Maseel novel episode 14 - sulphite 02

maseel novel episode 14, maseel novel ep 14, maseel episode 14 , maseesl episode 14 pdf download,maseel (sulphite 02)


Maseel novel by noor rajpoot episode 14

”میری بیٹی آج پھر رو رہی تھی۔۔۔؟؟“ حمدان صاحب کے نرم لہجے میں پوچھے گئے سوال نے اسے ٹوٹ کر بکھر جانے پر مجبور کردیا تھا۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔
حمدان صاحب نے اسے کھل کر رونے دیا۔۔ جانے کتنے دنوں کا غبار تھا جو دل میں بھرا ہوا تھا۔۔ حمدان صاحب ہولے ہولے اسکا سر سہلاتے رہے۔۔
وہ بالکل ماہی جیسی۔۔۔ ویسی ہی ذہین ویسی معصوم اور ویسی ہی بدنصیب جس کو لاحاصل سی محبت نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔
”ایسا کیوں ہے نانا ابو؟؟ کیوں میری زندگی میں ماما کی طرح تڑپنا لکھا ہے۔۔ کیوں اس خاندان کے مرد اتنے کٹھور ہیں کہ انہیں کسی کی محبت نظر ہی نہیں آتی۔۔؟؟ وہ روتے ہوئے سوال کرنے لگی۔ حمدان صاحب نے اسکا سر تھپتھپا کر اسے خود سے الگ کیا۔۔ اس نے رو رو کر اپنا حشر نشر کرلیا تھا۔ اسکی ہیزل آنکھیں رونے کے باعث گلابی ہوچکی تھیں۔
”ادھر بیٹھو۔۔۔“ حمدان صاحب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے رکھے صوفے پر بٹھایا۔ دائمہ اب اپنے اس طرح بےاختیار رونے پر شرمندہ سی ہوگئی تھی۔
”محبت کسی کی جاگیر نہیں ہوتی دامی بیٹا۔۔۔ اور یہ نہ مانگنے پر ملتی ہے۔۔ محبت تو ساری زندگی انتظار میں گزار دینے کا نام ہے۔۔ اور پھر عمریں لٹا دینے کے بعد اگر محبت آپ پر کرم نوازی کردے تو محبوب آپکا ہوجاتا ہے۔۔“ وہ اب اسکے سر پر ہاتھ رکھے ہولے ہولے اسکے بال سہلا رہے تھے۔ یہ وہ بھی جانتے تھے اپنی محبت کے لیے انہوں نے کتنے سال گزارے تھے۔۔ دائمہ نے سمجھنے کی کوشش کی۔۔ وہ کیسے بتاتی حمدان صاحب کو کہ وہ تو اسکے انتظار میں سالوں پہلے ہی مجسمہ بن گئی۔۔ وہ تو اب اس انتظار میں تھی کہ وہ کب آئے گا اور آکر اسے چھو کر پھر سے انسان بنا دے گا۔۔ وہ کیسے بتاتی کہ وہ مجسمہ بنے بنے اکڑ گئی تھی۔۔ اسکا دل پتھر کے وجود میں دھڑکتا تھا۔۔ وہ اسے توڑ کر باہر نکلنا چاہتا تھا پر فرار ممکن نہیں تھا۔
”مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ وہ میرا ہو کر بھی میرا نہیں ہے۔۔۔ آخر کیوں۔۔؟؟ جب اسے میرا ہونے ہی نہیں تھا تو مجھے اسکے ساتھ باندھا کیوں گیا۔۔؟؟“ وہ آج کل کی لڑکی محبت میں تھوڑی بےصبر سی تھی۔۔ چاہتی تھی پلک جھپکے اور سب اسکا ہوجائے۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔۔
یہ پریوں کا دیس تھوڑی تھا۔۔ یہ تو حقیقی دنیا تھی اور وہ ابھی نہیں جانتی تھی اسکی یہ دنیا کس قدر الٹنے والی تھی۔
حمدان صاحب تین گھنٹے اسکے آفس میں بیٹھے رہے۔۔ رونے کے بعد دائمہ کا دل کافی ہلکا ہوگیا تھا اور وہ اب پوری توجہ سے آج شام ہونے والی میٹنگ کے بارے میں حمدان صاحب کو بتا رہی تھی۔۔ اسکی بنائی گئی پریزینٹیشن دیکھ کر حمدان صاحب کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔ اور پھر ذہانت تو اس خاندان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
✿••✿••✿••✿
26 نومبر، لندن
آج صبح سے ہی موسم ابرالود تھا۔۔ لندن کی سردی شدت اختیار کر گئی تھی۔۔ شام کے وقت بارش کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ وہ جب گھر سے نکلا تو بارش نہیں تھی لیکن راستے میں ہی اسے بارش نے آن لیا۔
وہ اپنی بھیگی ہوئی ہڈی سمیت جب آرجے برانڈ میں داخل ہوا تو سب نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔ شیشے کی کھڑکیوں اور دروازوں پر بہتا پانی حسین لگ رہا تھا۔۔ سرمئی موسم میں جلتی اسٹریٹ لائٹس شہر کو الگ ہی روپ بخش رہی تھیں۔
وہ سب کو نظرانداز کرتا، تیزی سے چلتا ایلف آسکر کے آفس کی جانب بڑھا۔۔ جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچا اس نے دستک دی۔۔ اندر سے یس کی آواز پر وہ جب آفس میں داخل ہوا تو اس نے ایلف کو گلاس ونڈو کے سامنے کھڑا پایا۔۔۔ یہاں سے شہر کا نظارہ خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
وہ ویسے ہی کھڑی رہی۔۔ نہیں جانتی تھی آنے والا کون تھا۔ جب کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی تو وہ چونک کر پلٹی اور اپنے سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھ کر اسکے چہرے کے نقوش ڈھیلے پڑ گئے۔۔ ایک دھیمی سی مسکان نے آنے والے استقبال کیا۔
”تو تمہیں یہاں آنے کا ٹائم مل ہی گیا۔۔۔؟“ ایلف کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔ وہ خفیف سا مسکرا دیا۔ جبکہ ایلف اب اسے نظرانداز کرتی دیوار میں نصب الماری کی جانب بڑھی اور اسے کھول کر اس ایک گرم تولیا نکالا اور اسکی جانب بڑھایا۔
“بال خشک کرلو ورنہ بیمار پڑ جاؤ گے۔۔“ اس نے وہی مسکان چہرے پر سجائے تولیا تھام لیا۔
”آپ خواہ مخواہ اتنی فکر کرتی ہیں۔۔ مجھے تو درد بھی نہیں ہوتا۔۔ بیمار کیا خاک پڑوں گا۔۔“
اسکے اس طرح بولنے پر ایلف نے اسے ایک گھوری سے نوازہ اور انٹرکام پر کافی کا آڈر دیا۔
”جیت کر آئے ہو؟؟“ اس بار سوال تھا۔
”یس۔۔۔ عبدل جیت کر آیا ہے۔۔“ اس نے بال خشک کرتے پرجوشی سے بتایا۔
”میں جانتی تھی۔۔ عبدل کبھی ہار نہیں سکتا۔۔“ اب کی بار مس ایلف مسکرادی۔
”ویسے کیس کیا تھا؟؟“ اب وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے اس اور ہتھیلیوں کو آپس میں پیوست کیے اس پر اپنی ٹھوڑی ٹکائے اسکی جانب متوجہ ہوئی۔ اسکی سبز آنکھیں بس عبدل کے آنے پر ہی جگمگاتی تھیں۔۔ ورنہ تو ان آنکھوں میں نمکین پانیوں کا بسیرا ہوچکا تھا۔
عبدل اب اسکے سامنے بیٹھا تھا۔ اسکی گرے آنکھیں، اسکا پراسرار وجود، اور اسکی عجیب و غریب شخصیت۔۔ وہ لڑکا ہمیشہ اسے کسی کی یاد دلاتا تھا۔۔
وہ اب سنجیدگی سے اپنا جیتا ہوا کیس مس ایلف کو بتا رہا تھا۔۔ کچھ دیر بعد کافی آگئی۔۔
وہ کوئی چھ فٹ اونچا چوڑا مرد نہیں تھا۔۔ وہ تو ایک نوجوان سا لڑکا تھا۔۔جو اموشنلی مضبوط تھا اور اسکے سامنے بہت باادب بنا رہتا تھا۔۔ جسکی آنکھیں اکـثر اسکا ساتھ نہیں دیتی تھیں۔
وہ ہمیشہ کسی کھوج میں مگن رہتا تھا۔
جب وہ اپنے کیس کی تفصیل انہیں بتا چکا تو اچانک ایلف کو کچھ یاد آیا۔۔ وہ فوراً بولی۔
”وہ بیگ۔۔۔ وہ بیگ جس کا تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔۔ جو میں نے ڈیزائن کیا تھا اور جو ایک ہی پیس ڈیزائن کیا ہے اب تک۔۔ وہ بیگ جو میں نے تمہیں دکھایا تھا۔۔ میں جانتی ہوں وہ کس کا ہے۔۔“ اچانک مس ایلف نے بتایا تو وہ بھی چونک گیا۔
”کس کا۔۔؟؟“ اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔
”یہ دیکھو۔۔ یہ بیگ تقریباً ڈیڑھ دو سال پہلے کسی بینش مستقیم نے خریدا تھا۔۔ میں نے اسے کنٹیکٹ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ بیگ بینش مستقیم نے اپنی ایک دوست کو گفٹ کیا تھا جو اب پاکستان میں نہیں ہوتی۔۔ یہ اسکا نمبر ہے۔۔ “ ایلف نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اسکے سامنے کی۔
اس لڑکی کا نام ام ایمان تھا اور رابطہ نمبر ساتھ ہی لکھا تھا۔
”میں یہ ڈیٹیلز تمہیں واٹس اپ کر رہی ہوں۔۔ باقی تم خود دیکھ لو جو کرنا ہے۔۔“
”تھینک یو مس ایلف۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔“ اسے لگا جانے اسکی کتنی بڑی مشکل آسان ہوگئی ہو۔
اب وہ اس لڑکی کو ڈھونڈ لے گا اور پھر وہ خواب آنا بند ہوجائیں گے۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔
وہ سکرین پر جگمگ کرتے اسکے نام کو دیکھ رہا تھا۔۔
”ام ایمان۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑایا۔ اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”مجھے اب جانا ہوگا۔۔ اس نے پیچھے گردن پر پڑی ہڈی کو سر پر گرایا جس سے اسکا آدھا چہرہ چھپ گیا۔۔اور باقی آدھا چہری پیشانی پر بکھرے بالوں میں چھپ جاتا تھا۔۔ مس ایلف بس اسے دیکھتی رہی۔ جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچا تو اسے اپنے عقب میں مس ایلف کی آواز سنائی دی۔
”آخر کب تک عبدل بنے رہنے کا ارادہ ہے مسٹر جبیل۔۔؟؟“ وہ رکا اور ساکت ہوا۔۔ کئی لمحے گزر گئے۔۔ پھر اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
”میرا اپنا کوئی وجود نہیں ہے مس ایلف۔۔۔ میں نہیں جانتا یہ کب تک چلے گا۔۔۔“ اس نے ہـڈی کی جیب سے اپنا چشمہ نکالا اور اسے کھول کر آنکھوں پر لگالیا۔۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے یہ چشمہ جیب میں ڈالا تھا تاکہ بارش میں گیلا نہ ہوجائے۔ اسکے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔۔سرد اور سپاٹ چہرہ لیے وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
لیکن باہر نکلتے ہی اس نے مس ایلف کو میسج کیا تھا۔۔”فکر نہ کریں میں آپکی بیٹی کو ڈھونڈ لوں گا۔۔۔“
اور میسج پڑھ کر مس ایلف نم آنکھوں سے مسکرادی۔
✿••✿••✿••✿
26 نومبر، ویلنسیا
”مسٹر ماثیل۔۔ فرض کریں آپکے بنائے گئے سارے مجسمے زندہ ہوجائیں۔۔ سب مل کر ایک دنیا بنا لیں جسکے خدا آپ ہوں اور آپ نے انہیں صرف خوش رہنے کا حکم دیا ہو۔۔ کیا ہو اگر آپکے بنائے ایک مجسمے کی خوشی دوسرے کا دکھ بن جائے۔۔۔؟؟“ وہ Maleficent کے مجسمے کے قریب کھڑی اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
”میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔“
”آپ نے مائیکل جیکسن کو اسکے اصل روپ میں بنایا۔۔ اسے اپنی شکل پسند نہیں تھی۔۔ مثال کے طور پر آپکی دنیا میں بھی مائیکل جیکسن اپنی شکل سے خوش نہ ہوا تو کیا آپ اسے توڑ کر دوبارہ بنائیں گے؟؟“ وہ اب چلتے ہوئے مائیکل جیکسن کے مجسمے کے پاس آئی۔
”نہیں۔۔۔۔“ یک لفظی جواب پر وہ مسکرادی۔
”فرض کریں آپکی دنیا میں آپکے اکاروس کو آپکی اس ایما اسٹون سے محبت ہوجائے۔۔ جبکہ ایما سٹون کسی اور کی بیوی ہو۔۔ تو آپ کیا کریں گے۔۔۔؟؟“ ایک اور سوال آیا۔
مکڑی اپنا جالا تیزی سے بن رہی تھی۔۔۔ ماثیل کو چاروں جانب سے گھیرنے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔
”میں چاہوں گا وہ دونوں خوش رہیں۔۔۔“ وہ بہت سوچ سمجھ کر جواب دے رہا تھا۔
”ہممم۔۔۔“ اس نے ہمم کو لمبا کھینچا اور پھر اکاروس کے مجسمے کے پاس چلی آئی۔
”اور ایما سٹون کے شوہر کا کیا؟؟ یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی کہ اسکی وائف کسی اور کی محبت میں مبتلا ہوجائے۔۔؟؟“
”محبت ہونا بری بات نہیں ہے۔۔ دھوکا دینا برا ہے۔۔ اگر آپ میرڈ ہیں اور آپ کو کسی سے محبت ہوگئی ہے تو سمپل سی بات ہے اپنے پارٹنر سے علیحدہ ہوجاؤ۔۔ بجائے اسکے کہ اسے دھوکا دو۔۔۔“
”لیکن اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دینا چاہے۔۔ وہ اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہو۔۔ اور وہ اس بات پر ہرٹ ہوجائے۔۔ وہ حسد کی آگ میں جل اٹھے۔۔ اور اپنی بیوی اور اکاروس کو مار دینا چاہے۔۔ تو پھر؟؟ پھر کیا کریں گے آپ؟؟ خاموش بیٹھ کر اپنی دنیا میں یہ تماشہ دیکھیں گے یا پھر یہ قتل ہونے دیں گے۔۔۔؟؟ اور اگر ایما سٹون اپنے شوہر کو دھوکا دے۔۔ اسے کچھ نہ بتائے اور اکاروس سے تعلق رکھے۔۔ تو پھر۔۔؟؟ کیا آپ کو یہ سب قبول ہوگا۔۔؟؟“ وہ اب ایما سٹون کے خوبصورت مجسمے کے سامنے کھڑی تھی۔
”اور اگر آپ کا اکاروس اسی وجہ سے آپکی دنیا سے تنگ آکر اپنی محبوبہ کو لے کر آپکی دنیا سے اڑ کر کہیں دور جانا چاہے۔۔۔ تو پھر۔۔؟؟ آپ اسے جانیں دیں گے؟؟“
وہ اب چلتے ہوئے اسکے قریب آئی اور اسکے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔
”مسٹر ماثیل آپکی دنیا میں جنگ چھڑ گئی ہے۔۔ آپ اسے روکنے کے لیے کیا کریں گے۔۔؟؟ ایک خدا ہونے کی حثیت سے آپ کیا کر سکتے ہیں۔۔۔؟؟“ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھ رہی تھی۔۔ سیاہ آنکھیں سرمئی آنکھوں سے ٹکرائیں۔
خاموش مجسموں کی چہ میگوئیاں پھر سے شروع ہوگئیں۔
”آپکے پاس تین آپشنز ہیں۔۔
نمبر ایک آپ انہیں بناتے وقت Freewill نہ دیں۔۔ پر یہ تو آپکے اصولوں کے خلاف ہوگا نا۔۔چچچچچ چہ بھئی انسان کو مرضی سے جینے کا حق ہے۔۔ تو اسکا مطلب آپکی مخلوق میں ”اپنی مرضی“ کرنے کی طاقت ضرور ہوگی۔۔
نمبر دو۔۔ جیسا چل رہا ہے چلنے دیں۔۔۔ اوہو۔۔ پر آپ تو ایسا نہیں کر سکتے۔۔ آپ انہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔۔ آپ ایسے خدا بن ہی نہیں سکتے جسکی مخلوق Suffer کر رہی ہو۔۔۔“
ماثیل کو سمجھ نہ آیا اس نے طنز کیا تھا یا عام بات کی تھی۔۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ ایما اسے سمجھ رہی تھی۔ وہ اسے اسکے مطابق جواب دے رہی تھی۔ وہ پلٹی اور واپس چلی گئی۔
”نمبر تین۔۔۔ آپ کچھ اصول بنائیں۔۔ جینے کے کچھ اصول۔۔۔ دنیا میں رہنے کے کچھ اصول۔۔۔ اور پھر آپ نہیں اپنی مخلوق پر لاگو کردیں۔۔!!
تینوں میں سے آپ کونسا آپشن چنیں گے مسٹر ماثیل۔۔؟؟“ وہ اب پھر سے مجسموں کے گرد راؤنڈ لگانے لگی تھی۔۔ اسکی آواز اب دور سے آتی محسوس ہورہی تھی۔ لیکن وہ جانتی تھی مسٹر ماثیل نمبر 3 ہی چنتا۔۔ وہ خود اپنے انسٹیٹیوٹ میں اپنے اصولوں سے ہٹ کر ایڈمیشن نہیں دیتا تھا۔
”میں کچھ ایسے اصول بناتا جو انسانیت کے لیے بوجھ نہ بنتے۔۔ جس میں وہ سب خوش رہتے۔۔۔“
”مسٹر ماثیل آپکو لگتا ہے آپ ایک پرفیکٹ دنیا بنا پاتے۔۔۔؟؟ فرض کریں آپ نے اصول بنا لیے۔۔ لیکن ان اصولوں پر سب انسان عمل نہ کریں۔۔ ایما سٹون کا شوہر اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور بدلے میں آکر اکاروس کا قتل کردے۔۔۔تب کیا کریں گے آپ۔۔؟؟ اسے ایسے ہی جانے دیں گے؟؟ اسے سزا نہیں دیں گے۔۔؟؟“ اسکا لہجہ تیز ہوا۔
”دنیا میں انسان کو خوش رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔۔۔ ایک کی خوشی دوسرے کی تکلیف کا اکثر باعث بنتی ہے۔۔۔مسٹر ماثیل اسی لیے میرے اللہ نے اصول بنائے۔۔ کہ انسان ان اصولوں پر چلیں۔۔ وہ ایسا کوئی غلط کام نہ کریں جس سے دوسرا تکلیف میں مبتلا ہو۔۔ اسی لیے مرد اور عورتوں میں حرام رشتے کو ناجائز قرار دیا کہ کسی کا شوہر دکھی نہ ہو۔۔ کوئی اپنے پارٹنر کو دھوکا نہ دے۔۔ لیکن آپ اور آپکا مغرب ان باتوں کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھ سکتا۔۔۔“
”ٹھیک ہے اصول بنا لیے پر سزا کیوں؟؟“
”سزا جزا کا کنسیپٹ نہیں ہوگا تو پھر انسان میں خوف کیسے پیدا ہوگا۔۔ کیسے وہ کسی کا قتل کرنے سے ڈرے گا۔۔؟؟“
”اوکے مان لیا۔۔ یہ سب ٹھیک ہے۔۔ پر عبادت تو اس نے صرف اپنے لیے رکھی نا۔۔ اور عبادت نہ کرنے پر وہ کیوں سزا دیتا ہے۔۔ کیوں؟؟“ ماثیل گھوم پھر کر اپنے سوال پر آکھڑا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کر ایما نے گہرا سانس لیا۔
”پتہ ہے مسٹر ماثیل۔۔ انسان کو اسکی مرضی کرنے اس کو سمجھنے کی صلاحیت دینے کے بعد جب اللہ نے کچھ اصول لاگو کیے کہ اس طرح جینا ہے تو ان اصولوں پر پورا اترنے کے لیے ایک راستہ چاہیے ہوتا ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ نماز برائی اور بےحیائی سے بچاتی ہے۔۔
برائی وہ چیز ہے جو تب حاوی ہوجاتی ہے جب ہم سے اچھائی کم ہوجائے۔۔ جب ہم عبادت کرتے ہیں تب ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اسکے بندے ہیں۔۔ ہم کمزور ہیں۔۔ ہم برے کام کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔۔۔ “
”مجھے لاجک چاہیے ایما۔۔۔“ وہ یک دم ہی چڑ گیا تھا۔۔ شاید اس لیے وہ اسے قائل کر رہی تھی۔ اسکی بات سن کر ایما مسکرا دی۔
”وضو آتا ہے آپ کو؟؟“ اس نے عجیب سا سوال کیا۔
”سوری۔۔؟؟ میں سمجھا نہیں۔۔“
”میں نے پوچھا وضو آتا ہے یا نہیں۔۔؟؟“
”یعنی اب تم مجھ سے عبادت کرواؤ گی۔۔؟؟“ اس نے قہقہہ لگایا۔ پہلی بار اسکے ہنسنے پر اسٹوڈیو میں رکھے تمام مجسموں نے برا سا منہ بنایا۔۔ انہیں ماثیل کا یوں ہنسنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔ وہ تو کتنی توجہ سے ایما کی باتیں سن رہے تھے۔
”مسٹر ماثیل آپ جب مجسمہ بناتے ہیں۔۔ یہاں اسٹوڈیو میں کام کرتے ہیں تو اسکے بعد آپ سب سے پہلے کیا کرتے ہیں۔۔؟؟“
”شاور لیتا ہوں۔۔“ اس نے فوراً جواب دیا۔
”اسکے بعد پھر سے آپ یہاں اسٹوڈیو میں آکر فوراً کام شروع کرتے ہیں۔۔؟؟“ اس بات ایما کی گہری سوچ کا شکار تھی۔
”نہیں۔۔۔“
”کیوں۔۔؟؟“
”کیونکہ میں ہمیشہ کام کے بعد شاور لیتا ہوں۔۔ اگر پہلے لے لوں گا اور بعد میں کام کروں گا تو جو یہ مکسچر ہے وہ جسم یا کپڑوں پر کہیں نہ کہیں لگا رہ جائے گا۔۔ اور وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔“
”یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ شاور لینے کے بعد آپ صاف ستھرے ہوجاتے ہیں۔۔۔اور آپ کا دل نہیں کرتا دوبارہ گندا ہونے کو۔۔۔ ایسا ہی ہے نا۔۔۔“
”بالکل۔۔“
”یہی آپکے سوال کا جواب ہے مسٹر ماثیل۔۔۔ جب ہم صبح اٹھ کر وضو یا غسل کرکے فجر کی نماز پڑھتے ہیں تو ہم صاف ستھرے ہوجاتے ہیں۔۔ ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتے ہیں۔۔ اسکے بعد ہم اپنے کام کرتے ہیں۔۔ اور پھر ظہر آجاتی ہے۔۔ پھر ہم وضو کرتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں۔۔ پھر دعا کرتے ہیں۔۔پھر ہم صاف ستھرے ہوجاتے ہیں۔۔ اسکے بعد ہمارا دل نہیں کرتا کچھ ایسا غلط کام کرنے کو جس سے ہم گندے ہوں۔۔۔ اگر ہمارا نفس ہمیں اکسائے بھی تو اور ہم کسی کشمکش کا شکار ہوجائیں تو پھر عصر کا وقت ہوجاتا ہے۔۔ پھر مغرب اور پھر عشاء۔۔۔ اللہ ہمیں بار بار بلاتا ہے تاکہ ہم برائی سے محفوظ رہیں۔۔ جب ہم صدق دل سے اسکے سامنے جھک جاتے ہیں پھر وہ ہمارے دلوں کو موم کر دیتا ہے۔۔۔ اسی لیے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔۔ اسی لیے اللہ ناراض ہوتا ہے۔۔ اس لیے نہیں کہ ہم اسکی عبادت نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ جب ہم جھکتے نہیں ہے تو ہم سخت ہوجاتے ہیں بالکل ان مجسموں کی طرح۔۔ اور پھر ہم دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔۔۔“
وہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔۔ اور مسٹر ماثیل خاموش کھڑا رہ گیا۔
”اللہ کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا مسٹر ماثیل کہ آپ اسکی عبادت کرتے ہیں یا نہیں۔۔ ہاں اللہ کو اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ جب ہم اسکی نہیں مانتے تو پھر ہم برائی کی طرف جاتے ہیں۔۔ اور پھر ہم انسانیت کے درجے سے گرجاتے ہیں۔۔۔ پھر اللہ سزا کا حکم سناتا ہے۔۔۔کیونکہ جو انسان انسانیت کے درجے سے گرجائے تو پھر وہ باقی انسانوں کے لیے مصائب ہی لاتا ہے۔۔
آپ کو اپنے مجسموں سے اتنی محبت ہے کہ آپ انہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تو پھر اللہ اپنے نائب کو تکلیف میں کیسے دیکھ سکتا ہے۔۔۔ اور پھر جو اللہ جانتا ہے وہ ہم نہیں جانتے۔۔۔ امید ہے آپ کو کچھ تو سمجھ آیا ہوگا۔۔ باقی آپ کو وقت سکھادے گا۔۔۔“
وہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ اپنا بیگ اٹھاتی اسٹوڈیو کے خارجی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔
دروازے پر پہنچ کر وہ کی اور اس نے پلٹ کر ماثیل کو پکارا۔
”مسٹر ماثیل آپ کو پتہ ہے میکسم گورکی کے ناول ماں میں جب پاول ولاسوف کی ماں نے اُس سے اور اسکے دوستوں سے پوچھا، ”میں نے سنا ہے تم خدا کو نہیں مانتے؟“
پاول ولاسوف نے جواب دیا، ”ماں ہم اُس خدا کی بات نہیں کر رہے جو تیرے دل میں ہے ، جو رحیم و کریم ہے، شفیق ہے اور اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے“
ہم تو اُس خدا کی بات کر رہے ہیں جو پادریوں اور مُلاؤں نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے جو ہر وقت ڈنڈا لے کر بندوں کو ہانکتا ہے اور ہر وقت ان کو سزا دیتا ہے۔
ماں!! ایک دن ہم اپنا خدا ان پادریوں اور مُلاؤں کے قبضے سے چھڑا لیں گے۔ پھر اُسکو اپنے دل میں بسائیں گے اور اُسکی حمد گائیں گے۔
بالکل اسی طرح مسٹر ماثیل آپ کے ذہن میں خدا کا تصور بالکل غلط ہے۔۔۔جب خدا ذہن اور دماغ سے نکل دل میں آجاتا ہے تو پھر سارے سوال آسان ہوجاتے ہیں۔۔۔“
وہ چلی گئی۔۔۔۔وہ کھڑا رہ گیا۔۔۔ اور پھر پیچھے پورے اسٹوڈیو میں تالیوں کا شور گونج اٹھا تھا۔۔ سارے مجسمے خوشی سے جھومنے لگے تھے۔۔ اور یہ دیکھ کر مسٹر ماثیل کے لبوں پر مسکان بکھر گئی۔
✿••✿••✿••✿
وہ مس ایلف کے آفس سے باہر آیا تو بارش اب بہت حد تک تھم چکی تھی۔۔ ہلکی بوندا باندی تھی جو اکثر جاری رہتی تھی۔ وہ اپنی ہڈی پہنے فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔۔ شام کا وقت تھا لوگ اپنے اپنے کاموں سے واپس آرہے تھے۔۔ کچھ رات کی ڈیوٹی کرنے والے تیزی سے اپنے کاموں کی جانب رواں تھے۔۔
اس بھیڑ میں سیاہ زیادہ تھے۔۔۔جو لندن کی اس خوبصورت بارش سے مبہوت ہوگئے تھے۔
وہ یہاں کا رہنے والا تھا۔۔ اس نے ہمیشہ سے یہ موسم دیکھا تھا۔۔ اور اسے بارشوں میں چلنا ہمیشہ سے پسند تھا۔۔
اس نے اپنے فون کو دیکھا جس پر ام ایمان کا نمبر جگمگ کر رہا تھا اور پھر اس نے وہ نمبر ناچاہتے ہوئے بھی ملادیا۔۔ بیل جانے لگی لیکن کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔۔
جیسے ہی وہ اسٹیشن پر پہنچی تو اسکا فون تھرتھرانے لگا۔۔ پہلے اسے لگا شاید ماثیل کا فون ہو۔۔ اس نے نہیں اٹھایا۔۔ پھر اسکی سماعت سے میوزک کی آواز ٹکرائی۔۔ وہ کبھی نہ رکتی اگر وہ بروکن اینجل سے جڑی نہ ہوتی۔۔
اسٹیشن سے تھوڑا پہلا کچھ ٹین ایجر لڑکے لڑکیوں کا گروپ بینڈ کھڑا تھا۔۔ وہ لوگ شاید اپنے بینڈ کی لوکل پروموشن کر رہے تھے۔۔
I am so lonely broken Angel..
I am so lonely listen to my Heart
وہ بےاختیار ہی رک گئی۔۔ پھٹی پرانی جینز شرٹ اور لیدر کی جیکٹ پہنے وہ لڑکی جس نے اپنے ہونٹوں تک میں سوراخ کرواکے بالیاں سی پہنی تھیں وہ آنکھیں بند کیے کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔۔ اسکی آواز بےشک خوبصورت تھی۔۔ ایما کبھی نہ رکتی لیکن بروکن اینجل نے اسکے پاؤں پکڑ جکڑ لیے تھے۔ وہ بےاختیار ہی انکی جانب بڑھی لیکن مسلسل آنے والی کال نے اسکی توجہ کھینچی۔۔۔ اس نے نمبر دیکھا تو ویلنسیا کا نہیں تھا۔۔ فون مسلسل بج رہا تھا۔۔
جیسے ہی اس نے فون اٹھا کر ہیلو کہا۔۔ دوسری جانب سے اسے کچھ سنائی نہ دیا۔۔ وہ شور سے دور جانے لگی تاکہ فون کرنے والے کی بات سن سکے۔۔
پہلے خاموشی تھی۔۔ اور پھر فون میں سے بھی ایک تیز آواز سنائی دی۔۔
I am so lonely Broken Angel..
اور پھر ایک دھماکہ سا ہوا۔۔۔ گاڑیوں کے ٹکرانے کا۔۔ لوگوں کے چلانے کا۔۔۔ اس نے فون کان سے ہٹا لیا۔۔ اور اب وہ پھـٹی آنکھوں سے فون کو گھور رہی تھی۔۔ تبھی کال ڈسکنیکٹ ہوگئی۔۔ وہ حیران پریشان سی وہی کھڑی رہی۔۔
جبکہ دوسری جانب وہ اپنے سامنے ہونے والے حادثے کا آنکھوں دیکھا گواہ تھا۔۔ کتنی تیزی سے وہ گاڑی اسکے پاس سے گزری تھی جس میں حد سے زیادی تیز والیوم میں میوزک لگا تھا اور پھر بالکل اسکی آنکھوں کے سامنے تھوڑے ہی فاصلے پر وہ گاڑی اشارہ توڑتی دوسری جانب سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکراگئی۔
چیخوں کی آواز گونجی۔۔۔ موت نے اپنے پر پھیلا دیے۔۔۔
گاڑی میں ایک اکیس سالا لڑکی تھی جو اپنے حواس میں نہیں تھی۔۔ وہ پیچھے سگنل توڑ کر آئی تھی۔۔۔یہ اتنی برق رفتاری سے ہوا تھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔۔
بروکن اینجل مرچکی تھی۔۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایمبولینس کو آتے دیکھا۔۔ پولیس چاروں جانب پھیل گئی جو پہلے ہی اس گاڑی کا پیچھا کر رہی تھی۔۔
خوشگوار ماحول کو بدنما موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔
اس نے گہرا سانس سوگوار فضا میں خارج کیا اور بنا افسوس کیے آگے بڑھ گیا۔۔۔
کیونکہ اسے درد نہیں ہوتا تھا۔۔۔!!
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post