ایمان نے سنا تھا کہ اگر ہاسٹل میں آپ کو ایک اچھی روم میٹ مل جائے تو آپکی زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے۔۔ پر اچھے لوگ ملنا کس قدر مشکل تھا یہ اسے اب پتہ چلا تھا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اپنی روم میٹ سے کنیکٹ نہیں کر پائی۔۔۔
یشما کی گند ڈالنے کی عادت تھی اور ایمان کو صفائی کا کیڑا تھا۔۔ دونوں کا ایک ساتھ رہنا مشکل تھا۔۔ لیکن پھر بھی ایمان نے ایڈجسٹ کرلیا تھا۔۔ وہ اپنے حصے کو صاف ستھرا رکھتی پر اس وقت اسکا دماغ گھوم جاتا جب یشما کے بیڈ آس پاس پڑا اضافی کھانا گل سڑ جاتا اور اس سے بدبو پھیل جاتی۔۔
وہ نہ اسکی چیزوں کو اٹھا سکتی تھی اور نہ انہیں وہاں برداشت کر سکتی تھی۔۔ تنگ آکر اس نے ایک دن یونیورسٹی سے واپس آکر یشما کو میسج کیا۔۔۔ جانے کتنے دن کا کھانا پڑا تھا جس میں فنگس لگنے کے بعد بدبو پھیل پورے کمرے میں پھیل گئی تھی۔۔
اس نے یشما سے صاف صاف کہا کہ وہ اس بدبو میں نہیں رہ سکتی۔۔ برائے مہربانی وہ دوبارہ اس طرح کے حالات پیدا نہ کرے۔۔ یشما نے میسج دیکھنے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا۔۔ ایمان نے خودی صفائی کی اور کمرے میں خوشبو کا چھڑکاؤ کیا۔۔ وہ تھکی ہوئی آئی تھی اور یہاں آتے ہی اسکا یہ سب دیکھ کر دماغ گھوم گیا۔۔
لیکن پھر یہ سلسلہ کبھی رکا ہی نہیں۔۔ یشما نے اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔۔ اب کمرے میں پہلے سے زیادہ گند ہونے لگے تھا۔۔ ایمان سوئی ہوتی تو وہ رات کو آکر بتیاں جلا دیتی۔۔ اونچا اونچا بولتی یا پھر زور زور سے ہنستی۔۔
ایمان ان سب چیزوں سے بہت تنگ آگئی تھی۔۔ اکثر وہ اپنی چابی بھول جاتی یا پھر جان بوجھ کر رات کے تین بجے آکر ایمان کو کال کرتی کہ دروازہ کھول دو اور ایمان کو اٹھ کر دروازہ کھولنا پڑتا۔۔
یشما کی نظریں ہمیشہ اسکا مزاق اڑاتی محسوس ہوتی تھیں۔۔ وہ خود شاپنگ کرکے آتی اور سارا سامان پھیلا دیتی اور بار بار اس سے پوچھتی کہ یہ سب بتاؤ کیسا ہے؟؟
ایمان جب تک اسکے ساتھ ہوتی وہ ایسے شو کرتی جیسے یشما کمرے میں ہو ہی نہیں۔۔ وہ اسے نظر انداز کرتی پر وہ نہیں جانتی اندر ہی اندر کیا چل رہا تھا۔۔
ایک دن وہ یونیورسٹی تھی جب یشما نے اسے میسج کیا کہ میرے بوٹس نہیں مل رہے۔۔ ایمان نے تو دیکھے تک نہیں تھے۔۔ اس نے صاف انکار کردیا کہ مجھے نہیں پتہ۔۔
اور پھر یہ روز چلنے لگا۔۔ اسکی کوئی نہ کوئی چیز گم ہوجاتی۔۔ اور ایمان کچھ نہ کرکے بھی خوفزدہ رہتی۔۔۔
سامنے والے کمرے میں ایک لڑکی یشما کی دوست تھی وہ اکثر اسکے پاس آجاتی تھی۔۔
”پتہ نہیں کس کو موت پڑ رہی ہے جو میری چیزیں چرا ہے۔۔ لوگوں کو ذرا ڈر خوف نہیں ہے اور نا ذرا سی سیلف ریسپیکٹ بچی ہے۔۔“ چھٹی کا دن تھا۔۔ وہ جانتی تھی اسے سنایا جارہا تھا لیکن وہ خاموشی سے اپنی اسائمنٹ بناتی رہی۔۔ پر دل اچاٹ ہوچکا تھا۔۔ یقیناً وہ باقی لڑکیوں کے سامنے یہی کہتی ہوگی کہ اسکی چیزیں ایمان چرا رہی ہے۔۔ وہ جس نے کبھی چوری نہیں کی تھی۔۔ وہ جو اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور تھی اب کچھ لڑکیاں اسے عجیب نظروں سے دیکھتی تھیں۔۔
اسی الجھن میں وہ سارا دن رہتی۔۔۔ اور نظرانداز کرنے کی کوشش کرتی۔
وہ اب تک مینجمنٹ تک بات لے کر نہیں گئی تھی۔۔۔یہاں لوگ بڑے آزاد خیال تھے۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی اسے کوئی بیک ورڈ کہے۔۔ لیکن یہی اسکی غلطی تھی۔۔
ایک دن وہ یونیورسٹی سے واپس آئی تو اسکے کمرے کے سامنے رش تھا۔۔ وہ جگہ بناتی اندر داخل ہوئی تو اندر یشما بری طرح چیخ رہی تھی۔۔
”میرا اب تک لاکھوں کا سامانا چوری ہوچکا ہے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا روم میٹ کے علاوہ کون کر سکتا ہے۔۔؟؟“ وہ اسے دیکھتے ہی چلائی۔۔۔ریسا ہال کی مینجمنٹ وہیں تھیں۔۔ یشماء نے شکایت کی تھی۔۔ سب اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے جبکہ ایمان کے چہرے کے رنگ پھیکے پڑ گئے۔۔
”میں نے بہت کچھ اگنور کیا ہے۔۔ پر میری یہ چاکلیٹس میرا گفٹ تھیں۔۔ میرا بوائےفرینـڈ UK سے لایا تھا۔۔ میں نے تو کھول کر بھی نہیں دیکھیں اور یہ سارے ڈبے پھٹے ہوئے ہیں ساری چاکلیٹس غائب ہیں۔۔۔ اور یہ ریپر اسکے بیڈ سے ملا ہے۔۔“ وہ چاکلیٹ کا ایک خالی ریپر لیے کھڑی تھی۔ ایمان بوکھلائی نظروں سے سب کو دیکھنے لگی۔ سب اس سے سوال گو تھے۔۔ سب کی نظریں چیخ چیخ کر اسے چور بلا رہی تھیں۔ اس نے گردن موڑ کر پھٹے ہوئے چاکلیٹس کے ڈبے دیکھے۔۔ یشما پچھلا پورا ہفتہ یہاں نہیں تھی۔۔اسکی چیزیں ایسے ہی پڑی تھیں۔۔ ایمان نے کبھی چھوا نہیں تھا۔۔ اس نے چاکلیٹس پڑی دیکھی تھیں پر وہ چاکلیٹس لور نہیں تھی۔۔
وہ تو کبھی کبھار کچھ ایسا کھاتی تھی۔ پر اسکے ڈبے واقعی اب پھٹے ہوئے اور خالی پڑے تھے۔۔ یشما کا پارہ آسمان پر تھا۔
”میں نے کچھ نہیں چرایا۔۔۔“ اسے لگا اسکے گلے میں کانٹے اگ آئے ہوں۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے کبھی کبھی اپنے اوپر لگے الزاموں کی تردید کرنا۔۔۔
”تو یہ ریپر تمہارے بیڈ پر کیا کر رہا تھا؟؟“ یشما خونخوار نظریں لیے اسکے سامنے آئی۔۔
”اگر تمہیں چاکلیٹس چاہئیں تھیں تو مانگ لیتی۔۔ چوری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟ اور یہ سب میرے گفٹس تھے۔۔۔ میں نے ٹیسٹ بھی نہیں کیا ابھی تک۔۔۔“ وہ پھر سے چلائی۔
”میں چاکلیٹس کھاتی بھی نہیں ہوں اور چاکلیٹس کے لیے میں اپنا ایمان کیوں خراب کروں گی؟؟“ اسکے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا۔ اس نے التجائیہ نظروں سے مینجمنٹ کی طرف دیکھا۔۔۔وہ ایک چالیس سالا خاتون تھی۔
”اسکی کبرڈ کی تلاشی لی جائے۔۔ دیکھنا میرا سامان اندر ہوگا۔۔“ اتنی سبکی۔۔ اتنی اذیت۔۔۔
اسکے آنسوں بہنے کو تیار تھے۔ جبکہ یشما اسے آنکھوں سے جلا دینے کے موڈ میں تھی۔
”ٹھیک ہے۔۔ میں اپنی کبرڈ کھول کر دکھاتی ہوں۔۔ لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے چوری نہیں کی۔۔ میں ایسا کیوں کروں گی۔۔؟؟“
اور پھر اسے اپنی الماری کھول دی۔۔ جوتے کپڑوں کے علاوہ اندر کتابیں پڑی تھیں۔۔۔کچھ چیزیں جو اس نے یہاں آکر خریدی تھیں۔۔ آرجے کا بیگ۔۔
جو یشما نے اسے باہر نکالنے کو کہا اس نے نکالا تو اس بیگ کی بھی تلاشی لی گئی۔۔ کہیں کچھ نہیں ملا تھا۔۔ اور اتنی چاکلیٹس وہ ایک ہفتے میں تو کھانے سے رہی۔۔۔
نہ یشما کے بوٹس تھے اندر نہ باقی چیزیں۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے جب کسی مصیبت میں آپ اکیلے ہوں اور کوئی آپکا ساتھ دینے والا نہ ہو۔۔۔
”میں نے چوری نہیں کی۔۔۔“ اس نے آخری بار صفائی پیش کی۔۔ مینجمنٹ نے یشما کی طرف دیکھا۔۔
”آئی ڈونٹ نو۔۔۔میرا بہت سا سامان غائب ہوا ہے۔۔ اگر اس نے نہیں لیا تو کہاں گیا؟؟“ اسکے لہجے میں ذرا بدلاؤ نہیں آیا تھا۔۔
مینجمنٹ اس مسئلے کا حل نکالنے کا وعدہ کرکے چلی گئی۔۔ جبکہ وہ رودی تھی۔ اسکے جانے کے بعد یشما نے ایک نظر ایمان کو دیکھا۔۔
”تمہیں برا لگا ہو تو میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔ کیونکہ میرا نقصان ہوا ہے میرا دل دکھا ہے۔۔۔“ اس نے صفائی دی۔
”تمہیں ایک بار مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔۔“ ایمان نے پلٹ کر شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔
اور پھر وہ اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گئی۔۔ وہ اس وقت یشما کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
وہ ہاسٹل سے باہر نکل آئی۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔۔ دل کیا سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائے۔۔ کیا وہ اتنی ارزاں تھی کہ اسے چور بنا دیا جاتا؟؟
وہ کچھ دیر روتے ہوئے پیدل چلتی رہی اور پھر ساتھ ہی ایک کافی شاپ پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔ باہر کافی دھند تھی۔۔
شدت جذبات سے اسکا وجود پہلے کانپ رہا تھا اب تو اسکے دانت بجنے لگے۔۔ اس نے کافی آڈر کی اور خاموشی سے سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
”عبدل ٹھیک کہتا ہے ایشین لڑکیاں بہت روتی ہیں۔۔“ آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو جان اسکے سامنے تھا۔۔ وہ اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوئی۔۔ اگر وہ یہاں تھا تو عبدل بھی یقیناً یہیں کہیں ہوگا۔۔
اس نے چاروں جانب نظریں گھمائیں پر اسے عبدل نظر نہیں آیا۔
”عبدل یہاں نہیں ہے۔۔۔ یہ کو آنسو صاف کرلو۔۔ ابھی تمہیں بہت رونا ہے کیونکہ میں تمہارے ساتھ برا پرانک کرنے والا ہوں۔۔“ وہ اسے ٹشو تھماتا جا چکا تھا۔۔ جبکہ ایمان ساکت بیٹھی رہ گئی۔۔
”یہ سارے منحوس میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔۔؟؟“ وہ تلملا کر رہ گئی۔ یشما کی ٹینشن اسے بھول گئی تھی جبکہ جان اسے نئی ٹینشن میں ڈال گیا تھا۔۔ کچھ دیر بعد اسے سلمی بیگم کی کال آگئی۔۔ وہ نظرانداز نہیں کر سکتی تھی۔۔مجبوراً اسے اٹھانی پڑی۔۔
ہیلو کہتے وقت اسکا لہجہ پھر سے بھیگ گیا تھا۔۔ وہ اب پچھتا رہی تھی آخر کیوں آگئی تھی یہاں۔۔۔ لیکن پھر اسے خود پر قابو پانا پڑا۔۔ اور سلمی بیگم سے سر درد کا بہانہ کیا۔۔ وہ کافی دیر وہاں بیٹھی رہی۔۔ وہ اپنے دماغ کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ کافی پی کر اسکے اندر گرمائش اتری تو ذہن تھوڑا پرسکون ہوا۔ جب دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو اسے خود پر گہری نظروں احساس ہوا۔۔
اس نے سر اٹھایا تو سامنے ہی ایک کونے والی میز پر ایک لڑکی بیٹھی تھی وہ حیران رہ گئی۔۔
وہ لڑکی اس وقت گاؤن کے اوپر کوٹ پہنے ہوئی تھی۔۔ اس نے نقاب کیا ہوا تھا۔۔ وہ ایمان کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔
اس نے پہلی بار یہاں کسی لڑکی کو پردے میں دیکھا تھا۔۔ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔۔ ایک سنسنی خیز لہر اسکے وجود میں پھیل گئی۔۔ وہ نقاب کے اندر سے ہی کافی پی رہی تھی۔
ایمان نظریں جھکاگئی۔۔۔اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔۔ ایک پل کو کسی اپنے کا احساس ہوا۔۔
اس سے پہلے وہ وہاں سے اٹھتی وہ لڑکی اپنی جگہ سے اٹھ کر ایمان کی جانب بڑھی۔۔۔ ایمان نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ وہ قدم قدم چلتی اسکے پاس آئی۔۔
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟؟“ اس نے اردو میں پوچھا۔۔ ایمان نے حیرانی اور خوشی کے ملے جھلے تاثرات سے اسے دیکھا۔
”جی جی بالکل۔۔۔“ اور وہ اسکے سامنے بیٹھ گئی۔
”میں کائنات ہوں۔۔ UV یعنی یونیورسٹی آف ویلینسیا اور ریسا ہال دونوں سے میرا تعلق ہے۔۔ میں تمہیں دونوں جگہ پر دیکھ چکی ہوں۔۔۔ تم ام ایمان ہو نا۔۔؟؟“
اسے ایمان کا نام پتہ تھا۔۔ ایمان تو جیسے سارا دکھ بھول گئی۔۔ پردیس میں کسی اپنے کا مل جانا کیسا ہوتا ہے یہ بس وہی جانتی تھی۔
”جج۔۔جی میں ایمان ہوں میں نے آپ کو پہلی بار دیکھا ہے۔۔ ماشاءاللہ آپ باپردہ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔۔“ وہ تعریف کیے بنا نہیں رہ سکی۔۔ اسکی بس آنکھیں نظر آرہی تھی۔۔۔ کانچ جیسی شفاف آنکھیں۔ ایمان کی بات پر وہ مسکرا دی۔
”اپنا خدا ساتھ لائی ہوں۔۔ اسی لیے یہاں آکر بھی ایسی ہی ہوں۔۔ تمہارے ساتھ جو ہوا وہ میں جانتی ہوں۔۔ اس سب کی عادت ڈال لو۔۔ ہر بات پر رونا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔۔۔“ وہ اسے سمجھانے لگی تھی۔۔ جبکہ ایمان خاموشی سے اسے سنتی رہی۔۔ اسے تو اور کچھ آتا ہی نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
"Art Against Gender Based Violence"
یونیورسٹی میں نمائش جاری تھی اور اسے ابھی تک جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔۔ یہ ایک بہت بڑی نمائش تھی۔
ویلنسیائی شاعروں میں سے ایک، ماریا بینیٹو کی ایک لائن، اس نمائش کے لیے یہ ایک نظم "Criatura múltiple" یعنی ”ایک سے زیادہ مخلوق“اس نمائش کے لیے عنوان فراہم کرتی تھی جس میں وہ اپنی کثیریت، اپنی طاقت اور اپنی کمزوری کے اندر گہرائی تک اترتی تھی۔ یہ نمائش 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے اعزاز میں ڈیزائن کی گئی تھی۔ یہ نمائش مرکزی تھیم کے ساتھ مختلف مجموعوں سے مختلف فن پاروں کی نمائش کرتی تھی۔ صنفی تشدد کی مذمت اور خواتین کی آزادی کا مطالبہ، اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوتی ہے اور دنیا بھر میں ہر 11 منٹ میں ایک خاتون یا لڑکی کو خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد مختلف نجی مجموعوں (Pilar Citoler, Inelcom, DKW...) اور خاص طور پر انڈومنٹ فنڈز سے متعلق ٹکڑوں کے وسیع انتخاب کے ذریعے صنفی بنیاد پر تشدد کی تمام شکلوں میں مذمت کرنے والی ایک مثالی داستان تیار کرنا تھا۔ صنفی بنیاد پر تشدد کا خاتمہ نمائش کا آغاز پہلے موضوعی دائرے سے ہوتا ہے جس کا عنوان تھا۔۔
جنسی بنیاد پر تشدد کا خاتمہ لازمی ہے۔ اس جگہ میں، آپ کو ایسے ٹکڑے یعنی ایسے آرٹ ملیں گے جن کا مقصد یا تو صنفی بنیاد پر تشدد کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنا ہے یا پھر خواتین کے خلاف ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرنے والے ٹکڑے، تشدد کو وسیع انداز میں اور اکثر کافی باریک بینی سے مخاطب کرتے ہیں۔ یہ کام مختلف عنوانات سے لڑتے ہیں، جیسے کہ تشدد کو پناہ دینے والی جگہیں، میڈیا اور پریس، سماجی اصول جو خواتین کو شیطان بناتے ہیں، یا صنفی بنیاد پر تشدد کے ذریعے چھوڑے گئے جسمانی نشانات۔
وہ نمائش سے متعلقہ تفصیلات پڑھ رہی تھی۔۔ اسے ہمیشہ سے آرٹ کی نمائشیں پسند تھیں اور یہاں تو موضوع بھی کافی دلچسپی تھا۔ یہ نمائش بتانا چاہتی تھی کہ خواتین جنگی ہتھیار نہیں ہیں۔ یہ جگہ ناظرین کی توجہ، خواتین کے ذریعہ ہونے والے تشدد کی طرف مبذول کراتی تھی جسے اکثر اسی تناظر میں خاموش کر دیا جاتا تھا جس میں یہ تشدد ہوتا تھا۔ مسلح تنازعات میں، سب کی طرف سے ہونے والے تشدد کے علاوہ، خواتین ایک اضافی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جو ان کی جنس کے لیے مخصوص ہے۔ جیسا کہ انٹرنیشنل ایمنسٹی (اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر) کی طرف سے شائع کیا گیا ہے، لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے امکانات دراصل تنازعات والے علاقوں میں لڑکوں کے مقابلے میں 90 فیصد کم ہیں۔ اس موضوعی علاقے کا مقصد مسلح تصادم اور جنگ میں صنف کے کردار کو وہ مرئیت فراہم کرنا ہے جس کی وہ مستحق ہے اور اس بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے کہ ان حالات میں خواتین اور لڑکیاں کس طرح غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔
یہ نمائش تیس نومبر سے اٹھاری فروری تک جاری رہنے والی تھی۔ سارا شیڈول لکھا ہوا تھا۔ ہفتے کے ساتوں دن کا ٹائم دیا گیا تھا۔ اس نمائش کے ٹکٹ فری تھے البتہ ایک وقت میں کم ہی لوگ اندر جا سکتے تھے۔
”سینٹر کا نام بھی پتہ ہے کہ کہاں ہو رہی ہے یہ ایگزبیشن ؟؟“ وہ کبھی انسانوں کی طرح نہیں آ سکتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ اسکے پیچھے کھڑا تھا اور ایمان جو اپنا لیپ ٹاپ کھولے یونیورسٹی میں اس وقت جاری نمائش کے بارے میں پڑھ رہی تھی وہ چونکی۔
”جانتی ہوں۔۔ کلچرل سینٹر میں ہورہی ہے ایگزیبشن۔۔۔“ وہ چڑ گئی۔
”اور کن کن ہالز میں ہورہی ہے۔۔۔؟؟“ اس نے ایک اور سوال پوچھا۔۔ ہالز کے نام ہسپانوی اور مقامی زبان میں تھے۔۔ وہ یہاں آکر اب تک کچھ حد تک سپانش یعنی ہسپانوی سیکھ چکی تھی۔
Sala Acadèmia, Sala Estudi General and Sala Oberta
اس نے رٹا رٹایا سنا دیا۔
”ان کا مطلب بھی پتہ ہے؟؟“ وہ جلدی جان چھوڑنے والا نہیں تھا۔
“اکیڈمیا روم، جنرل اسٹدی روم اور اوپن روم۔۔۔ “
”ارے واہ۔۔ تم تو سیکھ گئی ہو۔۔“ وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ جانے وہ کہاں غائب ہوجاتا تھا اور پھر ایک دم واپس آجاتا تھا۔
”اب تو تم نے میرا قرض بھی چکا دیا ہے۔۔ اب کیا چاہیے؟؟“ اس نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے عبدل کی جانب دیکھا۔
”ہم دوست ہیں۔۔ کیا تم سے ملنے نہیں آسکتا۔۔۔؟؟“
”اور یہ کب ہوا۔۔۔؟؟“ وہ بھنویں سکیڑے پوچھنے لگی۔۔ اور تبھی اسکی نظر عبدل کے کانوں پر پڑی۔۔ اس نے کانوں میں چھید کروا کر بالیاں پہن رکھی تھیں۔
”یہ سب کیا ہے؟؟“ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
”کورین لڑکے ایسے حلیے میں رہتے ہیں مجھے لگا تمہیں پسند آئے گا۔۔۔“ وہ ایک دم کھڑا ہوا۔۔ کھلی پینٹ جس میں اسکے جوتے بھی چھپ گئے تھے۔۔ سفید ٹی شرٹ اور لانگ کوٹ پہنے وہ اسکے سامنے کھڑا تھا اور اب گھوم گھوم کر آگے پیچھے سے اپنا سراپا اس کو دکھانے لگا۔
ایمان اسے دیکھتے خود پر قابو نہ رکھ پائی۔۔ اور ہنسی کا فوارہ ابھرا۔۔ وہ اب بےطرح ہنس رہی تھی۔۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔۔
عبدل نے جبڑے بھینچ کر اسے دیکھا۔۔ وہ ابھی تک ہنس رہی تھی۔
”تمہیں کس نے کہا مجھے کورین لڑکے پسند ہیں؟؟“ وہ ہنسی روکنا چاہتی تھی پر روک نہ پائی۔
”تم خودی اس دن ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔۔۔اور۔۔اور وہ سیکنڈ لیڈ۔۔؟؟“ وہ اسکے یوں ہنسنے پر خفا ہوتا اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔ جبکہ ایمان پھر سے ہنسنے لگی۔
”اچھا اب چپ کرجاؤ۔۔۔ عبدل اپنی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔“ وہ چڑ گیا۔ ایمان اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”میں نے اگر ڈرامہ دیکھا تو اسکا یہ مطلب نہیں وہ مجھے پسند ہیں۔۔ یہ سب مردوں پر اچھا نہیں لگتا۔۔۔“ اس نے عبدل کے کانوں کی طرف اشارہ کیا۔۔ عبدل نے بےاختیار اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
”یہ سب تم پہلے بتا دیتی۔۔۔“ وہ غصہ ہوا۔۔ “خواہ مخواہ میں مجھے اتنا درد برداشت کرنا پڑا۔۔“
”میں نے کب کہا تھا یہ سب کرو۔۔۔“ اس نے الزام سے بری ہونا چاہا۔
”تم میری دوست ہو۔۔ میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا تھا اس لیے کیا۔۔“ اسکی بات سن کر ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”میں نے تم سے دوستی نہیں کی۔۔۔“
”میں پھر بھی تمہیں اپنی دوست مانتا ہوں۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”ایسے دوستوں کا کیا فائدہ جو آپ کے برے وقت میں آپ کے ساتھ نہ ہوں۔۔۔“ وہ ابھی تک خود پر لگے چوری کے الزام سے خود کو رہا نہیں کر پائی تھی۔۔ عبدل اسکی بات سن کر خاموش ہوگیا۔۔ جبکہ ایمان کے لبوں کی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔۔ وہ اپنا لیپ ٹاپ بیگ میں ڈالتی کلاس روم سے باہر نکل آئی۔۔ عبدل بھی اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
اس نے اپنے دونوں ہاتھ ابھی تک اپنے کانوں پر رکھے ہوئے تھے۔
”میں تمہیں انوائٹ کرنے آیا ہوں۔۔“
”کس لیے؟؟“ وہ رکی۔
”ہمارا میوزک بینڈ ویلنیسا میں اب تک کا اپنا سب سے بڑا شو کر رہا ہے۔۔ مجھے امید ہے تم آؤ گی۔۔۔“ وہ جلدی سے اسے بتاتا وہاں سے بھاگ گیا۔۔ اس نے اپنے کان چھپائے ہوئے تھے۔ اسے اپنے کانوں سے یہ بالیاں اتارنی تھیں۔۔ ایمان اس کے یوں بھاگنے پر مسکرا دی۔
”پاگل۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑاتی آگے بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
اس دن کءلء بعد سے ایمان یشما سے بالکل بات نہیں کرتی تھی۔۔ وہ بلا لیتی تو جواب دیتی نہیں تو وہ اسے نظرانداز ہی کرتی تھی۔۔۔ایک رات اچانک چیخوں کی آواز سن کر ایمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی صبح کے چار بج رہے تھے۔۔ یہ ہفتے کا دن تھا۔۔ یشما کی آفس سے چھٹی تھی۔۔ اور یہ چیخنے کی آواز بھی یشما کی تھی۔۔ اس نے شاید کوئی خواب دیکھا تھا۔۔
ایمان نے لائٹ جلائی۔۔
”آر یو اوکے؟؟“ اس نے یشماء سے پوچھا جبکہ اسے دیکھتے ہی یشما کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور وہ کمبل خود پر اوڑتے دوبارہ لیٹ گئی۔۔۔ ایمان نے افسوس سے اسے دیکھا اور واپس لیٹ گئی۔۔ پر نیند غائب ہوچکی تھی۔۔
کسی انسان کے ساتھ رہنا جس کے ساتھ آپکا کچھ بھی میچ نہ کرتا ہو کسی جہنم میں رہنے جیسا ہوتا ہے۔۔ اور یہ کوئی ایمان سے پوچھتا وہ کیسا محسوس کرتی تھی۔۔؟؟
اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں۔۔۔ اب اکـثر یشما ڈر کر اٹھ جاتی۔۔ وہ اب خود بھی ایمان کو نظرانداز کرنا شروع ہوگئی تھی۔۔ وہ آج کل کسی ٹوور پر گئی تھی اور ایمان ان دونوں سکون سے رہنے لگی تھی۔۔ وہ مرضی سے سوتی جاگتی تھی۔
اسے اب یشما کی رات کے وقت سرگوشیاں نہیں سننی پڑتی تھیں۔۔
اور عبدل تو جیسے اس دن سے دوبارہ غائب ہوگیا تھا۔۔ اسکا آخری سمیسٹر تھا۔۔ اور وہ جانے کہاں گم تھا۔۔ البتہ ایمان کو اتنا یاد تھا کہ اسکا میوزک بینڈ کوئی کنسرٹ کر رہا تھا۔۔۔انکا کوئی لائیو شو تھا۔۔
وہ اب اکیلی یونیورسٹی میں گھومتی رہتی۔۔ اسے کبھی کبھی کائنات مل جاتی تھی وہ زیادہ تر اپنی پڑھائی میں مگن رہتی تھی۔۔ ۔اس دن وہ ایگزبیشن دیکھنے جانا چاہتی تھی۔۔ لیکن اسے زیادہ نہیں پتہ تھا کہ ٹکٹس وغیرہ کہاں سے ملنے تھے۔۔ وہ انہی سوچوں گم تھی جب کائنات وہاں آئی۔۔ وہ سیاہ عبائے پر سیاہ کوٹ پہنے ہوئی تھی۔۔ اسکا چہرہ ہاتھ پاؤں سب کچھ چھپا ہوا تھا۔
اسے دیکھ کر اکثر ایمان کو رشک آتا تھا۔۔ کائنات کو یہاں آئے چار سال ہوگئے تھے۔۔۔ ماسٹرز کے بعد وہ اب ایم فل کر رہی تھی۔
”تم فری ہو؟؟“ اس نے آتے ہی ایمان سے پوچھا۔
“جی۔۔ ابھی فری ہوں۔۔ خیریت ہے؟؟“
”میں نے سوچا تمہیں آرٹ اگزیبشن دکھا لاؤں۔۔“ جانے وہ اسکے دل کی بات کیسے جان گئی تھی۔۔ ایمان فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔
”تمہاری روم میٹ اب ٹھیک رہ رہی ہے۔۔؟؟“ وہ اب ایمان سے پوچھنے لگی۔
“انسان کہاں بدلتے ہیں۔۔ وہ بھی تب جب انہیں آپ سے ذاتی طور پر کوئی خار ہو۔۔“
“لیکن وہ ایسا کیوں کرتی ہے؟؟“
“میں نہیں جانتی۔۔“ ایمان نے گہرہ سانس لیا۔
”تم جیوگرافی ڈیپارٹمنٹ دیکھنا چاہو گی؟ مجھے یہ پسند ہے۔۔ اسکی راہداریاں۔۔ جیسے سورج نکلتا ہے تو اسکی بڑی بـڑی شیشے کی کھڑکیوں سے چھن کر آتی دھوپ بہت اچھی لگتی ہے۔۔ خاص طور پر سردیوں کے موسم میں۔۔۔“
وہ دونوں اب اسی راہداری سے گزر رہی تھیں۔۔۔واقعی یہ راہداری کچھ الگ ہی کشش رکھتی تھی۔
”عبدل تمہارا کیا لگتا ہے؟؟“ اچانک ہی کائنات نے پوچھ لیا۔ اسکے اس سوال پر ایمان چونکی۔
”رشتہ تو کوئی بھی نہیں سوائے انسانیت اور سینئر ہونے کے۔۔۔ ہاں پر وہ اچھا انسان ہے۔۔“ ایمان نے صاف گوئی سے بتایا۔
”اس نے آج تک کسی لڑکی سے بات نہیں کی۔۔ نہ کبھی کسی سے دوستی کی ہے۔۔ وہ کافی منہ پھٹ ہے۔۔۔اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے کافی بدنام بھی ہے۔۔۔“
“ہاں جانتی ہوں۔۔۔“ جانے کائنات کیا کہنا چاہتی تھی۔۔۔ایمان الجھ گئی۔ وہ دونوں اب خاموشی سے چلنے لگیں۔۔
“تم یونیورسٹی کے بعد کیا کرتی ہو؟“ کائنات نے دوبارہ بات شروع کی۔
”کچھ خاص نہیں۔۔ کالمز لکھتی ہوں اور اسٹڈی کرتی ہوں بس۔۔۔“
”میں نےایک قرآن اکیڈمی جوائن کی ہوئی ہے۔۔ تم اگر سیکھنا چاہو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو۔۔ زیادہ فیس نہیں ہے۔۔“ یہ سنتے ہی ایمان کو خوشگوار سا احساس ہوا۔ اسے تو قرآن پاک کو جاننا تھا۔۔ اس نے فوراً ہامی بھرلی۔
وہ تین گھنٹے کائنات کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس آگئی۔
اسکا آج کا دن اچھا تھا۔۔ وہ کافی خوش تھی۔۔ اس نے پہلی بار آرٹ اگزیبشن دیکھی تھی۔۔ یہاں کی دنیا کتنی الگ تھی۔۔۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ سلفائٹس کیسے ہوتے ہیں؟؟ وہ بھلا دوسروں سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں۔۔؟؟ اور پھر اس نے جانا کہ جو لوگ دماغ کو ٹھکانے پر رکھتے ہیں جو اسکا صحیح استعمال جانتے ہیں وہ باقی دنیا کی بھیڑ سے نکل آتے ہیں۔۔۔۔
انکی قطار الگ ہوجاتی ہے۔۔ دنیا میں کھانے پینے، سونے اور ماڈرن بننے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔۔
وہ اکثر کسی کافی شاپ پر بیٹھے بوڑھے اور ادھیڑ عمر لوگوں کو غور سے دیکھتی۔۔
اکـثر اس نے نوے سالا لوگوں کو بڑا ہی فٹ دیکھا تھا۔۔ وہ ذہنی طور پر آج بھی بہت متوازن تھے۔۔
وہ اکثر کسی کوڑے دان کو کوڑا اٹھاتے دیکھتی اور رک جاتی۔۔ وہ اکثر سوچتی کہ آخر یہ لوگ یہ سب کرتے وقت کیا سوچتے ہیں؟؟ ان کی زندگی میں کچھ تو خاص ہوگا جو انہیں رکنے نہیں دیتا۔۔ اس نے ایک بار ایک خاکروب کو کام کے دوران ڈانس کرتے دیکھا۔۔ وہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ڈانس کر رہا تھا۔۔ اور وہ بہت مگن تھا۔۔ اس نے ایک بار ایک فقیر کو گاتے سنا۔۔۔ اسکی آواز خوبصورت تھی۔۔
تب اس نے جانا کہ لوگوں کی اس ظاہری دنیا کے علاوہ بھی ایک دنیا ہوتی ہے۔۔ جو ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہے۔۔ اور وہ دنیا بـڑی دلچسپ ہوتی ہے۔۔ اکثر اسے عبدل کا خیال آجاتا کہ اگر وہ ایسا نہ ہوتا۔۔ تو وہ کتنا کامیاب ہوتا۔۔۔
لیکن اسکی وہ کونسی دنیا تھی جو اسے اس ظاہری دنیا میں اتنا بدنام ہونے کے باوجود خوش رکھتی تھی۔۔۔؟؟؟
آج کل وہ نظر آنے والی یعنی ظاہری اور چھپی ہوئی یعنی پوشیدہ دنیا میں الجھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اسے لگتا تھا ہر انسان کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔۔۔ اور یہ کیسے کام کرتی ہے اسے اب اس پر لکھنا تھا۔۔۔ پوشیدہ دنیا۔۔۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن اسکے پہلے سمیسٹر کا رزلٹ آیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ دوسرے نمبر پر تھی۔۔ بہت کچھ سمجھ نہ آنے کے باوجود بھی اس نے کڑی محنت کی۔۔ اسکا سی جی پی اے اچھا آیا تھا۔۔ اور وہ خوش تھی۔۔
اس نے یہ خبر خوشی خوشی گھر سنائی تھی۔ وہ بےاختیار ہی عبدل کا انتظار کرنے لگی تھی۔۔
عبدل خود نہ آیا پر اس کا فون آگیا تھا۔۔۔آج رات اسکا شو تھا۔۔ ایمان کو یک دم یاد آیا۔۔ عبدل نے اسے آنے کا کہا تھا۔۔ اس نے وعدہ نہیں کیا پر اتناکہا کہ وہ آنے کی کوشش کرے گی۔
لیکن اس سے پہلے اس نے سوچا تھا کہ وہ کسی کافی شاپ پر جائے گی۔۔۔وہاں جا کر اچھی سی چائے یا کافی پیے گی اور اپنے کالم پر کام کرے گی۔۔
پوشیدہ دنیا۔۔ وہ اکثر کسی راہ چلتے فقیر سے بات کرنے کی کوشش کرتی۔۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ ظاہری دنیا میں کسی خاص مشن پر آئے ہوں۔۔۔ شاید ان کا حقیقی کردار کچھ اور ہو۔۔ شاید فقیر بننا انکی مجبوری ہو شاید یہ ان کا کام ہو۔۔۔
لیکن مقامی زبان اچھے سے نہ جاننے کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہوپاتی تھی۔
اور کبھی کبھی وہ خود پر ہنس دیتی۔۔
ایک دن وہ بریڈ اور جوس لے کر یونیورسٹی کے دوسری جانب بیٹھی ایک عورت سے ملنے گئی۔۔ اسکا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔۔۔وہ اکثر بس سٹاپ پر کسی کا انتظار کرتے نظر آتی تھی۔۔ ایمان نے اسے بریڈ اور جوس دیا۔۔۔وہ پہلے تو ایمان کو گھورتی اور پھر اس سے دونوں چیزیں جھپٹ لیں۔
”تمہیں یہ سب کیسا لگتا ہے؟؟“ ایمان نے سوال کیا۔۔ عورت جس کے بالوں کو بےترتیبی سے کاٹا گیا تھا اس نے حیرت سے ایمان کو دیکھا۔۔۔البتہ وہ کچھ باتیں سمجھتی تھی۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر بریڈ کھانے لگی۔
”اس ظاہری دنیا میں پاگل کا کردار ادا کرنا کیسا لگتا ہے۔۔؟؟ میں جانتی ہوں تمہاری حقیقی دنیا کچھ اور ہے۔۔۔“ وہ جو کئی پہروں سے بھوکی ہونے کی وجہ سے بریڈ پر ٹوٹ پڑی تھی ایمان کی بات سن کر جیسے وہ ساکت ہوئی۔۔ اس نے ایمان کو یوں دیکھا جیسے وہ نہیں بلکہ ایمان پاگل ہو۔۔
وہ پھر ہنسی۔۔ اور ہنستی چلی گئی۔۔ اور اسکی ہنسی غصے میں بدل گئی۔۔
”گو ٹو ہیل۔۔۔“ اس نےہاتھ میں پکڑا بریڈ اور جوس ایمان پر دے مارا اور گالیاں دیتی وہاں سے چلی گئی۔۔ ایمان اچانک افتاد پر گھبرا گئی۔۔ اس نے کیسے سوچ لیا تھا کہ وہ کسی کو کھانے کا لالچ دے گی اور وہ اپنی حقیقی دنیا اس پر آشکار کردے گا۔۔؟؟؟
اس کے بعد ایمان نے سوچ لیا تھا کہ وہ کتابیں پڑھے گی۔۔۔وہ جانے گی لوگوں نے اس کے بارے میں کیا لکھا تھا۔۔ اور اسی وجہ سے وہ اس وقت یونیورسٹی اور ریسا ہال کے درمیان بنے ایک چھوٹے سے کیفے پر بیٹھی تھی۔
وہ لائبریری سے کچھ کتابیں لائی تھی۔۔ اور اس وقت وہ چائے کا آڈر دیے پوری توجہ سے اپنے کام میں مگن تھی۔
کچھ دیر بعد اسکی چائے اور براؤنی اسکے سامنے رکھی تھی۔۔ اسے کھانے میں میٹھا پسند تھا۔۔ سوائے چاکلیٹس کے۔۔ وہ اسے کیک کی صورت میں لے لیتی تھی اور کسی صورت نہیں۔۔
اس نے براؤنی کا پہلا ٹکڑا منہ میں ڈالا تو اسے سب کچھ اچھا لگنے لگا۔۔ میٹھا کھانے کے بعد وہ ہمیشہ خود کو پرجوش اور زیادہ ایکٹیو محسوس کرتی تھی۔۔
وہ وہاں تقریباً دو گھنٹے بیٹھی رہی۔۔ اور کام کرتی رہی۔۔ وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔۔ چونکی تب جب بارش برسنے لگی۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھی۔۔ اسکے پاس چھاتہ نہیں تھا۔۔۔اور باہر آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔اسے جلد از جلد ہاسٹل پہنچنا تھا۔۔ اور آج تو عبدل کا شو بھی تھا۔
وہ خود کو بارش سے بچانے کی کوشش کرتی ہاسٹل پہنچی تو شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔ جیسے ہی وہ اپنے کمرے کی لائن میں داخل ہوئی آج پھر وہاں عجیب تماشہ لگا تھا۔۔
یشما اسکا سامان اٹھا اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک رہی تھی۔۔۔وہ بےطرح چیخ رہی تھی۔۔ وہ جلدی سے آگے بڑی۔۔ اسے دیکھتے ہی یشما حلق کے بل چلائی۔۔
”دور رہو مجھ سے۔۔۔ یوآر cursed۔۔۔“ یشما دو قدم پیچھے ہٹی۔۔ ایمان کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔۔ وہاں دو چار لڑکیاں کھڑی تھیں جو اب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔
”شی از اے وچ۔۔۔ میں ایک دن نہیں سوپائی۔۔ یہ ہر جگہ مجھے دکھائی دیتی ہے۔۔ میں یوکے میں بھی سکون سے نہیں رہ پائی۔۔ اسکے ساتھ کچھ ہے۔۔یہ عام انسان نہیں ہے۔ یہ Cursed ہے۔۔۔“
یشما کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو تیار تھیں۔۔ وہ ہیجانی انداز میں چلا رہی تھی۔۔ اسکا بس چلتا تو وہ ایمان کو جان سے مار دیتی۔۔
لیکن خود کے لیے Cursed کے الفاظ سن کر اسکی ٹانگوں سے جان نکل گئی اور وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔