Maseel novel episode 24

maseel novel episode 24

نقطہ آغاز
آج اس کا پہلا دن تھا۔۔۔ آج سے وہ اپنے مقصد کا آغاز کرنے والا تھا۔۔۔ النور اکیڈمی۔۔ جو اس کا بچپن کا خواب تھی آج اس کا وہاں پہلا لیکچر تھا۔۔ وہ اس وقت گرے پینٹ پر بھوری ہائی نیک پہنے آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس کا بھورا اونی کوٹ پیچھے بیڈ پر رکھا تھا۔۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا چشمہ اٹھایا اور اپنی گرے چمکتی آنکھوں پر لگا لیا۔۔۔ درازقد آئینے میں اس کا سراپہ صاف نظر آرہا تھا۔ ذہانت سے چمکتی آنکھیں، خوبصورت نین نقوش اور کشادہ پیشانی۔۔ وہ تھوڑا سا کنفیوز تھا۔۔
اس نے گہرا سانس لیا تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے ہی دروازے پر اس کی ماں کھڑی مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اندر آئی اور پھر بیڈ سے اوور کوٹ اٹھا کر اس کی جانب بڑھی۔۔
وہ آگے بڑھا اور اپنا داہنا بازو آگے کیا۔۔ کمرے میں خاموشی تھی۔۔ جب وہ کوٹ پہن چکا تھا تو اس نے پلٹ کر اپنی ماں کو دیکھا۔۔ دونوں آمنے سامنے کھڑی تھے۔ وہ اپنی ماں کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔ اسے آج تک کوئی عورت اپنی ماں سے زیادہ حسین نہیں لگی تھی۔۔ یہاں تک کہ مس ایلف بھی نہیں۔
اس نے یہ گرے چمکتی آنکھیں اپنی ماں سے ہی چرائی تھیں۔۔ اس کا دماغ جس نہج پر سوچتا تھا وہ نہج بھی اسے اپنی ماں سے ملی تھی۔
”ماشاءاللہ۔۔“ وہ اسے دیکھ کر بےاختیار بولی۔
”مجھے کوئی نصیحت کریں۔۔۔“ اس نے اپنی ماں کے ہاتھوں کو تھامتے کہا تو وہ مسکرادی۔
”کتنے بھی بڑے بن جاؤ یہ مت بھولنا کہ تم ایک ابن آدم ہو۔۔۔ کبھی کسی انسان کو خود سے کم تر مت سمجھنا۔۔۔“
وہ بہت سنجیدگی سے اپنی ماں کو سننے لگا۔۔ یوں جیسے اس سے ضروری کوئی کام ہو ہی نا۔
”ضرور۔۔“ اس نے اپنی ماں کے ہاتھوں نرمی سے دبا کر جیسے وعدہ کیا کہ وہ کبھی اپنے مقام سے نہیں گرے گا۔
✿••✿••✿••✿
النور اکیڈمی کا سیمینار ہال لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ پچھلے دو گھنٹوں سے سیشن جاری تھا۔۔ اور اب اس کی باری آئی تھی۔۔ وہ سب سے کم عمر اسپیکر تھا۔۔ جسے لوگ اب تک نہیں جانتے تھے۔۔ وہ سب سے الگ ڈریسنگ میں تھا۔۔ اس کے ہاتھ میں پزل بوکس تھا۔۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر اس نے پہلی بار ہال پر نظر دوڑائی تو دور دور تک بیٹھے لوگوں کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔ اس نے گہرا سانس لیا۔۔۔ یونیورسٹی میں ایسے ہی لوگ اسے سنتے تھے۔
ہال میں بیٹھے سامعین کو شک سا تھا بھلا وہ نوجوان لڑکا کیا کر پائے گا؟
"I am the greatest"
”ہاں۔۔۔ یہ سچ ہے۔۔“
اس نے جیسے ہی یہ الفاظ بولے ہال میں جاری سرگوشیاں تھم سی گئیں۔
”آپ لوگ مجھ سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔ میں جواب دینے کی پوری کوشش کروں گا۔۔ میں یہاں ایک پیغام دینے آیا ہوں۔۔۔“
اس میں بلا کا اعتماد تھا۔۔۔ اسٹیج کے قریب جو پہلی رو تھی اس میں صوفے رکھے تھے اور ان صوفوں پر بہت بڑے بڑے اسکالرز، مفتی اور اسپیکرز بیٹھے تھے۔ سب کی نظریں اس نوجوان لڑکے پر جمی تھیں جس نے آتے ہی ایسی بات کردی تھی جس پر سب نے نعوذبااللہ کہا تھا۔
“وہ کیسا دعوی کر رہا تھا؟؟“
ہال میں گہری خاموشی چھاگئی اس نے نظریں اٹھا کر چاروں جانب دیکھا۔۔
“مطلب کسی کا کوئی سوال نہیں ہے۔۔ چلیں میں انتظار کرتا ہوں۔۔ ٹیک یور ٹائم“ وہ چلتا ہوا ڈائیز کے قریب آیا اور اس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔۔ وہ اب اپنے پزل بوکس سے کھیلنے لگ گیا تھا۔۔
وہ بہت پرسکون تھا۔۔ بلا کا پراعتماد۔۔۔ چیلنجنگ انداز
اور تبھی ایک نوجوان لڑکا اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ اسے مائیک دیا گیا۔
”میرا ایک سوال ہے۔۔“ لڑکے مائیک تھامتے، اسٹیج پر ڈائز سے ٹیک لگائے کھڑے اس نوجوان سے کہا جس کی نظریں اپنے پزل باکس پر جمی تھیں۔۔ آواز سن کر اس کی ہاتھوں کی حرکت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
“کیری آن۔۔ ایم لسننگ۔۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔
”میں اگناسٹک ہوں۔۔ مجھے خدا پر یقین ہے بھی اور نہیں بھی۔۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرا خدا پر یقین لانا ضروری ہے یا میرا مسلمان ہونا ضروری ہے۔۔ اور یہ کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جن تک دن اسلام پہنچا ہی نہیں۔۔ کیا وہ جہنم میں جائیں گے؟؟“
اس کے ہاتھ تھم گئے۔ وہ سیدھا ہوا اور قدم قدم چلتا اسٹیج کے درمیان میں آکر کھڑا ہوگیا۔
”آپ کو لگتا ہے آج کے دور میں یہ ممکن ہے کہ اسلام کا پیغام کسی تک نہ پہنچ پائے۔۔؟؟“ اس نے نرمی سے پوچھا۔
”آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اسلام کو نہ جانتا ہو۔۔ ہاں یہ سچ ہے کہ جس اسلام کو زیادہ تر لوگ جانتے ہیں وہ اسلام کا غلط رخ ہے۔۔ ٹھیک اسلام کو چاہے کوئی جانتا ہو یا نہ ہو۔۔ ہاں پر یہ سب جانتے ہیں کہ اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔۔ اسلام لوگوں کو مارتا ہے۔۔۔اسلام دہشت پھیلاتا ہے۔۔رائٹ۔۔؟؟“ وہ ہولے سے مسکرادیا۔ اور اس کی بات پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔
”جب یہ ممکن ہے تو یہ کیسے ممکن نہیں ہے دین اسلام کی روشنی لوگوں تک نہ پہنچ پائے۔۔۔؟؟“
اس نے پھر سے سوال کیا۔۔ ”اب میں آپ کے سوال کی جانب آتا ہوں۔۔ جب ایک انسان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا ہے۔۔۔خدا ایک ہے۔۔ تو آپ آٹومیٹک اسلام کے ایک حصے میں داخل ہوجاتے ہیں۔۔ باقی یہ رہ جاتا ہے کہ آپ کلمے کے دوسرے حصے پر ایمان لا کر پوری طرح دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔۔“
وہ خاموش ہوگیا۔
”آپ نے کہا آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہوئے کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں جبکہ آپ جانتے ہیں کہ خدا ہے۔۔ خدا دیکھ رہا ہے۔۔۔؟؟“
سوال کرنے والا لڑکا سوچ میں پڑ گیا۔ ہال میں خاموشی چھاگئی تھی۔
”وہ خدا جس نے یہ کائنات بنائی۔۔ پہاڑوں کا رب۔۔ سمندروں کا رب۔۔ طوفانوں کا رب۔۔۔۔ تو کیا آپ کی یہ ہمت ہوپائے گی کہ آپ اس خدا کی بنائی گئی کسی مخلوق کو تکیلف پہنچاسکیں۔۔ کسی کو مار سکیں۔۔؟؟ جب آپ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہوں گے کہ خدا ہے۔۔وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تو آپ یہ کبھی نہیں کر پائیں گے۔۔ آپ کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔۔خدا کے خلاف جانے کی۔۔۔ دین اسلام بھی یہی ہے۔۔ ایک مسلمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خدا کی بنائی گئی حدود سے باہر نکلے۔۔ کچھ رولز ہیں۔۔ جینے کے، زندگی گزارنے کے۔۔ بس جو ان اصولوں پر چلتا ہے وہ مسلمان ہے۔۔“
وہ خاموش ہوگیا۔ سب لوگ خاموشی اور پوری توجہ سے اس کی بات سن رہے تھے۔
”1950 میں دو قبلیوں پر ایک سروے کیا گیا۔۔ کپاکو قبیلہ اور آسٹریئن قبیلہ۔۔ یہ دو قبیلے ایسے تھے جو 1950 تک باہری دنیا سے کٹے رہے تھے۔۔ ان قبلیوں تک کسی قسم کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں پہنچ پائی تھی۔۔ جب سروے کرنے والے لوگ ان دو قبیلوں تک پہنچے اور ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزار رہے ہیں تو پتہ ہے انہوں نے کیا جواب دیا۔۔“ وہ پل بھر کے لیے خاموش ہوا تو ہال میں بیٹھی عوام بےچین نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
”انہوں نے کہا خدا ایک ہے۔۔ وہ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔۔ انکا ماننا تھا خدا سب سے بڑا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں۔۔۔“
ہال کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔۔ بھلا ایسا بھی ممکن ہے۔۔۔؟؟؟
”ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔“ اس نے ہال میں چھائی خاموشی توڑی۔
”پتہ ہے کیوں۔۔ کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے۔۔ خدا نے اپنی کے اپنی کتاب میں فرمایا۔۔
”عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔۔“ سورہ فصلت،53
”اور جب خدا نے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ ہرانسان کو اس کی زندگی میں ایک بار اپنی نشانی ضرور دکھائے گا تو وہ ضرور دکھاتا ہے۔۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ دو قبیلے جنہیں پتہ نہیں تھا کہ باہری دنیا میں کیا چل رہا تھا وہ خدا کو پہچان گئے تھے اسی لیے وہ ایک خدا کو مانتے تھے۔۔۔۔
”اور جب خدا پتھروں میں وہنے والے حشرات تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے، جو جنگلیوں کو اپنے آگے جھکا سکتا ہے تو پھر اس کا کہنا کہ I am the greatest بالکل سچ ہے۔۔۔
یس۔۔۔ Allah is the greatest
ہاں بس یہ آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہے کہ آپ ان نشانیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جس سے وہ یہ ظاہر کرتا ہے۔۔۔
"I am the greatest"
اس نے ہولے سے سرجھکایا۔۔ یہ جھکنا کسی اور کی خاطر نہیں تھا یہ صرف خدا کے سامنے جھکنا تھا۔
پورا ہال جیسے جاگ اٹھا۔۔ جوش کی لہر چاروں جانب پھیل گئی۔
ہاں اللہ سب سے بڑا ہے! اللہ سب سے بڑا ہے!
جب ہال میں بیٹھے لوگوں کو جوش جذبہ تھما تو اس نے سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھے۔
”میں حاد ہوں۔۔۔ اور میں یہاں اپنے نام کا مقصد پورا کرنے آیا ہوں۔ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں آپ آج ہی تین نومولود بچوں کو لیں۔۔ تین الگ خطے، اور تین الگ مذاہب میں پیدا ہونے والے بچوں کو۔۔ اور پھر انہیں باہری دنیا سے الگ رکھیں۔۔ ان تک کسی مذہب اور کسی ٹیکنا لوجی کو نہ پہنچنے دیں۔۔ اور پندرہ سال بعد ان سے پوچھیں کہ ان کا زندگی میں بارے میں کیا ماننا ہے۔۔ کیا وہ خدا کو جانتے ہیں؟؟ اور پھر جو ان کا جواب ہوگا۔۔ وہ اس سے الگ نہیں ہوگا کہ خدا ایک ہے۔۔!!“
✿••✿••✿••✿
وہ لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا اور اسکرین پر کوئی ریکارڈد ویڈیو چل رہی تھی۔۔۔ ویڈیو میں ایک لڑکا ہاتھ میں گٹار تھامے اپنی لے میں فالن اینجل گا رہا تھا۔۔۔
اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ آخر اس نے ڈھونڈ ہی نکالا تھا۔۔۔ وہ شاطر کھلاڑی تھا جانتا تھا کیسے اپنے شکار کو سامنے لانا ہے۔۔ اس نے میوزک شو کا دانہ پھینکا تھا۔۔۔ اور اس نے اس کے لیے بہت محنت کی تھی۔۔ اس نے بہت سارے ملکوں میں یہ میوزک شو کروایا تھا اور پھر بالآخر ویلنیسا میں ہونے والے شو نے اسے اس کے مطلوبہ شخص سے ملوادیا تھا۔۔
اس نے فون اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔۔ دوسری جانب سے فوراً فون اٹھایا گیا۔
”یہ لڑکا کون ہے۔۔؟؟“ اس کی انگیاں تیزی سے لیپ ٹاپ پر پھسل رہی تھیں۔ اس نے دوسری جانب کال پر موجود آدمی کو مطلوبہ شخص کی تصویر بھیجی تھی۔
”یہ ایک نئے بینڈ کا میمبر ہے۔۔۔اس شو میں گانے کے بعد اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔۔“ دوسری جانب تصویر دیکھ لی گئی تھی۔۔ اسی لیے فون سے آواز ابھری۔
”ڈیمانڈ بھلا کیسے نہ بڑھتی۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑایا۔
”مجھے اس کی ساری ڈیٹیلز چاہئیں۔۔ چھوٹی بڑی ساری۔۔۔“ اس نے جیسے حکم دیتے فون بند کردیا۔۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔ دل کی دھڑکن جیسے تیز ہوگئی۔
وہ انسان جس کو ڈھونڈ لانے کا اس نے وعدہ کر رکھا تھا آج وہ اس سے بس تھوڑی ہی دوری پر تھا۔۔
اب اس کا دماغ زیادہ تیزی سے کام کر رہا تھا۔۔ وہ کوئی پلان بنا رہا تھا۔۔ ایسے پلان جس میں وہ کامیاب ہوجاتا تھا۔ جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔
✿••✿••✿••✿
ایمان نے اپنا تھیسز سبمٹ کروادیا تھا۔۔ اس کا ماسٹرز کا پروگرام دو سال کا تھا۔۔۔ تھیسز کے بعد اس کا وائیوا رہتا تھا۔۔ ابھی رزلٹ آنے میں کافی وقت تھا۔۔
اسے اپنے پروجیکٹ کی پریزنٹیشن دینی تھی۔۔ وہ اس کی تیاری کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ کوئی اچھی جاب ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ ان دنوں کچھ بےچین تھی۔۔ اسکا دل بہت ہی اداس تھا۔۔ وہ گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔اور اس کے لیے اس نے پوری کوشش کی۔ اس نے رات کو سونے سے پہلے تقریباً دوگھنٹے سلمی بیگم سے فون پر بات کی۔۔ سلمی بیگم بہت تھکی تھکی سی لگ رہی تھیں۔ ایمان نے انہیں سونے کا کہہ کر فون بند کردیا۔۔ اس نے اب پاکستان جانا تھا اسکی ٹکٹ تین دن بعد کی تھی۔۔ اس نے گھر نہیں بتایا وہ انہیں سرپرائز دینا چاہتی تھی۔ اس نے فون دیکھا تو ماثیل کے بہت سارے میسجز آئے تھے۔۔ تین دن ہوگئے تھے اس نے نہ کوئی جواب دیا تھا نہ کوئی بات کی تھی۔۔۔۔
تنگ آکر اسے فون کرنا پڑا۔۔۔ وہ بےدلی سے بستر میں لیٹی تھی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے فون اٹھا لیا۔
”آر یو اوکے؟؟؟“ ماثیل کی بےچین سی آواز ابھری تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
“تم میرے میسجز کا جواب کیوں نہیں دے رہی ہو؟؟“ وہ پریشان تھا۔
”یہ کہاں لکھا ہے کہ مجھے آپ کے میسجز کا جواب لازمی دینا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔۔ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔ ماثیل کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ کئی لمحے ایسے ہی گزر گئے۔۔۔ایمان نے بھی بولنا ضروری نہیں سمجھا۔
”ایمان۔۔۔۔“ اس نے جیسے اپنی ساری شدتیں اس نام پر لٹادی ہوں۔
”سن رہی ہوں۔۔۔“ اسے نیند آگئی تھی۔۔ آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔۔ وہ اٹھی اور اس نے لائیٹ بند کردی۔۔ وہ روشنی میں نہیں سو پاتی۔
”میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔“ اتنے کھلے لفظوں میں اظہار۔
اینڈ آئی مین اٹ۔۔۔“ وہ تو دھک سی رہ گئی۔۔۔ دل بےاختیار ہی دھڑکا تھا۔۔۔
ماثیل دی بت ساز کیسے اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔ اس نے بےاختیار ہی خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔
”میں کیا کروں آپ کی محبت کا۔۔۔؟؟“ بالآخر اس نے خود پر قابو پاتے الٹا سوال کیا۔
”رکھ لو نا۔۔۔بدلے میں تم سے محبت نہیں مانگ رہا۔۔۔“ وہ جیسے ٹھان کر آیا تھا کہ آج تو اپنی محبت کا یقین دلا کر ہی رہے گا۔
”بتایا تو تھا نہیں رکھ سکتی۔۔۔“ وہ اب چڑ سی گئی تھی۔۔ بھلا کیسے وہ اس کے سامنے ہار مان سکتی تھی؟؟؟
”آخر کیوں؟؟؟“ وہ بےبسی سے بولا۔
”آپ میرے ٹائپ کے نہیں ہیں۔۔“ اس نے بند آنکھوں سے جان چھڑانا چاہی۔ اور ماثیل کا دل کیا وہ اپنا سر پیٹ لے۔
”مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔“
”مجھے پڑتا ہے اور مجھے اب سونا ہے شدید قسم کی نیند آئی ہے۔۔۔“ اس نے بنا جواب سنے فون بند کردیا۔۔ اور پھر فون سائلنٹ کرنے کے بعد اس نے آنکھیں بند کیں اور پھر ذہنی طور پر تھکے ہونے کے باعث کچھ دیر بعد وہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلی صبح جب وہ اٹھی تو اس نے دیکھا سلمی بیگم کی بہت ساری کالیں تھیں۔ وہ تھوڑا پریشان ہوئی۔۔ اسے پچھلے تین گھنٹوں میں کوئی پندرہ بار فون کیا گیا ہے۔۔ حمیزہ نے میسجز بھی کیے تھے۔
”یا اللہ خیر۔۔۔“ اس نے بےاختیار ہی فون ملایا پر نمبر بند جارہا تھا۔۔ اسے کام کے سلسلے میں یونیورسٹی جانا تھا۔۔ اس نے وقفے وقفے سے کوئی دس بار گھر کا نمبر ملایا پر وہ مسلسل بند جارہا تھا۔۔
اس نے میسجز بھی کیے پر کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کا دل ڈوبٹا جارہا تھا۔۔
وہ خیر کی دعائیں کر رہی تھی۔ روز رات کو لیٹ آئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی۔ ایمان نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بےچینی میں ادھر ادھر ٹہلتی رہی۔ اس نے کزن کا نمبر ملایا پر اس نے بھی فون نہیں اٹھایا۔۔
وہ خود کو سمجھا بھی رہی تھی کہ سب ٹھیک ہے سب ٹھیک ہوگا۔۔ پر اس کی چھٹی حس اسے کسی خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔۔ وہ اسی پریشانی میں یونیورسٹی کے لیے تیار ہونے لگی۔۔
وہ مسلسل فون کر رہی تھی پر فون بند جارہا تھا۔۔ جیسے ہی وہ تیار ہونے کے بعد اسٹیشن تک پہنچی سلمی بیگم کی کال آنا شروع ہوگئی۔
”ہیلو السلام علیکم امی!“ اس نے اسی پل فون اٹھایا۔۔ آواز میں بےچینی واضح تھی پر دوسری جانب سے حمیزہ کی روتی ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ جیسے پتھر کی ہوگئی۔
”میزو۔۔ کیا ہوا۔۔ رو کیوں رہی ہو۔۔“ اس کا دل رونے کی آواز پر کانپ اٹھا۔
”آپی۔۔۔ آپی۔۔ وہ امی۔۔۔“ وہ ہچکیاں لے رہی تھی۔ ایمان کو لگا جیسے زمین پیروں نیچے سے کھسک گئی ہو۔
”کیا ہوا امی کو؟؟ امی ٹھیک ہے نا۔۔؟؟“ اسے اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔
“نن۔۔نہیں امی ٹھیک نہیں ہے۔۔ امی ہسپتال میں ہے۔۔ جلدی آجاؤ آپ۔۔ مم۔۔مجھے بہت ڈر۔۔ڈر لگ رہا ہے۔۔“ ایمان کو لگا اس کی سماعت نے غلط سنا ہو۔۔
آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔ وہ جہاں تھی وہیں بیٹھ گئی۔۔ اس کا پورا جسم لرزنے لگا تھا۔
کسی عورت نے حمیزہ سے فون لے لیا تھا۔۔ وہ اسے سلمی بیگم کے بارے میں بتارہی تھیں۔۔یہ ان کی ہمسائی تھی جو بیوہ تھی وہی انہیں ہسپتال لائی تھی۔ جبکہ ایمان کے وجود سے جیسے دھواں اٹھنے لگا تھا۔۔
فون بند ہوتے ہی وہ چہرا ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔ تو یہ وجہ تھی اس کا دل اتنا پریشان تھا۔ اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا۔۔ اس کی ماں ہسپتال میں تھی۔ اور گھر والے کہاں تھے؟؟؟
اس کی ماں ہسپتال میں کیوں تھی۔۔؟؟؟ ایمان کو لگا تھا اس کا دل پھٹ جائے گا۔۔۔ اس نے شدت سے چاہا تھا کہ جادو کی کوئی چھڑی ہوتی جسے گھما کر وہ اپنی ماں کے سامنے پہنچ جاتی۔۔
وہ تو اپنی ماں کی ساری تکلیفیں، سارے دکھ، سارے مصائب خود لینے کی دعائیں کرتی تھی۔۔ پھر اللہ نے اس کی ماں کو دکھ کیوں دیا؟؟؟ آخر کیوں؟؟
✿••✿••✿••✿
سلمی بیگم کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔ دل کے وال بند ہونے کے باعث ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کا کہا تھا۔۔ جبکہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ایمان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا وہ بھی اس صورت میں جب وہ پاکستان سے ہی باہر تھی۔۔ وہ حیران تھی مدد کے لیے کیا کوئی بھی اس کی ماں کے پاس نہیں تھا؟؟
وہ جس تکلیف سے گزر رہی تھی صرف وہی جانتی تھی۔۔ وہ بس زندہ تھی جان تو ساری نکل چکی تھی۔ ادھر حمیزہ کا رو رو کر برا حال ہوچکا تھا۔۔
وہ کس سے رقم مانگتی۔۔ اس نے روز سے پوچھا پر اس کے پاس بھی اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔۔ اس نے حال میں ہی ایک فلیٹ لیا تھا اور رقم ادا کردی تھی۔
موت کیسی ہوتی ہے یہ اسے اب احساس ہوا تھا۔۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اب کس سے پتہ کرے۔۔ تب اس کے ذہن میں ماثیل کا خیال آیا۔۔۔ وہ اسکا نمبر ملانے ہی لگی تھی جب حمیزہ کا فون آگیا۔۔
“آپی۔۔۔“ اس نے پکارہ تھا۔۔
”جج۔۔جی۔۔۔“ وہ تڑپ اٹھی تھی۔ ”وہ امی کو لے گئے ہیں۔۔ کہہ رہے ہیں پیسے مل گئے ہیں۔۔ وہ کہہ رہے ہیں دعا کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔“ اس نے عجیب ہی خبر سنائی۔ ایمان کو حیرانی ہوئی۔
”کک۔۔۔کس نے دیے پیسے؟؟“ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
”پتہ نہیں آپی۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے آپ کو بتادیں گے۔۔۔ آپ جلدی آجائیں میں بہت اکیلی ہوں۔۔“ وہ آخر میں پھر رو دی تھی۔
”یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔ میزو میں کل آرہی ہوں۔۔تم دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ بس تم دعا کرو اور مجھے خبر کرتی رہنا۔۔“
کسی نے اس پر یہ احسان کرکے اسے خرید لیا تھا۔ وہ ساری عمر اس احسان کرنے والے کی نوکرانی بن کر بھی رہ سکتی تھی۔
اس نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے کیے جائے نماز بچھا لیا۔۔۔
یہ احساس کہ اس کی ماں کس تکلیف میں اسے کچوکے لگا رہا تھا۔ درد اس کی نسوں میں پھیل گیا تھا اور اب وہ خشک ہونٹوں سے اللہ سے بےپناہ دعائیں مانگ رہی تھی۔ اس کے بس میں ہوتا وہ اپنی زندگی اپنی عمر سب اپنی ماں کو لگا دیتی۔
✿••✿••✿••✿
اور پھر رات کے دو بجے حمیزہ نے اسے یہ خبر دی تھی کہ سلمی بیگم کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔۔۔ وہ ابھی بےہوش تھیں لیکن خطرے سے باہر تھیں۔۔۔ وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔ یوں جیسے ساری اذیت ختم ہوگئی ہو۔۔۔
اس کا بےاختیار سجدے میں گرنا اور رونا۔۔ روز نے یہ دیکھ کر جان لیا تھا کہ ایمان اپنی ماں کے لیے پاگل تھی۔۔۔
اس نے شکرانے کے نفل ادا کرے اور پھر جلدی سے پیکنگ کرنے لگی۔۔ اسے شام میں پاکستان جانا تھا۔۔۔ روز کو لگا جیسے وہ حواسوں میں نہ ہو۔۔ اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی۔۔ ہونٹ خشکی کی نذر تھے۔۔
اسے اپنا کوئی ہوش نہیں تھا۔۔ اسکی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اڑ کر چلی جاتی۔۔
”ایما۔۔۔یہ لو پانی پیو۔۔“ وہ پانی کا گلاس لے کر آئی۔۔۔ ایمان اس سے لپٹ گئی۔۔۔وہ روئے جارہی تھی۔۔ تکلیف اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔
”سب ٹھیک ہے ایما۔۔۔ پریشان مت ہو۔۔“ وہ اسکا سر سہلانے لگی۔۔ تبھی اس کا فون بج اٹھا۔ کوئی انجان نمبر تھا۔۔ اس نے غور کیے بنا فون اٹھالیا۔
”ہیلو السلام علیکم!“ اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔
”مس ایما مبارک ہو۔۔ آپ کی مدر اب ٹھیک ہیں۔۔“
وہ حیران ہوئی۔ روز پانی کا گلاس رکھ کر اس کے لیے کچھ کھانے کو لینے گئی تھی۔ جبکہ ایمان اس اجنبی آواز پر حیران ہوئی۔۔ اس کا ذہن فٹ اس شخص کی جانب گیا جس نے اس کی ماں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
”آپ۔۔۔؟؟ کک۔۔کون ہیں۔۔؟؟“ وہ رونا بھول گئی تھی۔
”میں حشام جبیل ہوں۔۔۔“ نام ایسا تھا کہ وہ ساکت رہ گئی۔۔۔ اس نے بےاختیار فون کو دیکھا۔۔۔ اسے یقین نہ آیا۔
”شاید آپ مجھے نہیں جانتیں۔۔ پر میں آپ کو فون کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔۔“
”میں سمجھی نہیں۔۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔؟؟“ وہ جانتی تھی حشام جبیل کون تھا۔۔ وہ ڈاکٹر روحان جبیل کا بھائی تھا۔۔ وہ کیسے نہیں جانتی تھی۔
”ادھم عرف ماثیل کو جانتی ہیں آپ؟؟“ دوسری جانب سے پوچھا گیا تھا۔
”جج۔۔جی۔۔ جانتی ہوں۔۔“ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے جواب دیا۔۔۔ دل کی دھڑکن بہت سست ہوگئی تھی۔۔۔ وہ بےاختیار ہی بیٹھ گئی تھی۔ ٹانگیں جیسے لرزنے لگی تھیں۔
”پر آپ شاید ادھم جبیل کو نہیں جانتی ہیں۔۔“ اس نے گویا دھماکہ کیا۔۔۔۔۔ ایمان کی آنکھیں حیرت سے باہر ابلنے کو تھیں۔
”ادھم جبیل؟؟“ اسے یقین نہ آیا۔
”بالکل۔۔ حشام جبیل کا بیٹا ادھم جبیل۔۔۔۔ جس کی دنیا آپ پر رک سی گئی ہے۔۔۔“
ایک دن میں ہی ایمان کی دنیا پوری طرح الٹ چکی تھی۔۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
کہاں ماثیل اور کہاں سید جبیل (Jabail) خاندان۔۔
اگر یہ سچ تھا تو خوفناک سچ تھا۔ جو اس پر آشکار ہوا تھا۔
✿••✿••✿••✿

1 Comments

  1. Wow what a revealing
    Mujhe pehle hi laga tha ki Adham jabeel khandan se hoga , Abdul ki tarah :)

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post