maseel novel episode 13, maseel novel ep 13, maseel episode 13 , maseesl episode 13 pdf download
Maseel novel epi 13 |
قسط_نمبر_13 پارٹ 2
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے تبھی وہاں مارتھا نمودار ہوئی۔”مسٹر ماثیل اپنے اسٹوڈیو میں آپکا انتظار کر رہے ہیں۔۔“ وہ اسے پیغام دیتی جا چکی تھی۔ جانے وہ کونسی میٹنگ میں گیا تھا جو تیسرے دن لوٹا تھا۔ایما کے یہ دو تین دن مصروف گزرے تھے۔۔ اسکے یونیورسٹی میں فائنل اگزامز شروع ہونے والے تھے۔۔ اور وہ اسی لیے اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے رہی تھی۔اس نے گہرا سانس لیا اور پھر قدم اٹھاتی اسٹوڈیو کی جانب بڑھ گئی۔۔اسے یاد تھا تین دن پہلے اس نے ماثیل سے کہا تھا کہ وہ اسکے سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔۔ اور ماثیل اسکی بات کیسے بھول سکتا تھا۔۔اس لیے جیسے ہی وہ اسٹوڈیو پہنچی ماثیل اندر ایک نامکمل سے مجسمے کے پاس کھڑا تھا۔۔اس نے دروازے پر دستک دی۔۔ آواز سن کر وہ پلٹا۔۔ اسکی نظریں ایما سے ٹکرائیں۔۔تین دن۔۔ اسے بنا دیکھے کیسے گزارے تھے یہ بس وہی جانتا تھا۔۔لیکن وہ اپنے جذبات کا اظہار کرکے ایما کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔وہ قدم بڑھا کر اندر آئی اور کھڑی ہوگئی۔۔ماثیل کے ساتھ اکیلے اسکے اسٹوڈیو میں رکنا اسے تھوڑا عجیب لگ رہا تھا۔۔وہ سرمئی پینٹ پر سفید ہائی نیک پہنے ہوا تھا۔۔ اسکے گھنے بال پیشامی پر بکھرے تھے۔ وہ تھوڑا الجھا تھوڑا تھکا نظر آرہا تھا۔ماثیل کی نظریں اس پر رک کر، پلٹنا بھول جاتی تھیں۔وہ ٹی پنک کلر پہنے ہوئے تھی۔ جارجٹ کا کھلا ٹراؤذر اور اس پر ڈھیلا سا ٹاپ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح اسے اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوئی۔ سر پر گہرے سبز رنگ کا گرم سکارف تھا۔ وہ بہت خوبصورت نہیں تھی لیکن اسکے گرد ایک ہالا تھا جو ماثیل کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔”اگر آج آف تھا تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟“ ایما نے بات ہی شکایت سے شروع کی۔ وہ پزل تھی۔۔تھوڑی الجھی ہوئی۔۔ تھوڑی کنفیوز ماثیل کی خاموش نگاہیں وہ خود پر زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لیے گویا ہوئی۔”میرے اگزامز ہیں اور آپ نے میرا ٹائم ویسٹ کیا۔۔“ وہ بلاوجہ ہی جھنجھلائی۔ اسکی حالت سے لطف اندوز ہوتے، ماثیل قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا اور پھر دو قدم کے فاصلے پر رک گیا۔”کیسی ہیں آپ مس ایما!!“ وہ اسکی خفگی کو نظرانداز کرتے محبت سے پوچھنے لگا۔”آج آف تھا پر صرف اسٹوڈنٹس کا، آپ کا نہیں۔۔ آپ نے تو مجھے میرے اہم سوال کا جواب دینا تھا۔۔ اسی لیے میں یہاں رکا ہوں۔۔“ وہ واپس پلٹا اور گلاس ونڈو کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔۔ وہ اسے سنبھلنے کے لیے وقت دینا چاہتا تھا۔۔ اس سے پہلے ایما کچھ کہتی تبھی دروازے پر مارتھا ابھری۔۔ وہ چائے کی ٹرالی کے ساتھ حاضر ہوئی تھی۔ماثیل کے لیے کافی جبکہ ایما کے لیے چائے آئی تھی۔۔ اور ساتھ میں کھانے پینے کا سامان تھا۔۔ وہ ٹرالی رکھ کر واپس چلی گئی۔۔اسے ایما ناپسند تھی پر وہ ماثیل کے سامنے افف بھی نہیں کر سکتی تھی۔ایما نے گہرا سانس لے کر خود کر پرسکون کرنا چاہا۔ بیگ کندھے سے اتار کر میز پر رکھا اور پھر ماثیل کے برابر آکر کھڑی ہوگئی۔۔ باہر پول میں بطخیں معمول کے مطابق تیر رہی تھیں۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔۔ شاید وہ چاہتا تھا ایما خود سے کچھ بولے۔۔ اور پھر وہ بولی۔”بت سازی کیوں کرتے ہیں آپ۔۔؟؟“ لہجہ عام سا تھا۔”مجھے پسند ہے۔۔۔ یہ آرٹ میرے اندر تھا ہمیشہ سے۔۔ اور شاید ہمیشہ رہے۔۔“ اس نے ہولے سے جواب دیا اور واپس پلٹ کر ایک ہاتھ میں چائے جبکہ دوسرے میں کافی کا کپ اٹھایا۔۔ وہ ایما کے پاس واپس آیا اور اسے چائے تھمائی۔۔ایما کہیں کھوئی ہوئی تھی۔ بظاہر اسکی نگاہیں پول میں تیرتی بطخوں پر جمی تھیں لیکن اسکا ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔”لیکن انسانوں کے مجسمے ہی کیوں؟ آپ کچھ اور بھی تو بنا سکتے تھے۔۔۔؟؟“ اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔۔ نگاہیں اب بھی باہر جمی تھیں۔”انسان سے زیادہ دلچسپ اور خوبصورت کچھ نہیں ہے۔۔ اس لیے انسان ہمیشہ سے میری پہلی چوائس رہا ہے۔۔“ ان کی گفتگو عام سے انداز میں آگے بڑھنے لگی۔”مسٹر ماثیل کیا میں آپکے بنائے گئے سارے مجسمے دیکھ سکتی ہوں۔۔؟؟“ وہ یکایک اسکی جانب پلٹی۔۔ وہاں بہت سارے مجسمے تھے۔۔ اور کافی مجسمے ڈھکے ہوئے تھے۔ سفید کپڑے سے۔۔۔۔ سیاہ ادھم۔۔ سفید مجسمے۔۔۔سیاہی اور سفیدی یکایک ملنے لگی تھی۔۔۔”کیوں نہیں۔۔ ضرور۔۔ “ ماثیل نے کافی کا کپ واپس رکھا اور آگے بڑھ کر اسٹوڈیو کی ساری بتیاں جلادیں۔ اسکے ساتھ ہی وہ مجسموں سے سفید کپڑا اتارنے لگا۔سفید مجسموں کی خوبصورتی اور کاری گری دیکھ کر ایما حیران رہ گئی۔۔ اسکا پرسنل اسٹوڈیو تو شاہکاروں سے بھرا پڑ تھا۔ وہ اپنا چائے کا کپ واپس رکھتی آگے بڑھی۔ہر مجسمے کے لیے الگ میز تھا جس پر مجسمہ خوبصورتی سے سجا تھا۔وہ دیکھتی رہی۔۔ اور پھر اسکی نگاہیں ٹھہر سی گئیں۔۔۔ وہ پہلے حیران ہوئی اور پھر ساکت رہ گئی۔اسے اپنی پیشانی جلتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسکے بالکل سامنے ایک بہت بڑے میز پر ایک بہت بڑا۔۔ بلکہ سب سے بڑا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔۔”إکاروس سے بچ کر رہنا اور خود إکاروس نہ بن جانا۔۔۔“ ٹیرو کے الفاظ اسکی سماعت میں گونج کر رہ گئے۔۔۔ اسکے سامنے ہی اکاروس کا سفید مجسمہ نصب تھا۔۔یہ کوئی سات فٹ اونچا مجسمہ تھا۔۔ وہ سیدھا کھڑا ہونے کی کوشش میں تھا جبکہ اسکے دونوں دیو ہیکل پر پیچھے کی جانب باندھے گئے تھے جسکی وجہ سے اسکا جھکاؤ کمر کے بل تھے۔۔ اسکا چہرہ آسمان کی جانب تھا۔۔ اسکے پروں کو زنجیروں میں باندھا گیا تھا۔۔دونوں ہاتھ کھلے ہوئے تھے۔۔۔وہ زور لگا کر اپنے پر آزاد کرنے کی کوشش میں تھا۔۔ اسکے چہرے پر اذیت واضح تھی۔۔وہ کتنی ہی دیر اس مجسمے کو دیکھتی رہی۔۔۔ بنا پلکے جھپکے۔۔ بت بنے۔۔”یہ اکاروس ہے۔۔ اکریئس۔۔۔ تمہیں پسند آیا۔۔؟؟“ وہ اسے بتاتا اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور فخر سے اکاروس کو دیکھنے لگا۔”یہ آپ نے بنایا ہے۔۔؟؟“ وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی۔۔ اور اسکی بات سن کر ماثیل مسکرا دیا۔”ظاہر سی بات ہے ماثیل جسے دا بت ساز کہا جاتا ہے۔۔ میں اپنے اسٹوڈیو میں کسی اور کے مجسمہ کیوں رکھوں گا۔۔؟؟“اکاروس سے بچ کر رہنا۔۔اکاروس سے بچ کر رہنا۔۔ٹیرو کے الفاظ زور پکڑ گئے۔۔ لیکن وہ نظرانداز کر گئی۔۔وہ اب گھوم کر مجسمے کا جائزہ لے رہی تھی۔ جبکہ ماثیل اسے اکاروس میں اتنی دلچسپی لیتے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا۔”جانتی ہو اسے؟؟“”ہاں وہ جو اپنی حدوں سے نکل گیا تھا۔۔۔ پھر جلنا اور ڈوبنا اسکا مقدر ٹھہرا۔۔۔“ ایما نے ہولے سے جواب دیا۔ اسکا جواب سنتے ہی ماثیل کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ وہ ہنسا اور پھر ہنستا چلا گیا۔۔“تو تمہیں بھی باقی لوگوں کی طرح لگتا ہے اکاروس قصوروار ہے۔۔؟؟“ اس نے تصدیق چاہی۔ اسکا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔ ”تمہیں تو لگے گا ہی۔۔ تم تو مذہبی لڑکی ہو۔۔“ اس نے خود ہی جواب دیا۔۔طنزیہ جواب۔۔ لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔ یوں جیسے وہ بھول گیا ہو کہ ایما کون تھی۔”میرے خیال سے اپنے بنائے گئے دائرے سے باہر نکلنے والوں کا انجام یہی ہوتا ہے۔۔ لیکن مجھے پھر بھی افسوس ہے۔۔“ ایما کو اسکا یوں ہنسنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔ اور پھر ہر بار وہ اسکے مذہبی ہونے پر چوٹ کرتا تھا۔ وہ اسکی بات سن کر فاصلہ مٹاتا اسکے عین قریب آن کھڑا ہوا۔۔ ایما پل بھر کو ٹھٹکی۔۔”کیا ہوگا اگر تم کبھی اپنی حدود سے باہر نکل آؤ تو۔۔؟؟“اسکی آنکھوں میں کچھ تھا۔۔ جو ایما جھیل نہ پائی۔اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔۔ اس خیال نے ہی اسکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔”میرے خیال سے ہم کسی اور ٹاپک پر بات کرنے آئے تھے۔۔“ وہ اسکے پاس سے نکلتی ہوئی تیزی سے چائے کی جانب بڑھی جو اب ٹھنڈی ہوچکی تھی۔۔وہ پانی کی طرح ٹھنڈی ہوچکی چائے نہیں پی سی سکتی تھی۔ اس لیے اس نے ایک پیسٹری اٹھائی۔۔ یہ سب کرنے کا مقصد ماثیل سے فاصلہ رکھنا تھا۔ اسکی اس حرکت پر ماثیل مسکرا دیا۔ وہ جانتا تھا وہ اس سے دور رہتی تھی۔۔ دور رہنا چاہتی تھی اور یہی بات ماثیل کو تکلیف میں ڈالتی تھی۔۔”اوکے مس ایما! تو بتائیں مجھے کیوں آپ اپنے خدا کی عبادت کرتی ہیں۔۔ اور کیوں وہ عبادت نہ کرنے پر سزا دیتا ہے۔۔“ وہ یک دم پروفیشنل ہوتا تم سے آپ پر آیا۔ ایما نے پیسٹری منہ میں رکھتے ہوئے اسکے تمام مجسموں کو ایک نظر اور دیکھا۔۔ میٹھے کا ذائقہ منہ میں گھلتے ہی اسے اچھا محسوس ہوا۔”تو مسٹر ماثیل۔۔۔ آپ نے کہا انسان ہمیشہ آپکی چوائس رہا ہے۔۔ اس لیے آپ ان کے مجسمے بناتے ہیں۔۔ یہ سارے مجسمے آپکے ہیں اور آپ ان کے خالق ہیں۔۔“وہ بولتے ہوئے اب اسٹوڈیو میں آگے کی جانب بڑھی جہاں دونوں جانب لائن میں لکڑی کی میزوں پر مجسمے سجے تھے۔ ماثیل نے اسکی پیروی کی۔”پتہ ہے جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ انسان کو کیوں بنا رہے ہیں۔۔ جبکہ عبادت کے لیے تو ہم ہیں۔۔ تو اللہ نے فرمایا کہ میں اسے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجوں گا۔۔ اور جو تم نہیں جانتے وہ میں جانتا ہوں۔۔“وہ رکی اور پلٹ کر ماثیل کو دیکھا۔۔اسٹوڈیو کی ساری کھڑکیاں کھلی تھیں جن سے ڈوبٹے سورج کی سرخ کرنیں اندر آرہی تھیں۔۔ کچھ دیر پہلے بادل چھائے تھے۔۔ اور ابھی جب بادل ہٹے تو شفق چاروں جانب پھیل گئی۔۔”آپ نے کہا انسان آپکی پہلی چوائس ہے۔۔ بالکل۔۔ انسان اس کائنات کی پہلی چوائس ہے۔۔ خدا نے اسے بہت ہی کمپلیکس بنایا ہے۔۔“ وہ پل بھر کو رکی۔ ماثیل خاموشی سے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اب ایک مجسمے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ وہ اسے ایسے سن رہا تھا جیسے دنیا میں اسکی آواز کے علاوہ اور کچھ میسر نہ ہو۔۔ اور ہوتا بھی تو ماثیل اس وقت کسی کو میسر نہ ہوتا۔”ایک بات بتائیں۔۔ اگر آپ کو اختیار دیا جائے کہ آپ ان مجسموں کو زندہ کر سکیں تو کیا آپ انہیں زندہ کرنا چاہیں گے؟۔۔ جیتے جاگتے سانس لیتے مجسمے۔۔۔؟؟“ سوال عجیب تھا۔۔ لیکن ماثیل کا جواب فورا آیا۔۔ بنا سوچے سمجھے۔۔”نو۔۔ نیور۔۔۔“ یوں جیسے اسے اسکا خیال ہی برا لگا ہو۔”کیوں۔۔؟؟“ اسکا کیوں بہت گہرا تھا۔”کیوں کہ میں نہیں چاہتا یہ زندہ ہو کر میری طرح Suffer کریں۔۔ اس جہنم جیسی دنیا میں۔۔“ ایما نے پہلی بار اسکے لہجے میں کڑواہٹ محسوس کی۔”اسکے علاوہ کوئی اور وجہ؟؟“ وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔”نہیں۔۔“ ماثیل نے یکا یک جواب دیا۔”مسٹر ماثیل۔۔ آپ ان مجسموں کے خالق ہیں۔۔ آپ انہیں Suffer نہیں کرنے دیں گے۔۔۔آپ کو اپنا خدا پسند نہیں۔۔ آپ ہرگز ویسے خدا نہیں بنیں گے۔۔ تو پھر آپ کیوں نہیں چاہتے یہ زندہ ہوں۔۔ یہ جئیں یہ سانس لیں؟؟“ جانے وہ کیا سننا چاہ رہی تھی۔۔ وہ پل بھر کو خاموش ہوا۔”کیونکہ میں نہیں چاہتا ان میں سے کسی ایک کو بھی ایسے انسان سے محبت ہوجائے جو بدلے میں کچھ نہ دے پائے۔۔۔“ اس نے سوال کا رخ موڑا۔۔ گہریں نگاہیں ایما پر جمی رہیں۔۔۔ پل بھر کو ایما کی رنگت بدلی۔۔اسٹوڈیو میں پھر سے خاموشی چھاگئی۔۔یوں لگنے لگا جیسے وہاں موجود سارے مجسموں میں روح پھونک دی گئی ہو۔۔ اور وہ جیتے جاگتے سانس لیتے انکی باتیں سن رہے ہوں۔۔ اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے ہوں۔”اوہو مسٹر ماثیل۔۔۔ کوئی بات نہیں آپ اپنے اس مجسمے کو تڑپنے مت دینا۔۔ اسکے محبوب میں اسکے لیے محبت پیدا کر دینا۔۔ آپ تو نہیں چاہتے نا کوئی Suffer کرے۔۔“ اس بار وہ مسکرائی۔۔اور پورے اسٹوڈیو میں دھیمی دھیمی سی ہنسی گونج گئی۔۔اکاروس اپنی تکلیف بھول کر اب اسے سننے لگا تھا۔۔وہ مائیکل جیکسن جسے اپنی سانولی رنگت پسند نہیں تھی وہ بھی اپنے اصلی روپ میں مائیک تھامے اب اسٹیج پر بیٹھ گیا۔۔ وہ اپنی بدصورتی بھول کر اب ایما کی خوبصورت ہنسی میں کھونے لگا تھا۔۔وہ دائیں جانب سے ساتویں نمبر پر رکھا Jack Sparrow بھی جیسے ہوش میں آیا۔۔ اس نے اپنے ہیٹ کو اونچا کیا اور بھنویں اٹھا کر اس عجیب لڑکی کو دیکھا۔۔بائیں جانب سے پہلے نمبر پر موجود وہ خوبصورت حسینہ تھوڑا چڑ گئی تھی۔”یہ کون ہے۔۔؟؟“ وہ اب چلتے ہوئے ایک مجسمے کے سامنے رکی۔۔ وہ ایک ہینڈسم سا آدمی تھا۔۔”ڈونٹ یو نو ہم؟؟“ ماثیل حیران ہوا۔”یہ ٹام کروس ہے۔۔امریکن ایکٹر۔۔ کبھی میں اسکا فین تھا۔۔ یہ تب بنایا تھا سالوں پہلے۔۔۔“ وہ ہنس دیا۔ اور ٹام کروس نے برا سا منہ بنایا۔۔ وہ اسے کیوں نہیں جانتی تھی۔۔؟؟ پورے اسٹوڈیو میں چہ میگوئیاں سی پھیل گئیں۔”کہاں تھے ہم۔۔ ہاں یاد آیا۔۔ مجھے یہ بتائیں یہاں سب سے فیورٹ مجسمہ کونسا ہے آپکا؟؟“”مجھے تو سارے ہی پسند ہیں۔۔“”کوئی ایک؟؟“ وہ جاننے کو بےتاب تھی۔۔ کئی مجسموں پر اب تک کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔۔ یقیناً ماثیل نے انہیں برہنہ بنایا ہوگا اور وہ ایما کی اتنی تو عزت کرتا تھا کہ اسکے سامنے انہیں ڈھکا رہنے دے۔”اکاروس۔۔ ابھی تک تو۔۔“ اس نے جواب دیا۔فرض کریں آپ کا ٹام کروس آپکی دنیا میں زندہ ہوجائے۔۔ یہ اکاروس بھی۔۔ وہ جیک اور مائیکل ھی۔۔ یہ حسن کی دیویاں یہ سب۔۔۔ سب زندہ ہوجائیں۔۔۔ اور آپ انہیں اختیار دیں کہ وہ خوشی سے رہ سکیں۔۔۔ تو بدلے میں آپ ان سے کیا چاہیں گے۔۔۔““میں چاہوں گا ان کا جو دل چاہے وہ کریں۔۔ ان میں سے اگر کوئی شراب پینا چاہے وہ پیے۔۔۔ کوئی سنگر بننا چاہے بنے۔۔ کوئی جواء کھیلنا چاہے کھیلے۔۔ کوئی اڑھنا چاہے اڑے۔۔۔ میں نہیں چاہوں گا وہ اس دنیا میں تڑپیں۔۔۔“ اس نے سنجیدہ الفاظ میں جواب دیا۔۔ نگاہیں اب بھی ایما پر تھیں جو اکاروس کے پاس کھڑی تھی۔ اور تبھی اس کی نظر آخر میں کھڑے Maleficient مجسمے پر پڑی۔۔ وہ تیزی سے اسکی جانب بڑی۔۔ وہ جادوگرنی اپنے تمام تنتر منتروں کے ساتھ وہاں موجو تھی۔”کیا تمہیں کسی نے بتایا ہے کہ تم کتنی بری ہو؟؟ تم Maleficient چڑیل اور جادورگرنی جیسی ہو جس نے اپنے ہی جذبات کو قید کر رکھا ہے۔۔ تم ہمیشہ میری باتوں کو ہنسی میں اڑا دیتی ہو۔۔ “روز کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی اور وہ ہنس دی۔۔ ماثیل کو وہ ایسے ہنستے ہوئے کسی اور دنیا کی باسی لگی تھی۔✿••✿••✿••✿اس رات ایمان اپنے کمرے میں واپس آئی تو وہ الجھی ہوئی تھی۔۔ یشما کا آج آف تھا وہ کمرے میں ہی تھی۔۔عبدل نے ایمان کو بری طرح الجھا دیا تھا۔۔ اسکا رویہ اسکا انداز نارمل نہیں تھا۔ اور پھر اس نے خدا کے بارے میں ایسے بات کیوں کی؟؟”اسے کیوں لگا کہ میں یہاں آکر اپنا خدا بھول جاؤں گی؟؟ ہنہہ۔۔ پاگل“وہ اسی سوچ میں اپنے بیڈ تک آئی اور اپنا بیگ بیڈ پر گرادیا۔۔۔ اسکا دماغ بری طرح چکرا گیا تھا۔۔جانے کیا چکر تھا۔۔ وہ خود نہیں سمجھ پائی تھی۔یشما اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ ہیڈ فون لگائے لیپ ٹاپ سامنے رکھے برگر کھاتے ہوئے کوئی فلم دیکھ رہی تھی پر ایمان کو دیکھ کر اسکی توجہ ایمان کی جانب ہوئی۔۔ان دونوں کی آپس میں زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ ایمان دن میں نہیں ہوتی تھی تو یشما رات کو۔۔جب یشما واپس آتی تھی تب ایمان سوئی ہوتی تھی البتہ یشما واپس آتے ہی ویڈیو کال پر مصروف ہوجاتی۔۔ وہ دھیما بھی بولتی تو اسکی سرگوشیوں سے ایمان کی آنکھ کھل جاتی تھی۔۔اسے بےزاری تو بہت ہوتی تھی البتہ وہ اسکی روم میٹ تھی اسے برداشت تو کرنا ہی تھا۔ اسے یونہی الجھا ہوا بیٹھا دیکھ کر یشما نے اسے پکارہ۔”ایمان۔۔ یہ برگر کھاؤ گی؟؟ میں نے دو آڈر کرلیے تھے۔۔ لیکن اب مجھ سے کھایا نہیں جارہا۔۔“ ایمان نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ وہ اپنے سامنے برگر رکھے بیٹھی تھی۔”ارے تھینک یو سو مچ۔۔ میں کھانا کھاچکی ہوں۔۔ اور لیٹ نائٹ نہیں کھاتی۔۔“ ایمان نے سہولت سے انکار کیا۔۔ وہ دیر رات گئے کھانا نہیں کھاتی تھی۔”ٹیسٹ تو کرو۔۔“ وہ پھر سے گویا۔”ابھی تو بالکل دل نہیں ہے۔۔۔ ورنہ میں لازمی کھاتی۔۔“ اس بار ایمان کو انکار کرنا برا لگا۔۔ لیکن وہ زیادہ کھانے کی عادی نہیں تھی۔ یشما واپس اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جبکہ ایمان کے ذہن میں ابھی تک عبدل کی باتیں گھوم رہی تھیں۔اس نے وقت دیکھا تو رات کے دس بجنے والے تھے۔۔ وہ اٹھی اور باتھروم کی جانب بڑھ گئی۔ پانچ منٹ بعد وہ وضو کرکے واپس آئی اور جائے نماز بچھا کر نماز کی نیت باندھ لی۔۔اسے عبدل نے کہا تھا کہ اپنا خدا چھوڑ مت دینا۔۔ تو وہ بھلا کیسے چھوڑ سکتی تھی۔۔ وہ تو اپنا خدا ساتھ لائی تھی۔۔!!✿••✿••✿••✿تیرے ہونٹوں پر مکڑی کے جالوں کے جمنے کا دکھتو بحرحالمجھ کو ہمیشہ رہے گاتم نے چپ ہی اگر سادھنی تھیتو اظہار ہی کیوں کیا تھا؟یہ تو ایسے ہے بچپن میں کہیںکھیلتے کھیلتے کوٸی کسی چیز کو سٹیچو کہےاور پھر عمر بھر اسے مڑ کر نہ دیکھے۔۔۔۔!!وہ دائمہ جبیل تھی۔۔ عرف دامی۔۔۔ جو خاندان کی ذہین و فطین لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ نےانتہا خوبصورت اور خوش اخلاق بھی تھی۔۔ وہ ہرلحاظ سے پرفیکٹ تھی۔۔ ایم بی اے کرنے کے بعد اس نے حمدان صاحب کا بزنس سنبھال لیا تھا۔۔ جس میں اسکی فیملی کا بھی حصہ تھا۔۔وہ خوبصورت پرفیکٹ اور نازک لڑکی ایسے شخص کی محبت میں مبتلا تھی جو اسکا ہوتے ہوئے بھی اسکا نہیں تھا۔۔ وہ اسکے نام کی انگوٹھی اپنی نازک انگلی میں سالوں سے پہنے بیٹھی تھی اور ایک وہ دشمن جان تھا جو دیکھتا بھی نہیں تھا۔۔ جسکے پاس فرصت ہی نہیں۔۔ یا صرف اسی کے لیے فرصت نہیں تھی۔۔اس وقت بھی وہ اپنے آفس میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی اسکرین کو گھور رہی تھی۔۔اس نے تین گھنٹے پہلے اپنے جان سے عزیز محبوب کو میسج کیا تھا مگر اب تک سین بھی نہیں ہوا تھا۔۔ یہی سوچتے سوچتے اسکی آنکھیں اور دل دونوں بھر آئے۔۔ اور وہ رونے لگ گئی۔۔۔ اذیت کی ایک انتہا تھی جو وہ سالوں سے برداشت کر رہی تھی۔۔اسے اس بات کا افسوس تھا آخر اسکا رشتہ ایسے شخص سے کیوں جوڑا گیا جو اسکو نظر اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں تھا۔۔ اور آخر اسے اس شخص سے اتنی محبت ہوئی ہی کیوں؟؟ کیا اسے لڑکوں کی کمی تھی ؟؟اسکے ایک اشارے پر سینکڑوں لوگ دل نکال کر اسکی ہتھیلی پر رکھ سکتے تھے۔۔ پھر وہی کیوں؟؟کیونکہ ہمیشہ ماہین حمدان کو حشام جبیل جیسے بےحس شخص سے محبت ہوجاتی تھی؟؟جانے وہ کتنی دیر اپنی بےبسی پر آنسو بہاتی رہی جبکہ دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے چونکا دیا۔۔ اس نے جلدی سے ٹشو پیپر نکال کر آنکھیں صاف کیں۔تبھی آفس کا دروازہ کھولا اور حمدان صاحب کا چہرہ نمودار ہوا۔۔”ارے نانا ابو آپ۔۔“ وہ جلدی سے اٹھ کر انکی جانب بڑھی اور انکے سینے سے لگ گئی۔۔ اندر ابھی تک اذیت کی آگ جل رہی تھی۔“میری بیٹی آج پھر رو رہی تھی۔۔۔؟؟“ حمدان صاحب کے نرم لہجے میں پوچھے گئے سوال نے اسے ٹوٹ کر بکھر جانے پر مجبور کردیا تھا۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔✿••✿••✿••✿
Click me to read Maseel episode 13 part 1
Click me to read all maseel episodes
MOre novels by Noor Rajpoot.
Is maseel novel completed by the author?
ReplyDeletenahen ongoing ha, 38 episodes upload ho chuki han.
DeleteEpisode 1 sy link mil skta ha plzzz
ReplyDelete