کوئی جلدی نہیں ہے۔۔ آپ سوچ لیں۔۔۔۔ یہ ایک باپ کی خواہش ہے کہ اس کا بیٹا گھر آجائے۔۔۔ اگر آپ کوئی مدد کرسکتی ہیں تو ضرو
کریں۔۔۔اور مجھے لگتا ہے آپ اس شخص کے لیے اتنا تو کر ہی سکتی ہیں جس نے آپ کی ماں کی جان بچانے میں مدد کی ہو۔۔۔!!“ الفاظ ایسے تھے کہ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”اور اگر میں انکار کردوں تو؟؟“ ایمان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔
”مس ایما۔۔۔ ایسے شخص کی محبت اپنانے میں کیا قباحت ہے جو آپ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو؟؟؟ اور پھر میں آپ کو جاب دے رہا ہوں۔۔۔فری کرنے کو نہیں کہہ رہا۔۔ ادھم چاہے عام انسان ہے پر ماثیل تو نہیں۔۔۔ آپ کو کسی عام انسان کی محبت نہیں مل رہی۔۔ اور اگر آپ اسے محبت سے سیدھے راستے کی جانب لائیں گی تو وہ آجائے گا۔۔۔“
” میں کسی کا دل نہیں توڑنا چاہتی۔۔۔“
”دل تو آپ ویسے بھی توڑ چکی ہیں۔۔۔ اب تو اسے بس امید ہے کہ آپ اس کی زندگی میں آئیں گی اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔“ وہ جیسے پوری تحقیق کرکے بیٹھا تھا۔ ایمان نے اس کی بات سن کر گہرا سانس لیا۔۔ ماثیل کا چہرہ اسکے تصور کے پردے پر لہرایا تھا۔
”میں آپ کو سوچ کر بتاؤں گی۔۔۔“ وہ الجھن میں پڑ گئی تھی۔۔ اسے ماثیل سے محبت نہیں تھی۔۔ نہ اسے فرق پڑتا تھا کہ ماثیل اس سے محبت کرتا تھا یا نہیں۔۔ ہاں پر اسے محبت کرنے والوں پر افسوس ہوتا تھا۔۔ وہ کیسے اور کس کس کو بتاتی کہ وہ کیسا محسوس کرتی تھی۔۔۔؟؟
اسے Gamophobia تھا۔۔ وہ رشتے بنانے سے ڈرتی تھی۔۔۔چاہے وہ دوستی کے ہوں محبت کے یا پھر شادی۔۔۔۔
لیکن وہ یہ بات کسی کو بتا نہیں پاتی تھی۔۔۔ اسے فون پر بات کرتے دیکھ کر سلمی بیگم نے اسے پکارہ۔
”ایمان۔۔۔ کس کا فون ہے اس وقت؟؟“
سلمی بیگم کی آواز واضح اور صاف تھی۔۔ دوسری جانب موجود شخص تک شاید یہ آواز پہنچ گئی تھی۔
”ٹھیک ہے مسٹر جبیل۔۔۔ میں سوچ کر جواب دوں گی۔۔۔ میں کوشش کروں گی کہ آپ کا احسان اتار سکوں۔۔۔“
اس نے جواب سنے بنا فون بند کردیا۔۔ اب وہ کنپٹی سہلا رہی تھی۔۔۔سر میں درد کی لہر اٹھی تھی۔
یہ تقدیر اسے کس مشکل میں ڈال رہی تھی۔۔ وہ خود نہیں جانتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اسکے یونیورسٹی کے پروجیکٹ کی پریزنٹیشن رہتی تھی۔جو اس نے تھیسز ورک کیا تھا۔۔۔ اس نے یونیورسٹی میں اپنے سپروائزر سے بات کرکے کچھ دن کی چھٹی لی تھی۔
اسے اسپین واپس جانا تھا پر جانے سے پہلے اسے بہت سارے کام کرنے تھے۔۔ حمیزہ کا ایڈمیشن کروانا تھا۔۔ سلمی بیگم کو ساری پریشانیوں سے آزاد کرنا تھا۔۔ اس نے اپنے پاکستان آنے کی خبر کسی کو بھی نہیں دی تھی۔ اور حیرت اس بات کی تھی کہ اس سے ملنے کوئی نہیں آیا تھا۔۔۔ کوئی کزن نہیں آئی تھی۔۔۔ یہاں تک کہ مہربانو بھی نہیں۔۔
اس کے چچاؤں نے سارے تعلق جیسے ختم کرلیے تھے۔۔ ایمان نے جب ماموں کے پسند کے رشتے سے انکار کیا تھا تب سے وہ سب کے لیے بری بن چکی تھی۔۔ اور سلمی بیگم سے سارے رشتےداروں نے تعلق توڑ لیا۔۔ انہیں لگتا تھا ایمان اسپین جا کر ایک باکردار لڑکی نہیں رہی۔۔۔ اور اس میں سارا قصور سلمی بیگم کا نکلا تھا جس سے اپنی اولاد قابو نہیں ہوئی۔۔
یہ ساری باتیں مل کر سلمی بیگم کو بیمار کرنے کے لیے کافی تھیں۔۔۔پر یہ باتیں سلمی بیگم اور حمیزہ نے ایمان کو نہیں بتائی تھیں۔۔ وہ جو مہینے بعد تھوڑے بہت پیسے بھیجتی تھی سلمی بیگم اسی میں گزارہ کرلیتی تھیں۔۔۔
یہ سب جاننے کے بعد ایمان دو دن سو نہیں پائی۔۔ وہ چھپ چھپ کر روتی رہی۔۔ کبھی بستر میں تو کبھی کچن میں۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے سب ٹھیک کردے۔۔ اب اسے جانا تھا اور اس نے سوچ لیا تھا اپنی اسٹڈی مکمل کرکے واپس آئے گی اور اچھی جاب کرکے اپنی بہن اور ماں کو اچھی زندگی دے گی۔۔
وہ یہی سوچ کر گئی تھی۔۔ پر تب اسے لگتا تھا وہ اکیلے نہیں ہیں۔۔ پر اب اسے پتہ چل گیا تھا کہ اسکی ماں کتنی اکیلی ہوچکی تھی۔۔
اور یہ سب ایمان سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ اور پھر حشام جبیل کی باتیں۔۔ یہ سب اسے ذہنی طور پر پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ ابھی بھی رشتےداروں میں عجیب باتیں گردش کر رہی تھیں کہ آخر ایمان کے پاس لاکھوں کی رقم کہاں سے آئی؟؟ جو اس نے اپنی ماں کا آپریشن بھی کروالیا تھا۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور وہ سب خاموشی سے سنتی رہی۔۔ اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ فرق پڑتا تھا تو اس بات سے آخر سلمی بیگم اسکے بارے میں کیا سوچتی تھیں؟؟
✿••✿••✿••✿
“تم نے بتایا کیوں نہیں کہ تم پاکستان آئی ہو؟؟“ یہ بینش تھی۔۔ بینش مستقیم۔۔ ایمان کی کلاس فیلو اور بینش ایمان کو اپنی بہت اچھی دوست مانتی تھی۔ اسی لیے اسے جب پتہ چلا کہ ایمان پاکستان آئی ہے تو وہ اس سے ملنے آگئی۔
“آنا تو تھا پر حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ مجھے کچھ یاد نہ رہا۔۔“ وہ دونوں اس وقت کیفے میں بیٹھی تھیں۔۔ ایمان سودا سلف لینے مارکیٹ آئی تھی۔ وہ میزو کو گھر سلمی بیگم کے پاس چھوڑ کر اکیلی آگئی تھی۔ اور تبھی اسے بینش کا فون آیا۔۔۔ وہ ملتان سے لاہور آئی تھی۔۔ اسکی یونیورسٹی بھی ختم ہوگئی تھی۔۔۔ لاہور آکر جب اس نے ایمان کو فون کیا تو ایمان نے اسے پاکستان میں ہونے کا بتایا۔۔ بینش نے فوراً ملنے کی ضد پکڑ لی۔۔ اور اس وقت وہ دونوں کیفے میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔
”تم تو ویلینسا جا کر اور بھی خوبصورت ہوگئی ہو۔۔“ وہ اسے دیکھے جارہی تھی۔ ایمان اس کی بات سن کر جھینپ سی گئی۔ اس نے گھر فون کرکے بتادیا تھا کہ وہ تھوڑا لیٹ ہوجائے گی۔
”ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔“ ایمان نے مسکرا کر جواب دیا۔
”کیسی طبیعت ہے آنٹی کی اب؟؟“
”الحمداللہ پہلے سے کافی بہتر ہیں۔۔“ ایمان نے چائے کا گھونٹ بھرتے بتایا۔
”اچھا یہ بتاؤ ویلنیسا میں کوئی ملا یا اب تک سنگل ہو؟؟“ وہ شرارت سے بولی۔
”ملا تھا نا۔۔۔“ ایمان بھی مسکرائی۔
”واقعی؟؟ کون؟؟“ بینش کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں۔۔ اسے یقین نہیں آیا تھا۔
”عبدل۔۔۔“ وہ بھی اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔
”عبدل بھائی۔۔۔؟؟“ اسے یقین نہیں آیا۔۔ ”وہی عبدل بھائی۔۔؟؟“ بینش کو آج بھی یاد تھا اس نے ایک بار ایمان کو تصویریں سینڈ کی تھیں۔ ایمان اس کے چہرے کے تاثرات پر ہنس دی۔
”دنیا میں کیا صرف ایک ہی عبدل ہے؟؟“
”اوہ۔۔۔! میں بھی کہوں عبدل بھائی ویلنیسا کیسے پہنچ گئے۔۔“ بینش کو جیسے سکون کا سانس آیا۔
”ویسے نا انہیں بھائی کہنے کو ذرا دل نہیں کرتا اگر وہ انگیجڈ نہ ہوتے تو سچی میں ضرور ٹرائے کرتی۔۔ نہیں بلکہ تمہارے لیے رشتہ لاتی تم ان کے لیے پرفیکٹ ہو۔۔“ وہ اپنی دھن میں بولے جارہی تھی۔۔ اسے بہت وقت بعد کوئی سننے والا ملا تھا۔ اور ایمان بس اسے سن رہی تھی۔۔۔خاموشی سے۔۔۔
”مجھے ذرا شوق نہیں کسی کی چیز لینے اور رکھنے کا۔۔“ بالآخر اس نے ٹوک ہی دیا۔
”ارے وہ کوئی چیز تھوڑی ہیں۔۔“ بینش نے منہ بسورا۔ اسے ایمان کا یوں کہنا برا لگا تھا۔
”مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔“ ایمان یک دم ہی سنجیدہ ہوئی۔ اسے کچھ یاد آگیا تھا۔
”ہاں ہاں پوچھو۔۔۔“ بینش بھی متوجہ ہوئی۔
”تم نے بتایا تھا تم جبیل خاندان کو جانتی ہو۔۔“
ایمان کی بات پر بینش چونکی۔ وہ جانتی تھی ایمان کو آرجے بہت پسند تھا۔۔ پر اس نے کبھی اس کے خاندان میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ پھر آج اچانک۔۔
”بات کیا ہے؟؟“ بینش نے الٹا سوال کیا۔
”ویسے ہی پوچھ رہی ہوں جنرل نالج کے لیے۔۔۔“ اس نے فوراً ارادہ ترک کردیا۔۔اور کرسی سے پشت ٹکادی۔ وہ اپنے راز بانٹنے اور بتانے کی عادی نہیں تھی۔۔ وہ اپنی ذاتی زندگی کو خود تک رکھتی تھی۔
“کہیں تم واقعی عبدل بھائی سے تو نہیں ملی۔۔؟؟“ بینش کا انداز ایسا تھا کہ ایمان نے اپنا سر پیٹ ڈالا۔۔
وہ اور اس کا عبدل بھائی۔۔۔ ایمان ہمیشہ ہی تنگ آجاتی تھی۔۔۔
”سیریسلی میرا تمہارے عبدل بھائی سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔ ذرا سا بھی نہیں۔۔۔“ وہ اکتاگئی۔
عبدل کے ذکر پر اسے اب چڑ ہوتی تھی۔۔ جو اس کے ساتھ ویلنیسا میں عبدل نے کیا تھا وہ کیسے بھول سکتی تھی۔۔ عبدل کی وجہ سے اس کا دوستی سے بھی دل اٹھ گیا تھا۔۔۔ اور کبھی کبھی وہ اسے یاد آتا تھا۔۔ بہت یاد آتا تھا۔۔ وہ اس کے رونے پر ہمیشہ کچھ الٹا سیدھا کرکے اسے ہنساتا تھا۔۔۔اسے خوش کرتا تھا۔۔اس کے لیے کوئی نہ کوئی گفٹ لاتا تھا۔۔ پر ان دنوں وہ جتنا روئی تھی وہ نہیں آیا تھا۔۔اسے شاید آنا ہی نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
ادھم نے جب ہوش کی دنیا سنبھالی تو خود کو دینی گھرانے میں پایا۔ وہ تین بہن بھائی تھے۔۔ ایک بڑا بھائی تھا ابوزر جبیل، دوسرے نمبر پر وہ تھا ادھم جبیل اور ایک چھوٹی بہن تھی۔۔ صرف ایک سال چھوٹی۔۔ دائمہ جبیل
اس نے اپنے باپ کو ہمیشہ محبت کرتے دیکھا تھا۔۔ وہ دادا جان بی جان اور سب سے بڑھ کر اس کی ماں سے بےپناہ محبت کرتا تھا۔۔ حشام جبیل عرف جورڈن۔۔ جسے ماہین حمدان سے ہمیشہ سے محبت تھی۔
جو چیز ادھم نے سب سے پہلے سیکھی وہ یہ تھی کہ مرد جب محبت کرنے پر آتا ہے تو عورت سے بےپناہ محبت کرتا ہے۔۔۔۔ چاہے وہ محبت یکطرفہ ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری چیز جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ اس کی ماں اس کے باپ سے اتنی محبت نہیں کرتی تھی جتنی اس کا باپ اس کی ماں سے کرتا تھا۔۔ وہ عزت کرتی اور کبھی کبھی محبت کا دکھاوہ کرتی تھی پر وہ جلدی جان گیا تھا کہ وہ محبت نہیں تھی۔۔۔۔۔ وہ بس وفا کرتی تھی۔
اس نے اکثر اپنی ماں کو تنہائیوں میں روتے دیکھا تھا۔۔۔وہ کبھی یہ بات سمجھ نہ پایا کہ آخر اس کی ماں کیوں اور کس کے لیے روتی تھی۔۔۔ کافی لمبا عرصہ وہ اس بات سے بےخبر رہا تھا۔ اکثر وہ اپنے غم میں اس قدر ڈوب جاتی تھی کہ ان کا خیال بھی نہ رکھ پاتی۔۔
اور اسی بات کا نقصان اور اثر بہت گہرا پڑا۔۔۔ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اسکی زمہداری بڑھ جاتی ہے۔۔۔ اور اگر وہ یہاں اولاد کی تربیت میں ذرا سا بھی چوک جائے تو پھر ساری عمر خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسی صورتحال میں بی جان انہیں سنبھالتی تھیں۔ اس کا بڑا بھائی سمجھدار تھا۔۔ اسے فرق نہیں پڑتا تھا اس کی ماں کیا کرتی تھی کیا نہیں۔۔۔ وہ جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا تھا۔۔لیکن ادھم حساس تھا۔۔ اپنی بہن سے بھی زیادہ حساس۔۔
وہ اپنے باپ کو دیکھتا تھا جو اسکی ماں کو خوش کرنے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔۔
اسے اپنے باپ سے زیادہ وجیہہ مرد اور کوئی نہیں لگتا تھا۔۔ بڑے دادا چھوٹے دادا اور کوئی نہیں۔۔ اس نے نین نقش اپنے باپ سے چرائے تھے۔۔۔ جو بالکل بھی مشرقی نہیں تھے۔۔ البتہ اس کے بال اور آنکھیں سرمئی تھیں۔۔ جو اسے مشرقی بناتے تھے۔
پھر اس نے اپنے بڑوں کو لوگوں کے فیصلے کرتے دیکھا۔۔۔ کہیں وہ کسی پسند کی شادی کے خلاف ہوجاتے تو کہیں کسی کو سزا دی جاتی تھی۔۔ وہ یہ سمجھ نہ پایا۔۔۔
آخر ایسا کیوں ہوتا تھا۔۔ اسکی چھوٹی بہن دائمہ ماں سے قریب تھی جبکہ وہ باپ سے قریب تھا۔ اس کا بھائی آزاد خیال اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔۔
اکثر وہ بی جان کے پاس جاتا اور ان سے پوچھتا کہ ان کے خاندان کے لوگ دوسروں کے فیصلے کیوں کرتے ہیں۔۔؟؟ وہ کون ہوتے ہیں یہ فیصلے کرنے والے۔۔؟؟
اسکا ذہن یہیں اٹکا رہتا تھا۔۔۔ وہ بڑا ہونے لگا۔۔ اسکا باپ اسے مسجد لے جاتا۔۔ اپنے ساتھ نماز پڑھاتا اور وہ یہ سب خوشی خوشی کرتا۔۔۔۔ اسے یہ سب اچھا لگتا تھا نماز پڑھنا اور دعا مانگنا۔۔۔پر جو نہیں پسند تھا وہ یہ کہ انسان انسان کو سزا دینے والا اسے فیصلہ سنانے والا کون ہوتا ہے؟؟
اسے اپنی بڑی سی حویلی میں اس وقت مزید تنہائی محسوس ہونے لگی جبکہ بی جان اس دنیا سے چلی گئیں۔۔ وہ خود کو اکیلا محسوس کرنے لگا۔۔۔
وہ سکول جاتا تھا۔۔۔وہ ساتویں میں تھا جب اسے مجسمے بنانے کا شوق پیدا ہوا۔۔ وہ جو باتیں بی جان سے کرتا تھا ان کے جانے کے بعد کسی سے نہیں کر پایا۔۔یہاں تک کہ اپنے باپ سے بھی نہیں۔۔۔کیونکہ اس کا باپ زیادہ تر مصروف رہتا تھا۔ اور پھر ایک دن اس نے حویلی کے باغیچے سے کچھ مٹی اٹھائی اور اسے گوندھ کر چھوٹا سا بی جان کا مجسمہ بنایا۔۔۔اور اسے سکھانے کے بعد اپنے کمرے میں رکھ لیا۔۔ وہ اب بی جان سے باتیں کرنے لگ گیا۔۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اسے بڑا مجسمہ بنانا ہے۔۔ یہ مجسمہ چھوٹا تھا۔۔
اور پھر ایک دن اس نے باغیچے میں ایک بڑا سا مجسمہ بنایا۔۔۔پر یہ مجسمہ جب ضیاء جبیل یعنی اس کے دادا ابو نے دیکھا تو غصے میں آکر وہ مجسمہ توڑ ڈالا اور اسے ایسے کام کرنے سے منع کردیا۔۔۔
ادھم کو یہ بات ناگوار گزری۔۔ اسے یہ اچھا نہیں لگا تھا۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔وہ اب جان بوجھ کر الٹے سیدھے مجسمے بنانے لگ گیا۔۔ سب اسے منع کرتے پر وہ باز نہ آتا۔۔ ایک دن اس کے باپ نے جب منع کیا اور پیار سے سمجھایا تو وہ مان گیا۔۔ وہ ادھم کو گاڑی میں بٹھا کر باہر لے گیا۔۔ اسے گھمانے پھرانے۔۔ اسے سمجھانے۔۔
”کچھ چیزوں کی ہمیں اجازت نہیں ہوتی ادھم۔۔ تو ایسے کام ہمیں نہیں کرنے چاہئیں۔۔“ وہ بس خاموشی سے سنتا رہا۔
اس نے اب مجسموں کا پیچھا چھوڑ دیا تھا۔۔ البتہ نقصان یہ ہوا کہ اس نے سکول میں عجیب وغریب لڑکوں سے دوستی کرلی تھی۔۔ وہ آٹھویں جماعت میں ہونے کے باوجود اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر سموکنگ کرنے لگا۔۔ اسکا بھائی پڑھنے کے لیے باہر جاچکا تھا۔۔۔
وہ اب گھر میں خاموش رہتا۔۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا وہ باہر کیا کرتا تھا۔۔ ایلیٹ سکول میں پڑھنے کا اسے سب سے بڑا نقصان یہی ہوا تھا کہ یہاں اسٹوڈنٹس کے پاس نشہ آوار ادویات آسانی سے دستیاب ہوتی تھیں۔ ماں باپ کو فرق نہیں پڑتا تھا کہ ان کے بچے آخر کرتے کیا تھے۔۔؟؟
اس پر گھر میں توجہ دی جاتی تھی پر وہ باہر کیا کرتا تھا کوئی جان نہیں پایا۔
اور جب وہ نہم میں ہوا تو اس کی زندگی یک دم ہی بدل گئی تھی۔۔۔اس نے جو تصور بھی نہیں کیا وہ ہوگیا تھا۔۔ جبیل خاندان سے ایک اور شخص اللہ کو پیارا ہوگیا۔۔ اس نے موت کو دیکھا۔۔۔پھر سے دیکھا۔۔ اور قریب سے دیکھا۔۔ وہ ساکت رہ گیا۔۔ آخر اللہ نے انہیں دنیا میں بھیجا ہی کیوں تھا۔۔؟؟
صرف تڑپنے اور پھر مرجانے کے لیے۔۔۔؟؟ اسے پہلی بار خدا سے شکوہ ہوا تھا۔۔ اور اسے سب کچھ برا لگ رہا تھا۔
اس دوسری موت نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ اب حویلی آتا ہی نہیں تھا۔۔۔زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا تھا۔۔ اسے اس واقعے کے بعد دمہ ہوگیا تھا۔۔۔اکثر اسکا سانس اکھڑ جاتا اور اسکی حالت بگڑ جاتی۔۔
وہ ذہنی طور پر بہت آگے تھا۔۔۔ اپنی عمر کے بچوں کے لحاظ سے بہت آگے کا سوچتا تھا پر جسمانی طور پر وہ زیادہ فٹ نہیں تھا۔۔ شاید اس لیے کہ وہ جو توجہ چاہتا تھا وہ اسے مل نہیں پائی تھی۔
اس کی ماں کو جب احساس ہوا تب دیر ہوچکی تھی۔۔ وہ اپنی راہیں بدل چکا تھا۔۔۔ اب اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔ کبھی کبھی غفلت کی نیند چاہے دو سالوں کی کیوں نہ ہو وہ آپ کے اگلے دو سو سال برباد کر دیتی ہے۔
✿••✿••✿••✿
جب غرور ٹوٹتا ہے!
النور اکیڈمی میں سیشن کے لیے آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور اس کی وجہ حاد تھا۔۔ وہ نیا لڑکا جو تھوڑا عجیب تھا اور وہ جانے کتنی تیاری کے بعد آیا۔۔ بلکہ پوری تیاری کرکے آیا تھا جیسے اس نے پہلے سے طے کر رکھا تھا کہ اس نے کیا کرنا تھا۔۔۔
لوگ اسے سنتے تھے۔۔ وہ اچھا بول لیتا تھا۔۔۔ صرف اچھا بولتا نہیں تھا بلکہ اسے سمجھا بھی دیتا تھا۔ وہ ہاتھوں میں پزل باکس تھامے کھڑا تھا۔۔۔
”پتہ ہے انسان کو کبھی کبھی یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ کائنات کی سب سے بہترین مخلوق ہے اور کائنات کو تو صرف بنایا ہی اس کے لیے گیا ہے۔۔“ مائیکروفون اسکے منہ کے قریب فٹ تھا۔۔ اس کا چشمہ اس پر بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔ جیسے وہ کوئی جینٹل مین ہو۔
کیا آپ نے کبھی ستاروں بھری رات میں آسمان کا نظارہ کیا ہے؟؟ یہ نظارہ ہمارے چھوٹے پن کا احساس دلانے کو کافی ہے نہیں ہے۔۔۔؟؟؟ اربو کھربوں ستارے اور ہم۔۔۔ ہم کون ہیں؟ یہ کائنات کیا ہے؟ ان سوالوں کے ملتے جواب انسانی انا پر مسلسل ضربیں لگاتے آئے ہیں۔۔۔ انسان جب ایسا سوالوں کا جواب حاصل کر لیتا ہے تو ٹھٹک سا جاتا ہے۔۔۔ “
پزل بوکس کے حصوں کو گماتے اس کے ہاتھ رکے اور اس نے سر اٹھا کر عوام کو دیکھا۔
”ہم اس کائنات ایک چھوٹی سی مخلوق ہیں۔۔ بہت ہی چھوٹی۔۔۔“ وہ جانچتی نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھی عوام کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ کتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ اس کے سامنے بیٹھے تھے۔۔ جو سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر کائنات کو یہ نظام رک جائے۔۔۔
اور انسان اسی لیے خسارے میں ہے۔
”پتہ ہے قدیم یونان میں ایراتوستھینس نے بتایا کہ یہ زمین کئی ملین انسانوں سے بڑی ہے اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو پتہ لگا کہ نظامِ شمسی تو اس سے بھی ہزاروں گنا بڑا ہے۔ اور پھر اپنی بڑائی کے باوجود سورج ایک کہکشاں کے کھربوں ستاروں میں سے بس ایک عام سا ستارہ نکلا۔۔۔ یہ پوری کہکشاں قابلِ مشاہدہ کائنات کی اربوں کہکشاوٗں میں سے بس ایک اور یہ قابلِ مشاہدہ کائنات بھی بس ایک سفئیر ہے جہاں سے روشنی کو زمین تک پہنچنے کا وقت ملا ہے۔۔۔“
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
”ہماری زمین کا ہونا بالکل ایسا ہے جیسے ساحل سمندر پر پڑے ریت کے ذرات۔۔۔۔۔ تو سوچیں ہم کیا ہیں؟؟؟ ہمیں کس چیز کا غرور ہے؟؟“
پزل باکس کا کوئی حصہ جڑا تھا۔۔ ٹک کی ایک آواز ابھری۔ وہ چونک سا گیا۔۔
”وقت کے سکیل پر بھی ہم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک وقت میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ہزاروں سال پرانا ہے، پھر ہم زیادہ جانتے گئے اور وقت کے چودہ ارب پرانے آغاز کو پا لیا۔ اگر اس تمام آفاقی تاریخ کو ایک سال کے سکیل پر لایا جائے تو جدید انسان کی ایک لاکھ سال کی تاریخ بس آخری چار منٹ ہوں گے اور ایک شخص کے سو سالہ زندگی ایک سیکنڈ کا پانچواں حصہ۔۔۔۔ جی ہاں انسان کی وقت میں حیثیت بس اتنی ہی ہے۔۔۔۔ کچھ سیکنڈز۔۔۔“
اس نے پزل باکس کو دیکھا۔۔۔۔ کچھ تو میچ ہوا تھا پر وہ ابھی بھی نہیں ہوا تھا۔۔ اس کے سامنے اب لکڑی کی گھڑی بنی ہوئی تھی۔
فرائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ہم خاصے نامعقول ہیں۔ اس کے بعد سے نفسیات میں ہم اپنے آپ کو جس طرح جانتے گئے ہیں، ہمیں احساس ہوتا گیا ہے کہ نہ صرف ہم منطقی نہیں بلکہ خود اپنے اوپر بھی زیادہ کنٹرول نہیں رکھتے اور خود اپنے آپ سے زیادہ واقف نہیں۔
پھر ہماری بنائی ہوئی ایجادات ہم سے آگے نکلنا شروع ہو گئیں۔ جسمانی لحاظ سے تو ہم پہلے ہی کچھ خاص نہ تھے۔ ہمارا فخر اور زندگی میں ہماری خاصیت ہماری ذہانت تھی۔ مگر ذہین مشینیں ہمیں ان کاموں میں پچھاڑنا شروع ہو گئیں جو ہماری خاصیت تھےتھی۔ شطرنج میں ہمارے چیمپئین ان سے ہار گئے۔ ہم اب اس زمین پر بھی سب سے ذہین نہیں۔۔۔“
یا یہ بات آپ لوگوں کے لیے قابل حیرت نہیں کہ کاسمولوجسٹس نے اب پتہ لگایا ہے کہ جس چیز سے ہم بنے ہیں، وہ بھی کائنات کا اکثریتی مادہ نہیں۔۔۔۔“
تو پھر سوچیں کیا ہیں ہم؟؟ کون ہیں ہم؟؟؟ یہ سوال یہ ہے کہ پھر ہم کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟؟
اس کائنات میں ہمارے جیسی ایڈوانسڈ زندگی کا ہونا نایاب ہے اور اس کی وجہ ارتقا کی کڑی چھلنی ہے۔ جہاں پر ایسی زندگی کا ہونا نایاب ہے، وہاں پر آگے بڑھنے کا اور بہت کچھ کر لینا کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ یہ سپیس اور ٹائم میں ہمارے اس وقت اور جگہ کو بہت خاص بناتا ہے۔
سائنس کے مطابق ہم ایٹمز کی ایسی ترتیب ہیں جو فزکس کے قانون کے تحت اکٹھا ہو کر انسان بنے ہیں اور شعور پایا ہے۔ ہم ایک انتہائی پیچیدہ فزیکل سسٹم ہیں جو انفارمیشن کو ان پٹ کرتا ہے، پراسس کرتا ہے، سٹور کرتا ہے اور آوٗٹ پٹ کرتا ہے۔ اگر یہ ترتیب مل کر وہ صورت اختیار کر سکتی ہے جو پھر دوسرے ایٹموں کو ترتیب دے کر اپنے لئے استعمال کر سکے تو پھر یہ دوسروں کو اس طرح بھی ترتیب دے سکتی ہے کہ اس سے زیادہ ایڈوانسڈ صورت میں ڈھل سکیں۔ قدرتی عمل سے ہونے والی تخلیق خود نئی تخلیقات کر کے اٹھ سکتی ہے۔ اپنی بائیولوجی بدل سکتی ہے، شعور کی نئی شکل بنا سکتی ہے اور اس کائنات کو آباد کر سکتی ہے۔۔۔
سائنس فکشن کے رائٹر اس طرح کی کہانیاں لکھتے آئے ہیں اور سوال یہ نہیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہ کیا ایسا ہو گا۔۔؟؟؟
جب ہم گمان کر لیں کہ ہم مرکز ہیں، ہم خاص ہیں، سب کچھ ہمارے لیے ہے تو یہ غرور ہمارے اپنے لیے، اپنے گروہ کے لیے اپنی قوم کے لیے اور انسانیت کے اگے بڑھنے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ سائنس، بطور انسان، ہمارے اس غرور کو بری طرح سے توڑ چکی ہے۔
اور یہیں پر ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں اس زمین پر کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا پر ہم یہاں آکر سب بھول گئے۔۔ یہ بھی کہ آخر ہم آئے کیوں تھے؟؟
اور پھر ہم اندھے گونگے بہرے بن گئے۔۔ ہمیں لگنے لگا بس ہم ہی ہیں۔۔۔ نہ ہمارے بعد کوئی مخلوق ہے اور نہ ہم سے پہلے تھی۔۔ ہم نے بطور مسلمان اپنی کتاب کو پش پشت ڈال دیا۔۔ اور جب سائنس نے پتہ لگایا تب ہم نے اسے مان لیا۔۔ اور ہمافا غرور ٹوٹنے لگا۔۔
لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ہم بھولے کیوں؟؟؟ وہ کونسی وجہ تھی جس نے ہمیں غافل کردیا۔۔؟؟؟ اور جب غرور ٹوٹا تو ہمیں اپنی حثیت کا احساس ہونے لگا۔۔ اور اب ہمیں عروج کی طرف جانا ہے۔۔ ہمیں اپنی پہچان کرنی ہے۔
کیونکہ عروج اسی وقت ملتا ہے، جب غرور ٹوٹتا ہے۔
✿••✿••✿••✿
”اس وقت پاکستان کے جو حالات ہیں خاص طور پر پوری امت مسلمہ ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسوں روتا ہے۔۔۔ ہم یہ تو نہیں تھے۔۔ آخر وہ کونسا فتنہ بھرپا ہوا ہے جس نے مسلمانوں کو اس قدر پستی میں ڈال دیا ہے۔۔۔اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔۔“
وہ اپنی ماں کو سن رہا تھا۔۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ اس کی ماں تھی، اس لیے بھی کہ وہ آج کل کے حالات کا اچھا تجزیہ کر چکی تھی۔۔ امت مسلمہ تباہی کے جس دہانے پر کھڑی تھی وہ خوفزدہ تھی۔
”اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم جاؤ۔۔۔ اور وہ کام شروع کرو جس کے لیے تم اس دنیا میں آئے ہو۔۔۔“
اس کی ماں نے اسے تیار کیا تھا۔۔ وہی اسے بھیج رہی تھی۔۔ اس کا دل فخر سے بھر گیا۔۔
”آغاز کیسے کرنا ہے کہاں سے کرنا ہے وہ تمہارا کام ہے۔۔ میرا کام تمہیں اس قابل بنانا تھا کہ تم جہالت سے ٹکرا سکو۔۔ اب تمہارا کام شروع ہوگیا ہے حاد۔۔۔۔ مجھے امید ہے تم وہ کرو گے جس کا حکم دیا گیا ہے جو سچ ہے۔۔جو حق ہے۔۔ چاہے اس کے لیے ہمیں کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔۔۔“
اس نے اپنی ماں کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
”یہ میرا وعدہ ہے۔۔ میں اپنے نام کا مقصد پورا کرکے رہوں گا۔۔“ اسے پورا یقین تھا۔
”بس ایک بات یاد رکھنا۔۔ نیند جتنی گہری ہوتی ہے جگانے والے پر اتنا ہی غصہ آتا ہے۔۔ اور یہ تو پھر جہالت کی نیند ہے۔۔۔ انہیں جگانے کا کام کسی کو تو اپنے سر لینا ہی ہے نا۔۔۔“
کیسی ماں تھی وہ۔۔ اتنا جگر کہاں سے آیا تھا جو اپنے بیٹے کو صاف صاف بتارہی تھی کہ کام بڑا ہے۔۔۔ جان بھی جا سکتی ہے۔۔۔ بلکہ جائے گی۔۔۔پر پیچھے مت ہٹنا۔
اور بیٹا ہر حکم پر سر جھکاتا جارہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اسے مہینہ پورا ہونے والا تھا۔ اس سے زیادہ سلمی بیگم کو اس کی پڑھائی کی فکر تھی۔۔۔وہ روزانہ پوچھتی تھیں کہ واپس کب جانا ہے اور کب پڑھائی ختم ہوگی۔۔ کب واپس آؤ گی۔
“امی بس میری وجہ سے ہی دیر ہے۔۔۔ورنہ اب تک سب ہوجانا تھا۔۔ اب جاؤں گی تو پریزنٹیشن ہوگی اور پھر جلد ہی واپس آجاؤں گی۔۔“ انہیں وہ تـفصیل سے بتا رہی تھی۔
اور پھر سلمی بیگم کے کہنے پر اس نے ٹکٹ کروا لی۔۔ اس دوران اس نے حمیزہ کا کالج میں ایڈمیشن کروا دیا تھا اور جتنے پیسے اس کے اکاؤنٹ میں تھے تقریباً سارے سلمی بیگم کے حوالے کردیے۔۔
”میں ہر مہینے بھجیتی رہوں گی یہ پیسے کسی مشکل وقت کے لیے ہیں۔۔ اور میں سوچ رہی ہوں ایک کام والی رکھ دوں آپ کو۔۔“ اسکی بات پر سلمی بیگم نے تعجب سے اسے دیکھا۔
”پاگل ہوگئی ہو؟؟ کام کونسا زیادہھ ہوتا ہے۔۔۔ہم دو لوگ ہیں۔۔“
“اسی لیے تو مجھے ٹینشن ہے۔۔ میزو اب کالج چلی جایا کرے گی آپ بالکل اکیلی ہوجائیں گی۔۔ کوئی تو ہونا چاہیے نا آپ کے پاس۔۔۔ جب تک میں واپس نہیں آجاتی۔۔“
”بالکل نہیں۔۔ اللہ نے مجھے ہاتھ پاؤں دیے ہیں۔۔ اورحمیزہ کونسا پورا دن باہر رہے گی۔۔ ایک بجے تک آجایا کرے گی۔۔“
سلمی بیگم نے صاف صاف منع کردیا تھا۔۔ وہ ایمان کی پریشانی بھانپ چکی تھیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس پر مزید بوجھ پڑے۔
اور ایک بار پھر ایمان واپس جانے کے لیے تیار تھی۔۔ لیکن اس بار وہ مطمئن تھی کہ اسے جلد لوٹ آنا تھا۔۔۔ اور سلمی بیگم کو بھی حوصلہ تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ ایمان اب باہری دنیا میں سروائیو کر سکتی تھی۔۔۔ مشکل وقت آکر گزر گیا تھا۔۔۔سلمی بیگم کو ایمان پر پورا بھروسہ تھا۔
اور پھر دو دن بعد اس کی فلائیٹ تھی۔ وہ اداس تو تھی ہی پر اس کے ساتھ ساتھ وہ جلد لوٹ آنے کی خواہشمند تھی۔۔اور خوش تھی۔۔ اور وجہ سلمی بیگم تھیں۔۔ اسکی ماں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
کوئی لمحہ ہو تیرے ساتھ کا
میری عمر بھر کو سمیٹ دے
میں فنا بقا کے سبھی سفر
اسی ایک پل میں گزار دوں
وہ اسے نظر آیا۔۔۔ آج دوسری بار۔۔۔۔ اس نے اپنے سامنے وقت کو تھمتے پایا تھا۔۔۔ وقت کا رک جانا۔۔۔ اور ساتھ ہی دل کی دھڑکن کا بھی۔۔ کیسا ہوتا ہے وہ جان گئی تھی۔
وہ اپنی بیگ لیے باہر آرہا تھا جبکہ ایمان حمیزہ اور سلمی بیگم سے مل کر اندر جارہی تھی۔۔آج اسکی فلائٹ تھی۔۔ اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔۔۔ اپنوں کو چھوڑ کر جانے کی آج بھی اتنی ہی تکلیف تھی جتنی پہلی بار ہوئی تھی۔۔۔
اس نے سلمی بیگم کو خود کا خیال رکھنے کا بار بار کہا تھا۔۔ حمیزہ کو بھی تلقین کی تھی کہ وہ امی کا خیال رکھے۔۔۔
وہ دونوں اسے جاتے دیکھ رہی تھیں جبکہ ایمان کے قدم ساکت ہوگئے۔۔۔۔۔۔
وہ رک گئی۔۔۔ وہ ہوا کے جھونکے کی مانند گزر گیا۔۔ ایمان کا دل کیا یہیں سے پلٹ جائے۔۔۔
”عبدل۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔۔ پر وہ جاچکا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ اسے سلمی بیگم اور حمیزہ کھڑی نظر آئیں۔۔۔نم آنکھیں لیے اسی کی جانب تکتی ہوئیں۔۔۔ وہ ایک پل تھا۔۔۔ اور وہ ایک پل اسے فنا کر گیا تھا۔۔۔ وہ اب کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔۔ اور ایمان نے اپنی نگاہوں کو واپس پھیر لیا۔۔ وہ اسے ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اسے یہ حق نہیں تھا۔
اسے تو جانا تھا واپس۔۔۔ وہاں کوئی اس کا منتظر تھا اور یہاں اسکی فیملی اس کے لوٹ آنے کی منتظر تھی۔۔۔ اس نے اپنی ہاتھوں کو لرزتے پایا۔۔۔ لبوں کی کپکپاہٹ، پلکوں کی نمی۔۔۔
یہ دل بھی کتنا عجیب ہے۔۔ ایک پل کے اندر آپکی ہستی کو، آپکی ذات کے اعتماد کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ اسے سینے کے مقام پر جلن کا احساس ہوا تھا۔۔ پر پھر وہ ان کی طرف ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کرتی پلٹ گئی۔۔۔
یہ اس کی دنیا نہیں تھی۔۔ اس کا راستہ نہیں تھا۔۔ اس کی منزل الگ تھی۔۔
اس نے ہمت کی۔۔۔ اس کا دل احتجاج کرنے لگا۔۔ اس نے قدم بڑھایا اور دل کو کچلتی آگے بڑھ گئی۔۔۔ وہ رک نہیں سکتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اس کا سفر کب کیسے گزرا اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔۔ دماغ فریز ہوچکا تھا۔۔۔ پر جیسے ہی وہ ایئر پورٹ سے باہر نکلی سامنے ہی ماثیل کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔ اس نے ماثیل کو نہیں بتایا تھا کہ وہ واپس آرہی تھی۔۔ البتہ روز کو بتایا تھا اور روز نے یقیناً ماثیل کے پوچھنے پر اسے بتادیا تھا۔۔
ایمان کو دیکھ کر وہ بےاختیار اس کی جانب بڑھا۔۔
”ویلکم بیک!“ اس کے ہاتھ میں پھول تھے جو اس نے ایمان کی جانب بڑھائے۔۔ جب کہ نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں جس کی آنکھیں رونے کے باعث سوجھ چکی تھیں۔۔
”شکریہ۔۔“ اس نے بےدھیانی میں پھول پکڑ لیے تھے۔
سفید پھول۔۔ ماثیل نہیں جانتا تھا اسے کونسے پھول پسند تھے۔۔۔پر وہ سفید لے آیا تھا۔۔ بھلا ایمان کو سفیدی کے علاوہ اور کیا پسند ہوسکتا تھا؟؟؟
وہ تقریباً اسے ایک مہینے بعد دیکھ رہا تھا۔۔وہ پہلے سے کمزور لگ رہی تھی۔۔ شاید اپنی ماں کی وجہ سے۔
ایمان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو پہلے سے اس پر نگاہیں جمائے کھڑا تھا۔۔۔ بالوں کو سلیقے سے جمائے۔۔ سبز زیتون رنگ کی شرٹ اور سیاہ پینٹ پہنے سیاہ اسنیکرز کے ساتھ وہ بہت فریش لگ رہا تھا۔۔۔ وہ ہینڈسم تھا۔۔
اس میں کوئی کمی نہیں تھی۔۔ پر ناجانے کیوں وہ ایمان کے دل تک نہیں پہنچ پایا تھا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود۔۔۔
پہلی بار ایمان نے اسے اتنے غور سے دیکھا تھا۔۔۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا وہ ماثیل دا بت ساز ہی نہیں بلکہ ادھم جبیل تھا۔۔ جبیل خاندان کا وارث۔۔۔ ذہانت وراثت میں لے کر پیدا ہوا تھا۔۔ اسکی الجھی نگاہیں ماثیل پر ہی جمی تھیں جبکہ ذہن کہیں اور اٹکا تھا۔۔۔
”آخر وہ اپنوں کو چھوڑ کر یہاں کیا کر رہا تھا۔۔؟؟ کیا وہ جانتا تھا اس کا باپ اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھا۔۔؟؟“
ماثیل نے جب اسے خود کی جانب یوں تکتے پایا تو اسے تعجب ہوا۔
”آر یو اوکے؟؟“ وہ مسکرایا۔۔۔ وہ سٹپٹا کر نظریں جھکا گئی۔ پھر گہرا سانس لیتی چلنے لگی۔
”مام کیسی ہیں اب تمہاری؟؟“ وہ ساتھ ساتھ چلتے پوچھنے لگا تھا۔
”ٹھیک ہیں الحمداللہ۔۔۔“ سلمی بیگم کا مرجھایا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے ابھرا تو اس کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ وہ بیگ کندھے پر ڈالے ایک ہاتھ سے کیری پکڑے چل رہی تھی۔
”یہ مجھے دے دو۔۔“ ماثیل نے اس سے کیری کا ہینڈل پکڑ لیا۔ وہ اسے پھر سے دیکھنے لگی۔۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ جبیل خاندان کا وارث اس پر دلوں جان سے مرتا تھا۔۔
وہ الجھی ہوئی تھی۔۔ بہت بری طرح سے۔۔۔ پریشان تھی۔۔۔
”تم ٹھیک ہو نا۔۔؟؟“ وہ اب فکرمندی سے پوچھنے لگا تھا۔۔ اسے ایمان ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے ایسے پوچھنے کی دیر تھی کی ایمان کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھرگئیں۔۔ اور ماثیل کو اپنا دل رکتا محسوس ہونے لگا۔
✿••✿••✿••✿