Maseel novel episode 19 (مـــاثـیــــــل قصہ بُت سازوں کا)

 

maseel novel episode 19


مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا)
قسط_نمبر_19


اور آج پھر اسے Cursed بنا دیا گیا تھا۔۔ وہ اگر وچ تھی بھی تو اس نے جان بوجھ کر ماثیل پر جادو نہیں کیا تھا۔۔ اس نے اسکی زندگی برباد نہیں کی تھی۔۔ یہ ہر انسان کی اپنی چوائس ہوتی ہے وہ خود کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔۔۔پر آج بھی اسے اتنا ہی دکھ ہوا تھا جتنا تب ہوا تھا جب یشما نے اسے جادوگرنی کہا تھا۔۔
وہ اپنی پیشانی پکڑے بیٹھی تھی۔۔ چوٹ اسکی پیشانی کے اوپر والے حصے پر لگی تھی جہاں پر سر کے بال شروع ہوتے تھے۔۔ وہاں سے سر پھٹ چکا تھا۔۔
روز بھاگتے ہوئے مرہم پٹی کرنے کے لیے ڈبا اٹھا لائی۔
”ایما چلو ہم ہسپتال چلتے ہیں۔۔ بہت زیادہ خون نکل رہا ہے۔۔“
“نہیں مجھے نہیں جانا۔۔۔“ ایما نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی تو روز نے اسکا بازو پکڑ کر واپس بٹھایا۔۔ اب وہ اسکی مرہم پٹی کر رہی تھی۔۔ اور اسکی نظریں ایمان پر جمی تھیں جس کی آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہوچکی تھیں۔۔ وہ بچپن سے اذیت پسند تھی۔۔ اسے لگتا تھا جسمانی تکلیف آپکے اندر کی تکلیف کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے اور اس وقت اسکی پیشانی سے اٹھتی ٹیسیں اسکے درد کو کم کرنے میں معاون ثابت ہورہی تھیں۔۔ کچھ دیر بعد وہ بالکل خاموش ہوگئی۔۔۔ البتہ سسکیاں ابھی بند نہیں ہوئی تھیں۔۔ وہ کافی عرصے بعد اتنا روئی تھی۔۔
اسکے سر پر پٹی باندھنے کے بعد روز اسکے پاس ہی بیٹھ گئی۔ اس نے ایمان کا ہاتھ تھام لیا۔
”دیکھو ایما تمہیں مسٹر ماثیل نہیں پسند تو اٹس اوکے۔۔ میں تمہیں کبھی فورس نہیں کروں گی۔۔ لیکن تمہیں بتانا چاہیے تھا کہ تم انگیجڈ ہو۔۔۔ پہلے دن ہی بتا دیتی۔۔“
”ضرور بتاتی اگر میری منگنی قائم رہتی۔۔۔“ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔ نگاہیں اب اپنے ہاتھوں پر جمی تھیں جہاں خون لگا تھا۔
”کک کیا مطلب۔۔۔؟؟“ روز سمجھی نہیں۔
”منگنی ہوئی تھی۔۔۔ٹوٹ گئی۔۔۔ “ وہ اسی انداز میں جواب دیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تو پھر ماثیل کا دل کیوں توڑا۔۔۔؟“ روز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ وہ وجہ جاننا چاہتی تھی۔
”کیونکہ میں ایمان ہوں۔۔۔ بےایمان نہیں ہو سکتی۔۔۔“ وہ عجیب سا جواب دیتی اسے الجھنوں میں چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔ روز نے اسے جاتے دیکھا۔۔ اس نے کمرے میں جا کر دروازہ بند کرلیا۔۔ جبکہ روز وہیں بیٹھی رہ گئی۔۔ اسکی نظریں فرش پر پڑے ایمان کے خون کے قطروں پر جمی تھیں۔۔
کبھی کبھی کسی کی محبت کا قرض اپنے خون سے چکانا پڑتا ہے۔۔!!
✿••✿••✿••✿
اسکی زندگی میں ہمیشہ دھوپ چھاؤں کا موسم رہا تھا۔۔۔ خوشیوں کی عمر چھوٹی ہوتی تو غم کے سال لمبے ہوجاتے تھے۔۔ اکثر وہ ہنستے ہنستے چپ ہو جاتی اسے لگتا تھا اسے اپنی ہنسی کی قیمت کسی بڑے غم کو سہنے کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔۔۔
اور اسی کشمکش میں وہ یہاں تک آگئی تھی۔۔ پر یہاں آکر بھی اسے اب تک تو بس دل دکھانے والے لوگ ملے تھے۔۔ اس نے سوچا تھا کہ اسے کوئی اچھی دوست مل جائے گی جو اسکی روم میٹ بھی ہوگی اور جس کے ساتھ وہ پورا اسپین دیکھے گی۔۔ کتنی پاگل تھی وہ یہ بھی نا سمجھتی تھی کہ دوست آسانی سے نہیں مل جاتے۔۔۔
پھر سے خواب ٹوٹا تھا۔۔ وہ پھر سے Cursed بن گئی اور اور اسکا دل پھر سے دکھ گیا تھا۔ پردیوں کے دیس کے خواب۔۔۔ جہاں جادو سے سب اچھا ہوجاتا تھا۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔
یشما نے دروازے اسکے منہ پر بند کردیا تھا۔۔ وہ کتنی دیر ایسے ہی بیٹھی رہی تبھی وہاں کائنات آئی۔۔ اسکا روم بھی اسی ونگ میں تھا۔۔
”میرے روم میں ایک سیٹ خالی ہے۔۔ تم میرے ساتھ چلو میں مینجمنٹ سے بات کرلوں گی۔۔۔“ وہ جھک کر اسکا سامان اٹھانے لگی تھی۔۔ ایمان کسی روبوٹ کی طرح کھڑی ہوئی۔۔ وہ اب یشما کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی۔۔ اس نے باہر بکھرا اپنا سامان اٹھایا۔۔ آدھا سامان اسکا اندر الماری میں ہی تھا۔۔۔
وہ کائنات کے کمرے میں آئی تو اسے پرسکون سا احساس ہوا۔۔ اسکا کمرہ بہت صاف ستھرا تھا۔۔ اس نے نماز پڑھنے کے لیے ایک کونا مختص کر رکھا تھا۔۔ یہ تین بیڈ والا کمرہ تھا۔۔ دو لڑکیاں پہلے کی رہ رہی تھیں۔۔ ایک بیڈ فری تھا وہ اسے مل گیا۔۔
کائنات نے کچھ بھی نہیں کہا۔۔ خاموشی سے اسے پانی پلایا۔۔ ساتھ والا ونگ لڑکوں کا تھا۔۔ اس لیے کائنات کمرے سے باہر بھی ماسک لگا کر جاتی تھی۔۔ جیسے ہی اس نے ماسک ہٹایا ایمان نے پہلی بار اسکا چہرہ دیکھا۔۔
اس نے نوز پن پہن رکھی تھی۔۔ ایمان جو ہمیشہ نوز پن بری لگتی تھی پر کائنات پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
نوز پن میں موجود چھوٹا سا موتی چمک رہا تھا۔۔
”تم بالکل پریشان مت ہونا۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔“ اسکے سنہری بال سنہری آنکھیں اسکے حسن میں چار چاند لگاتے تھے۔۔ ایمان پانی پی کر خاموشی سے بیٹھی رہی۔۔ بارش بارش ابھی بھی جاری تھی لیکن اب کم ہوچکی تھی۔
”آج تو عبدل کا شو ہے نا۔۔؟؟“ اس بات سن کر ایمان چونکی۔۔ وہ تو بھول ہی گئی تھی۔
”مجھے لگا تم ضرور جاؤ گی۔۔“ وہ اسکی خاموشی توڑنا چاہتی تھی۔
”میں اکیلے اس موسم میں باہر نہیں نکل سکتی۔۔۔“ وہ اپنے ہاتھ دبانے لگی جن کے ٹھنڈے پڑنے کا احساس اسے اب ہوا تھا۔
”میں تمہارے ساتھ چل سکتی ہوں۔۔“ کائنات کی بات نے اسے حیرت میں ڈال دیا۔ اسے لگا کائنات میوزک کو سپورٹ نہیں کرتی ہوگی۔۔ جیسے وہ خود نہیں کرتی تھی۔۔ اسے بس آرجے پسند تھا۔۔ لیکن وہ میوزک نہیں سنتی تھی۔۔نہ کبھی آرجے کا سنا تھا نہ باقیوں کا۔۔
”مجھے لگا تھا آپ میوزک کو اسپورٹ نہیں کرتی ہوں گی۔۔“ وہ اظہار خیال کیے بنا نہیں رہ سکی۔
”بالکل ایسا ہی ہے۔۔پر مجھے لگا شاید تم عبدل کے لیے جانا چاہو۔۔۔“ وہ پھیکا سا مسکرائی۔
”نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔“ اسے ایمان سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔۔ اسکا دل اب اچاٹ ہوچکا تھا۔
”چلو پھر تمہارا باقی سامان اٹھا لاتے ہیں۔۔۔“ وہ دونوں کمرے سے باہر نکلی ہی تھیں کہ مینجمنٹ وہاں آگئی۔۔ کائنات کو سپانش بہت اچھی آتی تھی۔۔ وہ اس وقت غصے کا اظہار کر رہی تھی۔
”اگر ہم مسلمان ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے ہمارے ساتھ یہاں ایسا سلوک کیا جائے۔۔ یشما گل کون ہوتی ہے کسی کا سامان اٹھا کر باہر پھینکنے والی۔۔ اسے کوئی رائٹ نہیں ہے۔۔آپ لوگوں کو ایکشن لینا چاہیے۔۔ نہیں تو میں آگے کمپلین کروں گی۔۔۔“ اس نے کائنات کو ستائش سے دیکھا۔۔ وہ کافی غصہ تھی۔۔پر وہ اپنے حق کے لیے لڑنا جانتی تھی۔۔ ایمان کو اپنائیت کا احساس ہوا۔۔
آخر کوئی تو آیا تھا اسکا ساتھ دینے۔۔ وہ دونوں مینجمنٹ کے ساتھ چلتی کمرے تک آئیں۔ کافی بار دستک دینے کے بعد یشما نے دروازہ کھولا۔۔
”مس یشما گل۔۔۔ رولز توڑنے پر آپ کو ریسا ہال سے نکالا جاتا ہے۔۔ آج رات بارہ بجے تک یہ کمرہ خالی کردیں۔۔۔“ مینجمنٹ کے اتنے صاف نوٹس پر ایمان حیران ہوئی۔
ایمان خاموشی سے الماری سے اپنا سامان نکالنے لگی۔۔
”میں نے مجبور ہو کر یہ سب کیا ہے۔۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے میں کس تکلیف سے گزری ہوں۔۔ شی از اے وچ۔۔ اس نے جادو کیا ہے۔۔چوری کرنے پر جو اسکی انسلٹ ہوئی تھی۔۔ اس نے وہ بدلا لیا ہے مجھ سے۔۔۔“ وہ پھر سے چلائی۔
ایمان نے اپنا آرجے کا بیگ نکالا۔۔ اور اسے سینے سے لگاتی یشما کی جانب بڑھی۔۔ وہ کب سے ایک ہی لفظ سن رہی تھی۔ اب وہ تھک گئی تھی۔
” پاکستان سے یہاں کر تم نے اپنا حلیہ تو بدل لیا۔۔ لیکن افسوس سوچ جادو ٹونے میں ہی اٹکی رہ گئی۔۔۔“ وہ یشما کو دیکھتے کچھ اس انداز میں مسکرائی کہ یشما کو اپنی ریڑھ ہی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہونے لگی۔
اس نے باقی سارا سامان نکالا۔۔ آدھا کائنات نے اٹھایا اور آدھا اس نے۔۔۔پھر وہ خاموشی سے کمرے سے نکل آئی۔ مینجمنٹ اپنا کام کرکے جاچکی تھی۔۔۔ ان کے باہر نکلتے ہی یشما نے کوئی چیز اٹھا کر دروازے پر زور سے ماری۔۔ وہ اب چیخ رہی تھی۔۔ جانے کیا کیا اول فول بک رہی تھی۔۔
ایمان نے سننا ضروری نہیں سمجھا۔
✿••✿••✿••✿
کائنات کو کچھ سامان لینا تھا۔ وہ ایمان کو لے کر باہر آگئی۔۔ ہلکی ہلکی سی بوندا باندی جاری تھی۔۔ اس نے آرجے کا بیگ کندھے پر ڈال رکھا تھا۔۔ اور وہ دونوں چھاتہ لے کر آئی تھیں۔ کائنات نے اسے کہا تھا کہ آج سے وہ اپنی زندگی میں نئے موڑ کو شروع کرے۔۔ یشما کا باب بند کردے۔۔
اور اس نے ایسا ہی کیا تھا۔۔ مارٹ کے پاس پہنچتے ہی کائنات رک گئی۔۔ اسکی نظریں سامنے بہت بڑی اسکرین پر جمی تھیں۔
وہاں عبدل تھا۔۔ وہاں کسی شو کی ریکارڈنگ چل رہی تھی۔۔ یہ شو نئے بینڈز کے لیے منقعد کیا گیا تھا جہاں نئے گانے والوں کو اپنا آپ منوانے کا موقع دیا گیا تھا۔۔ عبدل اور اس کے بینڈ نے تین گانے چنے تھے۔۔ دو ہوچکے تھے اور یہ آخری تھا۔۔ وہ عبدل کو دیکھ کر ساکت رہ گئی۔۔
اس نے تصور کیا کہ آرجے جب گاتا ہوگا تب یقیناً ایسا ہی لگتا ہوگا۔۔۔
اس نے آج سے پہلے عبدل کو اتنے ڈھنگ کے حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔۔ اسکے بال پونی میں قید تھے۔۔لیکن بہت اچھے طریقے سے۔۔ سفید سلک کی شرٹ پر اس نے سیاہ کوٹ اور سیاہ ہی پینٹ پہن رکھی تھی۔۔ شرٹ کے بٹن آگے سے کھلے تھے۔۔۔کوٹ کے کف اس نے فولڈ کر رکھے تھے۔۔۔ اسکے بازو کے ٹیٹو نمایا تھے۔۔
اس نے پہلی بار جانا تھا کہ وہ کتنا ہینڈسم تھا۔۔ اور اس وقت وہ 80 کی دہائی کا گانا گا رہا تھا۔۔ جو اسکا فیورٹ تھا۔۔ اسکے سامنے ہجوم تھا جو سننے آیا تھا وہ سب اندھیرے میں فون کی ٹارچ آن کیے ہوئے تھے، اور اسے دائیں بائیں لہراتے الگ سماں باندھ رہے تھے۔۔ عبدل سپاٹ لائٹ کی روشنی میں تھا۔۔ کیمرے نے جب اسکا کلوز اپ لیا اسکی گرے آنکھوں میں نمی کی لہر تھی۔۔۔ وہ روبی روبرٹسن کا فالن اینجل گا رہا تھا۔۔ کوئی ریپ نہیں تھا، کوئی ڈرم پیٹا نہیں جا رہا تھا۔۔کوئی چیخنا چلانا نہیں تھا۔۔ صرف گٹار بج رہا تھا۔۔
Are you out there?
Can you hear me?
Can you see me in the dark?
وہ خود کو ولن کہتا تھا۔۔ وہ خود کو فالن اینجل سمجھتا تھا۔۔ وہ خود کو اندھیروں میں پاتا تھا۔۔
I don't believe it's all for nothing
It's not just written in the sand
Sometimes I thought you felt too much
ایمان کو لگا جیسے وہ اسے ہی ریکھ رہا ہو۔۔۔
And you crossed into the shadow land
And the river was overflown
And the sky was fiery red
اسے یاد آگیا۔۔جب پہلی بار عبدل اس سے ملا تھا اس نے یہی سوال پوچھا۔۔۔ Did it Hurt when yo fell from Heaven??
You gotta play the hand that's dealt ya
That's what the old man always said
Fallen angel
اسکا اپنی خوبصورت آواز میں فالن اینجل گانا کس قدر دردکناک تھا۔
If my eyes could see
You kneeling in the silver light
Fallin', fallin', fallin' down
Fallin', fallin' down
Fallin', fallin', fallin' down
Fallin', fallin' down
Fallin', fallin', fallin' down
Fallin', fallin' down
اگر جادو ایسا ہوتا ہے تو وہ اس جادو کے زیراثر تھی۔۔۔ صرف وہی نہیں بلکہ کائنات بھی۔۔
”ہینڈسم لگ رہا ہوں نا۔۔۔“ اسکے کان کے قریب کسی نے سرگوشی کی۔۔۔ وہ جیسے اچھل پڑی۔۔ پلٹ کر دیکھا تو عبدل سامنے کھڑا تھا۔۔ اسی حلیے میں جس میں وہ اسکرین پر نظر آرہا تھا۔۔
چاروں جانب اب صرف عبدل کی پکار تھی۔۔ اس نے ویلنیسا کو جیت لیا تھا۔۔۔۔ ایمان اسے وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ کندھے پر گٹار لٹکائے کھڑا تھا۔۔ اسے دیکھ کر ایمان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔
”مجھے لگا تھا تم آؤ گی۔۔۔“ وہ سیدھا اسکے پاس آیا تھا۔۔
”ادھر آؤ ادھر بیٹھو۔۔“ اس نے ایمان کو کندھوں سے تھامتے پتھر کے بینچ پر بٹھایا۔ یہ بس اسٹاپ تھا جہاں ویٹنگ بینچ رکھا تھا۔ اس نے چھاتے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔۔ وہ کسی بھی پل رو دیتی۔ اسے ریسا ہال سے خبر مل چکی تھی کہ یشما نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی اسکے ساتھ ساتھ کیا کیا ہوا۔۔ لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ عبدل اسے منحوس سمجھے۔
”لڑکیوں کو اتنا خالص اتنا سچا نہیں ہونا چاہیے ایمانے۔۔“ وہ گٹار اتار کر سائیڈ پر رکھا اسکے سامنے نیچے بیٹھ گیا۔۔ اسکے لہجے میں بےبسی تھی۔۔ عجیب سی بےبسی۔۔ ایمان نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔
”ورنہ مجھ جیسے فالن اینجل کے دل میں اچھا بننے کی لگن جاگ اٹھتی ہے۔۔۔“ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اس کے لیے بھلا کیا تھی جو وہ یوں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔؟؟
”جبکہ میں گِرا ہوا ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔“ اسکی گرے آنکھیں ایمان کی سیاہ آنکھوں سے ٹکرائیں۔۔ ایمان نے پہلی بار ان آنکھوں درد دیکھا تھا۔۔ جانے وہ کیا چھپائے پھرتا تھا۔۔ کائنات پتھر کا بت بنے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ عبدل کے چہرے پر بارش کی ننھی ننھی بوندں گر رہی تھیں۔۔ جو رات کے اس پہر موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
”خیر تم نہیں آئی۔۔ میں اب تم سے ناراض ہوں۔۔“ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ وہ اپنے روپ میں واپس پلٹ چکا تھا۔
”مجھے یاد رہے گا کہ تم میرے بلانے پر بھی نہیں آئی۔۔۔اور دیکھنا ایک دن تم عبدل کو ڈھونڈو گی پر عبدل نہیں ملے گا۔۔۔“ وہ خفا ہوا۔
”وہ میں اکیلی تھی اس لیے۔۔۔“ اس نے جھوٹ بولنا چاہا پر زبان اٹک گئی۔ وہ بھی کھڑی ہوگئی۔۔ عبدل نے اپنے گٹار کو اٹھایا اور اسکے بیگ کی زپ کھول کر اندر سے کچھ نکالا۔۔ کائنات خاموشی سے مارٹ کے اندر چلی گئی۔ وہ زیادہ دیر وہاں کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔
”یہ تمہارے لیے ہے۔۔۔“ وہ سیاہ رنگ کا کچھ تھا۔۔ ایمان نے تھاما اور اسے کھول کر دیکھا تو وہ ایک ہڈی تھی۔۔
”یہ دیکھو۔۔۔“ عبدل نے گھوم کر اسے اپنے سیاہ کوٹ کے پیچھے سفید رنگ میں لکھا فالن اینجل دیکھایا۔ جو اس نےہڈی ایمان کو دی تھی اس پر صرف اینجل لکھا تھا۔۔
”تم بروکن اینجل نہیں ہو۔۔ خود کو کبھی بروکن اینجل مت کہنا۔۔۔تم صرف اینجل ہو۔۔“ وہ مسکرایا۔۔ وہ کبھی کبھی مسکراتا تھا۔۔ لاپرواہ سا عبدل پرواہ کرتا کتنا اچھا لگتا تھا۔
”مجھے اب جانا ہے۔۔۔۔ ہاں جلد ہی تم سے اچھے مارکس لانے کی خوشی میں کافی ضرور پیوں گا۔۔۔“ وہ پہلی دو انگلیوں سے پیشانی کو چھوتے بائے کرتا جاچکا تھا۔۔ وہ چلتا رہا۔۔۔ فالن اینجل گنگناتے ہوئے۔۔ اسے اچانک کسی نے پہچان لیا تھا اور پھر ایمان نے ایک ہجوم کو اسکے ارد گرد اکٹھا ہوتے دیکھا۔۔
لوگ اسکے ساتھ سیلفی لینا چاہتے تھے۔۔ ہجوم اتنا بڑھ گیا کہ وہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔ ایمان گہرا سانس لے کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
”میڈم ایلف۔۔۔یہ جو لڑکا اکـثر آپ کے پاس آتا ہے یہ کون ہے؟؟“ یہ لڑکی جاب پر نئی آئی تھی۔۔
”کون عبدل؟؟“ ایلف چونکی۔
”عبدل نام ہے اسکا؟“ وہ کچھ پراڈکٹس کی لسٹ لے کر آئی تھی لیکن پھر وہاں بیٹھے لڑکے کو دیکھ کر چونک گئی۔۔ وہ اکثر وہاں آتا تھا۔۔ چائے یا کافی پیتا اور چلا جاتا۔۔
”نام میں کیا رکھا ہے۔۔ تم بتاؤ کیا ہوا۔۔ کچھ کہا اس نے۔۔۔؟؟“ ایلف جانتی تھی وہ کبھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔۔ یہاں کام کرنے والے سارے سٹاف کو اسکا پتہ تھا۔۔ سب نے ایسے ہی باری باری آکر پوچھا تھا۔۔ یہ لڑکی نئی تھی اسی لیے پوچھ رہی تھی۔
”نہیں کچھ نہیں کہا۔۔بس تھوڑا عجیب ہے سا لگتا ہے۔۔۔“ اسکی بات سن کر ایلف زیرلب مسکرائی۔
”عجیب نہیں الگ ہے۔۔ باقیوں سے الگ۔۔۔ اسی لیے باقیوں کو عجیب لگتا ہے۔۔۔“ ایلف نے لسٹ چیک کرتے بتایا۔۔ وہ ابھی بھی یہیں بیٹھا تھا۔۔ اس کا فون یہیں رکھا تھا۔۔ وہ فریش ہونے گیا تھا۔ وہ لسٹ اٹھاتے ہوئے ایلف کمرے سے ملحقہ ہی موجود اسٹڈی میں چلی گئی۔
جبکہ وہ لڑکی اب تجسس بھری نظروں سےمیز پر رکھے اس فون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس نے کچھ سوچنے کے بعد آس پاس دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور پھر فون اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔ لیکن فون اٹھاتے ہی اسے اتنی زور کا جھٹکا لگا کہ اسکی چیخ ابھری۔۔ فون چھوٹ کر واپس میز پر گر گیا۔۔
“سوری یو آر اے برومائڈ۔۔۔“ فون سے روبوٹک آواز ابھری تھی۔۔۔لڑکی کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ خوفزدی ہوتی وہاں سے بھاگ گئی۔۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اس نے فون کو الٹا پڑے پایا۔۔ آفس میں کوئی بھی نہیں تھا۔۔ اس نے فون اٹھایا۔۔ اور مسکرادیا۔۔ یقینا اس کے فون کو کسی نے چھیڑا تھا۔۔۔ اور چھیڑنے والے کو اسکی سزا مل چکی تھی۔
وہ اپنا فون ہڈی کی جیب میں ڈالتا، ہڈی کی کیپ کو سر پر اوڑھتا آفس سے باہر نکلا۔۔ اور پھر سیٹی پر کوئی دھن بجاتا وہاں سے چلا گیا۔
✿••✿••✿••✿
”وہ اب کیسی ہے؟؟“ اگلی صبح ماثیل کا روز کو فون آیا تھا۔ ایمان بری طرح بخار میں تپ رہی تھی۔۔ کچھ سر پر لگی چوٹ اور کچھ مائیگرین اور ٹینشن کی وجہ سے اسکا وجود اب اسکا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
”یہ بات آپ کو اپنی دوست شنایا سے پوچھنی چاہیے۔۔۔“ روز کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سرد ہوا۔
”کیا مطلب؟؟ میں سمجھا نہیں۔۔۔“ وہ واقعی کچھ نہیں جانتا تھا۔
”ہاسپٹل لے کر جارہی ہوں اسے۔۔ آکر دیکھ لیں۔۔“ اس نے فون بند کردیا۔۔ دونوں اسے عزیز تھے۔۔ وہ دونوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اس نے ایمان کو زبردستی ناشتہ کروایا۔۔ وہ غنودگی کی حالت میں تھی۔۔ وہ ہسپتال بھی نہیں جانا چاہتی تھی پر روز کے آگے اسکی نہیں چلی۔۔ روز اسے لے کر پاس کے کلینک آئی گئی۔۔ ڈاکٹر نے اسکی دوبارہ مرہم پٹی کی تھی۔۔ اسکا زخم دیکھنے میں چھوٹا تھا پر گہرا تھا۔۔ اس لیے اسے ساری رات درد ہوتا رہا۔۔اور اسی درد کی وجہ سے اسے بخار ہوا تھا۔۔ ڈاکٹر نے اسے ڈرپ لگائی تھی تاکہ اسکی توانائی بحال ہو۔ وہ پوری رات نہ سونے کی وجہ سے اب گہری نیند کے زیر اثر تھی۔۔ اسکے سر پر دوبارہ پٹی کی گئی تھی۔ وہ اسکے پاس بیٹھی اسکے ہوش میں آنے کو انتظار کر رہی تھی، فون سننے وہ باہر آئی جب ماثیل بھاگتا ہوا وہاں آیا۔
”کیا ہوا ایما کو وہ ٹھیک تو ہے نا؟؟“ اسکی بےچینی اسکی پریشانی روز باآسانی دیکھ سکتی تھی۔۔ اس نے خود ہی اسے بلایا تھا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ ایمان خود اس وقت کس درد میں تھی۔ اس نے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔۔ وہ تیزی سے کمرے کی جانب بڑھا۔۔ سامنے بستر پر پڑے اسکے وجود کو دیکھ کر وہ ساکت ہوا۔
”یہ۔۔یہ سب کیسے ہوا؟؟“ اسکی نظریں ابھی بھی اس جمی تھیں۔۔ اسکا دل کیا وہ جا کر اسے چھوئے۔۔ اسے ہاتھ لگا کر دیکھے وہ سانس لے رہی تھی؟؟ پر وہ ایسا نہ کر پایا۔
”شنایا نے نہیں بتایا آپ کو؟؟“ روز کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”شنایا۔۔؟؟ کیا مطلب۔۔؟؟“ وہ اسکی جانب پلٹا۔
”ایما کے اس حال کی زمہدار وہی ہے۔۔ جا کر پوچھ لیں۔۔۔“ یہ سن کر ماثیل کو اپنے اندر کچھ ٹوٹٹا پھوٹتا محسوس ہوا تھا۔۔ اسکے جبڑے بھنچ گئے۔۔ وہ الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔۔۔ روز نے افسوس سے اسے جاتے دیکھا اور پھر ایمان کی جانب بڑھ گئی۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post