Maseel novel episode 16 - sulphite 02

 

maseel novel episode 16 by noor rajpoot

میں ہیزل ہوں!
سلطان ملک۔۔۔ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔۔جبکہ ہیزل ملک اسکی بیٹی تھی۔۔ جتنا باپ کامیاب تھا بیٹی نے اس سے بھی ڈبل اپنا سکہ منوا لیا تھا۔۔ وہ چھبیس سالا خوبصورت ماڈل اور ایکٹریس تھی۔۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بد دماغ اور بدتمیز بھی مشہور تھی۔ شروع شروع میں اس نے خوب محنت کی۔۔ اپنے باپ کے خلاف جا کر اس نے یہ پیشہ اپنایا۔۔ اور جب اس نے آٹھ سے نو سال شوبز کو دیے تو وہ سب جان گئی۔۔
اب وہ اپنی مرضی سے کام کرتی تھی۔۔ وہ اپنے منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے بدنام تھی۔۔ جتنا وہ اب شوبز سے دور جانا چاہتی تھی اتنا ہی شوبز اسکے گرد اپنے پنجے گاڑھ رہا تھا۔۔
پہلے پہل سلطان ملک کو اپنی بیٹی کے پیشے پر اعتراض تھا۔ ہیزل نے گھر چھوڑ دیا۔۔ اور پانچ سال بعد جب سلطان ملک کو لگا کہ اس کی بیٹی نے صحیح راستہ اپنایا تھا تو تب وہ اس سے ملنے آگئے۔۔ اپنے سارے خاندان کے خلاف جا کر اب وہ ہیزل کا ساتھ دیتے تھے۔۔
ہیزل جانتی تھی کہ اس کے باپ کو اس سے محبت نہیں تھی۔۔ بلکہ وہ اب ان کے کام کی چیز بن گئی تھی۔
آج بھی سلطان ملک نے اسے اپنے گھر بلایا تھا۔۔ وہ جانتی اسے کیوں بلایا جارہا تھا۔۔ اور وہ یہ بھی جانتی تھی اسے کیا کرنا تھا۔۔ عبدل کی بات پر اس نے سوچا تھا کہ خود کو ختم کرلے۔۔۔ پھر اسے خیال آیا کہ آخر کیوں؟؟
آخر ہم اپنے خوف کو کیوں نہیں مار سکتے۔۔؟؟ ہم ان سے پیچھا کیوں نہیں چھڑا سکتے۔۔۔ ؟؟
اس کے اندر ایک اذیت کی گہری لہر اٹھی اور سب تہس نہس کر گئی۔۔۔ ماضی میں کی گئی غلطیاں۔۔
بےچین حال اسے کسی طور جینے نہیں دیتا تھا۔
وہ آئینے کے سامنے بیـٹھی خود پر خوب محنت کر رہی تھی۔۔ اس نے ایک گہرے گلے، اور بنا آسینوں والا سرخ رنگ کا کروپ ٹاپ پہنا تھا۔۔ نیچے سیاہ رنگ کی جارجٹ کی ڈریس پینٹ اور اوپر سیاہ کوٹ۔۔
بالوں کو اس نے اونچی پونی میں مقید کرلیا۔۔۔ سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگانے کے بعد اس نے لپ گلوز لگایا اور سرخ ہی اونچی ہیل پہن کر اس نے اپنا آخری جائزہ لیا۔۔
وہ ماڈل تھی۔۔ جانتی تھی کب کیسے تیار ہونا تھا۔۔
وہ ایکٹرس تھی۔۔ جانتی کب کس پر غضب ڈھانا تھا۔۔
فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔ ایک گھنٹے میں کوئی ستائیس بار فون آیا تھا۔۔
اس بار اس نے فون اٹھا لیا۔۔
”یس ڈیڈی۔۔۔“ لہجے میں مٹھاس بھرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ دوسری جانب سے ناجانے کیا کہا گیا۔
”پندرہ منٹ تک آپ کے پاس پہنچ جاؤں گی۔۔۔“ اس نے بنا جواب سنے فون کاٹ دیا۔ اور پھر اس نے ایک میسج ٹائپ کیا۔
”میں اپنے Demons سے لڑنے جارہی ہوں۔۔ پورے گھنٹے بعد مجھے لینے پہنچ جانا۔۔۔“
اس نے عبدل کو میسج کیا اور اپنا بیگ اٹھاتی باہر نکل آئی۔
وہ خود ڈرائیونگ کرنے والی تھی۔۔ اسکے سارے ملازم چھٹی پر تھے۔
کچھ دیر بعد اسکی گاڑی برق رفتاری سے ویلنیسا کی سڑکوں پر گھوم رہی تھی۔
پندرہ منٹ بعد وہ سلطان ملک کے اپارٹمنٹ میں تھی۔ سلطان ملک یہاں بزنس دورے پر ہی آتا تھا۔۔ کچھ دن رہتا اور پھر چلا جاتا۔۔۔
اس نے گاڑی پارک کرنے کے بعد لفٹ کا سہارا لیا اور اوپر پہنچ گئی۔۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ وہ مضبوط تھی۔۔ پر آج جو کرنے والی تھی اسکے لیے بہادری کی ضرورت تھی۔
ٹک ٹک کرتی جیسے ہی وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی چاروں جانب جیسے روشنیاں جل اٹھیں۔
سامنے ہی بڑے سے لاؤنج میں اسکا باپ سلطان ملک اپنے کسی بزنس پارٹنر کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ یہ ایک عربی تھا۔۔ لیکن حلیہ کافی ماڈرن تھا۔۔ گرے بالوں والا وہ شخص اسکے باپ کی ہی عمر کا تھا۔ اس نے ہیزل کو ایسے دیکھا جیسے ایک خریدار کسی چیز کو دیکھتا ہے۔۔
”امید ہے آپ لوگوں کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ہوگا۔۔۔“ وہ مسکرا کر کہتی ایک جانب رکھے قیمتی صوفے پر بیٹھ گئی۔۔
”تو یہ ہیں وہ انسان جنہیں آپ نے میرے لیے منتخب کیا ہے۔۔؟؟“ ہیزل نے سلطان ملک کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”درانی نام ہے انکا۔۔۔“ سلطان ملک نے تعارف کروایا۔
”درانی صاحب یہ میری بیٹی ہیزل ہے۔۔“
”انہیں کون نہیں جانتا۔۔۔“ درانی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔۔ ہیزل ان آنکھوں میں چھپی گندگی اور غلاظت باآسانی دیکھ سکتی تھی۔
”مجھے بھوک لگی ہے۔۔ میرے خیال سے پہلے کھانا کھا لینا چاہیے۔۔“ وہ ان دونوں کو وہیں چھوڑتی فوراً اٹھی اور اک ادا سے چلتی ڈائنگ ہال کی طرف چلی گئی۔۔۔
اسکا سراپہ دیکھ کر جو خوشی جو چمک درانی کے چہرے پر تھی اسے سلطان ملک نے بھانپ لیا تھا۔۔۔
وہ جان گیا تھا اب درانی کسی صورت اس ڈیل سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا جسکا سلطان ملک پچھلے چھ مہینوں سے طلب گار تھا۔۔ پہلے اب تو درانی اس پر مزید مہربان ہونے والا تھا۔۔
وہ دونوں اٹھ کر ہیزل کے پیچھے ہی ڈائننگ ہال میں آئے جہاں ایک نہایت شاندار تکونی میز رنگ برنگے کھانوں سے سچی ہوئی تھی۔۔
اور ہیزل ان دونوں کا انتظار کیے بنا ہی کھانا شروع ہوچکی تھی۔
”معذرت مجھے کچھ زیادہ بھوک لگی تھی۔۔“ اس نے درانی کی جانب اس طرح دیکھا کہ درانی کو اپنا آپ ہواؤں میں اڑتا محسوس ہوا۔۔
وہ تینوں اب تکون کے تین کناروں پر بیٹھے تھے۔ ہیزل پوری توجہ سے کھانا کھارہی تھی جیسے اس سے اہم کام کوئی نہ ہو۔۔ یوں بھی وہ صبح سے بھوکی تھی۔
”درانی صاحب چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد نکاح کی رسم ادا کرلیں۔۔ دراصل یہ ویلینسیا صرف ایک ہفتے کے لیے آئے ہیں۔۔ بہت اچھے انسان ہیں۔۔ اور تمہیں خوش رکھیں گے۔۔۔“ کوئی باپ ایسے کیسے کر سکتا ہے۔ نوالہ اسکے گلے میں ہی اٹک گیا۔۔ اسے پانی پینا پڑا۔۔۔ ورنہ سانس کہاں لیا جاتا۔
وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتی اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی۔
”کتنے اچھے ہیں یہ ڈیڈی۔۔؟؟ آپ جتنے اچھے ہیں یا آپ سے زیادہ؟؟“ اس بار وہ تلخی نہ چھپا پائی۔ سلطان ملک کا ہاتھ رکا۔۔
”اگر آپ کے جتنے اچھے ہیں تو میں صرف افسوس کرسکتی ہوں۔۔“ وہ دونوں باپ بیٹی اردو میں بات کر رہے تھے۔ جبکہ درانی کو اردو سمجھ نہیں آتی تھی۔
”آپ میرے لیے کیا کرسکتے ہیں۔۔؟؟“ پھر وہ درانی کی جانب متوجہ ہوئی۔۔ لہجہ خالص ہسپانوی تھا۔۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
”کچھ بھی۔۔۔“ درانی پھیلا۔
”پہلی بیوی اور بچے ہیں۔۔؟؟“
اس سوال پر درانی کے چہرے کا رنگ اڑا۔
”ہیزل۔۔۔ یہ سب میں تمہیں بتاچکا ہوں۔۔“ سلطان ملک کا لہجہ سخت ہوا۔
”مجھے بھی اپنی تسلی کرنے دیں نا۔۔۔ میں بس جنرل نالج کے لیے پوچھ رہی ہوں۔۔۔“ وہ انہیں پروفیشنل انداز میں مسکرا کر جواب دیتی پھر سے درانی کی طرچ متوجہ ہوئی۔
”تو آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟؟“
”کیونکہ تم مجھے پسند ہو“
”یہ شادی منظر عام پر آئے گی یا میں آپکی خفیہ بیوی رہوں گی۔۔؟؟“ انداز اتنا سرد تھا کہ درانی کو اپنے وجود میں چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوئیں۔
اس نے گھبرا کر سلطان ملک کی طرف دیکھا۔
”شادی آپ مجھ سے کرنا چاہتے ہیں ڈیڈی سے نہیں۔۔ تو مجھے دیکھ کر جواب دیں۔۔“
وہ شاید آج آنکھوں سے بھسم کرنے کا ارادہ کرکے آئی تھی۔
”پہلے شادی ہوجائے یہ سب بعد میں دیکھا جائے گا۔۔۔“
سلطان ملک نے بات سنبھالتے ہوئے ہیزل کو گھورا۔۔۔ اور ہیزل بامشکل خود پر کنٹرول کر پائی۔۔ اور وہ کچھ سوچ کر نہ آئی ہوتی تو اس وقت یہ کھانے کی میز وہ درانی اور سلطان ملک پر الٹ کر جاچکی تھی ہوتی۔۔ پر اب اسے اس سے کچھ بڑا کرنا تھا۔ وہ خاموش ہوگئی۔۔
کھانے کے بعد سلطان ملک اسے درانی کے ساتھ ڈرنک روم میں چھوڑ کر خود باہر آگئے۔۔ وہ چاہتے تھے درانی مطمئن ہو کر اس سے بات کرلے۔۔
گہرے رنگ کی دیواریں جو بیش قیمتی تصویروں سے مزیں تھیں ان پر ایک جانب بڑے سے شیلف میں قیمتی ڈرنکس رکھی تھیں۔۔ اور اس کے ساتھ بنا چھوٹا سا کاؤنٹر تھا جس پر سارا سامان رکھا تھا۔
”کیا لینا چاہیں گے آپ؟؟“ درانی نے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا تو ہیزل نے کاؤنٹر کی جانب بڑھتے پوچھا۔
”جو آپ پلائیں۔۔۔ “ بشاشت سے جواب آیا۔۔۔ وہ مسکرادی۔۔ اور اسکے لیے ڈرنک بنانے لگی۔
اس نے اپنے اور درانی کے ڈرنکس بنائیں اور پھر اٹھا کر اس تک آئی۔۔ ڈرنک لیتے وقت درانی نے اسکے ہاتھ کو جان بوجھ کر چھوا۔۔
وہ پرسکون رہی۔۔ اور اسکے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ سیلنگ میں نصب ذرد روشنیاں کمرے کے اندھیرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”تو کتنے میں خریدا ہے آپ نے مجھے۔۔۔؟؟“ وہ مسکرائی یوں جیسے یہی اسکا کام ہو۔ اب تک تو درانی بھی سمجھ گیا تھا کہ وہ ایک بولڈ لڑکی تھی۔
”خاص چیزوں کی قیمت نہیں ہوتی۔۔ انہیں بس حاصل کیا جاتا ہے۔۔“ وہ خباثت مسکرایا ”چیئرز۔۔“ اس نے گلاس والا ہاتھ آگے بڑھا کر اشارہ کیا اور پھر لبوں سے لگالیا۔۔
”میرے لیے کیا کرسکتے ہیں؟؟“
”سب دے سکتا ہوں جو آپ مانگیں۔۔۔“ وہ اب گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔
”جان بھی۔۔۔؟؟“
اس بار درانی کے چہرے کی مسکان سمٹی۔۔ جبکہ وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔
”شاید۔۔۔“ وہ پکا کھلاڑی تھا۔
”اگر میں شادی نہ کرنا چاہوں؟؟“
”میں شادی میں انٹرسٹـڈ نہیں ہوں۔۔ مجھے بس آپ سے مطلب ہے۔۔۔اگر آپ نہ کرنا چاہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔ ہم ایسے بھی رہ سکتے ہیں۔۔ یہ تو میں مسٹر ملک کے کہنے پر کر رہا ہوں۔۔۔“
سلطان مالک پکا سوداگر تھا۔۔ شادی کرکے پکا سودا کرنا چاہتا تھا کہ کہیں وہ مکر نہ جائے۔
اسکی بات سن کر ہیزل اٹھی اور اپنا کوٹ اتار کر وہیں رکھا اور خود گلاس رکھنے کے بہانے کاؤنٹر پر آکر کھڑی ہوگئی۔۔
اسکے بازوں نمایاں تھے۔۔ اسکا وجود درانی کے اندر آتش بھر رہا تھا۔
”آج رات کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟“ وہ اسکی جانب پشت کیے بولی۔اسکی بات سن کر درانی مسکرا اٹھا اور پھر اٹھ کر دھیرے دھیرے اسکے قریب آیا۔۔ وہ اسکے عین پیچھے آکر کھڑا ہوگیا۔ خوشبوؤں میں بسی ہیزل اس وقت کسی کو بھی پاگل کر سکتی۔
درانی نے اپنا داہنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔۔
”مجھے بس تم سے مطلب ہے۔۔۔تمہارے اس خوبصورت وجود سے۔۔۔ باقی کسی سے نہیں۔۔“
وہ اسکی جانب جھکا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے چھو پاتا تبھی وہ ایک جھٹکے سے پلٹی۔۔ اور کاؤنٹر پر رکھی چھری اٹھا کر پوری وقت قوت سے اسکی بازو پر دے ماری۔۔ یہ وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔
درانی کسی زخمی جانور کی طرح چلایا۔۔ وہ پھر سے وار کرنے لگی تب درانی ڈر کر پیچھے ہوا۔۔ اور گر گیا۔۔ اسکے بازو سے خون ابل پڑا تھا۔۔ وہ خونخوار شیرنی کی طرح اس پر جھکی۔۔ درانی کی آنکھیں پھٹ آئیں۔
”میں چاہوں تو ابھی تمہیں ختم کردوں۔۔ لیکن میں چاہتی ہوں تم مجھے یاد رکھو۔۔“
چیخ کی آواز سن کر سلطان ملک وہاں آیا اور ہیزل کو درانی پر جھکے دیکھ کر وہ چلایا اور ہیزل کی جانب بڑھا۔۔
”خبردار۔۔۔“ اس نے اب چھری کا رخ اپنے باپ کی جانب کیا۔
”خبردار۔۔ ورنہ مجھے ایک ایسے باپ کا قتل کرنے میں کوئی دکھ نہیں ہوگا جس نے اپنی بیٹی کا سودا کیا ہو۔۔۔“ وہ پوری وقت سے چلائی۔ اسکی آنکھیں انگارہ بن چکی تھیں جن سے لاوہ بہنے کو تیار تھیں۔
درانی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔
”آئندہ کبھی میرا تو کیا کسی بھی لڑکی کا خیال اپنے دماغ میں مت لانا۔۔“ وہ درانی کو وارن جبکہ سلطان ملک کو نظرانداز کرتی وہاں سے بھاگتے ہوئے نکلی تھی۔۔۔
اسے ڈر تھا وہ اپنی جمع کردہ ہمت نہ کھودے۔۔۔ بھاگتے ہوئے اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔
✿••✿••✿••✿
”کیفے سینٹ جاومے جارہی ہو؟؟“ وہ کسی جن کی طرح حاضر ہوا۔ ایمانجو فون پر جھکی لوکیشن دیکھ رہی تھی ہڑبڑا گئی۔۔ فون ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔ اس نے جھٹکے سے اوپر دیکھا تو وہ بالوں کی پونی ٹیل کیے اپنے مخصوص حلیے میں بیگ کندھے پر لٹکائے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔ ایمان نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔
”تمہیں کیا تکلیف ہے۔۔؟؟ کیوں جن کی طرح حاضر ہوجاتے ہو؟؟“
”بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔ میں وہیں جا رہا تھا بلکہ تم سے پوچھنے آیا تھا۔۔“ وہ ساری دنیا کی شرافت اپنے انداز میں سمو لایا تھا۔
”تو جاؤ نا۔۔“ وہ جو اکیلے جانے کا پلان بنا رہی تھی اب اسے اپنا پلان کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔
”جب تم نے بھی جانا ہے تو ساتھ ہی چلتے ہیں۔۔“ وہ دھپ سے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ آج اسکے پاس گٹار نہیں تھا۔۔ وہ اسٹوڈنٹ بن کر آیا تھا اور ایمان نے پہلی بار اسکے کندھے پر بیگ دیکھا تھا۔
”مجھے نہیں جانا۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”چلو میرے ساتھ آجاؤ۔۔۔ تمہارا ادھار چکانے کا اچھا موقع ہے۔۔“ وہ بھی اسکے ساتھ ہی اٹھا۔
”شکریہ۔۔“ وہ آگے بڑھ گئی۔
”وہ بہت اچھی جگہ ہے۔۔۔ درختوں کے نیچے بیٹھ کر ڈرنک پینے کا اپنا ہی مزہ ہے۔۔ مجھے لگتا ہے تمہیں وزٹ کرنا چاہیے۔۔“ وہ اسے چلا کر آگاہ کرنے لگا۔ وہ نظر انداز کرتی چلتی رہی۔
”تم اکیلے نہیں جا پاؤ گی۔۔ وہ یہاں سے کافی دور ہے تمہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہاں کونسی بس جاتی ہے۔۔“
وہ بھی چلایا۔۔ لیکن اسکے لبوں پر مسکان تھی۔
”میرے پاس گوگل میپ ہے۔۔“ اس نے پلٹ کر دیکھنا ضروری نہیں سمجھا۔
”گوگل میپ کسی دوست کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔“
اس بار اسکے قدم تھمے۔
”میں دوست نہیں بناتی۔۔۔“ وہ پھر سے چل پڑی۔
”یہاں اکیلے گھومنا پھرنا مناسب نہیں ہے۔۔ کسی نے اغواء کرلیا تو۔۔۔ چچچ چہ۔۔ بیچاری اکیلی لڑکی۔۔۔“
وہ رکنے والا نہیں تھا۔۔ پر اس بار ایمان رک گئی۔۔ وہ کھڑی رہی۔۔ اور عبدل مسکرا دیا۔۔ وہ بھاگتا ہوا اسکے قریب گیا۔۔ تیز نشانے پر لگ چکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ویلنسیا میں اولڈ ٹاؤن گھومنے پھرنے کے لیے ایک بہترین جگہ تھی، خاص طور پر باریو ڈیل کارمین جس میں تنگ سڑکیں، بوتیک شاپس، گیلریاں، ریستوراں اور بار تھے۔ ایمان کیفے Sant Jaume کو تلاشنے کی خواہشمند تھی،اور وہ اب عبدل کے ساتھ یہاں موجود تھی۔
عبدل کو یہاں کا Agua de Valencia مشروب جسے بیچ کاکٹیل بھی کہتے ہیں بہت پسند تھا۔ Sant Jaume Plaza del Tossal میں ایک چھوٹا سا بار تھا جو ایک سابقہ دواخانہ تھا۔ لہذا اندر صرف ایک دو میزیں رکھنے کی جگہ تھی۔ یہ مشہور مشروب یلینسیا واٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، یہ سادہ کاک ٹیل، ایک کلاسک ہسپانوی مشروب ہے جو تازہ سنترے کا رس، چمکتی ہوئی شراب، ووڈکا اور جنجر کے استعمال سے بنتا تھا۔ یہ دیکھنے میں بالکل اورنج جوس جیسا لگ رہا تھا۔۔
وہ دونوں کیفے کے باہر رکھی گئی میزوں میں سے ایک پر بیٹھے تھے۔۔ سارے راستے وہ اسے گھورتی آئی تھی اور وہ مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھ کر جان بوجھ کر چڑاتا رہا۔
اس وقت ایمان نے سادہ اورنج جوس لیا تھا جبکہ عبدل نے بیچ کاکٹیل ہی آڈر کی تھی۔۔
وہ وہاں آنے والی پہلی لڑکی تھی جس نے وہاں آکر بھی وہاں ک سب سے مشہور مشروب نہیں پیا تھا۔
شام ہونے والی تھی۔۔ سردی جیسے جیسے بڑھنے لگی وہاں میزوں کے آس پاس آگ جلادی دی گئی۔۔
یہ خوبصورت نظارہ تھا۔ چھوٹا سا بار کیفے جسکے اندر داخل ہوتے ہی سامنے کاؤنٹر تھا اور اسکے پیچھے ڈھیر ساری ڈرنکس رکھی تھیں۔۔ کاؤنٹر پر سنترے پڑے تھے۔
اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی اسی لیے دونوں کو باہر بیٹھنا پڑا۔۔۔ ایمان نے جوس پیتے ہوئے اپنے فون پر کوئی کچھ لگایا اور اسے پوری توجہ سے دیکھنے لگی۔۔ وہ عبدل سے زیادہ بات چیت نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
”کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟؟“ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"True Beauty.."
”تو تم بھی کورین دیکھتی ہو؟؟“
”بہت کم۔۔ کبھی کبھی۔۔۔“ وہ اسکی بات سن کر ہنس دیا۔
”تمہیں پتہ ہے کورین دیکھنے والی لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں۔۔“ اور اس کی بات پر ایمان نے بھنویں سکیڑ کر اسے یوں دیکھا جیسے اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہو۔
”ہاں نا۔۔ انہیں لگتا ہے کورین سیریز کی طرح کوئی امیر کبیر اور دل و جان سے مر مٹنے والا ہیرو ان کی زندگی میں بھی آئے گا اور ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔۔“
انداز سراسر مزاق اڑانے والا تھا۔
”ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔“
”تو تم کیوں دیکھ رہی ہو؟؟“
”سیکنڈ لیڈ Han Seo-Jun کے لیے۔۔۔“
”ہیرو چھوڑ کر اسے دیکھ رہی ہو۔۔۔؟ کمال ہے۔۔ مجھے بھی دکھاؤ۔۔“ وہ اٹھ کر اپنی کرسی گھسیٹتا اسکے پاس آگیا۔۔ ایمان نے اپنا بیگ میز پر رکھا ہوا تھا اور فون کو بیگ کا سہارا دے رکھا تھا۔
”ایسے ہیرو کا کیا فائدہ جو سب کی خوشی کی خاطر آپ کو دکھ دے۔۔۔ ہنہہ“ ایمان نے ہیرو کو نہ دیکھنے کی وجہ بتائی۔
”یہ ہے وہ لڑکا؟؟ یہ تو کافی چکنا ہے۔۔۔لڑکیوں کی طرح نرم و ملائم۔۔“عبدل نے قہقہہ لگایا۔ وہ اسے تنگ کرنے سے باز نہیں آسکتا تھا۔
”یہ ہیرو ہے۔۔“ وہ اب اسے کہانی سنانے لگی۔ سیزن کی آخری قسط تھی۔۔ اس نے دس منٹوں میں عبدل کو پوری کہانی سنادی۔
”میں نے کافی سارے سیزن دیکھے ہیں۔۔ بہت کتابیں پڑھی ہیں پر مجھے دکھ ہوا اس لڑکے یعنی سیکنڈ لیڈ کے لیے۔۔۔“
”تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔۔ ہیرو ہیروئن مل گئے۔۔ پاگل۔۔“
“پر اسکا کیا۔۔؟؟“ وہ ابھی بھی Han پر اٹکی تھی۔
”اسے تم فالو کرلو دیکھتی رہنا۔۔۔“ اسکی بات پر ایمان نے پھر سے گھوری سے نوازہ۔
”مجھے آج تک کوئی ایکٹر یا ایکٹریس پسند نہیں آئے مجھے صرف کردار اچھے لگتے ہیں۔۔ آدھے ادھورے کردار۔۔۔ مجھے تو اکثر اداکاروں کے نام بھی پتہ نہیں ہوتے۔۔۔ “
”اس کردار کے لیے دکھ کیوں ہوا؟؟“
”اس لیے برا لگا کہ اسکے پاس سب کچھ تھا۔۔ پھر بھی وہ اکیلا رہ گیا۔۔۔ آخر کیوں۔۔؟؟“ وہ اداس ہوگئی۔
”دیکھو میری بات سنو۔۔ کہانی میں ہمیشہ بڑے کردار کو زیادہ سہنا پڑتا ہے۔۔ بڑا رول چاہیے تو زیادہ suffer کرنا پڑے گا۔۔ کیا پتہ تم اکیلے رہ جاؤ۔۔۔ پر پھر کہانی بھی تو تمہاری ہوگی نا۔۔“ وہ اب اسے کسی بڑے باباجی کی طرح سمجھانے لگا۔
”اور پھر یہ بھی تو دیکھو نا۔۔۔ ہیرو ہیروئن ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔۔ انہیں ملنا تو تھا ہی۔۔۔“
”پر ہان ہیروئن کے لیے دنیا تک تباہ کر دیتا۔۔۔“
وہ اسکی بات سن کر مسکرا دیا۔
”ہیرو دنیا بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔۔۔ اسی لیے وہ اکثر جیت جاتے ہیں۔۔ یو نو واٹ۔۔۔اچھائی کی جیت ۔۔۔“ اس نے قہقہہ لگایا۔۔ پر اس بار ایمان نے اسکے چہرے پر اذیت دیکھی۔۔۔ کچھ چھن جانے کی اذیت۔۔ کچھ سہہ جانے کی اذیت۔۔
”اکیلے تو ہم جیسے ولن رہ جاتے ہیں بس۔۔۔“ اس بار اس نے خود پر قابو پاتے خود کا ہی مزاق اڑایا۔ ایمان اسکے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
اسکی گرے آنکھیں۔۔ بھوری داڑھی۔۔ اور رنگ برنگے بال۔۔ اسکی مسکراہٹ۔۔ ایک پل کو وہ الجھی۔۔
”ایسا کیوں لگتا ہے جیسے یہ چہرہ میں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں۔۔“ وہ سیریس ہوئی۔ اسکی بات سن کر وہ پھر سے ہنسا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
”اچھا کہاں دیکھا تھا۔۔؟؟“
”پاکستان میں۔۔ ریلوے اسٹیشن پر۔۔۔۔“ اس بار عبدل کی مسکراہٹ سمٹی۔۔ اسکے چہرے کا رنگ بدلا۔
”غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔ میں آج تک پاکستان نہیں گیا۔۔“ وہ یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
”ہاں پر۔۔ پھر بھی۔۔۔“ وہ ابھی تک الجھن کا شکار تھی۔
”چلو اٹھو ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔۔۔“ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ایمان نے حیرت سے اسکے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔ شام اب آہستہ آہستہ گہری ہونے لگی تھی۔
اس نے اٹھتے ہوئے اپنا بیگ اور کوٹ اٹھایا۔۔ کوٹ پہنے کے بعد اس نے بیگ کندھے پر ڈالا تب تک عبدل نے واپسی کے راستے پر قدم بڑھادیے۔
”رکو اب۔۔“ وہ اپنا موبائل تھامتی اسکے پیچھے بھاگی۔
سڑکوں پر موجود ذرد روشنیاں اب جل اٹھی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
ہیزل بھاگتی ہوئی نیچے آئی تو عبدل باہر گاڑی کے پاس اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔ وہ اس وقت اس قدر ڈر چکی تھی کہ بےاختیار اسے دیکھتے ہی وہ اسکے گلے لگ گئی۔۔
عبدل ساکت رہ گیا۔۔۔ وہ بدنام تھا پر فلرٹ اس نے آج تک نہیں کیا اور کہاں ایک خوبصورت لڑکی کی اتنی قربت۔۔۔
وہ بےطرح رو رہی تھی۔
”پلیز چلو یہاں سے۔۔۔“ وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔ عبدل نے آہستہ سے اسے خود سے الگ گیا۔۔ اس نے اپنی دھڑکن کو بڑھتے پایا اور پھر اپنی جیکٹ اتار کر اسکے کندھوں پر رکھی اور پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھایا۔۔
وہ شدت خوف سے کانپ رہی تھی۔۔ عبدل نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی آگے بڑھادی۔۔
وہ گھٹنوں پر سر جمائے روئے جارہی تھی۔۔ جبکہ عبدل کچھ نہ بولا۔۔
آہستہ آہستہ اسکی سسکیاں بند ہوتی گئیں۔۔ اس نے اب گاڑی ایک ویران جگہ پر روک دی تھی۔ کچھ دیر بعد گاڑی میں ایک مانوس سی بو پھیل گئی۔۔ جیسے ہی ہیزل نے سر اٹھایا عبدل کو سگریٹ کے مرغولوں میں گم پایا۔۔ اس نے اب تک ایک لفظ نہیں بولا تھا۔۔ اس نے جی بھر کر ہیزل کو رونے دیا تھا۔۔
وہ کئی لمحے اسے دیکھتی رہی۔۔ کتنا عجیب انسان تھا وہ۔۔ کتنا سنجیدہ اور بےرحم سا۔۔۔ کہاں وہ اپنی ڈرائیونگ کی جاب سے غائب رہتا تھا اور کہاں اس کے ایک میسج پر آگیا تھا۔۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔ کتنے لمحے ایسے ہی گزر گئے۔۔ عبدل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا۔۔ جب گاڑی میں دھواں بھر گیا اور ہیزل ایک دم کھانسنے لگی تو اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کردیا۔۔
ٹھنڈی ہوا فرحت بخش محسوس ہونے لگی۔۔۔ ہیزل کی آنکھیں کاجل بہنے کی وجہ سے کالی ہوگئی تھیں۔ اسکا وجود ابھی بھی ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔ آج اس نے اپنے ایک بڑے خوف کا سامنا کیا تھا۔۔ اور اسے یہ سب سکھانے والا بےنیاز سا اسکے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ اسکی ٹی شرٹ سے اسکے کسرتی بازوں نمایاں تھے۔۔ جن پر عجیب و غریب ٹیٹو بنے تھے۔
”تھینک یو! آنے کے لیے۔۔“ بالآخر ہیزل نے ہی بات شروع کی۔
”ضرورت نہیں۔۔۔“ سنجیدہ لہجے میں جواب آیا۔
“مجھے بھی سگریٹ ملے گا۔۔؟؟“ اس نے کن انکھیوں سے عبدل کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔ جبکہ عبدل نے ہاتھ بڑھا کر کھلے شیشے سے سگریٹ باہر پھینک دیا۔۔ اور پھر اسکی جانب متوجہ ہوا۔
”مجھے امید ہے آئندہ جب تم اپنے ایسے کسی خوف سے لڑ کر آؤ گی تو مدد کے لیےمیری یا کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔“ اتنی سنجیدگی۔۔ وہ بس دیکھتی رہ گئی۔
”مجھے جانا ہے اب۔۔“ وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے باہر نکلنے لگا تو ہیزل نے فوراً اسکا بازو پکڑ لیا۔۔ اور اسکے اگلے سوال پر عبدل ساکت رہ گیا۔
”شادی کرو گے مجھ سے۔۔؟؟“
سائیں سائیں کرتی خاموشی عبدل کو اپنے چاروں جانب بین کرتی محسوس ہوئی۔
✿••✿••✿••✿
”میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ وہ سات ارب ایٹم جو ہمارے جسم کو بناتے ہیں۔۔۔ جن میں کوئی بھی خاص کوئی بھی عام نہیں ہوتا۔۔۔ جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۔۔ آخر انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ سب مل کر ہمیں شکل دیں اور اتنے سالوں تک جڑے رہیں۔۔۔ آخر کیوں؟؟؟ یہ ایٹم ہم سے بدلے میں کیا چاہتے ہیں؟؟ کیوں انہوں نے ہمیں قائم رکھا۔۔
ساٹھ ستر سال اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ۔۔۔؟؟
میں سوچتی ہوں مرنے کے بعد اگر یہ تمام ایٹم کسی صورت میں جمع ہو کر سامنے آجائیں اور سوال کریں کہ ہم نے زندگی کی اس مہلت اور اس میں میسر وقت کا بہترین استعمال کیا ہے؟؟؟ اگر کبھی ان ایٹموں نے ہم سے حساب مانگ لیا۔۔۔اگر کبھی یہ سب الگ الگ ہو کر ہمارے سامنے سوال گو ہوجائیں تو ہم کیا جواب دے پائیں گے۔۔۔“
اسکے چمکتے ناخنوں والے ہاتھ تیزی سے کی بورڈ پر چل رہے تھے۔۔ صرف انگلیاں نظر آرہی تھی جبکہ باقی ہاتھ سفید رنگ کی اونی شرٹ کے لمبے آستینوں میں چھپے تھے۔۔ وہ پوری توجہ سے اپنے کالم پر کام کر رہی تھی جب اسکا فون بج اٹھا۔۔
اسکی توجہ ہٹی۔۔ ساتھ رکھے فون پر جھک کر دیکھا تو ماثیل کا فون تھا۔۔ آج پورا ہفتہ ہوگیا تھا کورس ختم ہوئے۔۔ اس نے نہ ماثیل کو دیکھا تھا نہ اسکا فون آیا تھا۔۔ اور آج پورے ہفتے بعد وہ اسے کال کر رہا تھا۔۔ اس نے فون بجنے دیا۔۔ وہ ابھی اپنا کالم پورا کرنا چاہتی تھی پر اسکا ذہن ایک دم ہی جیسے خالی ہوگیا۔۔
فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔ اس نے گہرا سانس لیا اور فون اٹھا کر پیچھے صوفے سے پشت ٹکادی۔
وہ اس وقت صوفے پر پالتی مارے بیٹھے تھی۔۔ بال آج بھی فولــڈ تھے۔۔ آتش دان میں جلتی آگ نے چھوٹے سے لاؤنج کو خوب گرم رکھا تھا۔۔
”ہیلو۔۔۔“ اس نے بائیں ہاتھ سے اپنی گردن کو دباتے بولا۔۔ اب وہ دائیں بائیں گردن کو ہلاتی اپنے اکڑت ہوئے مسلز کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
”کیسی ہو؟؟“ شدت جذبات سے پوچھا گیا۔
”الحمداللہ۔۔۔آپ سنائیں۔۔“ وہ نارمل رہی۔
”میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔“ وہ بے اختیاری میں اپنی حالت بتاگیا۔
”جی۔۔؟؟“
”میرا مطلب فلو ہوگیا تھا۔۔ آج کل میڈیسن لے رہا ہوں۔۔“ ماثیل نے بات بدل دی۔
”گیٹ ویل سون۔۔۔“ مجبوراً کہنا پڑا۔
”کل لاس ایرینا پر ایک چھوٹی سی پارٹی کر رہے ہیں۔۔ وقت رات 8 بجے۔۔ سبھی اسٹوڈنٹس ہوں گے۔۔ میں نے لوکیشن اور وینیو بھیج دیا۔۔ مجھے امید ہے تم آؤ گی۔۔ میرے لیے نہ سہی شاید اسٹوڈنٹس کی خوشی کی خاطر۔۔۔“
یقین، بےیقینی اور خوف۔۔ کیا کچھ نہیں تھا اسکے لہجے میں۔۔۔ ایما تو کچھ بول نہ پائی۔ کئی لمحے خاموشی چھائی رہی۔
”آؤ گی نا۔۔۔؟؟“ پھر سے پوچھا گیا۔
”کوشش کرو گی۔۔۔“ وہ فوراً انکار نہیں کر پائی۔
”میں جانتا ہوں تمہاری کوششیں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔۔ میں انتظار کروں گا۔۔“ اس نے فون بند کردیا۔۔ ایما تذبذ کا شکار بیٹھی رہ گئی۔
جبکہ دوسری جانب ماثیل نے پلـٹ کر شنایا کو دیکھا۔۔ جو حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”وہ آئے گی۔۔ وہ آرہی ہے۔۔ مجھے بہت ساری تیاریاں کرنی ہیں۔۔۔“ وہ بہت خوش تھا۔۔ بہت پرجوش۔۔ کل وہ اسے بڑا سرپرائز دینے والا تھا۔۔۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post