maseel novel episode 15, maseel novel ep 15, maseel episode 15 , maseesl episode 15 pdf download ,maseel epi 15 by noor rajput, maseel ki episode 15 , maseel ki episode 15
ایما جانے کتنی دیر اپنا فون تھامے ساکت کھڑی رہی۔۔ اس نے سیاہی کو اپنے ارد گرد اترتے محسوس کیا۔۔ یوں جیسے سیاہ دھند نے اسکے گرد گھیرا ڈال لیا ہو۔۔۔۔
”کیا اسے فون کرنے والا مر چکا تھا۔۔؟ وہ کون تھا۔کیا اُسکی ذات اس قدر Cursed تھی کہ وہ لوگوں کے لیے موت کا پیغام لاتی تھی۔۔؟؟“ کتنے سوال تھے جو گولیوں کی طرح اسکے وجود میں پیوست تھے۔
"She is Cursed..
نکالو اسے یہاں سے۔۔۔ یہ۔۔ یہ انسان نہیں ہے۔۔ مجھے اس سے خوف آتا ہے۔۔
She is Cursed.."
کتنے ہی بےڈھنگے الفاظ روح کھانے والے Demons کا روپ دھارے اسکے ارد گرد ناچنے لگے۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنے حواس کھو دیتی اس اپنے ارد گرد آواز سنائی دی۔۔ کوئی اسے پکار رہا تھا۔
”ایما۔۔۔ ایما آر یو اوکے۔۔؟؟“ وہ جیسے حواسوں میں لوٹی۔ اس نے دیکھا اسکے سامنے ماثیل کھڑا تھا۔۔ وہ بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔
”کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا۔۔؟“ وہ اسے یوں فون تھامے بت بنے دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔۔ ایما نے جلدی سے فون بیگ میں ڈالا اور خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔۔ وہ نہیں چاہتی ماثیل اسے Cursed ہونے کو جان لے۔۔۔
اسکی وجہ سے شاید کوئی مر چکا تھا۔۔ یا مرنے والا تھا۔۔
سردی میں بھی اسکا چہرہ تپتپا گیا۔۔۔ سرخ پیشانی۔۔۔ تپش زدہ آنکھیں۔۔ اسے لگا تھا اسکا وجود کہیں اسکا ساتھ نہیں چھوڑ دے۔۔
پر وہ بھی ایما تھی۔۔۔ وہ درد سہہ جاتی تھی۔۔ اس نے جلدی سے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔
”کچھ نہیں وہ شاید کوئی رانگ نمبر تھا۔۔“
”تو اتنا پریشان کیوں ہوگئی ہو؟؟“ وہ اسکے لیے پریشان ہوا۔
لڑکی کے گانے کی آواز اب اسے نہیں سنائی دے رہی۔۔۔ اس نے اپنی سماعت کو جیسے بند کرلیا تھا۔۔ وہ بروکن اینجل سے دور جانا چاہتی تھی۔۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
”مجھے جانا ہے۔۔۔ میں لیٹ ہورہی ہوں۔۔۔ میرے اگزامز ہیں۔۔“ وہ جیسے رو دینے کو تھی۔
”میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔“ ماثیل کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسکا ہاتھ تھام کر لے جائے۔
”نہیں میں خود چلی جاؤں گی۔۔“ وہ اسٹیشن کی طرف بڑھی۔
”اچھا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔“وہ بھی اسکے ساتھ ہوا۔ ایما نے رک کر حیرت سے اسے دیکھا۔
”ڈونٹ وری مجھے لوگ چہرے سے نہیں پہچانتے کہ میں دا ماثیل ہوں۔۔۔“ وہ اپنی جیکٹ کے کالر سیدھا کرتا بولا۔ ایما نے کچھ نہیں بولا۔۔ وہ دونوں خاموشی سے اسٹیشن کی جانب بڑھ گئے۔
سات سمندر پار فون کرنے والا وہ شخص نہیں جانتا تھا کہ اس نے ایما کو کس تکلیف میں ڈال دیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان کا اگلے کافی دن عبدل سے سامنا نہیں ہوا۔۔ وہ اسے عجیب الجھنوں ڈال کر خود غائب ہوجاتا تھا۔۔ لیکن اس بار ایمان بھی اپنے مڈز میں اس طرح مگن ہوئی کہ عبدل کا خیال اسے کم ہی آیا۔۔ وہ اب تک کوئی دوست نہیں بنا پائی تھی۔۔۔ کبھی بنا ہی نہیں پائی تھی۔۔ وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور اب تک تو اس نے اپنا دھیان پڑھنے میں لگایا ہوا تھا۔
آج اسکا آخری پیپر تھا۔۔ وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔۔ وہ اپنے روم میں جا کر سونا چاہتی تھی۔۔۔گھر بات کرنا چاہتی تھی۔۔ اور کوئی اچھی سی مووی یا سیریز دیکھنا چاہتی تھی۔۔
یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا اسکے اگزامز ہورہے تھے اور وہ گھر سے دور تھی۔۔۔ گھر میں امی اور میزو اس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔۔ اسے ناشتہ، کھانا اور چائے سب وقت پر ملتا تھا۔۔ اس کے کپڑے میزو ہمیشہ پریس کر دیتی تھی۔۔ یہ ہاسٹل تھا۔۔ یہاں اسے خود کرنا پڑتا تھا۔۔
یہ سوچ سوچ کر وہ جانے کتنی بار روئی تھی۔۔
آخری پیپر والے دن وہ ہمیشہ گھر میں میزو اور مہربانو کے ساتھ سیلیبریٹ کرتی تھی۔
ایک بار تو اسکا دل کیا یہیں کہیں بیٹھ جائے۔۔۔ کمرے میں نہ جائے۔۔۔ یہیں کہیں کھو جائے۔۔ یا یہیں سے سیدھا اپنے گھر پہنچ جائے۔
اس سے پہلے وہ مزید کچھ سوچتی اسکا فون بج اٹھا۔۔۔ گھر سے کال تھی۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔
”اسلام علیکم امی۔۔۔“ اس نے فون اٹھا کر بات شروع کی۔۔ اسکی آواز بھرائی ہوئی تھی۔۔ وہ چاہ کر بھی خود پر قابو نہ رکھ پائی۔ سلمی بیگم اسکے رونے پر خفا ہوئی۔
”ایمان تم واپس آجاؤ۔۔ چھوڑ دوسب۔۔ دفع کرو۔۔ ہم اپنی زندگی ایسے ہی گزار لیں گے۔۔ لیکن میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔۔“ سلمی بیگم ناچاہتے ہوئے بھی رو دی تھیں۔
ایمان نے اسٹوڈنٹس کی بھیڑ سے گم ہوجانا ضروری سمجھا۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کوئی اسے روتا دیکھے اور اسکا مزاق اڑائے۔
لیکن ایمان سلمی بیگم کی بات سنتے ہی جیسے ہوش میں آئی۔۔ وہ یہاں رونے تھوڑی آئی تھی۔۔ وہ تو کچھ بننے آئی تھی۔۔۔اسے بہت کچھ کرنا تھا۔۔ اسے اپنی ماں اور اپنی بہن کو بہت اچھی زندگی دینی تھی۔۔
وہ کیسے بھول جاتی تھی۔۔؟؟ وہ جذباتی تھی اور ماں کے سامنے ہمیشہ ٹوٹ جاتی تھی۔ تبھی ان کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے فوراً بولی۔
”لو بھلا میں اتنے پیسے لگا کر یہاں آئی ہوں۔۔ اب کیا سب ضائع کردوں۔۔ میں ٹھیک ہوں امی۔۔ بس آپ لوگوں کی یاد آگئی۔۔ میں کیفے جا کر آپ کو ویڈیو کال کرتی ہوں۔۔ آپ کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھاؤں گی۔۔“ اس نے ریسا ہال جانے کا ارادہ ترک کردیا۔۔اور پھر وہ ان سے باتیں کرتی کیفے تک آئی۔۔ اس نے وہاں بیٹھ کر سینڈوچ اور چائے آڈر کی اور سلمی بیگم کو ویڈیو کال کی۔۔
”میری بچی کتنی کمزور ہوگئی ہے۔۔“ سلمی بیگم کا دل ڈوب گیا تھا۔۔
”ارے امی۔۔ پیرز ہورہے ہیں۔۔ آج ختم ہوگئے اب دیکھنا میں ٹھیک ہوجاؤں گی۔۔“ وہ ان سے باتیں کرتی رہی۔۔۔یوں جیسے دنیا میں کچھ اور ہو ہی نا۔۔۔
حمیزہ نے دو تین بار ان کی گفتگو میں گھسنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔۔
”ہنہہ۔۔۔یوں لگ رہا ہے جیسے ماں بیٹی نہیں بلکہ دو عاشق مل گئے ہوں۔۔“ اس کی بات پر ایمان نے اسے گھورا۔
”منہ بند کرو میزو۔۔“ اس نے حمیزہ کو ڈپٹا۔
”یہ آپکا خیال رکھتی ہے یا نہیں۔۔“ اب وہ سینڈوچ کھاتے سلمی بیگم سے پوچھنے لگی۔
”میں پہلے بتارہی ہوں آپ دونوں ماں بیٹی کی محبت دیکھ کر کوئی لڑکا آپ سے شادی نہیں کرے آپی۔۔ سارا پیار تو ادھر لٹا دیا آپ نے۔۔۔“ وہ کہاں باز آنے والی تھی۔۔ ابھی بھی غصے میں ایمان سے ناراض ہوتی وہاں سے غائب ہوگئی۔ اسکی بات سن کر ایمان مسکرادی۔
”میں منا لوں گی۔۔“
وہ اب چائے پی رہی تھی۔۔ اور اپنی ماں کی ساری باتیں یوں سن رہی تھی جیسے دنیا میں بولنے والا مزید کوئی انسان نہ بچا ہو۔۔ ہوتا تو بھی وہ اس کو میسر نہ ہوتی۔
وہ اکثر یہ سوچتی تھی کہ جانے وہ کونسی لڑکیاں تھیں جو اپنی ماں سے ناراض ہو کر ہفتہ ہفتہ بات نہیں کرتی تھیں۔۔ جو اپنی ماں سے بدتمیزی کر جاتی تھیں۔۔۔ ماں سامنے بیٹھی رہتی تھی کہ بیٹی بات کرے۔۔۔اور بیٹیاں فون میں لگی رہتی تھیں۔
بھلا ماں کوئی ایسی ہستی ہے جس کے ساتھ یہ سب کیا جائے۔۔۔؟؟
ایک گھنٹے بعد جب وہ کیفے سے باہر نکلی تو کافی حد تک پرسکون تھی۔ پھر اس نے اسٹوڈنٹس کے ایک گروپ کو عبدل کا نام لیتے اور دائیں جانب بھاگتے دیکھا۔۔ اسے تعجب ہوا۔۔ لیکن پھر وہ سمجھ گئی کہ عبدل کا پھر سے کوئی پنگا ہوگا۔۔
پر اسے اور حیرت ہوئی جب اس نے اسٹوڈنٹس کو گول دائرے میں کھڑا دیکھا۔۔۔
وہ وہاں سے پلٹ جانا چاہتی تھی۔۔ پر عبدل عبدل کی پکار پر اسکے قدم رک گئے۔۔ وہ بھی گروہ کی جانب بڑھی۔۔
اور اس نے پتھر کے بینچ پر کسی لڑکے کو بیٹھے دیکھا۔۔۔ وہ ہڈی پہنے ہوئے تھا۔۔۔ ہڈی کی کیپ اسکے سر پر تھی۔۔ بالوں کی چند لٹیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔۔ ہڈی کے بازو اس نے فولڈ کرکے اوپر باندھے ہوئے تھے۔۔۔ اسکے بازو پر ٹیٹو بنا تھا۔۔
وہ گٹار پر کوئی دھن بجا رہا تھا۔۔ ایمان بےاختیار ہی کھنچتی چلی گئی۔۔ اس نے پہلی بار میل ورژن میں یہ گانا سنا تھا۔
One Day Am gonna Fly Away
One Day when Heaven Calls My Name
اڑنا۔۔ إکاروس۔۔ گرنا۔۔۔فالن اینجل۔۔۔
یہ سب بھلا کب اسکا پیچھے چھوڑتے تھے۔ وہ میوزک سے زیادہ اس ٹیٹو کی جانب اٹریکٹ ہوئی تھی۔ وہ اسٹوڈنٹس میں گھستی گھساتی تھوڑا اسکے قریب آئی اور پھر اس بازو پر بنے ٹیٹو کو غور سے دیکھا۔۔ اسکی آنکھوں میں چمک ابھری۔۔
یہ ٹیٹو RJ کا تھا۔۔ ایک بند دائرہ۔۔ اسکے ایک کونے پر بنا بھیڑیا اور نیچے لکھا آرجے۔۔۔ یہ سب اسے کتنا پرکشش لگتا تھا۔۔ وہ اس ٹیٹو کو دیکھتی رہی۔۔
یعنی یہاں کوئی اور بھی تھا جو آرجے کا فین تھا۔۔
اس نے ہڈی والے لڑکے کا چہرہ دیکھنا چاہا پر وہ نظر نہیں آیا۔۔
وہ کھڑی رہی۔۔ اسے سنتی رہی۔۔ اور ٹیٹو دیکھتی رہی۔۔ مقصد صرف چہرہ دیکھنا تھا۔۔ وہ سب بھول گئی تھی کہ عبدل کو کیوں پکارا جارہا تھا۔۔ یاد رہا تو آرجے۔۔
اور پھر دو منٹ بعد جب طلسم ٹوٹا اور لڑکا اپنی جگہ سے اٹھا اور اسی کی جانب دیکھا تو وہ حیران رہ گئی۔۔۔
”عبدل۔۔۔“ اسکے لبوں سے پھسلا۔۔ ہاتھ میں پکڑا فون گرتے گرتے بچا تھا۔ وہ سنگر تھا۔۔؟؟ عبدل سنگر تھا۔۔
عبدل نام کی پکار پھر سے چاروں جانب گونج اٹھی۔۔ اور ایمان نے وہاں سے غائب ہوجانا ضروری سمجھا۔۔
وہ بھیڑ سے نکلی اور تیز تیز قدم اٹھاتی ڈیپارٹمنٹ سے باہر جانے لگی۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ عبدل اسکے پیچھے لپکا تھا۔۔
”ایمانے۔۔۔
ایمانے۔۔“
وہ اسے پکارتا۔۔ اسکے پیچھے آیا۔۔ اس نے گٹار کو کندھے پر ڈالا اور اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
”میں تمہیں بلا رہا ہوں۔۔۔“
”میرا نام ایمان ہے۔۔“
”جان (John) تمہیں ایمانے کہتا ہے۔۔“
”میں جان کو نہیں جانتی۔۔۔“
”جان میرا دوست ہے۔۔۔“
”تمہیں مبارک ہو جان۔۔“
اور وہ اسکے ساتھ ساتھ چلتے ہنس دیا۔۔ ہڈی اب چہرے سے ہٹ گئی تھی۔۔ وہ آج کچھ ڈھنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔۔ کم از کم پہلے سے تو ٹھیک حلیے میں تھا۔۔۔بال پونی میں قید تھے۔۔ البتہ چند بےڈھنگی سی لٹیں نکلی ہوئی تھیں۔۔۔ بال کہیں سے گرے تھے آج تو چند لٹیں سبز تھیں۔۔ وہ رک گیا۔ جبکہ ایمان اسی تیز رفتاری سے چلتی رہی۔
”جان کو تم ناپسند ہو۔۔“ وہ پھر سے اسکے پیچھے لپکا۔
”جیسے جان تو مجھے شہد لگتا ہے۔۔۔“ وہ خفا ہوئی۔ وہ پھر سے مسکرا دیا۔
”لیکن ایمانے نام تم پر بہت اچھا لگتا ہے۔۔“ اس نے یقین سے کہا۔
”ہنہہ۔۔ جیسے میں تمہاری بات پر یقین کرلوں گی۔۔“ اس نے طنز کیا۔
”سنو ایمانے میں نے تمہارے پیسے دینے ہیں۔۔“ اس نے یاد دلایا۔
”میں نے اپنے پیسے تمہیں معاف کیے۔۔۔“
”کیا مطلب میں کوئی فقیر ہوں۔۔؟؟“ عبدل کی بھنویں سکڑیں۔
”میں نے پھر بھی معاف کیے۔۔۔“ وہ اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔
”اب تم عبدل کی بےعزتی کر رہی ہو۔۔“ وہ بھی خفا ہوا۔
”عبدل پہلے ہی بدنام ہے۔۔۔“ وہ باز نہ آئی۔
”جان نے یہ سب سنا تو وہ برا مان جائے گا۔۔“
”چلو شکر ہے شاید اسی بہانے جان کی عزت نفس جاگ اٹھے اور وہ اپنے بدنام دوست عبدل کا سارا قرضہ چکا دے۔۔ جو اس نے مفت میں لوگوں سے بٹور بٹور کر کھا رکھا ہے۔۔۔“
”افف۔۔ کہاں سے آئی ہو تم۔۔؟؟“ اس بار وہ رک گیا۔
”پاکستان سے۔۔۔۔“ وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
”ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔“ وہ کہنا نہ بھولی تھی۔ جبکہ عبدل مسکراتی نگاہوں سے اسے جاتا دیکھتا تھا۔۔ عجیب لڑکی تھی۔ عبدل کا کنسٹرٹ تھا۔۔ اسے تیاری کرنی تھی۔۔ وہ کافی دیر کھڑا رہا اور پھر جان کے آنے پر دونوں وہاں سے چلے گئے۔۔ البتہ راستے میں عبدل اسے اپنے اور جان کے بارے میں ایمان کے خیالات سے آگاہ کرتا رہا۔۔ جس پر جان نے برا منہ بنایا جبکہ وہ ہنس رہا تھا۔۔ وہ کم ہنستا تھا۔۔ اور آج کافی وقت بعد جان نے اس کو یوں ہنستے دیکھ رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اس رات روز واپس آئی تو اس نے ایما کو کچن میں دیکھا وہ اپنے لیے رات کا کھانا بنا رہی تھی۔۔ وہ اپنا بیگ روم میں رکھتی سیدھا اسکے پاس آئی۔
”واؤ کیا بنا رہی ہو۔۔۔؟؟“ اور پھر پلیٹ میں رکھا بریڈ آملیٹ دیکھ کر اسکے خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ایما اب چائے کپ میں ڈالنے لگی۔۔ اس نے کافی حد تک خود کو سنبھال لیا تھا۔۔ وہ اس وقت شب خوابی کے لباس میں تھی۔۔ کھلا سا ٹراؤذر اور شرٹ جسکا رنگ پرپل تھا اور جو موسم کی مناسبت سے گرم تھا۔۔ اس نے بال فولڈ کرکے جوڑا بنایا ہوا تھا جبکہ چند لٹیں اسکی گردن کو چھو رہی تھیں۔
وہ اس وقت کافی فریش لگ رہی تھی۔۔۔ گول چہرہ ، سیاہ بڑی بڑی آنکھیں۔۔ سیاہ سلکی بال۔۔ اس نے کبھی بال رنگنے کا نہیں سوچا تھا۔۔ نہ کبھی لینز لگائے تھے۔۔ وہ ایسے ہی اپنے اصلی وجود کے ساتھ خوبصورت ترین لگتی تھی۔
”یہ لیونڈر کلر تم پر بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔ لیکن مجھے یہ بتاؤ ڈنر میں انڈہ بریڈ کون کھاتا ہے۔۔“
”میں۔۔۔“ وہ یک لفظی جواب کر اپنی پلیٹ اٹھائے اسکی جانب مڑی۔۔ ”ہٹو راستے سے مجھے بھوک لگی ہے۔۔“روز نے اسے جگہ دی۔۔ وہ اپنی پلیٹ اور چائے کا کپ لے کر لاؤنج میں آئی اور صوفے پر بیٹھ کر سکون سے کھانے لگی۔
”تمہیں بھی کھانا ہے تو بنا لو۔۔“ اس نے روز کو مفت کا مشورہ دیا۔۔ جبکہ روز اسے گھورتی رہی۔۔ پھر اچانک کچھ یاد آنے پر وہ مسکراتے ہوئے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
لاؤنج میں چھوٹا سا آتش دان جل رہا تھا اور یہ ایما نے ہی جلایا تھا۔ساری کھڑکیاں بند تھیں۔۔ باہر ٹھنڈی ہوا تھی جبکہ اندر کا ماحول کبھی پرسکون تھا۔ وہ اسے پرشوق نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔ کھلی کھلی سی روز کو اپنی جانب متوجہ پا کر ایما نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ جس پر روز نے متجسس ہوتے پوچھا۔
”آنٹی جینا بتارہی تھیں آج تمہارے ساتھ کوئی لڑکا آیا تھا۔۔“
یہ سنتے ہی ایما کو کوئی اچھو لگا۔ کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ روز کو اسکے لیے پانی لانا پڑا۔۔ اسکا چہرہ سرخ پڑچکا تھا۔۔ روز کو افسوس ہوا۔۔ وہ اسے اچھے سے جانتی تھی پھر بھی اس نے ایسا سوال پوچھ لیا۔ بھلا کیوں؟
”تم ٹھیک ہو۔۔؟؟“ جب ایما کی حالت نارمل ہوئی تو روز نے فکرمندی سے پوچھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔“ ایما نے چائے کا گھونٹ بھرتے جواب دیا۔
”مسٹر ماثیل تھے ساتھ۔۔۔“
”واقعی؟؟ تم انہیں اندر بھی لائی تھی یا باہر سے واپس بھیج دیا۔۔؟؟“ اسے اب ایما پر شک ہوا۔۔ وہ اتنی اچھی تو نہیں تھی۔
”میرا دماغ خراب تھا جو میں انہیں اندر لاتی۔۔۔ ویسے وہ بھی اپنی مرضی سے یہاں تک آئے تھے۔۔ مجھے چھوڑنے کے بعد چلے گئے۔۔“
”او مائے گاڈ ایما وہ میرے ٹیچر ہیں اور تم نے۔۔۔“ روز نے اپنا سر پکڑا۔
”اس طرح تو وہ میرا باس بھی ہے اب کیا سر پر بٹھا لوں۔۔“ وہ چڑ گئی۔
”یار پھر بھی۔۔۔“ روز کو اب پوری رات یہی پچھتاوہ رہنا تھا۔
”آنٹی جینا کو اور کوئی کام نہیں ہوتا کیا۔۔ بس آنے جانے والوں پر نظریں رکھتی ہیں۔۔ مجھے لگا تھا پاکستان میں ہی ایسے ہمسائی آنٹیاں ہوتی ہیں پر یہاں بھی یہی حساب ہے۔۔“ روز کو اس کے اس طرح چڑنے پر ہنسی آگئی۔
”وہ اس لیے حیران تھیں کہ تمہیں کبھی کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا نہیں ہے۔۔“
”اللہ بچائے ایسے لوگوں سے۔۔“
”سچ میں مسٹر ماثیل تمہیں چھوڑنے یہاں تک آئے تھے۔۔؟؟“ روز جیسے یقین نہ ہوا۔ اسکی بات سن کر ایما نے گہرہ سانس فضا میں خارج کیا۔
”منع کیا تھا میں نے۔۔۔ لیکن وہ انسان ڈھیٹ ہے۔۔“
اب روز مسٹر ماثیل کے ذکر پر پرجوش سی ہوگئی تھی۔
”ویسے ایما! مسٹر ماثیل اچھے انسان ہیں۔۔ ان کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔۔۔“
”سوچنا بھی مت تم منگنی شدہ ہو۔۔۔“ ایما نے آنکھیں نکالیں۔۔۔ وہ کتنے مزے سے بریڈ کھارہی تھی۔ جیسے اس سے زیادہ لذیذ کھانا کوئی نہ ہو۔۔ اور ایما ہمیشہ اس سے یہی کہتی تھی حلال رزق چاہے سوکھی روٹی مرچ ہی کیوں نہ ہو اسے کھانے میں کیسی شرم۔۔ اسکا ذائقہ وہی جانتا ہے جو حلال کھاتا ہے۔
”پاگل۔۔ اپنی بات نہیں کر رہی۔۔“ روز نے اسکے سر پر چت لگائی۔۔ ایما اس سے چھوٹی تھی۔۔ لیکن وہ ہمیشہ بڑی بنی رہتی تھی۔
”میں بھی منگنی شدہ ہوں۔۔“ ایما نے دھماکہ کیا۔
”واٹ۔۔۔“ روز کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ”یہ کب ہوا؟؟“
”بچپن میں۔۔“ ایما کتنے مزے سے بیٹھی تھی۔۔ اب اس نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا۔ موسم کی خبریں جاری تھیں۔
”تم نے کبھی بتایا نہیں۔۔“ روز سنجیدہ ہوگئی۔ وہ غور سے ایما کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس پر کچھ کھوج رہی تھی۔۔ سچ یا جھوٹ۔۔ جبکہ ایما اسے نظرانداز کرتی ٹی وی کی جانب متوجہ تھی۔
”فائدہ نہیں۔۔۔“ وہ بنا اسکی جانب دیکھے جواب دینے لگی۔
جانے وہ نمی تھی یا کچھ اور جو روز کو اسکی آنکھوں میں تیرتی دکھائی دی۔۔ اس سے پہلے وہ مزید کچھ پوچھتی ایما جھٹکے سے اٹھ کر کھـڑی ہوئی۔
”تم ٹھیک ہو؟؟“ روز نے اسکا ہاتھ پکڑا۔
”ارے پاگل۔۔ صبح میرا پیپر ہے۔۔ مجھے تیاری کرنی ہے۔۔ اب جانے دو مجھے۔۔“ ایما نے مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ کی جانب اشارہ کیا تو روز نے اسے چھوڑ دیا۔
وہ پہلے برتن اٹھا کر کچن میں گئی اور پھر وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں۔۔ جبکہ روز وہیں بیٹھی رہ گئی تھی۔ کیا تھی وہ لڑکی۔۔ اسے کبھی سمجھ نہ آسکی۔
✿••✿••✿••✿
اگلا ہفتہ وہ حد درجہ بزی رہی۔۔ جہاں سردی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دن چھوٹے ہوتے جارہے تھے وہیں ایما کا کام بڑھ گیا تھا۔۔ صبح وہ پیپر دے کر آتی اور پھر اسے انسٹیٹیوٹ میں وقت گزارنا پڑتا۔۔
اسٹوڈنٹس کی اب پریکٹس چل رہی تھی۔۔ اسکے بعد وہ فری تھے۔۔ ایک آخری فیئر ویل ہونا تھا۔۔ پھر وہ آزاد ہوجاتی۔۔
اور اس وقت بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ آگے کیا کرے گی؟؟؟ یہ آخری سمسٹر تھا پھر اسکے بعد وہ گھر چلی جائے گی یا پھر مزید پڑھے گی۔۔ لیکن ابھی تو کچھ وقت تھا۔۔ اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو ذہن سے نکالا۔۔ وہ ویلینیسا سے جانا نہیں چاہتی تھی اسے اب یہاں رہنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔۔
ادھر انسٹیٹیوت میں آج آخری دن تھا۔۔ جانے ماثیل اگلا کورس کب شروع کرتا۔۔ کرتا بھی یا نہیں۔۔
اور وہ ماثیل سے چھٹکارا بھی چاہتی تھی پر اسے جاب کی ابھی ضرورت تھی۔۔ روز کے پیسے لوٹانے تھے اسے۔۔ اور بہت سارے حساب اسے برابر کرنے تھے اور وہ الجھی ہوئی تھی۔ جب انسان اپنا بوجھ خود اٹھانا شروع کرتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے کی قیمت کتنی چکانی پڑتی ہے۔۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب ایک ساٹھ سالا اسٹوڈنٹ اسکے قریب آئی۔ ایما اسکے احترام میں کھڑی ہوگئی۔
”مس ایما۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔“
کچھ لوگ عمریں گزار دینے کے بعد جینے آتے ہیں۔۔ جوان ماں باپ اپنے شوق ایک طرف رکھ کر اپنے بچوں کے لیے جیتے ہیں اور پھر جب وہ کچھ نہ کر پائیں۔۔ جب بوڑھے ہوجائیں۔۔تب وہ جینے نکلتے ہیں۔۔ جب وقت ختم ہونے والا ہوگیا ہو۔
”جی جی بولیں۔۔“ وہ متوجہ ہوئی۔
”جو ہے بس یہی ہے۔۔۔ کیا پتہ کل ہوگا یا نہیں۔۔ کل ہم ہوں گے یا نہیں۔۔ آج کو جئیں۔۔۔ کل کو بھول جائیں۔۔ خوش رہا کریں۔۔“ اسکی بات سن کر ایما مسکرا بھی نہ پائی۔۔ وہ عورت چلی گئی۔ ایما کو تکلیف میں ڈال کر۔۔۔
وہ تو کبھی جی نہیں پائی تھی۔۔ بچپن خوف کے اثر میں گزرا۔۔ لڑکپن تکلیف میں۔۔ اور اب نوجوانی کا حصہ پریشانیوں میں بسر ہورہا تھا۔ لیکن اس نے ایک پل کو سوچا تھا کہ وہ اب جینے کی کوشش کرے گی۔۔ وہ ہولے سے مسکرائی۔ اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
✿••✿••✿••✿
خاموشی
اپنے آپ میں بہت سی
باتوں کا مجموعہ۔۔۔۔۔۔
یہ بھی کبھی کبھی تنہائی
میں بہترین ساتھی ہے۔۔۔۔
سردیوں کی بارش میں ٹھنڈے
فرش پہ چلتی میں اپنی ہی خاموشی
کو سنتی میں
کبھی اسے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھی اپنی ہی
سرگوشیوں کو سنتی میں
اور کبھی اپنے ہاتھوں کو اس ٹھنڈے فرش پہ رکھتی میں
محسوس کرتی کہ
یہ خاموشی مجھ سے کیا باتیں کرتی ہے۔۔۔۔۔۔
تنہا برستی بارش میں اکیلے سڑک پہ چلتی
میں۔۔۔۔۔
سنتی ہوں خاموشی میں ان بارشوں کی بوندوں
کا شور۔۔۔۔
جو کہ دل میں موجود شور سے لاکھ گنا بہتر اور
پرسکون کرنے والا۔۔۔۔
وہ بنا آستینوں کے، سلک کا پتلا سا گاؤن پہنے ٹھنڈے فرش پر یوں بیٹھی تھی جیسے دنیا میں کچھ نہ بچا ہو۔۔
اس وقت اسکے محل جیسے گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔۔ وہ کچھ دیر بیٹھی رہی پھر لیٹ گئی۔۔ اوپر کھلا آسمان تھا۔۔ لیکن اسے دھند کے سواء کچھ نظر نہ آیا۔۔
ہڈیاں جما دینے والی ٹھنڈی ہوا اسے سکون بخشنے لگی۔۔
وہ ہیزل ملک جس کے ایک اشارے پر بڑے بڑے لوگ اپنی دنیا لٹا دیتے کون جانتا تھا وہ اپنے گھر میں ایسے رہتی تھی۔۔ وہ روز رات کو اپنے اندر جلتی آگ کو کم کرنے کی خاطر، اپنے ہی وجود کو یخ بستہ ہواؤں کے سپرد کر دیتی تھی۔۔اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی پر تاروں کی چمک اسے کہیں نظر نہ آئی۔۔۔شاید اسکی زندگی میں اس دھند کے سواء کچھ نہ بچا تھا۔۔ دونوں ہاتھ سینے پر رکھے چمکتے فرش پر یوں لیٹنا جیسے معمول کا کام ہو بس ہیزل ہی کر سکتی تھی۔۔
اسکا فون جو دائیں جانب رکھا تھا کب سے بج رہا تھا۔۔ وہ جانتی تھی فون کرنے والا کون تھا۔
پر وہ اٹھا نہیں رہی تھی۔۔ وہ اٹھانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
اس سوچ کا احساس کہ فون کرنے والا کون تھا اور کیوں فون کیا جارہا تھا۔۔ یہ احساس اسے کچوکے لگا رہا تھا۔۔ وہ تکلیف میں تھی۔۔۔اور اسی تکلیف کے باعث آنسوں اسکی کنپٹی سے بہتے فرش پر قطرہ قطرہ گرنے لگے۔۔
بیس منٹ ایسے ہی گزر گئے۔۔۔ جب اسے اپنا وجود جمتا محسوس ہوا اس نے فون اٹھایا۔۔ اور بےاختیاری میں ایک نمبر ڈال کیا۔۔۔
بیل جارہی تھی۔۔ کسی نے نہیں اٹھایا۔۔ اس نے پھر ملایا۔۔۔ اس بار اٹھا لیا گیا۔۔
”عبدل ایسی لڑکی کو کیا کرنا چاہیے جس کا باپ اپنے فائدے کے لیے اسکا سودا کرنا چاہتا ہو؟؟“ اس نے بائیں ہاتھ کی پشت رگڑ کر آنسو صاف کیے اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔
”جو انسان اپنے لیے نہیں لڑ سکتا۔۔ اسے چاہیے کہ وہ مر جائے یا اس کو مار دے جو اسکے وجود کا تماشہ بنانے کی کوشش کرے۔۔۔“
عبدل کی سنجیدہ آواز گونج کر رہ گئی۔۔۔ سائیں سائیں کرتی ہوا اسکے پاس سے سرگوشیاں کرتی گزرنے لگی۔
دوسری جانب سے جواب ملنے پر وہ اٹھی اور کسی روبوٹ کی مانند اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
آج رات اگر وہ خود کا یا کسی اور کا قتل بھی کر دیتی تو اُسے فرق نہ پڑتا۔۔۔!
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔