قسط_نمبر_13 پارٹ 1
”آج کا لیکچر شاندار تھا۔۔!“
”اتنی کم عمر میں اتنا نالج، اتنے مضبوط نظریات رکھنا کمال ہے!“
“مسٹر ماثیل unstoppable ہے۔۔۔“
جیسے ہی ماثیل اسٹوڈیو سے باہر نکلا اسے اسٹوڈنٹس کے ایسے بہت سے جملے ایک ساتھ سنائی دیے۔۔
وہ اپنا کام کر گیا تھا اور اب ایما کی باری تھی۔۔۔ جانے وہ اسے قائل کر پاتی یا نہیں۔۔اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔ اس نے اسٹوڈیو خالی ہونے کا انتظار کیا اور پھر دروازہ بند کرکے باہر نکل آئی۔۔
شاید آج ہی وہ دن تھا جب اسے پہلی بار اپنے اندر کے ملحد کے علاوہ کسی اور سے بات کرنی تھی کسی اور کا سامنا کرنا تھا اور وہ کوئی عام انسان نہیں تھا۔۔وہ ماثیل تھا ایک بت ساز!!
جیسے ہی وہ اسٹوڈیو سے باہر نکلی اسے ماثیل نظر آیا۔۔ وہ سامنے ہی پول کے پاس مارتھا کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔مارتھا کے ہاتھ میں اسکا کوٹ تھا۔۔ وہ جلدی میں نظر آرہا تھا۔۔۔یعنی وہ کہیں جا رہا تھا۔۔ اس نے پہلی بار ماثیل کو اتنی جلدی میں دیکھا تھا۔۔۔ مارتھا کسی طوطے کی طرح اسے اسکی کسی اہم میٹنگ کا بتا رہی تھی۔۔۔
ماثیل نہ تو بزنس مین تھا نہ ہی کوئی جاب کرتا تھا۔۔
وہ بس آرٹسٹ تھا پھر اسکی ایسی کونسی اہم میٹنگ تھی جس میں جانے کے لیے وہ تیار تھا۔۔
وہ اپنی کلائی میں گھڑی باندھ رہا تھا کہ اچانک اسکے ہاتھ رک گئے۔۔۔
اور ایما کا دل تیزی سے دھڑکا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی ماثیل پلٹ کر اسے دیکھ چکا تھا۔۔ وہ گڑبڑا گئی۔۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔پچھلے چند منٹوں سے لگاتار۔۔۔
اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اسے دیکھتی اور ماثیل کو احساس نہ ہوتا۔۔
وہ اسکی حرکت پر مسکرایا۔۔ اور مارتھا سے کچھ کہتا اسکی جانب بڑھا۔
”مجھے لگا تم چلی گئی ہو۔۔“ وہ اسکے قریب آچکا تھا۔۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اسکے بالکل قریب کھڑا تھا۔۔ وہ اسکے کندھے سے تھوڑا اوپر تک آتی تھی۔
”ہاں میں بس جانے لگی ہوں۔۔“
”تم مجھے دیکھ سکتی ہو۔۔ جتنا تم چاہو۔۔“ وہ شوخ ہوا جبکہ ایما کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
”میں آپکو نہیں دیکھ رہی تھی۔۔“ اس نے فوراُ تیکھے لہجے میں جواب دیا۔۔ ماثیل نے مسکراہٹ ضبط کی۔
”کچھ کہنا چاہتی ہو۔۔؟؟“ اس نے مزید تنگ کرنے کا ارادہ بدل دیا۔۔ اسے خود بھی میٹنگ میں جانا تھا۔
”ہاں آپکے سوال کا جواب دینا تھا۔۔“
”کونسا سوال؟؟“ وہ الجھا۔
”یہی کہ ہم مسلمان نماز کیوں پڑھتے ہیں۔۔؟؟“
”کیا واقعی؟؟ تمہیں جواب مل گیا۔۔؟؟“ وہ تھوڑا حیران ہوا۔
”ہاں مل چکا ہے۔۔۔پر ابھی نہیں دے سکتی۔۔ کل آپ کو آپکے پرسنل اسٹوڈیو میں ملتی ہوں۔۔ ٹیک کیئر۔۔۔“
وہ اپنی بات سنا کر تیز تیز قدم اٹھاتی اس سے دور ہوتی گئی۔۔ جبکہ ماثیل نے حیرانی سے اسے دور جاتے دیکھا۔۔۔ وہ لڑکی کبھی بھی اسکی سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔وہ بس ایک گہرہ سانس لے کر رہ گیا۔
✿••✿••✿••✿
اور پھر اس رات ریسا ہال کی لائبریری میں عجیب سی کھلبلی مچ گئی۔۔۔ سب نے دیکھا عبدل بھاگتا ہوا لائبریری میں داخل ہوا۔۔ بارش کی وجہ سے وہ بھیگا ہوا تھا۔۔
اسکے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔ لائبریری میں معمول کے مطابق خاموشی چھائی تھی۔۔ اسٹوڈنٹس آرام سے اپنے کام میں مگن تھے۔۔۔ اور پھر اسکی نظر آخری کونے میں گلاس ونڈو کے سامنے بیٹھی ایمان پر پڑی۔۔
بجلی کڑکنے کی چندھیانے والی روشنی میں اسکا وجود نہا گیا۔۔۔ وہ ڈھیلے سے ٹراؤزر شرٹ میں تھی اور سر پر ایک موٹا سکارف تھا۔۔۔
بادلوں کے اس زور سے گرجنے پر وہ گھبرا گئی۔۔ وہ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے وقفے وقفے سے گلاس ونڈو پر بہتے بارش کے قطروں کو دیکھ رہی تھی ایک دم کھڑکی سے تھوڑا دور ہوئی۔۔ یہ منظر اسکا ہمیشہ سے پسندیدہ تھا۔۔۔بارش کے قطروں کا کھڑکی کے شیشوں پر بہنا اسے ہمیشہ سے متاثر کرتا تھا۔۔۔
اسے یہاں سکون سے بیٹھے دیکھ کر عبدل کا اٹکا سانس جیسے بحال ہوا۔۔ وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔
لائبریری میں بیٹھے باقی اسٹوڈنٹس نے حیرت سے عبدل کو دیکھا۔۔ وہ کبھی لائبریری نہیں آیا تھا۔۔
”ہیلو۔۔۔!!“ وہ اسکے قریب آیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ اسکی خاکی شرٹ جسم سے چپکی ہوئی تھی۔۔ اسکے بالوں سے جو پانی ٹپک رہا تھا وہ اسے عجیب بنا رہا تھا۔۔ وہ بس اسے دیکھ رہی تھی۔۔ تبھی عبدل نے زور سے اپنی گردن کو دائیں بائیں ہلایا تاکہ بال خشک ہو سکیں۔۔ پانی کے قطرے ایمان کے چہرے تک گئے۔۔
اس نے برا سا منہ بنا کر عبدل کو دیکھا۔۔ لیکن وہ کچھ بولی نہیں۔۔ وہ بس سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اوکے۔۔۔ تو۔۔ میں۔۔ میں پوچھنے آیا تھا تم اس دن میرے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔ کوئی خاص وجہ تھی۔۔“
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا وہ کیا بول رہا تھا۔۔ ایمان الجھ سی گئی۔
جبکہ الجھا ہوا تو وہ خود بھی تھا۔۔ نہیں جانتا تھا جان نے اس سے جھوٹ کیوں بولا تھا۔۔ یہاں کوئی پرانک نہیں ہوا تھا۔۔۔
”تم یہ پوچھنے آئے ہو؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں۔۔ وہ میں۔۔“ وہ کچھ بول نہ پایا۔۔جانے سامنے بیٹھی لڑکی سے وہ جھوٹ کیوں نہیں بول پا رہا تھا۔
”کیا تم مجھے ایک کافی پلا سکتی ہو۔۔ وہ دراصل میرا والٹ گم ہوگیا ہے اور مجھے کافی کی شدید طلب ہورہی ہے۔۔ یہاں مجھے کوئی منہ نہیں لگاتا پر تم جانتی ہو تو۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔۔ ایمان اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”مجھے تم پر بالکل بھروسہ نہیں۔۔ اور ہاں میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔۔“ وہ فٹ فٹا اپنا بیگ سمیٹتے بولی۔ صاف ظاہر تھا وہ اسے کافی تو کیا پانی پلانے کو بھی تیار نہیں تھی۔
”دیکھو۔۔ اتنی تیز بارش میں کسی بھوکے پیاسے کو کھانا کھلانا اچھی بات ہے۔۔ میں تمہیں کل صبح پیسے واپس کردوں گا۔۔ بس ابھی صرف مجھے کافی چاہیے۔۔“
“تو تم کسی اور سے مانگ لو۔۔“ وہ جھٹکے سے اٹھی۔
”تمہاری طرح یہاں کوئی بھی مجھ پر بھروسہ نہیں کرتا۔۔“ وہ بھی کھڑا ہوا۔۔ پر اسکے سامنے ایمان کو اپنا وجود چھوٹا سا لگا۔
”تم اتنے بڑے ہو پھر مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو۔۔“
”ادھار۔۔۔ صبح واپس کردوں گا۔۔“ وہ بضد تھا۔۔۔ایمان سمجھ گئی تھی وہ جانے والا نہیں تھا۔ اس نے آس پاس اسٹوڈنٹس کو دیکھا۔۔ تقریباً سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔اسے عجیب لگا۔۔۔اسکی نگاہوں کے تعاقب میں عبدل نے نظریں گھمائیں تو سب کی گردنیں سیدھی ہوگئیں۔۔۔سب اپنے کام میں یوں مگن ہوگئے جیسے وہ وہاں ہوں ہی نا۔۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“ وہ بیگ کندھے پر لٹکاتی آگے بڑھی۔ عبدل نے سکون کا سانس لیا۔۔ ایمان نہیں جانتی تھی وہ بس اسے اپنے دوستوں کی شرارت سے بچانا چاہتا تھا۔
اور عبدل نہیں جانتا تھا وہ ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔ وہ اسے بس اپنی سی لگتی تھی۔۔
وہ دونوں آگے پیچھے لائبریری سے باہر نکل گئے۔۔۔
عبدل کے باہر نکلتے ہی لائبریری میں عجیب سا شور مچ گیا۔۔
”او مائے گاڈ۔۔۔ تم نے دیکھا۔۔ کیا وہ عبدل ہی تھا“
”عبدل۔۔۔ عبدل یہاں آیا تھا۔۔“
”وہ اس لڑکی سے کیا بات کر رہا تھا۔۔“
”وہ منحوس بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔“
اور تبھی عبدل نے دروازے کے باہر سے پیچھے کی جانب جھک کر لائبریری میں جھانکا۔۔ اسکا چہرہ نظر آیا۔۔ اور پھر سے خاموشی چھا گئی۔
عبدل نے اپنی دو انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا اور پھر ان سب کی جانب۔۔۔
اشارہ تھا کہ وہ ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔
اور پھر وہ غائب ہوگیا۔۔
”ارے تم نے میرے ساتھ کوئی شرارت کی تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“ ایمان نے جھٹکے سے پلٹتے ہوئے اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر اسے انگلی سے وارننگ دی۔۔ یقیناً اسے بنا بلایا مہمان پسند نہیں آیا تھا۔۔ اسکا چہرہ غضبناک تھا۔۔
”بالکل بھی نہیں۔۔“ عبدل نے دونوں ہاتھ اٹھا کر صفائی پیش کی۔
اور پھر وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔ راہداری میں ایمان کے پیچھے چلتے ہوئے اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکان تھی۔
✿••✿••✿••✿
کچھ لوگ ایک محبت کی تلاش میں اپنے سے جڑی ساری محبتیں گنواء دیتے ہیں۔۔۔ وہ بھی کسی ایسی ہی محبت کی تلاش میں تھا۔۔
آج شام ہی سید جبیل کو کسی نے خبر دی تھی۔۔ اور سید جبیل کا اس وقت خون کھول رہا تھا۔۔
اس طوفانی شام میں سید جبیل اپنی سیاہ شیشوں والی بڑی سی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔ اور اس وقت انکی گاڑی بدنام زمانہ محلے کی ایک تنگ سی گلی میں داخل ہوئی۔۔
مدھم سرخ روشنی یہاں کا خاصا تھی۔ انکی گاڑی آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔۔ سید جبیل کے ساتھ ساتھ انکا ڈرائیور بھی گلی کے نکڑوں میں بیٹھے نشیئوں میں سے کسی کو تلاش کر رہا تھا۔
سید جبیل جو آج تک یہاں نہیں آئے تھے انہیں آج پڑا تھا۔۔
کسی پولیس والے نے انہیں خبر دی تھی کہ انکا وارث یہاں نشے کرتا دیکھا گیا تھا۔۔
یہاں کی تنگ گلیوں میں کہیں پائل تو کہیں ڈھول کی تاپ سنائی دے رہی تھی۔۔ کہیں پر تیز میوزک لگا ہوا تھا۔۔
سید جبیل کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔ وہ نہیں جانتے تھے آخر انہیں ہی کیوں ایسی آزمائشوں میں ڈالا گیا۔۔۔ آخر کیوں؟؟
سید جبیل نے اب گاڑی کے شیشے نیچے کرلیے تھے۔۔۔ جہاں جہاں سے انکی گاڑی گزر رہی تھی لوگ رخ موڑ کر دیکھ رہے تھے۔۔ سب کی آنکھوں میں ستائش تھی کہ جانے یہ گاڑی کس کوٹھے کے سامنے رکنے والی تھی۔۔۔۔ اور آج کس کی محفل سجنے والی تھی۔
اور پھر وہ انہیں نظر آگیا۔۔
پھٹے پرانے دو نشیئوں کے ساتھ بیٹھا وہ لڑکا اپنے قیمتی کپڑوں سے ہی پہچانا گیا تھا۔۔
ڈرائیور نے دیکھتے ہی گاڑی روک لی تھی۔
وہ ہاتھ میں سگریٹ پکڑے نشے کی حالت میں کش لگا رہا تھا۔۔ وہ زمین پر ایسے بیٹھا تھا جیسے یہی اسکا مسکن ہو۔
اسکے چہرے پر عجیب سی خوشی اور سکون تھا۔۔
وہ آنکھی بند کیے ہولے ہولے جھوم رہا تھا۔۔ اچانک پاس بیٹھے ایک نشئی نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسکی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی دیکھنے لگا۔۔
اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
”تمہیں یہ چاہیے؟؟“ اور پھر اس نے اپنی کلائی سے گھڑی اتارنے کی کوشش کی۔۔ لیکن نشے میں اس قدر دھت تھا کہ اس سے وہ گھڑی نہ اتاری گئی۔۔ بارش اب ہلکی ہوچکی تھی۔۔۔ وہ دبلا پتلا لڑکا اب ٹھنڈ سے کانپنے لگا تھا۔
تبھی جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھول کر سید جبیل باہر نکلے۔۔ اسکے ساتھ ہی ڈرائیور نے باہر نکلتے چھاتہ سید جبیل پر کیا تاکہ وہ بارش سے بچ سکے۔۔
سید جبیل نے آگے بڑھتے ہوئے اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکے سے اٹھایا۔۔ ایک پل کے لیے تو وہ لڑکا سیدھا ہوا اور پھر سید جبیل کو دیکھتے ہی طنزیہ مسکان اسکے لبوں پر بکھر گئی۔۔
سیـد جبیل جنکی آنکھیں غم و غصے کے جذبات سے سرخ ہوچکی تھی انہوں نے ایک زوردار تھپڑ اس لڑکے کے داہنے گال پر رسید کیا۔۔
لڑکا لڑکھڑا گیا۔۔ اس نے سر جھٹک کر آنکھیں کھولنے اور خود کو ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔۔
تھپڑ کھاتے ہی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔۔
اس سے پہلے کہ وہ نیچے گر جاتا۔۔۔سید جبیل نے اسے تھاما اور اپنے کندھوں سے چادر اتار کر اس پر ڈالی۔۔
غصہ اپنی جگہ لیکن وہ انکا خون تھا۔۔ اور وہ نہیں چاہتے تھے اسے کھروچ بھی آئے۔۔
وہاں موجود کافی لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا۔۔
وہ لڑکا جو ہر روز یہاں بیٹھ کر نشہ کرتا تھا آج اسکے بارے میں سب جان گئے تھے کہ وہ کسی اونچے خاندان سے تھا۔۔
سید جبیل نے پکڑ کر اسے گاڑی میں ڈالا اور کچھ دیر بعد گاڑی تیزی سے واپسی کے راستے پر مڑ گئی۔۔۔
ہلکی بارش پھر سے تیز ہوچکی تھی۔۔۔جبکہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر وہ وجود بےسود پڑا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ اسکے سامنے بیٹھا کافی کے سپ لے رہا تھا۔۔ رات کے اس پہر گلاس ڈور کے اس پار برستی بارش کی بوندیں خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔ وہ بہت کنفیوز تھی جبکہ عبدل کی نگاہیں اس پر جمی تھیں۔۔۔ اور ایمان ایسے بیٹھی تھی جیسے جیل میں قید ہو۔۔
وہ عبدل کی کافی ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ عبدل نے اسے کہا تھا کہ جب تک کافی ختم نہیں ہوگی وہ وہاں سے نہیں جائے گی۔ اور مجبوراً ایمان کو بیٹھنا پڑا تھا۔۔ وہ جان گئی تھی عبدل کی شہرت کچھخاص اچھی نہیں تھی اور اسی لیے وہ کوئی بھی پنگا نہیں چاہتی تھی۔
”ایک بات تو بتاؤ۔۔۔“ اسے بےزار بیٹھا دیکھ کر وہ سیدھا ہوا۔ نگاہیں ابھی بھی اس پر جمی تھیں۔ وہ جان بوجھ کر لیٹ کر رہا تھا تاکہ ایمان کے ساتھ اگر کوئی پرانک ہونا بھی ہو تو نہ ہو۔ اس کے سیدھا ہونے پر ایمان نے اسے دیکھا۔
”کیا تم اپنا خدا ساتھ لائی ہو؟؟“
وہ چونکی۔۔ یہ کیسا عجیب سوال تھا۔۔
”کیا مطلب؟؟“ ایمان کی بھنویں سکڑیں۔
”میرا مطلب ہے تم مسلمان ہو۔۔ تو کیا تم اپنا خدا یہاں ساتھ لائی یا اپنے ملک چھوڑ آئی ہو؟؟“
کتنا عجیب سا سوال تھا۔۔
”خدا کو تھوڑی لایا جاتا ہے۔۔ وہ مجھے یہاں لایا ہے۔۔“ لہجہ تیکھا ہوا۔
”بہت ساری لڑکے لڑکیاں جن کا خدا انہیں سات سمندر پار لاتا ہے وہ یہاں آکر اپنے خدا کو بھول جاتے ہیں۔۔ جیسے وہ اپنے خدا کو سات سمندر پیچھے ہی چھوڑ آئے ہوں۔۔۔ تو میں تم سے پوچھ رہا ہوں تمہارا کیا ارادہ ہے۔۔؟؟“ آنکھوں میں تیز چمک لیے وہ اسے جانچنے والی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
”ہرگز نہیں۔۔ میں اپنے خدا کو کہیں چھوڑ کر نہیں آئی۔۔“ وہ جیسے برا مان گئی۔۔۔ چہرے کے نقوش میں ناراضی واضح تھی۔
”اور اگر یہاں آنے کے بعد چھوڑ دیا تو؟؟“ ابرو اچکائے پوچھا گیا۔۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ وہ بہت سنجیدہ تھا۔۔ یوں جیسے دنیا میں اس وقت عبدل کے پاس اسکے علاوہ اور کوئی موضوع نہ ہو۔۔ ”ایمان اور اسکا خدا۔۔“
”میں ویسی نہیں ہوں۔۔۔“ لفظوں پر زور دیا گیا۔۔
”کیا گارنٹی ہے کہ تم ہمیشہ ہی ایسی رہو گی جیسی اب ہو؟؟“ آخر وہ کیوں پوچھ رہا تھا۔
”میں جا رہی ہوں۔۔۔“ وہ زچ ہوئی۔۔ اسے جانا ہی بہتر لگا۔
”آرجے کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟؟“ تیر نشانے پر لگا تھا۔۔ ایمان اٹھتے اٹھتے واپس بیٹھ گئی۔
وہ اسے پل پل حیرت میں ڈال رہا تھا۔۔ وہ آرجے کو کیسے جانتا تھا؟؟ یہ بات ایمان کو پریشان کرکے رکھتی تھی۔
وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اسکی بھیگی شرٹ اور بالوں کو۔۔
وہ جتنا بددماغ لگتا تھا کیا وہ واقعی اتنا ہی بددماغ تھا؟؟
”کک۔۔۔کیا مطلب آرجے؟؟“ دل کی دھڑکن کیسے تیز ہوتی ہے یہ کوئی اس وقت ایمان سے پوچھتا۔
”تم آرجے کو کیسے جانتی ہو؟؟“ الٹا سوال آیا۔
”کیا تم آرجے سے ملے ہو؟؟“ آنکھوں میں بےچینی سی ابھری۔۔
اسکی بات پر عبدل کا قہقہہ ابھرا۔ وہ پیچھے ہو کر کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔ بارش اب ہلکی ہوگئی تھی۔
ایمان کے لیے اس وقت عبدل سے بڑا معمہ کوئی نہیں تھا۔۔ جبکہ ریسا ہال کے سبھی اسٹوڈنٹس اس بات پر حیران تھے کہ عبدل اتنے سکون سے بیٹھا تھا وہ بھی ایک لڑکی کے ساتھ۔۔۔
کتنی ہی دیر وہ ہنستا رہا۔۔ اسکی آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو ایمان نے واضح طور پر دیکھا تھا۔۔ وہ اسے ہنستے ہوئے دیکھتی رہی۔۔ اسکی ہنسی اسکی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
پھر وہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا۔
”اگر تم اپنا خدا ساتھ لائی ہو تو اسے یہاں آکر ہرگز نہ چھوڑنا۔۔“ اس نے جھکتے ہوئے ہولے سے ایمان کے سر کو اپنے ہاتھ سے چھوا۔ اسکا انداز سنجیدہ تھا۔۔۔اتنا سنجیدہ کہ ایمان کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔۔ دل کی دھڑکن مزید تیز ہوئی۔
پھر وہ واپس پلٹا اور قدم بڑھاتا دور ہوتا گیا۔۔ وہ اب سیٹی بجا رہا تھا۔۔ باہر ٹھنڈ تھی۔۔ اسکی شرٹ جو جسم سے چپکی تھی وہ اب تک خشک نہیں ہوئی تھی۔۔ کاؤنٹر کے قریب اسے ایک اسٹوڈنٹ ہـڈی پہنے نظر آیا۔۔ عبدل نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ لڑکے کی گردن پر مارا جو ابھی فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا۔۔ یہ نیل تھا جس کا تعلق انڈیا سے تھا۔۔ نیل اس اچانک افتاد پر گھبرا گیا۔۔ اپنے پیچھے کھڑے عبدل کو دیکھ کر اسکا سانس اٹکا۔۔ اس نے ہاتھ
عبدل نے سیٹی بجاتے ہوئے اسے آنکھوں سے ہڈی اتارنے کا اشارہ کیا۔۔۔ نیل قد میں عبدل جتنا ہی لمبا تھا۔ اس نے ہاتھ اپنی گردن پر رکھا ہوا تھا جہاں زودار تھپڑ پڑا تھا۔۔ نیل جیسے ہی ہڈی اتاری عبدل اسے لے کر پہنتے ہوئے وہاں سے غائب ہوگیا۔۔ اس نے پیچھے مڑ کر ایمان یا نیل کو نہیں دیکھنا جیسے گوارہ نہیں کیا
جبکہ ایمان حیرت زدہ سی وہیں بیٹھی رہ گئی۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی عبدل کون تھا۔۔ اور اسکا اصلی روپ کونسا تھا۔۔؟؟
سب نے دیکھ لیا تھا۔۔ لائبریری میں, لائبریری سے یہاں کیفے تک آتے اور اب کیفے میں کہ عبدل ایمان کے ساتھ تھا۔۔
یہ واضح اشارہ تھا کہ ایمان سے دور رہا جائے۔۔!!
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
#maseelnovel #maseel novel episode 13 #maseel (sulphite 02) episode 13
Plz epi 14 upload kren
ReplyDeleteAlready uploaded , click on the maseel all episodes
DeleteAur episode show nhi ho rhi why
Deleteclick on the all maseel episodes link above
DeleteBismel ki 11 episode kb aye ge
ReplyDelete