Maseel novel episode 20 - sulphite 02

 

Maseel novel episode 20
Maseel episode 20

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا)
دعوت گناہ

اس نے سوچا تھا جب وہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے گی تو نانا ابو کی ساری رقم چکا دے گی۔۔۔ وہ رقم جو اس وقت وہ ایمان کی پڑھائی پر خرچ کر رہے تھے۔ وہ زمین جو نانا ابو نے سلمی بیگم کو دے دی تھی اس سے جو سالانہ پیسے آتے تھے وہ ایمان کی پڑھائی پر خرچ ہورہے تھے۔۔ ایمان کو لگتا تھا اللہ نے اس کے لیے راستے آسان کیے ہیں۔۔ نانا ابو کو اس کی مدد کے لیے اللہ نے بھیجا ہے۔۔ پر یہ سب کچھ وقت کے لیے تھا۔۔
نانا ابو بیمار پڑ گئے پھر بہت سادی دعائیں، دوائیں اور علاج کچھ کام نہ آیا۔۔۔
وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔۔ اور ایمان کو لگا جیسے اللہ کے بعد جو انسان اس کے سر پر تھا اسے اللہ نے واپس لے لیا ہو۔۔۔ اور وہ بھری دنیا میں پھر سے اکیلی رہ گئی۔۔
سلمی بیگم کی حالت بری تھی۔۔ ایمان پاکستان نہ جا سکی البتہ وہ ذہنی طور پر بری طرح پریشان تھی۔۔ وقت کیسے گزر رہا تھا کچھ پتہ نہ چلا۔۔
اسکے دو مہینے کائنات کے ساتھ اچھے گزرے تھے۔۔ اسے اب یشما کی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔۔ کچھ دن پہلے اس نے یشما کو ریسا ہال میں ہی دیکھا تھا۔۔ لیکن اسے فرق نہ پڑا۔۔ وہ جانتی تھی یشما یہاں سے جانے والی نہیں تھی۔۔ وہ اب اپنے کمرے میں اکیلے رہتی تھی۔
کائنات اور وہ اکثر صبح ایک ساتھ یونیورسٹی جاتیں، اسکے بعد کائنات اپنی اکیڈمی چلی جاتی۔۔ ایمان ابھی تک اکیڈمی کی فیس جوڑ نہیں پائی تھی۔۔ وہ گھر سے بہت مناسب سے پیسے لیتی تھی جس میں اس کا مہینہ ہی گزرتا تھا۔۔۔ وہ چاہتی تھی بس وقت کو پر لگے اور یہ اڑ جائے اسکی ڈگری پوری ہوجائے اور وہ جلدی سے کوئی جاب کرے۔۔ اب اس کا دل پڑھائی میں اس طرح نہیں لگتا تھا جیسے وہ چاہتی تھی پر اسے یہ وقت گزارنا تھا۔۔
کوئی پوچھتا ایمان سے وہ اپنی زندگی سے کتنی بےزار تھی۔۔ جو لوگ حد سے زیادہ سوچتے ہیں وہ کبھی خوش نہیں رہ پاتے۔۔ اور اس کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔
عبدل پچھلے دو مہینوں سے غائب تھا۔۔۔ اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔۔ ایک دن کائنات کے کہنے پر اس نے عبدل کا نمبر ملایا لیکن وہ بند جا رہا تھا۔۔ بڑے بڑے مشہور میوزک بینڈ اور پروڈیوسر اسے ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ کسی کو نہ ملا۔۔
”تمہیں ٹینشن نہیں ہوتی؟؟“ ایک دن کائنات نے اس سے پوچھ ہی لیا۔
”کیسی ٹینشن۔۔؟؟“
”یہی کہ عبدل کہاں غائب ہے۔۔۔ وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔۔؟؟“
”میرا عبدل سے ایسا کوئی خاص رشتہ نہیں ہے کہ مجھے اسکی اتنی فکر ہو۔۔ وہ اچھا ہے۔۔۔ بہت اچھا ہے پر وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔۔۔ جب اس کا دل ہوگا وہ واپس آجائے گا۔۔۔“ اس نے عام لہجے میں جواب دیا۔
”کیا واقعی؟؟ تمہارا اس سے ایسا کوئی بھی رشتہ نہیں۔۔؟؟“ وہ تھوڑا حیران ہوئی۔ ایمان نے تعجب سے اسے دیکھا۔
”ایسا کیوں لگا آپ کو کہ میرا اس سے کوئی خاص رشتہ ہے۔۔؟؟“
”جب وہ تمہارے آس پاس ہوتا ہے تو اسے کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔ میں جانتی ہوں تم ایسی نہیں ہو۔۔۔بس ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔کیونکہ پہلی بار عبدل نے کسی لڑکی کو اتنی اہمیت دی ہے۔۔ سب کو یہی لگتا ہے تم اور عبدل ایک ساتھ ہو۔۔۔“ یہ کائنات نے کیسا انکشاف کیا تھا۔۔ وہ بتا کر نظریں چرا گئی۔۔ پر ایمان کی نظریں اس پر ٹھہر گئیں۔ اسکے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔ کوئی اتنا بھی اچھا ہوتا۔۔ کوئی کتنا بھی پرواہ کر لیتا۔۔ پر وہ ایمان تھی۔۔ اسے بےایمان نہیں ہونا تھا۔۔
”مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عبدل یا باقی لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں البتہ میں جانتی ہوں کہ میرے دل میں کیا ہے۔۔۔ اور میں مطمئن ہوں۔۔“ وہ خود پر جلد قابو پاگئی۔۔۔ کائنات نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
”تمہیں پتہ ہے ایمان کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم مجھ سے زیادہ مضبوط ہو۔۔۔ تم کبھی بھی ڈگمگا نہیں سکتی۔۔۔“ جانے کیوں کائنات کی آنکھوں میں حزن اتر آیا۔۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ رہتی تھیں پر دونوں کبھی ایک دوسرے پر زیادہ نہیں کھلی تھیں۔۔ وہ ایک ساتھ مارکیٹ چلی جاتی تھیں کبھی کافی پینے۔۔ کبھی خریداری کرنے پر دونوں نے کبھی ذاتی بات چیت نہیں کی تھی حالانکہ دونوں بہت سارے موضوعات پر گھنٹوں باتیں کر لیتی تھیں۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔۔ میں تو ایک کمزور بےبس انسان ہوں۔۔ مجھے ڈگمگانے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ میں یہ تصور نہیں کر سکتی کہ اگر میں کبھی ڈگمگا گئی تو کیا اسکے بعد میں زندہ رہ پاؤں گی۔۔۔؟؟“ ایمان کی آنکھوں میں خوف اترا۔۔ یہ تصور ہی اسے ڈرا دیتا تھا۔
”اتنا مت ڈرا کرو۔۔ کیونکہ ہمارا ڈر اکـثر ہمارے اندر سے نکلتا ہے۔۔۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔۔“ کائنات پھیکا سا مسکرائی۔ اسکا ایم فل مکمل ہونے والا تھا۔۔ یہ آخری سمیسٹر تھا۔۔ اس کے بعد وہ واپس چلی جاتی۔۔ اور ایمان اکثر سوچتی تھی کائنات کے جانے کے بعد اس کے ساتھ کون ہوگا؟؟ لیکن بس دور دور تک اندھیرا دکھائی دیتا تھا۔۔ کوئی روشنی نہیں تھی۔۔ کوئی سایہ نہیں تھا۔ کوئی آہٹ نہیں تھی۔
✿••✿••✿••✿
”تم نے ایمان کے ساتھ کیا کیا؟؟“ شنایا دو دنوں سے ادھر ہی رہ رہی تھی وہ ماثیل کا پورا خیال رکھ رہی تھی۔۔ ابھی وہ بنا بتائے کہیں گیا پر جب وہ واپس آیا تو غصے سے لال پیلا ہوچکا تھا۔
”وہی جس کے وہ لائق ہے۔۔“ وہ جو سکون سے صوفے پر بیٹھی سیب کاٹ رہی تھی جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ماثیل کو کبھی کسی پر اتنا غصہ نہیں آیا تھا جتنا اس وقت اسے شنایا پر آرہا تھا۔ وہ غصے سے مٹھیاں بھنچتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔ شنایا اندر سے تھوڑا خوفزدہ ہوئی تھی لیکن وہ باہر سے مضبوط بنی رہی۔
”تمہاری دوستی مجھ تک ہے شنایا۔۔ اسے مجھ تک ہی رکھو۔۔ میں عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ورنہ تم سوچ بھی نہیں سکتی میں اس وقت کیسا محسوس کر رہا ہوں۔۔“ اس کی آنکھوں سے شعلے ابھر رہے تھے۔۔۔ جو شنایا کو جلا کر بھسم کرنا چاہتے تھے۔۔
آج ماثیل، صرف ایمان کی وجہ سے اس کے سامنے ایسے کھڑا تھا۔۔ وہ کیسے برداشت کرتی۔
”وہ تم سے محبت نہیں کرتی ہے۔۔ آخر تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتا۔۔۔“ وہ پوری وقت سے چلائی۔۔ اس کی برداشت جواب دے گئی تھی۔
”یہ تمہارا سر درد نہیں ہے شنایا۔۔۔ یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے تم اس سے دور رہو۔۔“ اس نے رخ پلٹ لیا۔۔ شنایا کے لفظوں نے اسے پھر سے تکلیف کے سمندر میں دھکیل دیا تھا۔
”جب رات کو تم موت کے منہ میں پہنچ گئے تھے تب تمہیں بچانے والی میں تھی وہ ایما نہیں۔۔۔اس نے سب کے سامنے تمہارا تماشہ بنادیا تم پھر بھی اس کے نام کی مالا جپ رہے ہو۔۔ وہ تمہیں اور تمہاری محبت کو ٹھکرا کر چلی گئی ہے ماثیل۔۔ تم جان بوجھ کر بےوقوف کیوں بن رہے ہو۔۔۔؟؟ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے تم نے اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھا کیا۔۔۔؟؟“ شنایا نے اسے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے اپنی جانب موڑا۔ اسکی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔۔ وہ بری نہیں تھی پر رقیب برا بنا دیتا ہے۔
”وہ مجھ سے محبت کرے گی۔۔۔ اسے کرنا پڑے گی۔۔“ وہ کتنا ضدی تھا یہ آج شنایا کو پتہ چلا تھا۔
”تمہیں چننا ہوگا۔۔۔ میں یا ایما۔۔۔ فیصلہ ابھی ہوگا۔۔۔“ اسے خود پر کتنا گھمنـڈ تھا۔ ماثیل نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو سر پر پٹی بندھے بیڈ پر لیٹے وجود کا سراپا اس کے تصور کے پردے پر لہرایا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں۔۔ سامنے شنایا تھی۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ پر شنایا کا دل لرز رہا تھا۔۔ کیا ہوگا اگر اس نے ایما کو چن لیا؟؟
نن۔۔نہیں۔۔۔ اسے خود پر بھروسہ تھا۔۔ وہ ماثیل کی اکلوتی دوست تھی۔
ماثیل نے اسکا بازو پکڑا۔۔۔ شنایا کی جان میں جان آئی۔۔۔لیکن اگلے ہی پل وہ اسے لے کر دروازے کی جانب بڑھا۔۔ اور پھر دروازہ کھول کر اسے باہر جانے کا اشارہ کیا۔
”تم جا سکتی ہو۔۔۔۔“ دل پر خنجر سے وار کرنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے یہ کوئی شنایا سے پوچھتا۔ وہ بےیقینی سے ماثیل کو دیکھتی رہی۔۔ لیکن وہ پھر سے رخ موڑ چکا تھا۔۔ وہ خود کو کیسے کنٹرول کر رہا تھا یہ وہ جانتا تھا۔۔۔ کیا بچا تھا شنایا کے پاس کچھ بھی نہیں۔۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھتے وہاں سے بھاگی۔۔ اس نے سوچا تھا وہ کبھی پلٹ کر نہیں آئے گی۔ اس کے جانے کے بعد ماثیل نے دروازہ بند کردیا۔۔ اور شکستہ قدموں سے صوفے کی جانب بڑھ گیا۔ سینے کی جلن بڑھتی جارہی تھی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اسکے دوسرے سیمسٹر کے مڈز بھی ختم ہوگئے تھے۔۔۔ وہ اس کے بعد یونیورسٹی کے کسی فنکشن کسی ایونٹ پر نہیں گئی۔۔۔ وہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتی تھی۔۔۔ڈھیروں کتابیں آس پاس پھیلائے وہ بس لکھنے میں مگن رہتی۔۔ عبدل تین مہینے بعد واپس آیا تھا۔۔ اسے دیکھ کر ایمان نے برا سا منہ بنایا۔ وہ اس وقت لیب میں تھی۔
”کیا ہوا ایمانے تم مجھ سے ناراض ہو؟؟“ وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگا۔
”ناراض ان سے ہوا جاتا ہے جن سے کوئی رشتہ ہو۔۔۔“ کتنا سرد لہجہ تھا اس کا عبدل چونکا۔ وہ پریکٹیکل کی نوٹ بک اوپن کیے کچھ نوٹ کر رہی تھی۔
”مطلب میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟؟“ عبدل نے سوال کیا۔
”کیا رشتہ ہے ہمارا؟؟“ وہ بلاوجہ ہی روڈ ہورہی تھی۔۔ اسے کائنات کی باتیں آج بھی یاد تھیں۔۔ اسے ڈر لگتا تھا کہ کہیں لوگ اسے غلط نہ سمجھیں۔۔
اففف یہ کردار کے اچھے لوگ۔۔۔ ہمیشہ ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔۔ اور وہ بھی اسی کنڈیشن میں تھی۔ اسی لیے وہ اب سوالیہ نگاہوں سے عبدل کی جانب تک رہی تھی۔ عبدل نے ان سیاہ آنکھوں میں سردپن محسوس کیا۔
”کچھ رشتوں کے نام نہیں ہوتے۔۔ کچھ رشتے احترام کے ہوتے ہیں ایمانے۔۔۔اور عبدل دل سے ایمانے کی قدر کرتا ہے۔۔ عبدل دل سے ایمانے کی اچھائی کا احترام کرتا ہے۔۔۔“ اس نے ایمان کی آنکھوں میں دیکھتے جواب دیا۔۔ ایمان کے سارے الفاظ اسکا ساتھ چھوڑ گئے۔
لیب میں موجود کچھ اسٹوڈنٹس انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔وہ اپنا سامان اٹھاتی کلاس سے باہر جانے لگی۔
”کہیں تم یہ تو نہیں سوچ رہی کہ عبدل کا دل آگیا ہے تم پر۔۔؟؟ اگر ایسا سوچ رہی ہو تو تم بےوقوف ہو۔۔۔۔“ اس نے قہقہہ لگایا۔۔۔انداز سراسر مزاق اڑانے والا تھا۔۔ وہ خفا ہوگئی۔۔ اس نے عبدل کو گھورا۔ عبدل نے اس کے گھورنے پر سر سے پاؤں تک اسے دیکھا۔
”نن۔۔ناں۔۔ تم میرے ٹائپ کی نہیں ہو۔۔“ وہ ناک سکوڑتے بولا۔
”ویسے بھی میں اچھی لڑکیوں سے دور رہتا ہوں۔۔“
”کیوں۔۔۔؟؟“ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
”بھئی خدا سے یہ خاص کمٹمنٹ کرکے آتی ہیں۔۔ ان کی بد دعا گولی سے بھی تیز لگتی ہے۔۔ جانتی ہو نا ہانی کی بددعا نے آرجے کو تباہ کر دیا تھا۔۔۔“ وہ بولتے بولتے آخر میں سنجیدہ ہوگیا۔ ہانی اور آرجے کے ذکر پر ایمان کی دھڑکن رکی۔
”تم انہیں کیسے جانتے ہو؟؟“ وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ جبکہ عبدل ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
”تم ویلنیسا کیوں آئی ہو؟؟“ الٹا سوال آیا۔
”پڑھنے۔۔۔“ یک لفظی جواب دیا۔
”وہ تم کہیں بھی جا سکتی تھی۔۔۔۔ پر ویلنیسا ہی کیوں۔۔؟؟“ وہ اب اسکی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔
”ایڈمیشن ہی مجھے یہاں ملا۔۔۔“ اس نے ایک اور جواب دیا۔۔ وہ اپنی بات پر قائم رہنا چاہتی تھی۔
”وہ تو تمہیں کہیں اور بھی مل جاتا۔۔ اگر تم کوشش کرتی۔۔ پھر ویلنسیا ہی کیوں؟؟“ اسکی سوئی اٹک چکی تھی۔ ایمان نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا۔
”جسے تم ڈھونڈنے آئی ہو نا۔۔ جس کی تلاش میں آئی ہو۔۔ جسے تم ایک بار ملنا چاہتی ہو۔۔ میں بھی اسی کے لیے آیا ہوں۔۔ میں بھی ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔۔ کچھ سوال ہیں جن کا مجھے جواب چاہیے۔۔۔“ اس کا اشارہ روحان جبیل کی طرف تھا۔۔ ایمان بےیقینی سے اسے دیکھتی رہی۔
کیا وہ سچ کہہ رہا تھا ؟؟ وہ کون سے جواب تھے جو اسے روحان جبیل سے چاہیے تھے۔۔۔ گلا خشک ہوا تو وہ چہرے کا رخ موڑ گئی۔
جب وہ پاکستان میں تھی تب اس نے اڑتی اڑتی ایک خبر سنی تھی کہ ڈاکٹر روحان جبیل کو ویلنیسا میں دیکھا گیا تھا اور وہ اسی امید پر یہاں آگئی۔۔۔۔۔۔ کتنی پاگل تھی وہ۔
اس نے ٹھیک کیا تھا یا غلط یہ آنے والا وقت بتانے والا تھا۔
فی الوقت تو اسے عبدل اور آرجے کے درمیان جو کنیکشن تھا اس نے الجھن میں ڈال دیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”وائے ڈونٹ یو لو می؟؟“ پورے ہفتے بعد ماثیل کا اسے میسج آیا تھا۔۔ اس نے پڑھ کر نظرانداز کردیا۔ وہ جانتی نہیں تھی یا پھر جان بوجھ کر انجان بن رہی تھی کہ ماثیل کس قرب سے گزر رہا تھا۔۔۔۔ کسی محبت کرنے والے کو ہی انکار کی تکلیف احساس ہوتا ہے۔۔۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس کے سر کا زخم اب ٹھیک ہوچکا تھا۔۔ اس دن وہ اکیلے ہی کلینک آئی تھی۔۔ اسکی پٹی آج اتر چکی تھی۔۔ ڈاکٹر نے ایک کریم دی تھی جو اسے زخم پر لگانی تھی۔۔
وہ واپس جانے کے لیے کلینک سے نکلی تو ماثیل اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔۔
اس نے اب تک اگلا کورس شروع نہیں کیا تھا۔۔۔پورا ایک ہفتہ اس نے ایمان سے دور رہنے کی بہت کوشش کی تھی پر وہ اسے ہر جگہ تو محسوس ہوتی تھی۔۔ وہ اسکے آفس میں جہاں بیٹھ کر وہ کام کرتی تھی کتنی بار گیا تھا۔۔ وہ اسکی خوشبو کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ اسے کبھی نماز پڑھتی دکھائی دیتی تو کبھی چائے پیتی۔۔ کبھی کسی اسٹوڈنٹ کے مسائل سنتی تو کبھی پول میں تیرتی بطخوں کی تصویریں بناتی۔۔ وہ انسٹیٹیوٹ سے تو آگئی تھی پر اپنا نقش چھوڑ آئی تھی۔۔۔
سارے مجسمے جیسے اسی کی باتیں کرتے تھے۔ وہ اسے دیکھ کر رک گئی۔
”ہائے۔۔ کیسی ہو؟؟“ وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا اس تک آیا۔
”الحمداللہ میں ٹھیک ہوں۔۔“ کتنا لیا دیا سا انداز تھا۔ وہ اب کلینک سے نکل کر پیدل ہی چل پڑی۔ اسے بس اسٹاپ تک پیدل ہی جانا تھا۔
”ہم بات تو کر ہی سکتے ہیں نا۔۔ جو بھی ہوا اسے بھول جاؤ۔۔ اس سب کے لیے ایم سوری۔۔ مجھے بنا پوچھے وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔“ وہ معذرت کرنے آیا تھا۔
”اٹس اوکے۔۔“ دل اس نے توڑا تھا۔ معافی اسے مانگنی تھی پر اس نے ماثیل کی معافی کو قبول کرلیا۔ وہ ظالم ایسی ہی تھی۔۔۔ اسی لیے وہ اس اسے پسند آئی تھی۔
”ہم چائے پی سکتے ہیں کہیں بیٹھ کر؟؟“ یہ سوال نہیں تھا عرض تھی۔۔ لیکن اس نے نہ سنی۔
”میں ذرا جلدی میں ہوں۔۔“ سرد سا جواب سن کر وہ خاموش ہوگیا لیکن اس کے ساتھ ہی چلتا رہا۔
”بس ایک سوال کا جواب جاننا چاہتا ہوں۔۔“ وہ رک گئی۔پلٹ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو جلدی پوچھیں۔
”مذہب کے علاوہ اور وہ کونسی وجہ ہے جو تمہیں مجھ سے دور رکھتی ہے؟؟ کیا تم کسی اور سے محبت کرتی ہو۔۔؟؟“
”میرے خیال سے مذہب کافی ہے۔۔۔اور جہاں تک بات ہے دوسرے سوال کی یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔۔ کب کہاں کس سے محبت ہوجائے میں خود بھی نہیں جانتی۔۔۔ اور اگر محبت ہو بھی گئی تو اسے خود تک ہی رکھوں گی۔۔“
اس نے صاف صاف جواب دیا۔
”یہ تو ظلم ہے نا۔۔۔“ ایمان اگر اس سے محبت کر بھی لیتی تو اسے نہ بتاتی۔۔افسوس!
”ہر انسان کی اپنی چوائس ہوتی ہے مسٹر ماثیل کہ وہ محبت کو کیسے اور کہا رکھتا ہے اپنی زندگی میں۔۔۔“
”سب سے زیادہ محبت کس سے کرتی ہو؟؟“ اگلا سوال حاضر تھا۔
”اپنی ماں سے۔۔۔“ جواب سچ تھا۔
”اور سب سے زیادہ نفرت۔۔۔؟؟“ وہ جلدی جلدی سب جان لینا چاہتا تھا۔
”اپنے باپ سے۔۔۔۔ اور اپنے خاندان کے سارے مردوں سے۔۔۔“
زہر ہی زہر گھلا تھا اسکے لہجے میں۔۔۔ وہ ساکت رہ گیا۔
کیا وہ کسی سے نفرت کر سکتی تھی؟؟؟ وہ بھی باپ جیسی ہستی سے۔۔ اسے اب احساس ہوا تھا۔۔۔ایمان اکثر اپنی ماں کا ذکر کرتی تھی پر اس نے کبھی اس کے منہ پاپا کا لفظ نہیں سنا تھا۔
”کوئی اپنے ڈیڈ سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟؟“ وہ ابھی تک حیران تھا۔۔۔ کیا تھی وہ لڑکی۔۔ پرت در پرت۔۔ تہہ در تہہ۔۔ جانے کتنے روپ تھے اسکے۔۔ جانے کتنی پرتیں تھیں جو ابھی کھلنی باقی تھیں۔
”بالکل ٹھیک کہا مسٹر ماثیل آپ نے۔۔۔کوئی اپنے باپ سے نفرت نہیں کر سکتا۔۔ پر مجھے پتہ ہی نہیں ہے کہ باپ کیسا ہوتا ہے۔۔۔ یہ رشتہ یہ احساس کیسا ہوتا ہے۔۔۔مم۔۔میں۔۔“ وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی شدت جذبات سے اسکی آواز کانپ اٹھی۔ ماثیل اسے بےیقینی سے دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے وجود میں واضح لرزش تھی۔۔۔ وہ کچھ لمحے کھڑی رہی اور پھر پلٹ گئی۔۔۔تیز تیز قدم اٹھاتی وہ اس سے دور جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کیلکولیٹر اوپن کیے حساب لگا رہی تھی۔۔ سارے ڈیوز اور مہینے کا خرچہ نکال کر اس نے باقی پیسے ٹوٹل کیے تو اب بھی اسکی قرآن اکیڈمی کی فیس پوری نہیں ہو پارہی تھی۔ فیس بالکل زیادہ نہیں تھی پر اس کے پاس بجٹ نہیں تھا۔۔اس نے پچھلے دو ماہ میں کوئی شاپنگ نہیں کی تھی۔ لیکن اکثر اوقات اسے کسی نہ کسی وجہ سے پیسوں کی ضرورت پڑ جاتی تھی جو وہ اکٹھے کرتی تھی وہی لگ جاتے تھے۔
”افف۔۔۔ ابھی بھی کم ہیں۔۔“ اس نے فون سائیڈ پر پھینک دیا۔ کبھی کبھی وہ خود سے اپنی زندگی سے تنگ آجاتی تھی۔۔ اور بےاختیار کہہ دیتی کہ اللہ جی یا تو آپ میرے اندر اتنی جستجو پیدے نہ کرتے یا پھر مجھے پیسے کی کمی نہ دیتے۔۔ میں پوری دنیا گھوم کر اپنی اس علم کی طلب کو پورا کر لیتی۔۔۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اللہ سے اپنے خفا ہونے کی معافی بھی مانگ لیتی۔
پر ہم انسان نہیں جانتے کہ اللہ نے ہمارے راستے کس طرح سے آسان کیے ہوتے ہیں۔ اس رات کائنات اکیڈمی سے آئی تو وہ بہت خوش تھی۔ اس نے آتے ہی ایمان کو گلے لگالیا۔۔۔۔یہ ایک عجیب سا احساس تھا۔۔ وہ انسانوں سے دور کا رشتہ رکھتی تھی۔۔ وہ سلمی بیگم اور میزو اور مہربانو کے علاوہ کبھی کسی کے گلے نہیں لگی تھی۔۔ یہ خوشگوار سا احساس تھا۔۔ شاید کائنات کی اپنائیت کی انرجی کو اس کے جسم کے سیلز نے محسوس کرلیا تھا۔
”بہت بہت مبارک ہو۔۔۔“ اس نے ایمان کو دیکھتے کہا۔۔ ایمان نا سمجھی کے عالم میں اسے ہی دیکھتی رہی۔
”یور آر لکی۔۔ اور تمہاری محنت رنگ لے آئی۔۔ تم جانتی ہو اکیڈمی نے آنلائن پبلش ہونے والے کالمز پر ریسرچ کی اور پہلے تین کالمز جو انہیں پسند آئے انہوں نے انکے رائٹرز کو اکیڈمی میں فری ایڈمیشن دینے کا اعلان کیا ہے۔۔۔“
یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ ایمان سن ہوگئی۔
”قرآن اور سائنس کی چھڑی جنگ پر جو تم نے لکھا آج وہ ہمیں دکھایا جارہا تھا۔۔ یقیناً تمہیں جلد ای میل آجائے گی۔۔ہمارے پروفیسرز تمہارے لکھے کالموں سے بہت امپریس تھے۔۔ “
لگن سچی ہو تو دروازے کھل ہی جاتے ہیں۔
”ہنس دو پاگل۔۔۔“ اور پھر وہ مسکرادی۔۔ بےاختیار ہی آنکھوں میں نمی ابھر آئی۔
”یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔“ اس نے آنسو صاف کرتے بےاختیار اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر پہلے چھائی ساری کلفت ساری اداسی ختم ہوچکی تھی۔
✿••✿••✿••✿
کس کو چاہوں کہ
تیرے سحر کو کم تر کردے۔۔۔
ماثیل پچھلے تین دنوں سے باہر نہیں نکلا تھا۔۔ اسکا زیادہ تر وقت اسٹوڈیو میں گزر رہا تھا۔۔ وہ جس ذہنی کیفیت اور اذیت سے گزر رہا تھا یہ صرف وہ جانتا تھا۔۔ اس وقت وہ مجسمے بنانے والے آمیزے میں ہاتھ ڈالے اسے کسی شکل میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اسکی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ خود بری طرح سے ٹوٹ چکا تھا۔۔
”کیا ہو تم اُم ایمان! کیوں میں تمہیں ایک مجسمے میں نہیں ڈال پارہا۔۔“ وہ زور سے چلایا اور ٹھوکر مار کر میز کو دور گرا دیا۔۔ وہ تھک گیا تھا۔۔ پر وہ ہار نہیں مان سکتا تھا۔ اسے لگا تھا وہ ایمان کا مجسمہ بنالے گا تو شاید اس کے اندر کی اذیت کم ہوجائے گی۔۔ پر تین دن کی لگاتار کوشش کے بعد بھی وہ ناکام رہا تھا۔۔
وہ بڑے بڑے مجسمے بنانے والے ماثیل دی بت ساز ایک عام لڑکی کو بت میں نہ ڈال سکا۔۔
آخر ایسا کیوں تھا؟؟ کیوں اس لڑکی کا وجود ماثیل کے وجود سے انکاری تھا۔۔
آخر کون تھا ان دونوں کے درمیان۔۔۔
”میں نہیں تو کون؟؟ کون چاہ سکتا ہے میرے علاوہ اسے اتنا۔۔ “ وہ پھر سے چلایا۔
اس نے پاس رکھے ٹاول سے ہاتھ صاف کیے اور پھر سگریٹ کی ڈبی اٹھا کر اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر سے سگریٹ جلانے کے بعد لائٹر کو دور پھینک دیا۔ پھر اس نے اکاروس کے مجسمے کی جانب دیکھا۔۔
”میں اسے لے کر اس دنیا سے اڑ جانا چاہتا ہوں۔۔۔کہیں دور جانا چاہتا ہوں پر افسوس یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔“
وہ خود حیران تھا۔۔ اسکی ساری مجسمہ گری دھری کی دھری رہ گئی تھی۔۔۔۔ وہ اسے آرٹ کہتا تھا۔۔ پھر وہ اس آرٹ میں فیل ہوگیا تھا۔۔ کیسے آرٹسٹ تھا وہ؟؟
وہ اسی کشمکش میں سگریٹ پھونکے جا رہا تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔۔ کوئی انجان نمبر تھا۔۔ اس نے فون نہیں اٹھایا۔۔ لیکن فون کرنے والا بھی ڈھیٹ تھا۔۔ فون بجتا رہا۔ تنگ آکر اسے فون اٹھانے پڑا۔
”میں جانتی ہوں محبت میں ٹھکرایا مرد بھربھری ریت کی مانند بکھر جاتا ہے۔۔ میں آپ کو سمیٹ لوں گی۔۔ بس مجھے موقع دیجیے۔۔۔“ کسی عورت کی آواز تھی۔
”کون؟؟“ اسکے چہرے کے نقوش تن گئے۔
”میں اڈریس اور لوکیشن سینڈ کررہی ہوں جب آپ کا دل چاہے آپ میرے پاس آسکتے ہیں۔۔۔ یقین کریں سب بھول جائیں گے۔۔ ایما کو بھی۔۔۔“ زندگی میں پہلی بار اسے کسی عورت کی دعوت گناہ بری لگی تھی۔ فون بند ہوچکا تھا۔ اور اسکا دماغ مزید الٹ گیا۔
کچھ دیر بعد اسے میسجز وصول ہوگئے۔۔ وہ عورت اور کوئی نہیں اسکی ایک اسٹوڈنٹ تھی۔۔ وہ شادی شدہ تھی۔ پھر بھی اسے بلا رہی تھی۔
اسے ایمان بےاختیار یاد آئی۔۔۔۔ ماثیل کا خود کا ماننا تھا کہ کسی بھی صورت اپنے پارٹنر کو دھوکا نہیں دینا چاہیے۔۔۔پر یہاں دھوکا وہ عورت دے رہی تھی۔۔ ماثیل کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔
وہ کچھ دیر اسی حالت میں بیٹھا سوچتا رہا۔۔ اور جب سگریٹ کے دھویں کہ وجہ سے اسے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی تو اس نے سگریٹ پھینک دیا۔۔۔
وہ جا سکتا تھا۔۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں تھا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔۔ پر وہ جا نہیں سکتا تھا۔۔ وہ اس کے قدم باندھ چکی تھی۔۔ اس کا خالص پن اب ماثیل کے پیروں کی زنجیر بن چکا تھا۔۔۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر اس نے ایمان کا نمبر ملا دیا۔۔
کیوں نا اسکا سکون برباد کیا جائے جو ماثیل اس تکلیف کی وجہ تھی۔ رنگ ہورہی تھی پر ایمان فون نہیں اٹھا رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ خوش تھی بہت خوش۔۔۔ اور اسی خوشی میں جب عبدل نے اسے فون کرکے کافی کا پوچھا تو وہ منع نہیں کر پائی۔۔
”کہاں جارہی ہو؟؟“ اسے شوز پہنتے دیکھ کر پہلی بار کائنات نے پوچھا تھا۔۔ عبدل کا فون آیا تھا۔۔ اسی لیے وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی۔
”کافی پینے۔۔۔ عبدل انتظار کر رہا ہے۔۔۔“ وہ شوز لیسز باندھتی اسے بتانے لگی۔۔۔ ”تم بھی چلو ساتھ اگر تمہیں برا نہ لگے۔۔۔“ اس نے کائنات کی جانب دیکھا۔
”اور عبدل؟؟ اس کو برا لگا تو۔۔“ کائنات نے خدشہ ظاہر کیا۔
”ارے اس کو چھوڑو۔۔ وہ ویسے بھی اچھی لڑکیوں سے دور رہتا ہے۔۔ چلو آؤ آج اسے تنگ کرتے ہیں۔۔“ ایمان کو شرارت سوجھی۔ کائنات اسکی بات سن کر مسکرادی۔
اور پھر کچھ دیر بعد وہ دونوں تیار ہو کر پرجوش سی عبدل کے حالت خراب کرنے جارہی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
”باس مسٹر ادھم کی حالت میں جو سدھار آیا تھا وہ پھر سے بگڑنے لگا ہے۔۔۔وہ لڑکی جس سے وہ محبت کرتا ہے وہ لڑکی اسے ریجیکٹ کر چکی ہے۔۔۔“ فون ابھرنے والی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ کال لینڈ لائن نمبر پر کی گئی تھی۔۔۔۔اسپیکر آن تھا۔ وہ چند فائلیں سامنے پھیلائے ان پر جھکا ہوا کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔پر یہ بات سنتے ہی وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
”ایسی کون سی لـڑکی ہے جس نے مسٹر ماثیل کو ریجیکٹ کردیا۔۔؟؟“ وہ تھوڑا حیران ہوا۔
”آپ کہیں تو میں لڑکی تصویریں بھیج دیتا ہوں۔۔ پر لڑکی نے صاف صاف منع کردیا ہے۔۔ وہ باقیوں سے تھوڑی مختلف ہے۔۔“
”ٹھیک ہے تم ان پر نظر رکھو۔۔ ماثیل بہت بڑی چیز ہے۔۔۔وہ کسی صورت اپنی پسند کی عورت کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔۔ وہ اسے منا لے گا۔۔“ اسے پورا یقین تھا۔
”باس مجھے بھی پوری امید ہے اگر یہ لڑکی مسٹر ادھم کی زندگی میں آتی ہے تو اس کے سدھرنے کے چانسز نوے فیصد ہیں۔۔“ یہ بات سنتے ہی اس نے فائل بند کردی۔
”تو پھر ایسے حالات پیدا کردو کہ اسے آنا ہی پڑے۔۔۔۔“ لہجہ کتنا سرد تھا۔۔ جیسے انسانوں کو کٹھ پتلیوں کی نچانا اسکا پرانا مشغلہ ہو۔
” کردیا ہے۔۔۔۔ یقیناً اب کچھ تو بدلاؤ آئے گا۔۔“ فون کرنے والے نے اطلاع دی۔
”ویری گڈ۔۔۔“ اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا اس کا موبائل فون بلنک کرنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔
نمبر دیکھا تو دائمہ کا نام چمک رہا تھا۔۔ اسے فون کرنے والے نے تصویریں بھیج دی تھیں پر اسے لڑکی کو دیکھنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔۔
فون بجتا رہا پر اس نے نہ اٹھایا اور نہ اس نے ای میل کھول کر اس لڑکی کا چہرہ دیکھا جو ماثیل کی دنیا بن چکا تھا۔
فون بج بج کر خود ہی بند ہوگیا۔۔ اس نے اٹھانے کی زحمت نہ کی۔۔ وہ کسی پرانی فائل کو کھولے، جانے اس میں سے کیا کھوج رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”مسٹر ماثیل کیا مجھے آپ کو کچھ اور کلیئر کرنے کی ضرورت ہے؟؟“ وہ فون اٹھاتے ہی دبے دبے غصے سے بولی۔
”مجھے ایک شادی شدہ عورت نے آج کی رات اپنے پاس گزارنے کی دعوت دی ہے۔۔۔ تم بتاؤ میں جاؤں یا نا۔۔۔؟؟“ اس نے دوٹوک بات کی۔ یہ سنتے ہی ایمان کا دماغ گھوما۔
”کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟؟“
”تمہارے لیے بکواس ہوگی۔۔ میرے لیے دعوت ہے۔۔ اور میں اجازت تم سے مانگنے آیا ہوں۔۔“
عجیب پاگل آدمی تھا۔۔ ایمان خاموش ہوگئی۔۔ اتنا تو وہ جانتی تھی ماثیل جھوٹ نہیں بولتا تھا۔۔ پر یہ سب وہ اسے کیوں بتا رہا تھا۔
”رات آپ نے گزارنی ہے۔۔ اجازت مجھ سے کیوں مانگ رہے ہیں۔۔ آپ کی مرضی ہے آپ جو چاہیں کریں۔۔۔“
”بس تم سے اجازت چاہیے۔۔۔“ اس نے اپنے الفاظ دہرائے۔
”میں آپ کی کیا لگتی ہوں جو آپ اس گناہ کی اجازت مجھ سے مانگ رہے ہیں۔۔؟؟“ وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ پائی۔۔ ماثیل نے کبھی اس کو اتنی بلند آواز میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔ یقیناً اسے برا لگا تھا۔
”تم وہی ہو جس نے مجھے اپنے سحر میں قید رکھا ہے۔ جس کے وجود نے میرے پاؤں میں ایسی زنجیریں ڈال دی ہیں کہ میں کہیں جا ہی نہیں سکتا۔۔۔“
دونوں جانب خاموشی چھا گئی۔۔ ایمان کے پاس الفاظ نہیں بچے تھے۔۔ وہ اسکی بات کا کیا جواب دیتی۔
”جب میں قیدی تمہارا ہوں تو اجازت بھی تمہیں ہی دینی ہوگی۔۔۔“ وہ اسکی خاموشی برداشت نہیں کر پایا۔
”آپ جا سکتے ہیں۔۔ جسکے ساتھ چاہیں، جتنی چاہیں راتیں گزار سکتے ہیں۔۔“ اس نے اپنی جان چھڑانا چاہی۔
”سوچ لو۔۔۔اگر تمہارے خدا نے کل کو تم سے پوچھ لیا کہ ادھم کو گناہ کرنے کیوں جانے دیا تو کیا جواب دو گی۔۔۔؟؟“
اس کی بات سنتے ہی وہ تلملا کر رہ گئی۔۔ ماثیل نے اس کی کمزوری پکڑ لی تھی۔
”آپ کے نزدیک یہ سب گناہ نہیں ہے۔۔ آپ جا سکتے ہیں۔۔“
”لیکن تمہارے نزدیک تو ہے نا۔۔۔ تم کیسے جانے دے سکتی ہو۔۔۔؟؟“ وہ حیران تھا۔
”ادھم پلیز۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلائی۔
”تمہارے پاس چوبیس گھنٹوں کا وقت ہے۔۔۔ میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گا۔۔“
وہ اسے نئی مصیبت میں ڈال کر خود فون بند کرچکا تھا۔۔ آخر وہ اکیلا کیوں تڑپے۔۔۔ کچھ تو اس دشمن جان کو بھی تڑپنا چاہیے تھا۔۔!!
✿••✿••✿••✿
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post