Maseel novel episode 21 by noor rajput

maseel novel episode 21
sulphite 02

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا)

”یہ پاگل ہوگئے ہیں ان کا دماغ الٹ ہوگیا ہے۔۔“ ایمان اپنا فون دیکھ کر بڑبڑائی۔ جبکہ ماثیل کو لگا اسکی بڑی مشکل آسان ہوگئی ہو۔۔
”میں نے پہلے ہی کہا تھا روز سے۔۔ یہ انسان پاگل ہے۔۔۔“ ایمان جھنجھلاگئی۔ ”جدھر جانا ہے جائے بھئی۔۔ مجھے کیوں تنگ کر رہا ہے۔۔“ اس نے فون سائیڈ پر پھینکا اور اپنے لیپ ٹاپ پر فوکس کرنے کی کوشش کی۔۔ لیکن اس کے دماغ میں ماثیل کی باتیں گردش کرنے لگی تھیں۔
”دیکھنا تم لوگ۔۔۔ اسے اپنی ضد چھوڑنی پڑے گی۔۔“ وہ اپنے مجسموں کی جانب دیکھتا انہیں یقین دلانے لگا۔ اسٹوڈیو میں سرگوشیاں سی پھیل گئیں۔
”اگر اُس نے اجازت دے دی تو؟؟“
”اگر اُس نے نہ دی؟؟“
” کیا ماثیل کسی اور لڑکی کے پاس جا سکتا ہے؟؟“
”اگر وہ چلا گیا تو۔۔۔؟؟“
مجسموں میں بحث چھڑ گئی تھی جبکہ ماثیل سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسٹوڈیو سے باہر نکل گیا۔
✿••✿••✿••✿
عبدل اس وقت ریساہال کے باہر کھڑا ایمان کا انتظار کر رہا تھا۔۔ سب یہاں اب عبدل کو ستائشی نظروں سے دیکھتے تھے پر کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ عبدل کے پاس جائے۔۔۔
وہ آج بھی ویسا ہی منہ پھٹ تھا۔ ویسا ہی بد دماغ اور بدتمیز۔۔۔ عبدل نے جیسا ہی کائنات کو ایمان کے ساتھ دیکھا وہ چونک کر سیدھا ہوا اور تعجب سے ایمان کو دیکھنے لگا۔۔۔ اسے اس وقت ایمان کے ساتھ کائنات کی توقع نہیں تھی۔ اس نے آگے پیچھے پلٹ کر چاروں جانب دیکھا۔۔ وہاں کوئی اور کسی کا منتظر نہیں آیا۔۔
وہ دونوں قدم قدم چلتے اُسکے قریب آئیں۔
”ہائے عبدل۔۔ ان سے ملو یہ کائنات ہے۔۔“ اس نے مسکرا کر کائنات کو عبدل سے ملوایا۔
”آئی نو ہر۔۔ یہ میری کلاس فیلو ہے۔۔“ یہ سن کر ایمان نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے پہلے عبدل کو اور پھر کائنات کو دیکھا۔۔ وہ نقاب میں ملبوس کائنات کے چہرے کے تاثرت نہ دیکھ پائی۔ کائنات نے کبھی اسے نہیں بتایا تھا کہ عبدل اس کا کلاس فیلو ہے وہ ہمیشہ اس سے ایسے ہی عبدل کے بارے میں پوچھتی تھی جیسے وہ اسے بالکل نہ جانتی ہو۔
”آ۔۔ آپ۔۔ مجھے جانتے ہیں؟؟“ وہ براہ راست عبدل سے مخاطب ہوئی۔
”آپ کو کون نہیں جانتا ہوگا مس کائنات ملک۔۔۔ ایک ہی لڑکی پورے ڈیپارٹمنٹ تو کیا پوری یونیورسٹی میں ایسی ہے جو پردہ کرتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے لوگ آپ کو جانتے ہی ہیں۔۔“ اس نے پہلی بار عبدل کو خود سے مخاطب پایا تھا۔ کائنات حیران تھی۔۔ جبکہ ایمان کو ان دونوں پر غصہ آرہا تھا۔۔نہ عبدل نے کبھی ذکر کیا تھا نہ ہی کائنات نے۔۔ اور وہ آسانی سے بےوقوف بن گئی تھی۔
”تم اسے کیوں ساتھ لائی ہو ایمانے۔۔ تم جانتی ہو میں اچھی لڑکیوں سے دور رہتا ہوں۔۔؟؟“ وہ چلنے لگے تو عبدل نے جھکتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔ایمان درمیان میں تھی اس کی ایک جانب عبدل تھا اور دوسری جانب کائنات۔۔
”اسی لیے لائی ہوں۔۔“ وہ شرارت سے مسکرائی۔۔ کائنات باآسانی دونوں کی سرگوشیاں سن رہی تھی لیکن وہ خاموشی سے چلتی رہی۔
”میں پہلے بتارہا ہوں میں کسی کا بل پے نہیں کروں گا۔۔ سب کو اپنا اپنا خود پے کرنا ہوگا۔۔“ وہ تیزی سے دو قدم چلتا ان کے سامنے آیا اور الٹے قدموں چلتا ہاتھ اٹھا کر زور سے اعلان کیا۔
”تو ٹھیک ہے ہم واپس چلے جاتے ہیں۔۔“ ایمان رک گئی۔ اس نے کائنات کا ہاتھ پکـڑا اور واپس مڑنا چاہا ہی تھا جب کائنات گویا ہوئی۔
”آپ کو پتہ ہے آج ایمان بہت خوش ہے اس کا اکیڈمی میں ایڈمیشن ہوا ہے۔۔ اس نے سکالرشپ حاصل کی ہے۔۔“ ایمان نے گھور کر اسے دیکھا۔۔
”میرے خیال سے آج کی کافی تم پلارہی ہو۔۔“ کائنات اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔ جبکہ ایمان اسکے یوں ٹیم بدل لینے پر حیران ہوئی۔
”واؤ۔۔۔“ عبدل کے منہ سے بےاختیار پھسلا۔۔۔۔۔
“ایمانے کو میں اتنے سستے میں جانے نہیں دے سکتا۔۔ کافی کا بل سب خود پے کریں گے اپنا اپنا اور ایمانے تم سے میں ہیوی ٹریٹ لوں گا جب میرا دل کرے گا۔۔“ وہ سڑک کے درمیان کھڑا اسے اپنا فیصلہ سنا رہا تھا۔۔ کائنات نے پہلی بار عبدل کو اتنا زیادہ اور اتنی تمیز سے بولتے سنا تھا۔
”میں کائنات کا بل پے کردوں گی تم اپنا خود دو گے۔۔“ وہ پھر سے چل پڑی۔۔۔اب ایمان کی بجائے کائنات نے اسکا ہاتھ تھام رکھا۔۔ اسکی گرفت تیز تھی۔۔ پر ایمان اسکی لرزش محسوس نہ کر پائی۔
”یہ چیٹنگ ہے۔۔“ وہ احتجاجاً چلایا۔۔
”تو ٹھیک ہے ہم واپس چلے جاتے ہیں۔۔“ وہ پھر سے رک گئی۔صاف ظاہر تھا۔۔ وہ عبدل کو تنگ کرنے کا پکا ارادہ کرکے آئی تھی۔
”اوکے اوکے۔۔۔“ اس نے ہاتھ کھڑے کردیے۔۔۔ وہ ایمان سے کہاں جیت سکتا تھا۔۔ ایمان کے کندھے چوڑے ہوگئے۔۔ اس نے فخریہ مسکراہٹ سے کائنات کو دیکھا۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرادی۔
کون جانتا تھا کہ ایم فل اور ماسٹرز کرنے والے اسٹوڈنٹس جو بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے رات کے اس پہر کافی پینے جارہے تھے، آج کی رات ان کی زندگی میں کونسا نیا باب لانے والی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”میرا دل کر رہا ہے میں اس ماثیل کا گلا دبادوں۔۔ سیریسلی۔۔ اسے لگتا ہے مجھے فرق پڑے گا وہ کیا کرتا پھرتا ہے کیا نہیں۔۔“ وہ لاؤنج میں تیزی سے آگے پیچھے چکر کاٹ رہی تھی۔۔ اس وقت ایمان کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔ بےبی پنک کلر کا نائٹ سوٹ پہنے وہ الجھے ہوئے بال لیے خود بھی الجھی ہوئی تھی۔۔ وہ خفا خفا سی روز کو بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اسکی شرٹ پر پانڈہ بنا تھا۔۔ وہ تھک کر کمر پر ہاتھ کر کھڑی ہوجاتی بڑبڑانے لگتی اور پھر چکر کاٹنے لگ جاتی۔ جبکہ روز صوفے پالتی مارے بیٹھی، پرشوق نگاہوں سے ایمان کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔ واقعی اگر ماثیل اس وقت اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کا گلا دبا کر مار ڈالتی۔
”اسے لگتا ہے وہ آزاد ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے تو کرے نا۔۔ مجھے کیوں گنہگار بنا رہا ہے۔۔“ اس کے چکر رک ہی نہیں رہے تھے۔
”میں بتارہی ہوں اگر مجھے ایک قتل جائز ہوتا میں اس ماثیل کو سب سے پہلے دنیا سے اڑاتی۔۔۔“
روز اس کے غصے پر زیرلب مسکرائی۔۔ وہ کب سے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کیے جارہی تھی۔
”ہی از سو۔۔۔ سو۔۔۔“ اسے کہنے کو الفاظ نہ ملے وہ رک گئی۔
”وہ مرتا ہے تم پر۔۔۔“ بالآخر روز بول پڑی۔۔۔ الفاظ ایسے تھے کہ ایمان کی بلاوجہ سے ہی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ رک گئی۔ چہرے پر سرخ رنگ آکر گزر گیا۔
”ہاں تو مرجائے نا۔۔ مجھے کیوں پریشان کیا ہوا ہے۔۔“ وہ اب چہرے پر دونوں ہاتھ رکھتی خود کو ریلیکس کرنے لگی۔
”مر تو گیا ہے اور کیسے مرا جاتا ہے؟؟ ایک شخص جس نے اپنا سب کچھ تمہارے قدموں میں رکھ دیا ہو ، جسے تم نے ٹھکرا دیا، وہ آزاد ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ تمہارے پاس آیا ہے تم سے اجازت مانگنے۔۔۔ اسکی سچائی کا اس سے بڑا اعتراف کیا ہوگا۔۔؟؟“ روز ناچاہتے ہوئے بھی ماثیل کی محبت کو نظرانداز نہیں کر پاتی تھی۔
”لیکن مجھے نہیں بنانا کسی کو اپنا قیدی۔۔“ وہ تھک کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
”بھئی میں تو چلی سونے۔۔۔رات کا ایک بج چکا ہے۔۔ مجھے آئی ہے نیند۔۔ تم سوچو اور سوچو۔۔ کہ کیا کرنا ہے۔۔“ روز انگڑائی لیتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ ابھی تک اپنی ہنسی چھپائے بیٹھی تھی۔ ایمان کی نظروں نے کمرے تک اس کا پیچھا کیا۔
”گڈ نائٹ سویٹ ڈریمز۔۔۔“ روز نے شرارت سے کہتے دروازہ بند کرلیا۔۔۔ اور تبھی ایمان کو ماثیل کا میسج ملا۔
”میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔“ وہ میسج پڑھتے ہی غصے سے اٹھی اور صوفے کو زوردار ٹھوکر ماری۔ اور پھر غصے سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔اندر داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ زور سے دے مارا۔ یہ غصے کا واضح اظہا تھا جو اس نے پہلی بار ایسے کیا تھا۔ آواز سن کر روز نے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔ لاؤنج خالی تھا۔۔ اور اسکا ہنسی کا فوارہ ابھرا۔۔ وہ کتنی دیر ہنستی رہی۔۔ اسے ایمان کی حالت لطف دے رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”آپ مت جائیں۔۔۔“ رات کے تین بجے ماثیل کو اسکا میسج ملا تھا۔۔۔ اس کے لبوں پر دلکش مسکان ابھری۔۔۔ یوں لگا جیسے سارے زخم بھر گئے ہوں۔۔ سارے زخم مندمل ہوگئے ہوں۔۔۔ جیسے کبھی کوئی دکھ آیا ہی نہ ہو۔ وہ خود بھی جاگ رہا تھا۔۔ وہ کیسے سو سکتا تھا؟؟؟ اسے ایمان کے جواب کا شدت سے انتظار تھا۔۔
خوشی کیسی ہوتی ہے یہ آج کافی سالوں بعد اس نے محسوس کی تھی۔۔ اپنے من چاہے انسان کی طرف سے ملا ایک حکم! وہ اس حکم پر سب کچھ اس لڑکی کے قدموں میں رکھ سکتا تھا۔
”اور بدلے میں مجھے کیا ملے گا۔۔؟؟“ اس نے تیزی سے ٹائپ کیا۔۔ شدت جذبات سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
”اب کیا میری جان چاہیے۔۔؟؟“ ماثیل کے تصور میں اس کا غصے سے سرخ چہرہ ابھرا۔
”مل جاتی تو اچھا تھا۔۔ لیکن بس ایک کپ چائے۔۔“ کتنا ڈھیٹ تھا وہ۔۔
”میں مصروف ہوں آج کل ہوں۔۔۔“ وہ جانتا تھا کچھ ایسا ہی جواب آئے گا۔
”تو جس نے مجھے بلایا ہے میں وہاں چلا جاتا ہوں یقیناً وہ چائے تو پلا ہی دے گی۔۔“
”تو جائیں نا۔۔ دیر کس بات کی ہے۔۔“ وہ پھر سے اکڑ گئی۔
”لیکن پھر میں سوچتا ہوں میری وجہ سے تمہارا خدا تم سے ناراض ہوگیا تو؟؟“ وہ مشکل سے ہاتھ آئی تھی۔۔ ماثیل جیسے سارے بدلے لینے کے موڈ میں تھا۔
”آپ نے اجازت چاہی میں نے منع کردیا۔۔۔ مزید میں کچھ نہیں کر سکتی مسٹر ماثیل۔۔۔“
وہ بنا کوئی جواب دیے لیٹ گیا۔۔۔ وہ اسے مزید بےچین کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا ایمان اسے سوچے۔۔۔اسے توجہ دے۔۔۔ وہ اسے لے کر بےچین ہو۔۔
اتنے دنوں میں اسے ایک بار بھی شنایا کا خیال نہیں آیا تھا۔۔۔بھلا محبوب سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور انسان عزیز ہوا ہے کبھی؟؟ ناں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔
✿••✿••✿••✿
”میں نے سنا ہے آپ اچھی لڑکیوں سے دور رہتے ہیں اگر آپ کو کبھی کسی اچھی لڑکی سے محبت ہوگئی تو؟؟“
کائنات نے پہلی بار عبدل سے کوئی سوال کیا تھا۔۔ ایمان نے فوراً عبدل کو دیکھا۔
”اب میں اتنا بھی اچھا نہیں کہ اچھی لـڑکی چنوں۔۔۔ ویسے بھی فضول دماغ خراب کرکے رکھتی ہیں۔۔۔بڑی کمپلیکیٹڈ ہوتی ہیں۔۔“
اس نے سہولت سے جواب دیا۔۔ وہ تینوں مین اسٹریٹ کیفے پر بیٹھے کافی پی رہے تھے۔۔ وہ دونوں ایک جانب بیٹھی تھیں جبکہ عبدل میز کی دوسری جانب۔۔
”پھر بھی ہوگئی تو۔۔ کسی ایمانے سے۔۔ یا کسی کائنات سے۔۔۔ کیا کریں گے آپ؟؟“ وہ بضد تھی۔ اس بار وہ سیدھا ہوبیٹھا۔۔ اسکی گرے آنکھوں میں الجھن سی تھی۔
”عبدل اتنا کمزور نہیں کہ اپنے جذبات اور اپنے دماغ پر قابو نہ رکھ پائے۔۔۔ کیسے بھی حالات ہوں۔۔ میں کسی اچھی لڑکی کو نہیں چنوں گا۔۔۔“ لہجہ حددرجہ مضبوط تھا۔۔ ایمان دلچسپی سے اسے سن رہی تھی۔ اس نے کان سے ایک بالی نکال دی تھی۔۔۔اسکے ایک کان میں بالی تھی۔۔۔وہ ہڈی پہنے بیٹھا تھا۔۔ تاکہ اس کاچہرہ صاف ظاہر نہ ہو۔
”اچھی لڑکیوں سے کوئی خاص دشمنی ہے کیا؟؟“ وہ پھر سے پوچھنے لگی۔ جبکہ ایمان کبھی کائنات تو کبھی عبدل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اسکے لیے یہ گفتگو دلچسپ تھی۔
”نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔ اچھی لڑکیوں کے پیچھے انسان بہت خوار ہوتا ہے جو میں ہو نہیں سکتا۔۔۔“ وہ ہنس دیا۔
”اور اگر کسی اچھی لڑکی کو آپ سے محبت ہوگئی تو۔۔؟؟؟“ سوال ایسا تھا کہ عبدل چونک گیا۔۔ اس نے پہلی بار کائنات کو دیکھا۔۔ وہ بڑا کھلا سا اوور کوٹ پہنے ہوئی تھی۔۔۔ اسکے ہاتھ اور چہرہ نقاب میں چھپا تھا۔۔ وہ دونوں ایک جیسے حلیے میں تھیں بس ایمان نے نقاب نہیں کیا۔
”ضرور اس اچھی لڑکی کی آنکھیں خراب ہوں گی۔۔“ وہ ہنس دیا۔۔طنزیہ ہنسی۔
”میں ابھی بھی اپنے سوال پر قائم ہوں۔۔۔“
ایک گہری خاموشی چھاگئی۔۔۔دونوں کی نظریں ایک پل کو ٹکرائیں۔۔۔پھر عبدل رخ بدل گیا۔
”یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔ لیکن پھر بھی میں اس اچھی لڑکی سے کہوں گا کہ میرا جیسا فالن اینجل اس کے لائق نہیں۔۔۔“ وہ نرمی سے مسکرایا۔ ایمان نے اس کے چہرے پر بہت سارے رنگوں کو دیکھا۔
”اگر وہ لڑکی چاہ کر بھی خود پر ضبط نہ رکھ پائے تو؟؟“ جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔ پھر سے گہری خاموشی چھا گئی۔
”اسکا جواب ایمانے دے گی۔۔“ وہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔۔ ایمان جو دلچسپی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی گڑبڑا گئی۔
”مجھے کیا پتہ۔۔۔میں کونسا عبدل ہوں۔۔ اور مجھ سے کسی اچھی لڑکی کو کونسا محبت ہوئی ہے۔۔“ وہ ہڑبڑاہٹ میں الٹا ہی بول گئی۔۔ عبدل اسکی بات سن کر مسکرا دیا۔
”تم ایمانے ہی ٹھیک ہو۔۔۔ تمہیں عبدل بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“ کائنات نے دیکھا تھا وہ اسے کسی چھوٹی بچی کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔ وہ ایمان کے ساتھ کوئی اور ہی عبدل ہوتا تھا۔۔ یہ وہ عبدل نہیں تھا جو مہینوں بعد بھی کلاس میں آتا تو ہنگامہ مچا دیتا تھا۔۔
اس سے پہلے کوئی کچھ بولتا کائنات کو اپنے کوٹ کی جیب میں رکھے فون کی تھرتھڑاہٹ محسوس ہونے لگی۔۔ اس نے فون نکالا اور ایکسکیوز کرکے اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد عبدل نے کھاجانے والی نظروں سے ایمان کو دیکھا۔
”اسے اپنے ساتھ لانے سے پہلے تمہیں مجھ سے پوچھنا چاہیے ایمانے۔۔۔“ وہ خفا ہوا۔
”وہ اچھی لڑکی ہے۔۔ تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔۔ “ اور عبدل کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔ جبکہ ایمان اسکی حالت پر کھلکھلا کر ہنس دی۔
✿••✿••✿••✿
چوبیس گھنٹے ختم ہونے میں کچھ ہی وقت باقی رہ گیا تھا۔۔۔ ایمان نے تقریباً ہر گھنٹے بعد ماثیل کو میسج کیا تھا کہ آپ گئے تو نہیں۔۔؟؟
اس کی نازک جان پر جو بنی ہوئی تھی یہ صرف وہ جانتی تھی۔ اور ماثیل کا آگے سے یہی جواب تھا کہ ”کسی کی چائے کی آفر کا انتظار کر رہا ہوں۔۔“
اسے ایمان کا بار بار پوچھنا اچھا لگ رہا تھا۔۔وہ چاہتا تھا ایمان اسکی ہمیشہ ایسے ہی فکر کرتی رہے۔
”تھینک گاڈ کسی حوالے سے ہی سہی۔۔۔پھر تم نے مجھے یاد تو رکھا۔۔“ وہ سیٹی بجاتا پول کے گرد واک کر رہا تھا۔۔ اسکے سامنے ہی وہ پتھر کا بینچ تھا جہاں ایمان اکـثر بیٹھتی تھی۔۔ وہ کافی دنوں بعد انسٹیٹیوٹ والی سائیڈ پر آیا تھا۔
اسے یک دم ہی اپنی دنیا خوبصورت لگنے لگی تھی۔۔۔
اور پھر تئیس گھنٹے اور پچاس منٹ بعد ایمان کا اسے فون آیا۔۔۔ وہ ساکت رہ گیا۔۔دل جیسے رک گیا ہو۔۔۔
یوں نے فون اٹھایا تو ایمان کی آواز ابھری۔
”میرے پاس جب ٹائم ہوگا میں آپ کو چائے پلادوں گی۔۔۔مگر آج آپ کہیں نہیں جارہے۔۔ اور ہاں یہ پہلی اور آخری بار تھا۔۔ آئندہ کہیں جانا ہو تو مجھے پوچھیے یا بتائیے گا مت۔۔۔جو دل میں آئے وہ کریں آپ۔۔“ وہ اسکا جواب سنے بنا ٹک سے فون کردیا۔۔ ٹوں ٹوں کی آواز گونجتی رہی۔۔
آج کتنے دنوں بعد اس نے ایمان کی آواز سنی تھی۔۔۔ وہ پورے دل سے مسکرادیا۔
تیرا ہونا دواء جیسا۔۔
ساری تکلیفیں فضول ہوں جیسے!
✿••✿••✿••✿
واپسی کا پورا راستہ کائنات خاموش رہی تھی۔۔۔ایمان نے عبدل سے پوچھا تھا کہ اس نے آگے میوزک کا کیا سوچا ہے جبکہ عبدل پروفیشنل سنگر بننے میں ابھی انٹرسٹد نہیں تھا۔۔
وہ تینوں آہستہ آہستہ چلتے ریسا ہال کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔ ایمان ابھی بھی درمیان میں تھی۔ وہ دونوں اسکی دونوں جانب تھے۔
ایمان اب جلدی ہاسٹل پہنچنا چاہتی تھی۔۔ اسے حمیزہ کا میسج آیا تھا۔۔ سلمی بیگم نے کوئی ضروری بات کرنی تھی۔۔۔ میسجز بار بار آرہے تھے اور پھر سلمی بیگم کی کال آگئی۔۔ وہ فون لے کر سائیڈ پر ہوگئی۔
”خیریت ہے نا امی؟؟ سب ٹھیک ہے نا؟؟“ وہ تھوڑا پریشان ہوگئی تھی۔
”کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے“۔۔۔سلمی بیگم کی بھرائی آواز سنائی دی۔
”کک۔۔کیا ہوا ہے؟؟ آپکی طبیعت ٹھیک ہے نا۔۔؟؟“ ایمان کی دھڑکن تیز ہوئی۔۔ اسے اپنا گلا اپنے ہونٹ خشکی کی نظر ہوتے محسوس ہوئے۔۔ وہ کسی صورت سلمی بیگم کی آنکھ میں آنسوں نہیں دیکھ پاتی تھی۔
”تمہارے ماموں نے ساری زمین، سارے پیسے واپس لے لیے ہیں۔۔ جو ابا نے تمہارے لیے دیے تھے۔۔ تمہارے ماموں کہہ رہے ہیں تمہیں واپس بلایا جائے۔۔ یہ سب تمہیں اسی صورت مل سکتا ہے جب تم واپس آکر ان کے پسند کے لڑکے سے نکاح کرتی ہو۔۔۔“
پیروں نیچے سے زمین کیسے نکلتی ہے یہ ایمان نے واضح محسوس کیا تھا۔۔ اس نے گھبرا کر عبدل اور کائنات کو دیکھا۔۔ وہ دونوں شاید اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ سالوں پہلے اس کے ماموں نے اپنے کسی جاننے والوں کے ایک لڑکے سے ایمان کا رشتہ پکا کر دیا تھا۔۔۔بنا اس سے اور سلمی بیگم سے پوچھے۔۔ سلمی بیگم اپنے بھائی کو انکار نہ کر پائی جبکہ ایمان خاموش سے سب دیکھتی رہی۔۔۔وہ اپنی ماں کو دکھ نہیں دے سکتی تھی پر وہ کسی کو کیا بتاتی کہ وہ کیسا محسوس کرتی تھی۔۔
سلمی بیگم نے اسکے ویلینسا آنے پر کہا تھا کہ اسکے پاس صرف تین سال تھے۔۔۔اور ایمان کو لگتا تھا اسی زندگی ہی بس تین سالوں کی بچی تھی۔ وہ تین سال جینا چاہتی تھی۔۔پر ابھی تو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔۔ اور اسے موت کا پیغام سنایا جا رہا تھا۔
”میں کیسے واپس آجاؤں امی؟؟ میں یہاں پڑھنے آئی ہوں۔۔ میں نے کبھی کسی بات سے انکار نہیں کیا۔۔ پر میں پڑھنے آئی ہوں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی۔۔۔۔اور ماموں کو سمجھنا چاہیے۔۔۔“ وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتے بولی۔
”انکا ماننا ہے کہ لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر وہ نہیں رہتیں جو وہ پہلے ہوتی ہیں۔۔۔اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اصولاً ابا جی کی زمین پر بھی انہی کا حق ہے۔۔ بس وہ چاہتے ہیں تم آکر نکاح کرلو اور پھر واپس جا سکتی ہو۔۔ اپنی پڑھائی پوری کر سکتی ہو۔۔۔“ یہ تو بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایمان اپنی گردن کٹوا لیتی پر اسکی سانسیں چلتی رہتیں۔۔ اور وہ کٹی گردن کو لٹکائے پھرتی رہتی۔
اسکا دل دکھا تھا۔۔ سب کچھ اسکے ماموں رکھ چکے تھے۔۔ نانا ابو اسی لیے مرنے سے پہلے زمین کا بٹوارہ کر گئے تھے پر وہ نہیں جانتے تھے ان کے مرنے کے بعد ایسا ہوگا۔۔۔
ایمان نے اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس کی۔۔۔اس نے عبدل اور کائنات کو دیکھنا چاہا پر دونوں کا وجود دھندلا گیا۔۔
وہ کیسے بھول گئی تھی یہ اس کی دنیا نہیں تھی۔۔ وہ تو بھٹک کر یہاں آگئی تھی۔۔ وہ کیسے بھول گئی تھی۔۔۔ رات بارہ بجے سارے جادوم دم توڑ جاتے ہیں۔۔۔ اسکا دل کیا وہ چیخے۔۔ وہ چلائے۔۔۔۔ پر وہ سب کچھ اپنے اندر ہی دفن کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
”آپ ماموں کو سمجھائیں نا امی۔۔۔میں ابھی اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں۔۔۔“ اس نے آخری التجا کی۔
”میں نے کوشش کی ہے۔۔۔پر تمہارے ماموں ناراض ہوگئے ہیں اور میں اپنے بھائی کی ناراضی مول نہیں لے سکتی۔۔۔ تم جانتی ہو۔۔۔“ یوں لگا اسکی روح کھینچ لی گئی ہو۔۔ ایک سلمی بیگم ہی تھیں جو اسے ہمیشہ تکلیف سے بچاتی تھیں آج وہ بھی مجبور تھیں۔ ایمان کے لب کپکپا کر رہ گئے۔
”مم۔۔۔میں۔۔۔“ الفاظ دم توڑ گئے۔۔۔ اسے اپنی دنیا سیاہ ہوتی محسوس کی۔۔ کچھ لوگوں کو ہنسنا راس نہیں آتا تھا۔۔ عبدل اسے اشارہ کر رہا تھا کہ جلدی آؤ۔۔۔
”مجھے کچھ وقت دیں۔۔۔میں صبح تک بتاتی ہوں۔۔ امی میرے دوسرے سمیسٹر کے فائنل اگزامز بہت قریب ہیں۔ میں ابھی نہیں آپاؤں گی۔۔۔“
اگر کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے اور یہ سمجھے کہ بلی اسے کھائے گی نہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہوتی ہے۔۔۔ ایسے ہی ایمان نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں اور سوچا تھا سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔پر اس نے سوچا نہیں تھا کہ موت اتنی تیزی سے اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔
”تمہارا جو بھی فیصلہ ہو بس میرا سر مت جھکنے دینا۔۔۔“ فون بند ہوچکا تھا۔ اور ایمان کا نازک وجود ایک نہیں ہزار ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
یہ ایک لیب تھی۔۔۔بہت بڑی لیب۔۔۔ جہاں بہت سے جانور چھوٹے بڑے پنجروں میں قید تھے۔۔ اور بہت سارے ڈاکٹرز اور سائنٹسٹ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔
اسے آج بہت دنوں بعد لیب آنے کا موقع ملا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ڈاکٹر رابرٹ اسکی جانب بڑھا۔۔
”ویلکم ینگ مین! آج تو بہت دنوں بعد لیب آئے ہو۔۔۔“
”میں مصروف تھا۔۔۔“ وہ چاروں جانب دیکھتا سنجیدگی سے جواب دینے لگا۔۔ پچھلی بار کی نسبت اس بار جانوروں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی۔
”ہم کوئی بھی دوا تب ہی مارکیٹ میں لاتے ہیں جب تک سارے جانوروں پر تجربہ نہ کرلیں۔۔“ ڈاکٹر رابرٹ نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے بتایا۔
وہ خاموشی سے ہر چیز کو دیکھتا رہا۔۔۔ ڈاکٹر رابرٹ اپنی میز کی جانب بڑھ گئے جہاں جہاں چھوٹی فنل میں رکھے کیمیکلز کو وہ باری باری اٹھا کر اسے کچھ بتا رہے تھے۔
”یو نو واٹ۔۔۔ڈاکٹر جبیل کا تجربہ 99 فیصد کامیاب رہا تھا۔۔ وہ ویکسین اگر اس وقت بن کر مارکیٹ میں آجاتی تو ہم بہت سی جینیاتی بیماریوں سے نجات پالیتے۔۔۔“ رابرٹ مصروف سا اسے بتا رہا تھا۔
”کچھ بیماریوں کے علاج بیماری میں ہی چھپے ہوتے ہیں۔۔ جیسے ڈاکٹر جبیل نے ثابت کیا تھا کہ کسی خاص ٹرائیسومک انسان کے ڈی ان اے اور اسکے بلڈ سے ہم ٹرائیسومک بیماریوں کو دور کر سکتے ہیں اگر ہم وہ صحیح ویکسین بنا لیں۔۔۔لیکن افسوس!“ ڈاکٹر رابرٹ نے گہرہ سانس لیا۔
”ڈاکٹر جبیل جیسے زمین سے غائب ہی ہوگئے۔۔۔“
کسی نے انہیں سالوں سے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ کبھی جھوٹی افواہیں آتی تھیں اور کہا جاتا تھا انہیں مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں دیکھا گیا۔۔ پر وہ کسی کو نہیں ملا۔
وہ خاموشی سے سب سنتا رہا سب دیکھتا رہا۔۔ وہ جانتا تھا ٹرائسومک ہونا کیسا ہوتا ہے۔۔ اور جینیاتی بیماریوں کا وراثت میں ملنا کس قدر تکلیف ناک ہوتا ہے اسی لیے وہ اکـثر اس لیب میں آتا تھا۔۔ جہاں سے اسے کچھ بڑے سراغ چاہئیں تھے۔
✿••✿••✿••✿
وہ دونوں واپس آئیں تو بہت خاموشی تھیں۔۔ ایمان کے گلے میں کچھ اٹکا ہوا تھا۔۔۔ اسے اپنے سینے میں جلن کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔وہ سانس لینا چاہتی تھی پر لے نہیں پارہی تھی۔۔۔واپس آکر کائنات بھی خاموشی سے کمبل تان کر لیٹ گئی۔۔۔دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔۔
جبکہ وہ ایسے ہی بت بنے بیٹھی رہی۔۔۔اور سوچتی رہی کہ اب کیا ہوگا۔۔۔
وہ کبھی بےآواز رونے لگتی کبھی بیٹھ جاتی تو کبھی اٹھ کر پانی پیتی۔۔۔پھر جلن کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔
سلمی بیگم کی باتیں ابھی تک اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔۔
”کیا وہ یہ سب چھوڑ کر چلی جائے گی؟؟ کیا وہ کبھی ویلینسا نہیں آپائے گی۔۔ کیا اسکی بس یہی زندگی تھی۔۔۔اگر یہیں تک تھی تو اسے اللہ یہاں لایا ہی کیوں تھا؟؟“ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر رودی۔۔
نہیں چاہتی تھی کہ کائنات اٹھے اور اسے دیکھے۔۔ وہ سارے غم دنیا سے چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی دنیا اسے بےچاری سمجھے۔۔۔غموں کی ماری کہے۔ اس پر ترس کھائے۔
وہ تو کچھ بننے آئی تھی۔۔ پر اس کے خواب ایسے ہی ٹوٹ جاتے تھے۔۔۔اور ٹوڑنے والے کوئی غیر نہیں اس کے اپنے ہی ہوتے تھے۔۔
وہ یہی سوچتی رہی کہ اگر سلمی بیگم اپنے بھائی کا ساتھ دیتی ہیں تو اس کا کا کیا ہوگا۔۔۔ اگر وہ چلی جاتی اس کا نکاح ہوجاتا اور اس کا شوہر اسے واپس نہ آنے دیتا تو۔۔۔؟؟
”نہیں اللہ جی۔۔۔نہیں۔۔“ وہ تڑپ ہی تو اٹھی تھی اور پھر تین بجے اسے پینک اٹیک ہوا۔۔ اسکا سانس بند ہوگیا۔۔۔وہ گرتی پڑتی کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آئی۔۔۔ وہ باہر خون جما دینے والی ٹھنـڈ میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔
اس نے منہ کھول کر سانس لینا چاہا پر ناکام رہی۔۔۔وہ تیز تیز چلنے لگی۔۔۔ اس نے اپنے وجود کو شل ہوتے محسوس کیا۔۔ اس نے چاہا تھا کہ وہ پتھر کی بن جائے تاکہ کوئی درد کوئی تکلیف اسے محسوس ہی نہ ہو۔۔ پر وہ زیادہ چل نہیں پائی۔۔ اسکا جسم اسکا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔۔۔وہ پھر سے ٹھنڈے بینچ پر بیٹھ گئی۔۔
کبھی کبھی غموں کی رات لمبی ہوجاتی ہے۔۔ یوں جیسے جہنم کی آنت ہو۔۔۔ کوئی اگر اسے اس حالت میں دیکھتا تو سمجھتا کہ کبھی کبھی بیٹیاں اپنے ماں باپ کا سر اونچا رکھنے کی خاطر خود کس تکلیف سے گزرتی ہیں۔۔ اگر کوئی ماں باپ یہ دیکھ لے تو کبھی اپنے بچوں کو تکلیف نہ دے۔
وہ پورا گھنٹا اسی ٹھنڈ میں گھومتی رہی۔۔ اسکا سانس ابھی تک نارمل نہیں ہوا تھا۔۔۔البتہ اسکا جسم اکڑ گیا تھا۔۔ وہ کبھی رونے لگ جاتی تو کبھی آنسوں پونچھ لیتی۔۔ کبھی دعائیں مانگتی اور کبھی مایوس ہوجاتی۔۔ وہ مسلسل تکلیف میں تھی۔۔۔پھر وہ کمرے میں آگئی۔۔ ایک ہی حل تھا کہ وہ اپنے اللہ کے پاس جاتی اور جا کر اپنی تکلیف سناتی۔۔ اور اس نے یہی کیا۔۔۔ وضو کیا اور نفل ادا کرتے وقت وہ رو دی۔۔۔ بنا آواز۔۔ سسکیوں سے۔۔۔۔کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔ ہاں بس اللہ دیکھ لے۔۔ وہ تو دیکھ لے۔۔۔
اس نے بہت ساری دعائیں مانگی۔۔۔ اور پھر وہ بستر میں لیٹ گئی۔۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔۔ یوں جیسے اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔
اور پھر شاید نیند کو اس پر رحم آگیا۔۔۔جانے وہ کس وقت نیند کی وادی میں اتر گئی۔
✿••✿••✿••✿
اگلی صبح اسکی آنکھ گیارہ بجے کھلی۔۔۔وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔پہلا خیال یونیورسٹی کا آیا تھا۔۔ اس نے کبھی بلاوجہ چھٹی نہیں کی تھی۔۔ پر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کائنات بھی اپنے بستر پر بت بنے بیٹھی تھی۔۔۔یعنی وہ بھی نہیں گئی تھی۔
”کیا ہوا۔۔۔سب ٹھیک ہے نا؟؟“ اس نے کائنات کو یوں بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔۔۔اور اس کے پوچھنے کی دیر تھی کہ کائنات کو جیسے ہوش آیا۔۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔ اس نے جھٹکے سے ایمان کو دیکھا۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی سنہری آنکھیں جو سرخ انگارہ تھیں وہ آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔۔۔وہ تیزی سے اٹھ کر ایمان کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”مم۔۔۔میں نے بہت کوشش کی ایمان۔۔۔ پر۔۔ میں خود کو روک نہ پائی۔۔“ وہ بےطرح رو رہی تھی۔۔۔جبکہ ایمان تو بوکھلا ہی گئی تھی۔۔
”کوئی اسے بتائے میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔۔کوئی اسے بتائے اچھی لڑکیاں اپنے نکاح کے بعد کسی غیر مرد سے محبت نہیں کر سکتیں۔۔ “ وہ کیا بول رہی تھی ایمان کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
”جبکہ میں کسی اور کی منکوحہ ہونے کے باوجود خود پر کنٹرول نہ رکھ پائی۔۔ قسم لے لو۔۔ خدا کی قسم میں نے بہت کوشش کی۔۔۔پر۔۔۔میرا دل اسی کا نام لیتا ہے۔۔۔ کوئی اسے بتائے میں اس سے محبت کرتی ہوں۔۔“ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔ اس نے ایمان کے دونوں ہاتھ تھام رکھے تھے جیسے وہ اسے یقین دلانا چاہتی ہو۔۔۔اور ایمان کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔
محبت۔۔۔۔تو نامراد ہے!
محبت۔۔۔تو ایمان سے بےایمان کرنے والی ہے!


 

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post