آپ نے مجھ پہ ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا ایڈ"۔۔ وہ آئینے کے سامنے بیٹھی گال پر سرخ نشان دیکھتی رورہی تھی۔
" کیا غلط کیا تھا مینے اگر اس للو سے شادی کرتی تو ہمیں خاندان ساتھ رکھتا اگر نا کرتی تو بے دخل کر دیا ہو نہہ ہزار دفعہ برا
لگے آپکو ڈیڈ میں کہوں گی انہیں ایسا وہ غصے سے چیز میں پھنتی بولی۔
"عائشہ دروازہ کھولو " عشرت بیگم چیزیں ٹوٹنے کی آواز پہ دروازہ پیٹتی گھبر ائی بولی
امی چلیں جائیں مہربانی کر کے میرا کوئی موڈ نہیں آپکا باشن سننے کا " وہ چیچ کر بولی اور موبائل اٹھا کر دیکھنے لگی
اسے مہکار کی کال کا انتظار تھا کہ کیا نتیجہ آتا ہے تقویٰ حیدر کا۔۔
دروازے پر کھڑی اپنی ماں کی منتوں کو نظر انداز کرتی وہ بیڈ پہ بیٹھی اور موبائل میں موجود حیدر کی تصویریں دیکھنے گی
سنئیے آپ بتائیں تو سہی ہو کیا کیوں ایسے چلے آئے "۔ حویلی میں داخل ہوتے آغا سیدھا اپنے روم میں آگئے بغیر کسی کی
ہزاروں سوال پیچھے چھوڑ کر۔
آپ نے مجھ پہ ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا ایڈ"۔۔ وہ آئینے کے سامنے بیٹھی گال پر سرخ نشان دیکھتی رورہی تھی۔
" کیا غلط کیا تھا مینے اگر اس للو سے شادی کرتی تو ہمیں خاندان ساتھ رکھتا اگر نا کرتی تو بے دخل کر دیا ہو نہہ ہزار دفعہ برا
لگے آپکو ڈیڈ میں کہوں گی انہیں ایسا وہ غصے سے چیز میں پھنتی بولی۔
"عائشہ دروازہ کھولو " عشرت بیگم چیزیں ٹوٹنے کی آواز پہ دروازہ پیٹتی گھبر ائی بولی
امی چلیں جائیں مہربانی کر کے میرا کوئی موڈ نہیں آپکا باشن سننے کا " وہ چیچ کر بولی اور موبائل اٹھا کر دیکھنے لگی
اسے مہکار کی کال کا انتظار تھا کہ کیا نتیجہ آتا ہے تقویٰ حیدر کا۔۔
دروازے پر کھڑی اپنی ماں کی منتوں کو نظر انداز کرتی وہ بیڈ پہ بیٹھی اور موبائل میں موجود حیدر کی تصویریں دیکھنے گی
سنئیے آپ بتائیں تو سہی ہو کیا کیوں ایسے چلے آئے "۔ حویلی میں داخل ہوتے آغا سیدھا اپنے روم میں آگئے بغیر کسی کی
ہزاروں سوال پیچھے چھوڑ کر۔
آغا جان نے انکی شادی پہ کچھ اعتراض کیا پر اپنے لاڈلے بیٹے کی خوشی دیکھ کر چپ رہ گئے اور غریب گھر کی لڑکی ہانیہ ، وہاب
سے شادی کر کے حویلی میں آئی تو اس گم صم سی لڑکی کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر سب گنگ رہ گئے۔
کسی سے ٹھیک منہ بات نہیں کرتی تھی اور رہن سہن ایسا جیسے دوسرے سب ملازم ہوں اور وہ مالکن۔
آغا جانی کو بھی ٹھیک سے منہ نالگاتی۔
انہونے وہاب سے اسکی بیوی کے مغرور پن پر شکوہ کیا تو پہلی بار ایسا طوفان اس عورت نے اٹھایا کہ در دیوار ہلا کر رکھ دئے۔
کہ وہاب بھی بو کھلا گیا اسکے زارو قطار رونے پہ اور ہانیہ کا کہنا تھا کہ وہ سب اسے آپ کے جانے کے بعد پرائی سمجھ کر تشدد
کرتے ہیں مجھ سے ملازموں جیسا سلوک کیا جاتے ہے۔
دونوں ساس بہو مل کر مجھ پہ ظلم کرتی ہیں مجھے مارتی ہیں۔
ثانیہ بیگم اور آغا جانی تو صدمے میں تھی اس عورت کی چالا کی پہ
اور اسکی حالت اور بیان کو سنتے وہاب نے ناچار شہر جا کر رہنے کا فیصلہ کر کے سارے گائوں کو گم صم کر دیا۔
آغا جان اور وجد ان صاحب نے اسے روکنا چاہا پر وہ بولے کہ " بابا سائیں میں نہیں چاہتا جس حویلی میں مینے آنکھ کھولی ہے
جس میں مینے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسین پل گزارے ہیں اس حویلی کو بکھر تا دیکھوں مجھ میں اتنی ہمت نہیں"۔ اور
اسکی حقیقت کو سنتے آغا جان نا چاہتے ہوئے بھی اسے شہر شفٹ ہونے کی اجازت دے گئے۔
اس وقت آغا جان کے چہرے پہ غیض و غضب کے تاثرات دیکھ کر اور کسی کی ہمت تو نا ہوئی البتہ آغا جانی پیچھے پیچھے آگئی۔
انکے سوال پر آغا جان نے اپنی شریک حیات کو دیکھا جسنے انہیں تین تین سپوت دئے تھے۔
سب سے بڑا میر وجد ان حسین زیدی دوسرے نمبر پہ وہاب زیدی جو معذور تھا اور وہیل چیئر اسکی زندگی کا مین حصہ تھی۔
پر اسکے بعد بھی اسنے کبھی خود کو کمتر نا سمجھا بلکہ ہمیشہ سب سے آگے رہا پڑھائی میں ٹاپ رہا اور باپ کے سپورٹ پر اپنا
بزنس شروع کیا جو بلندیوں کو چھونے لگا۔
سب کو فخر تھامیر وہاب زیدی پر
تیسرے نمبر پہ میر وہاج جو ہائر سٹڈی کیلئے امریکہ چلا گیا تھا۔۔
میر وجدان کی رشتہ خاندان میں ہی کیا گیا تھا۔
ثانیہ بیگم سے وہ ایک مخلص اور نیک دل عورت تھی۔
میر وہاب نے اپنی سیکٹری مس ہانیہ سے اپنی پسند سے شادی کی۔
دونوں کی محبت عروج پر تھی یہ کہنا ٹھیک تھا کہ میں ہانیہ نے اسے محبت کے جال میں ایسے جکڑا تھا کہ وہ پھڑ پھڑ ابھی ناسکا۔