ایمانے چلی گئی تھی۔۔ اسکے جان کے بعد عبدل نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔۔ اس کی اس حرکت پر ہیزل کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔۔ وہ تھوڑا فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی۔۔ عبدل کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔ نہ کوئی تاثر نہ کوئی احساس۔۔۔۔
شاید اس کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ہیزل اسے کبھی سمجھ نہ پائی تھی۔
“تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟؟“ ہیزل نے سرجھکائے بیٹھے عبدل سے پوچھا۔ “جھوٹ کیوں بولا؟؟“ اسے ایسا کرنے کو عبدل نے کہا تھا وہ اسی لیے اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔
”یہ سب ضروری تھا۔۔ تاکہ وہ یاد رکھے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔“ اس نے پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگائی اور گٹاگٹ پینے لگا۔۔ اس کے اندر آگ سی جل رہی تھی۔۔ پانی ختم ہوگیا پر اب وہ بوتل کو بھینچ رہا تھا۔۔ ایسے جیسے غصہ نکال رہا ہو۔۔ کچھ دیر بعد پلاسٹک کی بوتل کڑک کی آواز سے کچومر بن گئی۔ ہیزل خاموشی سے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔۔ پھر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کرسی سے پشت ٹکادی۔۔ اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔۔۔ آخری بار ایمان کا چہرہ جو اس نے دیکھا تھا اس میں آنسوں تھے۔۔۔ اور عبدل کی وجہ سے تھے۔
وہ جانتا تھا ایمان، کائنات کی سفارش کرنے آئی تھی وہ یہ بھی جانتا تھا کائنات اسے پسند کرتی تھی۔۔ وہ کلاس میں اس کی نگاہوں کو خود پر بہت بار محسوس کر چکا تھا۔ لیکن پچھلی بار جو اسکی ملاقات ہوئی تھی کائنات سے، اس میں وہ جان گیا تھا کائنات اس سے محبت کرتی تھی۔۔۔۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کائنات نے ایمان سے دوستی بھی عبدل کی وجہ سے کی تھی۔۔۔
اور اسکی ایمانے اتنی خالص تھی کہ وہ سب کو خود جیسا سمجھ لیتی تھی۔ ایمان کے دکھ نے اسے دکھ دیا تھا۔۔۔
وہ ہیزل سے شادی نہیں کر رہا تھا نہ اس کا ایسا ارادہ تھا۔۔۔ پر وہ جانتا تھا وہ اب کبھی بھی ایمان کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ وہ کتنی ہی دیر ایسے بیٹھا رہا پھر اس نے اپنا فون نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگا۔۔
”ایمانے کو ڈھونڈ لینا۔۔۔۔“ اس نے کسی کو میسج کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ بس میں بیٹھی ریسا ہال کی جانب جا رہی تھی۔۔ وہ ڈبہ اسکی گود میں رکھا تھا اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔۔۔ اسے دکھ ہوا تھا کہ عبدل نے اتنا بڑا راز چھپا کر رکھا۔۔ کہاں تو وہ اسے دوست کہتا تھا اور کہاں اب وہ کسی اور تھا۔۔۔۔
اسکا بھروسہ ٹوٹا تھا۔۔ اسے لگا تھا ایسا کچھ ہوگا تو عبدل سب سے پہلے اسے بتائے گا۔۔۔ پر عبدل نے تو دھماکہ کردیا تھا۔۔
وہ کتنی پاگل تھی۔۔۔لوگوں سے دور رہتی اور جب کوئی اپنا بن جاتا تو امید کرتی تھی کہ وہ ہمشہ ساتھ نبھائے گا۔۔۔پر لوگ تو ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں ہمیں اکیلے سروائیو کرنا پڑتا ہے۔۔ کائنات سے زیادہ اسے عبدل کے دھوکے نے دکھ دیا تھا دوست ایسے چھپ چھپا کر شادیاں نہیں کرتے۔۔۔
اس کا دل چاہے وہ ڈبہ اٹھا کر باہر پھینک دے۔۔۔پر وہ پھینک نہ پائی۔۔ اندر موجود چیزیں جس ہستی سے جڑی تھیں وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
اس نے ڈبے کو سینے سے لگا لیا اور اس سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔
”میں اس دنیا میں کس پر بھروسہ کروں۔۔؟؟؟ میں اب کبھی دوست نہیں بناؤں گی۔۔ کبھی نہیں۔۔۔“ اسے لگا جیسے اندر موجود چیزیں اسے سن رہی ہوں۔۔۔جیسے اسکی آواز ڈاکٹر روحان جبیل تک پہنچ رہی ہو۔۔۔ وہ اس شخص سے تو شکوہ کر ہی سکتی تھی ناں۔
وہ مرے مرے قدموں سے ریسا ہال پہنچی تھی۔۔ کائنات بےچینی سے اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی کائنات فوراً اس کی جانب لپکی۔
”کیا کہا اس نے؟؟؟“ وہ بےچینی سے پوچھنے لگی۔ ایمان نے خاموشی سے ڈبہ اپنے بیڈ پر رکھا اور وہیں بیٹھ گئی۔۔ پھر جھک کر شوز اتارنے لگی۔
”بتاؤ نا ایمان کیا کہا عبدل نے؟؟“ وہ صبر نہیں کر سکتی تھی۔
”بھول جاؤ اسے۔۔۔“ اس نے شوز اتاردیے اور سرد لہجے میں بولی۔ اسکی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔۔۔ کائنات کو لگا اس نے غلط سنا ہو۔
”کک۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔“ اس کا دل ڈوب گیا۔
”وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے۔۔۔“ اس کا لہجہ پتھر جیسا سخت تھا۔ اب وہ کوٹ اتارنے کے بعد سر سے سکارف اتار رہی تھی۔۔۔ کائنات کے قدم لڑکھڑا گئے۔
”کس سے۔۔۔کس سے محبت کرتا ہے وہ۔۔۔“ اس کی نگاہیں ایمان پر جمی تھیں۔ ایمان خاموشی رہی۔۔۔وہ اسکی جانب نہیں دیکھ رہی تھی۔ اس نے شوز اٹھا کر شوز ریک میں رکھے۔۔ کوٹ ہینگ کیا اور پھر اپنے کپڑے نکالنے لگی۔
”بتاؤ نا۔۔ کس سے محبت کرتا ہے وہ؟؟ کیا تم سے محبت کرتا ہے۔۔؟؟“ اس نے ایمان کا رخ بازوؤں سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا۔۔ ایمان نے تعجب بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔ یوں جیسے کائنات کا دماغ ہل گیا ہو۔۔ محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے شک کا بیج بوتی ہے۔۔ انسان کو ہر دوسرا انسان اپنا رقیب لگتا ہے۔ ایمان نے جھٹکے سے اس سے اپنے بازو چھڑائے۔
”یہ تم خود کیوں نہیں پوچھ لیتی اس سے۔۔۔؟؟ویسے بھی وہ اگلے ہفتے شادی کر رہا ہے۔ “ وہ پہلی بار اونچی آواز میں بولی تھی۔ کائنات کا وجود ڈھیلا پڑ گیا۔
وہ مرے مرے قدم لیے پیچھے ہٹی اور بیڈ پر بیڈ گئی۔۔۔ اب سب ختم ہوچکا تھا۔۔ چاروں جانب بس گہرا اندھیرا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کے اکاؤنٹ میں بہت کم رقم بچی تھی۔ اس کے پاس دو آپشن تھے یا وہ واپس چلی جاتی یا پھر کوئی جاب کرتی۔۔۔پارٹ ٹائم جاب جس سے وہ اپنا خرچہ اٹھا لیتی۔۔۔
وہ ایسے واپس نہیں جا سکتی۔۔۔اور ریسا ہال کافی مہنگا تھا۔۔ وہ مزید یہاں رہنا افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔۔ اس لیے پہلے اسے ہاسٹل ڈھونڈنا شروع کیا۔۔
اس نے سب سے پہلے عبدل کا نمبر ڈیلیٹ کیا تھا۔۔ اور اس ڈبے کو اٹھا کر اپنی الماری میں رکھ دیا تھا۔۔۔ کائنات اور وہ دونوں ایک کمرے میں ہونے کے باوجود اب کم ہی بات کرتی تھیں۔۔۔ان کی تیسری روم میٹ کبھی کبھی ہی کمرے میں آتی تھی۔۔ وہ زیادہ تر اپنی فرینڈز کے ساتھ رہتی تھی۔
ایمان بھی ان دنوں کائنات پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ ایسے مطلبی لوگوں کے لیے کیوں ہلکان ہو جو اپنے مطلب کے لیے اس تک آئے تھے۔۔
”پر عبدل۔۔۔؟؟ وہ تو مطلبی نہیں تھا۔۔۔ پھر کیوں؟؟؟“ اس دل عبدل کی گواہی دیتا تھا پر اس نے اب دل کی سننا بند کردی تھی۔ اس نے آنلائن کچھ ایڈ دیکھے۔۔ اسے سستے ہاسٹل مل رہے تھے پر وہ اولڈ ٹاؤن میں تھے۔۔ فاصلہ زیادہ تھا۔۔ پہلے اس نے پتہ لگایا کہ کونسی ٹرین اور بس کے ذریعے یونیورسٹی پہنچ سکتی تھی۔۔ اس نے اپنی توجہ مکمل طور پر اپنی مشکلات کو حل کرنے کی جانب کرلی۔۔۔
اکیڈمی جانے کا خواب کہیں بیچ میں ہی رہ گیا تھا۔۔ اولڈ ٹاؤن سے کسی روز نامی لڑکی نے ایڈ لگایا تھا۔۔ اسے ایک فلیٹ میٹ چاہیے تھے۔۔ اس نے روز کا نمبر نکالا اور اسے میسج کیا۔۔ رینٹ مناسب تھا اور اولڈ ٹاؤن ویلنسیا میں اس کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی۔
اب دوسرا کام اسے پارٹ ٹائم جاب ڈھونڈنا تھا۔۔ یہ ذرا مشکل کام تھا۔۔ اس کی ابھی مقامی زبان پر گرفت نہیں ہوئی تھی۔۔ پر اسے کوشش تو کرنا تھی۔۔ اس نے کبھی امید نہیں چھوڑی تھی اور نہ کوشش کرنا۔۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتی رہتی تھی۔۔ مسلسل کوشش اور شاید یہی کوشش اسے یہاں تک لے آئی تھی۔
اس کے بعد عبدل کبھی ریسا ہال نہیں آیا۔۔ نہ اس نے کبھی میسج یا فون کیا۔۔ وہ ناراض تھی۔۔۔ لیکن لیکن کہیں نہ کہیں وہ اسکا انتظار کر رہی تھی کہ ابھی عبدل کسی جن کی طرح حاضر ہوگا اور اس سے کہے گا کہ ”ہائے ایمانے دیکھو میں کچھ لایا ہوں۔۔“ اس کی باتیں اکثر ایمان کے ذہن میں گونجتی رہتی تھیں۔۔ جب بھی وہ ریسا ہال میں عبدل کے دوست جان کو دیکھتی اسے عبدل یاد آجاتا تھا۔۔ پر وہ ذہن جھٹک دیتی۔۔۔
اسے لگتا تھا وہ منا لے گا۔۔ وہ ہر بار کی طرح آئے گا اسے خوش کرنے۔۔ پر وہ نہیں آیا۔۔۔
اسکا تیسرا سمیسٹر شروع ہوچکا تھا پر اس کے پاس پیسے کم پڑتے جارہے تھے۔۔ روز نے اسے وزٹ کرنے کا کہا تھا۔۔ اس دن وہ یونیورسٹی سے سیدھا اولڈن ٹاؤن چلی گئی۔۔
یہ خوبصورت جگہ تھی وہ پہلے بھی آئی تھی۔۔۔سینٹرل مارکیٹ گھومنے پھرنے۔۔۔
وہ گوگل میپ کی مدد سے متعلقہ جگہ پر پہنچ ہی گئی۔۔ یہاں لائن میں بہت سارے گھر تھے۔۔۔پرانے طرز کے گھر۔۔۔
جہاں روز رہ رہی تھی یہ ایک بڑا سا گھر تھا۔۔ یہ دراصل ایک ادھیڑ عمر عورت نے اپنے ایک بڑے سے گھر کو دو دو کمروں کے پورشن میں تقسیم کردیا تھا یہاں زیادہ تر لڑکیاں ہی رہ رہی تھیں۔۔ جاب کرنے والی یا پھر اسٹوڈنٹس۔۔
ایک پورشن میں دو کمرے تھے اور ایک چھوٹا سا کچن اور چھوٹا سا لاؤنج۔ دو لوگوں کے رہنے کے لیے یہ کافی تھا۔
روز نے پہلے پورا پورشن لیا تھا۔۔ پھر ایک اور لڑکی آئی پر وہ ایک مہینہ رہنے کے بعد چلی گئی۔۔۔اسی لیے اب روز نے خود ہی ایڈ لگا رکھا تھا۔۔ وہ اکیلی نہیں رہنا چاہتی تھی۔
ایمان نے گہرا سانس لے کر دروازے پر بیل دی۔۔۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور سامنے ہی ایک خوبصورت سی دراز قد لڑکی کھڑی تھی۔
”ہائے۔۔ میں ایمان ہوں۔۔ وزٹ کرنے آئی ہوں۔۔“ وہ ڈری ہوئی تھی۔ اور گھبرائی ہوئی بھی۔ روز اسے دیکھ کر نرمی سے مسکرائی۔
”ویلکم ایما۔۔۔ن۔۔۔“ وہ بامشکل اسکا نام لے پائی۔۔ ایمان کو پریشانی سی تھی پتہ نہیں روز کیسی لڑکی ہوگی۔۔ کیا کرتی ہوگی۔۔ وہ کسی پر اب بھروسہ نہیں کر سکتی تھی۔ روز اسے لے کر اندر چلی گئی۔
اس نے ایمان کو کمرہ دکھایا۔۔ بہت پرسکون اور خاموش!
ایمان کو پسند آگیا تھا۔۔
”تم اسٹوڈنٹ ہو۔۔؟؟“ روز نے اس کے بیگ کو دیکھتے پوچھا۔۔ وہ ایمان کے چہرے سے اسکی پریشانی، ڈر اور خوف سب بھانپ گئی تھی۔۔ ایمان اسے معصوم لگی تھی۔۔ جیسے کوئی سنڈریلا بھٹک گئی ہو۔۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ ایمان کو رکھ لے گی۔
”جی۔۔ ماسٹرز کا تھرڈ سمیسٹر ہے۔۔۔ یعنی فائنل ایئر۔۔ “ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے بتایا۔
”بیٹھ جاؤ۔۔۔اور ریلیکس ہوجاؤ۔۔۔“ روز نے اسے صوفے پر بٹھایا اور پھر وہ کچن سے اس کے لیے پانی لے آئی۔
”میں ایک اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جنرلسٹ بھی ہوں۔۔ اور یہاں پچھلے تین سالوں سے رہ رہی ہوں۔۔ یہ اسٹوڈنٹس کے لیے اچھی جگہ ہے۔۔“ روز اسے تفیصل بتانے لگی تاکہ وہ ریلیکس ہوجائے۔ ایمان خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔
”پھر کب سے شفٹ کر رہی ہو؟؟“ روز نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
”میں ایکچوئلی جاب ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ جیسے ہی کوئی پارٹ ٹائم جاب ملتی ہے پھر اسی ایریا میں شفٹ ہوجاؤں گی۔۔“ ایمان جب ریلیکس ہوئی تو اس نے اپنا مسئلہ شیئر کرلیا۔ روز نے پوری توجہ سے اس کی بات سنی۔
”جاب ڈھونڈنی پڑے گی لیکن امید ہے مل جائے گی۔۔ ویسے کس قسم کی جاب چاہیے۔۔؟؟“ وہ پرسوچ انداز میں پوچھنے لگی۔
”کوئی بھی۔۔ جس سے میں اپنا خرچہ اٹھا سکوں۔۔“ ایمان نے صاف گوئی سے بتایا۔
”تم یہاں شفٹ ہوجاؤ جب دل چاہے پھر جاب بھی ڈھونڈ لیں گے۔۔“ ایمان کو یقین نہیں آیا۔ وہ واقعی اچھی تھی یا بن رہی تھی۔ کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد وہ جانے کے لیے اٹھی تو روز کو اچانک کچھ یاد آیا۔
”یہاں پاس ہی دو گھر چھوڑ کر مسز اسٹیفن رہتی ہیں۔۔ وہ ایک ویٹ ڈاکٹر ہیں۔۔۔انکا کلینک ہے۔۔ انہیں پارٹ ٹائم فرنٹ ڈیسک کے لیے کسی لڑکی کی ضرورت ہے۔۔ تم چاہو تو میں ان سے بات کر سکتی ہوں۔۔“
ایمان کو جیسے یقین نہیں آیا۔۔ اسے کسی اسٹور میں بھی کام ملتا تو وہ کرلیتی۔
”مجھے کوئی ایشو نہیں ہے۔۔“ وہ جلدی سے بولی۔
”پرفیکٹ۔۔۔میں ان سے بات کرکے بتاؤں گی۔۔“ وہ مسکرائی تو ایمان کو حوصلہ ہوا۔
واپسی کے پورے راستے اب دعا کرتی رہی کہ اسے یہ جاب مل جائے۔۔ اگر مل جاتی تو وہ فوراً یہاں شفٹ ہوجاتی۔
وہ تھک ہار کر واپس لوٹی تو اسے شدید بھوک لگی تھی۔۔ اس نے فریش ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کی اور سلمی بیگم کو فون ملا لیا۔۔ سلمی بیگم اس سے خفا تھیں پر زیادہ نہیں۔۔ ایک طرح سے سلمی بیگم بھی اب پرسکون تھیں کہ ان کی جان چھوٹ گئی تھی۔۔۔ لیکن وہ پریشان بھی تھیں کہ آخر ایمان پردیس میں کیسے رہے گی؟ کوئی آسرا کوئی سہارا نہیں تھا۔۔ اور پھر جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا اللہ ہوتا ہے۔۔ ایمان کو پورا یقین تھا۔۔ وہ یہاں بلاوجہ نہیں آئی تھی۔۔ اسے اللہ بلاوجہ یہاں نہیں لایا تھا۔۔
اسے آنے کے پیچھے کوئی وجہ ضرور تھی۔۔۔ اور وہ جانتی تھی ہر مشکل کے بعد آسانی تھی۔۔ اور وہ جانتی تھی یہ مشکل وقت بھی گزر ہی جانا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن روز نے اسے مسز اسٹیفن کے کلینک کا پتہ دے کر اسے انٹرویو کے لیے جانے کا کہا۔ وہ مسز اسٹیفن سے بات کر چکی تھی۔۔۔ اس نے سارے لیکچرز لینے کے بعد واپسی اولڈ ٹاؤن کا راستہ اپنایا۔۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتی جارہی تھی کہ اسے یہ جاب مل جائے۔۔ چاہے زیادہ تنخواہ نہ ہو پر اسے مل جائے۔۔ وہ اللہ سے کہہ رہی تھی کہ وہ کم میں بھی گزارا کرلے گی۔۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد وہ مسز اسٹیفن کے سامنے بیٹھی تھی۔ وہ ایک پچپن سالا گول مول سی ڈاکٹر تھی جس کی موٹے شیشوں والی عینک ناک پر جمی تھی۔۔ اور وہ عینک کے پیچھے سے ہی ایمان کا پوری طرح معائنہ کر رہی تھی۔۔۔
کلینک پر زیادی رش نہیں تھا۔۔ کچھ سوال پوچھنے کے بعد مسز اسٹیفن نے کہا۔
”میں تمہیں روز کے کہنے پر یہاں رکھ رہی ہوں۔۔۔ تمہیں تین بجے یہاں ہر حال میں موجود ہونا ہے اور رات کو 8 بجے تم جا سکتی ہو۔۔“ صرف اتوار کو چھٹی تھی۔ ایمان نے ہامی بھرلی۔۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔ اس نے باہر نکل کر فوراً روز کو میسج کیا کہ اسے جاب مل گئی ہے۔ وہ خوش تھی۔۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔۔ اور پھر حمیزہ کو بھی ایک میسج کردیا۔۔ ادھر سلمی بیگم کا پریشانی سے برا حال تھا۔۔۔پر یہ خبر سن کر انہیں بھی سکون کا سانس آیا۔
ریسا ہال واپس جاتے وقت اس کے چہرے پر مسکان تھی۔ اللہ انہی کا وسیلہ بناتا ہے جن کی کوشش سچی ہو۔۔ اور جو اپنی مدد کرنے نکل کھڑے ہوجائیں۔۔۔
وہ اپنی جنگیں لڑنا سیکھ رہی تھی۔۔ وہ اپنے مسائل حل کرنے کا ہنر جان رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ریسا ہال میں اس کا مہینہ پورا ہوچکا تھا۔۔ اور اسی ہفتے اسے یہاں سے شفٹ ہونا تھا۔۔ کائنات کو اس نے آج ہی بتایا تھا کہ وہ کل شفٹ کر رہی تھی اور اسے جاب مل گئی ہے۔
کائنات ساکت رہ گئی۔۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔۔۔
”تم مجھے چھوڑ کر جارہی ہو؟؟“ وہ بےیقینی سے پوچھنے لگی۔
”مجھے جانا ہی تھا آج نہیں تو کل۔۔۔ میرے بھی کچھ مسائل ہیں۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔ کائنات کو اس کے چہرے پر دکھ کے سائے نظر آئے۔۔ وہ جانتی تھی عبدل اور اس نے ایمان کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ پر کائنات اپنے غم میں اس قدر ڈوب گئی تھی کہ اسے ایمان کا خیال ہی نہیں آیا۔۔۔
اور اب جب اس نے جانے کی خبر دی تو کائنات کے دل کو کچھ ہوا۔۔ دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو بےضرر ہوں۔۔ جو اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دیتے ہوں۔۔ اور ایمان ان نایاب لوگوں میں سے ایک تھی۔۔جو کبھی کسی کا برا نہیں سوچ سکتی تھی۔۔
اس نے ریسا ہال کی مینجمنٹ سے بات کرلی تھی۔۔ سارے ڈیوز کلیئر کرنے بعد وہ اب میس میں بیٹھی تھی۔۔ آج یہاں اس کی آخری رات تھی۔۔ ایمان کا یہاں دل لگ چکا تھا۔۔ جہاں اُس کی اِس جگہ سے بری یادیں جڑی تھیں وہیں ریسا ہال اُسے بہت عزیز تھا۔۔۔اپنا کمرہ، اپنی الماری۔۔یہاں کا میس اور لائبریری۔۔۔کیفے اُسے سب یاد رہنے والا تھا۔
منہ میں نوالہ ڈالتے اس کے ہاتھ رک گئے اور آنکھوں میں پانی بھر آیا۔۔ وہ ضبط کر گئی۔ اِس سے پہلے کائنات کچھ کہتی اچانک کسی کی آواز ابھری۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو جان میس میں لگی اسکرین کے پاس کھڑا تھا۔۔ وہ سب کو اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔
”آج میں آپ سب کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے کروانا چاہتا ہوں جسے لگتا ہے کہ پاگل لوگ اصل میں پاگل نہیں ہوتے بلکہ وہ کچھ خاص ہوتے ہیں اور وہ روپ بدل کر اِس دنیا میں گھوم رہے ہیں۔۔۔“ الفاظ ایسے تھے کہ ایمان کے کان کھڑے ہوگئے۔۔ جان کی جانب اس کی پشت تھی۔ میس میں موجود سبھی اسٹوڈنٹس اس کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔۔۔وہ جھٹکے سے پلٹی۔۔
جان شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ایمان کو اپنی ریڑھ کی ہـڈی میں سنساہٹ سی محسوس ہوئی۔۔
”لیٹس واچ۔۔۔ ریسا ہال کی مشہور ایمانے۔۔۔ جو پاگلوں کو جوس بریڈ کا لالچ دے کر جانے ان سے کون سے اہم راز اگلوانا چاہتی ہے۔۔۔“ ایمان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔۔ جان نے قہقہہ لگایا۔۔ وہ اب تک عبدل کی وجہ سے جان کے عتاب سے بچی ہوئی تھی۔۔ اب عبدل نہیں تھا تو جان اسے کیسے بخش دیتا۔۔
اور پھر اسکرین جل اٹھی۔ اس پر ایک ویڈیو چلنے لگی تھی ویڈیو میں اور کوئی نہیں ایمان تھی۔۔۔یہ اس وقت کی بات تھی جب وہ پوشیدہ دنیا کے بارے میں ریسرچ کر رہی تھی۔۔
وہ کسی مشکوک کی طرح بس اسٹاپ پر بیٹھی اس پاگل عورت کو دیکھ رہی تھی۔۔
ایمان تو حیران و پریشان سی دیکھنے لگی۔۔اسے نہیں پتہ تھا اس کی ویڈیو بنائی جارہی تھی اور بنانے والا کوئی اور نہیں جان ہی تھا۔۔
ویڈیو میں وہ کافی دیر کھڑی رہی۔۔ پھر وہ سامنے ہی موجود جنرل اسٹور پر چلی گئی۔۔ میس روم میں ہلکی ہلکی سی سرگوشیاں جاری تھیں۔۔۔ جانے آگے کیا ہونے والا تھا اور ایمان جانتی تھی اس کی کتنی بےعزتی ہونے والی تھی۔۔ اس نے کھا جانے والی نظروں سے جان کو گھورا لیکن اُسے کون سا فرق پڑتا تھا۔۔ وہ ہنس رہا تھا۔۔ اسے چڑا رہا تھا۔۔
اور پھر سکرین پر ایمان اب جوس اور بریڈ لے کر آتی دکھائی دی۔۔۔اس نے وہ دونوں چیزیں اس پاگل عورت کو تھمائیں۔۔ وہ خوش ہوگئی۔۔پر اگلے ہی پل ایمان نے جو سوال کیا تھا اس پر وہ پاگل عورت حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
تمہیں یہ سب کیسا لگتا ہے؟؟“ ایمان نے سوال کیا۔۔ عورت جس کے بالوں کو بےترتیبی سے کاٹا گیا تھا اس نے حیرت سے ایمان کو دیکھا۔۔۔البتہ وہ کچھ باتیں سمجھتی تھی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر بریڈ کھانے لگی۔
”اس ظاہری دنیا میں پاگل کا کردار ادا کرنا کیسا لگتا ہے۔۔؟؟ میں جانتی ہوں تمہاری حقیقی دنیا کچھ اور ہے۔۔۔“ وہ جو کئی پہروں سے بھوکی ہونے کی وجہ سے بریڈ پر ٹوٹ پڑی تھی ایمان کی بات سن کر جیسے وہ ساکت ہوئی۔۔ اس نے ایمان کو یوں دیکھا جیسے وہ نہیں بلکہ ایمان پاگل ہو۔۔
وہ پھر ہنسی۔۔ اور ہنستی چلی گئی۔۔ اور اسکی ہنسی غصے میں بدل گئی۔۔
”گو ٹو ہیل۔۔۔“ اس نےہاتھ میں پکڑا بریڈ اور جوس ایمان پر دے مارا اور گالیاں دیتی وہاں سے چلی گئی۔۔
ایمان اس منظر کو کیسے بھول سکتی تھی پر یہ دیکھتے ہی پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔۔
ایمان کو حد درجہ شرمندگی نے آلیا تھا۔۔
”سب مس ایمانے کو بتائیں کہ ان کی پوشیدہ دنیا کیا ہے۔۔ اصل کردار کونسا ہے۔۔ اور ہم یہاں جوکر بنے کیوں گھوم ریے ہیں۔۔“ جان اسے کہاں بخشنے والا تھا۔۔
سب ہنس رہے تھے۔۔ کچھ اسٹوڈنٹس اس کی جانب اشارے کر رہے تھے۔۔۔ دی گریٹ ایمانے۔۔۔
ایمان کا دل چاہا وہ اپنا چہرہ چھپا کر یہاں سے بھاگ جائے اور پھر اس کی نظر کائنات پر پڑی۔۔ وہ حیرانی سے ایمان کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسے نہیں پتہ تھا ایمان اکیلے میں یہ سب کرتی پھرتی تھی۔۔ اس نے اپنی ہنسی روکنا چاہی۔۔ اور پھر وہ بےاختیار ہی ہنس دی۔۔ ایمان کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔۔ اس نے آج بہت دنوں بعد کائنات کو ہنستے دیکھا تھا۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد ایمان کی یہ ویڈیو پورے ریسا ہال میں پھیل چکی تھی۔۔۔
ایمانے دی گریٹ کے نام سے اسے سب چڑا رہے تھے۔۔۔ اس رات پورا ریسا ہال اسکی ویڈیو کی وجہ سے کھلکھلا اٹھا تھا اور ایمان تو اگلے دن تک اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی۔ یقیناً ریسا ہال اسے ہمیشہ یاد رکھنے والا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ریسا ہال سے جاتے وقت اس کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئی تھیں۔۔ پر وہ رک نہیں سکتی تھی۔ اسے جانا تھا۔۔ حرکت میں برکت ہے اور اسے آگے بڑھنا تھا۔۔ اب وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔۔ کائنات نے اس سے معافی مانگی تھی۔ ایمان کو اس سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔۔ اس نے "جو گزر گیا وہ بیت گیا اور جو ہونا تھا وہی ہوا" والی عادت اپنا لی تھی۔۔ یقیناً ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تھی۔
کائنات بھی جلد واپس پاکستان جانے والی تھی۔۔ اس نے کافی حد تک خود پر قابو پا لیا تھا۔۔ یا شاید وہ ایمان کے سامنے مضبوط بنی رہتی تھی۔
ریسا ہال سے جاتے وقت ایمان کو ہزاروں بار عبدل کا خیال آیا تھا۔۔۔اور ہر بار اس کا دل الگ طریقے سے دکھتا تھا۔۔ جب بھی اس کا خیال آتا وہ یہی سوچتی تھی کہ اب تک تو اس کی شادی ہوچکی ہوگی۔۔ شاید وہ اپنی وائف کے ساتھ کہیں گھومنے پھرنے گیا ہو۔۔ وہ اپنی دنیا میں مصروف ہوچکا تھا۔۔ اسے ایک بار بھی ایمانے کا خیال نہیں آیا تھا۔
اور پھر وہ اس کا خیال جھٹک دیتی۔۔ اس نے ہمیشہ رشتوں کو کھویا تھا۔۔ اسے تکلیف ہوتی تھی اور اس پر قابو بھی پالیتی تھی۔۔۔پر عبدل نے اسے ہنسنا سکھایا تھا۔۔
وہ ہمیشہ اسے ہنسانے آجاتا تھا۔۔۔پر اس بار وہ اکیلی تھی۔۔وہ نہیں آیا۔۔۔ وہ کبھی کبھی بےاختیار ہی اس کا انتظار کرتی۔۔ پر پھر یہ سوچ اسے عبدل کو فون کرنے سے روک لیتی کہ وہ کسی اور تھا۔۔۔ کسی کی محبت کسی کا شوہر۔۔۔۔
اس نے کبھی جان سے بھی عبدل کا نہیں پوچھا تھا۔
وہ ریسا ہال چھوڑ آئی تھی۔۔ ایک سال یہاں گزارنے کے بعد اب اس کی زندگی میں نیا باب آنے والا تھا۔۔ جس سے وہ بےخبر تھی۔۔
ماثیل نامی باب۔۔۔۔ جو اپنے ساتھ اور بہت کچھ لانے والا تھا یہ وہ نہیں جانتی تھی۔
وہ رائیڈ کروا کر اپنا سارا سامان لے آئی تھی۔ آج اتوار تھا۔۔ روز اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔ اس نے خوش دلی سے ایمان کا استقبال کیا۔۔ اس نے ایمان کے کمرے کو صاف کردیا تھا۔ اب ایمان کو اپنا پورا کمرہ مل گیا تھا جسے وہ اپنے مطابق سیٹ کر سکتی تھی۔۔ جہاں وہ دکھی تھی وہیں پرجوش بھی تھی۔۔ اس کے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔۔۔
جس کلینک میں اس کی جاب ہوئی تھی وہ یہیں تھا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر۔۔ یعنی رات کو وہ آران سے واپس آسکتی تھی پر دن میں اسے یونیورسٹی سے ایک بجے نکلنا پڑتا تب وہ تین بجے تک یہاں پہنچ پاتی۔۔
اس سیمسٹر میں اس کے بس دو تین لیکچرز تھے۔۔ کسی دن ایک تھا کسی دن تو کسی دن تین۔۔
وہ پرسکون تھی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ روز باتونی لڑکی تھی۔۔ وہ اب اسے ساتھ والی آنٹی جینا کے بارے میں بتارہی تھی۔۔ اور بائیں جانب رہنے والی لڑکیوں کے بارے میں۔۔
ایمان جان گئی تھی روز ایک جلد گھلنے ملنے والی لڑکی تھی۔۔ وہ مسکرا کر اسکی باتیں سن رہی تھی۔
”تمہارا نام تھوڑا سا مشکل ہے نا۔۔ میں سوچ رہی ہوں تمہارا نک نیم رکھ دوں۔۔ جیسا میرا ہے روز۔۔۔ویسے ہی تمہارا بھی۔۔۔“ اس نے کھانے کی پلیٹ میز پر رکھتے ایمان سے سے پوچھا۔
”ایمی ٹھیک رہے گا۔۔؟؟“ اس نے غور سے ایمان کو دیکھا۔۔
”ناں۔۔۔ایمی نہیں۔۔یہ تم پر سوٹ نہیں کرتا۔۔ ایما۔۔۔۔ ہاں یہ اچھا رہے گا۔۔۔“ وہ خود ہی سوال جواب کر رہی تھی۔۔۔
ام ایمان۔۔۔ایمانے۔۔۔اور اب ایما۔۔۔ وہ جہاں جا رہی تھی اسے ایک نئی پہچان نیا نام دیا جارہا تھا۔۔ اور وہ خاموشی سے سب کچھ قبول کر رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اور پھر وقت کو جیسے پر لگ گئے۔۔ وہ پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئی تھی۔۔یونیورسٹی وہ صرف لیکچر لینے جاتی تھی۔۔ وہاں سے ایک بجے نکل آتی۔۔۔سیدھا کلینک پر۔۔
مسز اسٹیفن بہت ہی خشک قسم کی عورت تھی۔۔ اسے انسانوں سے کم جبکہ جانوروں سے زیادہ محبت تھی۔۔ وہ اکثر بلاوجہ ہی ایمان پر بھڑک اٹھتی۔۔ بلاوجہ ہی غصہ کرتی چلانے لگتی۔۔ پر ایمان خاموشی سے سب سن لیتی۔۔ وہ جاب سے واپس آکر پڑھنے میں لگ جاتی۔۔ روز اس سے جلد گھل مل گئی تھی۔۔۔۔ وہ واقعی اچھی لڑکی تھی۔
اس دوران ایمان اپنا خیال نہ رکھ پارہی تھی۔۔وہ اکثر پورا دن بھوکے گزار دیتی تھی۔۔ کبھی کبھی کلینک میں زخمی جانوروں کو دیکھ کر اسکی حالت بری ہوجاتی۔۔ کبھی کبھی مسز اسٹفین جیسے ہی سائیکو لوگ اپنے پیٹ لے کر آتے تھے۔۔ اور پھر اودھم مچا دیتے۔۔۔
روز کچھ نہ کچھ تماشہ ہوتا تھا۔۔ تین مہینے گزر گئے۔۔ ایمان نے اپنی تنخواہ کے پیسوں کو بڑی احتیاط سے استعمال کیا۔۔ نہ صرف استعمال کیا بلکہ گھر بھی کچھ پیسے بھیجے۔۔ اپنی پہلی کمائی وہ صرف خود پر کیسے خرچ کرلیتی۔۔ سلمی بیگم نے اسے منع کردیا تھا۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ تم اپنا وقت اچھے سے نکالو۔۔ کھانے پینے پر توجہ دو۔۔
اور پھر آہستہ آہستہ ایمان میں اعتماد آنے لگا۔۔۔ اپنی محنت کی حلال کمائی انسان میں اعتماد لے آتی ہے۔۔ وہ کلینک پر الگ طرح کے لوگوں سے ملتی تھی۔۔۔اس کا ایکسپوژر بڑا تو وہ مزید سمجھدار ہونے لگی۔۔
وہ دو بار روز کے ساتھ قرطبہ اور غرناطہ کے ٹوؤر پر بھی گئی تھی۔
لیکن پھر وہ اپنے پریکٹیکل کی وجہ سے ایک دو بار جاب سے لیٹ ہوگئی۔۔ اسے مسز اسٹیفن نے وارننگ دی تھی کہ آئندہ لیٹ ہوئی تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔
پر پھر جیسے ہی فائنل اگزامز آئے روز کو ماثیـــل نامی کسی انسٹیٹیوٹ میں ایڈمشن لینے کا بھوت چڑھ گیا۔۔۔ اور اس کا ایڈمیشن لینے مجبوراً ایمان کو جانا پڑا۔۔۔۔ کیونکہ روز کے ہونے والا سسر کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔
اور یہ وہ دن تھا جب وہ ماثیل سے ملی۔۔۔ جہاں سے اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔۔۔۔ تیسری بار لیٹ ہونے پر مسز اسٹیفن نے اسے جاب سے نکال دیا۔۔ اسے پچھلے ماہ کی سیلری بھی نہیں ملی تھی۔۔ سمیسٹر فیس بھرنے کی وجہ سے اس کا ہاتھ تنگ پڑ گیا تھا۔۔
اور پھر روز کے اصرار کرنے پر اس نے ماثیل انسٹیٹیوٹ جوائن کرلیا تھا۔۔۔ اس بات سے بےخبر کہ ادھم عرف ماثیل اسے اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔