Maseel novel episode 17 - sulphite 02

 

Maseel novel episode 17 by noor rajput

سوگوار شام خوفناک رات
ساحل سمندر کے کنارے لاس ایرینا کے ایک حصے کو اس قدر خوبصورتی اور دلکشی سے سجایا گیا تھا کہ شنایا یہ سب دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔ باربی کیو جاری تھا۔۔
لکڑی کا بنایا گیا ہٹ Hut اور اس پر ذرد روشنیاں ماحول کو الگ ہی روپ بخش رہی تھیں۔۔ بیٹھنے کے لیے ایک جانب لکڑی کی کرسیاں اور میز رکھے گئے تھے۔۔ دل کی شکل میں چاروں جانب مشعلیں جلا کر ایک حصے کو کور کیا گیا تھا۔۔
سردی سے بچنے کے لیے لکڑیاں جلائی گئی تھیں۔۔ اسکے علاوہ اس چھوٹے سے Hut میں چھوٹا سا میز رکھا تھا جس پر پھول خوبصورتی سے سجے ہوئے تھے۔۔
وہاں گھومنے پھرنے والے مقامی اور سیاہ لوگ حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔۔ کافی لوگوں نے تو تصویریں بھی لینا شروع کردی تھیں تھیں۔
”اتنی تیاری۔۔۔ وہ بھی ایما کے لیے۔۔۔“ شنایا حسد ، رشک اور دکھ کی آگ میں جلنے لگی۔ آج سے پہلے ماثیل کا اسٹوڈنٹس کے ساتھ اتنا انٹریکشن نہیں ہوا تھا جتنا اس بیچ کے ساتھ تھا۔۔ اور نہ وہ کبھی اسٹوڈنٹس کی کسی پارٹی میں گیا تھا۔۔ اور نہ شنایا نے اسے کبھی اتنا پرجوش اور خوش دیکھا تھا۔۔
وہ خود سیاہ رنگ کے ڈریس میں بہت ہی شاندار اور باوقار لگ رہا تھا۔۔ سیاہ بالوں کو ایک طریقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔
شنایا خود کسی سے کم نہیں تھی لیکن اسے ماثیل کے چہرے کی چمک کے سامنے سب پھیکا پھیکا لگنے لگا۔۔
آٹھ بج چکے تھے۔۔ سب آچکے تھے سوائے اسکے۔۔۔
وہ آج خود کوکنگ کر رہا تھا۔۔ وہ جانتا تھا ایما سمندری غذا کم ہی کھاتی تھی اسی لیے ویلنسیا کی مشہور ڈش اپنے طریقے سے بنا رہا تھا۔۔ وہ Paella بنا رہا تھا۔۔ وہ ایک میز کے سامنے کھڑا تھا۔۔ کوٹ کے کفوں کو فولڈ کیے وہ پوری توجہ سے اپنے کام میں مگن تھا۔۔ بار بار اسکی نگاہیں ایما کا راستہ تک رہی تھیں۔
اسکے سامنے میز پر چاول، زعفران، سبزیاں اور چکن کے ساتھ ساتھ باقی سارا سامان رکھا تھا۔۔
شنایا کو لگا اسے وہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔ پر وہ جا نہ سکی۔۔ ماثیل کا وجود اسکے لیے مقناطیس کی مانند تھا۔۔ وہ اسے خود سے دور جانے نہیں دیتا تھا۔۔
اسے مگن سا کام کرتے دیکھ کر وہ اسکے قریب آئی۔۔
”میری ہیلپ چاہیے۔۔؟؟“
”ارے نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔ میں بہت ٹائم بعد کوکنگ کر رہا ہوں۔۔ بس سب ٹھیک بن جائے۔۔۔“ وہ مصروف سا جواب دینے لگا۔۔ چہرے پر الگ ہی چمک تھی۔
”تم اس میں سمندری گوشت کیوں نہیں ڈال رہے؟؟“ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
”ایما کو نہیں پسند۔۔ اور ویسے بھی مجھے اسکے لیے حلال کھانا بنانا ہے۔۔“
مصالحہ بھونتے ہوئے اسے یک دم اچھو لگا اور وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔ اسے کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔ وہ جھک گیا۔
”تم ٹھیک ہو؟؟“ شنایا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔۔ اسے پانی پلایا۔ اسکا سانس جیسے اکھڑ سا گیا تھا۔۔
وہ کتنی دیر لمبے لمبے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
”تمہیں یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ہم کسی ریسٹورینٹ چلے جاتے۔۔۔“ وہ خفا ہوگئی۔۔ رہ رہ کر ایما نامی بلا پر غصہ آرہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”روز تمہیں پتہ ہے میں ایسے کپڑے نہیں پہنتی۔۔ یہ مجھ پر سوٹ نہیں کریں گے۔۔۔“ وہ احتجاج کرتی رہی جبکہ روز نے اسکی ایک نہ سنی۔۔
اس وقت اس نے ایما کو موو رنگ کی لانگ سکرٹ پہنائی تھی۔۔۔اس پر ہم رنگ چھوٹا سا بلاؤز۔۔ نیچے لانگ بوٹس پہنے جب اس نے ایما کو تیار کرکے اسے آئینہ کے سامنے کھڑا کیا تو ایما خود کو دیکھ کر ساکت رہ گئی۔۔
وہ بالکل کسی فیری ٹیل کی شہزادی جیسی لگ رہی تھی۔۔
”دیکھو کتنی اچھی لگ رہی ہو۔۔ کپڑے بھی پورے ہیں خوبصورت بھی۔۔۔“ وہ واقعی اس وقت کھلے بالوں اور ہلکے پھلکے سے میک اپ میں اس طرح کا ڈریس پہنے نہایت حسین لگ رہی تھی۔۔
”کاش تم میرے ساتھ ایسے ہی چلتی۔۔ مسٹر ماثیل تمہیں دیکھ کر بےہوش جاتے۔۔“ روز شرارت سے مسکرائی تو ایما نے اسے گھورا۔
”اور یہی میں نہیں چاہتی۔۔۔“ ایما نے بالوں کو باندھ کر پونی کی۔۔ اور سیاہ رنگ کا درمیانے سائز کا کوٹ اٹھا کر پہن لیا۔۔ باہر کافی ٹھنڈ تھی۔۔ اسکے بعد اس نے موو کلر کا ہی سکارف سر پر جمایا تاکہ ٹھنـڈ سے بچی رہے۔۔
وہ اب باوقار لگنے لگی تھی۔۔ روز اسے دیکھ کر مسکرادی۔۔
✿••✿••✿••✿
تم نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لٹادی ہم نے
وہ نظریں نہ ہٹاپایا۔۔۔ اس نے جتنی تیاری کی سب کچھ اس نازک لڑکی کے وجود کے سامنے پھیکا لگنے لگا۔۔
ایک بار تو شنایا بھی چونکی تھی۔۔ جانے وہ ایما کی کس ادا پر دل ہار گیا تھا۔۔ دلکش تو واقعی تھی۔
ماثیل نے پھولوں کے گلدستے سے اسکا استقبال کیا تھا۔۔ جبکہ ایما کو حد درجہ شرمندگی ہورہی تھی۔۔ کیا یہ سب اسکے لیے کیا گیا تھا۔۔؟؟ پر کیوں؟
تمام اسٹوڈنٹس کی نظر میں اسکے لیے ستائش تھی۔۔۔اور ماثیل کی آنکھیں جانے کونسی الوہی چمک سے لبالب تھیں۔
”ایما یہ میری دوست ہے شنایا۔۔“ اس نے ایما سے شنایا کا تعارف کروایا۔ شنایا جو خود بھی بلیک ڈریس میں تھی اس بات پر اس نے ماثیل کا بازو پکـڑتے جتاتے لہجے میں جواب دیا۔
”اکلوتی فی میل دوست۔۔۔“ ایما بس مسکرادی۔۔ اور ماثیل بھی۔
”اور شنایا انہیں تو تم جانتی ہی ہو۔۔“
”ہاں۔۔ کان پک گئے ہیں میرے ایما ایما سن کر۔۔۔“
ایما کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔۔ شنایا اسے خود سے بہت بےزار لگی تھی۔ وہ ابھی تک اسکا بازو تھامے کھڑی تھی۔۔ ساحل سمندر سے آنے والی ہوا میں اسکے خوبصورت بال اڑ رہے تھے۔۔۔وہ دراز قد تھی ماثیل کے ساتھ ایک دم پرفیکٹ لگ رہی تھی۔۔ وہ شنایا کو دیکھ رہی تھی۔۔ ہاتھ میں ابھی تک پھول تھے۔۔
روز اپنے فرینڈز کے پاس جا چکی تھی۔ اسے اپنا آپ وہاں اضافی محسوس ہوا۔۔
وہ پلٹنے ہی لگی تھی جب ماثیل نے اسے روک لیا۔۔ اس نے شنایا کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑایا اور ایما کو سامنے آگ کے پاس جلتی میز کی جانب اشارہ کیا۔۔
”میں نے تمہارے لیے کچھ بنایا ہے۔۔ مجھے امید ہے تمہیں پسند آئے گا۔۔“ وہ کسی جنٹلمین سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔اس نے ایما کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔ ایما نے روز کو دیکھا وہ مصروف ہوگئی تھی۔۔ اسے ماثیل کے ساتھ جانا پڑا۔۔
وہ پیک ہو کر آئی تھی پھر بھی اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔ وہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ پائی تھی آخر لڑکیاں اتنی سردی میں کھلے سر اور پتلے کپڑوں میں کیسے رہ لیتی تھیں۔۔؟؟
اسکی سردی تو شروع ہی سر سے ہوتی تھی۔
ماثیل کے ساتھ چلتے ہوئے اسے اپنے دل کی دھڑکن بڑھتی محسوس ہوئی۔۔ اسکے وجود سے اٹھتی قیمتی پرفیوم کی خوشبو الگ ہی ماحول بنا رہی تھی۔
شنایا نے جلتی آنکھوں سے دونوں کو دور جاتے دیکھا۔۔۔
سمندر کی لہروں کا شور عروج پر تھا۔۔ اسے لگا تھا ایما کو اٹھا کر سمندر کی ایسی گہرائیوں میں پھینک دے جہاں سے وہ کبھی نکل نہ پائے۔۔ پر وہ ایسا نہ کرپائی۔۔۔ صرف مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
ہیزل کی بات سن کر عبدل جیس ساکت ہوا تھا۔۔
شادی۔۔۔
شادی کا لفظ اسکی سماعت میں گونجنے لگا۔ وہ بھلا کیوں کسی کی زندگی تباہ کرتا۔۔۔ اسکا شادی سے کیا تعلق۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔۔ ہیزل نے اب تک اسکا بازو تھام رکھا تھا۔۔ اسے اپنی پشت پر ہیزل کی نگاہوں کی تپش باخوبی محسوس ہورہی تھی۔۔ وہ اسکی جانب التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
عبدل نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔
”بولو نا عبدل۔۔ شادی کرو کے مجھ سے۔۔۔؟؟“
”نہیں۔۔۔“ سرد جواب حاضر تھا۔
”کیوں؟؟“ وہ پھر سے رو دینے کو تھی۔۔ ڈر بھی تھا کہ کہیں عبدل اس سے خفا ہو کر غائب نہ ہوجائے۔
”میں کسی کی زندگی برباد نہیں کرسکتا۔۔۔“ وہ اسکی جانب دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔
”میں تو پہلے ہی برباد ہوں۔۔۔ ٹوٹ چکی ہوں۔۔ شاید تم میرے ٹکڑے سیمٹ سکو۔۔۔“
”فار یور انفارمیشن مس ہیزل ملک۔۔۔ میں کوئی ایسا لڑکا نہیں ہوں جو کسی کے درد کو بانٹ سکے یا کم کرسکے۔۔ اور مجھے کسی لڑکی کو اسکے دکھوں سے نکالنے میں کوئی لچسپی نہیں ہے۔۔ تم اس صرف اس لیے ایسا کہہ رہی ہو کیونکہ تمہیں ایک سہارا چاہیے۔۔ جبکہ میں تمہارا سہارا نہیں بن سکتا۔۔۔“
ہیزل کے دل پر گھونسا پڑا۔
”تم مجھے اچھے لگتے ہو۔۔۔ تمہارا ساتھ مجھے پسند ہے۔۔۔“
”یہ تمہاری مجبوری ہے۔۔۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہیں دنیا سے بچالوں گا۔۔۔پر ایسا نہیں ہے۔۔ اگر تم مصیبت میں نہ ہوتی تو عبدل کبھی بھی تمہاری پہلی تو کیا آخری چوائس بھی نہ ہوتا۔۔“ کیا کسی نے اس کو بتایا وہ کتنا سفاک تھا۔۔ ؟؟ وہ یوں بولتا دل کے ارمانوں کا خون کر رہا تھا۔۔ پھر وہ جھٹکے سے دروازہ کھولتا گاڑی سے باہر نکل گیا۔ اس نے پوری قوت سے دروازہ واپس دے مارا۔۔ وہ لرزتے وجود کے ساتھ اکیلی بیٹھی رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
تجھ پر اٹھیں ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم کیوں عمر________گنوادی ہم نے
وہ اس سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی اور وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا پارہا تھا۔۔ اس نے بامشکل ہی کچھ کھایا تھا۔۔ ماثیل نے اسے آج سے پہلے اتنا کنفیوز کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔ اسکی پلکیں لرز رہی تھیں۔۔ چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔۔
اور ایما کو واقعی اپنے چہرے سے آگ نکلتی محسوس ہورہی تھی۔۔ انکا میز لکڑی کی بنی اس بنا چھت والی ہٹ کے قریب ہی رکھا تھا جس پر مشعلیں لٹکی تھیں۔۔
اسکے اندر کھڑے ہونے کے لیے ایک چھوٹا سا اسٹیج بنا تھا جس پر بامشکل دو لوگ کھڑے ہو سکتے تھے اور ایک چھوٹا میز رکھا تھا۔۔ جس پر پھول بچھے تھے۔۔
اس اسٹیج پر باری باری سب اسٹوڈنٹس کھڑے ہو کر انسٹیٹیوٹ میں گزرا اپنا وقت بتا رہے تھے۔۔ وہاں انہوں نے کیا کیا سیکھا۔۔ کیا کیا جانا۔۔ کیا کیا انجوائے کیا۔۔
”میں نے مس ایما سے زیادہ خاموش اور بےنیاز انسان آج تک نہیں دیکھا۔۔“ یہ ایک 32 سالا شخص تھا جسکی ایما سے کبھی بات نہیں ہو پائی تھی۔
”کوئی اتنا خاموش کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔“ سب کی گردنیں ایما کی جانب مڑ گئیں۔۔ وہ گڑبڑا گئی۔۔
اسکی یہ گڑبڑاہٹ ماثیل کو بہت پسند آئی۔۔ وہ اب ہتھیلی پر ٹھوڑی جمائے اسکے چہرے کے سارے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں جذب کر رہا تھا۔۔ جبکہ ایما دل ہی دل میں عہد کرچکی تھی کہ آج کے بعد وہ کبھی ماثیل کے سامنے نہیں آئے گی۔
کھانے کے بعد اب قہوے کا دور چلا تھا۔۔ کھانا آڈر کیا گیا تھا۔۔ صرف ماثیل نے ایما کے لیے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا۔۔ ویٹر قہوے کی ٹرے تھامے انکے پاس آیا تو ماثیل بول پڑا۔
”میڈم کے لیے چائے لائیں۔۔“ نظریں اب بھی اس پر جمی تھیں۔
”سر چائے نہیں ہے۔۔۔“
“تو بناؤ جا کر۔۔۔“ وہ یک دم ہی سیدھا ہوا۔ ویٹر واپس چلا گیا۔۔ کوئی پوچھتا ایما سے اسکی جان پر بنی ہوئی تھی۔۔ اور اب تو اسے رونا آگیا تھا۔۔ ماثیل کی آنکھوں سے چھلکتا ، ٹھاٹیں مارتا محبت کا سمندر اسے بےچین کر رہا تھا۔۔ وہ ایسی نظروں کی عادی نہیں تھی۔۔ نہ اسے یہ سب پسند تھا۔۔ اسے یقین ہوگیا تھا اس نے یہا آکر کتنی بڑی غلطی کردی تھی۔ آسمان کو بادلوں نے گھیر لیا۔۔۔ وہ کسی بھی وقت برسنے کو تیار تھا۔
اسکی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کو دیکھ کر ماثیل گھبرا گیا۔
”کیا ہوا ایما تم ٹھیک ہو نا؟؟“ وہ اسکا ہاتھ پکڑنا چاہتا تھا پر ہمت نہیں ہوئی۔
”مجھے واپس جانا ہے۔۔۔ سر درد ہورہا ہے۔۔۔“ وہ سر جھکا کر آنسوں پینے لگی۔
”اچھا تم پریشان مت ہو۔۔ ابھی چائے پیو۔۔ مجھے بس دس منٹ دو۔۔۔“ اسکے سامنے چائے رکھی جاچکی تھی۔۔ اسکی ٹھوڑی جیسے سینے سے لگ چکی تھی۔۔ وہ اوپر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔۔ اسکے ہاتھ بری طرح لرز رہے تھے۔
ماثیل فوراً اٹھا اور چلتا ہوا اسٹیج تک گیا۔۔ وہ اب سب کی توجہ کا مرکز تھا۔۔ وہاں چھوٹی میز پر ایک مائیک رکھا تھا جسے ابھی تک کسی نے نہیں چھواء تھا۔۔ اس نے وہ مائیک اٹھایا۔۔ نگاہیں اب بھی آنسوں ضبط کرتی ایما پر جمی تھیں۔
”میں وہ انسان ہوں جسے دنیا ماثیل کے نام سے جانتی ہے۔۔“ اسکی آواز دور دور تک سنائی دینے لگی۔۔ ایما نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔ وہ اسٹیج پر کھڑا تھا۔۔ ذرد اور سفید روشنوں میں۔۔ مشعلوں کے درمیان وہ کسی چراغ کی مانند روشن تھا۔۔
”میں زندگی کے اتنے سال یہی سوچتا رہا کہ مجھے کسی مذہبی لڑکی سے محبت نہیں کرنی۔۔ کیونکہ مجھے لگتا تھا مذہبی لڑکیاں کبھی مجھے امپریس نہیں کر پائیں گی۔۔۔“
تیز ٹھنڈی ہوا، جو بارش کا پیغام لا رہی تھی، اور سمندری لہروں کے شور کے علاوہ ہر شخص اسکی بات سن رہا تھا۔۔
آس پاس گھومتے سیاہ بھی اسی کی جانب متوجہ تھے۔
”اور پھر محبت آناً فاناً آئی۔۔ اور میں ساکت کھڑا بس دیکھتا رہ گیا۔۔۔ ایک ایسی معصوم لڑکی کی محبت جو خود سے بہت بےزار ہے۔۔۔ جو انسانوں سے اکتا چکی ہے۔۔ جو ہر وقت غصے میں رہتی ہے۔۔ جسے شاید میں زہر لگتا ہوں۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرایا۔ ایما نے گھبرا کر روز کو دیکھا۔۔ وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔۔ وہ شاید فون سننے گئی تھی۔
”لیکن میں اس لڑکی سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔ میں بت بنا بنا کر خود بت بن گیا تھا۔۔ اسکے آنے سے میرا دل دھڑکنے لگا۔۔۔“ اس نے لکڑی کی میز پر رکھے پھولوں میں ڈال کر کچھ نکالا۔۔ یہ ایک ڈبی تھی۔۔ اسکے اندر کیا تھا سب واقف تھے۔
”میں اس لڑکی سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں جینا چاہتا ہوں۔۔ میں تھک گیا ہوں خود سے خدا سے لڑتے لڑتے۔۔ مجھے لگتا تھا وہ میرا دشمن ہے۔۔ اور پھر تمہیں اپنی زندگی میں دیکھ کر لگا کہ نہیں۔۔ وہ شاید مجھ پر بھی مہربان ہے۔۔تبھی تمہیں میری زندگی میں بھیجا گیا۔۔۔“ وہ اب مائیک تھامے اسٹیج سے اتر آیا۔۔
شنایا نے اسکے وجود کو دھندلا ہوتے دیکھا۔۔ جبکہ ایما نے خود کو کسی گہرے کنویں میں گرتے پایا۔
وہ، وہ نہ ہوتی جو وہ اب تھی تو یہ سب اسکے لیے بہت حسین ہوتا۔
”میں اس لڑکی سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں جینا چاہتا ہوں۔۔ میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ میری زندگی کو آسان بنانے میں میری مدد کردے۔۔۔“ وہ قدم قدم اسکی جانب بڑھنے لگا۔۔وہ اپنی جگہ سے جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں اس لڑکی سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ماثیل کو پھر سے جینا سکھادے۔۔۔ وہ لڑکی مجھے اپنا بنا لے۔۔۔یا وہ لڑکی خود میری بن جائے۔۔“ وہ اسکے قریب آچکا تھا۔۔۔ ایما کو لگا تھا وہ گر جائے گی۔۔اسکی ٹانگوں سے جان نکل چکی تھی۔ اس نے ہاتھ رکھ کر کرسی کا سہارا لیا۔
”میں ماثیل جو شادی جیسے رشتے پر اعتبار نہیں کرتا میں آج اس لڑکی سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں ام ایمان سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان تمام اصولوں پر جن پر وہ مجھے اپنالے۔۔۔جن پر وہ مجھے چلنے کو کہے۔۔ کیا وہ لڑکی میری بننا چاہے گی۔۔۔؟؟“ اس نے وہ خوبصورت ڈبی کھول کر ایما کے سامنے کی۔۔ ڈائمنڈ کی رنگ جگمگ کر رہی تھی۔
چاروں جانب یس یس کا شور گونج اٹھا۔۔ اسکے چہرے پر کتنے رنگ تھے۔۔۔اسے لگتا تھا وہ اسے اپنا لے گی۔۔۔ لیکن اسکی خاموشی لمبی ہوگئی۔۔ وہ اسے گھور رہی۔۔۔ اور ماثیل نے ان آنکھوں میں پھر سے سمندر امڈتے دیکھا۔ شور یک دم تھما۔۔۔ سب اب ایما کا جواب سننے کو بےچین تھے۔ خاموشی بڑھتی گئی۔۔۔ اور پھر ٹوٹ گئی۔۔۔
”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے مسٹر ماثیل کہ آپ جو چاہیں گے وہ پالیں گے؟؟“ اتنا زہرخند لہجہ وہ ساکت رہ گیا۔۔
موت سی خاموشی چھاگئی۔۔ شنایا چونک کر سیدھی ہوئی۔
”میں تو تمہیں خوش رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔“ اس نے ایمان کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی۔۔۔ ہاں وہ ام ایمان تھی۔۔ وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی۔ ماثیل کے چہرے پر بےیقینی سی چھاگئی۔
”میں نے آپ کو انکار کیا تھا۔۔۔بہت پہلے۔۔ شروع سے ہی۔۔ انکار کا مطلب انکار ہوتا ہے مسٹر ماثیل۔۔۔“ وہ پوری قوت سے چلائی۔۔ دور کہیں بجلی زور سے کڑکی۔۔ بادل تیزی سے اپنی جگہ بنانے لگے۔۔۔ آسمان برسنے کو تیار تھا۔
”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ باقی لڑکیوں کی طرح میری ناں ہاں میں بدل جائے گی۔۔ آخر جانتے ہی کتنا ہیں آپ مجھے۔۔۔“ وہ آج سارا غبار نکال رہی تھی۔۔
”یہ سب کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے میری مرضی پوچھی۔۔ نہیں نا۔۔۔تو سوچا کیسے آپ نے یہ سب۔۔؟؟“ ایمان کو لگ رہا تھا اسکی دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔۔۔درد کی ایک شدید لہر اسکے سر سے اٹھی اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے گئی۔ وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامتی نیچے جھکی۔۔
”ایمان۔۔۔“ ماثیل بےاختیار اسکی جانب بڑھا۔ وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”دور رہیں مجھ سے۔۔۔“ وہ پھر سے چلائی۔۔۔اب کی بار بادلوں نے گرجنا شروع کیا۔۔۔بہت سے لوگ جا چکے تھے۔ بہت سارے لوگ اب بھی تماشہ دیکھ رہے تھے۔
”میں کسی اور کی امانت ہوں۔۔ خیانت نہیں کر سکتی۔۔۔“ بارش کی پہلی بوند گری اور ماثیل کو اپنا وجود جل کر راکھ ہوتا محسوس ہوا۔ اور تبھی وہاں روز آئی۔۔
”ایما۔۔۔ایما۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔“ وہ اسکی جانب بڑھی۔
”میں نے بتایا تھا نا تمہیں کہ میں انگیجڈ ہوں۔۔ یہ بھی بتایا تھا مجھ سے وفا نہیں ہوتی۔۔ پھر بھی تم نے انہیں یہ سب کرنے دیا۔۔۔“ وہ اب روز کو دور دھکیلتی اس پر چلائی۔
”میں کوئی بت نہیں ہوں جسے آپ بنا کر اپنے اسٹوڈیو میں سجالیں گے۔۔۔ میں ام ایمان ہوں اور میں کسی اور کی ہوں۔۔۔“ انگوٹھی اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔۔ وہ پلٹی اور بھاگی۔۔۔اس نے مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔۔ وہ ماثیل کی حدوں سے دور نکل جانا چاہتی تھی۔
برش موسلادار برسنے لگی تھی۔ روز بھی اسکے پیچھے بھاگی۔۔ جبکہ ماثیل وہیں ڈھے گیا۔۔ چاروں جانب جلتی آگ بجھ گئی تھی۔۔ اب دھواں نکل رہا تھا جو جلد بجھنے والا تھا۔۔ سب راکھ چکا تھا۔۔
”ماثیل۔۔۔“ شنایا کو سمجھ نہ آیا اسے رونا چاہیے یا ہسنا چاہیے۔۔ اس نے ماثیل کے قریب بیٹھتے اسکو تھاما۔۔ جیسے ہی اس نے ماثیل کو چھوا اگلے ہی پل ماثیل نیچے گرگیا۔۔۔ اسے ایستھما تھا۔۔ وہ اپنی سانسیں بھول چکا تھا۔۔
خوبصورت شام بدصورت رات کا رھوپ دھار چکی تھی۔۔
وہ آج اپنا inhaller بھول آیا تھا۔۔ آج بہت عرصے بعد اسے اٹیک ہوا تھا۔۔ اور یہ زیادہ تر کسی الرجی یا پھر اسٹریس سے ہوتا تھا۔۔۔
اور اس وقت اسکے ساتھ جو ہوا تھا اسکا اپنی سانسیں بھولنا بنتا تھا۔۔
”ماثیل۔۔۔۔ماثیل۔۔ آنکھیں کھولو۔۔ سانس لو۔۔۔“ وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ جبکہ بارش میں دونوں کا وجود پوری طرح بھیگ چکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
تین گھنٹے بعد وہ دونوں ہسپتال میں تھے۔ وہ اب ٹھیک تھا پر پتھرا سا گیا تھا۔۔ کوئی کسی کی اتنی محبت کو ایسے کیسے دھتکار سکتا ہے؟؟؟
وہ کسی اور کی کیسے ہوسکتی تھی؟؟ کیوں اسے کبھی ماثیل کی محبت نظر نہیں آئی۔۔ وہ رونا چاہتا تھا۔۔ پر وہ ماثیل دا بت ساز تھا۔۔ وہ کیسے رو سکتا تھا۔۔۔
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ گلاس ونڈو پر بہتا بارش کا پانی دیکھ رہا تھا۔۔ اسے اس وقت اپنے آپ اور اس رات سے نفرت ہورہی تھی۔۔
کیا سوچا تھا اس نے اور کیا ہوگیا تھا۔۔
بھلا اس نے کیسے سوچ لیا تھا کہ اگر ایمان اس سے ہنس کر بات کرلیتی تھی تو وہ اس سے محبت بھی کرتی۔۔۔یا اسکی محبت قبول ہی کرتی۔۔
وہ پتھر دل تھی۔۔ اس نے آج تک ماثیل کا دل نہیں رکھا تھا آج وہ پورے ماثیل کو کیسے رکھ لیتی۔۔۔؟؟
اور اسے کیسے پتہ نہ چلا کہ وہ کسی اور تھی۔۔ اسے تو آج تک وہ اپنے آپ کی بھی نہیں لگی تھی۔۔۔
ایمان کی باتیں کسی ہتھوڑے کی طرح اسکی سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا اسکا دل نکال کر کانٹوں پر پھینک دیا گیا ہو اور پھر کسی باریک کپڑے کی طرح ادھیڑ دیا گیا ہو۔
اسے ایمان کا وہ روپ نہیں بھول رہا تھا۔۔۔ اسے لگا تھا وہ مرجائے گی۔۔
”کیا میرا وجود اتنا غلیظ ہے۔۔۔؟؟“ اسے یک دم خود سے نفرت محسوس ہوئی۔۔ اس نے کھڑکی کے پرے آسمان کو دیکھا۔۔۔اور پھر آسمان پر بسنے والے کو پکارا۔
”نفرت۔۔۔نفرت اور بس نفرت۔۔۔“ مجھے یہی ملا۔۔ اس نے سانس لینا چاہا پر آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹک گیا اور وہ سانس نہ لے پایا۔
”چلو ماثیل گھر چلتے ہیں۔۔“ شنایا نے آکر اسکا ہاتھ تھاما۔ ماثیل نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ وہ بخار سے تپ رہا تھا۔۔ اسے پہلے ہی پچھلے دنوں بخار تھا۔۔۔اور آج تو پھر وہ بارش میں بھیگ گیا تھا۔
”خدا کسی سے اتنی نفرت کیسے کر سکتا ہے۔۔۔؟؟“ وہ چلایا۔۔۔اور اسکے ساتھ اسکا پھر سے سانس اکھڑا۔۔ سردیوں میں یہ بیماری بڑھ جاتی تھی۔۔ اسے خود کا بہت خیال رکھنا پڑتا تھا۔۔ شنایا نے اسکی کمر سہلائی اور اسے انہیلر دیا۔۔
اسکا دل کر رہا تھا وہ ام ایمان عرف ایما کا جا کر منہ نوچ لے۔۔
وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔۔ لیکن تڑپ رہا تھا۔۔۔
” وہ کسی اور کی کیسے ہو سکتی ہے۔۔ مجھے لگا تھا اسے میرے لیے بھیجا گیا ہے۔۔“ وہ کسی ضدی بچے کی طرح اڑ گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
دروازے پر مسلسل بیل ہورہی تھی۔۔ ایمان کا رو رو کر برا حال ہوچکا تھا۔۔۔ اسے مائگرین کا ایسا اٹیک ہوا تھا کہ اسے لگ رہا تھا آج اسکے دماغ کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔۔۔
وہ میـڈیسن لے چکی تھی لیکن اب تک کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔ وہ اب اپنے معمول کے ٹراؤذر شرٹ میں تھی۔۔۔
آنکھیں سوجھ چکی تھیں۔۔۔روز اسے گھر تک تو لے آئی تھی پر وہ بری طرح ناراض تھی۔۔۔وہ اسے دواء دیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
اسکا یقین تھا ایمان نے ماثیل کے ساتھ زیادتی کی تھی۔۔
ایمان کو آج کی رات کسی عذاب کی مانند لگ رہی تھی۔۔ دروازے پر ہوتی مسلسل بیل اسکے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگنے لگی۔۔۔وہ اٹھی اور جا کر دروازے کے سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو شنایا کو باہر کھڑا پایا۔۔
اسکا سر پھر سے گھوما۔۔ وہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتی تھی پر شنایا بھیگی ہوئی تھی۔۔
وہ وہیں کھڑی رہی اور بیل بجاتی رہی۔۔
مجبوراً ایمان کو دروازہ کھولنا پڑا۔۔۔ جیسے ہی دروازہ کھلا شنایا اسے دیکھتے ہی غضبناک ہوتی اندر آئی۔۔ ایمان کو لگا تھا وہ ماثیل کی سفارش کرنے آئی ہوگی۔۔ لیکن اس نے اندر داخل ہوتے ہی ایمان کو اتنا زوردار دھکا دیا کہ وہ بیلنس نہ رکھ پائی اور گھوم کر دائیں جانب رکھے میز پر گری۔۔ اس پر ایک وزنی بھاری مورتی رکھی تھی۔۔ وہ ایمان کی پیشانی پر لگی اور ایمان درد سے کراہ اٹھی۔۔
وہ بامشکل کھڑی ہوئی۔۔
”سمجھتی کیا ہو خود کو؟؟ کوئی حور پری ہو یا کہیں کی شہزادی ہو؟؟“ شنایا اب بری طرح چیخ رہی تھی۔
”پہلے تم نے ماثیل کو مجھ سے چھینا۔۔۔اپنی اداؤں میں پھنسایا۔۔۔اور اب تم نے اسے اتنا بڑا زخم دیا۔۔۔تمہاری وجہ سے وہ آج موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا ہے۔۔۔“ وہ اس پر چلا رہی تھی جبکہ ایمان نے اپنی پیشانی تھام رکھی تھی جس سے خون ابلنے لگا تھا۔ شور کی آواز سن کر روز وہاں آئی۔۔ اور ایمان کے بہتے خون کو دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹ پڑیں۔
”میں نے تمہیں موقع دیا۔۔۔تم نے گنوا دیا۔۔ آج کے بعد یہاں نظر مت آنا۔۔۔“ وہ بےخوف چلا رہی تھی۔
”گیٹ آؤٹ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں پولیس کو بلاؤں۔۔“ بالآخر روز آگے بڑھی۔۔ اسے ماثیل اپنی ایما سے زیادہ عزیز نہیں تھا۔
”اس منحوس لڑکی کو گیٹ آؤ کرو۔۔ Cursed ہے یہ .. جب سےآئی ہے زندگی عذاب بن گئی ہے۔۔“ وہ ایمان کی جانب اشارہ کرتے باہر نکلی۔۔۔ روز نے دروازہ بند کردیا۔۔
وہ اب ایمان کی جانب بڑھی۔۔ اسکی ہتھیلیاں خون سے بھر چکی تھیں۔۔۔وہ اب فرش پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔ شاید وہ اسی لائق تھی۔۔ وہ Cursed تھی۔۔۔ہمیشہ سے سب کے لیے۔۔!!
✿••✿••✿••✿
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post