مزید نہیں سہہ پاؤں گا۔۔“
کیا وہ اتنی جلدی تھک گیا تھا۔۔ ایمان جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
کیا وہ اس کی وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جا سکتا تھا؟؟ وہ الجھن کا شکا تھا۔۔ کیا واقعی وہ سچ کہہ رہا تھا۔
گاڑی رک گئی تھی۔۔۔ایمان نے سامنے دیکھا تو وہ اپنے ہاسٹل پہنچ گئی تھی۔
”میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گا۔۔۔“ وہ اب ایمان کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ بنا اس کا جواب سنے وہ گاڑی سے اترا اور اس کا کیری ڈگی سے نکال دیا۔ ایمان بھی گاڑی سے اتر آئی تھی۔
”تم مجھے اپنانے کی کوشش تو کر سکتی ہو نا؟؟“ وہ اب اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ ایمان کچھ بول نہ پائی۔۔ جیسے الفاظ سلب کرلیے گئے ہوں۔ اس نے خاموشی سے کیری تھام لیا۔ پھر ماثیل اسی سنجیدگی سے گاڑی میں بیٹھا اور اسے ریورس کرتے اسے ہواؤں میں اڑاتا واپس لے گیا۔۔۔
ایمان نے اسے دور تک جاتے دیکھا تھا۔۔۔ اسے اپنے کندھوں میں کھچاؤ محسوس ہورہا تھا۔۔ وہ سفر سے لوٹی تھی اور اسے شدید نیند آئی تھی۔۔ ناجانے کتنے دن وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔ وہ بیگ سے چابی نکال کر اپنا کیری تھامتے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
ولیم کی کہانی
اگلے دن دس بجے وہ اپنی مطلوبہ یونیورسٹی پہنچ گیا تھا۔۔وہاں وہ مطلوبہ شخص سے ملا۔۔ کچھ دیر اسٹوڈنٹس کو آڈیٹوریم میں اکٹھا کیا گیا۔۔۔ اسٹوڈنٹس بےزار تھے۔۔۔ کافی تعداد تو آئی ہی نہیں تھی جبکہ کچھ اسٹوڈنٹس صرف اس لیے آگئے تھے کہ کلاس سے بچ سکیں۔
آڈیٹوریم کافی بڑا تھا۔۔ وہ ایک جانب بیٹھا اسٹوڈنٹس کو آتے دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے جس شخص سے رابطہ کیا یہ سمینار کرنے کے لیے اسے اعلان کرنے کا کہا کہ جو اسٹوڈنٹس آڈیٹوریم میں نہیں آئیں گے انہیں کلاسز لینی ہوں گی۔۔ اور پھر کیا تھا۔۔ اعلان کے فوراً بعد آڈیٹوریم تیزی سے بھرنے لگا۔۔۔
وہ چشمہ لگائے بیٹھا تھا۔۔ سیاہ فریم والا چشمہ۔۔۔
کچھ دیر بعد اسٹیج پر مائیک وغیرہ سیٹ کردیا تھا۔۔ اسے یہاں سمینار کرنے کی اجازت صرف اس لیے دی گئی تھی کہ وہ لندن سے النور اکیڈمی کا پروفیسر تھا۔۔
پہلے پہل تو یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اسے دیکھ کر یقین نہیں آیا۔۔ وہ خود انہیں ماسٹرز کا اسٹوڈنٹ لگا تھا۔۔
جب اسٹوڈنٹس بیٹھ گئے تو اسٹیج پر آیا۔۔ ڈائز رکھا ہوا تھا اور مائیک اٹیچ تھا۔۔ ایک مائیکروفون اس نے اپنے کان پر جما رکھا تھا جس کا چھوٹا سا مائیک اس کے منہ کے قریب تھا۔۔اس نے ہاتھ میں وہ چھوٹا سا پزل باکس تھام رکھا تھا۔۔
اس نے ایک نظر ہال پر ڈالی۔۔۔ فرسٹ ایئر سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے اسٹوڈنٹس اور پروفیسرز اس کے سامنے بیٹھے تھے۔ اس کے سامنے اسٹوڈنٹس بہت ہی بےزار تھے۔۔۔خاص طور پر لڑکے جو اپنے فون میں گھسے ہوئے تھے۔۔ باقی آدھی سے زیادہ عوام خاص طور پر لڑکیاں اسے پرشوق نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔ اسکی ڈریسنگ ہی ایسی تھی۔
”یہ کون ہے؟؟“
”کوئی نیا پروفیسر یا پھر ماڈل۔۔؟؟“
”یہ تو بہت ہینڈسم ہے۔۔“
”لگتا ہی نہیں پاکستانی ہے۔۔“
لڑکیوں کی سرگوشیاں جاری تھیں۔
وہ پینٹ ڈریس میں تھا۔۔ کوٹ اس نے اتار کر رکھا اور شرٹ کے کف فولـڈ کر لیے۔ سیاہ پینٹ پر سفید شرٹ۔۔۔سلیقے سے جمے بال۔۔۔ اور اس پر عینک سے جھانکتی اس گی چمکدار گرے آنکھیں۔۔
”میں اگر بتاؤں کہ میں یہاں کس مقصد کے لیے آیا ہوں تو آپ سب لوگ یہاں سے اٹھ کر چلے جائیں گے۔۔“ بالآخر اس نے بولنا شروع کیا۔
اس کے برٹش لہجے سے پتہ چل گیا تھا کہ وہ واقعی پاکستانی نہیں تھا یا پھر پاکستان میں نہیں رہتا تھا۔۔
وہ کمیونیکیشن کے اصول جانتا تھا۔۔۔یہاں پاکستان میں اگر وہ اردو میں بات چیت شروع کرتا تو توجہ نہ کھینچ پاتا۔۔ وہ جانتا تھا پاکستانی عوام کو متاثر کرنے کے لیے انگلش کافی تھی۔
لڑکیوں کی توجہ وہ صرف اپنی شخصیت سے کھینچ چکا تھا۔۔ جبکہ لڑکے اب بھی اپنے فون میں لگے ہوئے تھے۔۔ چند ایک اس کی جانب متوجہ تھے۔
”عام الفاظ میں بتاؤں تو میں یہاں صرف آپ لوگو کی سننے آیا ہوں۔۔۔ وہ تمام باتیں جو آپ کسی سے نہیں کہہ سکتے۔۔“
اس نے پزل باکس گھماتے ان پر نظریں جمائے کہا۔۔۔
یہ بات سنتے ہی ہال میں بیٹھے اسٹوڈنٹس ہنسنے لگے تھے۔
”پاگل واگل لگ رہا ہے۔۔“
”پتہ نہیں کہاں سے آگیا ہے۔۔“
”لگتا ہے مارکیٹ میں کوئی نیا موٹیویشنل اسپیکر آیا ہے۔۔“
کافی لڑکے باقاعدہ اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے انکا ارادہ واپس جانے کا تھا۔۔
لڑکیوں نما لڑکے۔۔ لمبے بال۔۔ پھٹی ہوئی پینٹیں۔۔ گلے میں پڑی چین۔۔ پائنچوں سے پینٹ زمین کو چھو رہی تھی۔۔
کچھ لڑکیاں بھی اٹھی تھیں۔۔ رنگ برنگے بالوں والی۔۔۔
اس نے اتنا فیشن لندن میں بھی نہیں دیکھا تھا۔۔ جتنا یہاں نظر آگیا تھا۔۔
کچھ لڑکیوں کو اس نے عبایا پہنے بیٹھے بھی دیکھا تھا پر ان کی تعداد کم تھی۔۔
کیسا کیسا حسن تھا جو سرعام پھر رہا تھا۔۔۔ شلوار قیمص پہننے والی لڑکیاں بال کھولے دوپٹہ گلے میں ڈالے بیٹھی تھیں۔۔ نہایت حسین ترین لڑکیاں۔۔۔
”میں لندن سے آیا ہوں۔۔ میرے دوست نے مجھے چھوڑ دیا تھا پتہ ہے کیوں۔۔ کیونکہ اسے مجھ سے محبت ہوگئی تھی جبکہ مجھے نہیں تھی۔۔۔“
اس کی نگاہ دو لڑکوں پر پڑی تھی جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے واپس جارہے تھے۔۔ اس کا یہ جملہ بولنے کی دیر تھی کہ وہ دونوں رک گئے۔
”ارے ہاں وہی محبت جو آج کل لڑکوں میں عام ہے۔۔۔ اور لڑکیاں بھی آپس میں کرتی ہیں۔۔“ وہ اب انگلش سے اردو پر اتر آیا تھا تاکہ سب سنیں۔۔
سب سے آگے بیٹھے پروفیسرز کی رو میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔۔۔یہ وہ کیسی باتیں کر رہا تھا۔۔؟؟
”میں آپ لوگوں کو اپنی کہانی سناتا ہوں اس کے بعد آپ لوگ بتائیے گا کہ غلطی کس کی تھی۔۔۔میری یا ولیم کی۔۔“
اب کی بار خاموشی چھاگئی۔۔ کچھ لڑکے کھڑے رہ گئے۔۔ کچھ واپس بیٹھ گئے۔۔۔ موضوع ان کی دلچسپی کا تھا۔۔ یہاں وہ خود کو ریلیٹ کر سکتے تھے اس لیے بیٹھ گئے۔
”میں کالج میں تھا جب مجھے ولیم ملا۔۔۔ میرا کوئی دوست نہیں تھا۔۔ میں اپنی کلاس میں سب سے کم عمر لڑکا تھا۔۔ میں تھوڑا ذہین تھا۔۔ ولیم میری جانب متوجہ ہوا۔۔ میں اکیلا بیٹھتا تھا وہ میرے ساتھ بیٹھنے لگا۔۔ مجھے لگا میں اسے اچھا لگتا ہوں۔۔۔اور میں واقعی اسے اچھا لگتا تھا۔۔۔وہ مجھے اپنی گرل فرینڈ بنانا چاہتا تھا۔۔“ وہ ہنس دیا۔۔
ہال میں بھی دبی دبی سی ہنسی گونج گئی۔۔۔
کچھ مذہبی لوگ بھی بیٹھے تھے جنہوں نے استغفار کہا۔۔
”کیسے کیسے لوگوں کو بلا لیتے ہو۔۔“ ایچ او ڈی غصے میں تھا۔۔ وہ اب انتظامیہ کو گھور کر دیکھ رہا تھا۔
“میں جانتا ہوں یہ بات کچھ لوگوں کے لیے بری بات ہے۔۔۔ بےحیائی کی بات ہے۔۔ جبکہ کچھ کے لیے نارمل ہے۔۔۔ ان لوگوں کے لیے جنہیں لگتا ہے یہ کوئی جرم تو نہیں ہے اگر آپ سیم جینڈر سے محبت کرتے ہیں۔۔۔“
وہ سیچویشن بھانپ چکا تھا۔۔۔ اس لیے فوراً بولا۔
”پھر کیا ہوا۔۔؟؟“ اچانک ہال میں سے کسی نے پوچھا۔۔۔وہ ہولے سے مسکرا دیا۔
”ولیم نے مجھے بلایا اور پرپوز کیا۔۔“
ہال میں خاموشی چھاگئی۔۔۔ اس کی نظریں اب پزل باکس پر جمی تھیں جبکہ تصور میں ماضی کا واقعہ کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔
”کیا آپ دونوں اب ساتھ ہیں۔۔؟؟“ اسٹوڈنٹس اب کنیکٹ ہوگئے تھے۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے نظریں اٹھائیں۔۔۔
”کیوں۔۔۔؟؟“ وہ جاننے کو بےچین تھے۔۔ پہلی بار کسی نے اتنی ہمت کی تھی کہ ڈائز پر کھڑے ہوکر اتنی عوام کے سامنے اپنی حقیقت بیان کر سکے۔
”کیونکہ میں مسلمان ہوں۔۔۔میں نے ولیم کو رجیکٹ کردیا۔۔ میں اس وقت نہیں جان پایا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔۔“
یہ بات سننے کی دیر تھی کہ کچھ اسٹوڈنس برہم ہوگئے۔ کچھ نے باقاعدہ انگلش میں گالی تھی۔
”مسلم۔۔۔مسلم۔۔مسلم۔۔ مجھے نفرت ہے اس لـفظ سے بھی۔۔۔یہ اسلام ہمیں کبھی چین و سکون سے جینے نہیں دے گا۔۔“
ایک لڑکا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ اس کے لہجے میں نفرت کے سواء کچھ نہیں تھا۔
”آگے کی کہانی بھی سن لو۔۔۔“ بالآخر اسے بولنا پڑا۔
انتظامیہ اب ایچ او ڈی کو بتارہی تھی کہ اسٹیج پر کھڑا لڑکا بہت قابل تھا۔۔ وہ یقیناً کچھ اچھا ہی کرنے آیا تھا۔
”میں نے ولیم کو اس لیے انکار نہیں کیا کہ میں مسلمان تھا۔۔ بلکہ اس لیے کیا کیونکہ مجھے لڑکوں میں دلچسپی نہیں تھی۔۔ اینڈ آئی تھنک یہ حق سب کو حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ریلشن شپ بنا سکیں۔۔ رائٹ بلو شرٹ۔۔۔“ اس نے اسی لڑکے کو متوجہ کیا جو کچھ دیر پہلے اپنے غصے کا اظہار کر رہا تھا۔۔ اور یہ ان دو لڑکوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے۔۔۔
سب کی نظریں اب اس لڑکے پر جمی تھیں۔۔۔
”واٹس یور نیم۔۔؟؟“ اس نے لڑکے سے پوچھا۔۔ لڑکے کو مائیک دیا گیا۔۔ وہ پھر سے کھڑا ہوگیا۔۔ پہلے اس کی آواز پیچھے بیٹھی عوام تک نہیں جارہی تھی۔
”زوبی۔۔۔“ لڑکے نے مائیک میں جواب دیا۔۔
”اوکے زوبی۔۔۔آئی نو یو آر انٹرسٹڈ ان بوائز۔۔۔ تم کیا کرو گے جب ایک لڑکی تمہیں آکر پرپوز کرے گی۔۔؟؟“
اس کی بات سنتے ہی زوبی کا چہرہ فق ہوگیا۔۔۔۔وہ کیسے جان گیا تھا ؟؟ کیا اس نے چشمے کی جگہ ٹیلی سکوپ لگا رکھی تھی جو انسان کو اندر تک پڑھ سکتی تھی۔۔۔؟؟
وہ سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔ سب کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔ پھر اس نے ہمت کی۔۔ صرف اس لیے کہ لوگ اسے ڈرپوک نہ سمجھیں۔
”میں اسے رجیکٹ کر سکتا ہوں۔۔۔اٹس مائے چوائس۔۔“ وہ کانپتی آواز میں بولا۔
”بالکل۔۔۔میں نے بھی انکار کیا تھا۔۔ بٹ یو نو واٹ کیا ہوا۔۔۔؟؟“
اس نے تجسس پیدا کیا۔۔۔سب اسے دم سادھے سن رہے تھے۔
”ایک رات ولیم نے مجھے کڈنیپ کرلیا۔۔۔اور اس نے یہ سب کیا۔۔۔ اس نے مجھے جلایا۔۔ تاکہ میں ڈر کر اسے ہاں کرسکوں۔۔۔“ اس شرٹ کا پہلا بٹن کھول کر رکھا اور اب اس نے شرٹ کو تھوڑا سا کھسکا کر دکھایا۔۔۔بائیں جانب سینے پر جلنے کا نشان تھا۔۔
ہال میں بیٹھی عوام کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔ موت جیسی خاموشی چھاگئی۔
”کیا لندن میں بھی شدت پسند لوگ پائے جاتے ہیں؟؟“ زوبی کا سوال ابھرا۔۔
”ہر جگہ ہیں۔۔۔ہر شہر ہر ملک میں۔۔۔“
”اب آپ لوگ بتائیں ولیم نے ایسا کیوں کیا۔۔ کیا ولیم ٹھیک تھا یا غلط۔۔؟؟ کیا محبت میں یہ سب جائز ہے۔۔۔؟؟؟“
اس نے ان پزل باکس کو ڈائز کے پیچھے دھرے چھوٹے سے میز پر رکھا اور پانی کی بوتل اٹھائی۔۔۔اور پھر میز پر بیٹھ کر پانی پینے لگا۔
ہال میں سرگوشیوں کا شور اٹھا۔۔
کوئی ولیم کو شدت پسند کہہ رہا تھا۔۔
کوئی اسے غلط کہہ رہا تھا۔۔
کوئی کہہ رہا تھا وہ ٹھیک تھا۔۔
کوئی کہہ رہا تھا کہ اس نے یہ سب محبت میں کیا۔۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔سب کا جواب الگ تھا۔۔۔وہ پانی پینے تک انہیں دیکھتا رہا۔۔اور پھر اٹھ کر درمیان میں آگیا۔
”کون کہتا ہے کہ ولیم نے ٹھیک کیا۔۔؟؟“ اس نے سوال پوچھا۔۔ ڈسکشن ایسی تھی کہ اب اسٹوڈنٹس آہستہ آہستہ اپنے خول سے باہر نکل رہے تھے۔ ہال میں سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اس نے مائیک پکڑانے کا اشارہ کیا۔۔ اس لڑکے کو مائیک دے دیا گیا۔
”آئی تھنک ولیم کی غلطی نہیں ہے۔۔۔ انسان محبت میں اندھا ہوجاتا ہے۔۔۔وہ اپنی محبت پانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔۔ شاید وہ انجانے میں یہ سب کر گیا ہو۔۔“
اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”نام کیا ہے آپکا۔۔؟؟“ اس نے سوال پوچھا۔
”دانش۔۔۔“ لڑکے نے نام بتایا۔
”دانش آر یو مسلم۔۔؟؟“ ایک اور سوال ابھرا۔
لڑکا خاموش ہوگیا۔۔۔۔ وہ کشمکش میں پڑھ گیا تھا۔
”ڈونٹ وری ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ مذہب سب کا ذاتی معاملہ ہے یو نو۔۔۔“ وہ ہنسا۔۔۔طنزیہ ہنسی۔ فنا کر دینے والی۔۔ باندھ لینے والی۔۔
”میں بالکل جج نہیں کروں گا اور اس سمینار کی ریکارڈنگ بھی نہیں ہورہی اس لی آپ کے پیرنٹس تک یہ بات نہیں جائے گی۔۔“
اس نے پورا یقین دلایا۔
”میں مسلمان ہو۔۔۔مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں۔۔۔ پر مجھے اسلام نہیں پسند۔۔۔ آئی ہیٹ اٹ ناؤ۔۔۔“
جانے میں لڑکے میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی۔۔۔پر وہ جھجھکتے ہوئے بھی سچ بول گیا تھا۔
“وائے۔۔؟؟ وائے یو ہیٹ اسلام۔۔؟؟“ وہ اب پوری توجہ سے دانش کو سن رہا تھا۔
”اس میں کچھ بھی اٹریکٹو نہیں ہے۔۔ ذرا سا بھی نہیں۔۔۔ بس نماز قرآن کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ہے۔۔۔ نماز نہ پڑھنے پر بس یہی سننے کو ملتا تھا کہ جہنم میں جاؤ گے۔۔ جلادیے جاؤ گے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔“
وہ تپا ہوا تھا۔۔۔ اس کی بات سن کر اسٹیج پر کھڑا وہ لڑکا جو کسی ساحر سے کم نہیں تھا ہولے سے مسکرادیا۔
”دانش کیا یہ تھوڑا عجیب نہیں ہے کہ تمہارے انکار کرنے پر اللہ تمہیں جلانے کا کہتا ہے اور اس لیے تمہیں اس سے نفرت ہے۔۔۔کیونکہ تم آزاد ہو انکار کا حق رکھتے ہو۔۔۔ پھر بھی تمہیں جلایا جائے تو یہ غلط ہے نا۔۔۔ میں سمجھ گیا۔۔۔
پر ٹیل می ون تھنگ۔۔۔۔ میرے انکار کرنے پر ولیم نے مجھے جلایا۔۔۔ بیشک وہ یہ سب کرنے کے بعد روپڑا اور اس نے مجھ سے معافی بھی مانگی۔۔۔پر اس نے جلایا نا مجھے۔۔ تکلیف تو دی۔۔پھر بھی وہ تمہاری نظروں میں ٹھیک کیسے ہوگیا۔۔۔؟؟؟ مجھے ایکسپلینشن چاہیے۔۔۔؟؟“
اور چہرے دھواں دھواں کیسے ہوتے ہیں یہ کوئی اب دیکھتا۔۔۔۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوگا۔۔۔۔ اس نے کہاں سے پکڑا تھا۔۔
خاموشی اور گہری خاموشی۔۔۔۔ پورے ہال میں بس دھواں سا بھرگیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
پوری رات وہ بس خاموشی سے سوچتی رہی۔۔۔روز اسے ملنے کے بعد جا چکی تھی۔۔۔ رات کو لیٹ واپس آتی تھی۔جبکہ ایمان اب تک حشام جبیل کی باتوں میں الجھی تھی۔ وہ اس کنڈیشن میں نہیں تھی کہ اسے انکار کرتی اور اقرار کرنا تو جان جانے جیسا تھا۔
دوبارہ حشام جبیل نے اسے رابطہ نہیں کیا۔ شاید وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔
ایمان نے جانے سے پہلے جاب کے لیے اپلائے کیا تھا۔۔ اور آج اسے انٹرویو کا میسج آیا تھا۔۔ وہ آج تو جا نہیں سکی البتہ صبح اسے بلایا گیا تھا۔۔ صبح اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا اور انٹرویو دینے بھی۔۔ اب تو اس کا جاب کرنا اور ضروری ہوگیا تھا۔۔ اب اسے گھر والوں کا خرچہ اٹھانا تھا۔۔
وہ اسی کشمکش میں سوگئی۔۔ صبح اٹھی تو سر بھاری بھاری تھا۔۔ اسے اپنا وجود مزید تھکا ہوا محسوس ہوا۔۔
یوں لگا جیسے وہ سوئی ہی نہیں تھی بلکہ پوری رات کام کرتی رہی تھی۔۔اس کے پورے جسم میں درد تھا جسے نظرانداز کرتی وہ سب سے پہلے یونیورسٹی گئی۔۔ وہاں اپنے پروفیسر سے ملی۔۔ انہوں نے اسے پروجیکٹ کی تیاری کرنے کا کہا تھا۔
”آپکا کام اچھا ہے۔۔ اس پر مزید محنت کریں۔۔اگر آپ کا ریسرچ ورک پبلش ہوگیا تو آپ کو ایم فل میں سکالرشپ مل سکتی ہے۔۔۔“ پروفیسر نے اسے خوش کردیا۔۔
اس نے محنت کی تھی۔۔ اور اسے یقین تھا محنت کا پھل مل ہی جاتا ہے۔ اب اسے اپنی پریزنٹیشن تیار کرنی تھی۔۔
اسکا تین بجے انٹرویو تھا۔۔ ایک بجنے والا تھا۔۔ اسے بھوک بھی لگی تھی۔۔ اس نے ایک سینڈوچ اور جوس لیا اور جلدی سے یونیورسٹی سے نکل آئی۔۔ فائل اس کے پاس ہی تھی۔۔۔ وہ اب انٹرویو دینے جارہی تھی۔۔
ٹرین میں بیٹھ کر اس نے سینڈوچ کھایا اور انٹرویو کی تیاری کرنے لگی۔۔ ماثیل کے میسجز کو اس نے نـظرانداز ہی کیا تھا۔ اس کا انٹرویو زیادہ ضروری تھا۔۔
وہ جس کمپنی میں انٹرویو دینے آئی تھی یہ کمپنی سروسز دیتی تھی۔۔ کمپنی کے دو مالک تھے۔۔ ایک سی ای او پاکستان سے تھا۔۔ اور اس کا انٹرویو بھی انہوں نے ہی لینا تھا۔۔
“اسٹڈی کے علاوہ کیا کرتی ہیں؟؟“ اس سے آخری سوال پوچھا گیا۔
”رائٹر ہوں۔۔۔کالمز لکھتی ہوں۔۔“ اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔
”کوئی پبلش بھی ہوا ہے کیا؟؟“ اگلا سوال ابھرا۔۔ ایمان کی نظریں بار بار بھٹک کر سامنے میز پر پڑے اس میگزین پر جارہی تھیں جو کھلا ہوا تھا اور اس صفحے پر اس کا کالم تھا۔۔ وہ ہولے سے مسکرادی اور میگزین کی جانب اشارہ کیا۔۔
”واٹ۔۔۔؟؟“ سامنے بیٹھے شخص نے پوچھا۔
”یہ جو کالم آپ میرے آنے سے پہلے پڑھ رہے تھے یا میں نے ہی لکھا ہے۔۔“
“سیریسلی۔۔؟؟“ اس نے حیرت سے پہلے ایمان اور پھر میگزین کو دیکھا۔۔۔یہ ویلنسیا کا مشہور میگزین تھا۔۔ اور وہ شخص ایمان بنت عبداللہ نامی رائٹر کا ہر کالم پڑھتا تھا۔ پر اسے اندازہ نہیں تھا کہ رائٹر اتنی کم عمر ہوگی۔
”پر یہ تو ایمان بنت عبداللہ کا ہے۔۔“
“ام ایمان۔۔۔ فادر نیم عبداللہ شہاب ۔۔۔ قلمی نام ایمان بنت عبداللہ۔۔ سر یہ میں ہی ہوں۔۔“
وہ ہولے سے مسکرائی تو سامنے بیٹھا شخص کافی متاثر نظر آیا۔۔۔ وہ پچاس پچپن سالا شخص تھا جو پہلے ہی ایمان کو سلیکٹ کرچکا تھا پر یہ بات جان کر وہ اب کافی متاثر نظر آرہا تھا۔۔
گو کہ سیلری پیکج بہت زیادہ نہیں تھا پر ایمان یہ جاب کرنے کے لیے تیار تھی۔
✿••✿••✿••✿
اس نے سب سے پہلے یہ خبر سلمی بیگم کو دی تھی۔ اور اسے یونیورسٹی کا بھی بتایا تھا کہ اگر رسرچ ورک پبلش ہوجاتا تو اسے مزید سکالرشپ مل جاتی۔۔۔ وہ اب خوش تھی۔۔ اسے لگا تھا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ باہر موسم ابرآلود تھا۔۔ اس نے نوڈلز بنائے اور سلمی بیگم کو فون ملالیا۔ اس کا باہر جانے کا ارارہ نہیں تھا۔
”جب تک میرا رزلٹ نہیں آجاتا میں ادھر جاب کروں گی اور پھر واپس آجاؤں گی۔۔ اس کے بعد اگر مجھے سکالر شپ ملتی ہے تو پھر میں سال بعد بھی جوائن کر سکتی ہوں۔۔“ وہ سلمی بیگم کو بتارہی تھی۔ سلمی بیگم خوش تھیں۔۔۔وہ تو دن رات ایمان کی کامیابی کی دعائیں مانگتی تھیں۔۔
وہ سلمی بیگم سے ہی بات کر رہی تھی جب اسے کسی اور کا فون آنے لگا۔
اس نمبر دیکھا تو یہ مارتھا تھی۔۔ ماثیل کی اسسٹنٹ۔۔ اس نے کبھی کبھار کام کے لیے ہی ایمان کو فون کیا تھا۔۔۔پر رات کے اس وقت۔۔۔ ؟؟ اور کیوں۔۔ ؟؟ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔ اس نے سلمی بیگم کو خدا حافظ کہا اور مارتھا کا فون اٹھایا۔
”وہ جا رہے ہیں۔۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر۔۔۔ مسٹر ماثیل۔۔ صرف تمہاری وجہ۔۔۔“
مارتھا کی آواز نے اس کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔
ماثیل کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔۔ وہ ایمان کو خود سے دور نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ اس نے کہا تھا وہ چلا جائے گا۔۔
اور وہ جارہا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کہاں سب چھوڑ چھاڑ کر۔۔۔
ایمان جہاں بیٹھی تھی ساکت رہ گئی۔۔۔ اسے اپنا دماغ جمتا محسوس ہوا۔ مارتھا فون بند کرچکی تھی۔
”اگر وہ آپکی وجہ سے چلا گیا اور پھر کبھی نہ ملا تو قصور کس کا ہوگا۔۔؟؟
اسے میسج ملا تھا۔۔ ان جان نمبر سے۔۔ میسج کرنے والا کون تھا وہ جان گئی تھی۔۔۔وہ تیزی سے اٹھی۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ اس نے جوتے پہنے اور سکارف اٹھایا۔ اسے پہلے ہی بخار تھا۔۔ اور اب اچانک اس خبر سے وہ گھوم گئی تھی۔
اب وہ ماثیل کا نمبر ملا رہی تھی جو بند جارہا تھا۔۔ وہ ایئر پورٹ کی جانب نکل چکا تھا۔۔ مارتھا نے اس کے جانے کے بعد فون کیا تھا۔
اس نے جلدی سے رائیڈ کروائی اور اس کے پیچھے جانے لگی۔
وہ نہیں چاہتی تھی کوئی اس کی وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا جائے۔۔ وہ خود کو کیسے معاف کر پاتی۔۔؟؟
”ادھم پلیز مت جائیں۔۔۔“ اس نے میسج کیا تھا۔۔ پر شاید ماثیل کا فون ہی بند تھا۔۔ وہ اسے بنا بتائے کیسے جا سکتا تھا۔۔؟؟
اسے یاد آیا اس نے ماثیل کے سارے میسجز اگنور کردیے تھے۔۔ وہ جلدی جلدی میسج دیکھنے لگی۔۔ گاڑی کے ونڈ گلاس پر بہتی ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں اداسی کا پیغام دے رہی تھیں۔۔ ایمان کو اس وقت بہت برا لگ رہا تھا۔
“میرا وجود یہ سب برداشت نہیں کر پارہا ایمان۔۔“
اس کا آخری میسج تھا۔۔ اور ایمان نے اب دیکھا تھا۔۔ جب وہ ایئر پورٹ پر پہنچی بارش تیز ہوچکی تھی۔۔۔
اس نے مارتھا کو فون کیا۔۔ اسکی فلائٹ ٹیک آف کرنے والی تھی۔۔ بس پانچ منٹ باقی تھے۔۔۔ وہ اسے ایئر پورٹ پر ڈھونڈ رہی تھی اور پھر وہ اسے نظر آگیا۔۔
وہ جارہا تھا۔۔
“ادھم۔۔۔“ اس نے اونچی آواز میں پکارہ۔
لوگوں نے اسے دیکھا جو بارش میں بھیگنے کے بعد اب ٹھنڈ سے کانپنے لگی تھی۔۔ بارش کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی۔۔ اوپر سے ٹھنڈی ہوائیں۔۔۔ اور رات کے وقت درجہ حرارت ویسے ہی گر جاتا تھا۔
آواز سن کر وہ رکا۔۔۔اسے اس نام سے پکارنے والی پورے ویلنسیا میں صرف ایک ہی تھی۔۔۔ماثیل کو یقین نہ ہوا۔۔ وہ پلٹا نہیں۔۔۔پھر سے چلنے لگا۔۔ اسے لگا یہ ایک وہم تھا۔۔
وہ بھلا کب آنے والی تھی۔۔۔؟؟
”ادھم پلیز رک جائیں۔۔“ اور اس بار وہ جھٹکے سے پلٹا۔۔۔ سامنے ہی دشمن جان کھڑی تھی۔۔ وہ باہر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بھیگ گئی تھی۔
وہ کھڑا رہا۔۔ بت بن کر۔۔۔اسے یقین نہ آیا۔۔ ایمان لرزتے قدموں سے اس کی جانب بڑھی۔ وہ اپنا اور اس کا فاصلہ کم کرتی اس تک پہنچی۔۔۔یہ صرف وہ جانتی تھی یہ فاصلہ اس نے کیسے طے کیا تھا۔۔ وہ جانتی تھی وہ اب جو کرنے جارہی تھی اس سے اسکی شناخت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی۔۔۔ وہ خود کو کھونے جارہی تھی۔ اندھیروں کی دنیا میں۔۔
”کہاں جارہے ہیں آپ؟؟“ اس نے سوال کیا۔۔۔ماثیل کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔۔ اس کے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔ اسکا وجود لرز رہا تھا۔۔ وجہ ٹھنڈ تھی یا کچھ اور وہ نہیں جانتا تھا۔۔
”تمہارے سحر سے بہت دور۔۔“ وہ خود پر قابو پاتے بولا۔
”دور جانے سے کیا یہ سحر ختم ہوجائے گا۔۔؟؟“ ایمان نے الٹا سوال کیا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پر بولا کچھ نہیں۔۔
وہ جانتا تھا وہ اس سحر سے نہیں نکل سکتا تھا۔
”میری وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں وہ بھی مجھے بنا بتائے۔۔“
”تمہارے نزدیک میری کوئی اہمیت ہوتی تو اسکی نوبت نہ آتی۔۔ میں نہیں دیکھ سکتا تمہیں خود سے دور۔۔ کسی اور کا ہوتے۔۔۔“ وہ تڑپ اٹھا۔
”میں تو اپنی بھی نہیں ہوں۔۔۔کسی اور کی کیسے ہوں گی۔۔؟؟“
”ایک بار میری بننے کی کوشش تو کرتی۔۔“ اس نے شکوہ کیا۔
”پلیز مت جائیں۔۔ میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔۔“ اسکی بات سن کر وہ ہنس دیا۔۔ استہزائیہ ہنسی۔۔ خود کا مزاق اڑاتی ہوئی۔ اس نے بےاختیار چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”کتنی ظالم ہو نا۔۔ ابھی بھی صرف خود کا خیال ہے۔۔“
وہ پلٹ گیا۔۔ اور ایمان کو اپنا دل رکتا محسوس ہوا۔۔
ظلم تو وہ کر رہا تھا۔۔ وہ کیسے بتاتی اسے۔
”پلیز رک جائیں۔۔“ ایمان نے اس کا بیگ پکڑ لیا۔
”کس کے لیے۔۔ اور کیوں۔۔؟؟“ وہ رک گیا پر پلٹا نہیں۔۔۔ دل ابھی تک جل رہا تھا۔
”میرے لیے۔۔۔“ اس کے لبوں سے آزاد ہوئے لفظوں نے ماثیل کے قدموں میں زنجیر ڈالی۔۔ اس بار وہ پلٹا۔۔ اس نے بےیقینی سے ایمان کو دیکھا۔۔
اسکی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی۔۔ اس کا وجود جانے کس طوفان کی زد میں تھا۔
”پھر سے کہو۔۔“ وہ اسکے قریب ہوا۔
”پلیز میرے لیے رک جائیں۔۔ میں آپ کی محبت کو اپناتی ہوں۔۔“ ایمان کو لگا اسکا وجود کسی اٹھا کر جہنم میں پھینک دیا گیا ہو۔۔اسکی پلکیں پھر سے بھیگنے لگیں۔
جبکہ ماثیل کے جلتے وجود کو اس نے دوزخ سے نکال لیا تھا۔۔۔ ماثیل کو لگا کسی نے اس کے سارے زخموں پر مرہم رکھ دیے ہوں۔۔۔۔ اس کی اذیتیں ختم ہوگئی ہوں۔۔ جیسے اس بھٹکتے انسان کو پناہ مل گئی ہو۔۔۔!!
”سوچ لو ایمان۔۔اب تم پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔۔ مجھ سے انکاری ہوئی تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔“
وہ مزید قریب ہوا۔۔ اور ایمان کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔
جبکہ وہ صرف سر ہلا پائی۔۔۔ اس نے کچھ بولنا چاہا پر وہ نہیں بول پائی۔۔ماثیل نے اپنی جیکٹ اتار کر اس کے کندھوں پر ڈالی۔۔ اور اس سے پہلے کہ ماثیل اسے چھوتا یا اسکا ہاتھ تھامتا وہ اپنے وجود کو نہ سنبھال پائی اور لڑکھڑاتے گرگئی۔۔
اگر وہ نہ تھامتا تو اس کا سر بری طرح زمین پر لگنا تھا۔
”ایمان۔۔ ایمان۔۔۔“ وہ اسے پکار رہا تھا جبکہ ایمان کا ذہن
اندھیروں کی میں ڈوبتا چلا گیا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post