اور پھر اس رات ریسا ہال کی لائبریری میں عجیب سی کھلبلی مچ گئی۔۔۔ سب نے دیکھا عبدل بھاگتا ہوا لائبریری میں داخل ہوا۔۔ بارش کی وجہ سے وہ بھیگا ہوا تھا۔۔
اسکے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔ لائبریری میں معمول کے مطابق خاموشی چھائی تھی۔۔ اسٹوڈنٹس آرام سے اپنے کام میں مگن تھے۔۔۔ اور پھر اسکی نظر آخری کونے میں گلاس ونڈو کے سامنے بیٹھی ایمان پر پڑی۔۔
بجلی کڑکنے کی چندھیانے والی روشنی میں اسکا وجود نہا گیا۔۔۔ وہ ڈھیلے سے ٹراؤزر شرٹ میں تھی اور سر پر ایک موٹا سکارف تھا۔۔۔
بادلوں کے اس زور سے گرجنے پر وہ گھبرا گئی۔۔ وہ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے وقفے وقفے سے گلاس ونڈو پر بہتے بارش کے قطروں کو دیکھ رہی تھی ایک دم کھڑکی سے تھوڑا دور ہوئی۔۔ یہ منظر اسکا ہمیشہ سے پسندیدہ تھا۔۔۔بارش کے قطروں کا کھڑکی کے شیشوں پر بہنا اسے ہمیشہ سے متاثر کرتا تھا۔۔۔
اسے یہاں سکون سے بیٹھے دیکھ کر عبدل کا اٹکا سانس جیسے بحال ہوا۔۔ وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔
لائبریری میں بیٹھے باقی اسٹوڈنٹس نے حیرت سے عبدل کو دیکھا۔۔ وہ کبھی لائبریری نہیں آیا تھا۔۔
”ہیلو۔۔۔!!“ وہ اسکے قریب آیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ اسکی خاکی شرٹ جسم سے چپکی ہوئی تھی۔۔ اسکے بالوں سے جو پانی ٹپک رہا تھا جو اسے عجیب بنا رہا تھا۔۔ وہ بس اسے دیکھ رہی تھی۔۔ تبھی عبدل نے زور سے اپنی گردن کو دائیں بائیں جھٹا دیا تاکہ بال خشک ہو سکیں۔۔ پانی کے قطرے اچھل ایمان کے چہرے تک گئے۔۔
اس نے برا سا منہ بنا کر عبدل کو دیکھا۔۔ لیکن وہ کچھ بولی نہیں۔۔ وہ بس سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اوکے۔۔۔ تو۔۔ میں۔۔ میں پوچھنے آیا تھا تم اس دن میرے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔ کوئی خاص وجہ تھی۔۔؟؟“ بے تکا سوال۔
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا وہ کیا بول رہا تھا۔۔ ایمان الجھ سی گئی۔
جبکہ الجھا ہوا تو وہ خود بھی تھا۔۔ نہیں جانتا تھا جان نے اس سے جھوٹ کیوں بولا تھا۔۔ یہاں کوئی پرانک نہیں ہوا تھا۔۔۔
”تم یہ پوچھنے آئے ہو؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں۔۔ وہ میں۔۔“ وہ کچھ بول نہ پایا۔۔جانے سامنے بیٹھی لڑکی سے وہ جھوٹ کیوں نہیں بول پا رہا تھا۔
”کیا تم مجھے ایک کافی پلا سکتی ہو۔۔ وہ دراصل میرا والٹ گم ہوگیا ہے اور مجھے کافی کی شدید طلب ہورہی ہے۔۔ یہاں مجھے کوئی منہ نہیں لگاتا پر تم جانتی ہو تو۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔۔ ایمان اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”مجھے تم پر بالکل بھروسہ نہیں۔۔ اور ہاں میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔۔“ وہ فٹ فٹا اپنا بیگ سمیٹتے بولی۔ صاف ظاہر تھا وہ اسے کافی تو کیا پانی پلانے کو بھی تیار نہیں تھی۔
”دیکھو۔۔ اتنی تیز بارش میں کسی بھوکے پیاسے کو کھانا کھلانا اچھی بات ہے۔۔ میں تمہیں کل صبح پیسے واپس کردوں گا۔۔ بس ابھی صرف مجھے ایک کافی چاہیے۔۔“
“تو تم کسی اور سے مانگ لو۔۔“ وہ جھٹکے سے اٹھی۔
”تمہاری طرح یہاں کوئی بھی مجھ پر بھروسہ نہیں کرتا۔۔“ وہ بھی کھڑا ہوا۔۔ پر اسکے سامنے ایمان کو اپنا وجود چھوٹا سا لگا۔
”تم اتنے بڑے ہو کر مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو۔۔“
”ادھار۔۔۔“ اس نے تصحیح کی۔ ”صبح واپس کردوں گا۔۔“ وہ بضد تھا۔۔۔ایمان سمجھ گئی تھی وہ جانے والا نہیں تھا۔ اس نے آس پاس اسٹوڈنٹس کو دیکھا۔۔ تقریباً سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔اسے عجیب لگا۔۔۔اسکی نگاہوں کے تعاقب میں عبدل نے نظریں گھمائیں تو سب کی گردنیں سیدھی ہوگئیں۔۔۔سب اپنے کام میں یوں مگن ہوگئے جیسے وہ وہاں ہوں ہی نا۔۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“ وہ بیگ کندھے پر لٹکاتی آگے بڑھی۔ عبدل نے سکون کا سانس لیا۔۔ ایمان نہیں جانتی تھی وہ بس اسے اپنے دوستوں کی شرارت سے بچانا چاہتا تھا۔
اور عبدل نہیں جانتا تھا وہ ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔ وہ اسے بس اپنی سی لگتی تھی۔۔
وہ دونوں آگے پیچھے لائبریری سے باہر نکل گئے۔۔۔
عبدل کے باہر نکلتے ہی لائبریری میں عجیب سا شور مچ گیا۔۔
”او مائے گاڈ۔۔۔ تم نے دیکھا۔۔ کیا وہ عبدل ہی تھا“
”عبدل۔۔۔ عبدل یہاں آیا تھا۔۔“
”وہ اس لڑکی سے کیا بات کر رہا تھا۔۔“
”وہ منحوس بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔“
اور تبھی عبدل نے دروازے کے باہر سے پیچھے کی جانب جھک کر لائبریری میں جھانکا۔۔ اسکا صرف چہرہ نظر آیا۔۔ اور پھر سے خاموشی چھا گئی۔
عبدل نے دو انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا اور پھر ان سب کی جانب۔۔۔
واضح تھا کہ وہ ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔
اور پھر وہ غائب ہوگیا۔۔
”اگر تم نے میرے ساتھ کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔۔“ ایمان نے جھٹکے سے پلٹتے ہوئے اپنا داہنا ہاتھ اٹھا کر اسے انگلی سے وارننگ دی۔۔ یقیناً اسے بنا بلایا مہمان پسند نہیں آیا تھا۔۔ اسکا چہرہ غضبناک تھا۔۔
”بالکل بھی نہیں۔۔“ عبدل نے دونوں ہاتھ اٹھا کر صفائی پیش کی۔
اور پھر وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔ راہداری میں ایمان کے پیچھے چلتے ہوئے اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکان تھی۔
itni kam😒
ReplyDelete