کائنات اسکے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی کسی مجرم کی طرح۔۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔ جسے وہ بار بار ہتھیلی سے رگڑ کر پونچھ رہی تھی۔ وہ ایک دو باتیں کرتی اور پھر سے رونے لگ جاتی۔ ایمان اپنا غم اپنا دکھ بھول گئی تھی۔۔۔۔ وہ سمجھتی تھی دنیا میں اسے زیادہ سہنا پڑتا ہے پر یہاں تو سب کے حالات ہی ایسے تھے۔
”میں نے اُسے پہلی بار کلاس میں دیکھا تھا۔۔ وہ کسی بات پر غصہ تھا۔۔ یہ اس کی ہمیشہ سے عادت تھی۔۔ وہ میرا سینئر تھا۔۔۔ جانے وہ کس کی مدد کر رہا تھا ہماری کلاس کے اسٹوڈنٹس کو لگتا تھا وہ ہمارے ساتھ پرانک کرنے آیا ہے پر وہ واقعی کسی اسٹوڈنٹ کی ہیلپ کرنا چاہتا تھا اور اسی سلسلے میں وہ ہم سے مدد مانگنے آیا تھا۔۔ وہ ضدی اور غصے والا تھا۔۔ جن اسٹوڈنٹس نے بھی انکار کیا وہ ان کی کوئی نا کوئی چیز اٹھا کر لے گیا۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ میرے سامنے آیا اس کی نگاہیں جھک گئیں۔۔۔“ ایمان خاموش ہوگئی۔
”میں نے پہلی بار خود کے سامنے کسی کی نگاہوں کو جھکتے پایا تھا۔۔۔ پھر میرے دل نے شدت سے خواہش کی وہ نظریں اٹھا کر دیکھے پر اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔۔ وہ سب کو تنگ کر لیتا پر اس نے مجھے اتنی عزت اتنا احترام دیا کہ میں حیران رہ گئی۔۔۔۔ جانے کب میرا دل یہ خواہش کرنے لگا کہ وہ میرے ساتھ بھی ہنسے بولے بات کرے۔۔۔ یا میرا نام پکارے۔۔۔ پر شاید میں اس کے لیے Exist ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔“ کائنات کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔
ایمان حیران پریشان سی اس کی کہانی سن رہی تھی۔
”وہ جب مہینوں غائب ہوتا ہے تو میری نگاہیں اسے ہر جگہ ڈھونڈتی ہیں۔۔۔ میں نے خود پر بہت پہرے لگائے۔۔۔خود کو بزی کرلیا۔۔ لیکن دل کمبخت مانا ہی نہیں۔۔۔“
اسکا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔
”ویلنیسا آنے سے پہلے گھر والوں نے میرا نکاح کردیا تھا۔۔ میرا منکوح میرا کزن ہی ہے وہ مجھے پسند کرتا ہے اور میرا انتظار کر رہا ہے۔۔ یہاں سے واپس جاتے ہی میری رخصتی کردی جائے گی۔۔ پر میں اس دل کا کیا کروں؟؟؟ میں نہیں جانتی تھی کہ کوئی عبدل آندھی طوفان کی طرح آئے گا اور مجھ جیسی لڑکی، جس نے کبھی کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا وہ، سوکھے پتے کی طرح اس کے سنگ اڑتی چلی جائے گی۔۔ “
ایمان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔۔ وہ جانتی تھی محبت کے سامنے انسان غلام بن جاتا ہے۔۔۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا۔۔۔
”پھر میں نے سالوں بعد عبدل کو کسی لڑکی سے بات کرتے دیکھا اور وہ تم تھی۔۔“ کائنات نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اس کی سرخ انگارہ آنکھوں میں عجیب سی تپش تھی۔ ایمان ساکت بیٹھی اسے سن رہی تھی۔
”پھر مجھے لگا میں شاید تمہارے ذریعے عبدل تک پہنچ پاؤں اسے بتا سکوں کہ میں کس تکلیف سے گزر رہی ہوں۔۔۔“ اس نے سچ بولا تھا۔۔۔پر اس کا سچ اتنا وزنی تھا کہ ایمان کے دل پر کسی ہتھوڑے کی طرح پڑا۔۔۔ اسکا ٹوٹا دل کانچ کی مانند ٹوٹ کر چھناکے سے چاروں جانب پھیل گیا۔۔ ایمان نے بےبسی سے اپنے دل سے خون رستا محسوس کیا۔
یعنی کائنات، عبدل کی وجہ سے اس کے قریب آئی تھی۔۔ اس سے دوستی کی تھی۔۔
”تم جیسا سوچ رہی ہو ویسا نہیں ہے ایمان۔۔۔۔تم میرے لیے بہت خاص ہو۔۔۔ ایم سوری۔۔ پر میں اب تمہیں دوست مانتی ہوں اس لیے سب بتارہی ہوں۔۔“ کائنات نے آگے بڑھ کر ایمان کے سرد ہاتھوں کو تھام لیا۔ جبکہ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ دل کے مقام پر اب تک کچھ جل رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آیا وہ روئے یا ہنسے۔۔؟؟
”مجھے بتاؤ ایمان میں کیا کروں؟؟ میں کسی کو دھوکا نہیں دینا چاہتی۔۔ پر عبدل۔۔۔۔ اس کے لیے تو میں کچھ نہیں ہوں۔۔“ یک طرفہ محبت کی آسیب سے کم نہیں ہوتی۔۔ یہ جب تک انسان کا سارا خون نہیں نچوڑ لیتی اسے سکون نہیں ملتا۔
”میں عبدل سے بات کرکے دیکھتی ہوں۔۔“ ایمان نے مری مری آواز میں جواب دیا۔ وہ اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی۔۔
اس کے اپنے حالات کچھ ایسے ہی چل رہے تھے۔۔ اب تو وہ مزید ڈر گئی تھی۔۔ آنے والا کل جانے کیسے ہونے والے تھا۔۔ وہ کسی سے بندھ کر کیسے بیٹھ سکتی تھی ؟؟
ایمان نے بےساختہ اپنی پیشانی مسلی۔۔۔ اسکی حالت غیر ہورہی تھی۔۔۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئی اس نے عبدل کا نمبر ملایا۔۔ کچھ دیر بیل جاتی رہی۔۔
”ہائے ایمانے! تم ٹھیک ہو؟؟“ اس نے پہلی بار عبدل کو فون کیا تھا۔۔ عبدل حیران ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہوا تھا۔
”مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔“ وہ گلے میں اٹکے آنسوؤں کے گولے کو پیچھے دھکیلتے بولی۔۔ اس وقت تو اسے خود کسی کی ضرورت تھی وہ جس تکلیف اور پریشانی سے گزر رہی تھی پر یہاں اسے کسی اور کا سفارشی بننا پڑ رہا تھا۔
”آر یو اوکے۔۔۔؟؟“ وہ پریشان ہوا۔
”ہا۔۔ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ مجھے بس کچھ بات کرنی ہے۔۔“
”ابھی تو میں ویلنیسا میں نہیں ہوں۔۔۔ کچھ پتہ نہیں کب واپس لوٹوں گا۔۔“
وہ کسی کام سے شہر سے باہر گیا تھا۔۔ ایمان نے فون بند کردیا۔۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھتے گہرا سانس لیا اور خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ اسے اپنے جسم میں درد محسوس ہورہا تھا۔۔ رات کو ٹھنڈ میں بیٹھنے کی وجہ سے اسے اب بخار کی شکایت ہورہی تھی۔۔۔
ذہن کبھی عبدل تو کبھی کائنات اور کبھی سلمی بیگم کی طرف جارہا تھا۔۔ وہ جس طرح کے حالات کا شکار تھی کوئی فرشتہ ہی اس کی مدد کو آسکتا تھا۔
پر کیا ہم ہمیشہ اس امید پر بیٹھے رہیں کہ کوئی آئے گا اور آکر ہماری مدد کرے گا۔۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ لڑکیوں کو اپنی جنگیں لڑنا آنی چاہئیں۔
✿••✿••✿••✿
نگاہ و دل کو قرار کیسا
نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو ان سے
ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے۔۔۔۔
وہ اس کے سامنے تھی۔۔۔ ماثیل کو احساس ہوا تھا وہ اس لڑکی سے محبت کرنا کم کر ہی نہیں سکتا تھا۔۔ اس کی محبت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ ایمان نے موٹا اونی کوٹ پہن رکھا تھا جسکی جیب میں وہ بایاں ہاتھ ڈالے دوسرے سے گرم گرم کافی کا کپ تھامے اسکے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اس کے ہاتھ سرد پڑنے لگے تو اس نے کافی کے کپ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر ہاتھوں کو گرمائش دینا چاہی۔۔
اسکی ناک سرخ پڑ چکی تھی۔۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹاپایا۔۔ وہ غصہ تو تھی ہی پر جانتی تھی ماثیل سے لڑنے جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔ نومبر کے بعد دسمبر بھی گزر گیا تھا۔۔ اور جیسے ہی جنوری شروع ہوا ٹھنڈ کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔۔ اس نے آج اپنا وعدہ پورا کردیا تھا۔۔ وہ انٹرویو دینے گئی تھی۔۔ لیکن اس نے ماثیل کو یہ نہیں بتایا تھا۔۔۔واپسی پر اسے کافی شاپ نظر آئی تو اس نے ماثیل کو فون کردیا۔۔ وہ روز اس سے پوچھتا تھا کہ مجھے چائے کب پلارہی ہو۔۔۔۔؟؟
وہ خود بھی چائے کا زیادہ شوق سے پیتی تھی پر اس وقت ٹھنڈ کم کرنے کے لیے کافی زیادہ اچھی تھی۔
”ایسے کیوں گھور رہے ہیں؟؟“ اس نے بھنویں سکوڑ کر پوچھا۔
”تمہاری ناک سرخ ہوچکی ہے۔۔“ وہ ابھی بھی اس پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔
”تو۔۔۔؟؟“ غصہ تو ناک پر ہی رکھا رہتا تھا۔
”تو کم غصہ کیا کرو نا۔۔۔“ وہ مسکرایا۔ اس نے بھورے رنگ کی جیکٹ پر بھورا مفلر کانوں کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔۔ اس کے بال سلیقے سے جمے تھے۔ ایمان بس گھور کر رہ گئی۔ وہ دونوں چلنے لگے۔۔ خاموشی کا وقفہ آیا جو ماثیل کو نہایت برا گزرا اسی لیے وہ بول پڑا۔
”تم نے پچھلی بار کہا تھا تمہیں سب سے زیادہ نفرت اپنے ڈیڈ سے ہے۔۔۔“ ایمان نے رک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”یو نو واٹ۔۔ مجھے فیملی میں سے زیادہ محبت ہی اپنے ڈیڈ سے ہے۔۔۔ ہم کس قدر مختلف ہیں ایک دوسرے۔۔۔“ وہ پھیکا سا مسکرا دیا۔
”ہاں جیسے مشرق اور مغرب۔۔۔ جو کبھی مل نہیں سکتے۔۔۔“ وہ جانے کیا باور کرانا چاہتی تھی۔
”تمہاری اپنے ڈیڈ سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟“ وہ اسے جاننا چاہتا تھا۔۔۔سننا چاہتا تھا کہ اس کے اندر کیا تھا۔ ایمان کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔۔۔پھر وہ خود پر قابو پاگئی۔
”پتہ نہیں۔۔۔ شاید مجھے جو ملا اب وہی لوٹا رہی ہوں۔۔“ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔۔کہیں کوئی لچک نہیں تھی۔
”اور مجھ سے نفرت کی وجہ؟؟“ اس نے فوراً پوچھا۔
”مجھے آپ سے نفرت نہیں ہے۔۔۔“ ایمان نے رک کر جواب دیا۔ ماثیل اسے دیکھنے لگا۔ جانچتی نگاہوں سے۔
”اور تمہارا فیانسی؟؟“
فیانسی کے نام پر وہ سٹپٹا گئی۔
”وہ ٹھیک ہے۔۔“ اس نے بس یہی جواب دیا۔
”تم اس سے محبت کرتی ہو؟؟“ ماثیل نے شدت سے چاہا تھا اسکا جواب ناں ہو۔ اور وہ ماثیل کی بات سن کر ہولے سے مسکرادی۔۔۔زخمی ہنسی اس کے لبوں پر بکھر گئی۔
”نہیں۔۔۔“ یک لفظی جواب دیا گیا۔
”پھر اس سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہو؟؟“
وہ افسردہ لہجے میں بولا۔۔۔ جبکہ ایمان نے اسے یہی ظاہر کیا کہ وہ اب بھی منگنی شدہ ہے۔۔۔
”مجبوری ہے۔۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔
”میں تمہیں زیادہ خوش رکھ سکتا ہوں۔۔“ وہ اپنا وکیل خود تھا۔۔۔ ہر بار اپنا کیس لے کر حاضر ہوجاتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اسے اپنا مقدمہ خود لڑنا تھا۔۔۔ ایمان وہ لڑکی نہیں تھی جس کے سامنے کسی کی سفارش کام آتی۔ ایمان نے پرسوچ نگاہوں سے ماثیل کو دیکھا۔۔۔ وہ آنکھوں میں امید کے چراغ جلائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے آپ مجھے خوش رکھ سکتے ہیں ادھم؟؟“ اس نے سوال کیا۔
”مجھے لگتا ہے تمہارے جیسی لڑکی کے ساتھ مجھ جیسا لڑکا ہی سوٹ کرتا ہے۔۔ میرا مطلب جیسا میرا مائنڈ سیٹ ہے۔۔۔ تم ذہین ہو اور میں تمہاری ذہانت کی قدر کرتا ہوں۔۔ شاید تم بھی یہی چاہتی ہو کوئی مجھ جیسا الگ سوچنے والا۔۔۔۔
”نہیں چاہیے۔۔۔“ ایمان نے اسکی بات کاٹ دی۔۔
اسے خود پر کتنا بھروسہ تھا۔۔ وہ اپنا فیورٹ تھا۔۔ وہ جانتا تھا لڑکیاں اس پر کیوں مرتی تھیں۔۔۔۔اسکی سوچ کی وجہ سے۔۔۔اور یہی سوچ ایمان کو ناپسند تھی۔
”پر کیوں۔۔؟؟“ اسکا دل دکھا تھا۔۔۔بھلا یوں بھی کوئی کسی کی ذات کی نفی کرتا ہے۔
”مسٹر ادھم مجھے ایک بات بتائیں۔۔ آپ نے کہا آپ اپنے ڈیڈ سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔۔۔ آپ کے ڈیڈ اور مجھ میں سے آپ کو اگر کسی ایک کو چننا پڑے تو آپ کس کو چُنیں گے؟؟“ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”افکورس تمہیں۔۔۔“ اس نے ایک لمحہ بھی نہیں لگایا سوچنے میں۔
”اور آپکے ڈیڈ؟؟“
”انہیں اگر مجھ سے محبت ہوگی تو وہ ضرور سمجھیں گے۔۔ ورنہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔ میں تمہارے لیے انہیں چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔ میں محبت میں فیملی کو اسپورٹ کرنے کا حقدار نہیں۔۔۔ محبت پہلے آتی ہے۔۔۔“ وہ اپنی سچائی نہیں چھپاتا تھا۔۔ اسی لیے بےساختہ سب بتاتا چلا گیا۔ ایمان افسردہ نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
”آپ کو پتہ ہے ادھم۔۔۔“ وہ اپنے اور اسکے درمیان کا فاصلہ طے کرتی بالکل اسکے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔ بس قدم بھر کی دوری۔۔۔ ماثیل کے دل نے رفتار پکڑ لی۔
”آپ بالکل میرے ڈیڈ جیسے ہیں۔۔۔ اسی لیے میں آپ کو کسی قیمت پر نہیں اپناؤں گی۔۔۔“ وہ سرد و سپاٹ میں لہجے میں کہہ کر پلٹ گئی۔۔۔اس کی آنکھوں میں اپنے باپ کے لیے جتنی نفرت تھی اسے دیکھ کر ماثیل ساکت رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔
کتنی ظالم تھی وہ۔۔۔ لڑکیاں تو اپنے باپ کا عکس ڈھونڈتی تھیں۔۔۔ اور ایمان اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی۔۔ان کے عکس سے، ان کے سائے سے بھی۔۔ اور یہ ماثیل کی بدقسمتی تھی کہ وہ اسکے باپ جیسا تھا۔۔!!
✿••✿••✿••✿
پورا دن سلمی بیگم کا فون نہیں آیا تھا۔۔ شاید انہیں بھی احساس تھا کہ ایمان کس قدر پریشان ہوگی۔۔ ایمان پڑھائی پر توجہ نہیں دے پارہی تھی۔ ایک طرف کائنات کی ٹینشن تو دوسری طرف سلمی بیگم کی۔۔
کائنات اب زیادہ چپ رہنے لگی تھی۔۔ جیسے جیسے اس کے جانے کا وقت قریب آرہا تھا ویسے ویسے اس کے لیے مشکل بڑھتی جارہی تھی۔۔۔عبدل تھا کہ واپس نہیں آرہا تھا۔۔
پھر سلمی بیگم نے کافی دن اس موضوع پر بات نہیں کی۔۔ ایمان کو لگا جیسے اللہ کو اس پر رحم آگیا ہو۔۔۔ وہ اسی کشمکش میں اکیڈمی بھی جوائن نہیں کر پائی۔۔۔وہ ایک بار بھی وہاں نہیں گئی تھی۔
پندرہ دن بعد سلمی بیگم نے پھر سے اسی موضوع پر بات کی۔۔
” تمہارے ماموں کہہ رہے ہیں پیپرز دیتے ہی واپس آجاؤ۔۔۔ نکاح کی تیاریاں کرکے بیٹھے ہیں وہ لوگ۔۔“ اور ایمان کا دل چاہا وہ اتنی زور سے چلائے کہ اسکا انکار پوری دنیا سن لے۔
”تو آپ نے فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔؟؟“ ایمان نے سوال کیا۔
”میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔۔۔“ سلمی بیگم نے اپنی مجبوری بیان کی۔ ایمان نے اپنے لب کچل ڈالے۔
”کیا آپ اس رشتے سے خوش ہیں امی؟؟“ اس نے پہلی بار سلمی بیگم سے ان کی خوشی کا سوال کیا۔ دوسری جانب کچھ دیر کے لیے خاموشی چھاگئی۔
”تمہارے ماموں کے ہم پر بہت احسان ہیں ایمان! میری خوشی ان کی خوشی میں ہے۔۔ وہ خوش ہیں تو میں خوش۔۔۔“
اور پھر چھن سے مزید کچھ ٹوٹا۔۔۔ اب تو ایمان کو لگا اس کا احتجاج کرنا فضول تھا۔۔ اسکی ماں کو اپنے احسان چکانے تھے۔۔۔۔اور قربانی اسے دینی تھی۔
”ماموں کا دوبارہ فون آیا؟؟“ اس نے سوال کیا۔
”نہیں کافی دنوں سے نہیں آیا۔۔پر مجھے خبر ملی ہے کہ وہ لوگ تیاریاں کرکے بیٹھے ہیں۔۔۔“
ایمان کچھ نہ بول پائی۔۔ بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔۔۔ کیسے وہ ایک ایسے شخص کے لیے ہاں کر دیتی جسے وہ جانتی ہی نہیں تھی۔۔۔نہ جس کو کبھی دیکھا تھا نہ ملی تھی۔۔
وہ اس کے ماموں کو پسند تھا۔۔۔ لڑکے کی اپنی ورکشاپ تھی۔۔ اور ماموں کو لگا تھا یہ ایمان کے لیے اچھا ہوگا۔
”تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے ایمان۔۔۔ کچھ تو بولو۔۔“ سلمی بیگم نے دہائی دی۔
”آپ جانتی ہیں میں کبھی خوش نہیں رہ پاؤں گی۔۔ لیکن میں آپ کو انکار نہیں کروں گی۔۔ میری طرف سے جو آپکا دل چاہے وہ کریں آپ۔۔۔“
بس اتنا سا کام تھا۔۔۔۔اور ایمان جانتی تھی ہاں کرنا آگ کے سمندر کو پار کرنے کرنے جیسا تھا۔۔۔
اس نے فون بند کردیا۔۔۔ وہ یونیورسٹی میں تھی۔۔ اس نے چاروں جانب دیکھا۔۔ معمول کے مطابق سب ٹھیک چل رہا تھا۔۔۔کہیں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا۔۔۔اور اسکی زندگی خاموشی سے ختم ہوگئی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ اس نے نم آنکھوں سے عبدل کو ڈھونڈنا چاہا پر وہ اسے کہیں نظر نہ آیا۔۔
”کاش۔۔۔کاش۔۔ آپ نے میرا ساتھ دیا ہوتا۔۔ آپ میرے ساتھ ہوتے۔۔۔ اس مشکل وقت میں کوئی تو میرا اپنا ہوتا۔۔۔مجھے آپ کی ضرورت تھی۔۔“ اس نے تصور میں اپنے باپ کو مخاطب کیا۔۔ وہ بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی۔۔۔ اسکا باپ کہیں بھی نہیں تھا۔۔ اور پھر نفرت کی لہر اسکے پورے وجود میں پھیل گئی۔۔ آج جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ اس کے باپ کی وجہ سے ہی ہو رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اسکی مسکان لبوں سے چھن چکی تھی۔۔۔ پر اس کے دل سے ایک بوجھ اتر گیا تھا۔۔ وہ نہ سہی سلمی بیگم ہی سہی۔۔۔چلو کوئی تو خوش رہتا۔۔
وہ اب کسی روبوٹ کی طرح اپنے امتحان دے رہی تھی۔۔۔دوسرا سمیسٹر ختم ہوچکا تھا۔۔ وہ اپنا آخری پریکٹکل دے کر لیب سے باہر نکلی تھی کہ اسے ماموں کا فون آیا۔۔ اسکے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔۔ اسے ماموں کم کم ہی فون کرتا تھا۔۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے فون اٹھایا۔۔
”السلام علیکم ماموں جان!“ لہجے کو حد درجہ فریش رکھنے کی کوشش کی۔
”مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔۔ سب نے مجھے منع کیا کہ تم جس شخص کی اولاد ہو اسے صرف دھوکا دینا آتا ہے پر میں نے انکا یقین نہیں کیا۔۔ اسی لیے تمہیں چیک کرنے کی خاطر میں یہ نکاح جلد کرنا چاہتا تھا۔۔ میں نے کیا کچھ نہ کیا تمہارے لیے۔۔ اور تم۔۔ اپنے باپ کی ہی اولاد نکلی نا۔۔۔“ ماموں کے الفاظ اسکے کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح انڈیلے جارہے تھے۔
”مام۔۔موں۔۔“ اسکے الفاظ پھڑپھڑا کر رہ گئے۔
”ارے تم کیا انکار کرو گی۔۔۔میں کرتا ہوں انکار اس رشتے سے۔۔ اب تمہاری ماں چاہے بھی تو میں تمہارے سر پر ہاتھ نہیں رکھوں گا۔۔ یہی گل کھلانے تھے تو پہلے بتادیتی۔۔۔ آج سے تم میرے لیے مرچکی ہو۔۔۔“ ماموں نے کھٹاک سے فون بند کردیا۔۔۔وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے فون کو گھورتی رہ گئی۔۔
اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔ماموں کی باتیں اس کے دماغ کے اوپر سے گزر گئی تھیں۔
وہ اسی کشمکش میں تھی کہ سلمی بیگم کا فون آگیا۔۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون اٹھایا۔
”اب تم خوش ہو۔۔۔تمہاری وجہ سے میرے بھائی نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔۔۔ سلمی بیگم کو پہلی بار اس سے شکایت ہوئی تھی۔ ایمان کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔
”پر امی میں نے تو ہاں۔۔۔“
”تمہاری خوشی کے لیے میں نے اپنے بھائی کو انکار کرنا چاہا اور دیکھو نتیجہ کیا نکلا۔۔ انہوں نے سب کچھ چھین لیا ہے اب کون مدد کرے گا ہماری۔۔ کیسے کرو گی اب تم پڑھائی۔۔۔کیسے کرو گی اپنے خواب پورے؟؟“ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔۔ وہ اپنی ماں کی اپنے ماموں سے محبت جانتی تھی۔۔ اور یہ بھی جانتی تھی اس وقت ماموں نے اسکی ماں کو کس قدر ذلیل کیا ہوگا۔۔ اس لیے وہ خاموشی سے سلمی بیگم کا غصہ سہتی رہی۔ پر سلمی بیگم کے آنسوں اسے تکلیف دے رہے تھے۔۔
کیا اس کی ذات اتنی ارزاں تھی جو کوئی بھی اسکی ذات کا یوں تماشہ بنا دیتا؟؟؟ وہ کس سے شکوہ کرتی اس کے پاس تو کوئی تھا ہی نہیں۔۔۔
اور پھر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے خاندان میں پھیل چکی تھی۔۔ ہر کسی کی نظر میں ام ایمان بنت عبداللہ
بری بن چکی تھی۔۔۔
یہی ہوتا ہے انجام جب لڑکیوں کو پڑھنے گھر سے باہر بھیجا جاتا ہے۔۔۔جب انہیں آزادی دی جاتی ہے۔۔۔
ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔
✿••✿••✿••✿
”تم نے تو کہا تھا تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔۔“ ہیزل تیکھے چتون لیے پوچھ رہی تھی۔ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے منہ سے پھسل گیا تھا۔ وہ آج ہی واپس لوٹا تھا۔۔ اسے ایمان کے پاس جانا تھا پر ہیزل نے جب اسے اسکی اور ایمان کی تصویر بھیجی تو اسے ہیزل کے پاس آنا پڑا۔ یہ تصویر پچھلی بار کی تھی جب وہ ایمان اور کائنات کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ کائنات فون سننے گئی تھی تو کسی نے ان کی تصویر بنا لی تھی۔۔ ہیزل اس پر نظر رکھے ہوئی تھی۔۔ وہ تھوڑا چونکا تھا۔
”تو نہیں ہے۔“ عبدل نے گاڑی موڑتے جواب دیا۔
“جھوٹ بول رہے ہو تم۔۔“ وہ چاہتے ہوئے بھی لہجہ نارمل نہ رکھ پائی۔۔ اچانک ہی تلخی سی گلے میں گھل گئی۔ اسے ٹھکرا کر عبدل کسی اور کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ وہ یہ درد کیسے بھول جاتی؟؟
”عبدل جھوٹ نہیں بولتا۔۔“
”تو وہ حجاب والی لڑکی کون تھی تمہارے ساتھ؟؟“ ہیزل کی آنکھوں کے سامنے ایمان کا سراپا لہرایا۔
”وہ گرل فرینڈ نہیں ہے۔۔“
”تو پھر کون ہے؟؟ میں نے آج تک تمہیں کسی لڑکی سے اتنے اچھے طریقے سے بات کرتے نہیں دیکھا۔۔ کہاں تم اسکے ساتھ کافی پی رہے تھے۔۔ “ اسکے پاس ساری معلومات تھیں۔۔۔۔عبدل کو اس کا چڑنا اچھا لگا۔۔۔ وہ پوری توجہ سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔ وہ ایمان سے ملنے جارہا تھا اور ہیزل اسکے ساتھ تھی۔ البتہ اسکے پاس یہ جواب نہیں تھا کہ ایمان اسکی کیا لگتی تھی۔۔۔؟؟
”وہ مجھے کسی کی یاد دلاتی ہے۔۔!!“
”کس کی؟؟“ ہیزل نے بےساختہ پوچھا۔وہ رخ عبدل کی جانب موڑے بیٹھی تھی۔
”کسی اپنے کی! کسی ایسے انسان کی جسکے لیے دل کہے؛ زمیں پہ نہ سہی۔۔تو آسمان میں کہیں آ مل۔۔۔“ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہا تھا جبکہ ہیزل حیرانی سے سن رہی تھی۔ یہ عبدل کا جانے کونسا روپ تھا۔۔۔ اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔
اگر عبدل اس لڑکی سے محبت کرتا ہوا تو؟؟
وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی اس وقت وہ اسے کہاں لے جارہا تھا۔
“تم اس سے محبت کرتے ہو؟؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
”ایمانے مجھ سے محبت نہیں کرتی ہے۔۔“ اس نے ہنس کر جواب دیا۔
”تو اسکا نام ایمانے تھا۔۔۔“ ہیزل تلملا کر رہ گئی۔۔ ایمان کا سراپہ وہ بھول نہیں سکتی تھی۔
”اور تم؟؟“ وہ بےچین نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں پاگل ہوں کیا۔۔۔؟؟ میں اس کی زندگی کیوں برباد کروں گا۔۔؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔۔ لیکن ہیزل یہ جان نہیں پائی کہ آخر سچائی کیا تھی۔ گاڑی میں خاموشی چھاگئی۔
”میں اسی سے ملنے جارہا ہوں۔۔ ملنا چاہو گی؟؟“ اور ہیزل حیران رہ گئی۔۔ پل پل روپ بدلتا عبدل اسے کبھی سمجھ نہیں آیا تھا۔
”پر میری ایک شرط ہے۔۔۔“ عبدل نے سنجیدہ لہجے میں کہتے اس کی جانب دیکھا تو ہیزل الجھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
وہ ماؤف ہوچکے دماغ کے ساتھ بیٹھی عبدل کا انتظار کر رہی تھی۔۔ وہ بہت تھک چکی تھی۔۔ بہت دنوں کی نیند تھی وہ سونا چاہتی تھی۔۔ اس کے ذہن پر بہت سارا بوجھ تھا۔۔
پر وہ کائنات کے لیے یہاں آئی تھی۔۔۔ اور پھر اسے عبدل آتا کھائی دیا۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈبہ تھا۔۔ وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتا اسی کی جانب آیا۔۔ ایسے کرتے وقت اسکا ڈبہ گرتے گرتے سنبھلا تھا۔
وہ کافی دنوں بعد اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ایک مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا تھا۔۔
”کیسی ہو ایمانے۔۔۔؟؟“ وہ خوش دلی سے مسکراتا اسکے سامنے بیٹھا۔۔۔ اور اس نے وہ ڈبہ یعنی کرٹن میز پر ہی رکھ دیا۔ وہ خاموش رہی۔۔۔اس کے الفاظ آج کل ویسے بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
”تم اتنی کمزور کیوں لگ رہی ہو؟ طبیعت ٹھیک ہے نا تمہاری؟؟؟“ وہ پریشان ہوا۔
”میں ٹھیک ہوں۔۔“ اس نے مسکرانے کی کوشش کی پر ناکام رہی۔
”لیکن مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو۔۔۔“ وہ اسے دیکھ کر واقعی پریشان ہوگیا تھا۔۔ وہ پہلے سے بہت پھیکی اور کمزور لگ رہی تھی۔
”مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔“ وہ اسے جلد از جلد کائنات کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔
”ہاں پر اس سے پہلے دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔۔“ وہ اسکی بات نظر انداز کرتا ڈبہ کھولنے لگا۔۔ ایمان کی نظریں بھی ڈبے پر جم گئیں۔ اس نے ڈبہ میں سے کچھ نکالا۔۔۔یہ ایک چھاتہ تھا۔۔ ایمان حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔اور جب عبدل نے چھاتہ کھول کر اسے دکھایا تو وہ حیران رہ گئی۔۔
اس چھاتے پر بڑا سا ”دی سلفائیٹ“ لکھا تھا۔
”ٹن ٹنا۔۔۔ پسند آیا تمہیں۔۔؟؟“ وہ اپنی عادت کے برخلاف بول رہا تھا۔ یوں جیسے کسی چھوٹے بچے کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔ پھر اس نے ہاتھ بڑا کر کچھ اور نکالا۔ یہ بوٹس تھے۔۔ بائیں بوٹ کی بائیں جانب ”دی مون“ لکھا ہوا تھا۔
ایمان کو خوشگوار حیرت نے آلیا۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دونوں چیزیں دیکھ رہی تھی۔۔
پھر اس نے اندر سے ایک چھوٹی سی مخملی ڈبیا نکالی۔ اسے کھول کر ایمان کے سامن کیا۔ یہ ایک قیمتی خوبصورت سی بریسلٹ تھی جس پر "آرجے" کا نام لکھا تھا۔۔
وہ بےساختہ بریسلٹ کو دیکھنے لگی۔۔۔ اسکے پاس اسی برینڈ کا بیگ گا۔۔۔ میڈ بائے ایلف۔۔۔
اور پھر اس نے آخر میں ایک فون کور نکالا۔۔ سیاہ رنگ کا فون کور۔۔ پورا سیاہ۔۔
اور اسکے پیچھے صاف صاف لکھا تھا
”ڈونٹ ٹچ مائے فون برومائیڈز“ اور ایک اژدھا منہ کھولے کھڑا تھا۔۔ ایمان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
”میں جانتا تھا تمہیں یہ سب اچھا لگے گا۔۔۔“ وہ فخر سے کہتا کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ جبکہ ایمان بےیقینی سے ساری چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکے پاس اینجل کی ہڈی اور آرجے کا بیگ پہلے ہی تھا۔۔ باقی چیزیں وہ لے آیا تھا۔
وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ایمان کے چہرے کی خوشی اور اسکی آنکھوں میں چھپا غم وہ دونوں دیکھ چکا تھا۔ اور اب جو وہ کرنے جارہا تھا جانتا تھا اس معصوم لڑکی کا دل توڑ دے گا۔۔۔ وہ کبھی اس پر بھروسہ نہیں کرپائے گی۔
”ہاں اب تم بتاؤ۔۔۔کیا ضروری بات کرنی تھی۔۔“ وہ یک دم ہی سنجیدہ ہوا۔ ایمان جیسے چونک سی گئی۔۔
وہ اسکے سامنے بیٹھ گئی۔۔ عبدل نے کھانے کا آڈر دیا اور پھر اسکی جانب متوجہ ہوگیا۔۔
جبکہ ایمان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے بات شروع کرے۔۔
”وہ مجھے کائنات کے بارے میں بات کرنی تھی۔۔۔“ وہ ہتھیلیاں مسلنے لگی۔
”ہاں ہاں بولو سن رہا ہوں۔۔۔“ وہ متوجہ تھا۔
”کائنات کا نکاح ہوچکا ہے۔۔۔“
”بہت بہت مبارک ہو۔۔۔“ وہ اسکی بات کاٹتے بولا۔
”تمہاری دوست ٹریٹ کب دے رہی ہے۔۔۔؟؟“ وہ لاپرواہی سے بول رہا تھا۔۔ جبکہ نظریں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔۔ وہ ایمان کی طرف نہیں دیکھ پارہا تھا۔
”پر اسے کسی اور سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔“ پل بھر کو عبدل کے ہاتھ رکے۔۔۔وہ اب چیزیں اٹھا کر واپس ڈبے میں ڈال رہا تھا۔
”اچھا۔۔۔یہ تو مسئلہ ہوگیا ہے۔۔“ ایمان کی نظریں اس پر جمی تھیں۔
”اسے عبدل سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔۔اور وہ بہت تکلیف میں ہے۔۔ وو۔۔۔وہ۔۔۔“ وہ خود روپڑی تھی۔ عبدل نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔
”اونہوں ایمانے۔۔۔۔ ایسے مت بولو۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔میں تو خود انگیجڈ ہوں تم نے اسے بتایا نہیں۔۔“ اور یہ کیا تھا عبدل نے معصوم ایمانے پر دھماکہ۔۔۔
“انگیجڈ۔۔۔؟؟“ ایمان کو گہرا صدمہ لگا۔
”اگلے ہفتے میں شادی کر رہا ہوں۔۔۔“ وہ ایمان کو دیکھ رہا تھا جو پھٹی پھٹی نگاہیں لیے اسکے سامنے بیٹھی تھی۔۔ اس کے چہرے پر بےیقینی کی سی کیفیت تھی۔ اسکے چہرے کی ذردی بڑھ گئی تھی۔
” شادی۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔
”ایم سوری ایمانے۔۔۔!! میں شاید بتانا بھول گیا کہ میں کمیٹڈ تھا۔۔ میں اپنی فیانسی کے ساتھ وقت بتانے کے لیے ہی غائب ہوتا ہوں۔۔۔“
اور ایمان کو لگا تھا وہ مزید سانس نہیں لے پائے گی۔۔ دھوکا۔۔۔ ایک اور دھوکا۔۔۔ دوستی کے نام پر اسے دھوکا ہی دیتے آئے تھے لوگ۔
”اپنی دوست سے کہو وہ میرے ٹائپ کی نہیں ہے۔۔ جس سے نکاح ہوا ہے اسکے ساتھ خوش رہے۔۔“ اس نے آگے ہو کر اپنے ہاتھ سے ایمان کے سر کو چھوا۔ وہ اب تک بےیقینی کی سی کیفیت میں بیٹھی تھی۔
”اور ہاں میں تمہیں آج ہیزل سے ملوانا چاہتا ہوں۔۔ وہ بھی تم سے مل کر خوش ہوگی۔۔۔“ اور پھر اس نے فون نکال کر ہیزل کا نمبر ملایا۔۔۔وہ باہر گاڑی میں اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔وہ فون پر کچھ کہہ رہا تھا جبکہ ایمان اسکے چہرے پر کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔۔ کہ وہ کتنا سچ بول رہا تھا۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد ایک نہایت حسین لـڑکی ان کی جانب بڑھتی دکھائی دی۔ وہ ہائی ویسٹ جینز اور اون کا کروپ ٹاپ پہنے ہوئے تھی۔۔ بال کھلے تھے۔۔ وہ حسین سے بھی حسین تھی۔۔
”ہائے ایمانے کیسی ہو؟؟“ وہ نرمی سے بولی۔
”عبدل نے جیسا بتایا تھا تم ویسی ہی ہو۔۔“ اس کی مسکان۔۔۔
ہاں اسی مسکان پر عبدل دل ہار گیا ہوگا۔۔۔
ہیزل نے عبدل کا ہاتھ تھام لیا۔۔ ایمان بس دیکھ رہی تھی اس کی سماعت بند ہوچکی تھی۔۔۔ وہ ایک دوسرے کے سنگ بہت مکمل لگ رہے تھے۔۔۔ وہ مسکرانا چاہتی تھی مسکرا نہ پائی۔
”مجھے اب جانا ہے۔۔“ وہ کچھ دیر بیٹھی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”اپنا سامان لے کر جانا۔۔۔“ عبدل نے ڈبے کی جانب اشارہ کیا۔۔ وہ ایسا ہی تھا ہمیشہ اس کے دکھی ہونے پر کچھ نہ کچھ کرکے اسے خوش کرتا تھا کوئی گفٹ لاتا تھا اور اس بار اس نے من پسند گفٹ دے کر اسے دکھی کر دیا تھا۔
ایمان نے سر ہاں میں ہلاتے ڈبہ اٹھا لیا۔۔ وہ وہاں سے پلٹ گئی۔۔ عبدل اور ہیزل کی نگاہیں اس پر ہی جمی تھیں۔۔۔
وہ دو چار قدم چل کر رکی اور پلٹ کر عبدل کو دیکھا۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔ ہزاروں شکوے تھے جو وہ عبدل سے کرنا چاہتی تھی پر کر نہ پائی۔ وہ تو اسے باقیوں سے الگ سمجھتی تھی۔
”ہمیشہ خوش رہو!“ وہ تیزی سے کہتی پلٹ گئی۔۔۔ وہ چلی گئی تھی۔۔ اور عبدل کو اپنے اندر خالی پن اترتا محسوس ہوا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔