Junoon e ulfat novel by Mehwish ali Pdf Download

 

Junoon e ulfat novel by mehwish ali

شٹ اپ باشن دینے والوں سے مجھے سخت نفرت ہے جو میں نے پوچھا ہے اسکا جواب دو گاڑی کہاں ہے
تمہاری؟" اسکی بات کاٹ کر وہ غرائی۔
صارم نے حیرت سے اسے دیکھا کہ اسنے کون سا باشن دیا ہے۔۔
سامنے ہے۔۔ "اپنے سامنے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ دیا۔
جسکے تعاقب میں باذل نے دیکھا اور اگلے پل دیکھتی رہ گئی۔۔
" واؤ بلیک میں یہ تمہاری گاڑی ہے ؟ "وہ پر جوش ہو کر بولی۔ حسن اسے ہمیشہ متوجہ مائل کرتا تھا۔ وہ خود
حسین تھی اور حسن کی دیوانی۔
" جی۔۔"صارم کو اسکا بلیک مین کہنا نا گوار تو لگا تھا پر وہ لب بھینچ کھڑا تھا۔
ایکسکیوز می مجھے دیر ہورہی ہے۔ " اسنے باذل کو متوجہ کیا جو کہ گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔
کس کی چوائس ہے ؟ کیا تم نے خود پسند کی ہے ؟ اسکی بات کو نظر انداز کرتی بولی
نہیں میرے بھائی کی ہے۔ "صارم نے بیزاریت چھپاتے ہوئے کہا۔۔
ہاہاہاہا مجھے معلوم تھا تمہاری یہ ہو ہی نہیں سکتی " معاً اسنے استہزائیہ قہقہ لگایا۔
"ویسے تمہارا بھائی بھی ہے کیا؟ کیا نام ہے ؟ ہو گا ضرور تمہارے جیسا سیاہ فارم۔۔۔ وہ کہہ کر اپنی بات ہی
انجوائے کرتی کھلکھلارہی تھی۔۔
جانے کتنی ہی نظریں اس پر تھیں۔ اور اسکالہجہ آگ بھڑ کا اتذلیل آمیز تھا۔ صارم لب بھینچے اسکی سنے لگا۔ وہ
اس سے کچھ کہہ بھی نہیں پارہا تھا۔
" کیز دو! " معاً اسنے اپنی سفید ہتھیلی اسکے سامنے کی۔

صارم نے چونکتے استنفامیہ نظروں سے دیکھا۔
"بھئی دو تو لیکر نہیں بھاگ رہی۔۔ " اسنے جھڑکتے ہوئے کہا۔ اور آگے بڑھتے خود ہی اسکے ہاتھ کو تھام کر
اسکی ہتھیلی سے نکال لیں۔۔
اسکا اس قدر بے تکلف بلا جھجھک کسی حیا کے بغیر اسے چھونا، اسکے قریب آنا، کہ اسکی سانسوں کی مہک تک
صارم زیدی نے محسوس کر لی۔۔ اسکے وجود کی مہک تو ویسے ہی ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔۔
اسے کچھ ہوا یا نہیں پر صارم زیدی کی دھڑکنیں ضرور ایکدم تیز ہوئی تھیں۔
وہ اسے دیکھتار ہا جب اسنے گاڑی میں بیٹھ کر اچانک اسکی فائل اوور آل سب کچھ نکال کر ونڈو سے اسکی طرف
پھینکا ساتھ اس گاڑی کی کیز بھی۔۔۔
" کچھ بھی ہے پر اس سیاہ فارم کی چوائس اے ون ہے۔ اسلئے میری ایک لانگ ڈرائیونگ تو بنتی ہے۔ کیونکہ
خوبصورت چیزیں صرف باذل شاہ کیلئے بنی ہیں بلیک مین۔ شام کو شاہ ہاؤس آکر لے جانا اپنی گاڑی۔۔
بائے بائے ۔۔۔۔ آنکھ دبا کر اسے سکتے میں چھوڑتی آنکھوں پر گلاسز لگا کر ، ساتھ گاڑی کا شیشہ اوپر کر کے ،،
اسے وہیں چھوڑ کر گاڑی فراٹے بھرتی وہاں سے لیکر چلی گئی۔
معا اسے اپنے پیچھے قہقہوں کا طوفان سنائی دیا۔
اسنے پلیٹ کر دیکھا تو وہی لڑکے تھے۔اسے دیکھتے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگا رہے تھے۔
شاید یہ سوچتے کہ فراڈی تھی اسے چکمہ دے گئی۔
اسنے ان پر ایک غصے بھری نظر ڈالتے اپنے قدم ہارون شاہ کی گاڑی کی طرف اٹھائے۔ جیب میں بیچتی
موبائل کو نکال کر دیکھا تو ڈاکٹر کی کال تھی۔۔اسنے او کے کر کے کان سے لگائی۔۔


'ڈاکٹر صارم جلدی آئیں یہاں پلیز ایک ایمر جنسی کیس ہے۔ "دوسری طرف سے پریشان اسکے ساتھ
جاب کرنے والی ڈاکٹر انوشہ تھی۔
"اوکے میں پہنچ رہا ہوں دس منٹ ! اپنے جلدی سے کہتے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی وہاں سے لیکر
نکل گیا۔
اسکے بارے میں کچھ بھی کہتی پر اسکے بھائی کیلئے اسکے الفاظ۔۔ اگر پبلک پلیس نا ہوتی تو دو تھپڑوں سے اسکامنہ
سوجادیتا آئندہ غلطی سے بھی صمصام زیدی کی شان میں گستاخی نا کرتی۔۔۔
★☆☆☆☆☆★
کب سے انتظار کر رہا ہوں۔۔ " اسکے بھاری قدموں کی آہٹ سنتے وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
" تو پھر تجھے کسنے کہا بیویوں کی طرح رات کے دوسرے پہر میرا انتظار کر؟" دروازہ بند کرتے اسنے ابرو
اچکائی۔
کرنی پڑتی ہے دلاورے ! جب دل لگائے گا تو معلوم ہوگا میر اتو مائی باپ سب توہی ہے جب تک وہ گھر میں
نا آئے مجھے کیسے نیند آسکتی ہے ؟' اسنے مسکراتے ہوئے کہا دلاور اسکا چہرہ دیکھتے سر جھٹک گیا
" کھانا لاؤں؟" اسنے پوچھا۔
" نہیں چا قو گرم کر کے لا اسنے کہتے زمین پر سرخ دھبے چھوڑتے ہوئے قدم اسکی سمیت بڑھائے۔
خیری گرم چاقو کا سنتے چونک گیا۔ اسکا کام تو اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ گرم چاقو کو کیا کرے گا۔ اسکانھا
سادل ڈوب گیا۔
اور نظرے اسے سیاہ لبادے میں چھپے چوڑے وسیع پورے وجود سے ہوتی نیچے سرک گئیں۔۔



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post